🎴ترک لیرہ بحران اور تحریکیوں کا چندہ!🎴
《پس پردہ اردگانی حماقت》
ترک کرنسی کی گراوٹ کے حقیقی وجوہات پر ایک مکمل رپورٹ دیکھیں العربیہ ڈاٹ نیٹ کے اس مضمون میں۔ عنوان ہے:
《لیرہ کے بحران کے حل میں ایردوآن کے آڑے آنے والی 5 رکاوٹیں》
◀️امریکی پابندیاں وہ واحد عامل نہیں جس نے ترکی کی کرنسی لیرہ کی کمر توڑی البتہ ان کے نتیجے میں ایک علاقائی معیشت پر اعتماد کی دیوار میں شگاف مزید گہرا ہو گیا۔
جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے درآمد کیے جانے والے فولاد اور ایلمونیم پر ٹیکس کی شرح دُو گنا کرنے سے متعلق ٹوئیٹ کی تو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کو شدید دھچکا پہنچا۔ ایسے میں ایردوآن نے ترکی کو درپیش سنگین ترین بحران سے نمٹنے کے لیے مالیاتی امور کے ماہرین کا ایک گروپ تشکیل دینے کے بجائے ،،، اپنے داماد کے ساتھ خود ہی ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے!
ایک طرف تُرک کرنسی لیرہ تیزی کے ساتھ کمزور پڑتی جا رہی تھی تو دوسری جانب ایردوآن سیاسی انداز سے سوچ بچار کرتے ہوئے ایسے شخص کا کردار ادا کر رہے تھے جو اختیارات پر کنٹرول کا حامل ہو کر انارکی کے بیچ دوڑ رہا ہو۔ اس دوران اُن کو اپنے داماد برات البیرک پر بھرپور اعتماد تھا جو ترکی کے وزیر مالیات کے منصب پر بھی فائز ہے۔
پہلے اقتصادی جھٹکے کے ساتھ ہی ترکی کی کرنسی لیرہ تین روز کے اندر 20% نیچے آ گئی۔ رواں سال کے آغاز کے بعد سے لیرہ کی قدر میں اب تک 40% کی کمی واقع ہو چکی ہے۔
ترکی کی کرنسی سنگین بحران کے گرداب سے باہر آنے کے لیے اب پانچ دُشوار آپشنز کی منتظر ہے۔ یہ راستے درجِ ذیل ہیں :
1 ۔ انارکی کے بیچ بھاگ دوڑ:
یہ صورت حال اس وقت جاری ہے جہاں ترکی کے صدر نے لیرہ کے بحران کے دورانیے کو انتہائی حد تک طول دینے کا مشکل راستہ اپنایا۔ وہ امریکا کے تمام تر دباؤ کو چیلنج کرتے ہوئے معیشت کی استعداد پر سیادت ثابت کرنے کے لیے ڈٹے رہے۔ اس کے دُور رس اثرات سرمایہ کاروں، قرض خواہوں، جغرافیائی لحاظ سے ترکی کے پڑوس میں اُبھرتی ہوئی منڈیوں اور انقرہ کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنے والے فریقوں پر مرتّب ہوئے۔
چینی کرنسی یُوآن اور برطانوی پاؤنڈ کی صورت میں ترکی کے غیر ملکی قرضوں کا حجم ترکی کی مجموعی مقامی پیداوار کے 50% سے زیادہ ہے۔ لیرہ کی قدر میں شدید کمی کے بعد یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی اقتصادی جنگ کے سبب غیر ملکی سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔
2 ۔ رعائتوں کا پیش کیا جانا:
سال 2016ء میں ترکی میں امریکی پادری اینڈرو برینسن کا حراست میں لیا جانا انقرہ اور واشنگٹن کے بیچ تعلقات میں واحد تناؤ نہ تھا ،،، تاہم جُملہ گہرے اختلافات کے ساتھ وہ ایک وسیع بحران کی صورت اختیار کر گیا۔ ایسے میں جب کہ سیاسی شخصیات امریکی پادری پر عائد الزامات کی حسّاسیت کے پیشِ نظر اسے طاقت کے ذریعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں ،،، بہت سے مالیاتی اور اقتصادی ماہرین کے نزدیک امریکی پادری ایک قیمتی مینڈھا ہے جس کو مالیاتی بحران میں اضافے کے بعد قُربان کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا تھا کہ ترکی نے امریکی پادری کو رہا کرنے کی پیش کش کی تھی جسے ٹرمپ انتظامیہ نے مسترد کر دیا۔
3 ۔ سُود کی شرح میں اضافہ:
دنیا بھر کی معیشتوں میں جادوئی حل کی حیثیت رکھنے والا اقدام سود کی شرح میں اضافہ ہے۔ اس کے نتیجے میں طلب گھٹ جاتی ہے اور افراطِ زر میں کمی واقع ہوتی ہے۔ تاہم ایردوآن ترکی کے مرکزی بینک کو شرحِ سُود میں اضافے کی اجازت دینے سے انکاری ہیں۔ اُن کا مسلسل یہ اصرار ہے کہ شرح سُود میں اضافہ معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس طرح ترکی کے صدر کی مثال اُس شخص کی سی ہے جو بخُار کی شدّت میں اضافے کے باوجود بُخار کی گرمی کم کرنے والا قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس موقف کے انتہائی بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں !
العربیہ کے ساتھ انٹرویو میں کویت نیشنل بینک گروپ کے چیف اکنامسٹ سعادہ شامی کا کہنا تھا کہ سُود کی شرح میں 1.5% تک کا مجوّزہ اضافہ ترکی کی کرنسی لیرہ کو درپیش بحران کو کم کرنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق ترکی کو مسئلے کے حل میں کامیاب ہونے کے لیے غالبا شرحِ سُود میں اضافے کے حوالے سے سخت حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
4 ۔ اعتماد کی بحالی:
ترکی کا بحران یک دم سامنے نہیں آیا بلکہ یہ ڈھانچے اور مالیات سے متعلق عدم توازن کی جڑیں 2015ء سے جا کر ملتی ہیں۔ اُس وقت ترکی واقعتا مالیاتی پالیسی کے مسائل سے دوچار تھا۔ اس کے نتیجے میں بیرونی تجارت کا عدم توازن اور عام بجٹ میں خسارہ سامنے آیا۔
ڈھانچے کے دیرینہ عدم توازن کے سبب جولائی میں افراطِ زر کی شرح 15% سے زیادہ ہو گئی۔ ساتھ ہی 3 برسوں سے اکٹھا ہونے والے مسائل کے انبار کا ٹائم بم معیشت کے اہم ترین مالی اشاریے یعنی لیرہ کے شرحِ مبادلہ میں شدید کمی کی صورت میں پھٹ کر سامنے آیا۔
ایردوآن کو چاہیے کہ وہ اعتماد کی بحالی کے لیے ریاست کے سرکاری اخراجات سے متعلق مالیاتی پالیسیوں میں مداخلت سے دست بردار ہو جائیں اور دنیا کے ساتھ ترکی کے چیلنجوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ تاہم ایسا نظر آ رہا ہے کہ ایردوآن اس طرزِ فکر سے کوسوں دُور ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے ملک میں اعلی ترین مالیاتی منصب پر اپنے داماد کو فائز کر رکھا ہے۔ یہ امر دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے سامنے عدم اعتماد کی علامت کے طور پر باقی رہے گا۔
5 ۔ کس سے مدد طلب کی جائے؟
کریڈٹ ریٹنگ کی دو معروف ترین ایجنسیوںStandard and Poor’s اور Moody’s کی جانب سے ترکی کے حکومتی قرضوں کی ریٹنگ کو "ناپسندیدہ" قرار دیا گیا۔ اس اقدام کے پیچھے دو اہم ترین وجوہات میں "بحران کے حوالے سے ترکی کے پاس کسی با اعتماد منصوبے کا نہ ہونا" اور "خطرات سے متعلق جوابات کا نہ ہونا" شامل ہے۔
معیشت کے ماہرین کے مطابق ترکی کی اس دُھندلی تصویر کی تلافی کے لیے انقرہ حکومت کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف سے مدد طلب کرے جو کہ ایردوآن کے نزدیک تقریبا ایک ناممکن اقدام ہے۔ دوسری صورت میں ترکی اپنے اُن قرض خواہوں کے ساتھ مل کر قرضوں کی ادائیگی کا ڈھانچہ از سرِ نو ترتیب دے جو ترکی کے ساتھ اختلافات رکھتے ہیں۔
یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ترکی کے مرکزی بینک کے ہاتھ مکمل طور پر بندھے ہوئے ہیں تاہم ایردوآن کی جانب سے Monetary اور Fiscal قیود کے حجم کا انکشاف بحران کے تیسرے روز ہوا۔ کرنسی کے لحاظ سے یہ بڑی تاخیر شمار کی جاتی ہے۔
https://urdu.alarabiya.net/ur/international/2018/08/22/لیرہ-کے-بحران-کے-حل-میں-ایردوآن-کے-آڑے-آنے-والی-5-رکاوٹیں.html
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق