#ہر_ایک_بات_پہ_کہتے_ہو_تم_کہ_تو_کیا_ہے
میں نے سوشل میڈیا پر 2017 سے لکھنا شروع کیا تھا، پہلے میں صرف پڑھتا تھا، لیکن جب دیکھا کہ عرب مسلم ممالک کے خلاف اردو میں صرف پروپیگنڈے پھیلائے جا رہے ہیں، تو اسکے ردعمل میں صرف پروپیگنڈوں کا اپنی سادہ زبان میں صحیح معلومات اور ثبوتوں کی روشنی میں جواب لکھنا شروع کیا، چونکہ میری تحریریں اردو قارئین کی توقع کے بالکل خلاف ہوتی تھیں اسلئے بہت سارے احباب ناراض ہوتے، جواب تو نہیں رہتا، اسی لئے کچھ نے میرے خلاف ہی پروپیگنڈہ پھیلانا شروع کردیا جنہیں پڑھ کر ایسا لگا کہ بھارت کے ایک معمولی قصبے میں واقع ایک اسکول کا یہ معمولی دو ٹکے کا مولوی کسی بادشاہ وقت کا وزیر اعظم ہو جسکے گھر میں ریالوں کی بوریاں ہی بوریاں ہوں، کسی کو برا لگا تو گالیوں کا ہار میرے گلے میں ڈالنا شروع کردیا، کسی کو اچھا نہیں لگا تو طنز و مزاح کے ذریعے خود کو تیس مار خاں اور مجھے چوپال کا للو بناکر پیش کرکے احباب سے خوب واہ واہی لی۔۔
لیکن مجھے تدریسی فرائض، گھریلو ضرورت اور دیگر اہم واجبات سے جب بھی فرصت ملی تو میں مشرق وسطی ہی کی خبریں پڑھ کر اس پر ہی لکھنے کی کوشش کی،،، آج تک میرا ایک ہی موضوع رہا ہے،،،
اسی اٹھاپٹک میں میری آئی ڈی بار بار بلاک کی جاتی رہی، اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ بمشکل ایک دو مہینے باقی رہتی ہے۔ پھر بلاک ہوجاتی ہے۔
میں نے بمشکل کبھی ملکی مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہوگا،،، ملکی مسائل پر نظر رکھنے اور ان سے آگاہی کے لئے بہت سے احباب کے صفحات کو دیکھتے رہتے ہیں،،، لیکن حالیہ سنگین ایام میں ملکی مسائل پر بھی کبھی کبھی پوسٹ لگا دیتا ہوں، لیکن اس میں یہ ملحوظ رہتا ہے کہ دوہرے معیار پر مبنی نئے قوانین پر جو آوازیں بیرون ہند اٹھائی جارہی ہیں، انہیں دکھایا جائے۔۔۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہر آدمی کو اظہار رائے کی آزادی ہے، کوئی لکھنے بولنے میں کسی کا پابند نہیں ہے، خاص طور پر ایسا شخص جو نہ تو کسی سیاسی جماعت سے منسلک ہو، نہ کسی تنظیم سے اور نہ ہی کسی کا تابع مہمل ہو،،، پھر بھی کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ لکھا وہی جائے جو وہ سوچیں، بولا وہی جائے جو وہ چاہیں۔
ہم مسلمان ہیں، تقدیر پر مکمل بھروسے کے ساتھ ساتھ اسباب پر بھی بھروسہ کرتے ہیں، دنیا آزمائش کی جگہ ہے، یہ زوال پذیر ہے، آخرت ہی ہمیشہ کی زندگی ہے، جزع فزع نہ کرکے اپنی بساط بھر ایمان کامل کے ساتھ مسائل کا مقابلہ کرنا ایک مومن کی پہچان ہے۔۔۔
حکومت وقت کے ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف لوگ جگہ جگہ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، جن میں مسلمان تنہا نہیں ہیں، برادران وطن کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔۔۔
ایسے لوگوں کو سو بار سلام پیش کرنا چاہئیے جو عزم واستقلال کا چٹان بن کر موج ستم اور ظلم کے دھارے کو روک دینے کیلئے ہخ زدہ سردیوں میں ڈٹے ہوئے ہیں۔۔
نقاب اُلٹ کے اگر ساتھ چل سکو تو چلو
سنا ہے زیست کی راہوں میں تیرگی ہوگی
ایسے میں اگر اللہ کے یہ بندے ملامت کریں، طنز کریں، یا جو بھی کہیں انکا حق ہے، وہ ہر حال میں داد کے مستحق ہوں گے، لیکن اگر اے سی آفس کے اندر چائے کے وقفے میں ایپل فون کے ذریعے اپنے کاروبار میں مشغول ایک "صاحب" مرضی مطابق نہ لکھنے پر طنز کسیں تو میرے حساب سے ان کیلئے صرف دعا ہی کرنا چاہئیے۔۔۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
#نوٹ: لوگ اپنی اپنی صلاحیت اور اپنی اپنی سوچ وفکر اور میلان ورجحان کے حساب سے سوشل میڈیا پر الگ الگ موضوع پر گل افشانی کرتے ہیں، میں نے کبھی کسی پر اعتراض نہیں کیا، لیکن کیا وجہ ہے کہ شروع ہی سے اعتراضات کی بارش، نصیحتوں کے تیر اور طنز وتشنیع کے سارے بھالے میرے ہی اوپر پھینکے جاتے ہیں؟! اور یہ تیر وتفنگ اسی وقت سے مجھ پر برسائے جا رہے ہیں جب سے میں نے لکھنا شروع کیا ہے آج کوئی نیا نہیں ہے، موجودہ حالت کا بہانہ تو بس ناؤ میں دھول اڑانے جیسا ہے۔۔۔۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق