💥ایران میں لگی آگ اور الجزیرہ ٹی وی چینل💥
✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
ایک عربی اخبار لکھتا ھے: (الربيع الفارسي بدء بالفعل:
أنباء عن انقلاب عسكري في إيران من قبل مجموعة من الحرس الثوري بقيادة أحمدي نجاد الذين ثاروا ضد حكم الملالي مع الشعب و رفضوا أوامر بقتل و اعتقال المتظاهرين والمحتجين . إيران تتحرر۔)
ترجمہ: فارسی بہاریہ یقینا شروع ھو چکا ھے۔
سابق ایرانی صدر احمدی نجاد کی قیادت میں پاسداران انقلاب کے ایک گروپ کے ذریعے ایران میں فوجی انقلاب کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہ لوگ رافضی متشدد ملاؤں کی حکومت کے خلاف مشتعل مظاہرین کا ساتھ دے رہے ہیں اور جبری ظالم حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کرنے یا ان پر گولی چلانے سے انہوں نے صاف انکار کر دیا ھے۔ ایران ان ظالموں سے آزاد ھو رہا ھے۔
ایک طرف ایران کی غریب، بھوکی اور مظلوم عوام ظالم ڈکٹیٹر حکومت سے نجات حاصل کرنا چاہتی ھے جن کا ایران کے معتدل سیاسی رہنما اور وہاں کی معتدل پولیس اور فوج پورا پورا ساتھ دے رہی ھے جن کا واحد مقصد مٹھی بھر ظالم بے رحم بھیڑیا صفت قاتلین امت سے چھٹکارا حاصل کرنا ھے۔ وہیں دوسری طرف تحریکیوں کے سیاسی رہنما اردگان ان ظالموں کے ساتھ میٹنگ کر کے انہیں ہر طرح کی مدد دینے کی یقین دہانی دے رہے ہیں اور ساتھ ہی مظلوم مظاہرین کو برے انجام کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اور ان تحریکیوں کا قلعة الموت قطر نقصان کی بھرپائی کے نام پر ان قاتلین قوم کی اربوں ریال سے مدد کر رہا ھے۔ اور الجزیرہ ٹی وی چینل کبھی اس مظاہرے اور ان پر حکومتی جبر کو معمولی حادثہ بتاتا ھے اور کبھی حکومت کے حق میں مظاہرہ کرتے لوگوں کی تصویر دکھاتا ھے۔ جس سے تحریکیوں کی اسلام دشمنی اور روافض پرستی کھل کر سامنے آ جاتی ھے۔ یہ الجزیرہ ٹی وی چینل آخر مسلمانوں کے حق میں کیوں سچی خبریں دے گا جبکہ اس کے چلانے والے کافر ملحد بددین اور اسلام دشمن ہیں۔ ذیل میں ایک مختصر جائزہ پیش ھے:
1- عزمی انطون بشارہ:
یہی الجزیرہ ٹی وی چینل کے چلانے کا اصل ذمیدار ھے۔ اصلا یہ اسرائیلی ھے جس کے پاس قطر کی بھی نیشنلٹی ھے۔ یہ اپنے کو عرب عیسائی ظاہر کرتا ھے جب کہ حقیقت میں یہ اسرائیلی یہودی ھے اس کے پاس اسرائیلی کینیسٹ کی ممبر شپ ھے۔ اسرائیل میں کمنسٹ پارٹی(راکاح) کا مؤسس ھے۔ اس نے مشہور کر رکھا ھے کہ اسرائیل نے اسے نکال دیا ھے حالانکہ حقیقت میں اسرائیل نے اسے اپنا جاسوس ایجنٹ بنا کر عرب میں بھیجا ھوا ھے جو اپنی چاپلوسی اور عیاری سے اور 2012 میں قطر کے تختہ پلٹ میں مدد کرنے کی وجہ سے یہ شخص حالیہ قطری منافق حکومت میں کافی حد تک دخیل ھے بلکہ وہاں کے حاکم کا مشیر اعلی کی حیثیت سے ره كر اندر دور تک کافی اثر ورسوخ رکھتا ھے۔ اور قطر میں موجود اسرائیل کے سیاسی اور تجارتی کونسل خانے سے برابر رابطے میں رہتا ھے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ جس چینل کا مالک اصلی اسرائیل کا ایجنٹ یہودی ھو وہاں سے مسلمانوں کے بارے میں کیسی خبریں نشر کریں گے۔
2- جميل عازر:
یہ اردن کا رہنے والا ایک عیسائی جرنلسٹ ھے۔ بلکہ ویکیپیڈیا کے مطابق پروٹسٹنٹ عقیدے کا ماننے والا ھے جو یہودیوں کے انتہائی قریب مانے جاتے ہیں۔ کافی دنوں تک بی بی سی عربک میں کام کرنے کا تجربہ رکھتا ھے۔ جولائی 1995 سے یعنی جب سے الجزیرہ کی بنیاد پڑی ھے تب سے ایک ماہر تجربے کار کی حیثیت سے عالمی خبریں گڑھ کر عالم اسلامی کو گمراہ کرنے میں اچھی طرح اپنی خدمت انجام دے رہا ھے۔ ساتھ ہی ایک خصوصی پروگرام(لقاء الیوم) اور ایک ہفتہ واری پروگرام(الملف الاسبوعی) بھی پیش کرتا ھے۔
3- مروان بشارة:
ناصرہ کا رہنے والا اسرائیلی عزمی بشارہ کا بھائی ھے۔ ماہر سیاسی تجزیہ کار ھے۔ پیرس میں امریکن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل افیئر کے اندر پروفیسر رہ چکا ھے۔ اس وقت الجزیرہ ٹی وی چینل کے انگریزی ونگ میں عالمی خبریں بنانے والا اور (Impire) پروگرام پیش کرنے والا ایک ماہر تجربہ کار ھے۔ اب ایسے ماہر تجربہ کار اسلام دشمن آخر مسلمانوں کے بارے میں کیسی خبریں نشر کریں گے آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
4- فيصل القاسم:
یہ مشہور فنکار مجد القاسم کا بھائی ھے۔ برطانوی نیشنلٹی کا حامل سیریا کا رہنے والا ایک کٹر اسلام دشمن دروزی عقیدے کا پیروکار ھے۔ دروز ایک باطنی ملحد فرقہ ھے جو مسلمانوں کا کٹر دشمن ھے۔ امام ابن تیمیہ نے اسی فرقے کو یہودیوں سے زیادہ خطرناک بتایا ھے۔ ظالم بشار الاسد کا قاتل خاندان اسی فرقے سے تعلق رکھتا ھے۔ دمشق یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے اندر تخصص کر کے بی بی سی لندن میں کام کر کے اچھا تجربہ حاصل کیا ھے۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کے کھلنے کے بعد جزیرة العرب میں فتنہ وفساد پھیلانے کے لئے اسے قطر بھیج دیا گیا جہاں الجزیرہ میں (The Opposite Direction :الاتجاه المعاكس) متنازع فیہ ڈی بیٹ یعنی کھلی آزاد گفتگو والا پروگرام پیش کرتا ھے۔ نیز جناب نے آزاد کھلی گفتگو پر The Missing Dialogue in Arab Culture کتاب لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ھے کہ عربوں کی تہذیب وثقافت میں اس طرح کی گفتگو ناپید ھے۔ آزادی رائے کے نام پر آزادی عقیدہ کی راہ کھولنے کی طرف کھلی دعوت دیتا نظر آتا ھے۔
5- سامي حداد:
انگریزی، فرانسیسی، اٹلی اور عربی تمام زبانوں کا ماہر ایک فلسطيني عیسائی ھے۔ میوزک میں ماہر، ڈرامہ نگار شاعر ھے۔ ناچنے گانے کی جگہ نہ ملنے پر بی بی سی لندن میں خبریں پیش کرنے لگا۔ کافی تجربہ حاصل کر لینے کے بعد الجزیرہ کھلنے پر لندن ہی کے اسٹوڈیو میں نوکری کر لی اور 1996 سے 2009 تک مشہور پروگرام (أكثر من رأي) پیش کرتا رہا لیکن حد سے تجاوز کرنے پر اس پروگرام سے چھٹی کر دی گئی البتہ مفید مشوروں کے عوض نوکری باقی ھے۔ ایسے ناچنے گانے والے فنکار کافر لوگ عالم اسلامی کی کیسی تصویر پیش کریں گے آپ خود اس کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں۔
6- إيمان عيد:
فلسطین کی رہنے والی ایک عیسائی جرنلسٹ ھے۔ 1999 سے الجزیرہ میں اہم خبروں کو پیش کرنے کیلئے کام کر رہی ھے۔ ساتھ ہی کئی ایک ٹی وی پروگرام بھی پیش کرتی ھے۔ جن میں (منبر الجزیرہ)، (لقاء خاص)، (بین السطور) اور (لقاء الیوم) مشہور ہیں۔ اس کے شوہر اور بچے امریکہ میں رہتے ہیں۔ 2011 میں کینسر کی بیماری میں مبتلا ھو گئی تھی۔ اڈھائی سال چینل سے غائب رہ کر امریکہ میں علاج کرایا۔ اسی دوران 2013 میں اس کے اسلام لانے کی خبر مشہور کر دی گئی جس کا اس نے ٹی وی چینل کے ذریعے سختی سے انکار کر دیا۔
7- غادة عويس:
لبنان کی رہنے والی ایک عیسائی جرنلسٹ ھے۔ لبنان یونیورسٹی سے ماس میڈیا میں تخصص کرنے کے بعد ANB ٹی وی چینل میں میڈیا پرسن کے طور پر 2004 سے 2006 تک کام کیا۔ شہرت اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد الجزیرہ ٹی وی چینل میں آ گئی جہاں News Presenter کے طور پر کام کر رہی ھے۔ عرب بہاریہ کے موقع پر مظاہرین کو ابھارنے میں اس نے جم کر اپنے اسلام دشمنی کا ثبوت دیا تھا۔
8- جيفارا البديري:
فلسطین کی رہنے والی ایک عیسائی جرنلسٹ ھے۔ اردن کی یرموک یونیورسٹی سے صحافت میں بی اے کرنے کے بعد اپنی خوبصورتی کی بنیاد پر الجزیرہ ٹی وی چینل میں میڈیا پرسن کے طور پر منتخب کر لی گئی۔ چنانچہ فلسطین کے اندر مقبوضہ جنوب بیت مقدس میں میڈیا پرسن کی حیثیت سے کافی معروف ھے۔ کہا جاتا ھے کہ نیوز پریزنٹنگ کے مقابلے ایکٹنگ کچھ زیادہ ہی کرتی ھے۔ اس طرح کے کافر ایکٹر لوگ فلسطینی مسلمانوں کے بارے میں کس سنجیدگی سے خبریں دیتے ھوں گے اللہ ہی بہتر جانتا ھے۔
9- إلياس كرام:
فلسطین کا رہنے والا ایک عیسائی جرنلسٹ ھے۔ اسرائیلی شہر حیفا یونیورسٹی سے صحافت میں تخصص کرنے کے بعد 2003 میں الجزیرہ ٹی وی چینل کے اندر میڈیا پرسن کے طور پر اسرائیل میں رہ کر کام کرتا ھے۔ اسرائیل میں رہنے والے عربوں کے حالات سے عالم اسلامی خصوصا عرب ممالک کو آگاہ کرتا ھے۔
سوال یہ ھے کہ قطر کو اتنے مشہور ٹی وی چینل میں کام کرنے کیلئے عربی اور انگریزی میں کیا مسلم جرنلسٹ نہیں ملتے ہیں؟ عالم اسلامی اور عرب ممالک کو دنیا بھر کی خبروں سے آگاہ کرنے کیلئے کیا قطر کو یہی کافر ملحد بددین یہودی اور مسیحی جرنلسٹ ملتے ہیں؟؟ کس مہارت اور قابلیت کی بنیاد پر قطر نے اسرائیلی یہودی ایجنٹ عزمی بشارہ کو چینل کا مالک بنا رکھا ھے؟؟
یہی الجزیرہ ٹی وی چینل ھے جس کی گزشتہ سال کے اخیر میں پورے سال کا خلاصہ پیش کرتے وقت ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر نے تعریف کے پل باندھ دیئے تھے اور پورے عالم اسلامی میں سچی خبریں پیش کرنے اور دنیا کی صحیح صورت حال سے آگاہی کرنے میں اسے ایک نمبر کا ہیرو قرار دیا تھا۔ اس خلاصے میں سعودی کے بارے میں تحریکی انداز میں جناب نے خوب لمبا چوڑا ہانکا ھے لیکن ایران میں ھو رہے مظاہروں کا کچھ بھی ذکر نہیں کیا جب کہ مظاہرے مسلسل پانچ دنوں سے ھو رہے تھے۔ ملت ٹائمز کے فیس بوک پیج پر میرے اعتراض کرنے پر انہوں نے جواب لکھا کہ مطلع ابھی تک صاف نہیں ھے۔ اب دس دن گزرنے کے بعد جناب کے ملت ٹائمز میں مطلع صاف ھوا ھے یا نہیں یا کتنا صاف ھوا مجھے کچھ پتہ نہیں ھے۔
آخری بات:
لہذا جو لوگ اس چینل کو غلط خبریں نشر کرنے، داعش کی طرح شہرت دینے، پوری دنیا میں سب سے زیادہ مقبول عام بنانے کا ذمیدار میڈیا پر قابض یہودیوں کو ٹھہراتے ہیں وہ سو فیصد اپنی بات میں حق بجانب لگتے ہیں۔ ورنہ اگر مسلمانوں کے حق میں یہ چینل کام کرنے لگے تو اس کے گرنے اور ختم ھونے میں ایک دن بھی نہیں لگے گا۔ آج کی عیار ومکار صحافت ومیڈیا کے دور میں یہی حقیقت اور سچائی ھے تعصب اور دشمنی کی بنا پر چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔
mdabufaris6747@gmail.com
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1524058501040765&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق