الأحد، 21 أكتوبر 2018

☀️داڑھی اور مودودی: سنت یا بدعت☀️

☀️داڑھی اور مودودی: سنت یا بدعت☀️ 

💥جی مودودی داڑھی رکھنےکو واجب کیا سنت بھی نہیں مانتے بلکہ جو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنیت کا دعوی کرے تو اسے بدعت کہا ہے۔ اور اپنی لبرل تحقیق یہ پیش کردی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی ایک عادت تھی۔ اسے سنت یا واجب کہنا من مانی اور زیادتی ہے بلکہ تحریف ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ جناب نے جوانی بھر داڑھی نہیں رکھی۔ 

💥لیکن ابھی مودودی کو کنارے چھوڑتے ہیں پہلے دیکھتے ہیں داڑھی کے تعلق سے اسلامی شریعت کیا کہتی ہے جسے مودودی ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں: 
اسلامی تعلیمات کے مطابق داڑھی رکھنا واجب ہے، اور تمام انبیاء کرام علیھم السلام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا اسلام میں داڑھی رکھنا واجب ہے اور منڈانا گناہ کبیرہ ہے۔ مرد وعورت میں ظاہری تمیز کرنے کے لئے مرد کو داڑھی جیسے خوبصورت زیور سے مزین کیا ہے۔ داڑھی مرد کی زینت ہے ،جس سے اس کا حسن اور رعب دوبالا ہو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر داڑھی بڑھانے اور اس کو چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے۔ اس اعتبار سے دین اسلام میں داڑھی کی عظمت و فضیلت بہت زیادہ ہے۔ 
✔ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے:  قال صلی اللہ علیہ وسلم: قصوا الشوارب وأعفوا اللحى، خالفوا المشركين متفق عليه. 
ترجمہ: مونچھوں کو کاٹو، داڑھیوں کو چھوڑے رکھو  اور مشرکین کی مخالفت کرو۔ 
✔صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جزوا الشوارب وأرخوا اللحى، خالفوا المجوس۔
ترجمہ: مونچھوں کو کاٹو، داڑھیوں کو لٹکا کے رکھو اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ 
✔صحیح مسلم ہی کے اندر ایک روایت میں (وفروا اللحى) اور ایک روایت میں (وأوفوا اللحى) کے الفاظ آئے ہیں۔ اور بعض روایتوں میں (أرجوا اللحى) کے الفاظ آئے ہیں۔ 
یعنی داڑھی کے تعلق سے کم سے کم پانچ طرح کے اوامر موجود ہیں: 
1- اعفوا: معاف کر دو یعنی اسے معاف رکھو اسکے ساتھ زیادتی نہ کرو اسے چھیڑ چھاڑ نہ کرو۔ 
2- أرخوا:  لٹکا کے رکھو۔ یعنی ادھر ادھر باندھ کر نہ رکھو۔ سیدھا نیچے لٹکا کے رکھو۔ 
3- أوفوا: پورا چھوڑ دو۔ یا پورا پورا اسے حق دو۔ مطلب ادھر ادھر اسے کتر بیونت نہ کرو۔ 
4- أرجوا : اسے موخر کرکے رکھو یعنی چھوڑ کے رکھو۔
5- وفرا: بڑھا کر رکھو۔ 

💥مذکورہ احادیث کے الفاط سے استدلال کرتے ہوئے علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ سارے امر کے صیغے داڑھی بڑھانے اور انہیں چھوڑ دینے کے  وجوب پر دلالت کرتے ہیں نیز اسے کاٹنے اور منڈانے کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالی کا حکم ہے: 
✔وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [الحشر:7]
 ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب واﻻ ہے۔ 
مزید ارشاد ہے: 
✔فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [النور:63].
ترجمہ: سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔ 

👈تفصیل اس ویب سائٹ پر دیکھیں: 
https://binbaz.org.sa/fatwas/119/وجوب-اعفاء-اللحية-وتحريم-حلقها-او-تقصيرها
مزید معلومات کے لئے اس ویب سائٹ پر دیکھیں:
https://islamqa.info/ar/1189

💥اب دیکھتے ہیں اس شرعی حکم کے بارے میں مودودی کیا گل کھلاتے ہیں چنانچہ ان کا کہنا ہے: 
✔((اسی طرح داڑھی کے معاملے میں جو شخص حکم کا یہ منشا سمجھتا ہو کہ اسے بلا نہایت بڑھنے دیا جائے، وہ اپنی اس رائے پر عمل کرے، اور جو شخص کم سے کم مشت کو حکم کا منشا پورا کرنے کے لئے ضروری سمجھتا ہو وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور جو شخص مطلقا داڑھی رکھنے والے کو(بلا قید مقدار) حکم کا منشا پورا کرنے کے لئے کافی سمجھتا ہو، وہ اپنی رائے پر عمل کرے، ان تینوں گروہوں میں سے کسی کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ استنباط و اجتہاد سے جو رائے اس نے قائم کی ہے، وہی شریعت ہے اور اس کی پیروی سب لوگوں پر لازم ہے۔ ایسا کہنا اس چیز کو سنت قرار دینا ہے جس کے سنت ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور یہی وہ بات ہے جس کو میں بدعت کہتا ہوں۔
(رسائل و مسائل،جلد اول،ص ١٧٣)

✔((آپ کا یہ خیال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی بڑی داڑھی رکھتے تھے اتنی ہی بڑی داڑھی رکھنا سنت رسول یا اسوہ رسول ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ عادات رسول کو بعینہ وہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام مبعوث کیے جاتے رہے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں ہے، بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کے اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور ایک خطرناک تحریف دین ہے جس سے نہایت برے نتائج پہلے بھی ظاہر ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہونے کا خطرہ ہے۔
(رسائل و مسائل،جلد اول،صفحہ ١٦٨)

✔((ڈاڑھی کے متعلق نبی صلی الله علیہ وسلم نے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے، صرف یہ ہدایت فرمائی ہے کہ رکھی جائے))۔
(رسائل ومسائل:1/147)

✔((میرے نزدیک کسی کی ڈاڑھی کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا))۔ (رسائل ومسائل:1/153) 

👈مودودی کے نزدیک داڑھی رکھنا نبی کی عادت تھی اگر اسے کوئی سنت کا عقیدہ بنا لے تو یہ بدعت ہو جائے گی اور دین میں تحریف ہو جائے گی۔ 
یہ سراسر فرامین نبویہ کا صریحا انکار ہے کیونکہ عادات والی چیزوں کا آپ نے کبھی حکم نہیں دیا ہے۔ 

👈نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مقدار مقرر نہیں کی۔ ٹھیک ہے لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ کہ آپ اپنی طرف سے مقرر کریں؟ کیوں مثبت سوچ نہیں رکھتے؟ خود ہی کہہ دیا کہ مقدار متعین نہیں پھر جانے دو بلا متعین۔  کیوں اسے چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں؟ یا کیوں آپ کے قول میں تحریف کر رہے ہیں یہ کہہ کر کہ کوئی کتنا بھی رکھ لے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟ 

👈مزید یہ کہ یہ کس حدیث میں ہے کہ داڑھی رکھی جائے چاہے جتنی ہو؟ خہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جا سکتی ہے کہ کسی حدیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں پایا جاتا جس کا ترجمہ”ڈاڑھی رکھنا“ ہو ، ہم شارح مسلم امام محی الدین ابو زکریا نووی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ داڑھی کے متعلق احادیث میں کل پانچ الفاظ وارد ہوئے ہیں: اعفوا، اوفوا، وفروا، ارجوا، ارخوا۔ 
جنکا ترجمہ بڑھانے چھوڑ دینے معاف کرنے اور لٹکا کے رکھنے وغیرہ کے معنی میں ہوتے ہیں جو سب امر کے صیغے ہیں جو وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔ اور انکا کوئی بھی صارف ایسا نہیں ہے جو اسے وجوب سے پھیر دے۔ 

👈ٹھیک ہے آپ رکھنے کی بات کیوں کرتے ہیں آپ تو سیدھا منڈاتے تھے؟ کلین شیو کرتے تھے۔ 
تفصیل کیلئے اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں: 
http://www.rasailomasail.net/6853.html
لیکن یہ معلوم رہے کہ یہ فتوی 1945 کا ہے جب آپ داڑھی نہیں رکھا کرتے تھے۔ جبکہ پیدائش 1903 ہے۔ 
 بعد میں کیوں رکھنے لگے یہ معلوم نہیں ہو سکا۔۔۔ 

👈داڑھی کے موضوع پر کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں اردو میں ایک کتاب’’داڑھی کے مسائل کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کی بہت ہی جامع ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں داڑھی کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کی فرضیت کے دلائل بیان کیے ہیں۔اور موجودہ دور میں اہمیت، داڑھی کے بارے میں ایمانی جائزہ، داڑھی نہ رکھنے کے نقصانات، داڑہی کے خلاف بدترین پروپیگنڈہ، کیا داڑھی دہشت پسندی کی علامت ہے، داڑھی منڈانا دائمی معصیت، داڑھی کا مذاق اور اس سے نفرت کفر کی علامت ہے، مسنون اور شرعی داڑھی کا بیان ،وغیرہ جیسے عنوانات قائم کر کے داڑھی کے احکام ومسائل کے متعلق اس کتاب کوجامع کتاب بنا دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کوشرف قبولیت سے نوازے اوراسے امت مسلمہ کے داڑھی نہ رکھنے والے افراد کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)
اس کتاب کو آپ درج ذیل لنک سے ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں: 
https://kitabosunnat.com/kutub-library/dhari-key-masael-kitab-o-sunnat-ki-roshni-mein

فیس بک پر بھی دیکھیں

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...