📺رافضیت زدہ الرسالہ (The Message ) فلم کی حقیقت!
✍ اس فلم کے اندر پیغام رسالت کے تعلق سے خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ سوم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا کوئی کردار نہیں دکھایا گیا ہے۔ ان عظیم شخصیتوں کی ساری محنتوں اور کاوشوں کو چھپا دیا گیا ہے، جبکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب زیادہ قریب اور محبوب تھے۔۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ہیں یہ تینوں۔۔ ہر مقام اور ہر میدان میں یہ تینوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔
یہی رافضیوں کی صحابہ دشمنی اور بالخصوص خلفائے ثلاثہ سے نفرت کی دلیل ہے۔
✍عمار بن یاسر سے ایک گفتگو میں ابو سفیان نے کہا کہ تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن اس پر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ خاموش رہے اسکا انکار نہیں کیا، جیسا کہ فلم میں دکھایا گیا ہے، گویا عقیدہ وحدت الوجود کو ثابت کیا گیا ہے اور بتانے کی ناروا کوشش کی گئی ہے کہ یہ فاسد عقیدہ گویا صحابہ کے دور سے پایا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہیکہ اللہ تعالی کی ذات عرش پر مستوی ہے، جبکہ ہر جگہ کی موجودگی کا عقیدہ مجوسی اور عیسائیوں کا ہے جن سے الحادی صوفیوں نے اخذ کیا ہے۔۔
✍ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے وحشی کے ساتھ ملکر سیدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا، اور قتل کے بدلے انہیں آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جبکہ یہ محض رافضی بکواس ہے، اسکا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔
کیونکہ وحشی کبھی بھی ہند بنت عتبہ کے غلام تھے ہی نہیں، پھر آزادی کیسی؟ بلکہ وہ جبیر بن مطعم کے غلام تھے، انہوں نے ہی حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کا حکم دیا تھا کیونکہ انکے چچا طعیمہ بن عدی بدر میں آپ کے ہاتھ مارے گئے تھے۔۔
✍ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ھند بنت عتبہ نے سیدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا اور انکے بدن کا مثلہ بنا دیا تھا، جبکہ یہ بھی بنو امیہ کے خلاف رافضی پروپیگنڈہ ہے، یہ کہانی صرف رافضی طبرسی کذاب نے نقل کیا ہے کسی سنی مورخ نے نقل نہیں کیا ہے۔ اور احادیث وتواریخ کی کتابوں میں کوئی بھی ایسی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ آپ کے چچا محترم کے بدن کا مثلہ کیا گیا تھا۔۔
✍ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ چچا ابو طالب مسلمان موحد تھے، جب کہ یہ بھی تواریخ اور احادیث کی کتابوں میں ثابت نہیں ہے، بلکہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آپ کا انتقال حالت کفر میں ہوئی ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : (لما حضرت وفاة أبي طالب أتاه رسول اللّٰه ﷺ فقال : (يا عماه قل لا إله إلا الله أشهد لك بها يوم القيامة فقال : لولا أن تعيرني قريش يقولون : ما حمله عليه إلا جزع الموت لأقررت بها عينك ولا أقولها إلا لأقر بها عينك فأنزل الله عز وجل : {إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء وهو أعلم بالمهتدين} .
✍ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ابو جہل کا قتل کسی مجہول شخص نے کیا ہے جبکہ صحیح احادیث اور تاریخ سے ثابت ہے کہ دو صغار صحابہ نے اسے قتل کیا تھا ایک کا نام معاذ بن عمرو بن الجموح اور دوسرے کا نام معوذ ابن عفرا ہے، اور ان دونوں نے بدلے کے طور پر اسے قتل کیا تھا کیونکہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تھی۔۔۔
✍ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے وقت جس غار میں چھپے تھے اس کے منہ پر مکڑی نے جالا تان دیا تھا جبکہ اس کہانی کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
✍ فلم میں اکثر صحابہ کو بغیر داڑھی کے دکھایا گیا ہے، جبکہ یہ سنت نبوی ہے اور قولا وفعلا ہر طرح سے ثابت ہے، پھر ایک صحابی کیسے اپنی داڑھی منڈا سکتا ہے؟!
✍ فلم کے اندر دکھایا گیا ہے کہ تلوار ذو الفقار ابو لولو مجوسی کے خنجر کی طرح دو سر والی تھی جبکہ یہ غلط ہے بلکہ صرف ایک ہی سر والی تھی۔۔ یہاں فیروز مجوسی کی عظمت دکھانا مقصود ہے جس بدبخت نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔۔ تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیں:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=174697047336379&id=111126977026720
✍ آخری بات یہ ہے کہ اس فلم کے اندر صرف شیعہ رافضیوں کی جھوٹی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے، اور اس فلم کو ازہر کے اخوانی علماء اور لبنان کے شیعہ علماء نے سند اجازت دی ہے۔۔۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق