🌴✨ *آل و اصحاب کے نئے دشمن* ✨🌴
تحریر : حافظ عبدالحسیب عمری مدنی بنگلور
دین اسلام نے ایک مسلمان کے دین و ایمان کے تحفظ کی جو بنیادیں قائم کی ہیں ان میں سے ایک اہم بنیاد صحابہ کی عدالت اور صحابہ سے محبت بھی ہے ۔۔۔
⬅ تمام صحابہ کرام سے بلا استثناء محبت کرنا ہمارا دین و ایمان ہے۔۔
امام طحاوی نے اہل سنت کا متفقہ عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے
(ونحب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ولا نفرط في حب أحد منهم ، ولا نتبرأ من أحد منهم ، ونبغض من يبغضهم ، وبغير الخير يذكرهم ، ولا نذكرهم إلا بخير ، وحبهم دين وإيمان وإحسان ، وبغضهم كفر ونفاق وطغيان )
ہم تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں ، نہ ان میں سے کسی ایک کی محبت میں حد سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ ہی ان میں سے کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔۔
جو ان سے بغض رکھے یا ان کا تذکرہ خیر کے ساتھ نہ کرے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں ۔ ہم ان تمام صحابہ کا تذکرہ خیر کے ساتھ ہی کرتے ہیں ۔۔ ان صحابہ سے محبت ہمارا دین ہمارا ایمان اور احسان (ایمان کا کمال)ہے *اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے ۔۔* (العقيدة الطحاوية)
صحابہ کرام کی اس عظیم المرتبت جماعت میں سے کسی ایک بھی صحابی سے متعلق زبان تو دور ذہن و دماغ میں بھی کسی قسم کی کجی یا ٹیڑھ پن آئے تو آدمی کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے ۔۔۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :
(من كان يبغض أحداً من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم أو كان في قلبه عليهم غل فليس له حق في فيء المسلمين، ثم قرأ وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ الآية..)
جو کوئی نبی کے کسی ایک بھی صحابی سے بغض رکھے یا اس کے دل میں ان کے لئے کھوٹ ہو تو ایسے شخص کے لئے مسلمانوں کے مال فیئ میں کوئی حصہ نہیں ہے (یعنی وہ مسلمانوں کے زمرے میں باقی نہیں رہ جاتا ) پھر امام مالک نے اپنی بات کی تائید میں یہ آیت پڑھی "اور (مال فیئ ان کے لیے بھی ہے ) جو ان (مہاجرین و انصار ) کے بعد آئیں ، جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے واﻻ ہے (تفسير القرطبي /سورة الحشر: ١٠)
امام احمد نے فرمایا ہے :(إذا رأيت رجلا يذكر أحدا من الصحابة بسوء فاتهمه على الإسلام)
جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ کسی ایک بھی صحابی کی برائی کر رہا ہے تو سیدھے اس کے اسلام پر ہی سوالیہ نشان لگا دو ۔۔ (البداية والنهاية ٨/١٣٩)
⬅ آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی دین و ایمان ہے ..
امام شافعی فرما تے ہیں :
يا آل بيت رسول الله حبكـم***فرض من الله في القرآن أنزله
يكفيكم من عظيم الفخر أنكـم***من لم يصل عليكم لا صلاة لها
اے آل بیت رسول اللہ ! آپ سے محبت ایک ایسا فریضہ ہے جو اللہ نے قرآن میں نازل فرمایا ہے۔ آپ کے فخر کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جو نماز میں آپ لوگوں پر درود نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہے ۔۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کے بارے میں فرمایا: (هذان ابناي وابنا بنتي اللهم إني أحبهما فأحبهما و أحب من يحبهما )
یہ دونوں میرے بیٹے ہیں ، میرے نواسے ہیں ، اے اللہ ! تو ان دونوں سے محبت فرما اور ان سے بھی محبت فرما جو ان دونوں سے محبت کرے ۔۔
(الترمذي وابن حبان و صححه الألباني )
⬅ جب آل بیت و اصحاب رسول دونوں سے متعلق قرآن و سنت کی یہی تعلیم ہے تو پھر دونوں محبتوں کو یکجا ہونا چاہئے ۔۔ ہر مومن کے دل میں دونوں کو ساتھ ساتھ جگہ ملنی چاہئے ۔۔ بلکہ یہاں محبت کے باب میں دوئی کا خاتمہ ہوجانا چاہئے ۔۔
پوری ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں اہل سنت کے علماء اور عوام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ بیک وقت دونوں سے محبت کرتے ہیں ۔۔
آل بیت رسول سے محبت کے لئے صحابہ کرام سے یا کسی مخصوص صحابی رسول سے برائت کی ضروت نہیں سمجھتے اور نہ ہی صحابہ کرام میں سے کسی سے محبت کے لئے آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی سے ناراضگی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔۔
⬅ یہ خالص رافضی اصول ہے کہ آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کے لئے صحابہ سے برائت کو ضروری سمجھا جائے ۔۔۔
یا علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور ان کی فضیلت کے اظہار کے لئے ابو بکر و عمر یا کسی دیگر صحابی سے برائت یا ان کی تنقیص کو ضروری سمجھا جائے ۔۔
یہی وجہ ہے کہ ماضی و حال میں علماء اہل سنت میں سے کسی کا یہ طریقہ نہیں رہا ہے کہ ایک کے نام پر دوسرے کو نشانہ بنایا جائے ۔۔ کیونکہ خود قرآن و سنت کا یہ حکم نہیں ہے ۔۔قرآن وسنت میں تو بیک وقت دونوں سے محبت کا سبق سکھلایا گیا ہے ۔۔
⬅ عصر حاضر میں ایک انجنیئر اور ایک سید زادے نے تحقیق کے نام پر اور آل بیت رسول سے محبت کے نام پر اور بزعم خویش حدیث رسول پر عمل کے نام پر اہل سنت کے درمیان اس رافضی اصول کو رواج دینا شروع کیا ہے بلکہ محاذ کھولا ہوا ہے کہ
*``علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے اظہار کے لئے معاویہ یا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم پر طعن تشنیع کی جائے ۔۔_```*
اور اہل سنت کے متفقہ اور مسلمہ اصول پر چل کر *جو ان کی موافقت نہ کرے اور امیر معاویہ وغیرہ کے حق میں زبان درازی نہ کرے اس پر ناصبیت کا لیبل لگا دیں ۔۔*
یہ روافض کا اصول ہے کہ اہل بیت سے ولاء اور محبت کے اظہار کے لئے معاویہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے برائت کا اظہار کیا جائے، ان پر حرف گیری کی جائے ۔۔۔( لا يتم الولاء لآل البيت إلا بالبراءة من الأصحاب)
تاریخ بتلاتی ہے کہ ماضی میں رفض و تشیع کا آغاز بھی اسی طرز پر ہوا تھا کہ آل بیت سے محبت کے نام پر صحابہ پر طعن و تشنیع کی گئی تھی ۔۔
عصر حاضر میں بھی ایک بار پھر اسی طرز کہن کو اپنا کر چند کہنہ مشق ستمگر اہل سنت کے قلعے میں سیندھ لگا رہے ہیں ۔۔۔
علامہ ابن قیم نے لکھا ہے:
"ﻓﻜﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺎﻃﻞ ﻻ ﻳﺘﻤﻜﻦ ﻣﻦ ﺗﺮﻭﻳﺞ ﺑﺎﻃﻠﻪ ﺇﻻ ﺑﺈﺧﺮاﺟﻪ ﻓﻰ ﻗﺎﻟﺐ ﺣﻖ"
کہ ہر باطل پرست نے اپنے باطل کو حق کے لبادے ہی میں پیش کیا ہے.. پھر اس کی مثالیں پیش کرتے ہوئے روافض تک پہونچتے ہیں تو فرما تے ہیں :
"ﻭﺃﺧﺮﺝ اﻟﺮﻭاﻓﺾ اﻹﻟﺤﺎﺩ ﻭاﻟﻜﻔﺮ، ﻭاﻟﻘﺪﺡ ﻓﻰ ﺳﺎﺩاﺕ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﻭﺣﺰﺏ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﺃﻭﻟﻴﺎﺋﻪ ﻭﺃﻧﺼﺎﺭﻩ، ﻓﻰ ﻗﺎﻟﺐ ﻣﺤﺒﺔ ﺃﻫﻞ اﻟﺒﻴﺖ، ﻭاﻟﺘﻌﺼﺐ ﻟﻬﻢ، ﻭﻣﻮاﻻﺗﻬﻢ"
کہ روافض نے کفر الحاد اور سادات صحابہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی جماعت اور آپ کے مددگاروں پر طعن و تشنیع کو اہل بیت سے محبت ، ان سے تعلق اور عقیدت کا لبادہ پہنا کر پیش کیا ہے ۔۔۔ (إغاثة اللهفان ٢/٨٢)
ابن قیم رحمہ اللہ کی اس بصیرت افروز گفتگو کو پھر سے پڑھیں اور نئے دور کے ان ظالموں کو دیکھیں جو تحقیق یا حق پرستی یا عمل بالحدیث کے نام پر کم علم نوجوانوں اور سادہ لوح عوام الناس کو احادیث پڑھ پڑھ کر دھوکہ دے رہے ہیں اور حب آل بیت کے نام پر بغض صحابہ کا زہر پلا رہے ہیں جو دیر سویر ان بیچاروں کے ایمان کی موت کا سبب بن سکتا ہے ۔۔
*امیر معاویہ پر طعن و تشنیع سے پرہیز کو "ناصبیت" کا نام دینا خالص شیعیت بمعنی رافضیت ہے ۔۔*
ناصبیت آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کا نام ہے ۔۔ اور یہ مفروضہ غلط ہے اور خالص رافضی مفروضہ ہے کہ معاویہ سے محبت کرنے والا آل بیت کا دشمن ہوگا ۔۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ حب آل بیت کے نام پر صحابہ پر طعن و تشنیع در اصل خود اہل بیت کے طرز عمل سے انحراف ہے ۔۔ آل بیت رسول کا معاویہ سمیت تمام صحابہ کے تئیں الفت و محبت کا اور ان کے ساتھ تعاون کا جو موقف اور تاریخی کردار تھا اور صحابہ کرام کے ساتھ احترام اور محبت بلکہ مصاہرت کا جو رشتہ تھا اس کو نہ مان کر آل بیت سے عقیدت کے نام پر ان صحابہ کو مطعون کرنا دراصل ان آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کے طرز عمل سے منحرف ہوجانا ہے ۔۔ اسی لئے یہ صرف اصحاب رسول ہی کے نہیں آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی دشمن ہیں
(جاری ۔۔۔۔۔ )
🌴✨آل و اصحاب کے نئے دشمن✨🌴
🎗دوسری قسط 🎗
تحریر: حافظ عبدالحسیب عمری مدنی بنگلور
⬅ مذکورہ بالا سطور سے جو بات صاف ہوتی ہے وہ یہ کہ آل و اصحاب دونوں ساتھ تھے ۔۔ بشری تقاضے سے کوئی بات کبھی ان کے درمیان پیدا ہوئی بھی تو انہوں نے کبھی اسے ولاء و براء یعنی دوستی اور دشمنی تک نہیں پہونچایا ۔۔
چنانچہ اہل سنت نے بھی اسی نزاکت کا لحاظ ماضی میں بھی رکھا اور حال میں بھی اسی کے پیش نظر دونوں کا یکساں طور پر احترام بھی کرتے ہیں اور دونوں سے محبت بھی کرتے ہیں ایک کی محبت دوسرے کی محبت میں رکاوٹ نہیں بنتی ۔۔
اس کے برخلاف ماضی میں نواصب اور روافض نے ہمیشہ یہ تاثر دیا کہ دونوں (آل و اصحاب ) کے درمیان خدا واسطے کا بیر تھا اور وہ باہم ایک دوسرے کے لئے دلوں میں دشمنی پالتے تھے ۔۔
نئے دور کے ستمگروں نے بھی پھر سے اسی روش کو اپنایا ہے اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ آل بیت رسول مظلوم و مقہور تھے یا حالات کے ہاتھوں مجبور تھے یا پھر اپنے واجبی حق سے محروم تھے ۔۔ اور یہ سارے ستم ڈھانے والے بعض "صحابہ" تھے ۔۔۔
قارئین طے کرلیں کہ انہیں کس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے ؟؟
آل و اصحاب کے ساتھ ،ان کو یکجا دیکھنے والے ماضی و حال کے اہل سنت کے ساتھ، یا پھر ماضی و حال کے ان رافضی و نیم رافضی ستمگروں کے ساتھ ۔۔۔؟؟؟
⬅ سید زادے نے اپنے حالیہ خطاب میں تو حد کردی ۔۔ علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرتے کرتے بندہ اس حد تک چلا گیا کہ علی رضی اللہ عنہ کو ابو بکر و عمر کے مقابلے مطلق فضیلت دینے پر تلا نظر آتا ۔۔
یہ بات واضح رہے کہ اہل سنت کے نزدیک یہ بات مسلمہ ہے کہ صحابہ میں سے بعض کو کسی خاص ناحیہ سے دیگر تمام پر فضیلت حاصل ہوتی ہے جن میں وہ صحابی تنہا ہوتے ہیں اور کوئی ان کا شریک نہیں ہوتا ۔۔ جیسے خلفاء ثلاثہ کے مقابلے علی رضی اللہ عنہ کا آل بیت رسول میں سے ہونا
مگر
صحابہ میں درجہ بندی کے لئے وہ ایک مخصوص فضیلت کافی نہیں ہوتی، وہ ان کا امتیاز ہوتا ہے مگر ان کے مجموعی فضائل کو یکجا کرکے ان کی درجہ بندی کا فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔۔ اور یہی علماء اہل سنت نے کیا ہے ۔۔
اور اس تناظر میں اہل سنت کا اتفاق ہے بلکہ اجماع ہے کہ (ترتيبهم في الفضل كترتيبهم في الخلافة )
ابو بکر و عمر و عثمان و علی جس ترتیب سے خلیفہ بنے مجموعی فضیلت میں بھی ان کی ترتیب یہی ہے ۔۔۔۔
امام شافعی فرماتے ہیں : (أقول في الخلافة والتفضيل بأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رضي الله عنهم)
یعنی خلافت اور فضیلت دونوں ہی معاملات میں میں اسی ترتیب کا قائل ہوں ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم
(جامع بیان العلم وفضلہ ٢/١١٧٣/٢٣٢١)
خلفاء راشدین کی فضیلت اور خلافت کی ترتیب کے سلسلے میں اہل سنت کی یہ رائے دراصل خود صحابہ کرام کی رائے رہی ہے ۔۔۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں :
(كنا نخير بين الناس في زمن النبي - صلى الله عليه وسلم - فنخير أبا بكر، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضي الله عنهم)
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگوں کے درمیان بہتر کی تعیین کیا کرتے تھے ۔۔ تو ہم سب سے پہلے ابوبکر کو پھر عمر کو پھر عثمان کو رکھا کرتے تھے
(صحيح البخاري ٣٦٥٥).
- وفي رواية قال سالم بن عبد الله: إن عبد الله بن عمر قال: (كنا نقول ورسول الله - صلى الله عليه وسلم - حي: أفضل أمة النبي - صلى الله عليه وسلم - بعده أبو بكر ثم عمر ثم عثمان رضي الله عنهم)
ایک اور روایت میں یہی بات یوں آئی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے تب ہم کہا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سب سے افضل ابوبکر پھر عمر پھر عثمان تھے (ابوداود/٤٦٢٨ )
خاکم بدہن اگر کوئی ستمگر ان روایتوں کی روشنی میں کہنے لگے کہ علی رضی اللہ عنہ تو شمار و قطار میں بھی نہیں تھے ۔۔!تو کیا عہد جدید کے یہ متجددین اس کی بھی پیٹ تھپ تھپائیں گے ؟؟؟
حاشا وکلا ۔۔۔
ان خلفاء اربعہ میں سے ہر ایک کو انفرادی سطح پر کوئی نہ کوئی ایسی فضیلت حاصل ہے جو دوسرے کو نہیں جیسے علی رضی اللہ عنہ کا آل بیت رسول میں سے ہونا ایک ایسی فضیلت ہے جو بقیہ تینوں خلفاء میں سے کسی اور کو حاصل نہیں اور عثمان رضی اللہ عنہ کا یکے بعد دیگرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو دو بیٹیوں کا شوہر ہونا ایک ایسی فضیلت ہے جو علی رضی اللہ عنہ سمیت کسی اور کو حاصل نہیں ہے
**سید زادے نے یہی کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے انفرادی فضائل میں آئی بعض احادیث کا تذکرہ کرکے خلفاء راشدین کی مجموعی احادیث کی روشنی میں ثابت فضیلت اور ترتیب کے سلسلے میں نیا شوشہ چھوڑا ہے اور اس سلسلے میں اہل سنت کے موقف پر ہاتھ صاف کیا ہے ۔۔*
*دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا*
*اہل سنت کے اس مسلمہ عقیدے سے انحراف دراصل رافضیت کے لئے راہ ہموار کرنا ہے*
⬅ ابو بکر و عمر تو دور علی کو عثمان رضی اللہ عنہم پر مقدم کرنے والے کو سلف صالحین تشیع کی بدعت کا مارا گردانتے تھے
امام ذہبی نے لکھا ہے ( فالشيعي الغالي في زمان السلف وعُرْفهم هو مَن تَكَلّم في عثمان والزبير وطلحة ومعاوية وطائفة ممن حارَب عَليا - رضي الله عنه - وتَعرّض لِسَبِّهم ، والغالي في زماننا وعُرْفنا هو الذي يُكَفِّر هؤلاء السادة ، ويتبرأ من الشيخين أيضا )
سلف کے زمانے میں سلف کے نزدیک غالی درجہ کا شیعی اس کو سمجھا جاتا تھا جو عثمان زبیر طلحہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے اور اسی طرح حضرت علی سے جنگ کرنے والے گروہ پر طعن و تشنیع کرے یا ان کو گالی دے ۔۔۔ اب ہمارے زمانے میں غالی شیعہ وہ ہے جو ان سادات کی تکفیر کرے اور شیخین سے براءت کا اعلان کرے (میزان الاعتدال 1/6/ترجمة أبان بن تغلب)
⬅ شیعہ کے مختلف فرقوں میں سے رافضی فرقہ کے علاوہ ایک اور فرقہ زیدی بھی ہے ۔۔
زیدی شیعہ کا معاملہ ہی یہی تھا کہ وہ علی کو ابوبکر و عمر سے زیادہ افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار مانتے تھے مگر پھر بھی شیخین کی امامت و خلافت کو جائز مانتے تھے ۔۔
یہ روافض کے مقابلے میں ہلکے تھے مگر تھے اہل سنت سے خارج ۔۔ سید زادے کی اس گل افشانی کو کم از کم زیدی فرقہ کی ہمنوائی پر بھی محمول کرلیا جائے تب بھی یہ واضح ہے کہ یہ اہل سنت سے خروج ہے اور ایک بدعت کی دعوت ہے ۔۔
سید زادے اور ہمنواوں کو اپنے عقائد کی خبر لینی چاہئے کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں ؟؟
⬅ سلمان صاحب!
قومی و ملی اور سیاسی مسائل میں آنجناب کے موقف سے صرف نظر علمی و منہجی مسائل میں ماضی قریب میں آنجناب نے جو نت نئے رنگ نکالے ہیں اور گل کھلائے ہیں اور ملت اسلامیہ ہند کے مسائل حل کرنے کے بجائے ملت کے سامنے جس قسم کے نت نئے مسائل کھڑے کئے ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ *آنجناب کو اپنے تجدیدی مشن کو ادا کرنے کی بڑی جلدی ہے ۔۔۔*
آپ کی یہ کد و کاوش نہ جدت شمار ہوگی اور نہ آپ "مجدد" ہاں اس کو امت کے انصاف پسند اہل علم بدعت کہیں گے اور آنجناب کو بدعتی !
⬅ سلمان صاحب! اس تحریر کا اختتام میرے اپنے ایک مشفق استاذ کے روشن کلمات سے کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی ان ناصحانہ کلمات کو ہم سب کے حق میں مفید بنائے ۔۔ آمین
اعلم أن الناس يعظمون فيما هم فيه من عمل, فإن كنت على السنة فأنت في كل يوم تعظم فيها, و لن تمر أيام حتى تكون إماما فيها .. قال تعالى :(وَجَعَلۡنَا مِنۡهُمۡ أَىِٕمَّةࣰ یَهۡدُونَ بِأَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوا۟ۖ وَكَانُوا۟ بِـَٔایَـٰتِنَا یُوقِنُونَ)
وإن كنت في البدعة فأنت في كل يوم تعظم فيها و لن تمر الأيام حتى تكون إماما فيها .. قال تعالى :(قُلۡ مَن كَانَ فِی ٱلضَّلَـٰلَةِ فَلۡیَمۡدُدۡ لَهُ ٱلرَّحۡمَـٰنُ مَدًّاۚ)
وقال عن فرعون و قومه بعد أن وصفهم بالاستكبار بغير الحق :((وَجَعَلۡنَـٰهُمۡ أَىِٕمَّةࣰ یَدۡعُونَ إِلَى ٱلنَّارِۖ )
فاختر لنفسك من العمل اليوم ما تحب أن تكون فيه إماما في الغد .....
تم جان لو ! لوگ برابر اس میدان میں اپنا قد بڑھاتے جاتے ہیں جس میدان میں وہ مصروف عمل ہوتے ہیں ، اب اگر تم سنت پر قائم رہو تو سنت کی پیروی کے میدان میں تمہارا قد بڑھتا جائیگا اور زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ تم اس میدان کے امام بن جاوگے ۔۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وه ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے (سورة السجدة :24)
اور اگر تم بدعتوں میں مبتلا رہو تو بدعت کے میدان میں تمہارا قد بڑھتا جائیگا اور زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ تم اس میدان کے امام بن جاوگے ۔۔اللہ تعالی کا فرمان ہے : اِن سے کہو، جو شخص گمراہی میں مُبتلا ہوتا ہے اُسے رحمان ڈھیل دیا کرتا ہے (سورة مريم:75 )
اور فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ان کو نا حق غرور و تکبر سے متصف قرار دینے کے بعد فرمایا : ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا ( سورة القصص:41)
*لہذا آج کے دن اپنے لئے وہی میدان چنوجس میدان میں کل تمہیں امامت کی چاہ ہے*
=============
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق