حُبِّ علیؓ یا پھر بغضِ معاویہؓ؟
====
یہ جو اہلسنت میں جتنے حضرات سیدنا حسینؓ کے غم میں یزید کی قبر میں کیڑے بھرتے نظر آتے ہیں اور یومِ حسینؓ کے دن یزید کی مذمت میں پوسٹس لگاتے نہیں تھکتے، کبھی آپ حضرات نے ان میں سے کسی صاحب کو یومِ علیؓ والے دن سیدنا علیؓ کے متفقہ قاتل عبدالرحمٰن ابن ملجم کو کوسنے دیتے سنا ہے؟ کبھی آپ نے دیکھا کہ ان لوگوں نے عبدالرحمٰن ابن ملجم کی مذمت میں کوئی پوسٹس لگائی ہو؟ نہیں بلکہ نہیں۔ آپ ایسا کبھی نہیں دیکھیں گے کیونکہ ایسا کچھ اہل تشیع نہیں کرتے۔ اہل تشیع یومِ حسینؓ والے دن یزید و صحابہ پر تو تبرا پڑھتے ہیں لیکن یومِ علیؓ والے روز ابن ملجم کی مذمت میں اعلانیہ کچھ نہیں کہتے۔ سو جو کام اہل تشیع نہیں کرتے، وہی کام اہلسنت میں موجود ان کے نقالوں کے ہاں بھی معدوم نظر آتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بیٹے کے قاتلوں پر لعنت اور باپ کے قاتل کا ذکر تک نہیں۔ اہلحدیث مسلک سے خود کو جوڑنے والے ایک غیر طاہر صاحب، جو یزید کا نام بغیر پلید کے لاحقے کے لینا گناہ سمجھتے ہیں، موصوف نے آج تک کبھی ابن ملجم کو پلید کہنا تو دور کی بات اس کا مذمتی ذکر تک نہیں کیا ۔ کیوں؟ کیونکہ موصوف کے روحانی خالہ زاد بھائی اہل تشیع جو ایسا نہیں کرتے دکھائی دیتے۔ اور موصوف تو مشہور ہیں اہل تشیع کی نقالی میں پھر چاہے وہ امام باڑوں میں جاکر ان کے مرثیوں اور نوحوں سے لطف اندوز ہونا ہو یا پھر ان کی طرح سیدنا علی و حضرات حسنینؓ کے ناموں کے آگے پیچھے امام و علیہ السلام لگانا ہو۔
اسی طرح ان سب حضرات کو سیدنا حسینؓ کی شہادت میں اسلام زندہ ہوتا نظر آتا ہے لیکن سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت کا دن بھی ان کو یاد نہیں رہتا۔ ہاں کبھی کسی کو سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کی یاد آ بھی جائے تو وہ حُبِ سیدنا ابن زبیرؓ میں نہیں بلکہ بغضِ حجاج میں آتی ہے۔ ورنہ تو ذرا ان سے صرف سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت کا دن اور اس کے واقعات پوچھ لیں ،آپ کو یوں دیکھنا شروع کردینگے کہ جیسا کہ آپ نے کسی خلائی مخلوق سے متعلق معلومات مانگ لی ہے ان سے۔ البتہ جہاں حجاج کی بات آتی ہے تو ان کو فی الفور سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ اور سیدہ اسماءؓ کی محبت اس قدر زور سے آتی ہے کہ حجاج کا تبرا بے اختیار منہ کے راستے باہر نکل جاتا ہے۔ ورنہ نہ ان کو سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ سے۔
حجاج و یزید پر لعنت بھیجنا کارِ خیر سمجھتے ہیں لیکن کبھی آپ نے ان کے مونہوں سے ابو لؤلؤ فیروز اور عبدالرحمٰن ابن ملجم کا نام نہ سنا ہوگا۔ کبھی سیدنا عثمانؓ پر ۱۷ دن تک پانی بند کرنے والے مالک الاشتر نخعی اور کنانہ بن بشر کی بابت کوئی مذمتی بیان نہ پڑھا ہوگا۔ کبھی غافقی بن حرب کو پلید کہتے نہ دیکھا ہوگا۔ کہیں بھی کیسے۔ ان کے دل و دماغ پر شیعیت کے زیرِ اثر یزید و حجاج کا بھوت جو سوار ہے۔ باقی صحابہ کے قاتلوں سے ان کو کیا لینا دینا۔ کیونکہ اہل تشیع کو ان سے کچھ لینا دینا جو نہیں ہے۔ سو اہلسنت میں موجود اہل تشیع کے ان نقالوں اور قوالوں کو بھی ان قاتلوں کی کچھ خاص فکر نہیں۔ ان کے پیشِ نظر بس یزید و حجاج اور سیدنا معاویہؓ ہی ہیں کیونکہ ان کے روحانی بھائی یعنی اہل تشیع جو ان اصحاب کی مذمت میں قوالیاں گاتے پھرتے ہیں۔ سو یہ بھی ان کے پیچھے بیٹھے تالیاں پیٹنے کا کام کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔
پھر یار لوگ کہتے ہیں کہ آپ بلا وجہ ہی ان حضرات پر تشیع کی تہمتیں لگاتے ہیں۔
تحریر: محمد فھد حارث
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق