💥مملکۂ توحید کی بنیاد:💥
ا🙌فواہوں اور الزامات کے سائے میں🙌
✍بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قیامت کی صبح تک ایک گروہ حق پر باقی رہے گی ، لوگ ان کی ملامت کرتے رہیں گے ، ان پر الزامات لگاتے رہیں گے، ان کے خلاف افواہوں اور پروپیگنڈوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ البتہ اس گروہ کو کسی کی ملامت کا نہ تو خوف ہوگا نہ ہی یہ حق کا ساتھ چھوڑیں گے۔ کتاب وسنت کے اندرموجود ڈھیر ساری دلیلوں کا خلاصہ یہی ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب دعوت حقہ کا پیغام مشرکین وکفار کے ایوانوں میں پہونچایا تو آپ کو ہر طرح سے ستایاگیا ، ملامت کی گئی اور ہر پیمانے پر آپ کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ الزامات اور تہمتوں کی بارش کی گئی ۔ آپ کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا ۔ کچھ لوگوں کو اسی کام کیلئے وقف کیا گیا چنانچہ نضر بن حارث جیسے لوگوں کا یہی کام تھا۔ انقلابی نوجوانوں اور اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگایا گیا۔ آپ کو جادو گرکہاگیا ، شاعر کہا گیا، سنکی بتایاگیا، مجنون ہونے کا طعنہ دیا گیانیز حرص ولالچ کا شیدائی تک بتایا گیا۔ لیکن آپ اور آپ کے ساتھی نہ تو حق سے الگ ہوئے اور نہ ہی اس کی تبلیغ سے باز آئے۔ دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی اور آپ اورآپ کے صحابہ کامیابی سے سرفراز ہوئے۔
آج بھی ایک گروہ اسی منہج سلف پر قائم ہے ، کتاب وسنت کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے اورصرف اسی کی بالا دستی کو قبول کرتا ہے۔ محض اسی وجہ سے اپنوں اور غیروں ہر سطح پر اسے بھی ہر طرح کی ملامت ، الزامات ، تہمتیں اور پروپیگنڈوں کا سامنا ہے۔ حق کی دعوت دینا اور اس پر عمل پیرا ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ امام مالک ، امام احمد، شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہ کے حالات زندگی پر طائرانہ نظر دوڑانے سے ہر کسی کویہ احساس ہوجائے گا کہ حق پر قائم رہنے والا ایک گروہ قیامت تک باقی رہے گا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی بارہویں صدی ہجری میں شیخ محمد بن عبد الوہاب اور آپ کے ساتھی امام محمد بن سعود کا وہ گروہ بھی ہے جنہوں نے مل کر جزیرۂ عرب کے شمال میں منہج سلف پر مشتمل کتاب وسنت کے مطابق دستور بناکر حکومت قائم کی تھی ۔
وہ عیینہ اور درعیہ کے علاقے جہاں پہلے شرک وبدعت کے ہر کام سر انجام دیئے جاتے تھے، رعایا پر حکومت کی طرف سے ہر ظلم کو روا رکھا جاتا تھا لیکن گروہ ِ حقہ کے ان دونوں اماموں نے حکومت قائم کرنے کے بعد ان سارے ظلم کی قسموں کو سماج سے ختم کردیا جنہیں دین یا حکومت کے نام پر انجام دیا جاتا تھا۔ اسلامی شریعت کے مطابق عدل وانصاف کوسامنے رکھ کر دعوت دین اور حکومت الہی کے پیغام کو رواج دینا شروع کردیا۔(اس وقت کے حالات سے مکمل آگاہی کیلئے مطالعہ کیجئے جناب مسعود عالم ندوی صاحب کی مشہور کتاب: شیخ محمد بن عبد الوہاب : ایک مظلوم اور بدنام مصلح)۔
ظاہر سی بات ہے ایسی صورت میں دین اور دنیا کے ظالم ٹھیکیداروں پر کیا نہیں بیتی ہوگی۔ یہاں پر بالکل وہی نقشہ اپنے ذہن دوڑائیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں آنے کے بعد عبد اللہ بن ابی بن ابی سلول کیلئے پیش آیا تھا کہ وہ مدینہ کی سرداری کا کس طرح خواب دیکھ رہا تھا لیکن اچانک سارا خواب چکنا چور ہوگیا ۔ مدینہ کی ساری عوام دعوت حق کے ساتھ ہوگئی اور وہ منافق اپنا منہ لے کر رہ گیا لیکن یونہی خاموش نہیں بیٹھا ۔ مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش ، کافروں سے مل کر آپ کے خلاف ریشہ دوانیاں، مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے حتی کہ بعض نازک حالات میں ان کا مذاق اڑانا یہ سب منافقوں کے ساتھ مل کر یہ شخص کرتا رہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کسی کی پرواہ نہیں کی اوراللہ کی مدد کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔
ایران کے اندر جب تک مسلمانوں کی مضبوط حکومت قائم رہی وہاں کے رافضی شیعہ خاموشی رہے لیکن جیسے ہی سولہویں صدی عیسوی کے ابتداء میں اسماعیل صفوی رافضی ایران کے اندر رافضی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا اسی وقت سے مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی سازش کرنا شروع کردیا۔ عیسائیوں سے مل کر مسلمانوں پر حملے کرنا اسکا محبوب مشغلہ بن گیا۔ لیکن آل سعود اور آل شیخ کے خلاف ان مجوسی رافضیوں کی طرف سے الزامات اور ریشہ دوانیوں کا مضبوط اور منظم سلسلہ ۱۹۷۹ء کے بعد شروع ہوتا ہے جب انقلابی مجوسی رافضیوں کا ایران پر غلبہ ہوتا ہے جنہوں نے دین کو آڑ بنا کر مجوسی فارسی حاکم قورش کی طرح ساسانی مجوسی ایرانی عظیم حکومت کو قائم کرنے کا خواب دیکھ رکھا ہے۔ اور ان کے سردار خمینی نے عراق پر حملے کے وقت کہا تھا کہ صدام تو راستے کا روڑا ہے ، ہمارا اصل مقصد حرمین پر قبضہ کرکے- نعو ذ باللہ- صنمی قریش (ابو بکر وعمر ) کے قبروں کو مدینہ سے نکال باہر کرنا ہے۔
۲۰۱۴ء کے اندر ایر انی اور حوثی رافضی یمن پر قبضہ کرکے حرمین اور جزیرۂ عرب کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرنے کا خواب جس طرح بنائے ہوئے تھے اور یمن کے بری اور بحری تمام راستوں سے صفوی رافضی ایران جس طرح حوثی باغیوں کی مدد کر رہا تھایہ سب دیکھ کر سنی عربوں کے ہوش اڑ گئے۔ اسے شاہ سلمان کی سیاسی بصیرت اور مدبرانہ چال کہیئے کہ آپ نے دنیا کے کسی بھی اجنبی ممالک کو خبر کئے بغیر خاص خاص خلیجی اور عرب ممالک کی فوری میٹنگ بلائی اور عربوں کا ایک فوجی ایلائنس بناکر اچانک یمن کے قانونی مفرور صدر ہادی منصور عبد ربہ کی دعوت پر عرب اتحادیوں کی فوج نے مارچ ۲۰۱۵ء ميں رافضی حوثیوں پر حملہ کردیا ۔ جسے دیکھ کر ایران ہی نہیں پوری دنیا خصوصا یورپ اور امریکہ سب حیران ہوگئے۔ اس طرح رافضی شیعوں کا خلیج عرب پر قبضہ کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ حوثیوں کی تمام جنگی(بری، فضائی اور بحری) صلاحیتوں کو نیست ونابود کر دیا گیا۔ فضائی اور بحری راستوں سے ایرانی تمام طرح کی فوجی امداد کی ناکہ بندی کر دی گئی۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جسے دیکھ کر تمام رافضی ایرانی اور ان کے اذناب واذیال بے آب ماہی کی طرح تڑپنے لگے۔ پہلی مار انہیں پر پڑی ہے جو اب تک تڑپ رہے ہیں۔ کیونکہ جزیرہ ٔ عرب کے اندر ان کے انقلاب کا سارا خواب چکنا چور ہوگیا۔ اب آخر سلمان اور بیٹا محمد ان کی نظر میں برے نہیں ہوں گے تو پھر اور کون ہوگا؟ ان کے بارے میں جھوٹ ، تہمت ، الزامات اور پروپیگنڈہ نہیں کریں گے تو اور کس کے بارے میں کریں گے۔
۲۰۰۳ء سے لیکر۲۰۱۲ء تک یعنی عراق پر رافضی امریکی حملہ سے لیکر شامی سنی مسلمانوں کے خلاف نسلی تباہی تک رافضی شیعوں نے جس طرح سنی عرب ممالک میں دھینگا مستی کر رکھی ہے، او راس وقت سے اب تک تمام دشمنان ِ مملکہ خصوصا ان روافض نے جس طرح مملکہ کے خلاف افواہ پھیلانے اور پرپیگنڈہ کرنے کیلئے ہزاروں جھوٹی ویب سائٹس اور مراکز چلارہے ہیں ، اور اسی طرح جب ۲۰۱۶ء کے اندر اخوانیوں اور تحریکیوں کی ریشہ دوانیاں جب بڑھنے لگیں تو ان کے خلاف مملکہ کی کارروائی نے اور ۲۰۱۷ء میں قطر کے خلاف خلیجی ممالک کی پابندی کے بعد ان رافضیوں کے ساتھ مملکہ کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے میں تمام تحریکی اور تقلیدی بھی شامل ہوگئے۔ اس طرح الکفر ملۃ واحدۃ اور دوست کے دشمن سے دشمنی نبھانے کے تحت سارے ہوا پرست مملکۂ توحید کے خلاف اکٹھا ہوگئے اور ہر طرح کی جھوٹی افواہ اور پروپیگنڈوں کا انبار لگا دیا گیا۔ چنانچہ ان پروپیگنڈوں اور افواہوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مملکت کے اندر (ہیئۃ مکافحۃ الإشاعات) کے نام سے ۲۰۱۲ء میں ایک ادارہ قائم کیا گیاتاکہ مملکہ کے باشندوں کو ایسے افواہوں کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے اور حقیقت حال سے انہیں باخبر کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ مملکہ کے اندر پروپیگنڈہ کرنے والے اور مملکہ کے خلاف افواہ پھیلانے والے کے خلاف قانون بھی بنایا گیا ہے جس کے تحت اسے قید وبند کی صعوبتیں نیز جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ افواہوں اور پروپیگنڈوں کا رد کرنے سے پہلے آل سعود اور آل شیخ کے اتحاد کے وقت ہی سے ان کے خلاف تمام افواہوں اور پروپیگنڈوں پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے تاکہ مملکۂ توحید کے خلاف تمام دشمنوں کی حالات کا اندازہ ہوجائے ، نیز یہ کہ شروع ہی سے کس طرح مملکہ سب کی نظروں میں کھٹکتا رہا ہے۔ اپنوں اور غیروں ہر ایک کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہا ہے۔چنانچہ مملکت توحید سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈوں کا بازار گرم کرنا ، اسکے خلاف افواہ اور جھوٹ پھیلانا رافضی ، تحریکی اور تقلیدی ٹولے سب کاشروع ہی سے محبوب مشغلہ رہا ہے۔ مملکت کے قیام ہی سے آل شریف کی حکومت میں مکہ کے اندر بیٹھے جہاں ایک طرف مشرکین اور بدعتیوں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب اور امام محمد بن سعود رحمہما اللہ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا تھا۔ وہیں دوسری طرف انگریزوں کے ساتھ ملکر ترکی حکومت نے بھی یورپ اور پوری دنیا میں اس حکومت کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ نیز ایران میں قائم فارسی مجوسی رافضی صفوی حکومت آل سعود کے خلاف کی گئی تمام ریشہ دوانیوں میں پورا پورا ساتھ دیا۔
۱۱۵۷ھ میں شیخ محمد بن عبد الوہاب سے امام محمد بن سعود نے جب جزیرۃ العرب کے شمال مشرق میں درعیہ نامی علاقے میں اس بات پر بیعت کی کہ حکومت میں آپ ہمار ا ساتھ دیں۔ اور اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ دونوں خاندان مل کر کتاب وسنت کو اپنا منہج بناکر حکومت کریں گے۔ یہ معاہدہ ترکی خلافت اور یورپین سامراجیوں دونوں کے خلاف تھا۔ ترکی خلافت میں صوفی تقلیدی علماء کا غلبہ تھا ۔ اس دور میں خلافت انہیں کے اشارے پر چل رہی تھی ۔ مصر میں عثمانی سلطنت سے الگ ہوکر محمد بن علی نے جو حکومت قائم کی تھی اسکا بھی وہی حال تھا۔ اس آخری دور میں اسلامی خلافت کے کمزور کرنے میں ان کا بنیادی کردار تھا ۔ یورپین قوم جس وقت مسلم سائنس دانوں کی تحقیقات اور ریسرچ پر کام کرکے دن بدن آگے بڑھ رہے تھے خصوصاً ثقافتی ، سماجی اور عسکری میدان میں جس قدر مسلمان پیچھے ہورہے تھے وہ اسی قدر آگے بڑھ رہے تھے۔ مختلف ایجادات کرکے انہوں نے ایک ایک سے ہتھیار بنانا شروع کر دیا تھا۔ ادھر صوفی تقلیدی علماء اور قاضیوں نے بندوق تک کی اجازت دینے سے انکار کردیا یہ کہہ کر کہ یہ ایمانی روح کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت فرانسیسی فوج مصر پر حملہ آور تھی اس وقت وہاں کے تقلیدی علماء نے فتوی دیا تھا کہ احمد بدوی کے مزار پر ختم بخاری شروع کیا جائے۔
اور یورپین سامراجیوں کا حال یہ تھا کہ وہ مسلمانوں میں ایسے ہی بدعت کے دلدادہ، صوفی سنت ، تارک الدنیا نیز تقلید جامد کے شکار قسم کے لوگوں کو پسند کرتے تھے کہ جن سے انہیں ترقی اور آگے بڑھنے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔
چنانچہ جزیرہ ٔ عرب میں جب شیخین کے معاہدے کے بعد ایک سلفی منہج کتاب وسنت پر مبنی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو ان سب کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ ہر ایک نے اس حکومت کو بدنام کرنے اور اسے ختم کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب اور خارجی عبد الوہاب ابن رستم کے ناموں میں مشابہت کیوجہ سے ان لوگوں نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ یہ تو وہی وہابی فرقہ ہے جو شمال افریقہ میں کبھی پایا جاتا تھا ۔ اور اس خارجی کے جتنے عقیدے اور اعمال قبیحہ تھے سب شیخ کی طرف نسبت کرکے لوگوں میں پرچار شروع کردیاتاکہ عوام اس سلفی حکومت سے بدظن ہوجائیں ،یہ دنیا میں بدنام ہوجائے اور اس کا اثر پھیلنے نہ پائے۔
عبد الوہاب ابن رستم جوکہ ایرانی النسل فارسی تھا اسکا پورا نسب اس طرح ہے: عبد الوہاب بن عبد الرحمن بن رستم بن بہرام بن سام بن کسری۔ اس کی پیدائش ۷۸۴ء ہے جبکہ وفات ۸۳۲ء یعنی ۱۹۷ھ ہے۔ یہ خارجی اباضی فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے باپ نے شمال افریقہ تاہرت (جو اس وقت جزائر کا ایک صوبہ ہے) میں خارجی رستمی حکومت قائم کی جس کا یہ وارث تھا اور جو اپنے باپ سے کہیں زیادہ سخت تھا۔ اس نے حج اوردیگر کئی اسلامی احکام کو معطل کر رکھا تھاجس کی وجہ سے افریقہ کے اندر قائم دیگر مسلم حکمرانوں خصوصا علماء جزائر اور اس خارجی حکومت کے درمیان مناظرے اور لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ یہ عبد الوہاب ابن رستم سنی مسلمانوں کا سخت دشمن تھا اور ان کے خون کو حلال سمجھتا تھا۔ یہ شخص جس اباضی خارجی فرقے سے تعلق رکھتا تھا وہ فرقۂ وہابیۂ سے مشہور تھا جسے علماء اندلس وجزائر نے خارج از اسلام قرار دیدیا تھا۔
وہابیت سب سے پہلااور عظیم پروپیگنڈہ تھا جو اس سلفی حکومت (پہلی سعودی حکومت) کے خلاف پھیلایا گیا جس کا دونوں کے مابین دور کا بھی کسی اعتبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر بھی درج ذیل چند نکات کی روشنی میں اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالا جاسکتا ہے:
(الف: زمان ومکان کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دونوں میں کافی بعد پایا جاتا ہے ۔ زمانے کے اعتبار سے تو بالکل واضح ہے کہ ابن رستم جسکی وفات ۱۹۷ھ میں ہے جبکہ شیخ محمد بن عبدا لوہاب کی وفات ۱۲۰۶ھ میں ہوئی ہے یعنی ایک ہزار سالوں کا فاصلہ ہے۔ جبکہ مکان کے اعتبار سے بھی ایک اگر عالم اسلامی کے مشرق میں ہے تو دوسرا مغرب میں یعنی بعد المشرقین کا فاصلہ ہے۔ اور یہ کہ اسکی دعوت شمال افریقہ اور اندلس سے آگے عالم اسلامی میں کہیں نہ جاسکی۔ نیز تاریخ کی کسی کتاب میں اس بات کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ملتا کہ ابن رستم کی دعوت جزیرہ عرب تک پہونچی ہو۔ تاریخ طبری، تاریخ کامل لابن اثیر، الملل والنحل للشہرستانی وابن حزم وغیرہ کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جن میں صرف مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ابن رستم نے ایک دفعہ حج کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کے ساتھیوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ عباسی خلیفہ گرفتار کر لے گا۔
(ب: شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت تجدیدی دعوت تھی جو کہ کتاب وسنت اور منہج سلف پر قائم تھی جبکہ عبد الوہاب ابن رستم کی دعوت منہج سلف سے بالکل ہٹ کر ایک نئی دعوت تھی یہی وجہ ہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام علماء نے اس کی مخالفت کی تھی۔
(ج: شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنی دعوت میں کبھی بھی خارجی اباضی فرقے کی تائید نہیں کی اور نہ ہی ان کے آراء واقوال کو کبھی حجت بنایا اور نہ ہی آپ کو ابن رستم کے فرقے کے بارے میں کوئی آگاہی تھی ۔ آپ کی کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر اسے سمجھا جاسکتا ہے جن میں اس گمراہ فرقے کا کوئی ذکر نہیں ملے گا۔
(د:عبد الوہاب ابن رستم کی طرف فرقۂ وہابیہ اگر منسوب تھی تو وہ بالکل صحیح تھی کیونکہ اسکا بانی عبد الوہاب تھا لیکن محمد بن عبدالوہاب کی طرف منسوب کرنا یہ لغوی غلطی ہے کیونکہ آپ کا نام محمد ہے جس کی طرف منسوب محمدی ہے نہ کہ وہابی ۔ اور یہ کہ آپ کے والد عبد الوہاب کا دینی دعوت میں یا حکومت میں کوئی اثر اور فکر نہیں ہے۔
(ھ:شیخ محمد بن عبد الوہاب کی طرف منسوب تمام باطل عقائد اور بے بنیاد باتوں کا رد مویدین کے علاوہ مخالفین نے بھی کی ہے جس کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں خودبعض انگریز بھی شامل ہیں۔
( اس ضمن میں مزید معلومات اور تفصیلی جواب کیلئے ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر کی مشہور کتاب (تصحیح خطا تاریخی حول الوہابیۃ) کا مطالعہ از حد مفید ہوگا)۔
یہی وہابیت کا وہ پروپیگنڈہ ہے جسے ارباب بست وگشاد اور اغراض وہوا پرست تقلیدی دین کے ٹھیکیداروں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت سے جوڑ کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہا کہ یہ اسلام سے الگ کوئی دین ہے۔ انگریزوں ، ترکوں، ایرانیوں اور مصریوں نے مل کر اسے ایسا ہوّا بنایا کہ اسلامی دنیا میں پچھلی دو تین صدیوں میں جتنی تحریکیں پیدا ہوئیں اور یورپی طاقتوں نے ان سے کوئی خطرہ محسوس کیا جھٹ اس کا ڈانڈا اسی وہابیت سے ملا دیا۔
وہابیت کے بعد دوسرا مشہور افترا:
وہابیت کے بعد سب سے پہلے سلیمان بن محمد بن سحیم (ف ۱۱۸۱ھ) نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کی زندگی ہی میں اس مملکۂ توحید کے خلاف غلط باتیں منسوب کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس نے دنیائے اسلام کے نام اپنی ایک گشتی چٹھی (رسالہ مفتوحہ) میں حسب ذیل الزام لگائے ہیں: جبیلہ میں زید بن خطاب کی قبر کا انہدام ، قبر کے پاس ایک مسجد کا انہدام، یہ کام وہابیوں نے کیا ہے جو اپنے آپ کو حنبلی کہتے ہیں۔ (محمد بن عبد الوہاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح:۱۴۳)
شیخ پر یہ بھی الزام لگایا کہ آپ نے صوفی کتاب دلائل الخیرات اور روض الریاحین کو نذر آتش کر دیا نیز ابن فارض اور ابن عربی کو کافر کہاہے۔ بہر حال جو اپنے آپ کو خدا کہے اسکے کفر میں کیا شبہ ہوسکتا ہے البتہ ان صوفی کتابوں کو پڑھنے سے آپ نے ضرور منع کیا تھا لیکن انہیں نذر آتش کرنے کا حکم بالکل نہیں دیا تھا۔ حالانکہ ایسی گمراہ کتابوں کو نذر آتش کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ (مصدر سابق)
آپ کے معاصرین حاسدین نے آپ پر الزام ہی نہیں بلکہ آپ کو گالیاں بھی دیں ۔ آپ پر دشنام طرازیوں اور افترا پردازیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جن میں ابن سحیم کے علاوہ اور کئی حاسدین شامل ہیں ۔ ان میں احمد بن علی قبانی (۱۱۵۰ھ)، محمد بن عبد الرحمن بن عفالق احسائی حنبلی (۱۱۷۰ھ)، عبد اللہ بن عیسی مویس (۱۱۷۵ھ)، ابن فیروز (۱۲۱۶ھ) اور احمد زینی دحلان (۱۳۰۴ھ ) زیادہ نام آور ہیں۔ ان کے علاوہ دوسری صف میں عفیف الدین عبد اللہ بن داؤد زبیری حنبلی (۱۲۲۵ھ) اور احمد عبد اللہ الحداد باعلوی شافعی کے نام آتے ہیں۔
۱۲۱۱ھ کے حوادث میں ابن غنام نے اپنی مشہور تاریخ کی کتاب میں ابن فیروز کی ایک نظم کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: (وقد وصل إلینا من ہاتیک الدیار منظومۃ لابن فیروز متضمنۃ لأقبح العار الخ) جس سے پتہ چلتا ہے کہ فحش گوئی اس کی سرشت میں داخل تھی۔ نیز عبد اللہ بن داؤد زبیری کی کتاب (الصواعق والرعود ) کی کتاب کے آغاز میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں ایسے جملے لکھے ہیں کہ جسے دیکھ کر شرم وحیا بھی پانی پانی ہوجائے ۔ نقل کفر کفر نہ باشد، ذرا جی کڑا کر کے ملاحظہ فرمائیں: (بل لعل الشیخ ( یعنی عبد الوهاب) غفل من مواقعة أمه (یعنی محمد بن عبد الوهاب) فسبقه الشیطان إليها فکان أبا لهذا المارد)۔ ترجمہ کی ہمت نہیں ہے!!! (مصدر سابق)
ان کے علاوہ ہندوستان میں بھی متعصبین حاسدین نے آپ کے خلاف کتابیں تصنیف کیں ان میں ایک نام مولوی فضل رسول بدایونی (ف ۱۲۹۸ھ)کا ہے جس نے ایک کتاب (تصحیح در تردید فرقۂ نجدیہ ارازل )لکھی ہے جو خرافات کا مجموعہ ہے ۔ (مستفاد از مصد ر سابق)
غلط بیانیوں کے مزید چند نمونے:
الف: ادعاء نبوت:
شیخ کی دعوت کے مخالفین کو جب حرف رکھنے کا موقع نہیں ملتا تو وہ کہتے کہ اصل میں یہ نبوت کا دعوی کرنا چاہتے تھے لیکن اخفا سے کام لیا۔ (مصباح الانام مخطوطہ: ورق ۵۰۶ ، تالیف: احمد عبد اللہ الحداد با علوی)۔ اسی الزام کو احمد زینی دحلان نے ان الفاظ میں دہرایا ہے: (والظاهر من حال محمد بن عبد الوهاب أنه یدعی النبوة إلا أنه ما قدر علی إظهار التصریح بذلک) ترجمہ: اور محمد بن عبد الوہاب کے حالات سے پتہ لگتا تھا کہ وہ نبوت کا دعوی رکھتے ہیں لیکن اس کے صاف صاف اعلان کی جرأت نہ ہوئی ۔ (الدرر السنیۃ: ۴۶)
یہ احمد زینی دحلان شیخ کے زمانے میں مکہ کا قاضی تھا ۔ آپ کا بہت بڑا حاسد اور مخالف تھا۔ اسی کے زمانے میں مکہ کے اندر پہلا چھاپہ خانہ قائم کیا گیا ۔ اس نے آپ کے اور آل سعود کے خلاف ایک بڑی کتاب (الدرر السنیۃ فی الرد علی الوہابیۃ) کے نام سے لکھ کر چھپوایا اور حجاج وزائرین کے واسطے پورے عالم میں پھیلادیا جس کے جواب میںہندوستان کے ایک مشہور عالم دین محمد بشیر سہسوانی نے ایک بہت بڑی کتاب لکھی جسکا نام (صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان) ہے۔ جس میں آپ نے قاضی دحلان کے تمام افتراء ات اور پروپیگنڈوں کا بھر پور جواب دیا ہے۔
اس سلسلے کا ایک اور شرمناک نمونہ ہمیں راونشا (RAVENSHAW) کی اس یاد داشت میں ملتا ہے جو اس نے پٹنہ کے کلکٹر کی حیثیت سے مولانا احمد اللہ صادق پوریؒ کے مقدمے میں لکھ کر دی تھی چنانچہ کہتا ہے: (اصلاح یافتہ مسلمانوں (محمڈن) کی ان بددؤں میں خوب پذیرائی ہوئی جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی برگزیدہ (DIVINE) آدمی نہیں تسلیم کیا اور نہ وہ قرآن کو الہامی کتاب مانتے تھے)۔ مجاہدین ہند کا کرم فرما سر ولیم ولسن ہنٹر (SIR W.W. HUNTER) بھی اپنی کتاب (THE INDIAN MUSALMANS) میں صفحہ ۵۵ -۵۶ پر کہتا ہے: (بدوؤں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی برگزیدہ نہیں تسلیم کیا اور نہ قرآن کو الہامی کتاب)۔ معلوم ہوتا ہے اس نے راونشا کی یاد داشت سے اخذ کیا ہے۔
ب: انکار حدیث:
زمانہ کی بو العجبی بھی دیدنی ہے ، وہ شخص جس کا اوڑھنا بچھونا سنت رسول ہو اس پر انکار حدیث کا الزام رکھا جاتا ہے۔ اس بہتان تراشی کا سہرا بھی مصباح الانام کے مصنف احمد عبد اللہ الحداد با علوی کے سر ہے۔
ایک متعصب پادری جسکا نام ہیوجز (THOMAS PATRIC HUGHES) ہے۔ اس نے وہابی اور عیسائی فرقے پروٹسٹنٹ کا باہمی مقابلہ کرکے لکھا ہے : (وہابیت کو بسا اوقات اسلام کا پروٹسٹنٹ فرقہ بتایا جاتا ہے۔ اگرچہ بڑا فرق یہ ہے کہ عیسائی پروتستانیت مقدس الہامی کتابوں کی اعلی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے روایتی تعلیمات کو مسترد کرنا بھی ضروری خیال کرتی ہے ۔ اس کے برعکس وہابیت قرآن کے ساتھ ساتھ حدیثوں پر بھی زور دیتی ہے)۔ (انگریزی عہد میں ہندوستان کے تمدن کی تاریخ: ۱۹۲)( مستفاد از مصدر سابق)
ج: تکفیر وقتال مسلمین:
شیخ محمد بن عبد الوہاب ؒ اور ان کے ساتھیوں پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ تمام اہل قبلہ کی تکفیر کرتے ہیں اور مسلمانوں سے قتال جائز سمجھتے ہیں۔ یہ الزام مختلف وقتوں میں بار بار دہرایا گیا تھا او ر آپ نے خود ہی اس کی صاف صاف تردید کی تھی ملاحظہ ہو: (وإذا کنا لا نکفر من عبد الصنم الذی علی قبة عبد القادر ، والصنم الذی علی قبر أحمد بدوی وأمثالهما لأجل جهلهم وعدم تنبيههم فکیف نکفر من لم یشرک بالله أو لم يهاجر إلینا ولم یکفر)ترجمہ: اور جب ہم ان لوگوں کی تکفیر نہیں کرتے جو جہالت اور عدم تنبیہ کے سبب سے ان بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو شیخ عبد القادر اور شیخ احمد بدوی اور ان جیسے بزرگوں کی قبروں پر بنے ہوئے ہیں تو پھر ہم ان لوگوں کی تکفیر کس طرح کر سکتے ہیں جنہوں نے شرک کا ارتکاب نہیں کیا یا ہجرت کرکے ہمارے پاس نہیں آئے اور کسی کفر کے مرتکب نہیں ہوئے۔ سبحانک ہذا بہتان عظیم!!
لیکن ان تردیدوں کے باوجود یہ الزام مختلف رنگ آمیزیوں کے ساتھ ساتھ بار بار دہرایا گیا ہے ۔ چنانچہ ابن عابدین شامی (ف ۱۲۵۸ھ) اپنے مشہور حاشیہ (رد المحتار:۳/۳۰۹) میں فرماتے ہیں: ( کما وقع فی زماننا فی اتباع عبد الوهاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون مذهب الحنابلة لکنهم اعتقدوا أنهم المسلمون وأن من خالف اعتقادهم هم مشرکون واستباحوا قتل أهل السنة وقتل علمائهم) مفہوم: جیسا کہ ہمارے زمانے میں عبد الوہاب (؟!!) کا حال ہوا ، لیکن اس کا اور اسکے پیروکاروں کا اعتقاد تھا کہ صرف یہی مسلمان ہیںاور ان کے اعتقاد کے مخالف سب مشرک ہیں ۔اور اسی بنیاد پر انہوں نے اہل سنت اور ان کے علماء کا قتل روا رکھا۔
جناب کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ شیخ کانام محمد تھا یا عبد الوہاب ۔ پھر آخر الزام نہیں لگائیں گے تو کریں گے کیا؟ اسی طرح جناب انور شاہ کشمیری (ف ۱۳۵۲ھ/۱۹۳۳ئ) جیسے دیوبندی عالم بھی شیخ سے متعلق یہ کہہ گئے: (أما محمد بن عبد الوهاب النجدی فإنه کان رجلا بلیدا قلیل العلم فکان یتسارع إلی الحکم بالکفر) ترجمہ: اور محمد بن عبد الوہاب نجدی تو ایک کم علم اور کم فہم انسان تھا اور اسی لئے کفر کا حکم لگانے میں اسے کوئی باک نہیں تھا۔ (فیض الباری: ۱/۱۷۱)(اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ اتنے مشہور مشہور دین کے ٹھیکیداروں نے جب آپ کے خلاف ایسی ایسی بودی اور بے بنیاد بات کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی تو دوسروں کا کیا حال رہا ہوگا)۔ احمد زینی دحلان کو توشیخ اور شیخ کے ساتھیوں سے واسطے کا بیر تھا ۔ اس نے بار بار اس الزام کو دہرایا ہے۔
شیخ کے معاصر یمن کے مشہور عالم دین امیرمحمد بن اسماعیل صنعانی نے آپ کے اوپر لگائے گئے تمام افترا پردازیوں کا جواب لکھا ہے۔ اسی ضمن میں لکھتے ہیں: ( ومن جملة هذه الأکاذیب ما ذکره أن شیخ الإسلام محمد بن عبد الوهاب رحمه الله یسفک الدماء وینهب الأموال ویتجاری علی قتل النفوس وتکفیر الامة المحمدية فی جمیع الأقطار۔ وهذا کله کذب)۔ ترجمہ: انہیں افترا پردازیوں میں یہ بھی ہے کہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب خون بہاتے ہیں اور مال لوٹتے ہیں اور لوگوں کے قتل کی جسارت کرتے ہیں۔ اور تمام دنیا کے مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ یہ سب سراسر جھوٹ ہے۔ (تبرئۃ الشیخین الإمامین : ۸۵)، المقالات السنیۃ للحبشی : ۴۸
د: عام غلط بیانی:
ٍِِشیخ اور آپ کے ساتھیوں کے متعلق طرح طرح کی بے بنیاد باتیں شروع ہی سے کہی جانے لگی تھیں۔ چنانچہ آپ کے صاحبزادے شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب کے اس رسالہ میں بھی جو انہوں نے ۱۲۱۸ھ میں اہل مکہ کیلئے لکھا تھا اس قسم کی غلط بیانیوں کی تردید کی گئی ہے: (وأما ما یکذب علینا ستراً للحق۔۔۔۔ بأنا نفسر القرآن برأینا ونأخذ من الحدیث ما وافق فهمنا ۔۔۔۔ وإنا نضع من رتبة نبینا صلی الله عليه وسلم بقولنا: النبی رمة فی قبره، وعصا أحدنا أنفع منه، ولیس له شفاعة، وإن زیارته غیر مندوبة۔۔۔۔۔۔۔ وإنا مجسمة، وإنا نکفر الناس علی الإطلاق۔۔۔۔۔۔ فجمیع هذه الخرافات وأشبابها ۔۔۔۔۔۔۔ کان جوابنا فی کل مسألة من ذلک سبحانک هذا بهتان عظیم)۔ ترجمہ: اور یہ جو حق پوشی کی راہ سے ہمارے متعلق جھوٹ کہا جاتا ہے کہ ہم قرآن مجید کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں اور حدیث نبوی سے وہی حصہ لیتے ہیں جو ہمارے فہم اور ذوق کے مناسب ہو اور یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان گھٹانے کیلئے النبی رمۃ فی قبرہ (نبی کریم قبر میں ایک بوسیدہ ہڈی سے زیادہ کچھ نہیں) اور عصا احدنا انفع منہ (ہم میں سے کسی ایک کی چھڑی ان سے زیادہ نفع بخش ہے) جیسے گستاخانہ فقرے کہا کرتے ہیں۔ اور یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کا حق نہیں ہوگا! اور یہ کہ قبر اطہر کی زیارت مستحب نہیں ہے! اور یہ کہ ہم تجسیم کے قائل ہیں! اور یہ کہ ہم لوگوں کی علی الاطلاق تکفیر کرتے ہیں۔ تو ان سب اور ان جیسی دوسری بے سروپا باتوں میں سے ہر ایک کے متعلق ہمارا جواب (سبحانک ہذا بہتان عظیم) کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (الہدیۃ السنیۃ: ۴۶، آلوسی نے تاریخ نجد ص ۹-۴۵ میں اور نواب صدیق حسن خان نے اتحاف النبلاء میں رسالے کا یہ حصہ پورا پورا نقل کیا ہے)
ھ: انہدام قبہ نبوی:
مخالفوں نے ایک اور بے بنیاد الزام یہ بھی تراشا کہ سعود بن عبد العزیز بن محمد بن سعود (۱۲۱۸ھ-۱۲۲۹ھ) نے قبہ نبوی کو بھی منہدم کرا دیا تھا۔ اس افسانے کو یورپی مورخین نے بھی مزے لے لے کر بیان کیا ہے اور ان کے علاوہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے بھی اس بے بنیاد الزام کو موقع بہ موقع دہرانے کی کوشش کی ہے حالانکہ یہ بالکل بے بنیاد اور سرتا پا افترا ہے ۔
برائجس جو ایک انگریز مورخ ہے اہل نجد کے دور عروج میں بصرہ اور بغداد میں رہ چکا ہے ، اس افترا کی تائید تو نہ کرسکا لیکن نیت پر حملہ کرنے سے باز نہیں رہا ، وہ لکھتا ہے: (اس -سعود بن عبد العزیز- نے قبہ شریف کے انہدام کا بھی ارادہ کیا لیکن غالباً قبے کے استحکام یا منہدم کرنے والے آلات کی کمی کے باعث ایسا نہ کر سکا اور قبہ محفوظ رہ گیا)۔
و: ایک عجیب افترا:
سلیل بن رازق کی کتاب(IMAMS AND SYEDS OF OSMAN) میں ایک بدوی شیخ کی زبانی یہ افسانہ نقل کیا گیا ہے کہ وہابیوں کے پاس قرآن مجید کا وہ حصہ بھی ہے جسے حضرت عثمان ؓ نے اپنے مصحف سے حذف کر دیا تھا۔خیریت یہ ہے کہ مترجم نے خود اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور شاید اسی لئے کسی نے اسے دہرایا نہیں۔
یہاں صرف مخالفین اور حاسدین کی اوچھی حرکتوں اور احمقانہ افترا پردازیوں کا پردہ چاک کرنے کیلئے ان چند باتوں کا ذکر کیا گیا کہ جو لوگ دروغ بیانی اور افتراء پردازی میں اس حد تک حاسکتے ہیں ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ مزید ان کا پردہ چاک کرنے کیلئے انہیں مخالفین میں سے ایک انگریز کی شہادت پیش کی جارہی ہے:
ایک انگریز کی شہادت:
برائجس لکھتا ہے : (باب عالی -یعنی ترکی خلافت کے دار السلطنت- نے مشہور کردیاکہ اس نے - یعنی سعود بن عبد العزیز- نے مدینہ منورہ کی زیارت سے لوگوں کو روک دیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ اس نے صرف روضہ کے سامنے مشرکانہ اعمال کے ارتکاب سے منع کیا ہے۔ جیسا کہ دوسرے ولیوں کی قبروں پر بندش کر چکا ہے)۔ دوسری جگہ لکھتا ہے: ( بعض جاہل انہیں کافر سمجھتے ہیں، افواہوں پر ترکوں نے اعتماد کیا، اشراف مکہ نے اسے ہوّا دی ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ قرآن وحدیث پر پورے عامل ہیں۔ برک ہارٹ نے صحیح لکھا ہے کہ یہ سب غلط فہمیوں کا نتیجہ تھا۔ اصل میں یہ اسلام کے اندر خالص تطہیر (Puritanism) کی تحریک تھی)۔ ایک اور جگہ لکھتا ہے: (ایک بے وقوف فرنچ نے ۱۸۰۸ء میں لکھا کہ یہ کوئی نیا مذہب ایجاد کر رہے ہیں، نیز وہ سعود کے خاص آدمی کی زبانی حج کی منسوخی کا بھی ذکر کرتا ہے ، یہ سب جھوٹ ہے۔ یہ قرآن کی طرح حدیث کو بھی اصولی چیز مانتے ہیں۔ البتہ اولیا اور انبیا کو یہ انسان مانتے ہیں ۔ فتح مکہ کے بعد سعود نے جو اعلان کیا تھا وہ آج بالکل کتاب وسنت کے مطابق تسلیم کیا جاتا ہے۔ تمباکو نوشی مالکیہ کے یہاں ممنوع ہے انہوں نے بھی ممنوع کیا۔ البتہ قہوہ کے امتناع کی خبر بالکل غلط ہے۔ اسے ترکوں نے پروپیگنڈے کے طور پر مشہور کیا۔ جس بے وقوف فرنچ نے حج کے تعطل کا ذکر کیا ہے اسے جاننا چاہیئے تھا کہ سعود نے حج کے برے مراسم کو روکا تھا۔ مکہ میں داخلہ کے بعد اس نے جو پہلا کام کیا وہ طواف وعمرہ کی ادائیگی تھی)۔ اس فرنچ کا نام روسو (Rousseau) تھا جس نے ۱۸۰۸ء میں مندرجہ ذیل دو کتابیں لکھیں تھیں جن میں اس نے سعود پر حج سے روکنے کا بے بنیاد الزام رکھا تھا: (۱)Pashalik De Bayhad- (۲)- A Memoirs in the Mines De'lorient
مذکورہ اکثر معلومات مولانا مسعود عالم ندوی کی کتاب :( محمد بن عبد الوہاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح) سے ماخوذ ہے۔
mdabufaris6747@gmail.com
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10944&date=2017-12-06
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1495988787181070&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق