الخميس، 21 نوفمبر 2024

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

 

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

د/ اجمل منظور المدنی
وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمین نے خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت تک کے لیے مبعوث کیا ہے تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو براہ راست پر لائیں اور اسے شرک و بدعت کی کھائی سے نکال کر توحید کی روشن راہ پر گامزن کریں۔
سو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو دعوتی مشن سونپا گیا تھا اسے آپ نے اپنی تیئس سالہ نبوی زندگی میں پایہ تکمیل تک پہنچایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ) ترجمہ : اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔ (-المائدة:67)۔
حتی کہ زندگی کے آخری وقت میں حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں موجود ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام سے اسی دعوت دین اور اسکی تبلیغ کی شہادت لی نیز دوسروں تک اسے پہونچانے کا وعدہ بھی لیا اور سب نے یک زبان ہو کر اس بات کا اقرار کیا کہ آپ نے دین کو پورا پورا پہونچا دیا ہے اور ہم بھی دوسروں تک اسے اسی طرح پہنچائیں گے جس طرح ہم نے آپ سے اسے حاصل کیا ہے۔
لیکن جب ہم تحریکیوں کی فکر ودعوت کا مطالعہ کرتے ہیں تو بالکل اسکے برعکس پاتے ہیں، یعنی یہ انبیاء کے اس اصل دعوتی مشن کو تحریک وانقلاب اور حصول اقتدار میں بدل کر پیش کرتے ہیں، اسکے لئے انہوں نے ایک طرف کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کے اندر تحریف کرکے اسے الوہیت سے حاکمیت کا معنی پہنایا اور اسی حاکمیت کو انبیاء کا اصل مشن بتا دیا
تو دوسری طرف دین کے احکام وفرائض کو ٹریننگ کورس کہہ کر عوام کی نظر میں انکی وقعت گھٹا دی تاکہ انہیں اقامت دین کے نام پر اپنے مزعومہ نصب العین قیام اقتدار کیلئے اکٹھا کرسکیں۔ اسکے لئے ضرورت تھی دعوت اتحاد کی، سو انہوں نے اپنے اس مزعومہ مقصد کو پورا کرنے کیلئے دین کے اہم فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو بھی پس پشت ڈال دیا؛ کیونکہ تمام فرقوں کو اکٹھا کرنے میں یہ بہت بڑی رکاوٹ تھی۔
اس طرح دین کے نام پر حصول اقتدار کیلئے انہوں نے عوام وخواص ہر ایک کے اندر طرح طرح کے جراثیم پھیلائے جن سے بھاری اکثریت متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی بالخصوص سلفی نوجوان، اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ ان تحریکیوں کے ان جراثیم کو ایکسپوز کیا جائے تاکہ آج کا نوجوان ان داعشی تحریکی جراثیم سے محفوظ رہ سکیں۔
ذیل میں ان جراثیم کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جا رہا ہے :

1- عقیدہ توحید کی اہمیت کو کم کرنا اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا:
چنانچہ یہ عقیدہ توحید سے لوگوں کو متنفر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ تم نے عقیدے کی پیچیدگیوں میں لوگوں کو پھنسا کر اصل مقصد سے دور کردیا ہے، جبکہ یہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے، زندگی بھر انہوں نے لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دی ہے، نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک اسی عقیدے کی طرف لوگوں کو بلایا۔ تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو توحید الوہیت اور اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے۔
  مگر ان لوگوں نے اس عقیدے سے لوگوں کو بھٹکانے کیلئے مختلف طریقے اختیار کئے ہیں جن میں سب سے بڑا ابلیسی ہتھکنڈا یہ اپنایا کہ توحید الوہیت اور عقیدہ توحید کا معنی ہی بدل دیا، چنانچہ اسے توحید حاکمیت کا معنی دے دیا۔ اور بدترین جراءت کا مظاہرہ کرکے یہاں تک کہہ دیا کہ انبیاء کو اسی توحید حاکمیت کیلئے بھیجا گیا تھا مگر اس کے قیام میں اکثر ناکام رہے، چند انبیاء ہی کامیاب ہوسکے نعوذ باللہ من ھذا الخزلان والھذیان، ان میں سلیمان اور داود علیہما السلام ہیں اور آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
چنانچہ یہ لوگ سب سے پہلے اسی عقیدہ توحید میں لوگوں کو بھٹکاتے ہیں اور اس سے متنفر کرتے ہیں، ان علماء سے نوجوانوں کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس فن میں مشہور اور متخصص ہیں۔

2- علماء پر طعن وتشنیع کرنا اور انکی عیب جوئی کرنا اور انہیں برے القابات سے نوازنا:
    چنانچہ یہ علماء کو مختلف طریقوں سے بدنام کرتے ہیں، ان پر تہمتیں اور الزامات لگاتے ہیں، ان پر طعن وتشنیع اور انکی عیب جوئی کرتے ہیں، اس سے انکا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ نوجوانان امت ان ربانی علماء سے دور ہوجائیں، یہ ان ربانی علماء کو بدنام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ شاہی مہمان بن کر درباروں میں عیش کے ساتھ رہتے ہیں، کبھی درباری ملا کہہ کر بدنام کرتے ہیں کبھی بوٹ لیچر کہتے ہیں، کبھی انہیں حیض ونفاس کا مولوی کہتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ وہی بولتے ہیں جو انہیں حکم ہوتا ہے، انہیں کچھ بھی اختیار نہیں ہوتا۔
اور متبادل میں اپنے منحرف مفکرین کو علماء حق کے طور پر پیش کرتے ہیں، جن کے تعلق سے یہ مشہور کرتے ہیں کہ اہل حق علماء کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے، اہل حق علماء سرحدوں پر جہاد کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

3- حکام سے لوگوں کو متنفر کرنا اور ان پر طعن وتشنیع کرنا:
       چنانچہ یہ حکام کی عیب جوئی کرتے ہیں اور انکی قانونی حیثیت پر طعن وتشنیع کرتے ہیں، اگر کوئی عالم اس تعلق سے شرعی احکام بیان کرتا ہے، حکام کی سمع وطاعت کے دلائل پیش کرتا ہے تو یہ اسے حاکم پرست اور درباری ملا کہہ کر بدنام کرتے ہیں، اس طرح یہ دونوں جانب سے نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں، ایک طرف حکام سے اور دوسری طرف علماء سے متنفر کرتے ہیں، جب کہ یہی لوگ دوہرا معیار اپناتے ہوئے دوسری طرف اپنے پیر و مرشد اور اپنی جماعتوں کے اماموں اور سرغنوں سے بیعت کرتے ہیں اور بلا کسی شرط کے انکی سمع وطاعت اور اندھی تقلید کرتے ہیں۔
حکام سے انکی نفرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یہ انہیں طاغوت کہہ کر پکارتے ہیں، چنانچہ انکا مرشد یا ان کا کوئی سرغنہ اور مفکرجب طاغوت کہتا ہے تو ان کا ذہن فورا مسلم حکمرانوں کی طرف جاتا ہے۔ اس قدر ان جماعتوں نے نوجوانوں کو اپنے گمراہ کن لٹریچر سے گمراہ کر رکھا ہے کہ یہ مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں سوائے طاغوت کے کچھ نہیں کہتے۔ یہ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ان حکام کو مختلف طریقوں سے بدنام کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں کے ایجنٹ ہیں کبھی کہتے ہیں کہ یہ کفار کی اطاعت کرتے ہیں۔

اسی طرح غیر شرعی حکومت کرنے والے حاکم کی تکفیر کرنے کا مسئلہ ہے کہ یہ مطلق طور پر اسکی تکفیر کر دیتے ہیں۔ اسکی کوئی تفصیل نہیں بتاتے جبکہ یہ دھوکہ ہے اور اہل سنت والجماعہ کے منہج کے خلاف ہے، کیونکہ اس مسئلے میں تفصیل ہے مطلق طور پر ان تمام حکام کی تکفیر نہیں کرسکتے جو غیر شرعی حکومت کرتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی وضعی قوانین کو شریعت کے مقابلے میں بہتر سمجھ کر یا اسکے جواز کا عقیدہ رکھ کر حکومت کرتا ہے تو اسکے کفر میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اگر وہ شریعت پر اعتقاد رکھتا ہے اسی کو بہتر سمجھتا ہے لیکن کسی مجبوری میں یا ایمان کی کمزوری میں یا ظالمانہ طور پر ایسا کرتا ہے تو اسکی تکفیر نہیں کی جائے گی، یقینا یہ جرم ہے اور گناہ کبیرہ ہے مگر ایسا کفر نہیں ہے کہ دین اسلام کے دائرے سے اسکی وجہ سے نکل جائے، اسی کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کفر دون کفر کہا ہے۔

4- حکومت کی طاقت، فوج اور سیکورٹی فورسز کو مشکوک بنا کر پیش کرنا:
چنانچہ یہ حکومت کے تمام محکموں بالخصوص فوجی اور پولیس محکموں کو بدنام کرتے ہیں تاکہ عوام بالخصوص نوجوانوں کا اعتماد حکومت سے ختم ہوجائے۔ یہاں تک کہ یہ لوگ حکومتی اداروں اور سیکورٹی فورسز کو اجنبی ملکوں کا ایجنٹ کہتے ہیں اور عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ سب ہمارے خلاف جاسوسی کرتے ہیں۔

5- سلف کے منہج اور طریقے پر طعن وتشنیع کرنا:
چنانچہ یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان صحابہ کے منہج پر قائم رہیں، سلف کے طریقے کو اپنائیں۔ اسی لئے یہ منہج وعقیدہ پر بات کرنے والوں پر طعن وتشنیع کرتے ہیں ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں تاکہ وہ عقیدہ اور منہج پر بات کرنا چھوڑ دیں؛ کیونکہ یہ انکے مزعومہ اتحاد بین المذاہب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

6- تکفیری ذہن سازی کرنا، چنانچہ اپنے مخالف مسلم حکام کیلئے طاغوت، مخالف علماء کیلئے درباری ملا اور مخالف عوام کیلئے فرقہ پرست اور فروعی مسائل میں الجھا ہوا جیسے القاب استعمال کرتے ہیں..
تکفیری ذہن سازی کیلئے یہ عموما متشابہ نصوص کا استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ اللہ کا یہ قول :(ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون) اور اس سے یہ مطلق طور پر ہر اس حاکم کو کافر گردانتے ہیں جو وضعی قوانین نافذ کرتا ہے، حالانکہ سلف کے یہاں اس میں تفصیل ہے۔ مگر ان تحریکیوں کی دوغلا پنی دیکھیں کہ یہ ایسے نصوص کو اپنے مخالفین کیلئے استعمال کرکے عوام کے بیچ انہیں بدنام کرتے ہیں مگر اپنے محبوب حکام کو ان سے مستثنیٰ کردیتے ہیں بلکہ یہ خود جمہوریت کے وضعی دستور پر یقین رکھتے ہیں۔

7- اقامت دین کی غلط تشریح :
ایمان واسلام کے ارکان اور دین کے اہم فرائض کو فروعی مسائل اور تربیتی کورس کا نام دیکر انکی اہمیت کم کرتے ہیں اور اقامت دین کی غلط تشریح کرکے حکومت واقتدار کو سب سے بڑا فرض اور واجب قرار دیتے ہیں حالانکہ اقامت دین سے مراد دین کے احکامات وفرائض کی پابندی کرنا ہے اور حکومت واقتدار محض ایک نعمت ہے، نہ کہ مطلوب ومقصد، تمام انبیاء کو دعوت دین کیلئے مبعوث کیا گیا تھا نہ کہ حصول اقتدار کیلئے...
چنانچہ آپ اہل سنت کے برعکس تحریکیوں کو دیکھیں گے کہ وہ اہل شبہات پر خاموش رہتے ہیں جبکہ اہل شہوات پر سارا زور صرف کردیتے ہیں، اگر کسی نوجوان کو معاصی کرتے دیکھ لیں گے تو اس پر حد درجہ سختی برتیں گے اس پر لعن طعن کریں گے، مگر وہ اہل بدعت پر کوئی نکیر نہیں کریں گے

8- نوجوانوں کے اندر لبرلزم اور آزاد خیالی کا رجحان عام کرنا:
چنانچہ حکومت واقتدار کو اصل ٹارگٹ ماننے کی وجہ سے یہ لوگوں کے اندر دنیا داری، دین بیزاری، آزاد خیالی پیدا کرتے ہیں، دینی علوم سے زیادہ انکے یہاں عصری علوم کی قدر ہے، یہ چیز آپ سید مودودی اور حسن بنا سے لیکر ان کے حالیہ مرشدین ومفکرین ومنظرین تک کے یہاں یہی حالت پائیں گے... سید مودودی نے اپنی ساری اولاد کو عصری تعلیم دلائی، دینی علوم سے بے بہرہ رکھا، یہاں تک کہ ایک لڑکا ملحد ہوگیا، انکے دوسرے مرشد میاں طفیل اور تیسرے مرشد قاضی حسین احمد کے بارے میں یہی پائیں گے جس طرح کہ اخوانی مرشدین ومفکرین کا بھی یہی حال ہے خواہ وہ حسن بنا اور حسن ہضیبی ہوں یا عمر تلمسانی اور دیگر مفکرین ہوں۔

9- جمہوریت کو اسلامائز کرنا:
چونکہ ان کے یہاں اصل ٹارگٹ حصول اقتدار ہے؛ اسی لئے انکے یہاں جمہوریت کی بڑی اہمیت ہے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت ہی اقامت دین کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اور چونکہ ملوکیت انکے لئے خطرہ ہے اسی لئے یہ اسکی جم کر مذمت کرتے ہیں بلکہ اسے حرام تک سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام میں شورائی خلافت اور ملوکیت کے سوا کوئی تیسرا نظام حکمرانی ہے ہی نہیں، جمہوریت تو یہودیوں کا بنایا ہوا نظام ہے.

10- اہل سنت کے اندر رافضیت کا زہر پھیلانا:
چونکہ اخوانیوں اور تحریکیوں کے مرشدوں کا خمینی اور اسکے ساتھیوں سے گہرا تعلق تھا اور دونوں کی فکر اور طریقہ تنفیذ میں یکسانیت تھی؛ اسی لئے یہ خاموشی سے رافضیت کو عام کرتے ہیں، اور اسکی سب سے بڑی نشانی انکی بنو امیہ سے دشمنی ہے، حتی کہ اموی صحابہ تک پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی..

11- تشکیک وانکار کے جراثیم :
سید مودودی ہوں یا کوئی دوسرا تحریکی، چونکہ انکے یہاں عقیدے، اصول اور منہج کی پختگی نہیں ہوتی بلکہ منطق وفلسفہ پڑھ کر دین کی تشریح کرنے لگتے ہیں۔ یہی سبب ہیکہ یہ اپنی دو چھٹانک بھیجے کا استعمال کرکے درایت کے نام پر کبھی احادیث کا انکار کرتے ہیں ، کبھی دینی مسلمات کا انکار تو کبھی ان میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔

12- صحابہ پر طعن وتشنیع کے جراثیم:
رافضیت دوستی کے نتیجے میں صحابہ کرام تک پر انہوں نے طعن وتشنیع کر ڈالا، صحابہ کے دفاع میں مایہ ناز کتابیں تالیف کرنے والے مشہور محققین علماء دین شیخ الاسلام ابن تیمیہ، قاضی ابو بکر ابن العربی اور شاہ اسماعیل شہید کو وکیل صفائی کہہ کر سید مودودی نے انہیں غلط ٹہرا کر خود روافض کی جھوٹی روایتوں پر بھروسہ کرکے صحابہ کرام پر چارج شیٹ تیار کردیا اور اسے غیر جانبداری کا نام دیا اور ایران میں آیت اللہ کا خطاب حاصل کیا۔
صلح کی خاطر بصرہ کیلئے ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکلنے پر انہیں طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا مگر دوسری طرف فاطمہ جناح کو ملک کی سربراہی کیلئے ووٹ دے دیا۔

13- لٹریچر بازی کے جراثیم:
انکے یہاں سب کچھ فکر مودودی فکر فراہی اور فکر اخوانی ہے جس کے نام پر عقل پرستی اور ہوائے نفس پر مبنی لٹریچر کا ایک ملغوبہ ہے جس میں بے راہ روی، عقیدے میں انحراف، صحابہ پر طعن وتشنیع ، دینی مسلمات میں تشکیک وانکار اور حکومت الہیہ کے نام پر اقتدار کے جھوٹے خواب بھرے ہوئے ہیں، کتاب وسنت پر مبنی خالص دینی علوم ومعارف سے خالی ہوتے ہیں، یہ لوگوں کو انہیں کتابوں سے جوڑ کر رکھتے ہیں، دوسروں کی کتابوں سے دور رکھتے ہیں بلکہ ان سے متنفر کرتے ہیں۔ اس طرح ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد منحرف تحریکی لٹریچر میں پھنس کر رہ گئی ہے۔

14- سیاسی اور عالمی المناک واقعات کا استغلال کرنا نیز امت کے اہم ایشوز کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنا:
دنیا میں امت مسلمہ کے خلاف کہیں بھی کوئی حادثہ ہوگا اسے یہ فورا اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیں گے، ایسے موقع پر یہ جذباتی تقریریں کرتے ہیں اور لوگوں کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں، امت تڑپ رہی ہے، امت زخموں سے چور چور ہے مگر ہم عیش مستی میں ڈوبے ہوئے ہیں، عالم اسلام کے حکام گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔ اس میں یہ سب سے زیادہ فلسطین ایشو کو بھناتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا دل طہران کہ طرف ہوتا ہے۔ بیت المقدس سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہے، یہ صرف امت مسلمہ کو گمراہ کرتے ہیں۔
ایسے کربناک موقعوں پر سب سے زیادہ یہ مسلم حکام کو بدنام کرنے اور انکے خلاف عوام کو بھڑکانے کیلئے بے روزگاری، اہم اسلامی قضیوں، منکرات اور برائیوں اور دیگر امور کو استعمال کرتے ہیں۔

15- میڈیا کا استغلال کرنا:
   چنانچہ یہ لوگ میڈیا کے تمام ذرائع کا استعمال کرتے ہیں، فیس بک ہو یا ٹیوٹر، ویب سائیٹ ہو واٹساپ، ٹی وی چینلز ہوں یا ریڈیو اسٹیشن، اخبارات ہوں یا میگزین سب کا یہ زبردست استعمال کرتے ہیں اور اپنے باطل افکار و نظریات کو انہیں کے ذریعے پھیلاتے ہیں اور نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں، اور گمراہ کرتے ہیں، مسلم حکمرانوں اور علمائے ربانیین کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلاتے ہیں۔
مگر اس وقت انکے باطل افکار و نظریات کو اسی میڈیا سے انہیں ایکسپوز کیا جا رہا ہے اور اسے اچھے مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے، مگر چونکہ میڈیا پر انکا اور انکے آقاؤں کا اکثر قبضہ ہے اسلئے انکی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں تک حق بات نہ پہونچنے پائے، اس کے لئے یہ مختلف طریقے استعمال کرکے حق بات کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔

16- نوجوانوں کو سماج سے الگ تھلگ کرنا:
   یہ اسے فکری گوشہ نشینی کا نام دیتے ہیں، کہ اپنے پیروکاروں کو حکام اور سماج سب سے فکری طور پر کٹ کر رہنے کی ہدایت کرتے ہیں، یہ جسمانی طور پر اسی سماج میں رہتے ہیں مگر فکری اور ذہنی طور پر سب سے الگ رہتے ہیں، یہ حکومت اور اسکے تابع سماج کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں؛چنانچہ یہ کبھی تو وطنیت کو بت کہتے ہیں اور کبھی شرک۔ اسی لئے یہ خود کو وطن سے منسوب نہیں کرتے۔ یہ صرف امت کا لفظ استعمال کرتے ہیں مگر امت کا حقیقی مفہوم اپنے پیروکاروں کو نہیں بتاتے کہ امت کے قائدین اور حکام بھی ہوتے ہیں، امت کا وطن اور ملک بھی ہوتا ہے، ہوا میں امت قائم نہیں ہوسکتی، بلکہ اسکی زمینی حقیقت بھی ہے۔
   اور چونکہ یہ قوم و وطن کو مانتے نہیں اور انکے اندر وطن اور قوم سے محبت نہیں ہوتی ہے اسی لئے یہ نوجوانوں کے قلوب واذہان کے اندر داعشی تخریبی فکر انڈیلتے ہیں جو ملک کے اندر بم دھماکہ کرتے ہیں، تخریب کاری کرتے ہیں اور فتنہ وفساد مچاتے ہیں۔ جیسا کہ خوارج کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہل کفر کو چھوڑ دیتے ہیں۔
اور اسی لئے جب ملک کے اندر تباہی آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں اور جب خوشحالی آتی ہے تو یہ غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ قاتلھم اللہ انی یوفکون۔

17- اپنے فساد کو جہاد کے نام پر پروموٹ کرتے ہیں :
چنانچہ جہاں تک جہاد کے وجوب کا مسئلہ ہے کہ یہ خارجی جماعتیں اسے مطلق طور پر فرض عین سمجھتی ہیں اور ہر ایک پر واجب کرتی ہیں جیسا کہ عبد اللہ عزام، سلیمان علوان وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اسے ثابت کیا ہے، جب کہ جہاد کے کچھ شرائط، ضوابط اور احکام ہیں، انکے پورا ہوئے بغیر جہاد نہیں ہے۔ سب سے بڑا ضابطہ طاقت اور کمزوری کا ہے۔
اسکے کیلئے یہ مختلف طریقوں کا استعمال کرتے ہیں جیسے کہ یہ نوجوانوں کو جہادی گیت کے ذریعے انکے جذبات کو بھڑکاتے ہیں ، یہ جہادی گیت بہت ہی خطرناک ہوتی ہیں، ایک جہادی گیت کبھی کبھی ہزاروں لیکچرز پر بھاری ہوتی ہے۔ ایک نوجوان کبھی ایک جہادی گیت کو سن کر اپنی کمر میں خود کش بم باندھ کر جنگ زدہ علاقوں میں کود جاتا ہے اور اپنی جان گنوا کر خود کشی جیسے گناہ عظیم کا مرتکب ہوتا ہے۔

18- تاریخی قصوں، ناولوں اور دستاویزی فلموں کا استعمال:
اسی طرح یہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کیلئے تاریخی قصوں اور ناولوں کو استعمال کرتے ہیں، بطور خاص ان میں جو انقلابی قسم کی ناولیں ہوتی ہیں انکا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ انقلاب اور بغاوت کیسے پیدا کئے جاتے ہیں، ایسی ناولوں کو یہ خوب مرچ مسالوں کے ساتھ نستعلیقی اسلوب میں لکھتے ہیں کہ نوجوان جب اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو دو تین سو صفحات کی یہ ناول بغیر ختم کئے دم نہیں لیتا ہے۔
بعض ناولیں ایسی ہیں جنہیں یہ ادب السجون کے نام سے جانتے ہیں، اس میں کچھ من گھڑت واقعے ہوتے ہیں اور کچھ حقیقی ہوتے ہیں مگر اضافات کے ساتھ مزید نمک مرچ لگا کر اسے بیان کرتے ہیں۔ جس میں قید و بند کی جعلی صعوبتوں اور من گھڑت سزاؤں کا ذکر ہوتا ہے۔ جسے قاری پڑھ کر جب ختم کرتا ہے تو ملک اور حکام کے خلاف دشمن بن جاتا ہے۔ اس طرح یہ ناول اس قدر اثر انداز ہوتی ہے کہ دسیوں لیکچرز بھی وہ اثر نہیں ڈال سکتے ہیں۔
اسی طرح دستاویزی فلمیں ہیں جنہیں یہ خروج و بغاوت کیلئے استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ گاندھی، نیلسن مینڈیلا اور ابرہم لنکن وغیرہ پر بنی فلمیں، جنہوں نے سامراجوں سے اپنے ملک کو آزاد کرایا تھا، اسی طرح یہ خود کو سمجھتے ہیں اور مسلم حکام کو سامراج مانتے ہیں۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایک دن یہ بھی بغاوت اور انقلاب کے ذریعے حکومت حاصل کریں گے اور ملک کے مختلف عہدوں اور مناصب پر قبضہ کریں گے۔

19- جھوٹ، افواہ اور پروپیگنڈا عام کرنا: اب سب سے ان کا مقصد اپنے مخالف کو بدنام کرنا اور اپنے مذموم مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ ان میں سب سے اہم مقصد لوگوں کو اپنی تنظیم اور اپنے مرشدین ومفکرین سے جوڑنا ہوتا ہے۔
  چنانچہ انکی کوشش ہوتی ہے کہ یہ نوجوانوں کو اپنے مرشدین کی اندھی تقلید کرنے پر قائل کرلیں، یہاں تک کہ نوجوان ان کے مرید اور اندھے مطیع بن جاتے ہیں، اپنے گھر اور قوم وملت سے بیگانہ ہوجاتے ہیں، والدین کی نافرمانی کرتے ہیں، بعض نے تو اسی اندھاپنی میں
اپنے والدین تک کو قتل کردیا ہے۔

20- پیچھے پڑنا، راز چھپانا اور تقیہ کا استعمال کرنا:
    یہ دوسروں کے ٹوہ میں پڑتے ہیں، ان کے حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اپنے کاموں کو چھپاتے ہیں، اپنے تمام امور کو صیغہ راز میں رکھتے ہیں۔
تقیہ جھوٹ بولنے اور سچ چھپانے کو کہتے ہیں، چنانچہ یہ صریح جھوٹ بولتے ہیں اور تقیہ بازی میں یہ روافض سے بھی آگے ہیں۔
اس سے یہ دو مقاصد حاصل کرتے ہیں :
الف- جاہ ومنصب اور اہل ثروت کے بچوں کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کرنا تاکہ انکی تربیت کرکے قوم کے اونچے طبقے پر اپنا قبضہ قائم کرسکیں۔
ب- منبر ومحراب پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا: یہ منبر ومحراب کے ذریعے اور اسی طرح دیگر سرکاری وغیر سرکاری اسٹیجوں کے ذریعے اپنے باطل افکار کو پھیلاتے ہیں۔

21- نصاب تعلیم کو تحریکی لٹریچر میں تبدیل کرنا:
  چنانچہ یہ عام دینی کتابوں کے مد مقابل فکری کتابوں کو پڑھاتے ہیں، اور بطور خاص فکری، تحریکی، فقہ الحرکہ، جہادی اور فقہ الواقع اور ان جیسے دوسرے ناموں سے نوجوانوں کو بہلاتے ہیں اور دین کی صحیح تعلیمات سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  اسی طرح یہ نسوانی پرچے اور میگزین نکالتے ہیں اور خواتین کے اندر انہیں پرچوں کے ذریعے اپنے باطل افکار کو پھیلاتے ہیں۔

22- ڈراموں، دستاویزی فلموں اور کارٹونوں کا استعمال کرنا:
یہ اپنے مذموم باغیانہ مقاصد کے حصول کی خاطر ڈرامے، دستاویزی فلمیں اور بچوں کے لیے کارٹون بھی بناتے ہیں، آپ سوچیں کہ ان کے مذموم مقاصد سے ہمارے چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں، یہ انقلاب و بغاوت کو کارٹون کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور انہیں ٹی وی چینلوں پر دکھاتے ہیں جنہیں یہ اسلامی چینل کہتے ہیں، ان فلموں اور کارٹونون کو یہ جانوروں کی شکل میں بھی دکھاتے ہیں، اس کے ساتھ بیک گراؤنڈ میں جوشیلے اور انقلابی گیت بھی پیش کر دیتے ہیں، ایسے ڈراموں، فلموں اور کارٹونون سے انکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بغاوت اور انقلاب کہیں بھی واقع ہو وہاں کے بچے بچپن ہی سے ذہنی طور پر اسکے لئے تیار رہیں۔

اللہ ہمیں تحریکیت، حزبیت، شخصیت پرستی نیز جمود وتعصب سے دور رکھے۔ کتاب وسنت اور منہج سلف کا پیروکار بنائے۔ حقیقت پسند، حق گو اور باطل سے نفرت کرنے والا بنائے۔ دین اسلام کا حقیقی خادم بنائے نیز ریا ونفاق سے بچائے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت دین حق اور توحید کی سربلندی عطا کرے نیز شرک وکفر اور بدعت وتقلید کی لعنتوں نیز تحریکی جراثیم سے عالم اسلام کو پاک کرے۔ آمین
اللہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل، واجعلنا خادماً للإسلام والمسلمین۔آمین



الثلاثاء، 29 أكتوبر 2024

تحریک اہل حدیث کی تنزلی کے اسباب اور علاج

تحریک اہل حدیث کی تنزلی کے اسباب اور علاج


بقلم : د/ اجمل منظور المدنی 


یہ تحریک ایمان وعمل، منہج وعقیدہ اور فقہ وفتاوی نیز جدید پیش آنے والے سنگین مسائل ونوازل ہر ایک میں اصلاح کی تحریک ہے کہ جس کا آغاز صحابہ کے دور ہی سے ہوچکا تھا کہ جیسے جیسے لوگوں کے اندر ایمان وعمل، عقیدہ و منہج حتی کہ فقہ و فتاوی میں انحراف اور خامیاں پیدا ہوتی گئیں صحابہ تابعین اور تبع تابعین نے کھل کر ان پر نکیر کی اور لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی۔

اگر ایک طرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے خوارج کے انحراف پر نکیر کرکے لوگوں کی اصلاح کی تو دوسری طرف ابن عمر رضی اللہ عنہما نے منکرین تقدیر پر نکیر کر کے لوگوں کی اصلاح کی۔

دوسری صدی ہجری کے آغاز ہی میں جب کتاب و سنت کے نصوص سے لاپرواہی سامنے آئی اور لوگوں نے عقل و رائے کا استعمال کثرت سے کرنا شروع کیا تو اس وقت محدثین کرام کی جماعت نے آگے بڑھ کر اس پر نکیر کی اور نصوص کتاب وسنت اور آثار صحابہ کا کثرت سے استعمال کر کے کتاب اللہ، سنت رسول اور فہم صحابہ کی روشنی میں لوگوں کی اصلاح کی اور اسی وجہ سے اس تحریک سے جڑے لوگوں کو اصحاب الحدیث اور مخالفین کو اہل الرائے کہا گیا۔ 

تیسری صدی کے آغاز میں فلسفہ ومنطق اور علم الکلام وعقلیات کے عروج کے وقت جب عقل پرست جہمیہ اور معتزلہ کا عروج ہوا اور مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی تو امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے امت نے کھل کر لوگوں کی اصلاح کی خاطر اس پر نکیر کی اور فہم صحابہ کی روشنی میں کتاب وسنت کا درس دیا۔

چھٹی اور ساتویں صدی ہجری میں جب عقدی، فقہی اور ذہنی جمود کی وجہ سے تقلید و تصوف اور فلسفہ وعلم الکلام کا بھیانک سایہ مسلمانوں پر چھا گیا تو اس دبیز سائے کو ہٹانے کے لیے میدان اصلاح میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنا قدم جمایا اور ہر میدان میں اصلاح کی ایک تحریک پیدا کر دی اور اپنے پیچھے سچے اور مخلص شاگردوں کی ایک بڑی جماعت چھوڑ دی جو دنیا کے مختلف خطوں میں اس تحریک کو لے کر پھیل گئے۔

اور ماضی قریب میں جبکہ مسلمانوں کے سیاسی اور فکری زوال کی وجہ سے مغربی اقوام کا تسلط قائم ہوا اور مسلمان فکر و عقیدہ اور ایمان و عمل بلکہ ہر میدان میں کوتاہی کا شکار ہوئے تو دنیا کے مختلف خطوں میں اصلاحی تحریکیں پیدا ہوئیں جن میں اگر ایک طرف نجد وحجاز کے علاقے میں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے ہاتھوں اس تحریک کی تجدید ہوئی تو دوسری طرف مصر وسوڈان اور لیبیا وجزائر کے اندر ابن بادیس، محمد حامد الفقی اور عبد الرزاق عفیفی جیسے سلفی جیالوں کے ہاتھوں انصار السنہ المحمدیہ کے نام سے اس تحریک کی تجدید ہوئی۔

اور تیسری طرف بر صغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، نواب صدیق حسن خان بھوپالی جیسے غیور اہل حدیثوں کے ہاتھوں اس تحریک کی تجدید ہوئی جسے سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا داؤد راز دہلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی جیسے غیور اہل حدیثوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ 

اس کے بعد برصغیر کے اندر باقاعدہ اس تحریک کو ہر میدان میں متحرک کرنے کے لیے ایک جمیعت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذریعے یہ قافلہ آج تک رواں دواں ہے۔

یہ تحریک جس ایمان و عمل اور عقیدہ و منہج کی اصلاح کو لے کر اٹھی تھی آج بھی وہ اپنے اسی اصول پر قائم اور باقی ہے مگر آج جن اصلاحی کاموں اور وسیع تر وسائل اور طریقوں کی ضرورت ہے اور جس بڑے پیمانے پر کام کرنے کی حاجت ہے ان میں ہم پیچھے ہیں بلکہ تنزلی کا شکار ہیں، ذیل میں ہم اسی قسم تنزلی کے چند اہم اسباب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

1-جمود وتعطل:

زندہ اور باشعور سماج کے لوگ ہمیشہ علمی بحث و مباحثوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، علمی، ثقافتی اور سماجی حرکت نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے جمود کا شکار ہوکر زنگ آلود ہو جاتے ہیں، 

جمود زدہ زندگی اور ایسی زندگی جس میں کچھ کرنے کی، آگے بڑھنے کی چاہ نہ ہو اُسے مفلوج زندگی کہتے ہیں، ایسی زندگی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ چونکہ رواں دواں زندگی اور ایک کامیاب زندگی کے لئے رفتار ضروری ہے اس لیے تحریک اہل حدیث کے اندر رفتار اور تیزی لانے کیلئے ہمیں اس جمود وتعطل کو توڑنا ہوگا، اور سعی پیہم نیز جہد مسلسل کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ 


2- عملی کوتاہی

عملی کوتاہی اور غفلت قوم و ملت کی بربادی کا سبب ہے، آج یہ تحریک تقریبا ہر میدان میں عملی کوتاہی اور غفلت کا شکار ہے، نو نہالان امت کی تعلیم و تربیت کا میدان ہو یا دعوتی و تبلیغی پیمانے پر اصلاح عمل کا میدان ہو، سماجی و معاشرتی پیمانے پر نوجوانان ملت کے اندر اخلاقی برائیوں اور خامیوں کی اصلاح کا میدان ہو یا اہل حدیثوں کے درمیان باطل تحریکوں کے اثرات کی وجہ سے عقیدہ و منہج میں انحراف کا میدان ہو، یہ عملی کوتاہی جماعتی اور انفرادی ہر اعتبار سے ہر میدان میں پائی جاتی ہے۔

آج ضرورت ہے کہ ہم عملی کوتاہی اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر اس تحریک کو باطل تحریکوں پر غالب کریں، اور اس مژدہ نبوی کا مستحق ٹھہریں : 

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين) ترجمہ : اس علم کو ہر دور کے قابل اعتماد لوگ آگے لے کر جائینگے، یہ لوگ اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریفات سے، کذابوں کے جھوٹ اور جاہل لوگوں کی غلط تشریحات کو خارج کر دینگے- (صحیح- سنن الکبریٰ بیہقی (209/10)۔ 


3- تنظیم واجتماعیت کا فقدان:

جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے مختلف نت نئے وسائل کو استعمال کرنے میں گلوبلائزیشن کے اس دور میں آفاقی شعور کا میدان ہو یا تنظیمی پیمانے پر افراد جماعت کو جوڑنے اس تحریک کو وسیع کرنے اور احباب جماعت میں موجود علم و شعور کے مالک افراد کا بہتر استعمال کر کے اس تحریک کو غالب کرنے کا میدان ہو ہر جگہ ہمیں تنظیم وتنسیق کا فقدان نظر آتا ہے خواہ یہ جماعتی اعتبار سے ہو یا شخصی اعتبار سے۔ 


4- آپسی اختلاف وانتشار:

ایک طرف اگر فاسد مذاہب اور باطل تحریکوں کے گہرے اثرات کی وجہ سے یہ تحریک منہج و عقیدہ اور فقہ و عمل کے میدان میں انحراف کا شکار ہو کر آپسی اختلاف میں مبتلا ہے، تو دوسری طرف جماعتی اور تنظیمی اعتبار سے اتفاق و اتحاد کو لے کر بڑے پیمانے پر یہ تحریک اختلاف و انتشار کا شکار ہے۔ 

آج ضرورت ہے کہ اہل حدیث ہر دو پیمانے پر منظم طور پر کام کر کے اپنے اندر اصلاح پیدا کریں، نچلی سطح سے لے کر اوپر تک آج ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر باطل تحریکوں کا لقمہ تر بن جائیں۔ 


5- فکری انارکی:

 جماعتی پیمانے پر منظم طور سے کام نہ ہونے اور تحریکی وتنظیمی کوتاہی کا ہی نتیجہ ہے کہ جسکی وجہ سے ہماری جماعت کے اندر بڑے پیمانے پر فکری لٹریچر اور باطل افکار و نظریات کے حاملین کی کتابیں پھیلی ہوئی ہیں حتی کی مدارس و مساجد کے اندر بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے طلبہ اور دیگر نوجوان باطل تحریکوں کا شکار جلد ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف اخلاقی اور منہجی اعتبار سے ہمارے یہاں تربیتی اور ریفریشر پروگراموں کے نہ ہونے یا بڑے ہی محدود انداز میں ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف ہماری جماعت اخلاقی کوتاہیوں کا شکار ہے تو دوسری طرف لبرلزم اور فکری انارکی کی طرف مائل ہیں۔


6- احساس برتری:

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو لوگ اس پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اسے اپنی کاوشوں کا نیتجہ سمجھتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں کے زعم میں وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ دین اسلام ہمیں غرور و تکبر کے مقابلے میں عجز و انکسار اور احساس کمتری کے مقابلے میں عزت نفس کا تصور دیتا ہے۔ دین اسلام ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ 

یقینا اللہ تعالی نے اس جماعت کو توحید و سنت جیسی نعمت سے نوازا ہے، اس پر ہمیں کسی احساس برتری کی نہیں بلکہ حمد و شکر اور تواضع اختیار کرنے نیز اس کی طرف دوسروں کو بھی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔

احساس برتری دراصل احساس فخر کو جنم دیتی ہے، یہ بیماری معاشرے اور تنظیم وتحریک کے لئے ایک ناسور ہے کیونکہ یہ ایک بڑے فساد اور بگاڑ کا سبب ہے اور لوگوں کی دل آزاری کا ذریعہ بھی، ساتھ ہی اس احساس کی وجہ سے عمل واخلاق میں لاپرواہی عام ہے؛ لہذا جس قدر جلد ممکن ہو سکے اسکا تدارک بہت ضروری ہے۔ 


7- مستحکم دعوتی سسٹم کا فقدان:

جمعہ کے خطبات، نمازوں کے بعد دروس اور تربیتی اور دینی اجتماعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے لیکن ہمارے پاس کوئی مضبوط، ٹھوس اور مستحکم دعوتی سسٹم نہیں ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے ان خالص دعوتی نمایاں کارناموں کو ہائی لائٹ کر سکیں جنہیں دیکھ کر دوسرے لو گ بھی متاثر ہوں اور ہمارے قریب آسکیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے ان تمام مخلص کوششوں کو اپنے ہی اندر محدود رکھتے ہیں اور انہیں اگے بڑھانے کے لیے ہمارے پاس کوئی منظم سسٹم نہیں ہے لہذا یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنے ان کاموں کو ہائی لائٹ کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے جماعتی پیمانے پر مستحکم اور منظم دعوتی پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا۔ 


8- لائحہ عمل اور منصوبہ سازی:

اجتماعیت پسند ذہن بنانے اور ملکر کام کرنے کیلئے ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اسے مستحکم لائحہ عمل منصوبہ سازی اور پروگرامنگ کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے، کوئی بھی قوم جب بغیر منصوبہ سازی اور بغیر نصب العین اور ٹارگٹ کے کام کرتی ہے تو وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس لیے آج ہمیں شخصی، ادارہ جاتی اور جماعتی ہر پہلو سے منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تحریک اہل حدیث کو آگے بڑھانے میں یہ مہمیز کا کام کرے۔


9- دعوتی کاز پر ترکیز:

باطل تحریکوں کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ہماری جماعت کے بہت سارے لوگ رفاہی اور انسانی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اسی کو اصل دینی اور دعوتی کاز سمجھنے ہیں، یہ ہماری بہت بڑی بھول ہے، رفاہی اور انسانی کاموں کے لیے ہر جماعت اور ہر قوم وملت میں متمول اور مخیر لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر کام کر رہے ہیں، یہ کوئی دینی و دعوتی اعتبار سے امتیازی کام نہیں ہے، 

تحریک اہل حدیث کا اصل اور نمایاں کام توحید کی دعوت ہے، منہج و عقیدہ کی اصلاح ہے، شرک و بدعت اور تقلید و تصوف پر رد ہے نیز اخلاقی برائیوں پر نکیر ہے۔ 

اس کے ساتھ اگر استطاعت ہے تو رفاہی اور انسانی کام بھی کیا جائے اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتا ہے مگر دوسری تحریکات کی طرح دینی اور دعوتی پیمانے پر اسی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ لہذا آج ضرورت ہے کہ ہم دعوتی کاز کے نام پر اپنے اصل اور بنیادی امور پر ترکیز کریں۔ 


10- فقہ وفتاوی کا مرکزی اہتمام:

احکام شرعیہ کے استنباط کا اصل منبع کتاب اللہ، سنت رسول، آثار صحابہ اور قیاس و اجماع رہے ہیں، عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے۔ 

پیش آمدہ مسائل اور نوازل کو مذکورہ مصادر کی روشنی میں حل کیا جاتا تھا، اور آج بھی الحمدللہ اہل حدیثوں کے یہاں یہی سسٹم قائم ہے مگر اس کے لیے جس طرح منظم انداز میں جماعتی پیمانے پر فقہ و فتاوی کا اہتمام ہونا چاہیے اس طرح دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے، ہاں بعض اداروں اور شخصیتوں کی طرف سے انفرادی کام ضرور ہوا ہے جن کی ہمیں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے مگر منظم طور پر جماعتی پیمانے پر جس طرح یہ کام ہونا چاہیے وہ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری جماعت کے اندر بالخصوص نوجوانوں میں دینی مسائل کے اندر خاص طور سے پیش آمدہ سنگین مسائل اور نوازل میں حیران اور پریشان نظر آتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مسالک اور مذاہب کے فتاووں سے حتی کہ باطل تحریکوں کے جذباتی فتووں اور بیانات سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اپنی جماعت سے بدظن اور مایوس ہو جاتے ہیں۔


11- وفاق المدارس کا عدم وجود 

نصاب تعلیم:

ملک کے تمام مدارس دینیہ کے کاموں کو مربوط بنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا، اُن کے لیے یکساں نصاب تعلیم، امتحانات اور سند کا اجرا، مدارس کے درمیان باہمی ربط وتعاون، جدید عصری تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم کی ترویج واشاعت اور اساتذہ کیلئے تربیت کا انتظام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ 

یہ کام پڑوسی ملک میں منظم طور پر ہو رہا ہے اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہو رہا ہے خواہ بیرون ممالک یونیورسٹیوں میں الحاق کا معاملہ ہو یا اندرون ملک سرکاری سطح پر اور دیگر یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر آگے بڑھنے کا معاملہ ہو طلبہ کو اکثر پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے آج ہمیں ملکی سطح پر ایک تعلیمی وفاق کی ضرورت ہے۔ 


آخر میں عرض یہ ہے کہ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی تمام دینی دعوتی اور منہجی کاموں کو منظم کرکے انہیں مستحکم اور ٹھوس انداز میں جدید وسائل کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کریں، باطل تحریکوں اور لبرل تنظیموں کے پروپیگنڈوں میں آ کر ملکی اور عالمی سیاسی امور نیز انسانی خدمات کو ہی دعوت نہ سمجھ کر دین و دعوت کے جو اہم امور اور مسائل ہیں جیسے توحید و عقیدہ منہج و سنت اور ایمان و اخلاق کی ترویج نیز شرک و بدعت اور بد عقیدگی اور دیگر خرافات پر نکیر کرنا انہیں پر اپنی دعوت کو مرکوز رکھیں۔

ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت کے اعتبار سے جماعتی پیمانے پر وفاق المدارس یا اور کسی بھی دوسرے جامع نام سے اہل حدیث کے تمام مکاتب اور مدارس کو منظم کیا جائے تاکہ ہماری جماعت میں منظم طور پر ایک تعلیمی سسٹم سامنے آئے اور اسے ملکی اور عالمی پیمانے پر ایک نمایاں حیثیت سے ہم پیش کر سکیں۔ 

اسی طرح سب سے زیادہ ہمیں جماعتی پہلو سے متحد اور منظم ہونے کی ضرورت ہے اوپری سطح سے لے کر صوبائی ضلعی اور علاقائی سطح تک سسٹمیٹک اعتبار سے منصوبہ بندی کے ساتھ اور ایک منظم لائحہ عمل کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ تحریک اسلام کے حقیقی چہرے کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے برپا کی گئی ہے اور یہ تحریک ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی یہ عام تحریکوں کی طرح نہیں ہے کہ جیسے ہی ان کی دعوت ختم ہوتی ہے ان کے افراد تنزلی کا شکار ہوتے ہیں وہ تحریک ختم ہو جاتی ہے اور اس دعوت کے ساتھ وہ تحریک مٹ جاتی ہے ایسا بالکل نہیں ہے یہ اسلام کے حقیقی چہرے کو پیش کرنے والی تحریک ہے یہ صحابہ کی تحریک ہے سلف صالحین کی تحریک ہے جنہوں نے اسلام کے چشمہ صافی کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کتاب و سنت پر اٹے گرد و غبار کو ہٹا کر اسے خالص شکل میں لوگوں کے سامنے اجاگر کیا ہے اور یہ قیامت تک تحریک باقی رہے گی کسی مخالفت کرنے والے کی مخالفت تکلیف دینے والے کی تکلیف رسوا کرنے والے کی رسوائی اسے ختم نہیں کر سکے گی نہ اسے روک سکے گی حدیث نبوی بالکل واضح ہے:

عن عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ ".

عمیر بن ہانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے دین کو تھامے رکھے گا، جو ان کو بے یارومددگار چھوڑے گا، یا ان کی مخالفت کرے گا، وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا، حتیٰ کہ اللہ کا حکم آن پہنچے گا اور وہ لوگوں پر غالب ہی ہوں گے۔“ (صحیح مسلم :1037)۔ 


اس لئے ایک بار پھر کہوں گا کہ تحریک اہلحدیث کوئی نئی یا کوئی عام تحریک نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہی تحریک ہے جو عہد نبوی اور عہد صحابہ سے چلی آرہی ہے۔ جس کا شعار کتاب اللہ اور سنت رسول ہے۔ 

اسلام کی ابتدائی تاریخ اور مرور زمانہ کے ساتھ پیدا ہونے والے مکاتب فکر کے افکار ونظریات کا تحقیقی جائزہ لینے پر یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ تحریک اہل حدیث ہی اسلام کا حقیقی پاسباں ہے جسکا کوئی حقیقت پسند اور غیرجانب دار شخص انکار نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ جیسی علمی اور تحقیقی شخصیت نے اپنی دوربینی اور دور اندیشی سے اسی حقیقت کو واشگاف انداز میں کہا تھا کہ:‘‘اہل حدیث کو فرقوں میں وہی حیثیت حاصل ہے جو اسلام کو ملتوں میں’’ (رد المنطق)-

آج ہمیں اسی حقیقت کو کتاب وسنت، آثار سلف اور تاریخی شواہد کی روشنی میں واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حق کے متلاشی کیلئے بھانت بھانت کے فرقوں میں حق کو پہچاننا آسان ہوجائے اور امت اسلام کی صحیح رہنمائی ہوسکے۔

 وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

الاثنين، 28 أكتوبر 2024

علماء کا شخصی ارتقاء ضرورت وافادیت

 علماء کا شخصی ارتقاء، ضرورت وافادیت

د/ اجمل منظور المدنی 

وکیل جامعۃ التوحید بھیونڈی ممبئی 


الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الصادق الامین، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، وبعد! 


1-علماء اور انکا مقام:

سوال یہ ہے کہ حقیقی علماء کون ہیں؟

- حقیقی معنوں میں علماء وہ ہیں کتاب وسنت کا جنہیں زیادہ علم ہو؛ کیونکہ دین قال اللہ اور قال الرسول یعنی کتاب وسنت کا نام ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :(إنِّي قد تَرَكْتُ فيكُمْ شَيْئَيْنِ لن تَضِلُّوا بَعْدَهُما: كتابَ اللهِ وسُنَّتي، ولن يَتَفَرَّقا حتّى يَرِدا عَلَيَّ الحَوْضَ) ترجمہ : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں انہیں اگر مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ہے یہ دونوں کبھی الگ نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ میرے پاس ہاؤس پر ا کر مجھ سے ملیں گی۔ (المستدرك على الصحيحين:٣٢٣)

- حقیقی علماء وہ ہیں جو منہج سلف کا پیکر ہوں۔ اہل بدعت اور منحرف علماء نہیں جو دین اسلام  اور مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔

- اسی طرح حقیقی علماء وہ ہیں جو تقوی شعار اور خشیت الہی سے معمور ہوں؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ) ترجمہ : اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ (فاطر :28)۔ 

- اسی طرح حقیقی علماء وہ ہیں جنہیں فقہ الواقع اور مدعو کی زمینی حقائق کا ادراک ہو؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ) ترجمہ : اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں۔ (النساء :83)۔ 


عند اللہ علماء کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟

امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ علماء کرام نے انجام دیا ہے او رہر دور میں  اللہ تعالی نے ایسے  علماء پیدافرمائے ہیں جنہوں نے  امت کو خطرات سےنکالا ہے اوراس کی  ڈوبتی  ہوئی  کشتی  کو پار لگانے کی کوشش کی ہے ۔ اسلامی تاریخ ایسے افراد سے روشن ہے  جنہوں نے  حالات کو سمجھا  اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے  لیے  اور ان کو صحیح رخ  پر لانے  کے لیے  ہر طرح کی قربانیاں دیں  جو اسلامی تاریخ کا  ایک سنہرا باب ہے۔ 

اللہ تعالی نے علماء کے مقام کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ) ترجمہ : اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔ (المجادلہ:11)۔ اسی طرح مزید ارشاد فرمایا :(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ) ترجمہ : کہہ دیں کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (الزمر:9)۔ 

اسی طرح علم اور علماء کے مقام کو واضح کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ) ترجمہ : جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم : 2699)۔ 


2- شخصی ارتقاء :

*انسانی شخصیت:

انسانی شخصیت(Personality) کا ایک جسمانی روپ ہوتا ہے جو اس کے ظاہری جسم، اعضاو جوارح اور اس کے جسمانی خدوخال کی شکل میں سامنے ہوتا ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا روپ کرداری ہوتا ہے جواسی انسان کے برتاو، رویوں اور اخلاق وکردار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ شخصیت کاپہلاروپ وقتی اور عارضی ہوتا ہے مثلا کوئی انسان جسمانی طور پر بہت خوب صورت اور جاذب نظر ہو تو وقتی طورپر لوگوں کی توجہ حاصل کرسکتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ روپ زوال پذیر ہوناشروع ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا کرداری روپ اگر اعلی اخلاقی اقدار اور اچھے کردار پر مشتمل ہوتو اس کاحسن اور اس کے اثرات طویل المدت ہوتےہیں۔

جب ہم پوری شخصیت کی تعمیر کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر انسانی شخصیت کے یہ دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ ظاہر میں نظرآنے والے جسمانی روپ کی تہذیب بھی ضروری ہے مثال کے طور پر صفائی ستھرائی، ہاں یہ صفائی ستھرائی چہرے اور بدن کا ہو یا ڈریس کا ہو لباس شرعی ہو، چہرے پر مسکراہٹ اور گفتگو شیریں ہو۔ 

اور ساتھ ہی اس جسمانی روپ میں نکھار ،خوب صورتی ،اعلی خصوصیات اور دوام پیدا کرنے والا کرداری روپ کی اصلاح بھی ناگزیر ہے تاکہ بلند اخلاق پیش کرکے اپنے مدعو پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ 

چنانچہ جہاں ایک طرف اللہ تعالی نے انسان کے جسمانی روپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:(وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ) ترجمہ : اور تمھاری صورت بنائی تو تمھاری صورتیں اچھی بنائیں اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، یہ ہے اللہ تمھارا رب، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (غافر:64)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ) ترجمہ : پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کر دیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو بنانے والوں میں سب سے اچھا ہے۔ (المؤمنون:14)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ[7] فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ) ترجمہ : وہ اللہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر درست بنایا، پھر درمیانہ قد و قامت بخشا، خوش شکل اور خوبصورت بنایا. (الانفطار :18)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ) ترجمہ : یقینا ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں پیدا کیا ہے۔ (التين:4)۔ 

تو دوسری طرف انسان کے کرداری روپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : (لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ) ترجمہ : اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔ (الحج:37)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ) ترجمہ : اور تم نیکی میں سے جو بھی کرو گے اللہ اسے جان لے گا اور زاد راہ لے لو کہ بے شک زاد راہ کی سب سے بہتر خوبی(سوال سے) بچنا ہے اور مجھ سے ڈرو اے عقلوں والو!

(البقرة:197)۔ 


- محلوقات باری میں انسان کا مقام:

انسان کی دوسری مخلوقات پر برتری کی وجہ: 

اللہ تعالی نے انسان کو کائنات کی دیگر مخلوقات پر فوقیت عطا فرمائی ہے چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا: (وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا) ترجمہ : اور بلاشبہ یقینا ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی اس میں سے بہت سوں پر انھیں فضیلت دی، بڑی فضیلت دینا۔ [الإسراء : 70]۔ 

دیگر مخلوقات پر یہ فضلیت انسان کو علم، عقل وشعور،غوروفکرکی صلاحیت اور اخلاق وکردار کی وجہ سے عطاہوئی ہے کیونکہ یہ چیزیں انسان ہی کی امتیازی خصوصیات ہیں۔چنانچہ انسان اپنی ان صلاحیتوں کی بناپر دنیا کی ہرمخلوق کو کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے چاہے وہ مخلوق انسان سے جسمانی طورپر زیادہ طاقت ور ہی کیوں نہ ہو ۔

 

- شخصی فضیلت کا معیار :

انسانوں میں فضیلت کا معیار:

افراد انسانی کے درمیان باہمی فضلیت کی اگر بات کی جائے تو اللہ کے ہاں سب سے زیادہ فضلیت والا انسان وہ ہےسب سے زیادہ متقی اور اعلی کردار والا ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انسا ن کو اپنی پوری شخصیت کی تعمیر پر کام کرنا پڑتا ہے یعنی ظاہری جسم ، لباس وپوشاک کی تہذیب ودرستگی کے علاوہ تہذیب نفس اور بلندکرداری پربھی باقاعدہ کام کرنا پڑے گا۔

اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : (إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ) ترجمہ : یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ تقوی والا ہے، یقینا اللہ تعالی ہر چیز جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ (الحجرات:13)، 

اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ، وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ، وَأَعْمَالِكُمْ) ترجمہ : یقینا اللہ تعالی نہ تو تمہاری شکلوں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہارے مال و دولت کو بلکہ وہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔  اسی طرح ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور اسی طرح نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ ہی کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت ہے سوائے تقوی کے۔ 


- شخصی ارتقاء کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں :

شخصی ارتقاء اور تعمیر شخصیت کی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں درپیش ہوں گی جن میں تین رکاوٹیں بہت اہم ہیں:

الف: نفس امارہ: 

یہ انسان کا داخلی دشمن ہے جو ہما وقت ہے اسے برائیوں کی طرف مائل کرتا ہے اور شہوات و شبہات میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ) ترجمہ : اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (يوسف:53)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا[7] فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا[8] قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا[9] وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا)ترجمہ : اور نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے ٹھیک بنایا! [7] پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری ( کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔ [8] یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے اسے پاک کرلیا۔ [9] اور یقینا وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دبا دیا۔ (الشمس:10)۔ 

معلوم ہوا کہ داخلی محاذ کو محفوظ رکھنے کے لئے نفس امارہ پر قابو پانا ضروری ہے۔ 

ب- خارجی ماحول: 

اس خارجی دشمن میں سب سے خطرناک کردار بری صحبت کا ہوتا ہے، اس سے بچنے کیلئے اچھے ماحول میں رہنے اور اچھی صحبت اختیار کرنے کی ضرورت ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :(مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ، وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً) ترجمہ : نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔ (صحیح بخاری :5534)۔ 

اسی طرح ایک دوسری روایت میں آیا ہے :(لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ) ترجمہ : ساتھ ہی نہ بناؤ مگر مومن کو اور تمہارا کھانا نہ کوئی کھائے مگر متقی اور پرہیزگار۔ 

اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث کے اندر فرمایا:(الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ)ترجمہ : ادمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے جب کوئی کسی سے دوستی کرے تو اس کے بارے میں اچھی طرح معلومات حاصل کر لے۔  

ج- شیطان:

یہ خارجی اور داخلی دونوں پیمانے پر انسان کا کھلا دشمن ہے انسانوں کی رگوں میں یہ رچتا بستا ہے دلوں پر ڈیرہ جما کر بیٹھ جاتا ہے انسان کو ہمہ وقت وسوسہ دلاتا ہے، انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، قرآن کریم کے اندر اللہ تعالی نے جا بجا شیطان لعین سے آگاہ رہنے اور اس سے بچنے کی تنبیہ کی ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیث پاک کے اندر شیطان لعین سے پناہ مانگی ہے اور امت کو اس سے، اس کی چالوں اور اس کے خبیث عزائم سے آگاہ کیا ہے، اس تعلق سے سب سے اہم حدیث سنن ابن ماجہ کے اندر موجود ہے، عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور دو لکیریں اس کے دائیں جانب اور دو بائیں جانب کھینچیں، پھر اپنا ہاتھ بیچ والی لکیر پر رکھا اور فرمایا: ”یہ اللہ کا راستہ ہے“، پھر اس آیت کی تلاوت کی: (وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله) ”یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے“ (سورۃ الانعام: ۱۵۳)۔ 


3- شخصی ارتقاء کی ضرورت :

یہ معلوم رہے کہ انسان کی تعمیر شخصیت اور اسکے ارتقاء میں کئی عناصر حصہ لیتے ہیں۔ جن میں ماں باپ کی نشوونما اور تعلیم و تربیت، گھراور خاندان کا ماحول، مسجد، معاشرہ ، مکتب ومدرسہ، اسکول وکالج اور یونیورسٹی ، اساتذہ ، یہ سب مل کر انسان کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:( مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ) ترجمہ : ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے؟ (صحیح بخاری :1358)۔ 

اگر خوش قسمتی سے ان عناصر نے تعمیر شخصیت میں مثبت کردار ادا کیا ہو تو بچے کی شخصیت مثبت بنیادوں تعمیر ہوجاتی ہے لیکن بدقسمتی سے اگر ان عناصر نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا یا غلط کردار کا باعث بنے ، تو تعمیر شخصیت غلط بنیادوں پرہوجاتی ہے۔

- صبر وتحمل: 

شخصی ارتقا اور شخصیت سازی میں صبر و تحمل بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے؛ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے اندر 13/ سال رہ کر صحابہ کرام کو صبر و تحمل کا درس دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تکلیفیں برداشت کیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی تکلیفیں برداشت کرنے اور انہیں جھیلنے کی تلقین کی، یہ کون نہیں جانتا کہ اہل طائف اور اہل مکہ کی طرف سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو کن کن تکلیفوں اور پریشانیوں کو جھیلنا پڑا ہے؟! اور یہ حقیقت ہے کہ بھٹی میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔ 

- عفو ودر گزر:

شخصیت سازی میں معافی اور عفو درگزر بھی بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے؛ کتاب و سنت کے اندر بارہا اس عظیم وصف کا ذکر آیا ہے اور مسلمانوں کو اس عظیم صفت سے متصف ہونے پر ابھارا گیا ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت مسلمہ کے لیے آئیڈیل اور رہنما ہیں، آپ کی زندگی ہم سب کے لیے اسوہ ہے، اس باب میں جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ آپ کی سیرت طیبہ عفو و درگزر سے عبارت ہے اس کے لیے صرف ثمامہ بن اثال کا واقعہ جنہیں مسجد نبوی کے اندر باندھ دیا گیا تھا اور اسی طرح اس دیہاتی کا واقعہ پیش کر دینا کافی ہے جس نے مسجد نبوی کے اندر پیشاب کر دیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے ساتھ جس حسن سلوک اور درگزر کا مظاہرہ فرمایا اور پھر اس کا جو نتیجہ سامنے آیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ شخصیت سازی میں اس صفت کا بڑا عظیم کردار ہے۔ 

انکے علاوہ بھی بہت سارے عوامل اور عناصر کی ضرورت ہے جنکی روشنی میں شخصیت کو سنوار کر اسے موثر بنایا جا سکتا ہے، جیسے کہ:

تنازعات کے حل کی صلاحیت۔ 

فیصلہ سازی کی قوت۔ سفارت کاری، ہرقسم کے لوگوں کو مینیج کرنے کا طریقہ، اسٹریٹجک سوچ۔ منصوبہ بندی اور ہدف تک پہونچنے کی چاہت۔

محنت کے جذبے سے سرشارہونا،لگن اور جستجو کی عادت کا ہونا۔ 

اخلاقیات کی مضبوطی۔

ایمان داری اور دیانت داری۔

خوش اخلاقی۔ سلیقہ مندی۔شعوری پختگی۔

دوسروں پر اعتبار کرنے کی ہمت۔ خود اعتمادی اور متنوع تخلیقی صلاحیتوں کا جامع۔ 

اشتراک عمل۔باہمی تعاون۔ باہمی اعتماد۔

لچک اور نرم رویے کا حامل۔ دوسرے کو غور سے سننے کی عادت ۔ مشاورت۔ باہمی احترام کو فروغ دینا۔ معلومات کا تبادلہ اورشیئرنگ۔  موٹیویشن وغیرہ۔

اسی طرح حصول علم کے دوران بھی ہمیں چند مہارتوں کی ضرورت ہے تاکہ ارتقائی عمل کے مراحل بآسانی طے ہو سکیں، جیسے کہ:

لیکچر توجہ سے سن کر نوٹس لینے کی مہارت۔ اپنے اسائمنٹس کو ذمہ داری سے پورا کرکے ٹیچر کو پیش کرنے کی صلاحیت۔

جوابدہی کا احساس۔

معلومات کا تجزیہ کرنا۔

گفتگو کرنے کی صلاحیت۔

اہم سوچ کوآگے بڑھانے کی صلاحیت۔ ٹیکنالوجی سے تعلیمی استفادہ کرنے کی صلاحیت ۔

ہدایات پر عمل کرنے کی صلاحیت۔اچھےتخیل کی صلاحیت۔

کاموں میں پہل کرنے کی صلاحیت ۔ 

اپنے تعلیمی امور کی تنظیم کی صلاحیت۔ وقت پر کام مکمل کرنے کی صلاحیت۔ تقریرو تحریر کو معیاری بنانے کی صلاحیت اور سب سے اہم ٹائم مینجمنٹ کی صلاحیت۔


4- شخصی ارتقاء کی افادیت :

دین اسلام کے اندر شخصیت سازی اور شخصی ارتقاء کے لیے ضروری ہے کہ اس کا فائدہ دین سیکھنے میں ظاہر ہو، اسی طرح دین پر عمل کرنے میں بھی ظاہر ہو اور ساتھ ہی اسے دوسروں تک پہنچانے اور تلقین کرنے میں بھی ظاہر ہو جیسا کہ سورہ العصر سے ظاہر ہوتا ہے:(وَالْعَصْرِ[1] إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ[2] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) ترجمہ : زمانے کی قسم! [1] کہ بے شک ہر انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔ [2] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ [العصر: 3]۔ 

القاء اور دعوت پیش کرنے اور خطاب کرنے کے اسلوب اور طریقے ومنہج میں بھی اسکی افادیت ظاہر ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :(ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ) ترجمہ : اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔ (النحل:125)۔ 

اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو بھی نرمی کا حکم ہوا تھا۔ دونوں بھائیوں کو یہ کہہ کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا :(فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى) ترجمہ : اسے نرم بات کہنا تاکہ عبرت حاصل کرے اور ہوشیار ہو جائے۔ (طہ:44)۔

مدعو کو مخاطب ہونے اور اسے خطاب کرنے کا اسلوب بہت اہم ہوتا ہے؛ چنانچہ

اصل مقصد مخاطب اور سامعین کے دلوں تک پہونچ کر انکے قلوب واذہان پر قابض ہونا تاکہ وہ ہماری بات کو بغور سن کر اس کا قائل ہو جائے، اسکے لئے جہاں موضوع کو بہتر اسلوب میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آواز میں زیر وبم لانے کی ضرورت ہے وہیں پر تمام سامعین کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کیلئے سب کی طرف دیکھنے اور ہاتھوں سے مناسب اشارہ کرنے کی بھی ضرورت ہے، اسی طرح جہاں ایک طرف دلائل براہین کے ساتھ اصل ایشو پر فوکس کرنے کے ساتھ اپنی باتوں کو اختصار سے پیش کرنے کی ضرورت ہے وہیں پر تلفظ کی بہترین ادائیگی اور لف ونشر اور حشو زائد سے بچنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ سامعین کا ذہن موضوع ہی پر مرکوز رہے دوسری وادیوں میں منتشر نہ ہونے پائے۔ 

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دین کا سچا داعی بنائے اور دعوت دین کو بہتر اسلوب میں حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔

الأحد، 27 أكتوبر 2024

دعوت الی اللہ کی اہمیت اور اسکے بنیادی ارکان

 دعوت الی اللہ کی اہمیت 

اور اسکے بنیادی ارکان 


د/ اجمل منظور المدنی 

وکیل جامعۃ التوحید بھیونڈی ممبئی 


اللہ کی جانب لوگوں کو بلانا اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور افضل ترین اعمال میں سے ہے، یہ دعوت و تبلیغ اللہ اور اس کے دین برحق کی جانب ہو اسلامی تعلیمات کے منافی کسی مذہب کی طرف یا کسی دنیاوی غرض کے لئے یا کتاب وسنت کے طریقہ سے ہٹ کر کسی اور مقصد کی خاطر ہرگز نہ ہو، بلکہ دعوت و تبلیغ کا مقصد صرف یہ رہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کا دین بلند ہو، ایسی دعوت حق اور دعوت دین جو ایک عربی کو بھی پیش کی جائے گی اور عجمی کو بھی، قریب کو بھی اس کی طرف بلایا جائے گا اور بعید کو بھی، دوست کو بھی یہ دعوت دی جائے گی اور دشمن کو بھی۔

دعوت حق کا فریضہ کسی متعین جماعت یا کسی خاص نسل و طبقہ اور کسی مخصوص زمانہ کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ یہ وہ فریضہ ہے جو ہر دور میں اور امت محمدیہ کے ہر فرد پر حسب استطاعت عائد ہوتا ہے اور امت کا کوئی بھی فرد خواہ وہ عربی ہو یا عجمی، بادشاہ ہو یا فقیر، حکومت ہو یا قوم، جو بھی اس مقدس دعوت کو لے کر اٹھے گا اسے عزت و سر بلندی ملے گی اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوگی اللہ تعالی اسے اپنے حفظ وامان میں رکھے گا اور صالح مومن بندوں میں سے اس کے لئے اعوان و انصار اور محافظ و مددگار عطا کر دے گا جیسا کہ فرمایا: (وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ) (الحج:40)۔ ترجمہ: جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے، بیشک اللہ طاقت والا اور غالب ہے۔

دعوت الی اللہ کے کچھ ضروری ستون اور بنیادیں ہیں جن پر وہ قائم ہے، اگر ایک بھی بنیاد میں خلل پیدا ہو جائے تو پھر وہ دعوت نہ تو صحیح رہ سکتی اور نہ ہی مطلوبہ اہداف تک پہونچ سکتی ہے، اس کے لیے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لی جائیں اور کتنا ہی وقت کیوں نہ ضائع کر دیا جائے جیسا کہ آج ہم ان بہت ساری معاصر دعوتوں کا حال دیکھ رہے ہیں جو مذکورہ بنیادوں پر قائم نہیں ہیں۔ 

ذیل میں ہم کتاب و سنت کی روشنی میں چند ان بنیادوں کو ذکر کر رہے ہیں جن پر صحیح دعوت قائم ہے: 

1- جس چیز کی دعوت دے اس کا علم ہو، سو ایک جاہل اس بات کا اہل نہیں ہے کہ وہ دین کا داعی بنے؛ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاقُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي) ترجمہ : آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین وبصیرت اور اعتماد کے ساتھ۔ 

اور بصیرت ہی علم ہے، اور اس لئے کہ ایک دین کا داعی گمراہ علماء کا سامنا کرتا ہے ایسے گمراہ قسم کے لوگ جو شبہات پیدا کرتے ہیں اور باطل کا سہارا لے کر مجادلہ کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے حق کو نیچا کر دیں؛ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:(وجادلھم بالتی ھی احسن) ترجمہ: اور ان سے مجادلہ کرو ایسے طریقے سے جو زیادہ بہتر ہو۔ 

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا:(تم ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو کتاب والے ہیں)۔

چنانچہ جب ایک داعی ایسے علم سے مسلح نہیں ہوگا جس کے ذریعے وہ ہر شبہے کا سامنا کر سکے اور اپنے مد مقابل کو زیر کر سکے تو وہ پہلی ہی ملاقات میں شکست کھا جائے گا اور آغاز سفر ہی میں بیٹھ جائے گا۔ 

2- وہ جس کی دعوت دے اس پر خود عمل کرے تاکہ وہ ایک اچھا اسوہ اور آئیڈیل بن سکے، اس کے افعال واعمال اس کے اقوال کی تصدیق کریں، ایسا نہ ہو کہ اہل باطل اسی کے قول و کردار کو لے کر اس کے خلاف حجت بنائیں؛ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے نبی شعیب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا:(وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ) ترجمہ : اور میں نہیں چاہتا کہ تمھاری بجائے میں (خود) اس کا ارتکاب کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں، میں تو اصلاح کے سوا کچھ نہیں چاہتا، جتنی کرسکوں۔ (ھود:88)۔ 

اور اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[162] لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ) ترجمہ : آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے [162] اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں [الانعام :163]۔

مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ) ترجمہ : اور اس سے زیاده اچھی بات واﻻ کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں (فصلت:33)۔ 

3- داعی کے اندر اخلاص ہو اس طور پر کہ جس چیز کی دعوت دے رہا ہے اس کے اندر اللہ کی رضا جوئی مقصد ہو، اس کے ذریعے وہ ریا ونمود کی خواہش نہ رکھے اور نہ ہی بلند مقام اور سرداری چاہے اور نہ ہی کسی طرح سے کوئی دنیاوی حرص رکھے؛ کیونکہ اگر اس کی دعوت میں ان مقاصد میں سے کوئی ایک بھی شامل ہو گیا تو وہ دعوت اللہ کی خاطر نہیں ہوگی بلکہ وہ یا تو نفس کی خاطر ہوگی یا پھر اس مقصد کے لئے جسے وہ چاہ رہا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کے بارے میں خبر دیا ہے کہ وہ اپنی قوموں سے کہتے تھے:(لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا) ترجمہ : میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا۔ (الشوریٰ :23)۔ ایک دوسری جگہ فرمایا:(لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا) ترجمہ : میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا۔ (ھود:29)۔ 

4- اہمیت کے حساب سے اپنی دعوت کا آغاز کرے یعنی اپنی دعوت کا اغاز اس چیز سے کرے جو سب سے زیادہ اہم ہو اس طور پر کہ سب سے پہلے وہ اصلاح عقیدہ، اخلاص عبادت اور ترک شرک کی دعوت دے، پھر اس کے بعد نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے، واجبات کو بجا لانے اور محرمات سے اجتناب کرنے کی دعوت دے جیسا کہ تمام رسولوں کا طریقہ رہا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ) (النحل: 36)۔ 

ترجمہ : ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ 

مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ) (الانبیاء :25)۔ 

ترجمہ : اور جو پیغمبر ہم نےتم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو۔ 

اور انکے علاوہ بھی دیگر آیات ہیں۔ 

اور جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تھا تو آپ نے ان سے فرمایا تھا:(إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ) ترجمہ : تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس پہنچو گے، تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اس کا رسول ہوں، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات و دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اسے مان لیں تو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہیں کے محتاجوں میں بانٹ دی جائیگی، اگر وہ اس کو مان لیں تو پھر ان کے عمدہ اور نفیس مال وصول کرنے سے بچے رہنا ۱؎ (بلکہ زکاۃ میں اوسط مال لینا)، اور مظلوم کی بد دعا سے بھی بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ (صحیح بخاری :1783)۔ 

سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دین کے میدان میں جو طریقہ اور منہج اپنایا ہے وہی سب سے بہتر اسوہ اور کامل منہج ہے اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 13/ سال تک مکہ کے اندر رہ کر توحید کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے اور انہیں شرک سے روکتے رہے پھر اس کے بعد انہیں آپ نے نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے، روزہ رکھنے اور حج کرنے کا حکم دیا اور اسی طرح دیگر محرمات سے بچنے کی تلقین فرمائی جیسے کہ سود، زنا، چوری اور ناحق کسی کو قتل کرنا وغیرہ۔ 

5- دعوت الی اللہ کے میدان میں جو مشقتیں اور پریشانیاں لاحق ہوں ان پر صبر کرنا؛ اس لئے کہ دعوت دین کے راستے میں پھول نہیں برسائے جائیں گے بلکہ یہ راستہ تکلیفوں اور خطرات سے گھرا ہوا ہے، سو اس میدان میں ہمارے لئے سب سے بہترین اسوہ اور نمونہ اللہ کے انبیاء اور رسل علیہم السلام ہیں؛ چنانچہ ان سب نے اپنی قوموں سے اس راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور انہوں نے ان کا مذاق اڑایا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:(وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ) (الانعام:10)۔ 

ترجمہ : اور واقعی آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزا کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آ گھیرا جس کا تمسخر اڑاتے تھے۔ 

مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے :(وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا) (الانعام :34)۔

ترجمہ : اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جا چکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی۔ 

اسی طرح کی تکلیفوں اور مشقتوں کا سامنا رسولوں کے پیروکاروں کو بھی کرنا پڑتا ہے اسی اعتبار سے جتنا وہ اللہ کی راہ میں دعوت دیتے ہیں اور اس کے دین کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اللہ کے رسولوں کی اقتداء کرتے ہوئے۔

6- ایک داعی پر واجب ہے کہ وہ حسن اخلاق کا پیکر ہو اور اپنی دعوت میں حکمت کا استعمال کرے؛ اس لئے کہ یہ اس کی دعوت کی مقبولیت کے لیے زیادہ موثر ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے دونوں نبی موسی اور ہارون علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ دونوں اپنے وقت کے سب سے بڑے کافر فرعون کے سامنے نرمی اور حکمت کو اپنائیں جس نے ربوبیت کا دعوی کیا تھا چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:(فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى(طه:44)۔ 

ترجمہ : اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے۔ 

اور اسی طرح اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کہا:(اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى[17] فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى[18] وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ فَتَخْشَى) [النازعات:19]۔

ترجمہ : تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے [17] اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے [18] اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راه دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے۔ 

اور اسی طرح اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا:(فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ) (آل عمران:159)۔

ترجمہ :اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں۔

مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ) [القلم: 4]۔

ترجمہ : اور بیشک آپ بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہیں۔ 

مزید ایک جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:(ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ) (النحل:125)۔

ترجمہ : اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔

7- ایک داعی پر واجب ہے کہ وہ پر امید ہو کر دعوت کا کام کرے، اس بات سے بالکل نا امیدی نہ ہو کہ اس کی دعوت کا اثر نہیں ہو رہا اور اس کی قوم راہ راست پر نہیں آرہی ہے، اس بات سے بھی نا امید نہ ہو کہ اس کے پاس اللہ کی نصرت اور مدد نہیں آرہی ہے خواہ وقت کتنا ہی کیوں نہ طول پکڑ جائے؛ اللہ کے انبیاء اور رسل علیہم السلام اس میدان میں ہمارے لئے سب سے بہتر اسوہ اور آئیڈیل ہیں۔ 

یہ اللہ کے نبی نوح علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم کے اندر ساڑھے نو سو برس رہ کر مسلسل انہیں اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ 

اور یہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جب آپ پر کفار مکہ کی طرف سے تکلیفیں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو اس وقت پہاڑوں کی فرشتے نے آپ کے پاس آکر یہ اجازت طلب کی کہ اگر آپ کا حکم ہو تو انہیں دونوں پہاڑیوں کے درمیان رکھ کر پیس دوں؟! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہرگز نہیں! میں انتظار کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی ان کے درمیان سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائےگی۔ 

سو معلوم ہونا چاہیئے کہ ایک داعی جب بھی یہ صفت کھو دے گا وہ میدان دعوت میں نہیں ٹھہر پائے گا بلکہ آغاز ہی میں بیٹھ جائے گا اور ناکام ثابت ہوگا۔

چنانچہ جو بھی دعوت مذکورہ بنیادوں پر قائم نہیں ہوگی اور وہ دعوت رسولوں کے منہج پر استوار نہیں ہوگی وہ دعوت یقینی طور پر ناکام ثابت ہوگی اور بالاخر مضمحل وپریشان ہوکر بے سود ہوگی؛ 

اس کی سب سے بہتر مثال آج کل کی وہ معاصر جماعتیں اور تنظیمیں ہیں جنہوں نے اپنے لئے کچھ ایسے الگ منہج اور طریقہ دعوت بنا رکھا ہے جو رسولوں کے منہج سے بالکل مختلف ہے بالخصوص عقیدے کے پہلو سے پورے طور پر غفلت برت رکھی ہے الا ما شاء اللہ، اور انہوں نے اصلاح کے چند جانبی پہلوؤں کو اختیار کر رکھا ہے۔ 

کچھ جماعتیں تو ایسی ہیں جو حکومت واقتدار اور سیاست میں اصلاح کی بات کرتی ہیں، لوگوں کے درمیان حدود کے قیام اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں، یہ بھی ایک اہم پہلو ہے مگر سب سے اہم نہیں ہے، آخر کیونکر ایک زانی اور چور پر حد نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے جبکہ شرک کرنے والوں کے خلاف اللہ کے فیصلے کے نفاذ کا مطالبہ نہ ہو؟! اسی طرح قبر پرستوں، بت پرستوں اور اللہ کے اسماء وصفات اور اسکے دین میں انحراف کرنے والوں کے خلاف اللہ کے فیصلے کے نفاذ کا مطالبہ نہ کرکے اونٹ بکری کے معاملے میں لڑنے لوگوں کے درمیان شرعی فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیوں کر سکتے ہیں؟! 

سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کا جرم زیادہ سنگین ہے کیا ان لوگوں کا جو زنا اور چوری کرتے ہیں یا جو شرک اور الحاد کرتے ہیں؟! اخلاقی جرائم خود بندوں کے حق میں ظلم ہے جبکہ شرک اور اسماء وصفات کی نفی کرنا خالق باری تعالیٰ کے حق میں ظلم ہے، اور خالق کا حق مخلوق کے حق پر مقدم ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا : "توحید کی سلامتی کے ساتھ گناہوں کا ہونا بہتر ہے توحید کے بگاڑ سے" (الاستقامة : 1/ 466)۔ 

آپ کو تعجب ہوگا کہ اخوانیوں کے یہاں ایسے لوگ مل جائیں گے جنہوں نے ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں باقاعدہ مزاروں سے تبرک لینے اور نیکو کاروں سے وسیلہ پکڑنے کی تائید کرتے ہیں۔ 

سو یہ جماعت جس منہج پر کام کرتی ہے جو انبیائی منہج سے الگ ہے۔


نوٹ : تفصیل کیلئے دیکھیں شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ کی کتاب: "منھج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل"۔

الثلاثاء، 28 نوفمبر 2023

سید مودودی کا فاسد عقیدہ تفہیم القرآن کی روشنی میں

 محدث

  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں

عامر عدنان

عامر عدنان

مشہور رکن
FB_IMG_1550582468924.jpg

سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
تحریر اجمل منظور مدنی
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط اول》
#دفاع_سلفیت

☀چاہے دور نبوت ہو یا دور صحابہ اس وقت مسلمان بڑی سادگی اور ایمان ویقین سے کے ساتھ غیبیات، عقیدے اور اللہ کی ذات وصفات کو بالکل اسی طرح مان لیتے تھے اور یقین کے ساتھ ان پر ایمان لاتے تھے جس طرح کتاب وسنت میں اللہ اور رسول نے مراد لیا ہے۔۔ لیکن بعد کے دور میں مسلم حکمرانوں نے اجنبی قوموں سے دوسری بہت ساری چیزوں کے ساتھ منطق وفلسفہ کو بھی رواج دیا جس کی زد میں علم کلام اور الہیات کے نام سے اللہ کی ذات اور اسلامی عقیدہ بھی آیا۔۔

☀اور عالم اسلام میں ایسے ایسے بقراطی اور عقل پرست پیدا ہوئے جنہوں نے غیبیات، عقیدے اور ذات الہیہ کو مشکوک بناکر رکھ دیا ۔۔ اور اسی بنیاد پر بہت سارے گمراہ فرقوں نے جنم لیا۔۔ خصوصا اسماء وصفات کے باب میں بہت سے گمراہ فرقے وجود میں آئے اور انہوں نے یونانی منطق وفلسفہ سے متاثر ہو کر یا تو اسماء وصفات کا انکار کردیا جیسے جہمیہ اور معطلہ وغیرہ، یا ان میں تاویل کرکے انکے معنی کا انکار کردیا۔۔ جن میں مشہور معتزلہ، ماتریدیہ اور اشعریہ ہیں۔۔ اور کچھ نے صفات ذاتیہ کو تو مانا لیکن صفات فعلیہ کا انکار کر دیا۔۔

☀لیکن اس وقت مسلمانوں نے عقیدے کی حفاظت میں ایسے گمراہ لوگوں کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو حکومت کی طرف سے ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی۔۔ چنانچہ امام شافعی نے ایسے شخص کو کوڑا مارنے اور گدھے پر بٹھاکر گھمانے کا فتوی دیا ہے جو علم کلام اور فلسفہ پڑھکر لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے۔۔

☀ایک مرتبہ سید التابعین حسن بصری سے واصل بن عطا نے اپنی عقل کے گھوڑے کو دوڑا کر کہا کہ میں مرتکب کبیرہ کو نہ تو کافر کہتا نہ ہی مومن بلکہ وہ دونوں کے بیچ میں رہے گا۔۔ تو آپ نے اسے مجلس چھوڑ دینے کیلئے کہہ دیا۔

☀اسی طرح امام مالک سے جب ایک عقل پرست نے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے آیت الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى [طه:5] کے بارے میں پوچھ بیٹھا کہ کیف استوی؟ اللہ کیسے مستوی ہے؟
اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے بارے میں پہلی بار اس طرح جب سوال کرتے ہوئے امام مالک نے سنا تو آپ چکرا گئے اور پسینے سے شرابور ہوگئے ۔ مجلس میں سکوت طاری ہوگیا۔۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس عقلانی کو جواب دیتے ہوئے اسماء وصفات کے بارے میں اپنا تاریخی جملہ کہا جو سارے اہل سنت مسلمانوں کیلئے اسماء وصفات کے بارے میں اصول بن گیا۔۔ آپ نے فرمایا: الاستواء ثابت والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة.
یعنی ضروری ہے کہ استواء رب پر ایمان لایا جائے، بالکل اسی طرح جو اللہ جل جلالہ کی شان کے لائق ہے اور جس معنی میں قرآن کے اندر وارد ہوا ہے اور صحابہ کرام نے جیسا سمجھا ہے۔ البتہ کیفیت مجہول ہے ہم اسے انسانوں پر قیاس نہیں کریں گے، اس کے بارے میں اس قسم کا سوال کرنا بدعت ہے۔
پھر امام مالک نے کہا: مجھے اس آدمی کے گمراہ ہونے کا شبہ ہے۔ اس لئے ااے مجلس سے باہر کردیا جائے۔
اس طرح اس عقلانیت پرست کو بھی حلقہ درس سے باہر کردیا گیا۔۔

☀اسی طرح ایک واقعہ بصرہ کے گورنر خالد بن عبد اللہ القسری کے بارے میں آتا ہے کہ جب ایک عقل پرست جعد بن درہم نے موسی علیہ السلام سے اللہ کے کلام کرنے کا انکار کیا یعنی صفت کلام کا انکار کیا تو گورنر نے اسے قتل کردیا ۔۔ واللہ اعلم بالصواب

آپ دیکھیں گے سید مودودی ان سب کا معجون مرکب ہیں۔۔ کیونکہ سید مودودی کا بھی پرابلم یہی تھا کہ خود انہیں کے بیان کے مطابق دینی تعلیم اساتذہ کی رہنمائی میں ٹھیک سے حاصل نہیں کرسکے ۔۔ اسی لئے ذاتی مطالعہ سے منطق وفلسفہ اور علم کلام پڑھ کر تفسیر لکھنے بیٹھ گئے۔ چنانچہ ان سارے فاسد عقیدوں کو انہوں نے اپنی کتابوں کے اندر بھی انڈیل دیا اور دوسروں کی بھی گمراہی کا سبب بن گئے۔۔ خصوصا اللہ کی ذات وصفات سے متعلق۔۔ جنہیں ہم تین قسموں میں بانٹ سکتے ہیں:
پہلی قسم: صفات ذاتیہ خبریہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا اپنے لئے ہاتھ، آنکھ، پنڈلی، پیر اور چہرے وغیرہ کا ثابت کرنا۔۔
دوسری قسم: صفات ذاتیہ معنویہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا سننا ، دیکھنا، ہنسنا، بات کرنا، ارادہ کرنا وغیرہ۔
تیسری قسم: صفات فعلیہ۔۔ جیسے اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا، آسمان سے نزول کرنا، فرشتوں کے ساتھ آنا، وغیرہ۔۔

☀ذیل میں ہم موصوف کے مشہور زمانہ عقلی تفسیر کی کتاب تفہیم القرآن سے کچھ مثال دیکر ثابت کر رہے ہیں کہ جناب کا عقیدہ خود کیسے تھا اور ساتھ ہی ایک بڑی جماعت کو بھی اس میں مبتلا کرنے کا سبب بنے:

✔اول: سورہ یونس آیت نمبر 3 میں (ثم استوى على العرش) کا سادہ ترجمہ یہی ہے کہ پھر وہ عرش پر جا ٹھہرا۔۔ لیکن مودودی نے اس کا ترجمہ کیسے کیا ملاحظہ کریں: (پھر تختِ حکومت پر جلوہ گر ہوا)۔ تفہیم القرآن 2/ 262

تبصرہ: استوی علی العرش کا سیدھا مطلب ہے: عرش پر مستوی ہوا یعنی اس پر ٹھہرا اور قرار پایا۔۔ جیسا اس کی جاہ و جلال کے لائق ہے۔۔ استواء معلوم ہے لیکن کیفیت مجہول ہے۔۔ ہمیں اس پر ایمان لانا واجب ہے۔۔ اسی طرح عرش معلوم ہے ساتوں آسمان کے اوپر ہے۔ قرآن وحدیث میں سینکڑوں دفعہ عرش کا ذکر آیا ہے۔۔ اور سب نے اس کا مطلب عرش الہی ہی سمجھا ہے۔۔ قیامت کے دن سایہ صرف عرش الہی ہی کا ہوگا۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے بغل میں بیٹھ کر بات کر رہی تھی جسے میں نہیں سن ہارہی تھی لیکن ساتوں آسمان کے اوپر عرش پر بیٹھے ہمارے رب نے اسے سن لیا اور فورا جبریل کو بھیج دیا۔۔ ( سورہ مجادلہ کے شروع میں پوری تفصیل دیکھیں)

لیکن دیکھیں مودودی نے اللہ کے عرش عظیم کو ماننے سے کیسے انکار کردیا۔۔ اور اس کا معنی بدل کر کیسے تخت حکومت کردیا ۔۔ کیا ایسا ترجمہ انہیں کرنے پر حکومت وسیادت کی بھوک نے کیا ہے؟! یا واقعی عرش کے منکر ہیں ؟ آخر عرش کا ترجمہ انہوں تفہیم القرآن میں عرش سے کیوں نہیں کیا؟!

✔دوم: دوسری جگہ سورہ اعراف آیت نمبر 54 کے تحت حاشیہ نمبر 41 میں عرش الہی کے بارے میں عقلی گھوڑا دوڑاتے ہوئے بلا کسی دیل وثبوت کے اپنی طرف سے دو مفہوم بتا رہے ہیں۔۔:
((خد ا کے استواء علی العرش(تخت سلطنت پر جلوہ فرماہونے )کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لا محدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور ا س پر جلوہ فرما ہونے سے مرادیہ ہو کہ اللہ نے کا ئنات کو پیدا کر کے اس کی زمامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لی ہو۔))

تبصرہ: یعنی ایک طرف عرش پر اللہ کی ذات کے مستوی ہونے کا انکار کر رہے ہیں تو دوسری طرف کلام پاک میں جراءت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکا دو مطلب بھی اپنی طرف سے گڑھ کر بیان کر رہے ہیں۔۔

✔سوم: تیسری جگہ سورہ ہود آیت نمبر 7 میں (وكان عرشه على الماء) کا ترجمہ صاف صاف یہی ہے کہ ( اور اسکا عرش پانی پر تھا) لیکن مودودی بقراطی کرتے ہوئے اور اپنی عقل کا گھوڑا دوڑاتے ہوئے اور اس متعلق گمراہی کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں: ( رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی۔۔ تفہیم القرآن 2/ 325

تبصرہ: دیکھیں یہاں اپنی سمجھ خود بتا رہے ہیں کہ عرش سے مطلب سلطنت ہے۔ جناب کس جگہ قرآن یا حدیث میں عرش کا مطلب سلطنت بتایا گیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر عرش سے مراد سلطنت لے لی جائے تو کیا اس سے یہ لازم نہیں آئے گا کہ اب اس کی سلطنت پانی پر نہیں ہے بلکہ اب اسکی سلطنت عرش پر ہے۔ اور کیا اس کی سلطنت صرف عرش پر ہے ۔ پوری کائنات میں نہیں ہے؟
ایک چیز کے انکار سے کتنا فساد لازم آتا ہے۔۔
سیدھا مطلب ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے اور وہیں سے پوری کائنات کو چلا رہا ہے ۔۔ کوئی چیز اسکی نظر سے اوجھل نہیں ہے۔ پتہ پتہ ذرہ ذرہ سے وہ واقف ہے۔۔
سلف سے کہیں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ اللہ کی سلطنت پہلے پانی پر تھی ۔۔ یہ مودودی کی اپنی رائے اور فکر ہے۔۔ اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی سے کرنے کی ممانعت ہے۔۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (إياكم وأصحاب الرأي؛ فإنهم أعداء السنن. أعيتهم الأحاديث أن يحفظوها، فقالوا برأيهم، فضلّوا وأضلوا) ترجمہ: عقل پرستوں سے دور رہو کیونکہ یہ سنت کے دشمن ہیں، یہ حدیثوں کے یاد کرنے سے عاجز ہیں اس لئے اپنی عقلوں کا استعمال کرتے ہیں، اس طرح خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔
المدخل إلى السنن الكبرى، 191
سچ ہے جو بھٹک جاتا ہے اسے سیدھی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔۔

نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر ثنائی وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582913202.jpg

FB_IMG_1550582930732.jpg

اٹیچمنٹس

Last edited: 
عامر عدنان

عامر عدنان

مشہور رکن
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
صفات ذاتیہ کے منکر سید مودودی!!!
✔《قسط دوم》

پہلی قسط میں عرش الہی کے تعلق سے مودودی کے فاسد عقیدے کا ذکر تھا۔ اس دوسری قسط میں اللہ تعالی کے صفات ذاتیہ خبریہ کے تعلق سے مودودی کا عقیدہ واضح کیا گیا ہے کہ کیسے مودودی نے اللہ تعالی کے ذاتی صفات کا گمراہ فرقے معطلہ کی طرح صاف صاف انکار کر دیا ہے۔۔
جبکہ اہل سنت مسلمانوں کا یک اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے لئے جن ذاتی صفات کو ثابت کیا ہے اور ان کا ذکر قرآن وحدیث میں جہاں کہین بھی آیا ہے ان پر ایمان اسی طرح ایمان فرض ہے۔ انہیں ثابت مانا جائے بغیر کسی تشبیہ کے۔
کیونکہ اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے (لیس کمثلہ شیء وھو السمیع البصیر) یعنی اسکی طرح کوئی نہیں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔
یہ آیت اہل سنت کیلئے قاعدہ اور اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔۔ کہ اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے اس کے پاس کان ہے آنکھ ہے ہاتھ ہے پیر ہے اور وہ سارے اعضاء جن کا ذکر صراحت سے قرآن وحدیث میں آیا ہے۔ لیکن ہم ان کی کیفیت نہیں جانتے کیسے ہیں اور نہ ہی انہیں ہم انسانی اعضاء سے تشبیہ دیتے ہیں۔۔ وہ سب اسی طرح ہوں گے جیسا اللہ جل جلالہ کی شان کمالی کیلئے مناسب اور لائق ہے۔۔
گمرای فرقوں کئ طرح نہ ہم انکا انکار کرتے ہیں اور ہم نہ ہی ان کی تاویل کر کے اپنی طرف سے انکا دوسرا کوئی معنی مراد لیتے ہیں کیونکہ یہ بجی انکار ہے۔ تمام اہل سنت علما نے عقیدے کی کتابوں میں تفصیل سے اسے بیان کیا ہے چاہے وہ عقیدہ طحاویہ ہو یا عقیدہ واسطیہ یا کوئی اور کتاب۔

☀اور صفات کے انکار سے ذات کا انکار لازم آتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم تمام اعضاء کا انکار کردیں تو ذات کو کیسے ثابت کریں گے۔ کیونکہ ذات اانہیں اعضاء کے ترکیب کلی کا نام ہے۔ ایک مرتبہ علامہ ابن قیم نے ایک منکر صفات سے مناظرہ کرتے ہوئے کہا کہ تم تو ذات الہی ہی کے منکر ہو؟ اس نے کہا : وہ کیسے؟ فرمایا: اگر تم زید کے تمام اعضاء کا انکار کردو تو زید کسے کہیں گے؟
اسی طرح جب تم اللہ کے تمام ذاتی صفات کا انکار کرتے ہو تو پھر اللہ کو کیسے مانتے ہو؟ تم اللہ کو مانتے ہو لیکن اس کے ہاتھ کو نہیں ۔ اللہ کو مانتے ہو لیکن اسکے چہرے کو نہیں ۔ اللہ کو مانتے ہو لیکن اسکے پیر کو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر اللہ کو کیسے مانتے ہو؟ یہ سن کر وہ کافی پریشان ہوا۔

ارشاد باری تعالی ہے: يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ [القلم:42]
محمد جوناگڑھی اور حفیظ جالندھری کا ترجمہ:
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو [سجده] نہ کر سکیں گے۔

علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے سورہ قلم کی مذکورہ آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

اس آیت کی تفسیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کردی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: " يكشف ربنا عن ساقه ، فيسجد له كل مؤمن ومؤمنة ، ويبقى من كان يسجد في الدنيا رياء وسمعة ، فيذهب ليسجد فيعود ظهره طبقا واحدا " . متفق عليه
ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومنہ عورت سجدے میں گرجائیں گے۔ لیکن جو دنیا میں ریا ونمود کیلئے دجدے کیا کرتا تھا وہ بھی سجدہ کرنا چاہے گا لیکن اسکی پیٹھ سخت ہوجائے گی اور وہ سجدہ نہ کرسکے گا۔
(مجلة الدعوة)، العدد: 1718، وتاريخ 10/8/1420هـ. (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 24/ 317)

آئیے دیکھتے ہیں کہ سید مودودی نے ان صفات ذاتیہ کا انکار کیسے کیا ہے:
مودودی نے صاف صاف جہمیہ اور معطلہ جیسے گمراہ فرقوں کی طرح اللہ تعالی کے صفات ذاتیہ کا انکار کیا ہے۔۔ اور انہیں دوسرے معنوں پر اپنی طرف سے محمول کیا ہے۔ جسے تحریف کہتے ہیں۔۔

✔اللہ تعالی کیلئے پنڈلی کا بھی ثبوت ہے۔ سورہ قلم آیتر نمبر 42 میں ارشاد ہے: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ۔
ترجمہ جوناگڑھی: جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو [سجده] نہ کر سکیں گے۔
لیکن مودودی اس آیت کے پہلے جملے کا ترجمہ کرتے ہیں: جس روز سخت وقت آ پڑے گا۔ ۔۔
یہاں بھی تاویل کرکے صفت کا انکار کر دیا ۔

✔اللہ کے دو ہاتھ ہے چنانچہ تفہیم القرآن کے اندر سورہ ملک کی پہلی آیت میں کہتے ہیں:
((اور اس کےہاتھ میں اقتدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے ، بلکہ یہ لفظ محاورہ کے طور پر قبضہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی کی طرح ہماری زبان میں بھی جب یہ کہتے ہیں کہ اختیارات فلاں کے ہاتھ میں ہیں تواسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے۔۔
تفہیم القرآن 6/ 41

سورہ ص آیت نمبر 75 کے تحت لکھتے ہیں:
((’’ دونوں ہاتھوں ‘‘ کے لفظ سے غالباً اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطا کیا گیا جس کی بنا پر وہ حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے اندر وہ روح ڈال دی گئی جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے اشرف و افضل ہو گیا۔

سورہ ذاریات آیت 47 میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ۔
ترجمہ جوناگڑھی:
آسمان کو ہم نے [اپنے] ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔
لیکن مودودی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔:
آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنا یا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔

تبصرہ: مودودی نے صراحت کے ساتھ ذاتی صفات کا انکار کرکے اسے اپنی طرف سے دوسرے معنوں پر محمول کیا ہے۔۔

✔ الشيخ ابن عثيمين رحمه الله سے آنکھ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے لکھا: " مذهب أهل السنة والجماعة : أن لله عينين اثنتين ، ينظر بهما حقيقة على الوجه اللائق به ، وهما من الصفات الذاتية " انتهى من "مجموع فتاوى ابن عثيمين" (4/58) .
ترجمہ: اھل السنہ والجماعہ کا مذہب یہی ہے کہ اللہ کی دو آنکھیں ہیں جن سے وہ حقیقی طور پر دیکھتا ہے اسی طریقے سے جو اسکی ذات کمال کیلئے زیب ہے۔ اور یہ اسکی ذاتی صفات ہیں۔
پھر آپ نے قرآن سے دلیل دی:
1. قال تعالى : (وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا) هود : 37 .
ثبت عن ابن عباس رضي الله عنهما في قول الله تعالى : (واصْنَعِ الفُلْكَ بِأَعْيُنِنا) ، قال : بعين الله تبارك وتعالى ، رواه عنه البيهقي في "الأسماء والصفات" (2/116) .
قال ابن جرير الطبري رحمه الله : " وقوله : (بأعيننا) ، أي : بعين الله ووحيه كما يأمرك " انتهى .
2. قال تعالى : (وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي) طه : 39
3. قال تعالى : (وَاصْبِرْ لِحُكمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا) الطور : 48
4: (تَجْرِي بِأَعْيُنِنَا) القمر/14

مفہوم: نوح علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنی آنکھوں کے سامنے کشتی بنانے کیلئے کہا۔ اور موسی علیہ السلام سے کہا تم ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔ اس سے اللہ کیلئے آنکھ کا ہونا اور دیکھنا ثابت ہوتا ہے جسے اہل سنت والجماعہ مانتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔۔ اور اس پر سلف سے دلیل بھی دی۔۔

لیکن مذکورہ تینوں آیتوں کے ترجمہ میں سید مودودی نے ایک جگہ بھی آنکھ سے ترجمہ نہین کیا ہے۔۔
حدیث کے اندر آتا ہے بخاری (6858) کی روایت ہے:
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إن الله لا يخفى عليكم ، إن الله ليس بأعور - وأشار بيده إلى عينه - وإن المسيح الدجال أعور العين اليمنى كأن عينه عنبة طافية ) .
مفہوم: اللہ کانا نہیں ہے دجال کانا ہے۔
یہاں بھی اللہ کیلئے آنکھ کا ثبوت ہے۔
ابن خزیمہ نے بہت ساری دلیلوں کو ذکر کرکے کتاب التوحید میں لکھا ہے: " فواجب على كل مؤمن أن يثبت لخالقه وبارئه ما ثبَّت الخالق البارئ لنفسه من العين ، وغير مؤمن من ينفي عن الله تبارك وتعالى ما قد ثبَّته الله في محكم تَنْزيله ببيان النبي صلى الله عليه الذي جعله الله مبيِّناً عنه عَزَّ وجلَّ في قوله : ( وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ) ، فبين النبي صلى الله عليه وسلم أن لله عينين ، فكان بيانه موافقاً لبيان محكم التَنْزيل ، الذي هو مسطور بين الدفتين ، مقروء في المحاريب والكتاتيب " انتهى .
"كتاب التوحيد" (1/64) .
مفہوم: اللہ اور اسکے رسول نے اللہ کیلئے جن ذاتی صفات کو ثابت کیا ہے انکو ماننے والے مومن ہیں انہیں چاہئیے کہ منکرین صفات کی بات نہ مانیں۔

خلاصہ: مودودی نے روافض، جہمیہ اور معطلہ جیسے گمراہ فرقوں کی طرح اللہ تعالی کے صفات ذاتیہ کا انکار کیا ہے۔۔ اس لئے یہ فاسد عقیدے کے حامل تھے۔۔ انکی کتابوں کا مطالعہ تنقیدی اعتبار سے کیا جاسکتا ہے نا کہ سیکھنے کیلئے ورنہ آدمی گمراہ ہو سکتا ہے کیونکہ مومن کے نزدیک اصل عقیدہ ہے پھر اسی بنیاد پر اللہ تعالی بندے کے عمل کو قبول فرمائے گا۔۔

نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، تفسیر جزائری اور احسن البیان وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582468924.jpg

FB_IMG_1550583084849.jpg

FB_IMG_1550583087301.jpg
عامر عدنان

عامر عدنان

مشہور رکن
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
وحدت الوجود کا فاسد اور باطل عقیدہ اور مودودی
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط سوم》

[[پہلی قسط میں عرش الہی کے تعلق سے مودودی کے فاسد عقیدے کا ذکر تھا۔ دوسری قسط میں اللہ تعالی کے صفات ذاتیہ خبریہ کے تعلق سے مودودی کا عقیدہ واضح کیا گیا تھا جب کہ اس تیسری قسط میں وحدت الوجود جیسے مشرکانہ باطل اور فاسد عقیدے کا انکشاف ہے جس میں مودودی پورے طور سے ملوث تھے۔۔]]

☀گمراہ فرقوں کے باطل عقائد میں سے ایک نظریہ "وحدت الوجود" بھی ہے یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ہر موجود چیز بذات خود اللہ ہے، اس عقیدہ کے حاملین کو "اتحادیہ" بھی کہا جاتا ہے، یہ لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ اس طرح ملا ہوا ہے کہ تمام موجودات متعدد وجود کی بجائے ایک ہی وجود بن گیا ہے !!
ان لوگوں کے ہاں اس عقیدے کا حامل ہی موحد ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسے لوگ توحید سے کوسوں دور ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں سید مودودی بھی کیسے اس باطل اور فاسد عقیدے کے حامل تھے۔۔ چنانچہ تفہیم القرآن کے اندر کہتے ہیں:
((یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذاتِ خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہےجہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اُس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔))
تفہیم القرآن 2/ 590

✔دیکھیں مودودی معطلہ جیسے گمراہ فرقے کا رویہ اپنا کر کیسے عقل کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ کہ اللہ کسی مقام پر متمکن نہیں ہے۔۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر نہیں ہے تو کہاں ہے؟ پھر اللہ کی ذات کہاں ہے؟ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں کہاں گئے تھے کس کے پاس گئے تھے کس جگہ گئے تھے کس سے ملاقات ہوئئ تھی ؟ موسی علیہ السلام سے ملنے کے بعد واپس نماز کو کم کرانے بار بار کس کے پاس آئے گئے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی سے ایسا کیوں سوال کیا تھا کہ این اللہ ؟ یعنی اللہ کہاں ہے؟ پھر اس لونڈی نے جواب دیا : آسمان میں ہے۔ کیا اس سے مقام ثابت نہیں ہو رہا ہے۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب صحیح مانا اور اسے بطور انعام کے آزاد کر دیا ۔۔
کیا مودودی اور انکے حواری ان سوالوں کے جوابات دے سکتے ہیں؟!

✔کیا مودودی مقام کی تعیین نہ کرکے وحدو الوجود کا فاسد عقیدہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ کہیں ایک جگہ نہیں بلکہ ہر جگہ ہے۔۔ ؟! کیونکہ اسی تفہیم القرآن کے اندر ایک دوسری جگہ اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
((اور اللہ تعالی کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا سکتا کہ وہ کسی خاص مقام پر رہتا ہے، کیونکہ اس کی ذات زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے۔ ))
تفہیم القرآن 6/ 86

✔اگر ابھی بھی یقین نہ آئے تو تیسری دلیل دیکھ لیں کہ کس طرح یہ بندہ فاسد اور گمراہ کن وحدة الوجود کا عقیدہ رکھتا ہے۔۔ :
((اس سے معلو م ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الہٰی کا ایک عکس یا پر تَو ہے ۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کے لباد خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پرتَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کی خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔))
تفہیم القرآن 2/ 505

یعنی انسان صفات الہی کا عکس اور پرتو ہے پھر اس کے خدا ہونے میں کیا شک ہے ۔۔ یہی تو وحدة الوجود کا عقیدہ رکھنے والے غلیظ اور باطنی صوفی کہتے آئے ہیں۔۔ کہ جو انسان ہے وہی خدا ہے اور جو خدا ہے وہی انسان ہے۔۔
ان باطنی غلیظ صوفیوں اور ہندوؤں کے اس عقیدے میں کیا فرق ہے کہ ہر کنکر شنکر ہے۔۔

اسی کو رشید گنگوہی نے اس طرح بیان کیا ہے: میں کچھ نہیں ہوں تیرا ہی ظل ہے تیرا ہی وجود ہے۔۔

یہ گمراہ عقیدہ ہر اس فرقے میں پایا جاتا ہے جو اللہ جل جلالہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اسے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔۔۔

☀یہی عقیدہ دیوبندیوں کے شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (متوفی 1317ھ) بھی رکھتے تھے جن کا کہنا ہے کہ : "وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنا ہی حق اور سچ ہے" انتہی ۔ شیخ امداد اللہ کی تصنیف "شمائم امدادیہ "(ص/32)
بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ:
"عابد اور معبود کے درمیان فرق کرنا ہی صریح شرک ہے " صفحہ: (37)
اور تلبیس ابلیس کے زیر اثر ان غلط نظریات کیلئے بے مہار وسعت سے کام لیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس خطرناک بات کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا :
"بندہ اپنے وجود سے پہلے مخفی طور پر رب تھا اور رب ہی ظاہر میں بندہ ہے"[العیاذباللہ]
دیکھیں: "شمائم امدادیۃ "صفحہ: (38)
صوفی اقبال محمد زکریا کاندہلوی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"اس نے ہمیں وحدت الوجود کا راز معلوم کروایا، وہ ایسے کہ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ عشق، معشوق اور عاشق سب ایک ہی ہیں "انتہی
ماخوذ از کتاب: "محبت" صفحہ: (70)

تفصیلی معلومات کے لئے دیکھیں:
سید طالب الرحمن (مدیر: المعھد العالی راولپنڈی، پاکستان)کی کتاب "الدیوبندیہ"(ص/29-42) مطبوعہ دار صمیعی (1998ء)۔

✔چونکہ عقیدہ اور مسلک کے اعتبار سے سید مودودی بھی صوفی حنفی تھے اور سلسلہ چشتیہ سے وابستہ تھے اس لئے وہ سارے فاسد اور باطل عقیدے ان کے اندر بھی موجود تھے۔۔

☀مودودی کے پیروکاروں کا بھی یہی عقیدہ ہے چنانچہ یہ اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں کہ: " اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ "
حوالہ : بنیادی دینی معلومات ص 16
شائع کردہ چنار پبلیکیشنز 2012 ء
ترتیب کا سہرا : محمد عبد اللہ وانی چیرمین فلاح عام ٹرسٹ۔ جموں کشمیر۔
مواد کی تیاری : غازی معین الاسلام ندوی
پروف ریڈنگ : شیخ غلام حسن
عرض ناشر : غلام قادر لون

☀عقیدہ "وحدت الوجود" کے باطل ہونے پر علما کا اتفاق ہے ، ان کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے، چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ
ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]
ایک جگہ فرمایا:
وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ
ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
دیکھیں: کیسے اللہ تعالی نے ان لوگوں پر کفر کا حکم لگایا ہے جنہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا حصہ قرار دیا، اور بعض مخلوق کی اللہ تعالی کیساتھ رشتہ داری بیان کی ،تو اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو خالق اور مخلوق کا ایک ہی وجود مانے!؟
ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے!! حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً
ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]
اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے:
أَوَلا يَذْكُرُ الإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا
ترجمہ: کیا انسان کو یہ یاد نہیں ہے کہ پہلے بھی ہم نے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ معدوم تھا [مریم:67]
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا قرآن مجید کے نظم اور خطاب میں موجود مسلمہ واضح حقائق جان لے گا کہ مخلوق اور خالق ایک چیز نہیں ہو سکتے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ
ترجمہ: اللہ کے سوا جن چیزوں کو وہ پوجتے ہیں وہ چیزیں آسمانوں اور زمیں سے رزق مہیا کرنے کا بالکل اختیار نہیں رکھتیں [النحل : 73]
چنانچہ جواس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔
مزید بر آں جو قباحتیں وحدت الوجود کے دعوے سے لازم آتی ہیں ،اس باطل عقیدے کی تردید کے لئے کافی ہیں ، جواس عقیدے پر ایمان لے آتا ہے تو اس کی حالت اسے بد کاری کے حلال اور ایمان و کفر کے درمیان برابری قرار دینے پر مجبور کر دے گی، کیونکہ ان کے وہم و گمان کے مطابق دعوی یہ ہے کہ عقائد کا انحصار ایک وجود کے ساتھ ایمان لانے پر ہے ، اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ عز و جل کی گھٹیا ترین مخلوقات، چوپاؤں ، پلید اشیا وغیرہ کی طرف کی جائے ، اللہ تعالی ان کے شاخسانوں سے بہت بلند و بالا ہے ۔

✔نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، احسن البیان وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582468924.jpg

FB_IMG_1550583822325.jpg

FB_IMG_1550583825143.jpg

FB_IMG_1550583828194.jpg
عامر عدنان

عامر عدنان

مشہور رکن
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
منکرین ذات وصفات کے باطل اصطلاحات کا عقیدہ
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط چہارم》

مودودی کا عقیدہ ذات باری تعالی کے بارے میں:
=اللہ تعالی عرش پر نہیں ہے۔
=آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوں گے یہ قابل تصور نہیں ہے۔
=اللہ تعالی کا جسم نہیں ہے۔
=اللہ تعالی مقام سے پاک ہے۔
= اللہ تعالی جہت سے پاک ہے۔

☀جی ہاں مودودی نے اپنے سارے ان فاسد فلسفیانہ جاہلانہ عقائد کو تفہیم القرآن کے اندر درج ذیل عبارت میں جمع کردیا ہے:
((مگر یہ بات بہرحال قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالی عرش پر بیٹھا ہو گا اور آٹھ فرشتے اس کو عرش سمیت اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ آیت میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالی عرش پر بیٹھا ہوا ہو گا، اور ذات باری کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اسے اٹھائے۔))
تفہیم القرآن 6/ 75

✔=اللہ تعالی عرش پر نہیں ہے۔
مودودی کا یہ عقیدہ قرآن وحدیث کے خلاف یونانی برہمنی مجوسی عقیدہ ہے۔۔ ورنہ قرآن وحدیث میں سینکڑوں جگہ اس عقیدے کو واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے۔۔ صرف قرآن میں سات مرتبہ اس کا ذکر آیا ہے۔۔۔ ایک جاہل فلسفی نے جب امام مالک سے پوچھا کہ کس طرح مستوی ہے تو فرمایا: کیفیت ہم نہیں جانتے البتہ اسے مانتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور یہی کہیں گے کہ جیسا اس کے شایان شان ہوگا اسی طرح مستوی ہوگا۔۔ اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے۔۔
اس پر مزید تفصیل اس پوسٹ میں دیکھیں:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2037225386390738&id=100003098884948

☀=آٹھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوں گے یہ قابل تصور نہیں ہے۔
✔تبصرہ: قرآن وحدیث اور اسلامی عقیدے سے کوسوں دور یونانی منطق وفلسفہ کا دلدادہ شخص ہی ایسی بھونڈی بات کہہ سکتا ہے۔۔ !! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی دوسرا مطلب سمجھا ؟! کیا صحابہ کرام میں سے کسی نے اسے ناقابل تصور سمجھ کر اس کا مطلب پوچھا؟! جیسا کہ اکثر صحابہ کرام دین عقیدہ کے بارے میں سوال کرتے رہتے تھے۔۔ اس تعلق سے بطور خاص سورہ بقرہ سورہ انفال اور سورہ توبہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔۔

یقینا عقل پرستوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی۔۔ البتہ جو اللہ اور اسکے رسول پر کامل یقین رکھتے ہیں وہ اس کا صرف تصور ہی نہیں بلکہ فورا اسے مان لیتے ہیں۔۔ اللہ کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہیں ۔۔ اس کا ذکر قرآن اور حدیث دونوں میں آیا ہے اور ان فرشتوں کی صفات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔۔ اسکا انکار کرنے والا قرآن وحدیث کا منکر ہوگا۔۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ۔ سورہ حاقہ 17
ترجمہ: اس کے یعنی آسمان کے کناروں پر فرشتے ہوں گے، اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ [فرشتے] اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ مؤمن /7
ترجمہ: عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے [فرشتے] اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔

اس تعلق سے کئی ایک احادیث بھی مروی ہیں۔۔ جن میں ایک یہ بھی ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَاتِقِهِ مَسِيرَةُ سَبْعِ مِائَةِ عَامٍ وصححه الألباني في "صحيح أبي داود".
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت ہے“۔

امام ابو داود نے اس حدیث کو کتاب السنہ باب فی الجھمیہ کے تحت لاکر گمراہ فرقے جہمیہ پر رد کئا ہے جو مودودی کی طرح یہ تصور بھی نہیں لرتے ہیں کہ عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے۔۔

ایک دوسری روایت کچھ اس طرح ہے:
عن ابن عباس .. وفيه: فإنها لا يرمى بها لموت احد، ‏‏‏‏‏‏ولا لحياته، ‏‏‏‏‏وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا ثُمَّ قَالَ: الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَيُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ الحديث، رواه مسلم
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کے لیے نہیں ٹوٹتا لیکن ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں یہاں تک تسبیح کی نوبت دنیا کے آسمان والوں تک پہنچتی ہے پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم دیا تمہارے مالک نے، وہ بیان کرتے ہیں۔“

☀=اللہ تعالی کا جسم نہیں ہے۔
✔تبصرہ: شیخ عثمان خمیس نے اسے اچھی طرح واضح کیا ہے۔۔ کہ اللہ کا جسم ہے یا نہیں؟ چنانچہ پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کا لفظ قرآن وحدیث میں وارد نہیں ہے نا ہی اثبات میں اور نہ ہی نفی میں۔۔ اس لئے اس سے بچنا چاہئیے کیونکہ صحابہ وتابعین نے بھی اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے۔۔ لیکن اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو اس میں حق وباطل دونوں کا احتمال ہو سکتا ہے۔۔ لہذا اگر کوئی کہتا ہے کہ اللہ جسم ہے لیکن دوسری جسموں کی طرح نہیں۔۔ تو ہم کہیں گے کہ اس لفظ کا ثبوت نہیں ہے۔۔ لیکن اگر کوئی کہتا ہے کہ جسم ہے جسموں کی طرح تو یہ کفر ہو جائے گا کیونکہ اللہ کی طرح کوئی نہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو مجسمہ کہتے ہیں۔۔

لیکن اگر کوئی مودودی کی طرح جسم کا انکار کرے اور مقصد اس کے صفات ذاتیہ کا انکار ہو تو یہ بھی گمراہ عقیدہ ہے اور یہ معطلہ کا عقیدہ ہے۔۔ اور عام طور سے وہی لوگ جسم کا انکار کرتے ہیں جو صفات ذاتیہ کے منکر ہیں۔۔

علامہ سفارینی نے کہا : "قال الإمام أحمد رضي الله عنه : لا يوصف الله تعالى إلا بما وصف به نفسه ، ووصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم لا نتجاوز القرآن والحديث . وقال شيخ الإسلام ابن تيمية: مذهب السلف أنهم يصفون الله تعالى بما وصف به نفسه ، وبما وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم من غير تحريف ولا تعطيل ، ومن غير تكييف ولا تمثيل ، فالمعطّل يعبد عدما ، والممثل يعبد صنما ، والمسلم يعبد إله الأرض والسماء" انتهى من "لوامع الأنوار البهية" (1/24) .
ترجمہ: امام احمد نے کہا: اللہ کے بارے میں پم وہی کہیں گے جیسا اللہ نے اپنے بارے میں اور اسکے رسول نے اس کے بارے میں کہا ہے ۔ قرآن وحدیث سے پم تجاوز نہیں کریں گے۔۔ یہی بات ابن تیمیہ نے بھی کہی ہے مزید یہ کہ اللہ کی ذات وصفات میں کسی بھی قسم کی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل سے بچیں گے۔۔ چنانچہ معطل ایسی چیز کی عبادت کرتا ہے جو عدم یعنی کچھ نہیں ہوتا اور ممثل بت کی پوجا کرتا ہے۔۔

☀=اللہ تعالی مقام سے پاک ہے۔
✔تبصرہ: اسی طرح اللہ جل جلالہ کیلئے لفظ مقام یا مکان بھی کہیں وارد نہیں ہوا ہے۔۔ بلکہ یہ اصطلاح بھی جسم کی طرح بدعت اور فلاسفہ کا ایجاد کردہ ہے۔
چنانچہ معطلہ مکان کی نفی کرکے اللہ کے صفت علو اور استواء علی العرش کا انکار کرتے ہیں۔۔ اور یہی مقصد سید مودودی کا بھی ہے۔۔ کہ مکان کہہ کر اس سے مخلوق کی طرح سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ اس سے لازم آئیگا کہ وہ کسی چیز کا محتاج ہے اور مخلوق اسے گھیرے ہوئے ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ تو اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں ایسا سوچنا باطل ہے۔۔ ان ساری تشبیہات اور مفروضات سے اللہ پاک ہے۔۔

لیکن اگر عدم مکان سے مراد یہ لیا جائے کہ اللہ تمام مخلوقات سے فوق تر اور جدا ہے۔۔ کسی مخلوق سے ملا نہیں ہے۔۔ اور اس سے اللہ کی صفت علو اور فوقیت کو ثابت کرنا مقصد ہو تو ایسی صورت میں درست ہے۔۔

اسی کو ابن تیمیہ نے واضح کیا ہے جس کے سمجھنے سے عقل پرست قاصر رہے:
((فاذا لوا: إن الله فوق سماواته على عرشه بائن من خلقه، امتنع أن يكون محصوراً أو محاطاً بشيء موجود غيره، سواء سُمَّي مكاناً أو جهة أو حيزاً أو غير ذلك... فإن البائن عن المخلوقات ، العالي عليها : يمتنع أن يكون في جوف شيء منها.....
وإن أراد بمسمى الجهة والحيز والمكان : أمراً معدوماً، فالمعدوم ليس شيئاً، فإذا سَمَّى المُسَمِّي ما فوق المخلوقات كلها حيزاً وجهة ومكاناً، كان المعنى: أن الله وحده هناك، ليس هناك غيره من الموجودات: لا جهة ولا حيز ولا مكان، بل هو فوق كل موجود من الأحياز والجهات والأمكنة وغيرها، سبحانه وتعالى")) "درء تعارض العقل والنقل" (7/ 15-17).
اور مجموع فتاوی میں کہا:
((" السلف والأئمة وسائر علماء السنة إذا قالوا " إنه فوق العرش ، وإنه في السماء فوق كل شيء " لا يقولون إن هناك شيئا يحويه ، أو يحصره ، أو يكون محلا له ، أو ظرفا ووعاء ، سبحانه وتعالى عن ذلك ، بل هو فوق كل شيء ، وهو مستغن عن كل شيء ، وكل شيء مفتقر إليه ، وهو عالٍ على كل شيء ، وهو الحامل للعرش ولحملة العرش بقوته وقدرته ، وكل مخلوق مفتقر إليه، وهو غني عن العرش وعن كل مخلوق "))
"مجموع الفتاوى " (16/100-101) .

امام اہل السنہ امام شافعی نے کہا:
((" القول في السنة التي أنا عليها ، ورأيت عليها الذين رأيتهم ، مثل سفيان ومالك وغيرهما : الإقرار بشهادة أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، وأن الله على عرشه في سمائه ، يقرب من خلقه كيف شاء ، وينزل إلى السماء الدنيا كيف شاء ، وذكر سائر الاعتقاد")) .

✔الحافظ عبد الغني المقدسي نے کتاب العقیدہ (27) ، میں اور ابن قدامة نے إثبات صفة العلو (124-125) میں ، اور ابن تيمية نے " الفتاوى " (5/53-54، 139) میں ، اور ابن القيم نے " الجيوش "(59) میں اس مسئلے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مزید تسلی کیلئے علامہ ذہبی کی "مختصر العلو" بتحقيق الألباني (ص176)، اور انہیں کی کتاب العرش، ابن قیم کی اجتماع الجيوش الإسلامية اور ابن تیمیہ کی الفتاوی الحمویہ دیکھیں۔۔

☀=اللہ تعالی جہت سے پاک ہے۔
✔تبصرہ: اسی طرح لفظ حد اور جہت بھی ایجاد کردہ ہے۔۔ امام دارمی نے کہا:
((" والله تعالى له حد لا يعلمه أحد غيره ، ولا يجوز لأحد أن يتوهم لحده غاية في نفسه ، ولكن يؤمن بالحد ، ويَكِل علم ذلك إلى الله . ولمكانه أيضا حد ، وهو على عرشه فوق سماواته۔ فهذان حدان اثنان ")) "نقض الدارمي على بشر المريسي" (223-224) .

علامہ ابن ابی العز الحنفی نے عقیدہ طحاویہ کی شرح میں یہی لکھا ہے۔۔ دیکھیں: "شرح العقيدة الطحاوية" (1/263-264) .

اور شیخ ابن عثیمین نے جہت کے بارے میں کہا:
(("جاء في بعض كتب أهل الكلام يقولون: لا يجوز أن يوصف الله بأنه في جهة مطلقا، وينكرون العلو ظنا منهم أن إثبات الجهة يستلزم الحصر. وليس كذلك، لأننا نعلم أن ما فوق العرش عدم لا مخلوقات فيه، ما ثم إلا الله، ولا يحيط به شيء من مخلوقاته أبدا۔ فالجهة إثباتها لله فيه تفصيل، أما إطلاق لفظها نفيا وإثباتا فلا نقول به؛ لأنه لم يرد أن الله في جهة، ولا أنه ليس في جهة، ولكن نفصل، فنقول: إن الله في جهة العلو؛ لأن الرسول صلى الله عليه وسلم قال للجارية: (أين الله؟) وأين يستفهم بها عن المكان؛ فقالت: في السماء. فأثبتت ذلك، فأقرها النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: (أعتقها، فإنها مؤمنة) .
فالجهة لله ليست جهة سفل، وذلك لوجوب العلو له فطرة وعقلا وسمعا، وليست جهة علو تحيط به؛ لأنه تعالى وسع كرسيه السماوات والأرض، وهو موضع قدميه؛ فكيف يحيط به تعالى شيء من مخلوقاته؟! .
فهو في جهة علو لا تحيط به، ولا يمكن أن يقال: إن شيئا يحيط به، لأننا نقول: إن ما فوق العرش عدم ليس ثم إلا الله - سبحانه -" .
دیکھیں: "مجموع فتاوى ورسائل العثيمين" (10/ 1131) .
مفہوم: یعنی جہت کے انکار سے اگر اللہ تعالی کی صفت علو، فوقیت اور استواء علی العرش کا انکار مقصود ہو تو یہ باطل ہے۔ لیکن اگر اس سے کسی چیز میں محصور ہونے اور حلول ہونے کا انکار مقصود ہو تو صحیح ہے۔۔ البتہ مطلق طور پر بلا تشبیہ اور بلا حصر کے اسے ماننا بھی صحیح ہے کیونکہ لونڈی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا: اللہ کہاں ہے؟ تو لونڈی نے جہت فوق یعنی آسمان کی طرف اشارہ کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صحیح قرار دیا تھا۔۔

اور شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اسے اس ثابت کیا ہے :
(("يُقَالُ لِمَنْ نَفَى الْجِهَةَ: أَتُرِيدُ بِالْجِهَةِ أَنَّهَا شَيْءٌ مَوْجُودٌ مَخْلُوقٌ؟ فَاَللَّهُ لَيْسَ دَاخِلًا فِي الْمَخْلُوقَاتِ . أَمْ تُرِيدُ بِالْجِهَةِ مَا وَرَاءَ الْعَالَمِ؟ فَلَا رَيْبَ أَنَّ اللَّهَ فَوْقَ الْعَالَمِ مُبَايِنٌ لِلْمَخْلُوقَاتِ . وَكَذَلِكَ يُقَالُ لِمَنْ قَالَ : اللَّهُ فِي جِهَةٍ: أَتُرِيدُ بِذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ فَوْقَ الْعَالَمِ؟ أَوْ تُرِيدُ بِهِ أَنَّ اللَّهَ دَاخِلٌ فِي شَيْءٍ مِنْ الْمَخْلُوقَاتِ؟ فَإِنْ أَرَدْت الْأَوَّلَ فَهُوَ حَقٌّ ، وَإِنْ أَرَدْت الثَّانِيَ فَهُوَ بَاطِلٌ ")) .
"مجموع الفتاوى" (3/ 42) .

اسی لئے امام طحاوی نے کہا:
(("لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات")). یعنی اللہ تعالی کو مبتدعہ کے چھ جہتوں میں سے کسی نے بھی احاطہ نہیں کر رکھا ہے۔۔
علامہ ابن باز نے اس تعلیق لگاتے ہوئے کہا:
" مراده الجهات الست المخلوقة، وليس مراده نفي علو الله واستوائه على عرشه، لأن ذلك ليس داخلاً في الجهات الست، بل هو فوق العالم ومحيط به، وقد فطر الله عباده على الإيمان بعلوه سبحانه، وأنه في جهة العلو " .
ترجمہ: چھ جہات سے مراد آپ نے چھ مخلوق جہات کو لیا ہے ۔ اور یہاں اللہ تعالی کے علو وفوقیت اور استواء علی العرش کا انکار نہیں ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں مذکورہ مفروضہ چھ جہات میں سامل نہیں ہیں۔۔ بلکہ اللہ تعالی تمام عالم سے فوق تر اور اسے اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے۔۔
دیکھیں: "التعليقات الأثرية على العقيدة الطحاوية" (ص 16) بترقيم الشاملة .

✔خلاصہ کلام یہی ہے کہ یہ سارے اصطلاحات بعد کے فلاسفہ ومناطقہ کے ایجاد کردہ ہیں۔۔ جن کا مقصد ذات وصفات میں شکوک و شبہات ڈال کر انہیں یا تو کلی طور پر انکار کرنا یا انکی باطل تاویل کرکے مسلمانوں کا عقیدہ بگاڑنا ہے۔۔
چنانچہ جو سلف صالحین کی کتابیں نہ پڑھ کر یونانی فلسفہ علم کلام الہیات اور منطق کو پڑھنے پر اکتفا کیا وہ گمراہ ہوگئے۔۔

نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، احسن البیان وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582468924.jpg

FB_IMG_1550584003299.jpg
عامر عدنان

عامر عدنان

مشہور رکن
سید مودودی کا فاسد عقیدہ خود انہیں کی تحاریر کی روشنی میں
صفات فعلیہ کا انکار
فضلوا وأضلوا كثيرا کا نمونہ پیش کرتے ہوئے۔
✔《قسط پنجم》

☀اللہ سبحانہ وتعالی کے جو صفات فعلیہ ہیں جیسے اسکا رات کے آخری پہر میں آسمان دنیا پر نزول فرمانا، فرشتوں کے ساتھ حساب کیلئے آنا، اس کا ہنسنا اور کلام کرنا وغیرہ۔۔ اس طرح کے تمام صفات کے بارے میں بھی اہل سنت مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کہ انہیں ہم ویسے ہی مانیں گے جیسا اللہ جل شانہ کیلئے لائق اور مناسب ہے۔۔ ان میں ہم کسی طرح کی کوئی تاویل اور تحریف اور تکییف وتمثیل نہیں کریں گے۔۔۔ اس ذات قہار ذوالجلال کیلئے کوئی چیز محال نہیں ہے اور اس کا کوئی بھی فعل مخلوق جیسا نہیں ہے۔۔

☀لیکن مودودی نے دیگر صفات کی طرح ان صفات کا بھی انکار کر دیا ہے۔۔ چنانچہ سورہ فجر آیت نمبر 22 میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۔
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور تمہارا رب [خود] آجائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر [آ جائیں گے]۔

☀لیکن مودودی نے صفت مجیء کا انکار کرکے ترجمہ پہلے کچھ یوں کیا: ((اور تمہارا ربّ جلوہ فرما ہوگا))

☀پھر اس پر حاشیہ لگا کر کچھ یوں گل کھلایا:
((اصل الفاظ ہیں جاء ربک جن کا لفظی ترجمہ ہے ‘‘تیرا رب آئے گا’’۔ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کےایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، اس لیے لا محالہ اس کو ایک تمثیلی انداز بیان ہی سمجھنا ہو گا جس سے یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ اس وقت اللہ تعالی کے اقتدار اور اس کی سلطانی و قہاری کے آثار اس طرح ظاہر ہوں گے جیسے دنیا میں کسی بادشاہ کے تمام لشکروں اور راعیان سلطنت کی مد سے وہ رعب طاری نہیں ہوتا جو بادشاہ کے بنفس نفیس خود دربار میں آ جانے سے طاری ہو تا ہے۔))
تفہیم القرآن 6/ 333

☀مودودی نے پہلے رب العالمین کے آنے کا انکار کیا پھر ترجمہ غلط کیا اور پھر اپنی منطقی ناقص سوچ پر بھروسہ کرکے ہانکنا شروع کردیا۔۔ اور حدیث کی روشنی میں اس آیت کا وہ پس منظر نہیں بیان کیا اور نہ ہی اسکی طرف اشارہ ہی کیا جو شفاعت کبری کے وقت پیش آئے گا۔۔ کہ جب حساب کتاب لینے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول ہوجائے گی تو اللہ رب العالمین فرشتوں کی صفوں میں بندوں کا حساب لینے تشریف لائے گا۔۔ جیسا کہ بخاری ومسلم میں شفاعت والی لمبی حدیث مروی ہے۔۔

☀تفسیر ابن کثیر میں ہے:
قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ ”بالیقین اس دن زمین پست کر دی جائے گی اونچی نیچی زمین برابر کر دی جائے گی اور بالکل صاف ہموار ہو جائے گی پہاڑ زمین کے برابر کر دئیے جائیں گے، تمام مخلوق قبر سے نکل آئے گی، خود اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے کرنے کے لیے آ جائے گا “۔

☀یہ اس عام شفاعت کے بعد جو تمام اولاد آدم کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی اور یہ شفاعت اس وقت ہو گی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر علیہ السلام کے پاس ہو آئے گی اور ہر نبی کہہ دے گا کہ میں اس قابل نہیں، پھر سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ ”ہاں ہاں میں اس کے لیے تیار ہوں“۔

☀پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جائیں گے اور اللہ کے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگار لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے تشریف لائے یہی پہلی شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا مفصل بیان سورۃ سبحان میں گزر چکا ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین فیصلے کے لیے تشریف لائے گا اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتا ہے، فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے جہنم بھی لائی جائے گی۔

☀مودودی نے کہا: ((اللہ تعالی کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا))
مودودی نے اتنی جسارت سے یہ کہہ کر کیا صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا انکار نہیں کیا جس میں آتا ہے کہ اللہ تعالی ہر رات آخری پہر میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔۔ ؟؟!

☀کیا اگر ایک کم عقل انسان کے دماغ میں جو بات نہ آئے اس کا یہی طریقہ ہے کہ اس کا انکار کردیا جائے؟؟!

☀فتاوی لجنہ دائمہ میں نزول باری تعالی کے تعلق سے پوچھے جانے پر یہ فتوی دیا گیا:
اللہ تعالی نے اپنے لئے بیک وقت دو صفت کا ذکر کیا ہے ایک عرش پر مستوی ہونے کا اور دوسرے آسمان دنیا کی طرف نزول فرمانے کا۔۔ دونوں صفت میں کوئی تعارض نہیں ہے۔۔ کیونکہ بیک وقت دونوں اللہ کے لئے کچھ بھی محال نہیں ہے۔۔ جبکہ انسان کیلئے یہ محال ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے وقت وہ دونوں جگہ باقی رہے ۔۔ لہذا انسان کی طرح سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ بلکہ اللہ تعالی کیلئے سب کچھ ممکن ہے جیسا کہ اسکی شان ہے۔۔ وہ فعال لما یرید۔۔ علی کل شیء قدیر ہے۔۔ اس نے اپنے بارے میں کہہ دیا: (فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ) ، اس لئے ہم اسی بقول کہیں گے: (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)،
دیکھیں: "فتاوى اللجنة الدائمة" (3/ 186) .

☀اور اسی طرح شيخ ابن باز رحمه الله نے بھی کہا:" نزول الرب جل وعلا لا يشابه نزول المخلوقين، بل هو نزول يليق بالله سبحانه وتعالى، لا يعلم كيفيته إلا هو جل وعلا، ولا يلزم منه خلو العرش، هو فوق العرش سبحانه وتعالى، فوق جميع الخلق، وينزل نزولا يليق بجلاله، لا ينافي فوقيته وعلوه سبحانه وتعالى، فهو نزول يليق به جل وعلا، وهو الذي يعلم بكيفيته سبحانه وتعالى، فعلينا أن نؤمن بذلك، ونصدق بذلك، ونقول: لا يعلم كيفية هذا إلا هو سبحانه وتعالى " .
دیکھیں: "فتاوى نور على الدرب" (10/ 131) .

☀نزول الہی پر ایک کتاب (صفة النزول الإلهي ورد الشبهات حولها.) تأليف: عبد القادر بن محمد بن يحي الغامدي . ہے ۔ یہ اپنے باب میں بہت ہی نفیس اور مفید کتاب ہے۔۔ فلاسفہ۔ منکرین صفات اور عقل پرستوں کے تمام شبہات کا جواب بڑی خوش اسلوبی سے دیا ہے۔۔
اس کتاب کو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں:
http://www.moswarat.com/books_view_1219.html

نوٹ: تفہیم القرآن پوری کی پوری رائے اور عقل پر مبنی ہے۔ اسے تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ اس میں قرآن کی تفسیر احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں نہ کرکے عقل ومنطق اور تاریخی کتابوں کے حوالے خاص کر زبور وتورات اور اناجیل کی روشنی میں تفسیر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں تاریخ پر بھروسہ کرکے بخاری جیسی کتابوں کی حدیثوں کا انکار کیا گیا ہے۔۔ اس لئے اس گمراہ کن تفسیر سے بچنا چاہئیے ۔ تفسیر کی وہ کتابیں پڑھنی چاہئیے جو تفسیر بالماثور ہوں۔ جن میں تفسیر قرآن کی آیتوں حدیثوں، صحابہ وتابعین کے اقوال کی روشنی میں کی گئی ہو جیسے تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر اضواء البیان اور تفسیر سعدی، احسن البیان وغیرہ۔۔
FB_IMG_1550582468924.jpg

FB_IMG_1550740736090.jpg

FB_IMG_1550740744672.jpg
کیا کچھ خوف خدا بھی ہے کہ نہیں اور کیا یہ احساس بھی ہے کہ نہیں یہ تحریر بھی آپ کے نامہ اعمال کا حصہ ہوگی اور وہاں آپ اس الزام کی تلافی کیسے کریں گے؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے تعصب اور شخصیت و مسلک پرستی سے محفوظ رکھے آمین۔
ہابیل

ہابیل

سینئر رکن
جزاک اللہ عدنان بھائی
باقی جن کے گلے میں تقلید کا پٹہ ہو ان کو کیا سمجھا یا جاسکتا ہے؟

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...