🙌افواہوں اور حقائق کے بیچ میں🙌
✍بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
سعودی عر ب جزیرہ نما عر ب کا سب سے بڑا ملک ہے۔ شمال میں اردن اور شام، شمال مشرق میں عراق، مشرق میں کویت، قطر ، بحرین ، متحدہ عرب امارات اور خلیج عربی، جنوب مشرق میں عمان، جنوب میں یمن، مغرب اور شمال مغرب میں بحر احمر سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔ سعودی عرب اپنے اسی اہم جغرافیائی وجود ، دو متبرک شہروں کی موجودگی ، حکمران آل سعود خاندان کی سیاسی بصیرت ، مملکت کے اندر اور باہر اس کے اثر ورسوخ، سعودی عوام کی دین سے محبت اور عملی جذبے، مہمان نوازی کی روایات، جوانمردی اور بہادری کی تاریخ کے باعث ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ جدید تاریخ میں خداداد وسائل کی فراوانی نے اسے خطے او ردنیا میں ایک ممتاز کردار کا حامل بنایا ہے، ان سب سے بڑھ کر پوری دنیا کے مسلمان سرزمین سعودیہ کو حرمین شریفین سے مذہبی عقیدت کے باعث احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
گذشتہ کئی دہائیوں سے تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کو کسی قسم کی کسی بھی پریشانی کا سامنا نہیں تھا۔ لیکن اکیسویں صدی آنے کے بعد دہشت گردی، تیل کی قیمتوں میں کمی، بدعنوانی اور رشوت ستانی کے بڑھنے سے سلامتی خطرے اورمعاشی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ خصوصاً ماضی قریب میں اس مقدس سر زمین کے باسیوں کی کرپشن کی کہانیاں جو مغربی میڈیا میں مزے لے لے کر بیان کی جاتی رہی ہیں ان کہانیوں نے سعودیہ کے ماتھے کو داغدار کیا ہے۔
چنانچہ شاہ سلمان بن عبد العزیز نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد انہیں دونوں محاذ پر خصوصی دھیان دیا۔ قومی سلامتی ہی کے پیش نظر مارچ 2015ءمیں عرب الائنس اور اسلامی فوجی اتحاد کی تشکیل دی۔ اور اقتصادی خطرے کے پیش نظر اپریل 2016ءمیں کونسل آف اکنامک اینڈ ڈویلپمنٹ افیئرز کے صدر کی حیثیت سے ملک میں بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی اصلاحات کے پروگرام شروع کئے جن کا مقصد تیل پر ملک کا انحصار ختم کرنا تھا۔ اسی سال مئی میں ولی عہد محمد بن سلمان کا العربیة ڈاٹ نیٹ نے ایک انٹرویو لیاتھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں کرپشن سے پریشانی ہے ۔ اس میں جو بھی ملوث پایا گیا اسے اس کی سزا ضرور ملے گی ۔ کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ۔
یہ کرپشن(Corruption) بدعنوانی، رشوت، کمیشن،دلالی، ہفتہ اور دیگر صورتوں میں پایا جاتاہے جو کسی بھی ملک میں اگر پروان چڑھا تو اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھا گیا۔ آپ چاہے لاکھ محنت کریں، مختلف طرح کی حکمت عملی اختیار کریں اور چاہے آپ کے پاس ہر طرح کے وسائل موجود ہوں ، لیکن آپ تب تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک آپ اپنے اندر سے کرپشن اور منافرت کو ختم نہیں کرتے، جب تک اپنے اپنے کام، اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داری میں اخلاص کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جو شخص جس قدر بلند مقام ومرتبے کا حامل ہوتاہے اس کے جرم کو اسی قدر سب سے زیادہ بھیانک اور قابل تعزیر وسزا سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے سال چین کے اندر ایک قانون کی منظوری دی گئی ہے ۔ اس قانون کے تحت ایک ملین (یَن) تک کی بدعنوانی کرنے والے شخص کو موت کی سزا دی جائے گی۔ یہی حال امریکہ ، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔ یہ لوگ سب کچھ برداشت کرلیتے ہیں لیکن کرپشن برداشت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کسی بھی شخص کے وزیر ، مشیر یا اعلی سرکاری افسر بننے کے بعد اس کے اثاثے بڑھنے کے بجائے گھٹ جاتے ہیں۔
چنانچہ مادیت کے اثرات پوری دنیا میں پھیلنے کے بعد جب دوسرے ممالک کی طرح سعودی کے اندر بھی بدعنوانی اور کرپشن کی خبریں گرم ہونے لگیں تو حکومت فوراً حرکت میں آگئی اور النزاهة (Transparency)یعنی شفافیت کے نام سے انٹی کرپشن ادارہ شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز نے 2011ءمیں قائم کردیا ، اوراس ادارے کی تاسیس کے وقت ہی کنگ عبد اللہ نے کہہ دیا تھا: (لن ینجو من المحاسبة احد کائناً من کان) یعنی محاسبہ اور قانونی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔چنانچہ اسی وقت سے یعنی پانچ سالوں سے مسلسل یہ ادارہ تحقیقات کر رہی تھی۔ اسی ادارے کے ذریعے بہت سارے کرپٹ لوگوں پر کارروائیاں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن اب تک اس ادارے نے ولید بن طلال جسیے کرپٹ، اباحیت پسند، یورپی کلچر کو سعودی میں فروغ دینے والے او ر متعب بن عبد اللہ، ترکی بن عبد اللہ (سابق گورنر ریاض)، ولید ابراہیم(این بی سی گروپ کے مالک)، عادل فقیہ(سابق وزیر اقتصاد ومنصوبہ بندی)، ابراہیم العساف(سابق وزیر خزانہ) اور عظیم سرمایہ کار محمد العمودی جیسے اثر ورسوخ کے مالک شہزادوں اور تاجروں کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ چنانچہ بہت سارے حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں کہ سعودی نظام صرف عام لوگوں کیلئے بنایا گیا ہے اور اثرورسوخ کے حامل رؤساءوامراءاس کے دائرے سے باہر ہیں ۔ چنانچہ اسی مہینے 4/نومبر 2017ء کے دن شاہ سلمان نے ایک پانچ رکنی اعلی اختیاراتی کمیٹی کی تشکیل دیکر اس کا ذمیدار ولی عہد محمد بن سلمان کو بنادیا تو اپنے وعدے کے مطابق ولی عہد نے فوراً حرکت میں آکر بلا تمیز تحقیقات کے دائرے میں آنے والے سارے کرپٹ لوگوں کو گرفتاری کا حکم دیدیا۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت قائم کردہ انسداد بدعنوانی کمیٹی میں مانیٹرنگ وانوسٹی گیشن اتھارٹی کے چیئر مین، قومی انسداد کرپشن اتھارٹی کے چیئر مین اور جنرل آڈٹ بیورو کے چیئر مین، اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ سیکیورٹی کے سربراہ اس کمیٹی کے ارکان ہوں گے۔ کمیٹی کے قیام کا مقصد ملک میں کرپشن کا خاتمہ اور بدعنوانی میں ملوث حکومتی عمال، وزراء، شہزادوں اور سرکردہ شخصیات کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لانا ہے۔
انٹی کرپشن کمیٹی کو بدعنوانی میں ملوث اداروں اور شخصیات سے تفتیش کے وسیع تر اختیارات دیئے گئے ہیں۔ یہ کمیٹی کسی اعلی عہدیدار کو گرفتار کرنے، کرپشن میں ملوث عناصر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے، منقولہ اور غیر منقولہ املاک کے غلط استعمال، منقولہ املاک بالخصوص غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک رقوم کی منتقلی روکنے کا مجاز ہوگا ، اور لوٹی گئی دولت قومی خزانے میں جمع کرانے کے ساتھ کرپشن میں ملوث افراد ، کمپنیوں اور اداروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل لائے گا۔
ڈیلی پاکستان آن لائن کے مطابق سعودی عرب کے اٹارنی جنرل شیخ سعود بن عبد الله المعجب کا کہنا ہے کہ مملکت میں حالیہ کچھ عشروں کے دوران ایک کھرب کی کرپشن کی گئی ہے جس کی بنا پر انسداد بدعنوانی مہم کے تحت 208/ افراد کو پوچھ گچھ کیلئے حراست میں لیا گیا ہے۔ نیز ان گرفتاریوں کے باعث سعودی عرب میں عام کاروباری سرگرمیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، مہم کے تحت صرف گرفتار افراد کے ذاتی اکاؤنٹس ہی منجمد کئے گئے ہیں۔ ان گرفتار افراد کو ریاض کے اندر ایک عالیشان پانچ ستارہ ہوٹل رٹزکارلٹن میں ٹھہرایا گیا ہے جہاں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں سے سات افراد کو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔ شیخ سعود المعجب نے مزید کہا کہ گرفتار افراد کے شناخت اور ان کے خلاف الزامات کے بارے میں دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جاری ہیں لیکن سعودی قانون کے تحت ان افراد کو مکمل قانونی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کریں گے۔ نیز ان افراد سے ان کے عہدوں کی وجہ سے کوئی خصوصی برتاؤ بھی نہیں کیا جائے گا یعنی کسی کا عہدہ انصاف کی راہ میں حائل نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جولوگ بدعنوانی کے الزام میں زیر حراست ہیں ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو دیگر افراد کو دیئے جاتے ہیں۔ ایک عام سعودی شہری، شہزادے، وزیر اور اعلی عہدیدار کے حقوق میں کوئی فرق نہیں۔
سعودی عرب کو اب یہ احساس ہوچلا ہے کہ جب تک بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک نہ اسکے یہاں حقیقی ترقی ہوگی اور نہ ہی وہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگا۔ خادم حرمین شریفین اور ولی عہد دونوں نے اپنی تمام تر توجہ کا محور بدعنوانی کے انسداد اور اسکے خاتمے کو بنالیا ہے۔ دونوں نے یہ نصب العین اس وجہ سے اپنایا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ بدعنوانی سیاسی ، اقتصادی، سماجی اور سلامتی کے نظام کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ چنانچہ ولی عہد کے بقول اب اس احتساب سے کوئی شخص نہیں بچے گا۔ جس کے خلاف بھی بدعنوانی کا جرم ثابت ہوگا وہ شہزادہ ہو یا وزیر ہو یا کوئی اعلی عہدیدار ہو اسے اپنے کئے کی سزا ضرور ملےگی۔ سعودی عرب مذہبی قیادت وسیادت کا پابند ہے اور اسلام بدعنوانی کو اصلاح کے منافی اور اسے حرام سمجھتاہے۔ عدالتی اعتبارسے بھی یہ ایک بہت بڑا جرم ہے؛ چنانچہ اسکا انسداد سماجی انصاف کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسی لئے اسلام نے اسکے خاتمے کی تاکید کی ہے۔
سعودی علماءکے بورڈ (هيئة کبار العلماء) نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بدعنوانی کا انسداد شریعت کا حکم ہے ، کرپشن سے لڑنا دہشت گردی سے مقابلے جتنا اہم مذہبی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ادارے نے کہا ہے کہ اس سے عدالت کی بنیادیں راسخ ہوں گی اور حق کو حق ثابت کرنے کا نظام مضبوط ہوگا۔ منطقہ ریاض کے اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل شیخ ترکی شلیل نے توجہ دلائی کہ ہماری قیادت بدعنوانوں کیخلاف کارروائی اور ان کی جڑیں کاٹنے کی عزم کرچکی ہے۔ اس سے بدعنوانی کے سوتے خشک ہوں گے، قومی مفاد حاصل ہوگا ، سرکاری خزانے کی حفاظت ہوگی اور آئندہ کسی بھی عہدیدار کو اپنے اختیارات غلط طریقے سے استعمال کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ کرپشن کے خلاف جس مہم کا آغاز کیا گیا ہے اس سے امید یہی کی جارہی ہے کہ سعودی معاشرہ ایک بار پھر تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
کرپشن دراصل ایک ایسا ناسور ہے جس نے مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہر ملک کی اپنی اپنی داستان ہے جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ پانامہ پیپرز اور پیراڈائز پیپرز جنہیں ویکی لیکس نے دنیا کے سامنے ظاہر کیا ہے اسکا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ملکی رہنما کس طرح کرپٹ اور بدعنوان ہیں۔ سعودی انسداد کرپشن کمیٹی نے کرپشن کے منبع پر ہاتھ ڈال کر ایسا جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے جس نے مملکت کے اندر اور باہر لوگوں کو حیرت انگیز فرحت سے ہمکنار کیا ہے۔ مملکت کے اندر اس تحریک کو نہ صرف خوش آمدید کہا گیا بلکہ سعودی شہریوں میں یہ قدم حکومت اور خادم حرمین شریفین اور خاص طور پر شہزادہ ولی عہد کی مقبولیت کو نئی بلندیوں پر لے گیا ہے۔ سعودی عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد ہی نہیں بڑھا بلکہ اس قدم سے معاشی ناہموار راستے کی مرمت کی امید بھی بندھی ہے۔ سعودی نوجوان بجا طور پر امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سعودی معاشرے اور حکومتی اداروں سے رشوت اور کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سعودی ولی عہد نے کرپشن کے مضبوط اور تناور شجر کی جڑوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کانٹے دار درخت خود بخود سوکھ کر مرجھا جائے گا۔ اپنے خاندان اور اپنی ہی حکومت کے کرپٹ افراد پر آہنی گرفت نے شہزادہ ولی عہد کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو مثبت سوچ کی راہ دکھائی ہے تو بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو نیا حوصلہ میسر آیا ہے۔
یہ سعودی عرب ہی نہیں، اسلامی دنیا میں ہونے والے کرپشن کیخلاف سب سے بڑی کارروائی ہے۔ سعودی عرب عصر حاضر کی ضروریات وترجیحات کے مطابق ترقی کی جو نئی منازل طے کرنے کی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے، اس میں ایسی کارروائی ناگزیر تھی۔ ہم دنیا والوں کو ترقی کرتے ہوئے اور انہیں اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے قوانین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور یہ کہ وہ کس طرح کسی تفریق ، امتیاز اور اختلاف سے بالاتر صرف قومی مفاد کو مقدم سمجھتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ اور اگر کوئی ملک کرپشن میں مبتلا قومی دولت لوٹنے والوں اور اپنے مناصب کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف قانون بناکر اس بر عمل در آمد کرتا ہے تو ہم اسکی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے الٹا اسکے خلاف پوری دنیا میں نفرت پھیلاتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیئے کہ اس واقعہ کو دنیا والوں کے سا منے دور فاروقی کے اس واقعے کی طرح نظیر بناکر پیش کیا جاتاجس میں یہ ذکر ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اپنی اولاد میں سے کسی کے بارے میں جب یہ خبر ملی کہ اس نے نشہ آور چیز استعمال کی ہے تو آپ نے فوراً اس واقعے کی تحقیق کرکے متہم پر حد خمر یعنی چالیس کوڑا مارنے کا حکم صادر کردیا چنانچہ میدان میں لاکر اس پر حد نافذ کیا گیا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ کئی شہزادوں ، وزراءاور تاجروں کی گرفتاری کو دنیا بھر کے رافضی، تحریکی اور تقلیدی محمد بن سلمان کی ناعاقبت اندیشی ، عجلت پسندی اور احمقانہ فعل بتا رہے ہیں۔ نیز چیخ چیخ کر یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ شاہ سلمان نے سارے اختیارات اپنے بیٹے کو سونپ دئیے ہیں تاکہ سارے معارضین کو ٹھکانے لگا کر تن تنہا مملکت کا مالک کل بن جائے اور پھر بادشاہت کی منتقلی میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
تعجب ہوتا ہے کہ جس اقدام کو سعودی سمیت دنیا بھر کے لوگ سراہ رہے ہیں اسی کو یہ بزدل اور خائف تحریکی وتقلیدی ٹولے ناعاقبت اندیشی اور عجلت پسندی بتارہے ہیں۔ پوری سعودی عوام اس گرفتاری پر خوشیاں منا رہی ہے۔ سعودی میڈیا اسے سراہ رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اسے تاریخی قدم بتا رہے ہیں۔ روزنامہ عکاظ کے ایڈیٹر نے بڑی صراحت سے بتایا ہے کہ یہ گرفتاریاں متوقع تھیں؛ کیونکہ بہت پہلے محمد بن سلمان نے وعدہ کیا تھا کہ کرپٹ لوگوں کے خلاف یقینا کارروائی ہوگی اور اپنے اسی وعدے کو انہوں نے پورا کیا ہے۔
اس سے جہاں ایک طرف ولی عہد کی بہادری، دینی جذبہ اور عوام سے ہمدردی کے اظہار کا پتہ چلتا ہے وہیں دوسری طرف عدل وانصاف، سیاسی بصیرت اور اولو العزمی پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن برا ہو برصغیر کے لال بجھکڑ سیاسی مبصرین کا جن کو سعودی کا ہر کا م برا لگتاہے ؛ اسی لئے ان گرفتاریوں کی خبر جیسے ہی ان کے کانوں پر لگی بغیر سوچے اور معلوم کئے یہ افواہ اڑانا شروع کر دیا کہ یہ آناً فاناً کارروائی ہے ۔ کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ فوری طورپر انٹی کرپشن کمیٹی بناکر صرف چار گھنٹے کے اندر بلا تحقیق اور بلا مقدمہ چلے اپنے سارے مخالفین کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔واقعی ان عقل کے اندھوں کو سب الٹا نظر آتا ہے؛ سچ کہا کسی شاعر نے:
وحشت میں ہر اک چہرہ الٹا نظر آتاہے مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتاہے
دوسرے اسلامی ملکوں میں جہاں حدود وقصاص کا نفاذ نہیں ہے وہاں مقتول کے بارے میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ عام کوئی باشندہ ہے یا کوئی بڑا لیڈر اور ملک کا نیتا ہے۔ اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے اور مقتول کے عام باشندہ ہونے کی صورت میں قاتل کیلئے سزا کچھ ہوتی ہے جبکہ مقتول کے ملکی لیڈر ہونے کی صورت میں قاتل کی سزا کچھ اور ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ قاتل کا کیا مقام ومرتبہ ہے اگر وہ کوئی بڑاا میر، لیڈر یا بیروکریٹ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے تو اسکے لئے سزا کچھ اور ہوتی ہے لیکن اگر قاتل غریب گھرانے کا ہے تو اس کیلئے سزا کچھ اور ہوتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی یا اکثر قاتل اور مقتول دونوں کے تعلق سے اس کی ذات برادری، طبقہ اور اس کے اثرورسوخ کو مد نظر رکھ کر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ جبکہ مملکت توحید سعودی عرب کے اندر صرف اور صرف اسلامی قوانین کی روشنی میں امیر غریب ، امراءاور رعایا سب کے لئے ایک ہی قانون ہے ، سب پر یکساں حدود اور قصاص نافذ ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سعودی عرب دوسرے اسلامی ملکوں سے کس قدر ممتاز اور انسانوں کیلئے بہتر اور خیر خواہ حکومت ہے۔ نیز ذیل میں دور نبوی میں پیش آنے والے ایک واقعے کو نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس سے مملکت توحید کا پابندِ شریعت ہونا مزید واضح ہوجائے گا:
عن عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ الفَتْحِ، فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِيهَا، تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ»، قَالَ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا كَانَ العَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ خَطِيبًا، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ النَّاسَ قَبْلَكُمْ: أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الحَدَّ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا " ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْكَ المَرْأَةِ فَقُطِعَتْ يَدُهَا، فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِكَ وَتَزَوَّجَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ: «فَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»(صحیح البخاری: کتاب المغازی: حدیث رقم: ۴۰۳۴) ترجمہ: عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عزوہ فتح مکہ کے موقعہ پر (قریش کی ) ایک عورت نے چوری کی، چنانچہ (قصاصاً ہاتھ کٹنے کے خوف میں) اس کی قوم والے (محبوب نبی) اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس سفارش کیلئے گئے۔ لیکن جب اسامہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے تعلق سے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدل گیا اور فرمایا: کیا تم مجھ سے حدود اللہ کے سلسلے میں بات کرنے آئے ہو؟ اسامہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول ! مجھے معاف فرمائیں۔ جب شام کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور حمد وثنا کے بعد فرمایا: تم لوگوں سے پہلے (بنو اسرائیل) اسی لئے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں کوئی امیر ترین شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی ان میں کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ میں نے کاٹ دیا ہوتا۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے تعلق سے حکم صادر فرمایا اور اس کا ہاتھ کاٹا گیا۔ بعد میں اس کے اندر اصلاح پیدا ہوئی اور اسکی شادی ہوگئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: بعد میں وہ عورت میرے پاس آتی اورمیں اسکی ضرورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچا دیا کرتی۔
اس واقعے کے نقل کرنے کے بعد حالیہ سعودی حکومت میں شاہ سلمان بن عبد العزیز کے رواں دور حکومت میں پیش آنے والے ایک قتل کے واقعے کو بھی نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو درج ذیل ہے:
گزشتہ سال اکتوبر 2016ء میں ریاض شہر میں کسی آپسی بحث وتکرار اور اختلاف بڑھ جانے سے ایک سعودی سہزادے ترکی بن سعود بن ترکی بن سعود الکبیر آل سعود نے ایک سعودی باشندے عادل بن سلیمان بن عبد الکریم المحیمید پر گولی چلا دی جس سے عادل کی وفات ہوگئی۔ حادثے کی اطلاع سعودی سیکورٹی کو دی گئی اور آنا فاناً مجرم کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ پھر سعودی پولیس نے تحقیقات مکمل کرکے مسئلے کو عدالت کے حوالے کردیا۔ سعودی کی شرعی عدالت نے ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں مجرم کے خلاف قصاصاً قتل کا فیصلہ صادر کرکے موجودہ فرمانروا شاہ سلمان کے پاس بھیج دیا۔ شاہ سلمان نے بلا تامل شرعی قانون کے نفاذ کا حکم دیدیا خواہ وہ کسی کے بھی خلاف ہو۔ چنانچہ ریاض شہر میں بروز منگل 18/اکتوبر 2016ء کو شہزادہ ترکی بن سعود کو میدان قصاص میں لایا گیا اور عام روایت کے مطابق مقتول کے اولیاءسے رحم کی درخواست کی گئی لیکن جب ان لوگوں نے معاف کرنے سے انکار کردیا تو شہزادہ کو بھی دوسرے تمام قاتلوں کی طرح قصاصاً قتل کردیا گیا۔
قصاص کے معاً بعد سعودی وزارت داخلہ کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ خادم الحرمین الشریفین کی حکومت اس بات کا پابند ہے کہ امن وسلامتی اور عدل وانصاف کی خاطر اللہ رب العزت کے احکام وحدود کو ہر اس شخص پر نافذ کیا جائے جو امن کے دشمن ہیں اور معصوموں کے خون کے پیاسے ہیں۔
شہزادہ ترکی بن سعود پر قصاص نافذ کر نے کے بعدداداخالد بن سعود الکبیر نے اپنے خاص ٹویٹر پر اللہ کا شکریہ ادا کر تے ہوئے یہ دعا لکھی: (الحمد للہ علی کل حال، اللہم اجعل إقامة حد القصاص علی الابن ترکی بن سعود بن ترکی بن سعود الکبیر کفارةً لہ واجعل مثواہ الفردوس الاعلی من الجنة) ترجمہ: ہر حال میں اللہ رب العزت کا شکر ہے، اے اللہ! بیٹے ترکی بن سعود پر قصاص کے نفاذکو اس کے لئے کفارے کا ذریعہ بنادے نیز اسے جنت الفردوس میں ٹھکانہ دے۔ (بحوالہ : سی این این عربی ، مشرق وسطی: https://arabic.cnn.com/middleeast/2016/10/19/saudi-prince-execution)
اس طرح کاواقعہ جو کہ نبوی دور اور خلافت راشدہ کے دور کو تازہ کرنے والا ہے ، کیا سعودی عرب کے علاوہ کسی اور ملک میں ممکن ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر یہ تحریکی اور تقلیدی ٹولے اس خبر کی تشہیر کیوں نہیں کرتے ؟ تحریکی مجلہ افکار ملی اس خبر کی سرخی لگا کر فکر انگیزی کیوں نہیں کرتا؟ کاروان عدل وانصاف کے متحرک تحریکی عدل وانصاف کا دامن پکڑ کر کیا اس خبر پر بھی کچھ گل افشانی کرسکتے ہیں؟ تقلیدی نیوز پورٹل ملت ٹائمز کیا اس خبر سے ملت اسلامیہ کو آگاہ کرنے کی زحمت گوارا کر سکتا ہے؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر مملکت سعودی عرب کے تعلق سے منفی جھوٹی خبریں آخر انہیں پھیلانے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ اور پھر صحیح اور مثبت خبروں کو چھوڑ کر جھوٹی منفی خبریں پھیلانے سے ان کا کیا مقصد ہے؟ کیا اس سے اصلاح مقصود ہے یا مملکت کے خلاف اندر چھپی ہوئی بغض وحسد اور کینے کا اظہار وجہ اصلی ہے؟پھر سعودی کے خلاف آخر ان کے بغض وحسد اور کینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ پھر ان میں اور ان روافض شیعوں میں آخر کیا فرق رہ جاتا ہے جن کا مقصد ہی سعودیہ کے خلاف جھوٹی خبریں گڑھنا اور پھیلانا ہے؟
دراصل رافضی ، تقلیدی، تحریکی اور لبرل حلقوں کو سعودی کے اند ر دینی اور دنیوی بھلائی اور خیرخواہی کے نام پر انجام پانے والی کوئی بھی کارروائی الٹی دکھتی ہے۔ اسے غلط معنی پہنا کر دنیا بھر میں اسکا پروپیگنڈہ کرنا یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اسی انٹی کرپشن کارروائی کے حوالے سے ایک بددین لبرل نے کچھ اس طرح گل افشانی کی ہے: (جس انٹی کرپشن کمیٹی کے بنانے کے فوراً بعد بڑے پیمانے پر ٹاپ کی سطح سے مخالفین کی صفائی کا عمل شروع کیا گیا اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کرپشن کے خلاف مہم در اصل اپنے ناپسندیدہ عناصر کو ہٹانے کا حربہ ہے۔ اور یہ بھی پتہ چلتاہے کہ ولی عہد تیزی سے اپنی طاقت مجتمع کر رہا ہے)۔
ایک تحریکی کچھ اس انداز میں قیاس آرائی کرتا ہے: (پہلے ان مذہبی علماءکی گرفتاری عمل میں آئی جو ولی عہد کی پالیسیوں پر تنقید کر رہے تھے۔ لیکن شہزادوں کی گرفتاریاں ، اعلی عہدوں سے برطرفیاں، نیشنل گارڈز اور افواج میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سعودی ولی عہد شاہی خاندان پر اپنا آہنی شکنجہ اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں)۔
ایک رافضی اپنے سینے کی آگ کچھ اس طرح بجھاتا ہے: (سعودی عرب میں اقتدار کی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ ایک نہ ایک دن ان آدم خور بھیڑیوں کو آپس میں لڑنا ہی تھا اور اس خطے کی امن پسند قوتوں کوپچھلے ستر سالوں سے اسی دن کا انتظار تھا ۔ دنیا کو پٹرول کی آگ میں جھونکنے اور جلانے والوں کے گھر میں آگ لگ چکی ہے۔ اس خانگی جنگ کے اثرات دنیا میں مثبت تبدیلی کی بنیاد بن سکتے ہیں)۔
حاسدین کے سارے خدشات اور قیاس آرائیاں سوائے جھوٹ کے پلندوں کے اور کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ پانچ چھ سال کی مکمل تیاری اور ثبوتوں کے ساتھ جس طرح کرپشن میں مبتلا افراد پر ہی ہاتھ ڈالا گیا ہے اور اس میں شاہ سلمان کے اپنے ہی وزیر ، مشیر اور خاندان کے بھی افراد سرفہرست ہیں آنے والے چند ہفتوں میں ہی ناقدین وحاسدین کے منہ بند ہوجائیں گے۔اس لئے کہ سعودی عدلیہ میں خادم حرمین شریفین کی طرف سے جو نئے منصفین شامل کئے گئے ہیں وہ قانونی ماہرین اور غیر جانبداری میں شہرت رکھتے ہیں ۔ عدلیہ میں ایسے ایماندار اور شفاف کردار کے منصفین کو ترقی دے کر اس بات کا اہتمام کردیا گیا ہے کہ کسی بے گناہ کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی نہ ہونے پائے نیز کوئی کرپٹ اور گناہ گار اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرکے بچ بھی نہ سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی واقعی فلاحی انسانی معاشرے کی بنیاد خود نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے چودہ صدی پہلے رکھ دی تھی جب آپ نے خطبہ حجة الوداع میں دوٹوک الفاظ میں سود کو حرام کرکے اور یہ فرمادیا تھا: (الراشی والمرتشی کلاہما فی النار) یعنی رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔ معاشرے کو کرپشن سے پاک رکھنے کا دین اسلام سے زیادہ عملیت پسندی کا مظاہرہ کسی اور مذہب میں نظر نہیں آتا۔ اگر معاشرے کو شعائر اسلامی پر استوار کیا جائے اور شریعت کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جائے تو اس میں کسی قسم کے جرائم پنپنے کا تصور بھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ شعائر اسلامی میں ڈھلا معاشرہ ہی شرف انسانیت کا عملی نمونہ ہوتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ناطے ہمارے لئے یہ فخر واطمینان کی بات ہے کہ مسلم امہ کے لئے مرجع خلائق پاک سعودی دھرتی حجاز مقدس نفاذ شریعت کے عملی نمونہ کے طور پر امت واحدہ کیلئے رہنمائی وقیادت کا فریضہ ادا کررہی ہے۔ دین اسلام میں حد اور تعزیر کی سزاوں کے تصور نے بھی معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور ان سزاو¿ں پر حقیقی معنوں میں عملدر آمد بھی سعودی فرمانروائی میں حجاز مقدس میںہی ہوتا ہے۔ اگر دوسرے مسلم ممالک بھی شعائر اسلامی کی عملداری کے پابند ہوجائیں تو مسلم امہ آج بھی اقوا م عالم کی قیادت کے اہل ہوسکتی ہے۔
سعودی معاشرہ آج ریاستی قوانین کی عملداری اور ڈسپلن کا مثالی معاشرہ ہے جہاں شہری کسی جبر کے ماحول میں نہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر ملکی قوانین اور ہر شاہی فرمان کی اطاعت کرتے ہیں۔ قانون کی نگاہ میں سب کے مساوی ہونے کا تصور ہر باشندے کے دل میں پختہ ہے۔ لہذا بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی فرمانروا کے اقدامات تمام مسلم دنیا کیلئے قابل تقلید ہے۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت مملکہ کو تمام برائیوں سے پاک رکھے، کرپشن اور رشوت جیسے سماجی ناسور سے مکمل محفوظ بنادے، نا اہل اور کرپٹ قسم کے لوگوںکو حکومت سے دور رکھے، مملکہ کے حکمرانوں کو تقوی شعار اور عدل کا پیکر بنائے، اسے حاسدین اور دشمنوں کے ہر شر سے بچائے۔ آمین
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10848&date=2017-11-23
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1480964688683480&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق