📚کیا تجدید دین پر صرف اخوانی تحریکیوں کا حق ہے؟!
☀️آج تک کوئی بھی مجددِ کامل پیدا نہیں ہوا ہے۔نعوذ باللہ۔ سوائے مودودی کے۔
جی ہاں ایک طرف مودودی کا کہنا ہے کہ اب تک کوئی مجدد کامل پیدا ہی نہیں ہوا دوسری طرف مودودی کے ایک پرستار کا ماننا ہے کہ مودودی بیسویں صدی کے مجدد تھے۔
یعنی یہ اخوانی تحریکی کسی کو مجدد بنا دیں کسی کو مفکر عظیم بنا دیں کسی کی جبریل سے مدد کروائیں۔ ان کے علاوہ باقی سب یتیم ٹھہرے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل دین وعقیدے کے باب میں یہ خود یتیم ہیں۔ عقیدے میں جائیں تو لڑکھڑائیں حدیث کے باب میں مت مر جائے۔ تاریخ کے باب میں رافضی پکڑ لیں۔ خلافت کے باب میں ابن ملجم کی راہ لیں۔ (لا حکم الا للہ) کی رٹ آج بھی اس کے اذناب اذیال لگا رہے ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دیوانے آج بھی اس کے جواب میں (کلمة حق أريد بها الباطل) کہہ کہہ کر تھکے جا رہے ہیں۔
📚آئیے دیکھتے ہیں محدثین اور محققین اہل علم نے تجدید دین والی حدیثوں سے کیا سمجھا اور اسکی کیسی تشریح کی ہے جو مودودی کی نظروں سے یا تو اوجھل رہی یا اسے لائق اعتنا ہی نہ سمجھا:
💥صحابی جلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ( إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا )۔
رواه أبو داود (رقم/4291) وصححه السخاوي في "المقاصد الحسنة" (149)، والألباني في "السلسلة الصحيحة" (رقم/599)۔
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی اس امت کیلئے ہر سو سال کے پورا ہونے پر ایسے لوگوں کو بھیجتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے۔
یہ بھی صحیح صریح احادیث میں سے ایک ہے جس پر ایمان لانا اور اسے تسلیم کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ) النساء/59.
💥چنانچہ اس حدیث پاک کی روشنی میں آج تک مسلمانوں کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالی ہر سو سال میں اپنے دین کی حفاظت کی خاطر اس طرح کے علماء بھیجتا رہتا ہے جو اس پر پڑے گرد کو ہٹا کر اسے نیا بناتے رہتے ہیں۔ اور اس حدیث کی شرح میں اس حدیث کو پیش کیا جاتا ہے: ( يحمل هذا العلم من كل خلف عُدوله ، ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين )
جیسا کہ ابن کثیر نے ذکر کیا ہے۔
💥لہذا اسلاف کے یہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کوئی مجدد پیدا ہوا یا نہیں۔ بلکہ اختلاف اس بات میں ہے کہ ایک مراد ہے کہ کئی ایک ۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں:
"الصحيح أن الحديث يشمل كل فرد من آحاد العلماء من هذه الأعصار ممن يقوم بفرض الكفاية في أداء العلم عمن أدرك من السلف إلى من يدركه من الخلف ، كما جاء في الحديث: ( يحمل هذا العلم من كل خلف عُدوله ، ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين ) وهذا موجود ولله الحمد والمنة إلى زماننا هذا ونحن في القرن الثامن " انتهى من "البداية والنهاية" (6/256)
ترجمہ:
صحیح بات یہی ہے کہ اس حدیث سے مراد ہر وہ عالم دین ہے جو علم دین کی تبلیغ میں فرض کفایہ کو ادا کر رہا ہے سلف سے لیکر خلف تک سارے لوگ مراد ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: اس علم دین کو خلف میں سے ہر انصاف پسند لے کر اٹھیں گے جو دین میں غلو کرنے والوں کی تحریف کا پردہ چاک کریں گے اور باطل پرستوں کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیں گے۔
💥چنانچہ اہل علم نے اس حدیث کی تشریح یہی کی ہے کہ (من) اسم موصول عام ہے جو اطلاق کا فائدہ دیتا ہے۔ لہذا ممکن ہے اس سے ایک فرد بھی مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے پوری ایک جماعت مراد ہو۔ اس لئے ہر صدی میں ایسے علماء کے نام کے پیچھے پڑنا اور انہیں ایک دوسرے پر افضل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اللہ اپنے دین کی تجدید اور اس کے اوپر اٹ جانے والے گرد کو ختم کرکے اور اسے صاف کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرنے وا لوں کو بھیج کر ان سے کام لیتا رہتا ہے۔
بلکہ حافظ ذہبی نے تو یقین کے ساتھ لکھا ہے کہ ( مَن يُجَدِّدُ ) سے جمع مراد ہے فرد واحد نہیں۔ دیکھیں یہ جملہ:
"الذي أعتقده من الحديث أن لفظ ( مَن يُجَدِّدُ ) للجمع لا للمفرد " انتهى من " تاريخ الإسلام " (23/180)
یہی بات حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری میں کہی ہے:
" لا يلزم أن يكون في رأس كل مائة سنة واحد فقط ، بل يكون الأمر فيه كما ذكر في الطائفة ( يعني قد تكون جماعة ) وهو متجه ، فإنَّ اجتماع الصفات المحتاج إلى تجديدها لا ينحصر في نوع من أنواع الخير ، ولا يلزم أن جميع خصال الخير كلها في شخص واحد ، إلا أن يُدَّعى ذلك في عمر بن عبد العزيز ، فإنه كان القائم بالأمر على رأس المائة الأولى باتصافه بجميع صفات الخير وتقدمه فيها ، ومن ثم أَطلَقَ أحمد أنهم كانوا يحملون الحديث عليه ، وأما من جاء بعده فالشافعي - وإن كان متصفا بالصفات الجميلة - إلا أنه لم يكن القائم بأمر الجهاد والحكم بالعدل ، فعلى هذا كل من كان متصفا بشيء من ذلك عند رأس المائة هو المراد ، سواء تعدد أم لا " انتهى من "فتح الباري" (13/295)
💥اس تعلق سے یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ کوئی ضروری نہیں کہ صدی کا مجدد ہر فن مولا ہو۔ بلکہ ممکن ہے کہ کوئی سیادت وقیادت کے میدان میں اس کی نمائندگی کر رہا ہو۔ کوئی دعوتی وتربیت کے میدان میں یہ فریضہ انجام دے رہا ہو کوئی تعلیم وتعلم میں یہ حق نبھا رہا ہو۔ اور سب کے سب کتاب وسنت کی روشنی میں اسلام کے صحیح چہرے کو چشمہ صافی کی طرح پیش کر رہے ہوں گے۔
💥چنانچہ اس حدیث پاک کے تعلق سے جب فتاوی لجنہ دائمہ میں سوال کیا گیا تو اسی طرح جواب دیا گیا:
قالت اللجنة الدائمة :
" معنى قوله صلى الله عليه وسلم : ( يجدد لها دينها ) أنه كلما انحرف الكثير من الناس عن جادة الدين الذي أكمله الله لعباده وأتم عليهم نعمته ورضيه لهم دينًا - بعث إليهم علماء أو عالمًا بصيرًا بالإسلام ، وداعيةً رشيدًا ، يبصر الناس بكتاب الله وسنة رسوله الثابتة ، ويجنبهم البدع ، ويحذرهم محدثات الأمور ، ويردهم عن انحرافهم إلى الصراط المستقيم كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم ، فسمى ذلك : تجديدًا بالنسبة للأمة ، لا بالنسبة للدين الذي شرعه الله وأكمله ، فإن التغير والضعف والانحراف إنما يطرأ مرة بعد مرة على الأمة ، أما الإسلام نفسه فمحفوظ بحفظ كتاب الله تعالى وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم المبينة له ، قال تعالى : ( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) " انتهى .
عبد العزيز بن باز ، عبد الرزاق عفيفي ، عبد الله بن غديان ، عبد الله بن قعود
" فتاوى اللجنة الدائمة " (2/247-248)۔
💥علامہ حمود تویجری نے بھی یہی بات کہی ہے کہ اس حدیث سے یہ نہیں پتہ چل رہا ہے کہ صرف ایک ہی آدمی مراد ہے کیونکہ لفظ (من) سے ایک بھی مراد ہو سکتا ہے اور ایک پوری جماعت بھی مراد ہو سکتی ہے۔
اس لئے حدیث کو ایک شخص پر نہ محمول کرکے ان تمام لوگوں کو مراد لے سکتے ہیں جو کتاب وسنت کے مطابق دین کی صحیح نشر واشاعت کر رہے ہیں۔ اس بات پر سنن ترمذی کی یہ روایت دلالت کر رہی ہے:
عن عمرو بن عوف رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( إن الدين بدأ غريبًا ويرجع غريبًا ؛ فطوبى للغرباء الذين يصلحون ما أفسد الناس من بعدي من سنتي )۔
ترجمہ:
دین اجنبی حالت میں آیا اور وہ پھر اجنبی حالت میں واپس ہو جائے گا، خوشخبری اور مبارک بادی ہے ایسے گمنام مصلحین کے لیے جو میرے بعد میری سنت میں لوگوں کی پیدا کردہ خرابیوں اور برائیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔
٘
💥حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنه کی ایک حدیث ہے جسے ابن وضاح نے روایت کیا ہے : الحمد لله الذي امتن على العباد بأن جعل في كل زمان فترة من الرسل بقايا من أهل العلم ؛ يدعون من ضل إلى الهدى، ويصبرون منهم على الأذى ، ويحيون بكتاب الله أهل العمى....إلى آخر خطبته رضي الله عنه .
ترجمہ: تمام تعریف اللہ کیلئے جس نے بندوں پر یہ احسان کیا کہ رسولوں کے درمیان کے زمانے میں ایسے اہل علم کو پیدا کرتا رہا جو بھٹکے ہوئے کو ہدایت کی راہ بتاتے، اس راستے میں آئی تکلیف کو برداشت کرتے اور بصیرت کے اندھوں کو کتاب اللہ کے ذریعے حیات بخشتے۔
یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تجدید دین کا کام اہل علم کی ایک جماعت کے ذریعے انجام پاتا رہے گا یہ کسی ایک عالم کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
تفصیل اس کتاب میں دیکھیں:
"إتحاف الجماعة بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعة " (1/336)
✔دلائل کی روشنی میں یہی بات راجح لگ رہی ہے۔ بلکہ آخری روایت سے تو یہ بھی پتہ چل رہا ہے کہ اس طرح کے مجددین دین وملت اہل علم پہلی امتوں میں بھی آیا کرتے تھے۔ ویسے گزری ہوئی صدیوں میں محققین اہل علم نے بعض شخصیتوں کا نام لیا ہے۔ جیسے پہلی صدی میں عمر بن عبد العزیز اور امام زہری وغیرہ۔ دوسری میں امام شافعی اور ۔۔۔۔۔ ساتویں آٹھویں میں علامہ ابن تیمیہ کے ساتھ بہت سارے نابغہ روزگار مل جائیں گے۔۔۔۔ دسویں میں احمد سر ہندی ۔۔۔۔۔ اور بارہویں میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب وغیرہ۔۔۔۔۔۔
✔یہ بات یاد رہے کہ تجدید دین کے تعلق سے جتنی حدیثیں ہیں ان سے کسی طور بھی اس بات کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ کچھ مجدد کامل ہوں گے اور کچھ مجدد ناقص ہوں گے اور نہ ہی کسی محدث نے آج تک اس طرح کی تشریح کی ہے۔
☀️ایک طرف محققین اہل علم اور شارحین حدیث کی موتی بکھیرتی باتیں اور دوسری طرف مودودی کی یہ لبرل "تحقیقی کاوش" بھی دیکھیں:
((تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کوئی مجدد کامل پیدا نہیں ہوا ہے قریب تھا کہ عمر بن عبد العزیزؒ اس منصب پر فائز ہوجاتے، مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے))۔
تجدید و احیائے دین، ص49
👈حسن ترابی جیسے بد قماش کو قرضاوی نے مفکر عظیم کا لقب دیا ہے اور اس کی زندگی پر ایک کتاب بھی تالیف کر دی ہے۔ دیکھیں اس پوسٹ کو:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1681173931995887&id=100003098884948
بقلم: اجمل منظور
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق