🌐بر صغیر کی تحریکی تنظیم کا انجام🌐
🎴نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم!🎴
💥آزادی سے پہلے مولانا مودودی انگریزوں کے خلاف کسی بھی سیاسی جماعت بنانے کے حق میں نہیں تھے حتی کہ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینا بھی حرام سمجھتے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد اسلام کے نام پر پاکستان میں جب مسلمانوں کی ایک ریاست وجود میں آگئی تو مولانا نے اپنا نطریہ بدل لیا چنانچہ یہاں آکر اب خود سیاسی پارٹی بنانے کی فکر کرنے لگے اور حرام کردہ ووٹ کو حلال کردیا۔ اور وہ بھی ایک عورت (فاطمہ جناح) کو ملک کی حکمرانی دینے کیلئے سر جوڑ کوشش کرنے لگے جبکہ صحیح بخاری میں صریح حدیث موجود ہے کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جو اپنے سیادت وقیادت عورت کے ہاتھ سونپ دے۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ آج تک اتنی منظم تنظیم کے ہاتھ سوائے رسوائی کے کچھ نہ آسکا۔
◀️چنانچہ اخوان المسلمون کی طرح اقامت دین کے نام پر برپا ہونے والی تنظیم جماعت اسلامی سیاست کے بھینٹ کیسے چڑھ گئی، منہج سلف سے بھٹکنے کے نتیجے میں کیسے نہ کہیں سیادت مل پائی اور رافضیت نوازی کے چکر میں فکر بھی باغیانہ کیسے ہوگئی، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کا کیسے آئینہ دار بن گئی اسے تفصیل سے جاننے کیلئے پڑھیں اس رپورٹ کو:
==================================
🌛جماعتِ اسلامی گریبان میں جھانکے ورنہ انجام قریب ہے۔🌜
◀️آئينی، فکری اور سیاسی جدوجہد کے ذريعے اسلامی انقلاب کا تصور پيش کرنے والے مفکر، محقق اور رہنما سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی 77 سال قبل بنياد رکھتے وقت يہ تصور بھی نہيں کيا ہو گا کہ ايک وقت ايسا بھی آئے گا کہ ان کے تصورِ انقلاب کی راہ ميں ان کی اپنی ہی جماعت رکاوٹ بن جائے گی اور اس طرز سياست کی نفی کرے گی جس کی بنیاد انھوں نے ڈالی تھی۔
قیام پاکستان سے قبل تین شعبان 1360 ہجری (بمطابق 26 اگست 1941) کو جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ آج اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی اور پرانی سیاسی تحریک کہلوانے والی جماعت کو یکے بعد دیگرے آخری دو عام انتخابات میں ایسی ناکامی نصیب ہوئی کہ اس کے لیے اپنے گریبان میں چھان کر اپنی حکمت علمی اور پالیسیوں کا تفصیلی جائزہ لینے سے اس سے زیادہ موضوع وقت کبھی نہیں آیا تھا۔
◀️جماعت اسلامی نے سنہ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے وہ پہلے ہی خاصی حد تک انتخابی عمل سے دور جا چکی تھی لیکن سنہ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں کامیابیوں کا سلسلہ کم ہوتا گیا۔ 25 جولائی کو قومی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں محض ایک ایک نشست ہی حاصل کر پائی۔ اپنے دیر اور بونیر جیسے مضبوط گڑھ سے بھی اس کا تقریباً صفایا ہو گیا۔
جماعت اسلامی نے شکست کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلے مرکزی مجلس عاملہ پھر مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس ہوئے جس میں انتخابی نتائج کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں 25 جولائی سنہ 2018 کے عام انتخابات کو غیر شفاف، غیر جانب دارانہ اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ الیکشن کمیشن کی بہت بڑی ناکامی ہے۔
◀️جماعت کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست و انتخابات میں مداخلت تو کسی نہ کسی انداز میں ماضی میں بھی کی گئی لیکن انتخابات 2018 کے مطلوبہ نتائج کے لیے گذشتہ کئی سال سے بقول ان کے ان کی واضح اور ہر کسی کو نظر آنے والی مداخلت ہوئی ’جو ملک و قوم کے لیے ہی نہیں‘ خود اداروں کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔
جماعت اسلامی کو تو اس میں بیرونی سازش کی بو بھی آئی ہے۔ امریکہ اور انڈیا کی طرف سے پاکستان میں دینی جماعتوں کی شکست پر آنے والے بیانات نے اس کے خیال میں یہ واضح کردیا ہے کہ دینی جماعتوں کے خلاف دھاندلی کے اس کھیل میں ملکی کے ساتھ ساتھ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی۔
جماعت کے ساتھ جو بھی ہوا اس کے مستقبل میں تدارک کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ نے کارکنان کی رائے اور تجاویز لینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک چار رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔
یہ کمیٹی دعوت و تربیت اور تنظیم کے حوالے سے کام کرے گی کہ کون سی کون سی تبدیلیاں اب لازم ہیں؟ دعوت اور تربیتی نظام کو کس طرح وسعت دی جائے؟ تنظیم اور دستور میں کس حد تک تبدیلی ممکن ہے؟ یہ جماعت آنے والے دنوں کے لیے جو بھی حکمت عملی ترتیب دے اس کے ماضی پر ایک نظر دوڑانے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اسے کمزور کرنے کی اندرونی اور بیرونی کوششیں اس وقت سے جاری ہیں۔
◀️مولانا مودودی کی فکر سے اختلاف کرتے ہوئے کئی بڑے نام جماعت اسلامی سے عليحدہ ہوئے جن ميں مولانا امين احسن اصلاحی، ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا عبدالجبار غازی وغيرہ شامل ہيں۔
مودودی کی زندگی ميں سنہ 1977 وہ کربناک سال گزرا جس ميں سب سے زيادہ ان کو دکھ اور مايوسی جماعت اسلامی کی قيادت نے فوجی آمر جنرل ضياالحق کا ساتھ دے کر پہنچائی۔
جماعت کے اندر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس دن سے جماعت اسلامی کی پسپائی اور رسوائی کا ایک نہ رکنے والا سفر شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔
جنرل ضيا الحق کے مارشل لا سے قبل جماعت اسلامی کا کارکن انتہائی فعال، مُنظم اور حالات حاضرہ پہ نظر رکھنے والا اور اپنی بستی ميں احترام پانے والا ہوا کرتا تھا۔
◀️ضيا الحق نے بظاہر دينی رُحجان رکھ کر جماعت اسلامی کے کارکن کو سياسی جدوجہد سے دور کرنے کی سازش کی جس ميں اسے بے حد کاميابی ہوئی۔ نوجوان کارکن ’جہاد افغانستان‘ کی بھينٹ چڑھا دیے گئے اور بقيہ ’جہاد کشمير‘ کے نام پر اپنی جانوں پہ کھيل گئے۔
سياسی عمل کو جس تازہ خون کی ضرورت تھی وہ فوج کے سُپرد ہو گيا اور سياسی جدوجہد کے لیے ميدانِ مارشل لا لگانے والوں نے اپنی کٹھ پتليوں کے لیے اسے خالی کروا ليا۔ ’جہادی کلچر‘ جماعت اسلامی ميں سر چڑھ کر بولا اور پروفيسر غفور احمد جيسی ہستی کو نظر انداز کر کے مکمل طور پر غيرسياسی مگر ’جہادِ افغانستان‘ کے اہم کردار قاضی حسين احمد کو جماعت کا امير بنوانے کی راہ ہموار کی گئی۔ انھوں نے ہر وہ کام کیا جو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے کہا اور جو سيد مودودی کی فکر کے خلاف تھا۔
◀️قاضی حسین احمد نے نظريہ اور سچائی کی سياست کے بجائے جوڑ توڑ اور فوج کی مبینہ مدد سے مسند اقتدار تک پہنچنے کے لیے وہ کُچھ بھی کر ڈالا جس کے لیے دوسری سياسی جماعتيں شُہرت رکھتی ہيں۔
جماعت اسلامی کو ايجنسيوں کے طفيلی بنانے ميں قاضی صاحب کا دور امارت اہم رہا۔ سيد منور حسن نے ان کے بعد امير منتخب ہوکر جماعت اسلامی کے نام، پرچم، انتخابی نشان اور سيد مودودی کی فکر واپس لانے کی سعی کی جس کا لازمی نتيجہ فوج سے مبینہ رومانس کا خاتمہ تھا۔ ان کے ايک بيان کو بنياد بنا کر ايک کامياب مُہم چلائی گئی۔
یہ سيد مودودی کی فکری جماعت کی بے بسی انتہا اور مرگ الموت کی ظاہری علامت تھی۔ سراج الحق کی کارکردگی مايوس کن اور بے سمت رہی۔
جماعت اسلامی کو سيد مودودی کی مکمل سياسی جدوجہد کی طرف لوٹنا پڑے گا اور فکری ڈاکہ ڈالنے والوں سے ہو شيار رہنا پڑے گا ورنہ خاکسار تحريک اور جماعت اسلامی کے انجام ميں فاصلہ چند بالشت کا رہ گيا ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45303841?ocid=wsurdu.chat-apps.in-app-msg.whatsapp.trial.link1_.auin
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق