✍بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور مدنى
محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد تحریکی تقلیدی ٹولے خصوصاً رافضی بلاک میں زلزلہ برپا ہوگیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے مملکہ کے سارے حاسدین اور معارضین ولی عہد کے خلاف لام بند ہوگئے ۔ ہر ایک نے اپنے اپنے رنگ میں ولی عہد کے خلاف پروپیگنڈوں، الزامات اور افواہوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ کسی نے نا سمجھ کہا تو کسی نے احمق اور بے وقوف ۔ کسی نے متکبراور مغرور کہا تو کسی نے ضدی اور ہٹ دھرم۔ رافضیوں نے تو یہاں تک مشہور کردیا کہ اب آل سعود کے اس نوجوان (لونڈے) کے ہاتھ پر سعودی حکومت کی تباہی طے ہے ۔ اور اس کے لئے انہوں نے اس حدیث کا پرچار بھی شروع کردیا جس میں کچھ اس طرح مذکور ہے: (إن ہلاک أمتی علی یدی غلمة سفہاءمن قریش)ترجمہ: بیشک میری امت اس وقت برباد ہوجائے گی جب اس کے حاکم قریش کے بے وقوف نوجوان ہوجائیں گے۔ [صحیح بخاری: کتاب الفتن، حدیث نمبر7058، بروایت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ] ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ غلمہ اور سفہاءسے مراد وہ لوگ ہیں جو کم عقل بے وقوف اور جسمانی ودینی اعتبار سے کمزور ہوں اور حکومت پر ظلم وجبر کے ساتھ قابض ہوئے ہوں۔ اور غلمہ غلام کی جمع ہے جو بچے کی پیدائش سے لیکر اس کے بلوغت تک بولا جاتا ہے۔ [فتح الباری: 13/۹]
ان رافضیوں کا محمد بن سلمان کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ بالکل اسی طرح سے ہے جس طرح ان ظالموں نے بے سروپیر کی بہت ساری بیہودہ اور فضول باتیں آل سعود کے بارے میں پھیلا رکھی ہیں ۔ چنانچہ(مرکز الحرمین للإعلام الإسلامی) نامی رافضی ویب سائٹ پر(تسییس الحج میراث آل سعود من أعراب قریش) کے عنوان سے جس طرح تاریخی جھوٹ اور بہتان تراشی کی ہے کہ اگر نازی جرمنی کا گوبلز بھی موجود ہوتا تو ان رافضیوں کے سامنے پانی بھرتا۔ چنانچہ بلاد حرمین ، آل سعود اور آل الشیخ کو بدنام کرنے کیلئے یہ صفوی رافضی اسلام کے نام پر ہزاروں ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔ انہیں پروپیگنڈہ کرنے والے جھوٹے ویب سائٹوں میں سے یہ ویب سائٹ بھی ہے ۔
حجاز مقدس، جزیرہ عرب بلکہ تاریخ اسلام سے جو بالکل نا آشنا ہوگا وہی ان رافضیوں کے گپ اور جھوٹ پر اعتماد کرے گا ۔ چنانچہ ذیل کی عبارت مذکورہ ویب سائٹ کے اس (www.alharmain.com/news/54465)صفحے پر اس طرح موجود ہے: (فی عام 6 للہجرة منعت اعراب قریش الرسول (ص) واصحابہ من الحج، وفی عام 1812م منع أحفادہم آل سعود حجاج مصر والشام من الحج بذریعة أن أسلامہم لیس کاملاً، بل فرضوا شروطاً علی الحجاج منہا: عدم حلق اللحی۔ وعدم التلبیة باصوات عالیة، وعدم القول (یا محمد)، ودفع 10 جنیہات ذہبیة لکل حاج، وأن یدفع امیر الحج المصری والسوری کلا منہما 10جوارٍ وعشرة غلمان بلون ابیض کل سنة۔ فرفض الحجاج ہذہ الشروط وامتنعوا عن الحج لست سنوات مقسمین أن لا یحجوا حتی یطہروا قبلتہم من آل سعود وآل الشیخ)۔
ترجمہ: 6/ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو قریش کے اعرابیوں نے حج کرنے سے روک دیا۔ اور 1812ءمیں انہیں کی اولاد آل سعود نے مصر وشام کے حاجیوں کو حج کرنے سے روک دیا یہ کہہ کر کہ ان کا اسلام کامل نہیں ہے۔ بلکہ حج کرنے کیلئے کچھ شروط لگا دی : جیسے داڑھی نہ منڈوانا، تلبیہ کو بآواز بلند نہ پکارنا، یا محمد کا نہ کہنا، ہر حاجی پر 10-10/اشرفی دینا واجب ہوگا،نیز مصر اور شام کے امیر حج پر واجب ہوگا کہ وہ ہر سال سفید فام10-10/ غلام اور لونڈی دیں گے۔ حاجیوں نے ان سارے شروط کو رد کردیا اور چھ سال تک حج کرنے سے رکے رہے یہ قسم کھا کر کہ اس وقت تک حج نہیں کریں گے جب تک کہ وہ اپنے قبلے کو آل سعود اور آل شیخ سے پاک نہیں کرلیں گے۔
اس رافضی ویب سائٹ کی مانیں تو پتہ چلے گا کہ آل سعود کا نسب قریش کے اعرابیوں سے ملتا ہے۔ تعجب ہے ان رافضیوں پر کہ ایک طرف آل سعود کو یہودی نسل سے جوڑتے ہیں پھر دوسری طرف انہیں قریش کے نسب میں ملا دیتے ہیں۔ سچ ہے جھوٹ کا کوئی سر نہیں ہوتا۔ اور جھوٹ ونفاق جو ان روافض کے دین میں شامل ہے۔ اسی طرح یہ رافضی جس جھوٹے پلندے 1812ء کی بات کر رہا ہے اس وقت آل سعود کی حجاز یعنی مکہ اور مدینہ پر حکومت ہی نہیں تھی۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ اس گپی رافضی کو عربی اور اعرابی کے درمیان فرق ہی معلوم نہیں ہے اسی لئے اس نے اعراب قریش کہا ہے۔ حالانکہ جو اعرابی ہے وہ قرشی نہیں اور جو قرشی ہے وہ اعرابی نہیں۔ اگر اس رافضی کی مانیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اعرابی ٹھہریں گے۔ لیکن جھوٹ اور گپ ہانکتے وقت ایسے جھوٹوں اور گپیوں کو کہاں یہ پتہ رہتا ہے کہ اس جھوٹ کی زد میں کون کون آرہا ہے۔اس کے علاوہ باقی دیگر چیزوں کو سوائے افسانہ اور جھوٹ وپروپیگنڈہ کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اسی طرح رافضیوں کے پروپیگنڈے کے مطابق اگرصحیح بخاری کی مذکورہ حدیث محمد بن سلمان پر فٹ کیا جائے تو یہ ثابت ہوگا کہ محمد بن سلمان ابھی بلوغت کے مرحلے میں نہیں پہونچے ہیں۔ وہ جسمانی اور دینی اعتبار سے انتہائی کمزور ہیں۔ ظلم وجبر کے ذریعے ولی عہد بن گئے ہیں۔لیکن جہاں تک محمد بن سلمان کی شخصیت کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں روافض کی ساری افواہیں اسی طرح بے بنیاد ہیں جس طرح کہ ان کے بارے میں انہی رافضی ، تحریکی اور تقلیدی ٹولے نے یہ بات اڑائی کہ شاہ سلمان نے بھائیوں کی موجودگی میں اپنے چہیتے بیٹے محمد کو ولی عہد بناکر اور بادشاہت کو پوتوں میں منتقل کرکے سابقہ ریکارڈ کو توڑ ڈالا۔ جس سے شاہ سلمان کو بغاوت کا خطرہ لاحق ہوا جس کی بنیاد پر سارے مضبوط شہزادوں کو گرفتار کروا دیا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز ہی نے اپنی مدبرانہ سوچ کے ذریعے دستور اساسی میں ترمیم کرکے بیعت کمیٹی کے ذریعے بادشاہت میں بیٹوں کے ساتھ پوتوں کو بھی شامل کروا دیا ۔ اور اسی بیعت کمیٹی ہی نے امیر مقرن بن عبد العزیز کوولی عہد اور بھتیجے محمد بن نایف کو نائب ولی عہد بنا کر بادشاہت کو بیٹوں سے پوتوں کی طرف منتقلی کو آسان بنا دیا تاکہ اسرہ مالکہ آل سعود میں بھائیوں کے اندر کسی قسم کا کوئی خلفشار نہ پیدا ہوسکے۔
آل سعود کے بارے میں ان دشمنانِ اسلام شیعہ روافض کو شایدیہ نہیں پتہ کہ موجودہ سعودی حکومت کے بانی ملک عبد العزیز نے اپنے آبائی میراث کو واپس لینے کیلئے جس وقت صرف چالیس افراد کے ساتھ ریاض پر حملہ کیا تھا اس وقت ان کی عمر صرف سترہ سال کی تھی۔ اور انہوں نے اپنی عسکری قیادت اور ذہانت کے ذریعے نجد کے تمام علاقے کو فتح کرکے موجودہ عظیم الشان سعودی حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔
ان حاسدین اور دشمنان مملکہ کو یہ بھی یاد دلانا پڑے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو جس وقت رومیوں سے لڑنے کیلئے اسلامی فوج کا قائد اعلی مقرر کیا تھا اس وقت بھی انکی عمر صرف سترہ برس تھی۔ اسی طرح محمد بن قاسم نے جس وقت بلاد ہند کی طرف اسلام کا قائد اور عسکری رہنما بن کر قدم بڑھایا تھا اس وقت ان کی عمر صرف انیس برس ہی تھی۔ اور شاید ان دشمنان اسلام روافض کو یہ یاد نہ دلانا پڑے کہ صحابی جلیل ربعی بن عامر تمیمی رضی اللہ عنہ نے جس وقت ان کے آبائی ساسانی حکومت کے خاتمے کا پیغام لیکر ایرانی بادشاہ کسری کے دربار میں پہونچے تھے اس وقت ان کی عمر صرف تیس برس تھی۔ یعنی محمد بن سلمان سے دو برس کم۔ اور ان رافضیوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ محمد فاتح نے 1452ء میں جب قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا اس کی عمر اس وقت بیس کی دہائی میں تھی ۔ اس عظیم فاتح نے قیصر کے اس عظیم شہر کو فتح کرکے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم پیشین گوئی پوری کردی تھی جسے حاصل کرنے کیلئے اس سے قبل بڑے بڑے مسلم خلفاء نے ستر سے زائد مرتبہ حملہ کیا تھا لیکن ناکام رہے تھے۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جو اس قیصر کے شہر قسطنطنہ پر حملہ کرے گا اللہ اس کی مغفرت کرے گا۔
محمد بن سلمان 32/سال کے جوانمرد، عزم وحوصلے کے مالک ، دور اندیش ، حکمرانی کیلئے لائق وفائق ، ارادے میں پختہ ، جسمانی اور دینی ہر اعتبار سے مضبوط اور قوی نیز علمی او رسوجھ بوجھ کے اعتبار سے بھی متمیز اور متفوق ہیں۔ اس اختصار کو درج ذیل تفصیل سے سمجھیں:
(تعلیم وتربیت:
31/اگست 1985ء، شہر ریاض میں پیدائش ہوئی۔۲003ءتک ثانوی مرحلے کی تعلیم پوری کرلی، اور اس مرحلے کے اندر مملکہ سطح پر آپ دس اوائل (Top Ten) طلبہ میں تھے۔اس کے بعد آپ نے جامعہ ملک سعود ریاض سے قانون اور سیاست کی پڑھائی مکمل کی۔ قانون اور سیاست کے اس مرحلے میں آپ نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس طرح سعودی شاہی خاندان کی روایات سے ہٹ کر آپ نے ساری تعلیم مملکت ہی کے اندر حاصل کی۔
(اعمال ومناصب:
چونکہ آپ نے اخلاص اور محنت سے پڑھائی کی اور اعلی نمبرات سے کامیابی حاصل کی اسی لئے آپ کی ذہانت اور فطانت کو دیکھ کر ملک عبد اللہ بن عبد العزیز ہی کے دور میں آپ کو کئی مناصب سے سرفراز کیا گیا۔ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد آپ نے ایک تجارتی کمپنی قائم کی اورساتھ ہی جو بھی منصب آپ کو ملا اسے کامیابی کے ساتھ محنت سے اس کے انجام تک پہونچایا۔ کہا جاتا ہے کہ مشغولیت بڑھ جانے پر آپ ایک دن میں15-15 گھنٹے کام کرتے تھے۔
سب سے پہلا منصب جو آپ کو ملا وہ ملک عبد اللہ کے دور میں ولی عہد امیر سلمان بن عبد العزیز (آپ کے والد موجودہ شاہ سلمان ) کے متعلق خصوصی امور کا نگراں اور آپ کی آفس کے سیکریٹری کا عہدہ تھا۔ساتھ ہی ملک عبد العزیز فاؤنڈیشن بورڈ کے چیرمین کے خصوصی مشیر بھی رہے۔اس کے بعد آپ کو2007ءمیں مجلس وزراءکی ایکسپرٹ باڈی کا مشیر بنایا گیا اور2009ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ پھر مارچ2013ءمیں شاہی فرمان سے آپ دیوان ولی عہد کے صدر اور وزیر کے مرتبے میں ولی عہد کے پرسنل سیکریٹری متعین کئے گئے۔ اسی طرح اسی سال شاہی فرمان سے آپ وزارت دفاع کے بھی نگران اعلی متعین کئے گئے۔ پھر 2014ءمیں شاہی فرمان سے آپ پورے طور سے وزیر مملکت اور مجلس وزراءکے رکن بنا دیئے گئے۔ ستمبر 2014ءہی میں شاہی فرمان سے آپ ایگزیکیٹو کمیٹی برائے ملک عبد العزیز ہاوس کے صدر بنائے گئے۔ اسی سال آپ کو وزارت دفاع کی مکمل قلمدان سونپ دی گئی اورساتھ ہی خادم حرمین شریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے آپ وزیر کے مرتبے میں مشیر خاص بھی بنا دیئے گئے۔ یہاں تک کہ 29/ مارچ 2015ءکے دن آپ کو بیعت کمیٹی کی طرف سے نائب ولی عہد بنا دیا گیا۔ مملکت میں البیر سوسائٹی برائے ترقی ایک معروف ادارہ ہے، آپ اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
مملکت سعودی عرب کی تاریخ میں محمد بن سلمان کا شمار عمر کے اعتبار سے ان چھوٹے وزراء میں ہوتا ہے جنہوں نے دفاع کی وزارت سنبھالی ہے۔ آپ سے پہلے سلطان بن عبد العزیز وزیر دفاع رہ چکے ہیں جنہوں نے یہ وزارت 31 سال کی عمر میں سنبھالی تھی اور اسی منصب پر تقریباً نصف صدی تک فائز رہے یہاں تک کہ اکتوبر2011ءمیں وفات ہوگئی۔ آپ وزیر دفاع کے ساتھ انسداد کرپشن کے چیرمین، کونسل برائے مالی امور کے چیرمین، ویزن 2030 کے خالق، وسطیت کے داعی، سعودی معاشرے میں دور رس تبدیلیوں کے مدبر کے طور پر مملکت کے نوجوانوں اور خواتین کے مقبول رہنما ہیں۔
سماجی اور رفاہی حوصلہ:
ولی عہد محمد بن سلمان اپنے سیاسی اور عسکری بصیرت وذہانت کے ساتھ ساتھ دینی ، اخلاقی اور انسانی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹاتے ہیں۔ چنانچہ اپنے والد شاہ سلمان ہی کی طرح آپ نے بھی انسانی امداد اور رفاہ عامہ کی خاطراپنی تعلیم کے آخری ایام میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر موسسة الامیر محمد بن سلمان الخیریة (مسک الخیریةMisk) کے نام سے ایک رفاہی ادارہ تشکیل دیا تھا جس کا مقصد سعودی نوجوانوں کی خوبیوں کو اجاگر کر کے ان کے مستقبل کو سنوارنا تھا ۔ اس ادارے کی اچھی کارکردگی پر انہیں Forbes Middle Eastنے شخصیت کا خصوصی ایوارڈ پیش کیا تھا۔
اسی طرح خاص نوجوانوں کیلئے قائم ادارے (مجلس إدارة مرکز الملک سلمان للشباب) کے سربراہ بھی آپ ہی ہیں جہاں نوجوانوں اور ان کی روشن مستقبل سے متعلق تمام معاملات حل کئے جاتے ہیں۔ غریبوں اور مسکینوں کیلئے گھر بنا کر دینے کیلئے جس سرکاری جمعیت (جمعیة الملک سلمان للإسکان الخیریة) کو قائم کیا گیا ہے آپ اس کے چیئر مین اور اس کی تنفیذی کمیٹی کے نائب چیئرمین ہیں۔ سعودی عرب کے مشہور رفاہی ادارہ (موسسة ابن باز الخیریة) کے آپ سابق رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اسی طرح کئی ایک رفاہی اور انسانی سوسائٹیوں اور جمعیتوں کے آپ رکن ہیں جیسے جمعیة البر اور الجمعیة الوطنیة للوقایة من المخدرات وغیرہ۔
(سیاسی اور عسکری قیادت :
٭-یمن پر قبضہ کرکے حرمین اور جزیرہ عرب کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرنے کا خواب ایر انی اور حوثی رافضی جس طرح پوری دنیا کے نظروں کے سامنے بنائے ہوئے تھے اور یمن کے بری اور بحری تمام راستوں سے صفوی رافضی ایران جس طرح حوثی باغیوں کی مدد کر رہا تھایہ سب دیکھ کر سنی عربوں کے ہوش اڑ گئے۔ اسے شاہ سلمان کی سیاسی بصیرت اور مدبرانہ چال کہیئے کہ آپ نے دنیا کے کسی بھی اجنبی ممالک کو خبر کئے بغیر خاص خاص خلیجی اور عرب ممالک کی فوری میٹنگ بلائی اور عربوں کا ایک فوجی ایلائنس بناکر اس کا سربراہ اعلی اپنے لائق فائق بیٹے محمد بن سلمان کو بنا دیا۔ اور اس طرح اچانک یمن کے قانونی مفرور صدر ہادی منصور عبد ربہ کی دعوت پر عرب اتحادیوں کی فوج نے رافضی حوثیوں پر حملہ کردیا ۔ جسے دیکھ کر ایران ہی نہیں پوری دنیا خصوصا یورپ اور امریکہ سب حیران ہوگئے۔ اس طرح رافضی شیعوں کا خلیج عرب پر قبضہ کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
چنانچہ عرب الائنس نے اپنے پہلے ہی آپریشن عاصفة الحزم (Operation Decisive Storm)کے ذریعہ صنعاءپر قبضہ کرکے حوثیوں کی تمام جنگی(بری، فضائی اور بحری) صلاحیتوں کو نیست ونابود کر دیا ۔ فضائی اور بحری راستوں سے ایرانی تمام طرح کی فوجی امداد کی ناکہ بندی کر دی گئی۔محمد بن سلمان کی اس میں عسکری اور سیاسی قوت، تجربہ وتدبر کارفرماں تھی جو کہ مشکل حالات میں بھی سخت فیصلہ لینے کے عادی ہیں۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جسے دیکھ کر تمام رافضی ایرانی اور ان کے اذناب واذیال بے آب ماہی کی طرح تڑپنے لگے۔ پہلی مار انہیں پر پڑی ہے جو اب تک تڑپ رہے ہیں۔ کیونکہ جزیرہ عرب کے اندر ان کے انقلاب کا سارا خواب چکنا چور ہوگیا۔ اب آخر سلمان اور بیٹا محمد ان کی نظر میں برے نہیں ہوں گے تو پھر اور کون ہوگا؟ ان کے بارے میں جھوٹ ، تہمت ، الزامات اور پروپیگنڈہ نہیں کریں گے تو اور کس کے بارے میں کریں گے۔
چنانچہ عرب سنی مسلمانوں کے اسی عظیم کارنامے نے جہاں ایک طرف رافضی فارسی ایرانیوں کی نیندیں حرام کردیں ، وہیں دوسری طرف تمام مسلمانوں کو ان کی گہری نیند سے بیدار کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف دنیا والوں کو یہ کھلا پیغام دیدیا کہ اب مسلمانوں کے ظلم ورسوائی کا زمانہ لد چکا ہے ،وہیں دوسری طرف روایتی دشمنان ِ اسلام کے کان بھی کھڑے ہوگئے چنانچہ سویڈن جیسے کٹر دشمن اسلام نے دین اسلام اور مملکہ کے خلاف کہی گئی باتوں پر معافی مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔اقوام متحدہ کے سابق جنرل سکریٹری بان کی مون کو یہ کھلا بیان دینا پڑا کہ فلسطین پر سے اسرائیل اپنا ناجائز قبضہ چھوڑ دے اور اپنے حدود میں واپس آجائے۔
حوثی باغیوں کے خلاف اس اچانک کارروائی کا مدبر اور آرکٹکٹ محمد بن سلمان ہی کو مانا جاتا ہے ۔ چونکہ آپ وزیر دفاع بلکہ سعودی سیکورٹی کے تینوں دھڑے کے مسوول اعلی بھی ہیں اسلئے آپ نے اپنی سیاسی اور عسکری بصیرت سے جس طرح پوری دنیا کو سکتے میں ڈال دیا اس سے آپ کی دنیا کے سامنے ایک منفرد اور بے مثال شناخت کھل کر سامنے آئی۔ کسی نے آپکو مغامر (Adventurer) یعنی خطرات سے کھیلنے والا کہا تو کسی نے دور اندیش سنجیدہ سوچ وفکر کا حامل قرار دیا۔ ایک امریکی سنیٹر(حالیہ امریکی آرمی فورسیز کمیٹی کا چیئر مین) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اب عربوں کے ساتھ ہماری دوغلی پالیسی نہیں چلے گی ، ہمیں ایران کے خلاف عربوں کا مکمل ساتھ دینا ہی پڑے گا۔ عالمی چینل سی این این عربک نے اپنے ویب سائٹ پر محمد بن سلمان کے بارے میں یہ جلی حروف لکھے: (إنہ الامیر الذی یحاول تغییر العالم) یعنی محمد بن سلمان ایک ایسا شہزادہ ہے جوپوری دنیا کو بدل دینے کا عزم وحوصلہ رکھتا ہے ۔
سی این بی سی ٹی وی چینل نے محمد بن سلمان کوایسا ذہین وفطین شہزادہ کہا جو ایک انوکھا شاندارآگے بڑھنے والا مستقبل اپنے پہلو میں سموئے ہوئے ہو۔ بی بی سی عربک نے کئی ایک مغربی سیاستدانوں کا قول نقل کیا کہ سعودی ولی عہد ایک ایسا تجربہ کار اور مضبوط سوچ وفکر کا حامل ہے جو صرف کبھی کبھی کسی رجل کامل کی شکل میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ فرانسیسی روزنامہ لوبون نے کہا کہ سعودی ولی عہد پورے طور سے سعودیہ کی طاقت وقوت کی نشانی ہیں۔ ایک دوسرے روزنامہ ایسپائس مینیجر نے محمد بن سلمان کو (محرک التغییر فی المنطقة) کہا۔ یعنی آپ علاقے میں تبدیلی لانے کے محرک ہیں۔
٭-عظیم اسلامی عسکری ایلائنس(Islamic Military Alliance) :
عرب الائنس بننے میں ابھی چند مہینے گزرے تھے کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے آفاقی حکمت علمی اور اسلامی عالمگیر سوچ کے ذریعہ 15/دسمبر 2015ءکے دن مملکت سعودی عرب کی قیادت میں 41/اسلامی ممالک کی ایک عظیم اسلامی عسکری ایلائنس کے قیام کا اعلان کردیا۔ ان میں سے بیس اہم ممالک کے فوجوں کی ایک مشترکہ اہم عسکری مشق سعودی کے شمالی علاقے (ملک خالد عسکری سٹی) میں کرایا گیاجس کا نام رعد الشمال North Thunder) ) رکھا گیا ۔ اس عظیم الشان اسلامی فوجوں کی پریڈ 27/فروری سے 10/مارچ 2016ءتک جاری رہا۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں اس اسلامی فوج نے ہر طرح سے دشمنوں سے نمٹنے پر قدرت پانے کیلئے اچھی طرح سے مشق کر لیا اور اچھا عسکری تجربہ حاصل ہوگیاجسے دنیا نے دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا اور اسلامی قوتوں کو سعودی کی قیادت میں اکٹھا دیکھ کر مرعوب ہوگئے اور ساتھ ہی مملکہ کے اس عظیم طاقت اور حکمت عملی کو دیکھ کر حاسدین کے گھروں میں ماتم کا ماحول پیدا ہوگیا۔ دہشت گردی جیسی لعنت جسے دنیا اسلامی ملکوں سے جوڑ کر دیکھتی تھی اس حملے کے ذریعہ ان کی زبانوں پر لگام لگ گیا۔ دوسری طرف داعش اور حزب الشیطان جیسی دہشت گرد تنظیمیں سنی اسلامی ممالک کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت کبھی نہیں کریں گی اور اسی طرح یہودیوں کے ظالم خواب (Greater Israel) کی طرح ایران جیسارافضی سنی دشمن ملک اپنے عظیم ولایت الفقیہ (Greater Safwi Kingdom) جیسے ظالم اور خطرنا ک منصوبے سے ہمیشہ ہمیش کیلئے باز رہے گا۔
٭نوجوانوں کے مسیحا:
محمد بن سلمان نوجوان نسل کے نمائندہ ہیں جوکہ سعودی عرب کے اندر کل آبادی کا ستر فیصد نمائندگی کرتے ہیں؛ چنانچہ آپ نے اپنے سیاسی ، دینی اور وطنی خلوص نیز ماہر قیادت کے ذریعے تھوڑے ہی دنوں کے اندرسعودی نوجوان نسل کے قلوب واذہان میں بڑی آسانی سے جگہ بنالی۔ آپ نے انکا سیاسی استحصال بالکل نہیں کیا بلکہ ان کے اندر حوصلہ اور اولو العزمی کی روح پھونکی اور ان کی مستقبل کو تابناک اور روشن بنانے کیلئے بیک وقت کئی سماجی ، سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں، اسکیموں اور پلانوں(مثلاً ویزن 2030، نیوم شہر، ارامکو کی تجدید کاری، عظیم سعودی ریلوے پروجیکٹ جس میں اب تک دمام -ریاض ریلوے کے علاوہ منی -عرفات ریلوے اور حرمین مٹرو ریلوے عمل میں لائے جاچکے ہیں، عورتوں کو بھی روزگار سے جوڑنا، اسلحہ سازی کے کارخانوں میں سوفیصد تک اضافہ کرناوغیرہ ) کو جنم دیاتاکہ ان نوجوانون کو ان سارے سیکٹرز میں روزگار فراہم کیا جاسکے۔
٭-کئی شہزادوں ، وزراءاور تاجروں کی گرفتاری کو دنیا بھر کے تحریکی اور تقلیدی محمد بن سلمان کی ناعاقبت اندیشی ، عجلت پسندی اور احمقانہ فعل بتا رہے ہیں۔ نیز چیخ چیخ کر یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ شاہ سلمان نے سارے اختیارات اپنے بیٹے کو سونپ دئیے ہیں تاکہ سارے معارضین کو ٹھکانے لگا کر تن تنہا مملکت کا مالک کل بن جائے اور پھر بادشاہت کی منتقلی میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
تعجب ہوتا ہے کہ جس اقدام کو سعودی سمیت دنیا بھر کے لوگ سراہ رہے ہیں اسی کو یہ بزدل اور خائف تحریکی وتقلیدی ٹولے ناعاقبت اندیشی اور عجلت پسندی بتارہے ہیں۔ پوری سعودی عوام اس گرفتاری پر خوشیاں منا رہی ہے۔ سعودی میڈیا اسے سراہ رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اسے تاریخی قدم بتا رہے ہیں۔ روزنامہ عکاظ کے ایڈیٹر نے بڑی صراحت سے بتایا ہے کہ یہ گرفتاریاں متوقع تھیں؛ کیونکہ بہت پہلے محمد بن سلمان نے وعدہ کیا تھا کہ کرپٹ لوگوں کے خلاف یقینا کارروائی ہوگی اور اپنے اسی وعدے کو انہوں نے پورا کیا ہے۔
٭نیوم (NEOM) شہر کی منصوبہ بندی کے وقت مملکہ کے حاسدین نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ یہ شہزادہ محمد بن سلمان کی ایک سازش ہے ، نیز اس سے ان کا مقصد لوگوں کو ایسے شہر کا خواب دکھا کر اپنی تمام غلطیوں سے ان کی نظروں کو پھیرنا ہے۔حالانکہ یہ ایک ایسا شاہکار اور تاریخی منصوبہ ہے کہ جسے سن کر تمام عالمی منڈی کے تاجر کے منہ سے رال ٹپکنے لگا وہیں دشمنوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اس لئے اس سے ان کا حسد کرنا ایک فطری بات ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ پٹرول پر اب مکمل بھروسہ کرنا سعودی معیشت کو داوپر لگانے جیسا تھا اس لئے متبادل کے طور پر سعودی حکومت نے بہت ساری معاشی پالیسی بنائی ہے انہیں میں سے ایک اس شہر کا بسانا بھی ہے۔ اور ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر اس طرح کے منصوبوں پر عمل بہت پہلے سے شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے زمانے ہی میں شروع کر دیئے گئے تھے۔ چنانچہ ٹکنالوجی، اکانومی، لگزری لائف اور اسمارٹ سٹی کی جانب مملکہ تیزی سے گامزن ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کنگ عبد اللہ بن عبد العزیز سٹی کے ساتھ ساتھ خود شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کی قائم کردہ یونیورسٹی (KAUST) کنگ عبد اللہ یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی -جدہ بھی ہے جو پورے خلیجی ممالک میں اپنی نوعیت کی پہلی یونیورسٹی ہے ۔ اور چونکہ ولی عہد محمد بن سلمان (Economic and Development Affairs Council ) جسے کنگ عبد اللہ بن عبد العزیز ہی کے دور میں قائم کیا گیا ہے اس کے صدر بھی ہیں اس لئے اس منصوبہ کو وہ شروع نہ کرتے تو پھر آخر کون شروع کرتا۔
٭نیوم شہر کے قیام پر بہت سارے حاسدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس روبوٹک اور تفریحی شہر کے ذریعے پرنس محمد بن سلمان بلاد حرمین میں فحاشی اور یورپی کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ اگر غیر جانب داری سے اس منصوبے کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف معاشی اور اقتصادی ہے یعنی سعودی نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے ، سعودی اقتصاد کو پٹرول پر انحصار کو مختلف معاشی پالیسیوں کے ذریعے ختم کیا جائے۔ اور یہ کہ سعودی عرب کو بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑا کیا جائے۔
چنانچہ اس شہر میں بجلی روایتی طریقوں کی بجائے شمسی پینل کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔ اور یہ بجلی نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرے گی بلکہ بیرونی دنیا کو بھی مہیا کی جاسکے گی۔ بجلی کے اس منصوبے کا نام (ضیاءالخضراء) رکھا گیا ہے۔ سعودی سرمایہ کار باہر کا رخ کرنے کے بجائے نیوم کا رخ کریں گے۔ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ پہلا مرحلہ 2025ءمیں مکمل ہوگا۔ یہاں افرادی قوت سے کہیں زیادہ روبوٹس پر انحصار کیا جائے گا۔ یہ ایک طرح سے مستقبل کا عالمی مثالی شہر ہوگا۔ تعلیم، صحت، خوراک، ٹرانسپورٹ، تفریحات اور جدید ٹکنالوجی کی صنعت کے حوالے سے انتہائی معیاری ہوگا۔ ڈیجیٹل مفت سروس مہیا ہوگی۔ سعودی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ اور مقامی وعالمی سرمایہ کار یہاں 500 ارب ڈالر سے زیادہ کا سرمایہ لگائیں گے۔ یہاں عسکری امور، خارجہ پالیسی اور ریاستی فیصلے سعودی عرب کے ہوں گے۔
ساتھ ہی کراون پرنس محمد بن سلمان نے بہت سارے حاسدین کے خدشات اور پروپیگنڈوں کے پھیلانے کے بعد یہ صراحت کردی ہے کہ یہ منصوبہ حرمین سے کافی دور مصر اور اردن کے سرحدی علاقوں کے پاس سعودی کے صحرائی علاقوں پر نافذ کیا جائے گاجہاں سعودی حکومت کے تحت سارے قوانین کا نفاذ ہوگا۔ یہ شہر گرچہ بالکل نئے طرز پر جدید ٹکنالوجی سے لیس روبوٹک ہوگا لیکن وہاں کسی طرح کی فحاشی اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کی اجازت بالکل نہ ہوگی۔
٭ایک عقل سے پیدل تحریکی حاسد نے نیوم شہر کے حوالے سے ایک انوکھا انکشاف کیا ہے اور اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : (چونکہ اہل غزہ دہائیوں سے امریکہ واسرائیل کیلئے دردِسر بنے ہوئے ہیں ، ان کو مستقل طور پر فلسطین بدر کرکے دوسری جگہ آباد کرنے کیلئے مصر کے حال ہی میں سعودیہ کے حوالے کیے گئے ویران جزائر تیران وصنافیر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس کے بدلے سعودی کو بیت المقدس کی تولیت کی امریکی ضمانت دی گئی ہے۔ اس طرح سعودی حکمراں بلا شرکت غیرے خادم الحرمین الشریفین کہلوا سکیں گے)۔ اس اخوانی رافضی تحریکی تبصرے میں دور دور تک حقیقت کی کوئی بو بھی محسوس نہیں ہورہی ہے، یہ محض جھوٹ کا پلندہ ہے۔ حقیقت پر پردہ ڈال کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی رافضی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔اس مالیخولیائی تبصرے پر صرف اتنا کہنا کافی ہوگا:
وعین الرضا عن کل عیب کلیلة ولکن عین السخط تبدی المساویا
مفہوم: اپنے محبوب کا ہر عیب نرالا دیکھا جلن اتنی کہ مرے ہر حسن کی ان دیکھی کی
رشک شہرت سے مرے مرنے لگا میری عزت کا حسد کرنے لگا
٭سعودی ویزن 2030ء:
اس عظیم امنگ اور ویزن کا موجد اور تخلیق کار خود محمد بن سلمان ہیں جنہوں نے مملکہ کو پٹرول پر انحصار کرنے سے مکمل طور پر 2030ءتک نکالنے کا پلان بنایا ہے۔ اس کے لئے بہت سارے اقتصادی پروجیکٹس اور پالیسیاں بنائی ہیں۔ اور اس عظیم پالیسی کو پورا کرنے کیلئے ہر سطح پر اپنے مخلص کارندوں کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا ہے۔ اس ویزن کے تحت محمد بن سلمان ہر سعودی باشندے کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن مملکہ کے حاسدین کو یہاں بھی برائی ہی نظر آتی ہے۔
٭ارامکوکی جدیدکاری کیلئے جب محمد بن سلمان نے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا تو حاسدین مملکہ کو یہاں بھی سب الٹا دکھنے لگا حتی کہ بعض حاسدین نے تو یہاں تک اڑا دیا کہ اب دنیا کی سب سے بڑی سعودی تیل کمپنی امریکہ کے ہاتھ گروی رکھی جارہی ہے۔
٭سعودی عرب کے اندر محمد بن سلمان کے ذریعے جب عورتوں کو کنڈیشنل حالتوں میں کچھ سہولتیں مہیا کی گئیں جیسے انہیں ڈرائیونگ کی اجازت ، نوکری کرنے کی اجازت، کھیل اور تفریح میں حصہ لینے کی اجازت، تو تحریکیوں نے اسے ماڈرن سعودی کہہ کر پوری دنیا میں پرچار کرنا شروع کردیا۔ حالانکہ یہی حاسدین پہلے سعودی حکومت کو عورتوں پر ظلم کرنے اور انہیں حبس دوام کا شکار بنانے والا بتاتے تھے۔ حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے سارے ٹھیکیدار سعودی حکومت کو بنیاد پرست اور قدامت پسند کہتے نہیں تھکتے تھے۔
٭کون نہیں جانتا کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے متطرف اور متشدد افکار ونظریات نے پوری دنیا کی طرح سعودی عرب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گرچہ ایسے متطرف افراد بہت کم تعداد میں ہیں لیکن سعودی نوجوانوں کو متشدد بنانے میں انہیں کا رول رہا ہے ۔ اسی لئے ایسے اخوانی اور تحریکی متشدد اور متطرف علماءکی خبر لینے نیز ان کی اثر انگیز کتابوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے ریاض کے اندر محمد بن سلمان کے ذریعے (المرکز الإسلامی لمحاربة التطرف) قائم کیا گیا۔ لیکن تحریکیوں نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا کہ امریکہ کے ایماء پر پرانے نصاب تعلیم پر نظر ثانی کرنے اور وہابی افکار ونظریات کو نکالنے کیلئے یہ مرکز قائم کیاگیاہے۔
٭ اسی طرح جب نیوم منصوبہ کے اعلان کے موقعہ پر محمد بن سلمان نے مذکورہ متشدد افکار کے پیش نظر یہ بیان دیا: (سنعود إلی ما کنا علیہ من الإسلام الوسطی المعتدل)یعنی ہم اس وسطی اور معتدل اسلام کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں جس پر اس ملک کی بنیاد پڑی ہے۔ یقینا اس میں نہ کوئی ماڈرن اسلام ہے نہ کوئی جدت پسند اسلام ۔بلکہ وہی اصل اسلام ہے جس پر قائم رہنے کی تلقین (امت وسط ) کہہ کر قرآن پاک کے اندر سارے مسلمانوں کو کی گئی ہے۔ لیکن اسے غلط مفہوم دیکر تحریکیوں نے خوب پھیلایا ۔ ایسا لگا کہ سعودی عرب چند دنوں میں لبرل اور علمانی ہوجائے گا۔
٭ سعودی ولی عہد نے کہا کہ ہم معمول کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جسکا مطلب بہت ہی واضح ہے کہ ایسی زندگی جس میں تشدد نہ ہو ، دہشت گردی نہ ہو، خوف وہراس نہ ہو، بالکل حدیث کی روشنی امن وسکون ہو ،اطمینان اور ایسی معمول کی زندگی کہ ایک سوار تنہا حضرموت سے سفر کرکے صنعاءچلاجائے اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہو۔ [صحیح بخاری: کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الإسلام، حدیث نمبر۶۱۴۳] ۔ لیکن اس واضح ترین بیان کو ایک تحریکی نے کس طرح مغالطے اور جھوٹ سے بھرے الفاظ میں لکھا ہے ذرا ہمت کرکے ملاحظہ فرمائیں اور اسے اپنی خصوصی دعاؤں میں یادرکھیں: (سعودی ولی عہد نے جس معمول کی زندگی کی بات کی ہے اس سے مغربی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق ایسی زندگی ہے جس میں موسیقی ہو، فلم ہو، فیشن کرتی ہوئی خواتین ہوں، سرکس ہوں جس میں خواتین بھی کام کرتی ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ نارمل لائف کا تصور جب مزید ترقی کرے گا تو پھر رقص گاہیں ہوں گی، جوا خانے اور طوائفیں وغیرہ بھی شامل ہوجائیں گی)۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت مملکہ اور اسکے حکمرانوں کو اسلامی عقیدے پر قائم رہنے ، کتاب وسنت اور منہج کو پھیلانے، غلو، تشدد اور ہر طرح کی تخریب کاری کرنے والوں کو صفایا کرنے کی توفیق بخشے۔شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کو اچھے وزراءاور ناصح علماءعنایت فرمائے، مملکہ کو اس کے حاسدین اور معارضین کی نظر بد سے بچائے نیز دن دونی رات چوگنی اسے ترقی دے۔ آمین
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10880&date=2017-11-27
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1484893751623907&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق