الخميس، 21 نوفمبر 2024

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

 

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

د/ اجمل منظور المدنی
وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی

اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمین نے خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت تک کے لیے مبعوث کیا ہے تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو براہ راست پر لائیں اور اسے شرک و بدعت کی کھائی سے نکال کر توحید کی روشن راہ پر گامزن کریں۔
سو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو دعوتی مشن سونپا گیا تھا اسے آپ نے اپنی تیئس سالہ نبوی زندگی میں پایہ تکمیل تک پہنچایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ) ترجمہ : اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔ (-المائدة:67)۔
حتی کہ زندگی کے آخری وقت میں حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں موجود ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام سے اسی دعوت دین اور اسکی تبلیغ کی شہادت لی نیز دوسروں تک اسے پہونچانے کا وعدہ بھی لیا اور سب نے یک زبان ہو کر اس بات کا اقرار کیا کہ آپ نے دین کو پورا پورا پہونچا دیا ہے اور ہم بھی دوسروں تک اسے اسی طرح پہنچائیں گے جس طرح ہم نے آپ سے اسے حاصل کیا ہے۔
لیکن جب ہم تحریکیوں کی فکر ودعوت کا مطالعہ کرتے ہیں تو بالکل اسکے برعکس پاتے ہیں، یعنی یہ انبیاء کے اس اصل دعوتی مشن کو تحریک وانقلاب اور حصول اقتدار میں بدل کر پیش کرتے ہیں، اسکے لئے انہوں نے ایک طرف کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کے اندر تحریف کرکے اسے الوہیت سے حاکمیت کا معنی پہنایا اور اسی حاکمیت کو انبیاء کا اصل مشن بتا دیا
تو دوسری طرف دین کے احکام وفرائض کو ٹریننگ کورس کہہ کر عوام کی نظر میں انکی وقعت گھٹا دی تاکہ انہیں اقامت دین کے نام پر اپنے مزعومہ نصب العین قیام اقتدار کیلئے اکٹھا کرسکیں۔ اسکے لئے ضرورت تھی دعوت اتحاد کی، سو انہوں نے اپنے اس مزعومہ مقصد کو پورا کرنے کیلئے دین کے اہم فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو بھی پس پشت ڈال دیا؛ کیونکہ تمام فرقوں کو اکٹھا کرنے میں یہ بہت بڑی رکاوٹ تھی۔
اس طرح دین کے نام پر حصول اقتدار کیلئے انہوں نے عوام وخواص ہر ایک کے اندر طرح طرح کے جراثیم پھیلائے جن سے بھاری اکثریت متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکی بالخصوص سلفی نوجوان، اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ ان تحریکیوں کے ان جراثیم کو ایکسپوز کیا جائے تاکہ آج کا نوجوان ان داعشی تحریکی جراثیم سے محفوظ رہ سکیں۔
ذیل میں ان جراثیم کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جا رہا ہے :

1- عقیدہ توحید کی اہمیت کو کم کرنا اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا:
چنانچہ یہ عقیدہ توحید سے لوگوں کو متنفر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ تم نے عقیدے کی پیچیدگیوں میں لوگوں کو پھنسا کر اصل مقصد سے دور کردیا ہے، جبکہ یہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے، زندگی بھر انہوں نے لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دی ہے، نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک اسی عقیدے کی طرف لوگوں کو بلایا۔ تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو توحید الوہیت اور اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے۔
  مگر ان لوگوں نے اس عقیدے سے لوگوں کو بھٹکانے کیلئے مختلف طریقے اختیار کئے ہیں جن میں سب سے بڑا ابلیسی ہتھکنڈا یہ اپنایا کہ توحید الوہیت اور عقیدہ توحید کا معنی ہی بدل دیا، چنانچہ اسے توحید حاکمیت کا معنی دے دیا۔ اور بدترین جراءت کا مظاہرہ کرکے یہاں تک کہہ دیا کہ انبیاء کو اسی توحید حاکمیت کیلئے بھیجا گیا تھا مگر اس کے قیام میں اکثر ناکام رہے، چند انبیاء ہی کامیاب ہوسکے نعوذ باللہ من ھذا الخزلان والھذیان، ان میں سلیمان اور داود علیہما السلام ہیں اور آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
چنانچہ یہ لوگ سب سے پہلے اسی عقیدہ توحید میں لوگوں کو بھٹکاتے ہیں اور اس سے متنفر کرتے ہیں، ان علماء سے نوجوانوں کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس فن میں مشہور اور متخصص ہیں۔

2- علماء پر طعن وتشنیع کرنا اور انکی عیب جوئی کرنا اور انہیں برے القابات سے نوازنا:
    چنانچہ یہ علماء کو مختلف طریقوں سے بدنام کرتے ہیں، ان پر تہمتیں اور الزامات لگاتے ہیں، ان پر طعن وتشنیع اور انکی عیب جوئی کرتے ہیں، اس سے انکا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ نوجوانان امت ان ربانی علماء سے دور ہوجائیں، یہ ان ربانی علماء کو بدنام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ شاہی مہمان بن کر درباروں میں عیش کے ساتھ رہتے ہیں، کبھی درباری ملا کہہ کر بدنام کرتے ہیں کبھی بوٹ لیچر کہتے ہیں، کبھی انہیں حیض ونفاس کا مولوی کہتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ وہی بولتے ہیں جو انہیں حکم ہوتا ہے، انہیں کچھ بھی اختیار نہیں ہوتا۔
اور متبادل میں اپنے منحرف مفکرین کو علماء حق کے طور پر پیش کرتے ہیں، جن کے تعلق سے یہ مشہور کرتے ہیں کہ اہل حق علماء کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے، اہل حق علماء سرحدوں پر جہاد کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

3- حکام سے لوگوں کو متنفر کرنا اور ان پر طعن وتشنیع کرنا:
       چنانچہ یہ حکام کی عیب جوئی کرتے ہیں اور انکی قانونی حیثیت پر طعن وتشنیع کرتے ہیں، اگر کوئی عالم اس تعلق سے شرعی احکام بیان کرتا ہے، حکام کی سمع وطاعت کے دلائل پیش کرتا ہے تو یہ اسے حاکم پرست اور درباری ملا کہہ کر بدنام کرتے ہیں، اس طرح یہ دونوں جانب سے نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں، ایک طرف حکام سے اور دوسری طرف علماء سے متنفر کرتے ہیں، جب کہ یہی لوگ دوہرا معیار اپناتے ہوئے دوسری طرف اپنے پیر و مرشد اور اپنی جماعتوں کے اماموں اور سرغنوں سے بیعت کرتے ہیں اور بلا کسی شرط کے انکی سمع وطاعت اور اندھی تقلید کرتے ہیں۔
حکام سے انکی نفرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یہ انہیں طاغوت کہہ کر پکارتے ہیں، چنانچہ انکا مرشد یا ان کا کوئی سرغنہ اور مفکرجب طاغوت کہتا ہے تو ان کا ذہن فورا مسلم حکمرانوں کی طرف جاتا ہے۔ اس قدر ان جماعتوں نے نوجوانوں کو اپنے گمراہ کن لٹریچر سے گمراہ کر رکھا ہے کہ یہ مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں سوائے طاغوت کے کچھ نہیں کہتے۔ یہ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ان حکام کو مختلف طریقوں سے بدنام کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں کے ایجنٹ ہیں کبھی کہتے ہیں کہ یہ کفار کی اطاعت کرتے ہیں۔

اسی طرح غیر شرعی حکومت کرنے والے حاکم کی تکفیر کرنے کا مسئلہ ہے کہ یہ مطلق طور پر اسکی تکفیر کر دیتے ہیں۔ اسکی کوئی تفصیل نہیں بتاتے جبکہ یہ دھوکہ ہے اور اہل سنت والجماعہ کے منہج کے خلاف ہے، کیونکہ اس مسئلے میں تفصیل ہے مطلق طور پر ان تمام حکام کی تکفیر نہیں کرسکتے جو غیر شرعی حکومت کرتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی وضعی قوانین کو شریعت کے مقابلے میں بہتر سمجھ کر یا اسکے جواز کا عقیدہ رکھ کر حکومت کرتا ہے تو اسکے کفر میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اگر وہ شریعت پر اعتقاد رکھتا ہے اسی کو بہتر سمجھتا ہے لیکن کسی مجبوری میں یا ایمان کی کمزوری میں یا ظالمانہ طور پر ایسا کرتا ہے تو اسکی تکفیر نہیں کی جائے گی، یقینا یہ جرم ہے اور گناہ کبیرہ ہے مگر ایسا کفر نہیں ہے کہ دین اسلام کے دائرے سے اسکی وجہ سے نکل جائے، اسی کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کفر دون کفر کہا ہے۔

4- حکومت کی طاقت، فوج اور سیکورٹی فورسز کو مشکوک بنا کر پیش کرنا:
چنانچہ یہ حکومت کے تمام محکموں بالخصوص فوجی اور پولیس محکموں کو بدنام کرتے ہیں تاکہ عوام بالخصوص نوجوانوں کا اعتماد حکومت سے ختم ہوجائے۔ یہاں تک کہ یہ لوگ حکومتی اداروں اور سیکورٹی فورسز کو اجنبی ملکوں کا ایجنٹ کہتے ہیں اور عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ سب ہمارے خلاف جاسوسی کرتے ہیں۔

5- سلف کے منہج اور طریقے پر طعن وتشنیع کرنا:
چنانچہ یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان صحابہ کے منہج پر قائم رہیں، سلف کے طریقے کو اپنائیں۔ اسی لئے یہ منہج وعقیدہ پر بات کرنے والوں پر طعن وتشنیع کرتے ہیں ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں تاکہ وہ عقیدہ اور منہج پر بات کرنا چھوڑ دیں؛ کیونکہ یہ انکے مزعومہ اتحاد بین المذاہب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

6- تکفیری ذہن سازی کرنا، چنانچہ اپنے مخالف مسلم حکام کیلئے طاغوت، مخالف علماء کیلئے درباری ملا اور مخالف عوام کیلئے فرقہ پرست اور فروعی مسائل میں الجھا ہوا جیسے القاب استعمال کرتے ہیں..
تکفیری ذہن سازی کیلئے یہ عموما متشابہ نصوص کا استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ اللہ کا یہ قول :(ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون) اور اس سے یہ مطلق طور پر ہر اس حاکم کو کافر گردانتے ہیں جو وضعی قوانین نافذ کرتا ہے، حالانکہ سلف کے یہاں اس میں تفصیل ہے۔ مگر ان تحریکیوں کی دوغلا پنی دیکھیں کہ یہ ایسے نصوص کو اپنے مخالفین کیلئے استعمال کرکے عوام کے بیچ انہیں بدنام کرتے ہیں مگر اپنے محبوب حکام کو ان سے مستثنیٰ کردیتے ہیں بلکہ یہ خود جمہوریت کے وضعی دستور پر یقین رکھتے ہیں۔

7- اقامت دین کی غلط تشریح :
ایمان واسلام کے ارکان اور دین کے اہم فرائض کو فروعی مسائل اور تربیتی کورس کا نام دیکر انکی اہمیت کم کرتے ہیں اور اقامت دین کی غلط تشریح کرکے حکومت واقتدار کو سب سے بڑا فرض اور واجب قرار دیتے ہیں حالانکہ اقامت دین سے مراد دین کے احکامات وفرائض کی پابندی کرنا ہے اور حکومت واقتدار محض ایک نعمت ہے، نہ کہ مطلوب ومقصد، تمام انبیاء کو دعوت دین کیلئے مبعوث کیا گیا تھا نہ کہ حصول اقتدار کیلئے...
چنانچہ آپ اہل سنت کے برعکس تحریکیوں کو دیکھیں گے کہ وہ اہل شبہات پر خاموش رہتے ہیں جبکہ اہل شہوات پر سارا زور صرف کردیتے ہیں، اگر کسی نوجوان کو معاصی کرتے دیکھ لیں گے تو اس پر حد درجہ سختی برتیں گے اس پر لعن طعن کریں گے، مگر وہ اہل بدعت پر کوئی نکیر نہیں کریں گے

8- نوجوانوں کے اندر لبرلزم اور آزاد خیالی کا رجحان عام کرنا:
چنانچہ حکومت واقتدار کو اصل ٹارگٹ ماننے کی وجہ سے یہ لوگوں کے اندر دنیا داری، دین بیزاری، آزاد خیالی پیدا کرتے ہیں، دینی علوم سے زیادہ انکے یہاں عصری علوم کی قدر ہے، یہ چیز آپ سید مودودی اور حسن بنا سے لیکر ان کے حالیہ مرشدین ومفکرین ومنظرین تک کے یہاں یہی حالت پائیں گے... سید مودودی نے اپنی ساری اولاد کو عصری تعلیم دلائی، دینی علوم سے بے بہرہ رکھا، یہاں تک کہ ایک لڑکا ملحد ہوگیا، انکے دوسرے مرشد میاں طفیل اور تیسرے مرشد قاضی حسین احمد کے بارے میں یہی پائیں گے جس طرح کہ اخوانی مرشدین ومفکرین کا بھی یہی حال ہے خواہ وہ حسن بنا اور حسن ہضیبی ہوں یا عمر تلمسانی اور دیگر مفکرین ہوں۔

9- جمہوریت کو اسلامائز کرنا:
چونکہ ان کے یہاں اصل ٹارگٹ حصول اقتدار ہے؛ اسی لئے انکے یہاں جمہوریت کی بڑی اہمیت ہے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت ہی اقامت دین کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اور چونکہ ملوکیت انکے لئے خطرہ ہے اسی لئے یہ اسکی جم کر مذمت کرتے ہیں بلکہ اسے حرام تک سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام میں شورائی خلافت اور ملوکیت کے سوا کوئی تیسرا نظام حکمرانی ہے ہی نہیں، جمہوریت تو یہودیوں کا بنایا ہوا نظام ہے.

10- اہل سنت کے اندر رافضیت کا زہر پھیلانا:
چونکہ اخوانیوں اور تحریکیوں کے مرشدوں کا خمینی اور اسکے ساتھیوں سے گہرا تعلق تھا اور دونوں کی فکر اور طریقہ تنفیذ میں یکسانیت تھی؛ اسی لئے یہ خاموشی سے رافضیت کو عام کرتے ہیں، اور اسکی سب سے بڑی نشانی انکی بنو امیہ سے دشمنی ہے، حتی کہ اموی صحابہ تک پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی..

11- تشکیک وانکار کے جراثیم :
سید مودودی ہوں یا کوئی دوسرا تحریکی، چونکہ انکے یہاں عقیدے، اصول اور منہج کی پختگی نہیں ہوتی بلکہ منطق وفلسفہ پڑھ کر دین کی تشریح کرنے لگتے ہیں۔ یہی سبب ہیکہ یہ اپنی دو چھٹانک بھیجے کا استعمال کرکے درایت کے نام پر کبھی احادیث کا انکار کرتے ہیں ، کبھی دینی مسلمات کا انکار تو کبھی ان میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔

12- صحابہ پر طعن وتشنیع کے جراثیم:
رافضیت دوستی کے نتیجے میں صحابہ کرام تک پر انہوں نے طعن وتشنیع کر ڈالا، صحابہ کے دفاع میں مایہ ناز کتابیں تالیف کرنے والے مشہور محققین علماء دین شیخ الاسلام ابن تیمیہ، قاضی ابو بکر ابن العربی اور شاہ اسماعیل شہید کو وکیل صفائی کہہ کر سید مودودی نے انہیں غلط ٹہرا کر خود روافض کی جھوٹی روایتوں پر بھروسہ کرکے صحابہ کرام پر چارج شیٹ تیار کردیا اور اسے غیر جانبداری کا نام دیا اور ایران میں آیت اللہ کا خطاب حاصل کیا۔
صلح کی خاطر بصرہ کیلئے ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکلنے پر انہیں طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا مگر دوسری طرف فاطمہ جناح کو ملک کی سربراہی کیلئے ووٹ دے دیا۔

13- لٹریچر بازی کے جراثیم:
انکے یہاں سب کچھ فکر مودودی فکر فراہی اور فکر اخوانی ہے جس کے نام پر عقل پرستی اور ہوائے نفس پر مبنی لٹریچر کا ایک ملغوبہ ہے جس میں بے راہ روی، عقیدے میں انحراف، صحابہ پر طعن وتشنیع ، دینی مسلمات میں تشکیک وانکار اور حکومت الہیہ کے نام پر اقتدار کے جھوٹے خواب بھرے ہوئے ہیں، کتاب وسنت پر مبنی خالص دینی علوم ومعارف سے خالی ہوتے ہیں، یہ لوگوں کو انہیں کتابوں سے جوڑ کر رکھتے ہیں، دوسروں کی کتابوں سے دور رکھتے ہیں بلکہ ان سے متنفر کرتے ہیں۔ اس طرح ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد منحرف تحریکی لٹریچر میں پھنس کر رہ گئی ہے۔

14- سیاسی اور عالمی المناک واقعات کا استغلال کرنا نیز امت کے اہم ایشوز کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنا:
دنیا میں امت مسلمہ کے خلاف کہیں بھی کوئی حادثہ ہوگا اسے یہ فورا اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیں گے، ایسے موقع پر یہ جذباتی تقریریں کرتے ہیں اور لوگوں کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں، امت تڑپ رہی ہے، امت زخموں سے چور چور ہے مگر ہم عیش مستی میں ڈوبے ہوئے ہیں، عالم اسلام کے حکام گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔ اس میں یہ سب سے زیادہ فلسطین ایشو کو بھناتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا دل طہران کہ طرف ہوتا ہے۔ بیت المقدس سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہے، یہ صرف امت مسلمہ کو گمراہ کرتے ہیں۔
ایسے کربناک موقعوں پر سب سے زیادہ یہ مسلم حکام کو بدنام کرنے اور انکے خلاف عوام کو بھڑکانے کیلئے بے روزگاری، اہم اسلامی قضیوں، منکرات اور برائیوں اور دیگر امور کو استعمال کرتے ہیں۔

15- میڈیا کا استغلال کرنا:
   چنانچہ یہ لوگ میڈیا کے تمام ذرائع کا استعمال کرتے ہیں، فیس بک ہو یا ٹیوٹر، ویب سائیٹ ہو واٹساپ، ٹی وی چینلز ہوں یا ریڈیو اسٹیشن، اخبارات ہوں یا میگزین سب کا یہ زبردست استعمال کرتے ہیں اور اپنے باطل افکار و نظریات کو انہیں کے ذریعے پھیلاتے ہیں اور نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں، اور گمراہ کرتے ہیں، مسلم حکمرانوں اور علمائے ربانیین کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلاتے ہیں۔
مگر اس وقت انکے باطل افکار و نظریات کو اسی میڈیا سے انہیں ایکسپوز کیا جا رہا ہے اور اسے اچھے مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے، مگر چونکہ میڈیا پر انکا اور انکے آقاؤں کا اکثر قبضہ ہے اسلئے انکی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں تک حق بات نہ پہونچنے پائے، اس کے لئے یہ مختلف طریقے استعمال کرکے حق بات کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔

16- نوجوانوں کو سماج سے الگ تھلگ کرنا:
   یہ اسے فکری گوشہ نشینی کا نام دیتے ہیں، کہ اپنے پیروکاروں کو حکام اور سماج سب سے فکری طور پر کٹ کر رہنے کی ہدایت کرتے ہیں، یہ جسمانی طور پر اسی سماج میں رہتے ہیں مگر فکری اور ذہنی طور پر سب سے الگ رہتے ہیں، یہ حکومت اور اسکے تابع سماج کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں؛چنانچہ یہ کبھی تو وطنیت کو بت کہتے ہیں اور کبھی شرک۔ اسی لئے یہ خود کو وطن سے منسوب نہیں کرتے۔ یہ صرف امت کا لفظ استعمال کرتے ہیں مگر امت کا حقیقی مفہوم اپنے پیروکاروں کو نہیں بتاتے کہ امت کے قائدین اور حکام بھی ہوتے ہیں، امت کا وطن اور ملک بھی ہوتا ہے، ہوا میں امت قائم نہیں ہوسکتی، بلکہ اسکی زمینی حقیقت بھی ہے۔
   اور چونکہ یہ قوم و وطن کو مانتے نہیں اور انکے اندر وطن اور قوم سے محبت نہیں ہوتی ہے اسی لئے یہ نوجوانوں کے قلوب واذہان کے اندر داعشی تخریبی فکر انڈیلتے ہیں جو ملک کے اندر بم دھماکہ کرتے ہیں، تخریب کاری کرتے ہیں اور فتنہ وفساد مچاتے ہیں۔ جیسا کہ خوارج کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہل کفر کو چھوڑ دیتے ہیں۔
اور اسی لئے جب ملک کے اندر تباہی آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں اور جب خوشحالی آتی ہے تو یہ غم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ قاتلھم اللہ انی یوفکون۔

17- اپنے فساد کو جہاد کے نام پر پروموٹ کرتے ہیں :
چنانچہ جہاں تک جہاد کے وجوب کا مسئلہ ہے کہ یہ خارجی جماعتیں اسے مطلق طور پر فرض عین سمجھتی ہیں اور ہر ایک پر واجب کرتی ہیں جیسا کہ عبد اللہ عزام، سلیمان علوان وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اسے ثابت کیا ہے، جب کہ جہاد کے کچھ شرائط، ضوابط اور احکام ہیں، انکے پورا ہوئے بغیر جہاد نہیں ہے۔ سب سے بڑا ضابطہ طاقت اور کمزوری کا ہے۔
اسکے کیلئے یہ مختلف طریقوں کا استعمال کرتے ہیں جیسے کہ یہ نوجوانوں کو جہادی گیت کے ذریعے انکے جذبات کو بھڑکاتے ہیں ، یہ جہادی گیت بہت ہی خطرناک ہوتی ہیں، ایک جہادی گیت کبھی کبھی ہزاروں لیکچرز پر بھاری ہوتی ہے۔ ایک نوجوان کبھی ایک جہادی گیت کو سن کر اپنی کمر میں خود کش بم باندھ کر جنگ زدہ علاقوں میں کود جاتا ہے اور اپنی جان گنوا کر خود کشی جیسے گناہ عظیم کا مرتکب ہوتا ہے۔

18- تاریخی قصوں، ناولوں اور دستاویزی فلموں کا استعمال:
اسی طرح یہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کیلئے تاریخی قصوں اور ناولوں کو استعمال کرتے ہیں، بطور خاص ان میں جو انقلابی قسم کی ناولیں ہوتی ہیں انکا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ انقلاب اور بغاوت کیسے پیدا کئے جاتے ہیں، ایسی ناولوں کو یہ خوب مرچ مسالوں کے ساتھ نستعلیقی اسلوب میں لکھتے ہیں کہ نوجوان جب اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو دو تین سو صفحات کی یہ ناول بغیر ختم کئے دم نہیں لیتا ہے۔
بعض ناولیں ایسی ہیں جنہیں یہ ادب السجون کے نام سے جانتے ہیں، اس میں کچھ من گھڑت واقعے ہوتے ہیں اور کچھ حقیقی ہوتے ہیں مگر اضافات کے ساتھ مزید نمک مرچ لگا کر اسے بیان کرتے ہیں۔ جس میں قید و بند کی جعلی صعوبتوں اور من گھڑت سزاؤں کا ذکر ہوتا ہے۔ جسے قاری پڑھ کر جب ختم کرتا ہے تو ملک اور حکام کے خلاف دشمن بن جاتا ہے۔ اس طرح یہ ناول اس قدر اثر انداز ہوتی ہے کہ دسیوں لیکچرز بھی وہ اثر نہیں ڈال سکتے ہیں۔
اسی طرح دستاویزی فلمیں ہیں جنہیں یہ خروج و بغاوت کیلئے استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ گاندھی، نیلسن مینڈیلا اور ابرہم لنکن وغیرہ پر بنی فلمیں، جنہوں نے سامراجوں سے اپنے ملک کو آزاد کرایا تھا، اسی طرح یہ خود کو سمجھتے ہیں اور مسلم حکام کو سامراج مانتے ہیں۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایک دن یہ بھی بغاوت اور انقلاب کے ذریعے حکومت حاصل کریں گے اور ملک کے مختلف عہدوں اور مناصب پر قبضہ کریں گے۔

19- جھوٹ، افواہ اور پروپیگنڈا عام کرنا: اب سب سے ان کا مقصد اپنے مخالف کو بدنام کرنا اور اپنے مذموم مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ ان میں سب سے اہم مقصد لوگوں کو اپنی تنظیم اور اپنے مرشدین ومفکرین سے جوڑنا ہوتا ہے۔
  چنانچہ انکی کوشش ہوتی ہے کہ یہ نوجوانوں کو اپنے مرشدین کی اندھی تقلید کرنے پر قائل کرلیں، یہاں تک کہ نوجوان ان کے مرید اور اندھے مطیع بن جاتے ہیں، اپنے گھر اور قوم وملت سے بیگانہ ہوجاتے ہیں، والدین کی نافرمانی کرتے ہیں، بعض نے تو اسی اندھاپنی میں
اپنے والدین تک کو قتل کردیا ہے۔

20- پیچھے پڑنا، راز چھپانا اور تقیہ کا استعمال کرنا:
    یہ دوسروں کے ٹوہ میں پڑتے ہیں، ان کے حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اپنے کاموں کو چھپاتے ہیں، اپنے تمام امور کو صیغہ راز میں رکھتے ہیں۔
تقیہ جھوٹ بولنے اور سچ چھپانے کو کہتے ہیں، چنانچہ یہ صریح جھوٹ بولتے ہیں اور تقیہ بازی میں یہ روافض سے بھی آگے ہیں۔
اس سے یہ دو مقاصد حاصل کرتے ہیں :
الف- جاہ ومنصب اور اہل ثروت کے بچوں کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کرنا تاکہ انکی تربیت کرکے قوم کے اونچے طبقے پر اپنا قبضہ قائم کرسکیں۔
ب- منبر ومحراب پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا: یہ منبر ومحراب کے ذریعے اور اسی طرح دیگر سرکاری وغیر سرکاری اسٹیجوں کے ذریعے اپنے باطل افکار کو پھیلاتے ہیں۔

21- نصاب تعلیم کو تحریکی لٹریچر میں تبدیل کرنا:
  چنانچہ یہ عام دینی کتابوں کے مد مقابل فکری کتابوں کو پڑھاتے ہیں، اور بطور خاص فکری، تحریکی، فقہ الحرکہ، جہادی اور فقہ الواقع اور ان جیسے دوسرے ناموں سے نوجوانوں کو بہلاتے ہیں اور دین کی صحیح تعلیمات سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
  اسی طرح یہ نسوانی پرچے اور میگزین نکالتے ہیں اور خواتین کے اندر انہیں پرچوں کے ذریعے اپنے باطل افکار کو پھیلاتے ہیں۔

22- ڈراموں، دستاویزی فلموں اور کارٹونوں کا استعمال کرنا:
یہ اپنے مذموم باغیانہ مقاصد کے حصول کی خاطر ڈرامے، دستاویزی فلمیں اور بچوں کے لیے کارٹون بھی بناتے ہیں، آپ سوچیں کہ ان کے مذموم مقاصد سے ہمارے چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں، یہ انقلاب و بغاوت کو کارٹون کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور انہیں ٹی وی چینلوں پر دکھاتے ہیں جنہیں یہ اسلامی چینل کہتے ہیں، ان فلموں اور کارٹونون کو یہ جانوروں کی شکل میں بھی دکھاتے ہیں، اس کے ساتھ بیک گراؤنڈ میں جوشیلے اور انقلابی گیت بھی پیش کر دیتے ہیں، ایسے ڈراموں، فلموں اور کارٹونون سے انکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بغاوت اور انقلاب کہیں بھی واقع ہو وہاں کے بچے بچپن ہی سے ذہنی طور پر اسکے لئے تیار رہیں۔

اللہ ہمیں تحریکیت، حزبیت، شخصیت پرستی نیز جمود وتعصب سے دور رکھے۔ کتاب وسنت اور منہج سلف کا پیروکار بنائے۔ حقیقت پسند، حق گو اور باطل سے نفرت کرنے والا بنائے۔ دین اسلام کا حقیقی خادم بنائے نیز ریا ونفاق سے بچائے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت دین حق اور توحید کی سربلندی عطا کرے نیز شرک وکفر اور بدعت وتقلید کی لعنتوں نیز تحریکی جراثیم سے عالم اسلام کو پاک کرے۔ آمین
اللہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل، واجعلنا خادماً للإسلام والمسلمین۔آمین



ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...