☠سید قطب کو پھانسی کیوں دی گئی؟☠
✍ڈاکٹر اجمل منظور
💥"معالم فی الطریق" بغاوت اور خروج پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جسے سید قطب نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں لکھی تھی۔ اخوانیوں نے اس کتاب کو خوب مشہور کیا۔ حد تو یہ ہے کہ خروج وبغاوت کی دعوت دینے والی اس کتاب کو بر صغیر کا ہر تحریکی تفہیم القرآن کی طرح اپنے مطالعہ میں رکھنا فرض سمجھتا ہے۔ اور تحریکی مدرسوں میں اس کتاب کا تقریباً ہر طالب علم دلدادہ ہوتا ھے۔ خاصکر اردو میں اس کا وہ نسخہ جسے "جادہ و منزل" کے نام سے ترجمہ کیا گیا ھے۔
اس کتاب میں بہت ساری خلاف شرع اور خروج وبغاوت کی باتیں ہیں جن پر ناقدانہ جائزہ لیا جائے گا۔ ابھی سر دست صرف ان وجوہات واسباب کی حقیقت سے پردہ اٹھانا مقصود ہے جو سید قطب کو پھانسی کے پھندے تک لے گئیں!.
💥 لیکن المیہ یہ ہے کہ اصل وجوہات سے لوگوں کو دور رکھا جاتا ہے اور انکے برعکس طرح طرح کے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا پروپیگنڈہ یہ ہے کہ سید قطب کو "معالم فی الطریق" کتاب لکھنے کی وجہ سے پھانسی دی گئی۔ اور اس پروپیگنڈے کو صرف عرب دنیا ہی نہیں بلکہ بر صغیر کے اندر بھی تحریکیوں نے خوب پھیلایا۔ اس کتاب کا اردو میں "جادہ و منزل" کے نام سے ترجمہ ایک پاکستانی عالم خلیل احمد حامدی نے کرکے اسکے مقدمے میں اسی پروپیگنڈے کو اچھالا ہے۔ چنانچہ جناب لکھتے ہیں:
((سید قطب شہید اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر جب قاہرہ کی فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا تو دوران مقدمہ سرکاری وکیل کی طرف سے ہر ملزم سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس نے "معالم فی الطریق" کا مطالعہ کیا ہے۔ اس مقدمے کی فرد قرارداد جرم اسی کتاب کے مضامین پر مشتمل تھی۔ چنانچہ یہی کتاب سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو تختۂ دار پر لے جانے کا موجب ہوئی۔ لیکن یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں متعدد ایسی کتابیں ملتی ہیں جو اپنے مصنفین کے لیے پیغام اجل لے کر آئیں۔ خود پاکستان کی تاریخ میں بھی اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے۔))
محترم نے اسکے لئے جس روزنامے کا حوالہ دیا ہے در اصل اس روزنامے نے یہ افواہ اڑائی تھی کہ سید قطب کو کتاب لکھنے کی وجہ سے پھانسی دی گئی ہے تاکہ اصل وجہ سے لوگ آگاہ نہ ہو سکیں۔
اس کذب بیانی اور پروپیگنڈے کو اس ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:
https://m.aawsat.com/home/article/1080806/علي-العميم/أإخوان-مسلمون-أم-إخوان-حرية؟
💥مزید یہ کہ سید قطب نے خود اسی موضوع پر کتاب لکھی ہے جسکا نام (لماذا اعدمونی؟: مجھے پھانسی کیوں دی؟) ہے لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہے جسے خاص اسی مقصد سے تالیف کی تھی کہ انہیں سالوں تک جیل میں کیوں رکھا گیا اور پھر پھانسی کی سزا کیوں دی گئی۔
💥اسی طرح معروف مصری عالم سید حسین عفانی نے اپنی مشہور کتاب "زهرة البساتين من مواقف العلماء والربانيين" ج 3 ص 189 میں اس پروپیگنڈے کے پھیلنے کی وضاحت کی ہے آپ لکھتے ہیں:
((لما أفرج عن سيد قطب عام 1964 أصدر كتابه معالم في الطريق وبسبب الأفكار الدعوية في كتاب معالم في الطريق وكتابه في ظلال القران غضب الطغاة من سيد قطب وحكموا عليه بالاعدام، ولهذا أطلق بعضهم على كتاب معالم في الطريق الكتاب الذي حكم على صاحبه بالإعدام.))
ترجمہ: جب سید قطب کو 1964 میں جیل سے رہا کر دیا گیا تو انہوں نے اپنی کتاب معالم فی الطریق لکھی ، اور اس کتاب میں اور فی ظلال القرآن میں آپکی جو دعوتی افکار ہیں انکی وجہ سے ظالم حکمرانوں کو سید قطب پر غصہ آگیا اور آپکو پھانسی دے دی۔ اسی وجہ سے کچھ لوگوں نے یہ مشہور کر دیا کہ یہی وہ کتاب ہے جسکی بنیاد پر سید قطب کو پھانسی دی گئی ہے۔
💥اس کے علاوہ بھی اخوانیوں نے سید قطب کی پھانسی کے تعلق سے بہت ساری بے بنیاد باتوں اور کہانیوں کو گڑھ کر پھیلا رکھا ہے۔ حالانکہ یہ وہی شخص ہے جس نے 1965 میں مصری حکومت کے خلاف اور اسکے تختہ پلٹنے کیلئے پر اسرار مسلح گروپ کی قیادت کی تھی۔ اس وقت کے صدر جمال عبدالناصر اور اعلی حکومتی اہل کار کے قتل کی سازش میں مدبر اول کا کردار ادا کیا تھا نیز انارکی اور بد امنی پھیلانے کی غرض سے بہت سارے پل خاص کر نیل پر بنا قناطر خیریہ، فلائی اوور، بجلی اسٹیشن اور واٹر سپلائی اسٹیشنوں کو بم سے اڑانے کا پلان بنایا تھا تاکہ ناصری حکومت کو ختم کر کے اخوانی حکومت قائم کی جا سکے۔
چنانچہ مسلح گروپ کی حکومت کے خلاف بغاوت اور خروج کی سازش کے بعد سید قطب اور کچھ دیگر اخوانی ممبران کو گرفتار کیا گیا اور پھر سید قطب پر مقدمہ قائم کر کے سزائے موت سنائی گئی۔ اور 29/ اگست 1966 کو پھانسی دے دی گئی۔ جبکہ 1954 میں بھی اسی طرح کی سازش اور بغاوت میں گرفتار کئے گئے تھے لیکن عراقی صدر عارف عبد السلام کی سفارش پر رہا کر دیے گئے تھے۔
اسکی پوری تفصیل درج ذیل دونوں ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:
1-أسباب إعدام سيد قطب:
https://www.google.co.in/amp/www.masrawy.com/news/news_cases/details/2017/8/29/1146133/كيف-أحرج-عبد-الناصر-ملك-السعودية-عندما-تدخل-لوقف-تنفيذ-إعدام-سيد-قطب-%3famp
2- قصة إعدام سيد قطب ورفاقه:
https://www.masress.com/soutelomma/3351
💥سید قطب کی سزائے موت کی اتنی واضح سبب اور پوری دنیا میں اس وقت مشہور ہونے کے باوجود اس تعلق سے اخوانی تحریکی طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ھے کہ مارنے سے پہلے سید قطب کو تعذیب کے مراحل سے گزارا گیا، کوئی کہتا ہے کہ ان کے بازو کو پہلے توڑا گیا اور کوئی کہتا ھے کہ دفن کرنے سے پہلے انکی لاش کی بے حرمتی کی گئی۔
کوئی کہتا ھے کہ عبد الناصر نے پھانسی سے پہلے معافی مانگنے کی درخواست کی لیکن سید قطب نے ناصری رحم وکرم کو رد کر دیا، کوئی کہتا ھے کہ پھانسی سے پہلے شاہ فیصل نے معافی کیلئے تار بھیجا تھا لیکن عبد الناصر نے کہہ دیا کہ پھانسی کے بعد آپکا تار پہونچا ہے۔
کسی کے دماغ میں شیطان نے یہاں تک پھونک مار دی اور وہ کہہ بیٹھا کہ پھانسی کے وقت سید قطب نے جمال عبدالناصر اور ناصری حکومت پر بد دعا کر دی تھی جسے اللہ نے قبول کر لی اور مصر 1967 کی جنگ ہار گیا اور عبد الناصر بھی 1970 میں ہلاک ہوگیا۔ گویا سید قطب کی دعا اس قدر مقبول ہوئی کہ انکی دعا کے فضل سے یہودیوں کو مصر کی مسلم فوج پر جیت حاصل ہوگئی اور مسلمانوں کو ہار۔
آخر سید قطب نے 1952 اور 1954 میں بد دعا کیوں نہ کردی جس وقت کی اخوانی مصری حکومت سے ٹکرا رہے تھے۔ اس وقت بھی تو بد دعا قبول ہوتی؟! کیوں اس وقت اگر مصری فوج ہار جاتی تو آخر انہیں کا اسی وقت سے مصر پر قبضہ ہوجاتا۔ (حقیقت میں تحریکی کہانی گھڑنے میں عقل سے کام نہیں لیتے ہیں۔)
💥مزے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کا بکواس اور خرافات ان لوگوں نے کہی ہے جو سید قطب کی پھانسی کے وقت نہ حاضر تھے اور نہ ہی وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے کچھ بتایا۔ کیوں پھانسی کے وقت اخوانیوں میں سے صرف وہی دو لوگ موجود تھے جنہیں بھی سید قطب کے ساتھ پھانسی دے دی گئی تھی اور وہ تھے محمد یوسف ہواش اور عبد الفتاح اسماعیل۔
💥مذکورہ تمام خرافات کی تردید کیلئے میجر جرنل فواد علام کی عینی گواہی کافی ہے جو جیل کے سیل سے لیکر پھانسی دینے کے وقت تک سید قطب کے ساتھ موجود تھے۔ فواد علام کہتے ہیں:
سید قطب کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں تھا کہ انہیں پھانسی کب دی جائے گی۔ میں پہلی گاڑی میں بیٹھا تھا اور میرے بغل میں سید قطب بھی تھے، دوسری گاڑی میں محمد یوسف ہواش تھے جو تنظیم کے اندر سید قطب کے نائب تھے اور تیسری گاڑی میں عبد الفتاح اسماعیل تھے جو تنظیم کے اندر مواصلات خارجہ کے مسؤول تھے۔ تینوں کو پھانسی کی سزا تھی جنہیں جنگی قید خانے سے عدالت میں فیصلے کے لئے لے جایا جا رہا تھا۔ سید قطب بھورے رنگ کا جوڑا پہنے تھے جس کے نیچے سفید قمیص تھی۔ صحت بہتر تھی۔ انہیں جیل میں نہ تو مارا گیا اور نہ ہی کسی طرح سے سزا دی گئی اور نہ ہی کسی طرح سے کوئی پریشانی اور گھٹن محسوس کر رہے تھے جیسا کہ اخوانیوں نے اڑا رکھی ہے۔ ہاں سید قطب نے راستے میں حسرت وافسوس کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی : (("للاسف الشديد لم ينجحوا في تنفيذ عمليۃ نسف القناطر الخيريۃ التي لو تمت لانتهي النظام".))
ترجمہ: بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہ لوگ نیل پر موجود قناطر خیریہ کو بم سے نہ اڑا سکے کہ اگر وہ اس عمل میں کامیاب ہو جاتے تو حکومت کے خاتمے میں وقت نہیں لگتا۔
اس طرح جاری کارروائی سے سید قطب کو جب اندازہ ہوگیا کہ اب انہیں پھانسی دی جانے والی ہے تو مضطرب ہونے لگے اور بے چین ہوکر کہنے لگے: "انا مفكر اسلامي كبير والحكومه لم تجد سبيلاً للقضاء علي افكاري لذا تعدمني". ترجمہ: میں ایک بہت بڑا اسلامی مفکر ہوں، میرے افکار و خیالات کو ختم کرنے کیلئے جب حکومت کو کوئی سبیل نظر نہ آئی تو مجھے ہی پھانسی پر لٹکانے چلی ہے۔
پھر پھانسی دینے کا رسم شروع ہوا: سید قطب کو پھانسی کا خاص لال جوڑا پہنایا گیا اور خواہش طلب کی گئی۔ سید قطب نے اس وقت پانی اور نماز پڑھنے کی خواہش کی۔ پھر انہیں پھانسی دی گئی۔
پتہ چلا کہ سید قطب کو بڑے ہی رازداری سے پھانسی دی گئی کہ انہیں اسکا خود نہیں پتہ تھا۔ چنانچہ بد دعا، رحم کی درخواست، شاہ فیصل کی سفارش سب جھوٹ اور اخوانیت کا پروپیگنڈہ ھے کیوں کہ اس مرتبہ پھانسی کے بارے میں شاہ فیصل کو بالکل معلوم نہیں تھا اور اس وقت یمن کی جنگ کو لیکر سعودی اور مصر کے مابین اختلافات چل رہے تھے اور اسے حل کرنے کیلئے 1965 میں جدہ کے اندر دونوں ملکوں کے درمیان بیٹھک بھی ہوئی لیکن ناکام رہی۔ اس واقعہ سے تار بھیجنے والی بات مزید خرافات لگ رہی ہے۔
🎪قطبی تحریکیوں کی ایک اور کہانی🎪
💥سید قطب کی پھانسی کے وقت قاضی اور سید کے بیچ ایک گڑھی ہوئی مختصر گفتگو کی ترجمانی ایک قطبی معتقد نے کچھ یوں کی ہے:
ایک دفعہ عدالت میں جج نے سید قطب سے سوال کیا: تم پر الزام ہے کہ تم نے جمال عبدالناصر کے قتل کی کوشش کی تھی؟
سید قطب نے دو ٹوک جواب دیا:
جمال عبدالناصر کا قتل تو بہت چھوٹا ہدف ہے، ہمارا ہدف تو ایک ایسی امت کی تعمیر و تشکیل ہے جس میں جمال عبدالناصر جیسے لوگ پیدا ہی نہ ہونے پائیں۔
اس گفتگو کی ترجمانی جس بھی قطبی بھکت نے کی ہے اس سے میرا دو سوال ہے۔
💥اول: کیا سید قطب کے نزدیک جمال عبدالناصر کا قتل جائز تھا بلکہ اس کا قتل سید قطب کے نصب العین میں شامل تھا گرچہ چھوٹا تھا جیسا کہ (ھدف تافہ) یعنی چھوٹا مقصد کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا ہے؟
کیا ناحق اس قتل کو قتل انسانیت میں شمار نہیں کیا جائے گا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (من قتل نفساً بغير نفس أو فساد في الأرض فكأنّما قتل النّاس جميعاً).؟ یا یہ کہ قتل انسانیت قطبیوں کے اعتقاد میں شامل ہے؟ کیوں کہ جناب والا عبد الناصر کے قتل کو ھدف تافہ یعنی ایک چھوٹا ہدف بتا رہے ہیں۔ اس سے تو قتل انسانیت واقعی ان کے اور کے بھکتوں کے یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا۔
💥دوم: یہ قطبی کس طرح کی امت تشکیل دینا چاہتے ہیں؟
مرسی کو مصر میں ایک سال حکومت کرنے کا موقع ملا جس میں کس طرح کا معاشرہ وجود میں آیا؟ ہو سکتا ہے کہہ دیا جائے کہ ایک سال تھوڑی مدت ہے۔ حالانکہ عمر بن عبدالعزیز نے کم وبیش ایک ہی سال کے اندر ساری خامیوں کو دور کر دیا تھا؟ ویسے بھی مرسی نے ایک سال میں اتنا کچھ کر ڈالا تھا کہ اگر مزید کچھ موقع ملتا تو مصر ضرور ایران ثانی بن جاتا۔ مرسی کی حکومت آنے پر رافضیوں نے بلا مقصد خوشی تھوڑی منائی تھی۔
💥دوسری طرف ٹیونس کے اندر راشد غنوشی کی قیادت میں اتحادی پارٹیوں کے ساتھ 2011 سے 2014 تک پورے چار سال تک تحریکیوں نے حکومت کی ہے۔ ان چار سالوں میں تحریکیوں نے کیسا معاشرہ تشکیل دیا ہے؟ جمہوری لادینی حکومت کے ذریعے سماج کو بد دین ہی بنایا جا سکتا ہے۔ راشد غنوشی کی وہ تصویر ضرور دیکھیں جس میں مغربی طرز پر ایک کتا لے کر ٹہل رہے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ مغربی معاشرے کی سب سے زیادہ برائی یہی کرتے ہیں اور سب سے زیادہ یہی دلدادہ بھی ہیں!!!
💥تیسری طرف ترکی میں تحریکیوں کی حکومت دسیوں سال سے ہے۔ آخر وہاں امت کی تشکیل کیسے کی جا رہی ہے؟ تحریکیوں کے سیاسی رہنما اردگان مغربی ممالک سے دیگر جانوروں کے ساتھ خنزیر کا گوشت بھی درآمد کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ ہم جنس پرستی کا قانون بھی نافذ کر دیا ہے۔ چار ارب ڈالر سالانہ صرف قحبہ خانوں سے حکومت کی آمدنی ہے۔
💥نوٹ:
تحریکی سچے دل سے بتائیں کہ آخر ان کے مرشد نے امت کی تشکیلِ جدید سے کیا مراد لیا ہے؟ مذکورہ تعمیر وتشکیل کے علاوہ اگر کوئی دوسری چیز ہے تو آخر اس پر کب عمل ھوگا؟ یا یہ ساری تبدیلیاں ابھی ٹرایل میں چل رہی ہیں مزید موقع ملنے پر مغربی تہذیب کو بھی لوگ بھول جائیں گے۔
ویسے سید قطب کی کتاب (العدالة الاجتماعية في الإسلام) اور یوسف قرضاوی کی کتاب (الحلال والحرام في الإسلام) کے اندر اسلامی معاشرے کی بالکل وہی تصویر پیش کی گئی ہے جیسا یہ تحریکی چاہتے ہیں۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق