💥کیا اب ایران کی باری ھے؟💥
(Islamhouse.com)
📝 کی وال سے
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ساڑھے چھ سالوں میں ایران نے سالانہ 6.35بلین ڈالر سے زائد رقم شامی خانہ جنگی میں خرچ کی۔ایرانی سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق 3.6بلین ڈالر2013میں،1بلین ڈالر2015میں ایرانی حکومت کی طرف سے مختلف اشیاء کی مد میں شامی حکومت کو دیے گئے۔جب کہ 4.6بلین ڈالرکااسلحہ اس کے علاوہ ہے ،جو شامی حکومت کو ایران کی طرف سے سپلائی کیا گیا۔
شامی خانہ جنگی میں ایران کے 70ہزار سے زائد باشندے شریک ہیں۔جن میں ایرانی پاسداران انقلاب اور ایرانی فوج کے 15ہزار سے زائد اہلکارشامل ہیں۔
جب کہ افغانستان ،پاکستان اور دیگر ملکوں سے لڑنے کے لیےآنے والوں کی تعداد اَن گنت ہے،جنہیں ایرانی فوج باقاعدہ تربیت دے کر شامی خانہ جنگی میں لڑواتی رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ان لڑنے والوں کو ایران کی جانب سے ماہانہ 300 ڈالر سے زائد معاوضہ،رہائش ،سفری ضروریات اور ہتھیاروں کی مد میں بے پناہ تعاون دیا جاتاہے۔جب کہ مرنے والوں کے لواحقین کو 5000ڈالر سے زائد کا معاوضہ ملتاہے۔
یہ وہ رقم ہے جو صرف فوجی اخراجات کی مد میں ایران نے شامی خانہ جنگی کے دوران صرف کی۔جب کہ اربوں ڈالر اس کے علاوہ ہیں جو ایران نے شام میں انفراسٹرکچر اور دیگر منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے بشار الاسد حکومت دیے ۔ شامی خانہ جنگی میں 3000سے زائد ایرانی پاسدران انقلاب اور دیگر ایرانی فوج کے لوگ مارے گئے،جن میں بڑے بڑے جرنل اور بریگیڈئر بھی شامل ہیں۔جب کہ دیگر ایرانی ملیشیات کے 9000 سے زیادہ لوگ مارے گئے ۔
شامی خانہ جنگی میں ایران کی خرچ کی گئی مالی وافرادی قوت کے مختصر جائزےکے بعد اگر عراق ،یمن جنگ اور دیگر ملکوں میں ایران کی حمایت یافتہ اور بنائی گئی تنظیموں جیسے حزب اللہ،حوثی ملیشیا وغیرہ کو دی جانے والی مالی امدا د کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ شامی خانہ جنگی سے کئی گنا زیادہ بنتاہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف حزب اللہ کو ایرانی حکومت کی طرف سے سالانہ 60 ملین سے 1بلین ڈالرتک براہ راست امداد ملتی ہے۔اس کا اقرار حزب اللہ کے ذمہ دار حسن نصراللہ نے بھی ایک ویڈیو کلپ میں کیا۔
جب کہ اقوام متحدہ اور بین الاقومی اداروں کے مطابق یمن میں حوثی ملیشیاکو 2015سے اب تک اسلحہ اور مالی تعاون سارا کاسار اایران سے مل رہاہے۔
عراق میں اگرچہ اعلانیہ ایران 2014کے بعد داخل ہوا۔مگر امریکا کی عراق پر مسلط کی جانے والی جنگ کے بعد عراق میں 100000سے زائد ایرانی باشندے اور دیگر ملکوں سے آئے ایران کے تربیت یافتہ لوگ گزشتہ کئی سالوں سے لڑ رہے ہیں،جن کے اخراجات کا بوجھ ایران اٹھا رہاہے۔عراق میں براہ راست ایرانی فوج کے علاوہ ایران کی حمایت یافتہ چند ایسی تنظیمیں ہیں جنہیں ماہانہ کئی کئی ملین ڈالر دیے جاتے ہیں۔
برطانیہ کے مشہور اخبار گارڈین کے مطابق "عصائب أہل الحق "نامی عراقی ملیشیا جسے 2006میں بنایا گیا اور اسے عراقی حکومت کی بھرپور سپوٹ حاصل ہے ۔
یہ ملیشیا2014ء سے پہلے تک ماہانہ2ملین ڈالر کے لگ بھگ ایران سے وصول کرتی رہی ہے۔عراق میں ایرانی فوج کے کیپٹن،کرنل،بریگیڈئر،بریگیڈئر جرنل تک مارے گئے ہیں۔جن میں قدس فورس کا55سالہ بریگیڈئیرجنرل حمید تقوی،سپاہ پاسدران انقلاب نامی ایرانی فوج کا دوسرا بریگیڈئر جنرل خیراللہ احمدی سمیت 43 کے قریب بڑے بڑے عہدیدار مارے گئے۔جب کہ مارے جانے والے عام ملیشیاء اور تنظیموں کے لوگ اِن کے علاوہ ہیں۔
ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایران میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا جائزہ لیا جائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ ایران میں غربت اور افلاس کی وجہ ہی سے مظاہروں کی نوبت آئی ۔کیوں کہ ایرانی حکومت نے اپنی عوام کی خدمت سے زیادہ بیرونی جھگڑوں میں ایران کی دولت کو لٹادیا۔
جب کہ دوسری طرف احتجاجی مظاہروں کے دوران بعض مظاہرین نے مرگ برخامنائی ،مرگ بر حسن روحانی کے نعرے بھی لگائے۔جب کہ کچھ لوگوں نے موجودہ ایرانی حکومتی نظام کے خلاف بھی احتجاجی نعرے لگائے ۔اب سوال یہ ہے کہ ا ن مظاہروں کا اصل ہدف کیا ہے؟کیا عرب بہار کی طرح ان مظاہروں کی آڑ میں کہیں تیونس،لیبیا،مصر،عراق،شام اور یمن کے بعد اب ایران کی باری تو نہیں؟۔
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=11191&date=2018-01-06
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1525479174232031&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق