😈نعوذ باللہ صحابہ کی سود خوری اور ان کے اندر پائی جارہی دیگر رافضی مزعومہ برائیوں کو احد کی شکست کی وجہ بتائی ہے اس مودودی نے جو کہ خالص رافضی تفسیر ہے۔ وہ رافضی جو صحابہ کرام پر سب وشتم کرتے ہیں۔ اور یہی تفہیم القرآن ہے جسے ہر تحریکی پڑھنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اور بخاری ومسلم سے کہیں زیادہ اس رافضیت زدہ کتاب کی اہمیت دیتا ہے۔
جبکہ اسی قرآن میں واضح ہے کہ حکم رسول کی مخالفت کی وجہ سے یہ شکست ہوئی تھی۔
◀️مودودی نے جس سوسائٹی پر رافضی نشتر چلائی ہے یہ وہ معاشرہ ہے جسکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 16 برسوں تک تربیت کی تھی۔ ان کا تزکیہ کیا تھا۔ یہ ان صحابہ کی سوسائٹی تھی کہ احد سے پہلے بدر ہی میں آپ سے انہوں نے کہا تھا کہ کافروں سے لڑنے کیلئے دریا پار بھی کہیں گے تو ہم وہاں بھی جائیں گے۔ اس پاکیزہ معاشرے پر آخر رافضی شیعہ کے ایسا تبصرہ کوئی کر سکتا ہے کہ جس معاشرے کے اندر سود خوری ہو۔ حرص وطمع۔ بخل اور خود غرضی ہو نفرت غصہ بغض اور حسد ہو ۔
👈یہ ہے مودودیت کی رافضیت کا اصلی چہرہ!!!
حاشيہ نمبر199
◀️آخر یہ کیا ہے؟
16 سالوں کی نبوی تربیت کے بعد کیا یہ برائیاں اس معاشرے میں تھیں جو احد میں شکست کا سبب بنیں؟ یا شکست کی وجہ وہ ہے جسکی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا؟
سورہ آل عمران آیت نمبر 152
152 نمبر آیت کا ترجمہ جس میں شکست کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعده سچا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی، اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی، تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا اراده آخرت کا تھا تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا اور ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ بڑے فضل واﻻ ہے۔
[[جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو تیر اندوزوں نے حکم عدولی کی اور وہ اپنی جگہ کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آ ملے اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا صفوں کا کوئی خیال نہ رہا درے کو خالی پا کر مشرکوں نے بھاگنا بند کیا اور غور و فکر کر کے اس جگہ حملہ کر دیا، چند مسلمانوں کی پیٹھ کے پیچھے سے ان کی بے خبری میں اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم نہ جم سکے اور شروع دن کی فتح اب شکست سے بدل گئی اور یہ مشہور ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہو گئے اور لڑائی کے رنگ نے مسلمانوں کو اس بات کا یقین بھی دلا دیا، تھوڑی دیر بعد جبکہ مسلمانوں کی نظریں چہرہ مبارک پر پڑیں تو وہ اپنی سب کوفت اور ساری مصیبت بھول گئے اور خوشی کے مارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکے آپ ادھر آ رہے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت غضب نازل ہو ان لوگوں پر جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو خون آلودہ کر دیا، انہیں کوئی حق نہ تھا کہ اس طرح ہم پر غالب رہ جائیں۔]]
◀️وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ۔
اوپر مذکورہ ترجمہ اسی آیت کا ہے:
اس میں یہ اس جملے کو پڑھیں:
حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم
تین چیزیں ہیں:
تم شکست کھا گئے۔
تم نے مال غنیمت کے مسئلے میں اختلاف کیا
اور رسول کی نافرمانی کی۔
تشریح یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جن پچاس صحابہ کو جبل رماة پر لگا رکھا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو فتح مل چکی ہے کفار میدان چھوڑ چکے ہیں اور لوگ مال غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں تو ان صحابہ نے سوچا کہ اب ہمیں بھی میدان میں جانا چاہئیے لیکن انکے امیر نے منع کیا کہ جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم نہیں ملتا جگہ نہیں چھوڑنا ہے لیکن انہون نے امیر کی بات نہیں مانی اس طرح رسول کے حکم نافرمانی ہوئی اور اس اہم پوائنٹ کو چھوڑ کر چلے گئے پھر کفار نے اسی راستے سے آکر حملہ کیا اور جنگ کی حالت بدل گئی یعنی جیتی ہوئی جنگ شکست مین تبدیل ہو گئی۔
اسی کو اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ آپسی اختلاف اور رسول کی نافرمانی کی وجہ سے جنگ ہاری گئی۔
اور یہ پیغام ملا کہ جنگ میں آپسی اختلاف اور کمانڈر کے حکم کی نافرمانی شکست کا سب سے بڑا سبب ہے۔
اور یہی دو نمایاں سبب تمام مفسرین نے بیان کیا ہے۔
تفسیر میں ابن کثیر اور تاریخ میں الرحیق المختوم کو دیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن مودودی مذکوہ اسباب بتا کر رافضیوں کیلئے سب وشتم اور صحابہ کرام پر جرح کرنے کا بہت بڑا مواد فراہم کردیا ہے۔
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق