الجمعة، 19 أكتوبر 2018

💥خذ ما صفا ودع ما کدر: ایک مغالطے کا ازالہ💥

✍ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
 علامہ ابن درید لغوی نے اپنی مشہور لغت کی کتاب جمہرة اللغة کے اندر (کدر) کا معنی بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ کدر یہ صفو کا ضد ہے کہا جاتا ہے : کدر الماءیکدر کدراً وکدوراً وکدرةً۔ یعنی پانی کے گندلا ہوجانے کیلئے کدر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اسی سے عربوں کا مشہور محاورہ ہے: خذ ما صفا ودع ما کدر۔ چنانچہ لغوی اعتبار سے پتہ چلتا ہے کہ پانی اصلاً صاف ہوتا ہے البتہ اس میں گردوغبار آجانے سے گندلا ہوجانے پر بولا جاتا ہے : صاف پانی گندلا ہوگیا ۔ اسی طرح اگر خوشیوں سے پرکیف فضا اور ماحول کو کوئی کچھ غلط بات کرکے ماحول بدل دے تو بولا جاتا ہے کہ اس نے ماحول مکدر کردیا۔ 
عباسی شاعر کشاجم نے کہا: 
خذ من زمانک ما صفا  ودع الذی فیہ الکدر
فالدہر أقصر من معا تبة الزمان علی الغِیَر
ترجمہ: اپنے زمانے کی اچھی باتیں لے لو اور جس کے اندر خرابی آگئی ہو اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ زمانہ اب غیرت واقدار پر ملامت کرنے میں بہت پیچھے ہے۔ یعنی خود ہی سنبھل سنبھل کر قدم رکھو کیونکہ خیرخواہوں کا زمانہ جاتا رہا۔
عثمانی شاعر ابن علوی الحداد نے کہا: 
خذ ما صفا ودع الکدر  وکلِ الأمورَ إلی القدر
ترجمہ: اچھی چیزیں لے لو اور خراب چیزیں چھوڑ دو اور تمام معاملات کو تقدیر کے حوالے کردو۔ 
 مذکورہ وضات سے پتہ چلا کہ اصلا ً کسی چیز کا پاک یا صاف ہونا ہے، بلکہ اسکا تناسب ناپاکی اور گندلے پن سے کہیں زیادہ ہے۔ لہذا یہ محاورہ ایسے ہی موقعوں کیلئے مستعمل بھی ہوتا ہے کہ نیکی اور صفائی کا عنصر جس شخصیت کے اندر زیادہ ہو اسی کے بارے میں کہا جائے گا کہ اسکی اچھی باتوں کو لے لو بری باتوں کو چھوڑ دو۔ نہ کہ ایسے شخص کیلئے بولا جائے گا جس کے اندر گندگی ہی گندگی ہو۔ 
 عرب کے مشہور عالم دین علامہ بکری بن محمد یافعی سے جب اس محاورے کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس محاورے کا استعمال کب اور کیسے کیا جائے تو آپ نے قدرے تفصیل سے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اس محاورے پر سیاق وسبا ق دیکھ کر حکم لگایا جائے گا ۔ کہنے والا اگر اس سے مراد اہل بدعت او راہل ضلال اور ان کی کتابوں کو لے رہا ہو یعنی ان گمراہوں کے یہاں جو اچھی بات ہو اسے لے لیا جائے اور جو غلط ہے اسے چھوڑ دیا جائے۔ تو ایسی صورت میں اس محاورے کا استعمال مردود ہوگا۔کیونکہ ایسی صورت میں اہل علم کے اس اصول سے متصادم ہوگا جس کی رو سے انہوں نے اہل بدعت اور گمراہوں کی کتابوں اور ان کے افکار سے بچنے کیلئے کہا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اس سے کہیں گے کہ اہل السنة والجماعة کے منہج پر چلنے والوں کے یہاں ایسی اچھی باتوں کی کمی نہیں ہے۔ 
 لیکن اگر اس سے مراد ایسی حالت کو لے رہا ہو کہ جب وہ دین پسند علماءکی کتابیں پڑھ رہا ہو البتہ ان کے کسی بعض افکار ومعتقدات کے سمجھنے میں اسے دقت ہورہی ہو، یا غلط لگ رہا ہو تو ایسی صورت میں کہا جائے گا خذ ما صفا ودع ما کدر ، اور اسکا استعمال درست ہوگا۔ شاعر کہتا ہے: 
إذا لم تستطع شیئا فدعہ وجاوزہ إلی ما تستطیع
ترجمہ: جسکے کرنے یا سمجھنے کی طاقت نہ ہو تو اسے چھوڑ کر اس چیز کی طرف چلے جاؤ جس کے کرنے یا سمجھنے کی طاقت ہو۔ 
شاید اسی پس منظر میں بکر ابو زید نے (کتب حذر منها العلماء) جیسی نادر کتاب دو جلدوں میں تصنیف کی ہے جس کے اندر ایسی شخصیتوں سے دور رہنے اور ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے نیز انکے کارناموں کو آئیڈیل بنانے سے بچنے کی تلقین کی ہے جن سے معاشرے اور امت کے نونہالوں پر منفی اثرپڑنے کا خطرہ ہے۔ 
 مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ محاورہ ایسی شخصیتوں کیلئے بنایا گیا ہے جو عظیم ہستیوں والے ہوں ، جو کارہائے نمایاں کے حامل ہوں ، جنہوں نے اپنی زندگی کو خدمت خلق کیلئے وقف کر رکھا ہو نیز وہ سماج کیلئے آئیڈیل اور نمونہ ہوں ۔ لیکن چونکہ انسان معصوم عن الخطا نہیں ہوتا (واضح رہے صرف انبیاءتبلیغ دین میں معصوم ہوتے ہیں) اسی لئے بشری تقاضے کے مطابق اگر اس سے بھی کچھ غلطیاں سرزد ہوگئی ہوں ، عقیدے میں کہیں بھٹک گئے ہوں ، معاملات میں کہیں لغزش ہوگئی ہوتو انہیں نظر انداز کرکے ان کی اچھائیوں اور ان کے نمایاں کاموں کو ہی لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیئے۔ ان کی معمولی غلطیوں کی وجہ سے انہیں طعن وتشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہئیے۔ شاید اسی اصول کے پیش نظر علامہ ابن حجر عسقلانی ، علامہ نووی ، علامہ سیوطی ،علامہ ابن الجوزی اور علامہ زمخشری جیسی عظیم شخصیتوں کی بعض عقدی غلطیوں کے باوجود انہیں مختلف فنون میں آئیڈیل مانا گیا اور ان کی شخصیات کو نشانہ بنائے بغیر ان کے کارناموں اور اعمال علمیہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اورایسے موقعوں پر ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے : اخطاؤه تغمر فی بحار حسناتہ۔ یعنی ان کی معمولی غلطیاں ان کے نیک کارناموں کے بیچ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ 
 یہ محاورہ اہل بدعت، اہل مفاسد، اہل الفسق والفجور نیز ائمہ  ضلال کے بارے میں بالکل نہیں ہے ۔ کیونکہ گرچہ انسان ہونے کے ناطے اچھائی کا امکان ہر ایک سے ہوتا ہے اور اسکی امید بھی کی جاسکتی ہے اورکوئی نہ کوئی اچھائی ہر ایک کے یہاں پائی بھی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود اسے اچھائی میں آئیڈیل نہیں بنایا جائے گا اور اس معمولی اچھائی پر اسکی نہ ہی تشہیر کی جاسکتی ہے۔ ذاک شیطان صدقک وہو کذوب کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کو آئیڈیل بنانے سے صحابہ کو منع کردیا تھا گرچہ اس نے سچائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابی رسول سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بڑی قیمتی بات بتا دی تھی۔ اس لئے شیاطین الانس کو بھی کسی طور ان کی بعض اچھائیوں اور بعض سچائیوں کیوجہ سے نہ تو ان کو آئیڈیل بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی تشہیر کی جاسکتی ہے۔ اور شاید ایسے ہی موقعوں پر یہ نبوی اصول کہا جاتا ہے: لا تنظروا إلی من قال ولکن انظروا إلی ما قال۔ لہذا ان کے کارناموں اوران کی بعض اچھائیوں کی تشہیر وہی لوگ کر سکتے ہیں نیز انہیں اپنا آئیڈیل وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو ان سے راضی اور خوش ہوں ، ان کے تئیں ان کے دلوں میں کشادگی ہواور بہر طور دین بیزاری کا کچھ نہ کچھ عنصر ان کے یہاںپایا بھی جاتا ہو۔ 
 بدنام زمانہ بنگلہ دیشی مصنفہ تسیلمہ نسرین کو کون نہیں جانتا ، اس نے اپنے اوپر اور سماج کے اندر عورتوں پر ہوتے ظلم ہی کی بنیاد پر اپنی بدنام ناول (لجا) لکھی تھی جس کے اندر مسلمان قوم اور مذہب اسلام کے خلاف کیا کیا نہیں کہا ہے۔ نیز وہ اپنے برے کردار اور بدنام کارناموں کی وجہ سے جس طرح دنیا میں شہرت پا چکی ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ 
 سلمان رشدی ( شیطان ضلالی) نے شیطانی آیات ناول لکھ کر آخر کون سا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس ناول کے اندر نعوذ باللہ حجرات مطہرات کو قحبہ خانوں سے تعبیر کیا ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام نیز صحابیات اور ازواج مطہرات کی جس انداز میں تصویر کشی کی ہے اسے پڑھ کر ایک باغیرت مسلمان کو گھن آئے گی ۔اثنائے مطالعہ مصنف پر لعن طعن کے علاوہ اسکے دماغ میں اور کوئی چیز نہیں آئے گی۔ 
طہ حسين تو پہلے ہى سے بگڑا ہوا احساس كمترى كا شكار منحوس شخصيت كا حامل تھا ليكن يورپ سے تعليم حاصل كركے وہاں كي تہذيب وثقافت كو ذہن ودماغ ميں اڈيل كر جب گھر واپسى كيا ہے تو مصرى حكومت نے اسے اپنے سروں پر بٹھا ليا۔ جيسے ہى اسے محكمہ تعليم ميں جگہ ملى اس نے مكار يورپين مستشرقين كے سارے تعليمى پلانوں كو نافذ كرنا شروع كرديا۔ تاريخ وسياست، تہذيب وثقافت اور زبان وادب ميں ايك پر ايك كتابيں لكھ كر ہر ميدان ميں شكوك وشبہات نيز انكار ونفاق كا بيج ڈال ديا ۔ شادى سے پہلے ہى نبى صلى الله عليہ وسلم اور زينب بنت جحش رضى اللہ عنہا كے مابين افسانوى قصہ اس طرح بيان كيا ہے جس سے ظاہر ہو كہ دونوں ميں  -نعوذ بالله- پہلے ہى سے عشق ومعاشقہ چل رہا ہو۔ اس ظالم نے قرآن كريم جيسى پاكيزه الہامى كتاب كو ادب جاہلى كا پروان چڑھا ہوا بہترين نمونہ قرار ديا ۔ اپنے رسالے ( اخوان الصفا) ميں عظيم اسلامى ورثے كو گڈ مڈ كر كے ركھ ديا  ہے۔ صحابہ كرام پر جارحانہ رويہ اسكا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ صحيح حديثوں كو جھٹلانا ، فسق وفجور اور زندقہ كو عربى ادب ميں نماياں كر كے دكھانا اور قرامطہ اور زنجيوں كے انقلابات كو قانونى سند دينا نيز معتزلہ اور حلاج كے كارناموں كو پسنديدگى كى نظر سے ديكھنا اسكا عام رويہ رہا ہے۔ 
اس منحوس اور بصارت وبصيرت سے محروم شخص كے بارے ميں يہاں تك كہا جاتا ہے كہ فرانس جاكر اس نے نصرانيت كو گلے لگا ليا تھا جس كے عوض اسے ايك فرانسيسى لڑكى تحفے ميں مل گئى تھى البتہ مصر واپسى پر كيا اس نے نصرانيت سے توبہ كر ليا تھا اس كى كسى نے وضاحت نہيں كى ہے۔
اسكے نماياں بدنام اورمنحوس كارناموں ميں: في الشعر الجاهلي، مستقبل الثقافة في مصر، حديث الأربعاء، إخوان الصفا، على هامش السيرة، الوعد الحق، مرآة الإسلام، الشيخان: أبو بكر وعمر، الفتنة الكبرى، الإسلام والغرب زياده مشہور ہيں۔ جن كے اندر اس مستغرب جاسوس نے اسلامى تہذيب وثقافت نيز اسلامى تاريخ وادب كو يكلخت دريا برد كرنے كى سعى نامسعود كى تھى ليكن علماء جہابذه اور ادباء ماہرين نے اس كى ايك ايك سازش اور مكر كا پرده فاش كر كے ركھ ديا ۔
مصطفى صادق رافعى، محمود محمد شاكر، عمر فاخورى، محمد محمد ابو شهبہ، محب الدين الخطيب، دكتور غلاب، استاذ محمد عرفہ، دكتور عبد الحميد سعيد، استاذ عبد القادر المازنى، عبد الرحمن عزام، محمد على علوبہ، عبد القادر حمزه،على الجندى اور احمد حسن الزيات وغيرهم نے اس منحوس كا خوب خوب جواب ديا ہے۔ ان ميں شايد سب سے زياده پيچھا محمود محمد شاكر نے كيا ہے۔ سوال يہ ہے كہ كيا كوئى باغيرت شخص ايسے شيطان كى كچھ اچھى باتوں كو ليكر انہيں شہرت دينا پسند كرے گا؟ 
 نجیب محفوظ نے تقریباً اپنی تمام ناولوں کے اندر مذہب اسلام ، اسلامی تعلیمات اور مسلم معاشرہ کو نشانہ بنایا ہے خصوصا ایسی جگہوں اور ایسی شخصیتوں کو جن سے بلا واسطہ اسلام کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اسکی ناول(کوچہ بدنام کی مسجد) ہو کہ جس کے اندر نجیب نے اپنی دین بیزاری اور اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ سب سے گھٹیا کردار طوائف اور اس کے ساتھی کیلئے نبویہ اور حسان کا نام مستعار لیا ہے۔ اس نے یہ دونوں نام بلا مقصد نہیں لیا ہوگا۔ ناول اور افسانوں میں منصف اور حقیقت پسند مصنفین افسانوی اور تخیلاتی بلکہ بے معنی ناموں کو مستعار لیا کرتے ہیں۔ دینی شخصیات سے تعرض وہی کرتے ہیں جو قلبی اور ذہنی مرض کا شکار ہوتے ہیں نیز دینی تقدسات سے انہیں چڑھ ہوتا ہے۔ 
 (اولاد حاتنا ) کہ جس پر اسے نوبیل پرائز سے یورپ نے نوازا اس ناول کے اندر زبان وادب سے کہیں زیادہ اسلامی تہذیب اور دینی تقدسات کا جنازہ نکالا گیا ہے۔ مکاریورپ اہل مشرق کو بلا کسی وجہ نہیں نوازے گا۔ 
 اولاد حارتنا کے اندر نجیب نے بہت سارے انبیاءاورذات الہی کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اللہ کی ذات کو ظلم وجور سے متصف کیاہے۔ ذات الہی کیلئے اس نے جبلاوی کا لفظ مستعار لیا ہے ۔ انگریزی میں ناول کانام ہی اسی لفظ پر رکھا گیا ہے جو اس طرح ہے:(CHILDREN OF GEBELAWI)۔ اس سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ یورپ میں مشرق کے ہر ملحد ، زندیق اور دین بیزاروں کو خوب نوازا جاتا ہے۔ اسی ناول کے لکھنے کے بعد نجیب کو شہرت حاصل ہوئی تھی جس کے بعد اس پر کفر وزندقہ اور الحاد کا فتوی لگایا گیا تھا۔سلمان رشدی کی ناول (شیطانی آیات) کے چھپنے کے بعد مصری عالم شیخ عمر عبد الرحمن نے کہا تھا: (أما من ناحیة الحکم الإسلامی فسلمان رشدی الکاتب الهندی صاحب آیات شیطانیة ومثله نجیب محفوظ مؤلف أولاد حارتنا مرتدان وکل مرتد وکل من یتکلم عن الإسلام بسوء فلابد أن یقتل، ولو قتلنا نجیب محفوظ ما کان قد ظهر سلمان رشدی)۔ ترجمہ: اگر اسلامی حکم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو چاہے ہندوستانی کاتب صاحب شیطانی آیات ہو اور اسی طرح چاہے نجیب محفوظ صاحب اولاد حارتنا ہو دونوں مرتد ہیں، اور جو بھی مرتد ہوجائے اور دین اسلام کے بارے بدزبانی کرے اسے ضرور قتل کرنا چاہیئے۔ اگر ہم نے نجیب محفوظ کو قتل کردیا ہوتا تو آج سلمان رشدی جیسا شخص ظاہر نہ ہوتا۔ 
 (خذ ما صفا ودع ما کدر ) جیسے اصولوں کو اگر ایسے بدقماش شخصیتوں کیلئے استعمال کیا جائے تو یہی کہا جائے گا : کلمة حق أرید بہ الباطل یعنی حق کو باطل کے پروان چڑھنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ بالکل اسی طرح کہ جب معرکہ صفین کے موقعہ پر طرفین سے صلح کی بات مکمل ہوگئی تو خارجیوں نے (لا حکم إلا للہ) کہہ کر صلح کو غلط ٹھہرا دیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوگئے تو آپ نے اس وقت کہا تھا : کلة حق أرید بھا الباطل۔ خارجیوں نے اس اصول کو یعنی کلمہ حق کو باطل کیلئے بالکل اسی طرح استعمال کرنا چاہا تھا جس طرح مکار یورپ نے مساوات کا اصول استعمال کرکے عورتوں کو بے پردہ کردیا ،انہیں سڑکوں پہ لا کر ننگا کردیانیز انہیں اپنی شہوت کی تسکین کا ذریعہ بنا لیا۔ جمہوریت کا اصول استعمال کرکے حکمرانوں کیلئے ملکی دولت کو لوٹنے کا ذریعہ فراہم کردیا گیا ۔ آزادی اظہار کا اصول استعمال کرکے مقدسات دینیہ کو پیروں تلے روندنے کا ملحدوں اور دین بیزاروں کو سرٹیفکٹ دیدیا گیا۔ 
 زبان وادب کے میدان میں گرچہ دین بیزار اور آزاد خیالوں کی تعداد زیادہ رہی ہے لیکن اس کے باوجود خصوصا عربی زبان وادب کے میدان میں دین پسندوں اور اسلامی شخصیتوں کی کمی نہیں ہے اور وہ چاہے عصر حاضر کا ہی دور کیوں رہا ہو۔عربی زبان وادب اور تاریخ ادب کے میدان میں اگر نجیب محفوظ ، طہ حسین ، لویس عوض اور نزار قبانی جیسے بدقماشوں کی کمی نہیں ہے تو دوسری طرف محمود محمد شاکر ، مصطفی لطفی منفلوطی، مصطفی صادق رافعی، بارودی، حافظ ابراہیم اور احمد شوقی جیسے لوگوں نے بھی جگہ بنائی ہے۔  
 عصر حاضر میں شام، لبنان، مصر اور بعد میں جزیرہ عرب میں بھی دین پسند ادباءکی ایک بڑی تعداد مل جائے گی جنہوں نے ادب کو دین کے سانچے میں ڈھالنے میں کوشش کی ہے۔ عبد الرحمن رافت پاشا (صور من حیاة الصحابہ) کی شکل میں اور علی میاں ندوی (مختارات من ادب العرب) کی شکل میں اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ 
 معاشی خود انحصاری ، خود اعتمادی، صداقت، عدالت، شجاعت، یقیں محکم اور عمل پیہم جیسے مثبت پیغامات ملحد ادباءکو چھوڑ کرہمیں انہیں دین پسند ادباءکے علمی کارناموں میں تلاشنا چاہیئے اور انہیں کو شہرت دینا چاہئیے تاکہ سماج انہیں شخصیات اور انکے عمدہ کارناموں سے متاثر ہوکر بہتر اور مثالی معاشرہ بن کر ابھرسکے۔ نیز یہ بھی ضرورت ہے کہ عربی زبان وادب اور اسکی تاریخ کو ہم عربی زبان ہی میں پڑھیں اور سیکھیں نہ کہ یورپین زبان اور ان کے آئینے میں۔ ورنہ اسلامی تہذیب واقدار اور مشرقی روایات کو ہم انہیں معیار اور کسوٹی پرسمجھیں گے جیسے متشرقین ومستغربین نے سمجھایا ہے۔ اور پھر نتیجے میں ہم بھی انہیں کی فکر اور کلچر کو اسلامی معاشرے میں پروان چڑھنے اور اسلامی اقدار کو بالکل اسی طرح سماج میں پیش کریں گے جیسے مکار یورپ کی خواہش اور منشا ہے۔ 
 اللہ ہمیں یورپ کی علمی خیانت اور سازش سے بچائے۔ اسلامی اقدار وتہذیب کو معاشرے میں پروان چڑھائے۔ دین پسندوں کا سماج کے اندر غلبہ ہو ۔ ملحدوں ، زندیقوں، دین بیزاروں، شریعت پر طعن وتشنیع کرنے والوں ، شعائر اسلامیہ کا مذاق اڑانے والوں ، دین پسند شخصیات کو ہدف تنقید بنانے والوں نیز ہر طرح کے دشمنان اسلام اور حاسدین وحاقدین کوپسپائی اور ہزیمت کا سامنا ہو۔ آمین


ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...