فہم سلف کی ضرورت واہمیت
بقلم: د/اجمل منظور المدنی وکیل جامعۃ التوحید، بھیونڈی
*فہم سلف کی ضرورت کیوں ہے؟ سب سے پہلےہمیں یہ یقین کر لینی چاہیے کہ جو بھی شخص سلف صالحین کے فہم سے اعراض کرکے اپنی عقل و فہم کے مطابق نصوص کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ رشد و ہدایت کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا، اور صراط مستقیم پر اس کا قدم نہیں جم سکتا۔ لیکن کچھ لوگوں کا اشکال ہے کہ ہمیں صرف کتاب وسنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے پھر ہمیں فہم سلف یعنی فہم صحابہ کے اقوال وافعال اورانکے فتاوے کی یعنی انکے فہم کی ضرورت کیوں؟ یہ اشکال در اصل قلت علم اور اسلامی اصول وقواعد سے تغافل کا ثمرہ اور نتیجہ ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہمیں صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن کتاب و سنت پر عمل کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب و سنت کو صحیح طور سمجھنا اور شریعت کے اسرار و مقاصد کو جاننا ضروری ہے، تب ہی ہم کتاب و سنت پر عمل کرسکتے ہیں۔ اب قدرتی طور پر یہاں سوال اٹھے گا کہ کتاب و سنت اور شریعت کو سلف نے یعنی صحابہ نے بہتر سمجھا ہے جنہوں نے بلا واسطہ شارع اسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کو سیکھا اور سمجھا ہے یا بعد والوں نے؟ تو کوئی بھی مسلمان یہ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا کہ بعد والوں کا فہم یا خود اس کا فہم صحابہ کے فہم سے بہتر ہے۔ تو جب یہ اتفاقی مسئلہ ہے کہ سلف ہم سے زیادہ کتاب و سنت کو سمجھنے والے تھے تو پھر سلف کے فہم کو چھوڑ کر اپنی عقل و فہم کے مطابق کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کیوں کی جائے؟!بطور خاص جب شریعت کے فہم وتفہیم اور اسکی دعوت میں صحابہ کرام ہی کو اسوہ اور آئیڈیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ *فہم سلف سے کیا مراد ہے؟ فَہم سلف، دو الفاظ سے مرکب ہے۔ ضروری ہے کہ ہر ایک کی علیحدہ وضاحت کی جائے پھر بطور اصطلاح مفہوم پیش کیا جائے۔ فہم کی وضاحت: عربی زبان میں معلومات کے ادراک کیلئے مختلف مراتب ہیں۔ ان میں سے ایک خاص مرتبے کا نام فہم ہے۔ جیساکہ صاحب ’’لسان العرب‘‘ کے مطابق، فہم سے مراد :مَعْرِفَتُكَ الشَّيْءَ بِالْقَلْبِ. ’’دل سے کسی چیز کو جان لینا ’’فہم‘‘کہلاتا ہے۔‘‘ لسان العرب :12/ 459۔ گویا عمومی علم کی بہ نسبت ’’فہم‘‘ ایک خاص درجے کی سمجھ بوجھ کا نام ہے۔ حضرت داؤد کی عدالت میں فریقین کا ایک مقدمہ پیش ہوا۔ مقدمے کا علم حضرت داؤد اور حضرت سلیمان دونوں کو ہی تھا۔ لیکن احوال و قرائن سے خاص فہم حضرت سلیمان کو نصیب ہواجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:[فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ] ’’ہم نے وہ فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔‘‘[الانبیاء: 79]۔حضرت سلیمان جو اس قضیے کی تہ تک پہنچے اور فیصلہ کیا، اسے اللہ تعالیٰ نے ’’فہم‘‘ کہا۔ اور ساتھ ہی فرمایا: [وَ كُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًاٞ] ’’ قوت فیصلہ اور علم ہم نے ہر ایک کو عطا کر رکھا تھا۔‘‘[الانبیاء: 79]۔ امام ابن حجرنے ’’فہم ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے کہا: فالفهم فطنة يفهم بها صاحبها من الكلام ما يقترن به من قول أو فعل. ’’ فہم سے مراد ایسی سمجھ بوجھ ہے جس کے ذریعے انسان کلام میں سے وہ سب کچھ سمجھ جاتا ہے جو اس کے ساتھ کوئی بات یا عمل منسلک ہوتا ہے ۔‘‘ فتح الباري لابن حجر :1/ 165۔ گویا احوال و ظروف کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کلام کے درست مفہوم اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کو فہم کہا جاتا ہے اور یہ علم کا ایک خاص درجہ ہے۔ سلف کا مفہوم: عربی زبان میں لفظ سَلَفَ گزرنے اور ماضی میں ہونے کا مفہوم دیتا ہے۔ پہلے گزرے ہوئے کو سَالِفٌ کہتے ہیں۔ اور اس کی جمع سَلَف ہے۔ لغوی طور پر پہلے گزرے ہوئے لوگ سَلَف ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ اچھے ہوں یا برے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کی غرقابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:[ فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا] ’’ہم نے انہیں قصۂ ماضی بنا دیا۔‘‘[الزخرف: 56]۔ جو کام ماضی میں ہو چکا ہو، اس کے لیے سَلَفَ کا لفظ قرآن مجید میں متعدد بار مستعمل ہے؛ملاحظہ ہو: النساء: 22،23، المائدہ: 95، الانفال: 38۔ سَلَف کا اصطلاحی مفہوم:سلف کے اصطلاحی مفہوم میں تین معتبر اقوال ہیں: - اس سے مراد صرف صحابۂ کرام ہیں۔ عہد تابعین میں صحابۂ کرام کو ہی سَلَف کہا جاتا تھا۔ عبداللہ بن مبارک برسر عوام کہا کرتے تھے: دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ ؛ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ.’’عمرو بن ثابت کی روایت کردہ احادیث ترک کر دو،کیونکہ یہ سلف پر سب وشتم کیا کرتا تھا ۔‘‘یہاں سلف سے مراد صحابہ کرام ہی ہیں ۔ مقدمہ صحیح مسلم ،باب الاسناد من الدین۔ - بعض اہل علم کے نزدیک سلف سے مراد صحابہ اور تابعین ہیں۔ تفصیل کیلئے دیکھیں: ترتیب المدارک، لقاضی عیاض2 /93، بحوالہ : فهم السلف الصالح للنصوص الشرعیہ، للدکتورعبدالله بن عمرالدُّمیجی:32 - اکثر اہل علم کے نزدیک سَلَف سے اصطلاحی طور پر صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین ییں۔ تفصیل کیلئے دیکھیں: التحف من مذاهب السلف، شوکانی:7 - 8 بحوالہ: فهم السلف للدمیجی:32۔ سلف کا راجح مفہوم: سلف صالحین کے تحت گرچہ صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین تینوں داخل ہیں مگر حجیت اور استدلال کے اعتبار سے سلف کا اطلاق صرف صحابہ کرام ہی پر ہوتاہے۔ حجیت کےلحاظ سے فہم سلف کی درجہ بندی : - سلف صالحین انفرادی حیثیت سےنہ معصوم ہیں اورنہ ہی حجت۔ان کاانفرادی فہم اوررائے بشری تقاضوں میں مقید ہے۔ یہ ہوسکتاہےکہ کوئی آیت یاحدیث ان میں سےکسی فرد کےعلم میں ہی نہ ہواوراس بناپراس کے خلاف کوئی رائے یافتویٰ دےدیاہواورشاذرائے،بلکہ حدیث رسول کے خلاف کوئی رائے اپنائی ہو۔ان تمام صورتوں میں ان کے بارے حسن ظن اورمکمل احترام کےساتھ ان سے اختلاف رائے کیاجاسکتاہے۔ ان صورتوں میں اسے فہم سلف نہیں کہاجاتا، کیونکہ لفظ ’’سلف‘‘جمع ہے،اس سےمراداسلاف کی جماعت ہےنہ کہ فردواحد،انفرادی رائےبعض سلف کاانفرادی فہم ہے،’’فہم سلف‘‘نہیں ہے۔ - شرعی نصوص سے اللہ اوراس کے رسول کی مرادمتعین کرتےہوئےجب سلف صالحین کسی ایک فہم پرجمع ہوجائیں اورسب کےاقوال یاافعال یاتقریرات ایک متعین مفہوم پردلالت کررہےہوں تویہ ’’فہم سلف‘‘ہے۔اسے قبول کرنا،اس کی پابندی کرناضروری ہےاوریہ حجت ہے۔کیونکہ وہ درحقیقت مرادالٰہی کی تعیین ہےاورحکم نبوی ﷺ کی نشان دہی ہے۔ فهم السلف الصالح للنصوص الشرعیہ:48 -نص شرعی کےمفہوم میں سلف کااتفاق ہوتویہ صورت بلاشبہ قطعی حجت کےدرجےمیں ہے۔ اگر اتفاق تونہ ہو،لیکن کسی ایک کاایسامشہورقول ہوجسےاس دورمیں قبول عام حاصل ہوگیااورکسی دوسرے سے کوئی مخالف رائےثابت نہ ہوتوجمہورعلماءکےنزدیک یہ بھی حجت اوراجماع ہے۔ اعلام الموقعین :4/104، مزید تفصیل کیلئے دیکھیں: فتاویٰ ابن تیمیہ ،14/20 *فہم سلف کی اہمیت: قرآن مجید میں سینکڑوں آیات مبارکہ صحابہ کرام کی فضیلت بتا رہی ہیں ،ان سے جس طرح صحابہ کر۱م کے کردار کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے ان کے علم کا تزکیہ بھی از خود مترشح ہوتا ہے۔ کیونکہ علم ہمیشہ عمل سے مقدم ہوتا ہے، جب علم درست ہو تو عمل بھی درست ہوتا ہے ، علم ہی غلط ہو تو عمل کیسے درست ہو سکتا ہے ؟۔صحابہ کرام کے لیے مفلحون،مخلصون،صادقون،کتب فی قلوبہم الایمان،ألزمہم کلمة التقوی،رضوان کے سرٹیفکیٹس محض لفظی فضائل نہیں ہیں ،بلکہ ان کے اعمال و افکار اور علم وعمل کا تزکیہ بھی ہیں ۔بلکہ صحابہ کرام کے ایمان کو معیار قرار دینا خود ان کے عقائد تک کا ربانی سرٹیفکیٹ ہے۔ان میں سے صرف ایک آیت پیش خدمت ہے: [وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًا ][النساء:115]’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول اللہﷺ کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘ اس آیت میں ان لوگوں کی اتباع کوثابت اور مخالفت کو ممنوع قرار دیا جارہا ہے ۔ ان کی اتباع اور مخالفت دونوں کی بنیادفہم ہی ہے۔ان کافہم حجت نہیں ہوگا تو ان کی اتباع کیونکر ہوگی ؟ احادیث مبارکہ میں بھی جابجا صحابہ کرام کے علم وفکر اور عقیدہ وعمل کے مناقب درج ہیں: فرقہ ناجیہ کی وضاحت کرتےہوئےرسول اللہﷺ نےفرمایا:وتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي.’’اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے“۔جامع ترمذی:2641 رسول اللہ ﷺ صرف اتنا فرما دیتے : ما أنا عليه’’وہ راستہ و منہج جس پر میں ہوں‘‘ تو کافی تھا، لیکن آپ نے فرمایا: ما أنا عليه وأصحابي ’’جس راہ پر میں خود ہوں اور میرے صحابہ‘‘ ۔اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کے وہ مُسلّمات جو صحابہ کے ہاں قائم ہو گئے اور حق و باطل کی جو بنیادیں اور نصوص وحی سے استدلال کے جو اصول ان کے دور میں قائم ہو گئے، بعد والے خصوصاً اختلاف و تفرقہ کے ادوار سے وابستہ لوگ انہی بنیادوں، انہی مُسلّمات اور انہی اصولوں کو اپنانے اور انہی پر کاربند رہنے کے پابند ہیں۔ خود صحابہ کرام وتابعین عظام سےبھی سلف کی اتباع واقتداکےبارےمیں کثرت سےآثارمنقول ہیں ،ان سےچندمندرجہ ذیل ہیں۔ - سیدنا ابن مسعود کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے قابل ہے : مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُتَأَسِّيًا فَلْيَتَأَسَّ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فَإِنَّهُمْ كَانُوا أَبَرَّ هَذِهِ الْأُمَّةِ قُلُوبًا وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا وَأَقْوَمَهَا هَدْيًا وَأَحْسَنَهَا حَالًا، قَوْمًا اخْتَارَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاعْرِفُوا لَهُمْ فَضْلَهُمْ وَاتَّبِعُوهُمْ فِي آثَارِهِمْ؛ فَإِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ. ’’جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں، کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ (جو فوت ہو گئے ہیں اور جن کی پیروی کرنی چاہیے) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہیں، جو اس اُمت کے بہترین لوگ تھے، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺکی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے منتخب کیا تھا، لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقشِ قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو، (اس لیے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔‘‘ جامع بيان العلم وفضله لابن عبدالبر (2/ 947): 1810،اس کی سندمیں اگرچہ ضعف ہے،تاہم معنی درست اورطےشدہ ہے۔ حضرت ابنِ مسعودکا یہ قول فہم سلف کا ٹھیک ٹھیک مقام متعین کرتا ہے کہ دین کی تعبیر میں جب آپ یہ فیصلہ کرنا چاہیں کہ صحابہ کرام کے پیچھے چلوں یا کسی معاصر مفکر کی تقلید کروں ؟تو صحابہ کا دامن تھام لینا ۔ - سیدنا ابن عباس نے خوارج سے مناظرہ کرتے ہوئے ،فہم سلف کو بطور مقدمہ پیش کیا :أتيتُكم من عِندِ صحابةِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم من المهاجِرين والأنصارِ لأُبَلِّغَكم ما يقولون وتُخبروني بما تقولون، فعليهم نَزَل القرآنُ وهم أعلَمُ بالوحي منكم، وفيهم أُنزِلَ، وليس فيكم منهم أحَدٌ.’’میں تمہارے پاس انصار و مہاجرین کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔ تاکہ میں تمہیں ان کا موقف پہنچا سکوں ،اور تم میرے سامنے اپنا موقف رکھ سکو۔(سنو ! ) اُن کی موجودگی میں قرآن مجید نازل ہوا،اور وہ اس کی تفسیروتاویل کا تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اور تم میں سے کوئی شخص بھی صحابی نہیں ہے۔‘‘ سنن بیہقی :۱۷۱۸۶ - مسجد میں مخصوص اجتماعی ذکر کی مجلس منعقد کرنے والوں کا رد کرتے ہوئے ابن مسعودنے فرمایا: إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ ’’ تم یا تو محمد ﷺ کی جماعت سے زیادہ ہدایت یافتہ بنناچاہتےہو یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو؟! سنن الدارمی : 210 *فہم سلف کی اہمیت پرتاریخی وعقلی شواہد: -تاریخی لحاظ سے اہمیت:صحابہ کرام کے پاس روحانی اور لغوی وتاریخی لحاظ سے علم دین کے وہ تمام اسباب مجتمع ہوگئے تھے جن کا بعد کے لوگوں کو عشر عشیر بھی میسر نہیں ۔مجموعی طور پر جو صحابہ کے عمل اور بعد والوں کے عمل میں تفاوت ہے وہی ان کے فہم میں بھی من حیث الجماعہ تفاوت ہے۔بلکہ غیبیات کے متعلق ان کے ارشادات کو مرفوع حکمی کا درجہ حاصل ہے ۔ -ملاوٹ سے محفوظ خالص فہم:سلف کافہم خالص قرآن وسنت کی عبارات پرمبنی ہوتاہے۔ اس میں نہ فلسفہ کی موشگافیاں ہیں ،نہ تحریف وتاویل،نہ غیراسلامی نظریات کی آمیزش اور نہ ہی درآمدشدہ افکارکی ملاوٹ ہے ۔سلف کاذہنی سانچہ خالصتاً قرآن وسنت میں ڈھلاہواتھا،اس لیے وہ اہم ہے، بعدوالےلوگوں کےفہم میں یہ چیز یں عموماًجمع نہیں ہوتیں ۔ -اخلاص پرمبنی فہم:سلف کافہم اخلاص پرمبنی تھا۔نہ اس میں سیاسی مفادات تھے،نہ جماعتی تعصبات ،نہ گروہ بندی کےاسیرتھے،نہ فرقہ واریت کےقیدی ،نہ انہیں دنیاکی کوئی متاع عزیزتھی،نہ ہی کوئی تعلق،انہوں نے جو سمجھا پورے خلوص سے سمجھا اورسمجھایا۔ بعد والوں کے فہم میں یہ اخلاقی قدریں اس درجےپر نہیں ملتیں ۔ - تعلق باللہ اورخاص ایمانی بصیرت:تعبیردین میں تقویٰ ،للہیت،تعلق باللہ ،تہجد،اذکار،رزق حلال،پابندی شریعت کابھی بڑاعمل دخل ہوتاہے۔یہ چیزیں جس درجےمیں خیرالقرون میں پائی جاتی تھیں ،بعدکےادوارمیں اس درجےکی نہیں ہیں۔اس وجہ سے جوسلف کے فہم میں معیارہےوہ بعدکےلوگوں میں نہیں ہے۔ - فصاحت قرآنی کاتقاضا: فہم سلف کی اہمیت اس زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ سفر و حضر میں نبی مکرمﷺکے ساتھ رہنے والے ، نزول ملائکہ کا مشاہدہ کرنے والے، آیات کی تنزیل کا مصداق بننے والے صحابہ کرام ہی اگر کسی آیت کو سمجھ نہیں پائے تو پھر کیا بعد میں آنے والے اسے زیادہ اچھی طرح سمجھ لیں گے؟! -گمراہی اوربدعات سےحفاظت کی ضمانت: فہم سلف چونکہ قرآن وسنت کی صحیح تعبیرہی کادوسرانام ہے۔اس لیےیہ گمراہی سے حفاظت کی ضمانت فراہم کرتاہے،یہ انسان کوبدعات سےبچاتاہے۔ کیونکہ جن کو سکھانےکےلیے جبریل انسانی شکل میں آسمان سےنازل ہوتے رہےاورپیغمبراسلام خودان کی تربیت کرتے رہے، بھلاان سے بھی بہترکسی کاعقیدہ ہوسکتاہے؟! یہی وجہ ہے کہ مقام صحابہ کرام اور ان کے درجات اوران سب کے متعلقہ نصوص کو سمجھنے میں جتنے بھی گم راہ فرقوں نے گم راہیاں ایجاد کیں ،سب کی بنیادی وجہ فہم سلف سے دوری ہے۔شرک کی دلدل میں وہی لوگ جا گرے جنہوں نے توحید وشرک سے متعلق آیات بینات کو سلف کی راہ سے ہٹ کر سمجھا ۔کسی نے عقل کو معیار بنایا ،کسی نے چند مخصوص اہل بیت کو فہم نصوص میں حرف آخر سمجھا، اور کسی نے اپنے اپنے اکابر تراش لیے ،اور کچھ تجددپسندوں نے اپنی خود ساختہ ،تحریف پر مبنی ،جدیدیت سے مرعوب غلامانہ ذہنیت کو ہی خالص قرآن کا نام دے ڈالا۔ ان سب اندھیروں میں اہل السنہ نے ہی ایک قندیل روشن کی۔خوارج ،روافض،معتزلہ،قدریہ اورجہمیہ نیزدیگر گمراہ فرقوں نے تبھی جنم لیا،جب انہوں نےصحابہ کے فہم سے دوری اختیارکی اورسبیل المؤمنین سے اپناراستہ الگ کرلیا۔ *فہم سلف کی ضرورت کیوں؟ ۱-کیونکہ سلف صالحین سب سے زیادہ پاکیزہ سيرت و کردار کے مالک، گہرے علم کے حامل اور دلوں میں سب سے زیادہ اخلاص و للہیت رکھنے والے تھے۔ ۲-کیونکہ انھیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی معیت میں انھوں نے جہاد کیا اور آپ کی سیرت طیبہ کو قریب سے جانا پہچانا۔ ۳-کیونکہ اللہ تعالی نے انھیں اپنے نبی پاک کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا۔ ۴-کیونکہ اللہ تعالی نے بہت ساری آیات کے اندر ان سلف صالحین کا تزکیہ فرمایا ہے اور ان کی تعریف و توصیف بیان کی اور ان سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان کیا ہے۔ ۵-کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اتباع اور اقتدا کاحکم دیا ہے۔ ۶-کیونکہ ان سلف صالحین نے دین میں کوئی نئی چیز نہیں ایجاد کی نیز ان کا اجماع بھی قطعی حجت اور دلیل ہے۔ ۷-کیونکہ وہ اس امت کے افضل ترین لوگ اور نصوص شریعت کی سب سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے تھے۔ ۸-کیونکہ قرآن کی تفسیر اور قرآن کی زبان کے متعلق سب سے زیادہ علم و معرفت رکھنے والے تھے۔ ۹-کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا کہ فرقہ ناجیہ (نجات پانے والی جماعت) وہ ہے جو رسول پاک اور ان کے صحابہ کرام کے طریقہ پر کاربند ہوگی۔ *فہم سلف کے مطابق قرآن و سنت کو سمجھنے کے فوائد و ثمرات: ۱-قرآن و سنت اور سلف صالحین کے اجماع کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہنے سے ایک مسلمان اختلاف و انتشار اور مختلف آراء و اجتہادات کے تضاد سے محفوظ رہتا ہے۔ ۲-شرعی دلیل پر سلف صالحین کے عمل و فہم پر غور و فکر کرنے سے استدلال کی صحت و صداقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کیونکہ سلف صالحین کے کسی دلیل کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے اس دلیل میں کسی احتمال کا کوئی شائبہ باقی نہیں رہتا اور دیگر اشکال بھی دور ہو جاتے ہیں۔ امام شاطبی نے کہا: شرعی دلیل پر غور و فکر کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دلیل کے متعلق سلف صالحین کے فہم اور ان کے عمل کو سامنے رکھے۔ اس لیے کہ ان کا فہم و عمل زیادہ درست اور علم و عمل کے لیے زیادہ مناسب و پائیدار ہے۔(الموافقات:۳/۷۷) ۳-سلف صالحین کے فہم و عمل پر چلنے سے انسان غلط اور باطل قول و عمل میں پڑنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اس لیے کہ سلف صالحین نے جن چیزوں میں خاموشی اختیار کی ہے اور بعد کے لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے تو اس میں خاموشی ہی زیادہ لائق اور مناسب تھی۔ ۴- اس سے بدعت و گمراہی کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس لیے کہ بعض گمراہ فرقے اپنے مذہب کی حمایت اور بدعات کی تائید کے لیے نصوص شریعت میں تحریف کرتے ہیں۔ جب کہ ان نصوص کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کا فہم ہی فیصل اور برحق ہے۔ یہی وجہ ہےکہ جب فہم نصوص میں صحابہ کا قول پیش کیا جاتا ہے تو اہل بدعت کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ۵-مخالف کو جواب دینے کے لیے سلف صالحین کے فہم کا استعمال: چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے خوارج سے مناظرہ کے وقت کہا تھا: میں تمھارے پاس صحابہ رسول کے پاس سے آ رہا ہوں اور تمھارے درمیان کوئی بھی ان میں سے موجود نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن انھی پر نازل ہوا ہے اور وہی اس کی تفسیر کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں۔(جامع بيان العلم:۲/۱۲۷) دارقطنی کی روایت ہے، عباد بن العوام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے پاس شریک تشریف لائے تو ہم نے ان سے کہا: ہمارے یہاں کچھ معتزلہ کے لوگ ان احادیث کا انکار کرتے ہیں:«إن الله ينزل إلى السماء الدنيا» و «إن أهل الجنة يرون ربهم» انھوں نے جواب دیا: رہی ہماری بات تو ہم نے اپنا دین تابعین کی نسل سے اور تابعین نے صحابہ کرام سے اخذ کیا ہے۔ بھلا بتاؤ ان لوگوں نے یہ دین کہاں سے حاصل کیا ہے؟(كتاب الصفات للدارقطنی ص۴۳)