💥Wahabi Idialogy💥
🎪فرزندان توحید کے خلاف ایک عظیم پروپیگنڈہ🎪
✍ڈاکٹر اجمل منظور
آج کل ایران کے اندر بلوچستان، اہواز، کردستان، عراق، شام اور یمن میں دشمنان توحید رافضی دہشت گرد سنی مسلمانوں کو وہابی تکفیری کہہ کر قتل کر رہے ہیں۔ مردوں کو ابو بکر، عمر اور عثمان کہہ کر اور عورتوں کو عائشہ اور حفصہ کہہ کر انکے ساتھ انسانیت سوز اور اذیت ناک موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ اور تحریکی وتقلیدی یہ سوچ کر مگن ہیں کہ وہابی تکفیری بول کر یہ سلفیوں کو مراد لے رہے ہیں۔ اسی لئے متبع سنت سلفیوں کی دشمنی میں جانے انجانے یہ سب بھی رافضیوں کے دھوکے میں پڑ کر ان کی سازشوں کا شکار ہیں حالانکہ ان کے یہاں شیعوں کے علاوہ سب ناصبی حلال الدم ہیں۔
💥چونکہ وہابی فکر کو تکفیریت اور خارجیت سے جوڑ کر تمام سنی مسلمانوں کو یہ مجوسی روافض پہلے بدنام کرتے ہیں پھر انہیں اہل بیت کا دشمن کہہ کر قتل کرتے ہیں۔ لہذا وقت کی ضرورت سمجھ کر شیعوں کی اس سازش کا پردہ چاک کرنے اور سنی مسلمانوں سے ان کی ازلی دشمنی کو اجاگر کرنے کے لئے وہابی فکر کی حقیقت اور اس کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ ہمیں دشمنان اسلام کی چالوں کو سمجھنے اور آپس میں متحد ہونے کی توفیق بخشے۔
💥مملکت توحید اور سلفیوں کے خلاف وہابیت ہی سب سے پہلا اور عظیم پروپیگنڈہ ہے جسے اسلام کے روشن اور صاف ستھرے چہرے یعنی کتاب وسنت پر مبنی سلفی منہج کو داغ دار کرنے کے لئے مکار یورپ کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اسلام کا دعویٰ کرنے والے اور صوفیت کے دلدادہ رافضی، بدعتی، تحریکی، خارجی اور تقلیدی بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ خالص کتاب وسنت کی بات کرنے والوں پر یہ سارے دشمنانِ سلفیت فوراً وہابیت کا لیبل لگا کر عوام میں انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان سارے اغراض اور ہوا پرسوں کی سیاہ گرم بازاری پر دبیز پردہ پڑا رہے اور یہ بھولے عوام کے افکار ونظریات اور جذبات پر قبضہ کر کے اپنا اپنا کھیل کھیلتے رہیں۔
💥آئیے اسلام کے خلاف اس عظیم خطرناک پروپیگنڈے کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے جڑ کی پتا لگاتے ہیں۔
چنانچہ ۱۱۵۷ھ میں شیخ محمد بن عبد الوہاب سے امام محمد بن سعود نے جب جزیرۃ العرب کے شمال مشرق میں درعیہ نامی علاقے میں اس بات پر بیعت کی کہ حکومت میں آپ ہمار ا ساتھ دیں۔ اور اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ دونوں خاندان مل کر کتاب وسنت کو اپنا منہج بناکر حکومت کریں گے۔ یہ معاہدہ ترکی خلافت اور یورپین سامراجیوں دونوں کے خلاف تھا۔ ترکی خلافت میں صوفی تقلیدی علماء کا غلبہ تھا ۔ اس دور میں خلافت انہیں کے اشارے پر چل رہی تھی ۔ مصر میں عثمانی سلطنت سے الگ ہوکر محمد بن علی نے جو حکومت قائم کی تھی اسکا بھی وہی حال تھا۔ اس آخری دور میں اسلامی خلافت کے کمزور کرنے میں ان کا بنیادی کردار تھا ۔ یورپین قوم جس وقت مسلم سائنس دانوں کی تحقیقات اور ریسرچ پر کام کرکے دن بدن آگے بڑھ رہے تھے خصوصاً ثقافتی ، سماجی اور عسکری میدان میں جس قدر مسلمان پیچھے ہورہے تھے وہ اسی قدر آگے بڑھ رہے تھے۔ مختلف ایجادات کرکے انہوں نے ایک ایک سے ہتھیار بنانا شروع کر دیا تھا۔ ادھر صوفی تقلیدی علماء اور قاضیوں نے بندوق تک کی اجازت دینے سے انکار کردیا یہ کہہ کر کہ یہ ایمانی روح کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت فرانسیسی فوج مصر پر حملہ آور تھی اس وقت وہاں کے تقلیدی علماء نے فتوی دیا تھا کہ احمد بدوی کے مزار پر ختم بخاری شروع کیا جائے۔
اور یورپین سامراجیوں کا حال یہ تھا کہ وہ مسلمانوں میں ایسے ہی بدعت کے دلدادہ، صوفی سنت ، تارک الدنیا نیز تقلید جامد کے شکار قسم کے لوگوں کو پسند کرتے تھے کہ جن سے انہیں ترقی اور آگے بڑھنے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔
چنانچہ جزیرہ ٔ عرب میں جب شیخین کے معاہدے کے بعد ایک سلفی منہج کتاب وسنت پر مبنی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو ان سب کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ ہر ایک نے اس حکومت کو بدنام کرنے اور اسے ختم کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب اور خارجی عبد الوہاب ابن رستم کے ناموں میں مشابہت کیوجہ سے ان لوگوں نے یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ یہ تو وہی وہابی فرقہ ہے جو شمال افریقہ میں کبھی پایا جاتا تھا ۔ اور اس خارجی کے جتنے عقیدے اور اعمال قبیحہ تھے سب شیخ کی طرف نسبت کرکے لوگوں میں پرچار شروع کردیا تاکہ عوام اس سلفی حکومت سے بدظن ہوجائیں ،یہ دنیا میں بدنام ہوجائے اور اس کا اثر پھیلنے نہ پائے۔
💥 وہابی آئیڈیا لوجی کی اصل کہانی:
عبد الوہاب ابن رستم جوکہ ایرانی النسل فارسی تھا اسکا پورا نسب اس طرح ہے: عبد الوہاب بن عبد الرحمن بن رستم بن بہرام بن سام بن کسری۔ اس کی پیدائش ۷۸۴ء ہے جبکہ وفات ۸۳۲ء یعنی ۱۹۷ھ ہے۔ یہ خارجی اباضی فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے باپ نے شمال افریقہ تاہرت (جو اس وقت جزائر کا ایک صوبہ ہے) میں خارجی رستمی حکومت قائم کی جس کا یہ وارث تھا اور جو اپنے باپ سے کہیں زیادہ سخت تھا۔ اس نے حج اوردیگر کئی اسلامی احکام کو معطل کر رکھا تھاجس کی وجہ سے افریقہ کے اندر قائم دیگر مسلم حکمرانوں خصوصا علماء جزائر اور اس خارجی حکومت کے درمیان مناظرے اور لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ یہ عبد الوہاب ابن رستم سنی مسلمانوں کا سخت دشمن تھا اور ان کے خون کو حلال سمجھتا تھا۔ یہ شخص جس اباضی خارجی فرقے سے تعلق رکھتا تھا وہ فرقۂ وہابیۂ سے مشہور تھا جسے علماء اندلس وجزائر نے خارج از اسلام قرار دیدیا تھا۔
💥چنانچہ یہی وہابیت سب سے پہلا اور عظیم پروپیگنڈہ تھا جو اس سلفی حکومت (پہلی سعودی حکومت) کے خلاف پھیلایا گیا جس کا دونوں کے مابین دور کا بھی کسی اعتبار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر بھی درج ذیل چند نکات کی روشنی میں اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالا جاسکتا ہے:
👈الف: زمان ومکان کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دونوں میں کافی بُعد پایا جاتا ہے ۔ زمانے کے اعتبار سے تو بالکل واضح ہے کہ ابن رستم جسکی وفات ۱۹۷ھ میں ہے جبکہ شیخ محمد بن عبدا لوہاب کی وفات ۱۲۰۶ھ میں ہوئی ہے یعنی ایک ہزار سالوں کا فاصلہ ہے۔ جبکہ مکان کے اعتبار سے بھی ایک اگر عالم اسلامی کے مشرق میں ہے تو دوسرا مغرب میں یعنی بعد المشرقین کا فاصلہ ہے۔ اور یہ کہ اسکی دعوت شمال افریقہ اور اندلس سے آگے عالم اسلامی میں کہیں نہ جاسکی۔ نیز تاریخ کی کسی کتاب میں اس بات کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ملتا کہ ابن رستم کی دعوت جزیرہ عرب تک پہونچی ہو۔ تاریخ طبری، تاریخ کامل لابن اثیر، الملل والنحل للشہرستانی وابن حزم وغیرہ کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جن میں صرف مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ابن رستم نے ایک دفعہ حج کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کے ساتھیوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ عباسی خلیفہ گرفتار کر لے گا۔
👈ب: شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت تجدیدی دعوت تھی جو کہ کتاب وسنت اور منہج سلف پر قائم تھی جبکہ عبد الوہاب ابن رستم کی دعوت منہج سلف سے بالکل ہٹ کر ایک نئی دعوت تھی یہی وجہ ہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام علماء نے اس کی مخالفت کی تھی۔
👈ج: شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنی دعوت میں کبھی بھی خارجی اباضی فرقے کی تائید نہیں کی اور نہ ہی ان کے آراء واقوال کو کبھی حجت بنایا اور نہ ہی آپ کو ابن رستم کے فرقے کے بارے میں کوئی آگاہی تھی ۔ آپ کی کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر اسے سمجھا جاسکتا ہے جن میں اس گمراہ فرقے کا کوئی ذکر نہیں ملے گا۔
👈د:عبد الوہاب ابن رستم کی طرف فرقۂ وہابیہ اگر منسوب تھی تو وہ بالکل صحیح تھی کیونکہ اسکا بانی عبد الوہاب تھا لیکن محمد بن عبدالوہاب کی طرف منسوب کرنا یہ لغوی غلطی ہے کیونکہ آپ کا نام محمد ہے جس کی طرف منسوب محمدی ہے نہ کہ وہابی ۔ اور یہ کہ آپ کے والد عبد الوہاب کا دینی دعوت میں یا حکومت میں کوئی اثر اور فکر نہیں ہے۔
👈ھ:شیخ محمد بن عبد الوہاب کی طرف منسوب تمام باطل عقائد اور بے بنیاد باتوں کا رد مویدین کے علاوہ مخالفین نے بھی کی ہے جس کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں خود بعض انگریز بھی شامل ہیں۔
یہی وہابیت کا وہ پروپیگنڈہ ہے جسے ارباب بست وگشاد اور اغراض وہوا پرست تقلیدی دین کے ٹھیکیداروں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت سے جوڑ کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہا کہ یہ اسلام سے الگ کوئی دین ہے۔ انگریزوں ، ترکوں، ایرانیوں اور مصریوں نے مل کر اسے ایسا ہوّا بنایا کہ اسلامی دنیا میں پچھلی دو تین صدیوں میں جتنی تحریکیں پیدا ہوئیں اور یورپی طاقتوں نے ان سے کوئی خطرہ محسوس کیا جھٹ اس کا ڈانڈا اسی وہابیت سے ملا دیا۔
💥فرزندان توحید کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں انگریزوں، رافضیوں، تحریکیوں اور بدعتیوں سے ہوئے تقلید کے بڑے بڑے ٹھیکیداروں تک شامل رہے ہیں۔ چنانچہ مشہور حنفی عالم ابن عابدین شامی (ف ۱۲۵۸ھ) اپنے مشہور حاشیہ (رد المحتار:۳/۳۰۹) میں فرماتے ہیں: ( کما وقع فی زماننا فی اتباع عبد الوهاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون مذهب الحنابلة لکنهم اعتقدوا أنهم المسلمون وأن من خالف اعتقادهم هم مشرکون واستباحوا قتل أهل السنة وقتل علمائهم) مفہوم: جیسا کہ ہمارے زمانے میں عبد الوہاب (؟!!) کا حال ہوا ، لیکن اس کا اور اسکے پیروکاروں کا اعتقاد تھا کہ صرف یہی مسلمان ہیں اور ان کے اعتقاد کے مخالف سب مشرک ہیں ۔اور اسی بنیاد پر انہوں نے اہل سنت اور ان کے علماء کا قتل روا رکھا۔
جناب کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ شیخ کانام محمد تھا یا عبد الوہاب ۔ پھر آخر الزام نہیں لگائیں گے تو کریں گے کیا؟ اسی طرح جناب انور شاہ کشمیری (ف ۱۳۵۲ھ/۱۹۳۳ء) جیسے دیوبندی عالم بھی شیخ سے متعلق یہ کہہ گئے: (أما محمد بن عبد الوهاب النجدی فإنه کان رجلا بلیدا قلیل العلم فکان یتسارع إلی الحکم بالکفر) ترجمہ: اور محمد بن عبد الوہاب نجدی تو ایک کم علم اور کم فہم انسان تھا اور اسی لئے کفر کا حکم لگانے میں اسے کوئی باک نہیں تھا۔ (فیض الباری: ۱/۱۷۱)
اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ اتنے مشہور مشہور دین کے ٹھیکیداروں نے جب آپ کے خلاف ایسی ایسی بودی اور بے بنیاد بات کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی تو دوسروں کا کیا حال رہا ہوگا۔ احمد زینی دحلان کو تو شیخ اور شیخ کے ساتھیوں سے واسطے کا بیر تھا ۔ اس نے بار بار اس الزام کو دہرایا ہے۔
شیخ کے معاصر یمن کے مشہور عالم دین أمیر محمد بن اسماعیل صنعانی نے آپ کے اوپر لگائے گئے تمام افترا پردازیوں کا جواب لکھا ہے۔ اسی ضمن میں لکھتے ہیں: ( ومن جملة هذه الأکاذیب ما ذکره أن شیخ الإسلام محمد بن عبد الوهاب رحمه الله یسفک الدماء وینهب الأموال ویتجاری علی قتل النفوس وتکفیر الامة المحمدية فی جمیع الأقطار۔ وهذا کله کذب)۔ ترجمہ: انہیں افترا پردازیوں میں یہ بھی ہے کہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب خون بہاتے ہیں اور مال لوٹتے ہیں اور لوگوں کے قتل کی جسارت کرتے ہیں۔ اور تمام دنیا کے مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ یہ سب سراسر جھوٹ ہے۔ (تبرئۃ الشیخین الإمامین : ۸۵)، المقالات السنیۃ للحبشی : ۴۸
💥مولانا مسعود عالم ندوی فرماتے ہیں: ہر چند کہ لفظ وہابیت کا اطلاق دنیا کی کسی سنی تحریک پر صحیح نہیں۔ نجد کی دعوت کے علمبردار شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی طرف اگر نسبت کرنا ہو تو محمدی کہنا چاہیے۔ علاوہ بریں ان کے ماننے والے اپنے آپ کو عام طور پر حنبلی کہتے ہیں۔ علماء حنابلہ کی کتابوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نے ان سے زیادہ ایک حرف بھی نہیں کہا ہے۔ البتہ عزم و عمل کی مردہ قوتوں کو بیدار ضرور کیا ہے۔ بے جان پیکروں میں زندگی کی حرارت ڈال دی اور ایک پورے خطے میں اسلامی رنگ کو شرابور کر دیا۔ اور آپ جانتے ہیں یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے شاطران فرنگ اور ان کے ہوا خواہ معاف نہیں کر سکتے۔
نجد کے بعد وہابیت کا یہ لیبل سید شہید کے ماننے والے ہندوستانی مجاہدین پر بھی لگایا گیا جو بار بار کی تردید کے باوجود آج بھی قائم ہے۔ اور یہ "گالی" اتنی مشہور ہو چکی ہے کہ بعض اچھے خاصے مخلص مسلمان بھی مجاہدین کو وہابی ہی کے نام سے جانتے ہیں۔ اور اس سوختہ سامان نے تو اب تنگ آ کر اس لقب"وہابی" سے گھبرانا بھی چھوڑ دیا ہے۔
(ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک تالیف: مسعود عالم ندوی۔ ص: 10)
🌹حرف آخر🌹
چنانچہ بارہویں صدی ہجری میں جب شیخ محمد بن عبد الوہاب اور امام محمد بن سعود نے جزیرہ عرب کے اندر کتاب وسنت پر مبنی ایک ہمہ گیر اصلاحی واسلامی انقلاب برپا کرکے خالص سلف کے منہج پر امارت قائم کی تو شرک وبدعات اور تقلید وتحزب کے پرکھچے اڑنے لگے ۔ پھر تو اس کے بعد جس طرح رفتہ رفتہ یہ انقلاب عام ہوتا رہا اور عوام کے دلوں میں جگہ بناتا رہا اسی قدر اسکے خلاف اتہامات اور الزمات کا طوفان بھی برپا کیا جانے لگا۔
ابن فیروز نامی رافضی ملعون کے ذریعے ترکی خلافت میں شکایت کرنے پر اس امارت شرعیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، پھر رہی سہی کسر مصر میں قائم ملحد محمد علی کی حکومت نے نکال دی۔ پھر تیسرے دور حکومت میں مکہ کے اندر بیٹھے احمد زینی دحلان جیسے شرک وبدعت کے بڑے بڑے ٹھیکیدار اور شرک وبدعت کی سرپرستی کرنے والی آل شریف کی حکومت نے اس شرعی امارت کے خلاف خوب پرچار کیا ، بر صغیر کے اہل بدعت وتقلید نے بھی اس پروپیگنڈے میں خوب حصہ لیا، مستشرقین اور مسیحی پادریوں نیز استعماری انگریز حکومتوں نے بھی ان کا پورا پورا ساتھ دیا لیکن ان سب کے باوجود بقول الہی:(ولتسمعن من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذی کثیراً) سب کچھ سننا پڑا اور (لا یضرهم من خذلهم) کے تحت کچھ نقصان نہ پہونچا سکے۔
نوٹ: اس ضمن میں مزید معلومات اور تفصیلی جواب کیلئے ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر کی مشہور کتاب (تصحیح خطا تاریخی حول الوہابیۃ) کا مطالعہ از حد مفید ہوگا۔ جسے اس لنک سے حاصل کیا جا سکتا ہے:
http://waqfeya.com/book.php?bid=4977
ساتھ ہی اردو میں مولانا مسعود عالم ندوی کی کتاب :( محمد بن عبد الوہاب ایک مظلوم اور بدنام مصلح) کافی معلومات کا خزانہ ہے۔ جسے آپ اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:
https://kitabosunnat.com/kutub-library/muhammad-bin-abdul-wahab-aik-mazloom-aur-badnam-muslih#download_book
مذکورہ اہم کتابوں کے علاوہ بھی شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت اور اسلامی دنیا پر آپ کے سلفی منہج کے اثرات (Effects) کے تعلق سے بہت ساری کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان میں سے ان پانچ کا مطالعہ خاصا فائدہ مند ہوگا:
۱۔ حقیقۃ دعوۃ الشیخ محمد بن عبد الوہاب وأثرہا فی العالم الإسلامی، تالیف: محمد بن عبد اللہ بن سلیمان السلمان۔
۲۔ عقیدۃ الشیخ محمد بن عبد الوہاب السلفیۃ وأثرہا فی العالم الإسلامی، تالیف: الدکتور صالح بن عبد اللہ بن عبد الرحمن العبود۔
۳۔ المجددون فی الإسلام من القرن الأول إلی القرن الرابع عشر الہجری، تالیف: عبد المتعال الصعیدی۔
۴۔ صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان، تالیف: محمد بشیر سہسوانی۔ یہ کتاب درا صل احمد زینی دحلان کی کتاب : (الدرر السنیۃ فی الرد علی الوہابیۃ) کے جواب میں لکھی گئی ہے۔
۵۔ أثر الدعوۃ الوہابیۃ فی الإصلاح الدینی والعمرانی فی جزیرۃ العرب وغیرہا، تالیف: الشیخ محمد حامد الفقی الازہری۔
اردو زبان میں بھی آپ کے منہج اور اسکے اثرات پر کافی لکھا گیا ہے البتہ ان درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کافی سود مند ہوگا:
۱۔ محمد بن عبد الوہاب : ایک مظلوم اور بدنام مصلح، تالیف: مسعود عالم ندوی۔
۲۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی سیرت، دعوت اور اثرات، تالیف: جمال الدین زرابوزو ۔ ترجمہ: اسد اللہ مدنی ۔ مراجعہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی۔
۳۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں دو متضاد نظرئیے،تالیف: شیخ محفوظ الرحمن فیضی۔
۴۔ امام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت اور علماء اہل حدیث کی مساعی، تالیف: ابو المکرم عبد الجلیل۔
۵۔ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت اہل انصاف کی نظر میں، تالیف: مولانا عبد الوہاب حجازی ، استاذ جامعہ سلفیہ بنارس۔ یہ در اصل ایک مقالہ ہے جو سہ ماہی مجلہ ترجمان السنہ /اپریل ۲۰۱۱ء میں شیخ رضاء اللہ عبد الکریم مدنی نے شائع کیا تھا۔
۶۔ الصواعق الإلہیۃ لطرد الشیاطین اللہابیۃ، تالیف: شیخ بشیر الدین قنوجی۔ اس کتاب کو آپ نے ایک قبور ی عالم فضل رسول بدایونی کی کتاب (البوارق المحمدیۃ) کے رد میں فارسی زبان میں لکھی تھی جسے ۱۲۹۰ھ میں شائع کیا تھا۔ اس کتاب کے اندر شیخ محمد بن عبد الوہاب ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورعلامہ محمد اسماعیل دہلوی پر اہل تقلید کے اعتراضات کا رد ہے۔
۷۔ سلفیت پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس مبارکپوری کی موقر کتاب: (سلفیت کا تعارف اور اسکے متعلق بعض شبہات کا ازالہ) سود مندی سے خالی نہیں ہوگا۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق