🙋کیا ایرانی مظاہروں کے پیچھے
🇸🇦سعودی عرب کا ہاتھ ہے؟🙋
✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظورمدنی
38 سالوں سے ظلم وستم ڈھانے والی ، بھولی عوام کے دین وعقیدے سے کھیلنے والی، زکاة کا منکر اور خمس کے نام پر جاہل شیعوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والی اور جمہوریت کاجھوٹا ڈھونگ کرنے رچانے والی ایرانی ڈکٹیٹر حکومت خلاف مسلسل آٹھ دنوں سے ہوش میں آنے والی ایرانی عوام سڑکوں پر آگئی ہے۔ عصر حاضر کے اس آزادانہ ماحول میں رہنے والی ایرانی پبلک اب تہیہ کر چکی ہے کہ وہ زمانہ اب چلا گیا جب امریکہ اور اسرائیل کا خوف دلا کر اسے بے وقوف بنایا جاتا تھا۔دھرم کے نام پر من گھڑت ولایت الفقیہ جیسے بھونڈے قانون نافذ کرکے اوراسلامی زکاة کے اصول وقانون کا انکار کرکے ایرانیوں سے خمس کہہ کر خوب خوب پیسہ وصولا گیااور اسے سنی مسلمانوں کو اہل بیت کا دشمن بناکر اور انہیں کافر کہہ کر قتل کرنے کیلئے خوب استعمال کیاگیا۔ آج ایرانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ کچھ مہنگائی کے نام پر، کچھ جبری خمس کے نام پر، کچھ سرکاری ٹیکس کے نام پراور کچھ رضاکارانہ تعاون کے نام پرانہیں لوٹ کر کنگال کردیا گیا۔ آج وہاں مہنگائی آسمان پر پہونچی ہوئی ہے۔ ایرانی کرنسی دنیا کی سب سے گھٹیا اور گری ہوئی کرنسی مانی جاتی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نيٹ (یکم جنوری 2018)کے مطابق کچھ عرصہ قبل ایرانی وزیر داخلہ عبد الرضا فضلی نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ اگرچہ ملک میں بے روزگاری کی اوسط شرح 12 % فیصد ہے تاہم ملک کے شہروں میں یہ تناسب 60 %تک پہونچ چکا ہے۔ حکومت کی (خمینی ریسکیو کمیٹی )کے مطابق غربت نے ملک کی تقریباً نصف آبادی یعنی چار کروڑ افراد کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ان میں پندرہ لاکہ افراد منشیات کے عادی ہیں جب کہ چھ لاکھ کے قریب فوجداری جرائم کے سلسلے میں جیلوں میں قید ہیں۔
ان حالات میں ایرانی عوام اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ ان کا ملک جو یومیہ تقریباً چالیس لاکھ بیرل تیل پیدا کررہا ہے اور گیس اور دیگر زرعی ومعدنی وسائل بھی رکھتا ہے اپنی تمام تر دولت ولایت فقیہ نظام کی خواہشات اور دنیا بھر میں اپنا کنترول بڑھانے کی جنونیت کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ ساتھ ہی حکومت کے دو اقدامات نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔ ان میں سے پہلا تو آئندہ برس کے بجٹ میں ایندھن کی قیمتوں میں پچاس فیصد کا اضافہ اور دوسرا یہ اعلان کہ ملک میں غریبوں کو پیش کی جانے والی امداد جس سے اس وقت تقریباً 3.4 کروڑ افراد مستفید ہورہے ہیں ، اس کو ختم کردیا جائے گا۔
(.htmlروزگار کھوکھلا-کر-ڈالا-،-شہروں-کی-آدھی-آبادی-ہے-کروڑ-ایرانیوں-کو-4غربت-نے-https://urdu.alarabiya.net/middle-east/2018/01/01/)
علاوہ ازیں ریاستی اداروں میں حدوں کو چھوتی بدعنوانی کے الزامات نے بھی تہران کو مشکل ترین پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔ غلیظ ولایت فقیہ کو عرب ملکوں پر مسلط کرنے کی پالیسی ایران کے گلے پڑتی نظر آرہی ہے ۔ حزب اللاتی اور زینبیوں جیسے دہشت گرد گروہوں سے ہمسایہ ملکوں میں حملے اور ان گروہوں کے خرچے ایرانی عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر ان بے لگام قاتلوں کو دیا گیا جس کو اب ایرانی عوام مزید برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
ایسی ابتر اور ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی ایرانی سپریم لیڈر خامنئی کی طرف سے اشیاءخوردنی خصوصا انڈے کے داموں میں چالیس گنا اضافے کا اعلان سن کر ایرانی عوام سکتے میں آگئی اور جبری نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ پورے ملک میں پھیل گیا۔ نوجوان، بوڑھے ، بچے اور عورتوں سمیت دیش کا ہر طبقہ جبری حکومت اور سرکاری ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اساتذہ اور طلبہ بھی میدان میں سب سے آگے ہیں۔ بلکہ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ تقریبا چار عشروں سے ظلم ڈھانے والی ایرانی فضائیہ فوج بھی اب مزید ظلم ڈھانے سے انکار کر رہی ہے اور جھوٹی ولایت الفقیہ نظام کے خلاف عوام کا ساتھ دینے لگی ہے۔
ایسے ماحول میں ایرانی ظالم سربراہوں خصوصا ڈکٹیٹر خامنئی کا یہ بیان کس قدر بھونڈا، منحوس اور من کو جھوٹی تسلی دلانے والا لگ رہا ہے کہ ان سارے ملک مخالف مظاہروں کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے۔ کیا ایرانی ظالم اور جبری حکومت چاہتی ہے کہ مظلوموں کی آواز میں کوئی آواز بھی نہ ملائے؟ اور اگر کوئی ظالموںاور قاتلوں کا ساتھ نہ دے تو وہ اسکا دشمن سمجھا جائیگا؟ لگتا یہی ہے کہ ایسی ہلکی باتیں کہہ کر اب مزید ایرانی عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ۔ اب تک عربوں اور خصوصا سعودی عرب کو یہ صفوی مجوسی جبری حکومت اپنا روایتی حریف مان کرایرانی عوام کے جذبات سے کھیلتی رہی ہے۔ لیکن اب ایرانی عوام کو پتہ چل چکا ہے کہ ہمارا دشمن نہ امریکہ ہے ، نہ اسرائیل ہے اور نہ عرب دیش ہیں بلکہ ہمارا دشمن نمبر ایک ہم پر یہی مسلط انقلابی فوج ہے جس کی ڈکشنری میں انسانیت اور رحمت نام کا کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ 1979 سے لیکر اب تک نہ تو امریکہ نے ایران کو بم سے اڑایا ، نہ ہی اسرائیل نے کبھی ایران پر کوئی بم پھینکااور نہ ہی سعودی نے کبھی بندوق کی ایک گولی پھینکی ، باقی پڑوس میں عراق ، سیریا ، ترکی ، افغانستان اور پاکستان وغیرہ تو اپنے دوست ممالک ہیں پھر آخر یہ جبری ظالم حکومت ایرانی عوام کس خارجی دشمن سے خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہے؟!!!
آٹھ کروڑ کی آبادی والے ملک میں دو کروڑ لوگ بھوک سے بلک رہے ہیں۔ اسی لاکھ معصوموں کو جیلوں میں معمولی معمولی باتوں پر ٹھونس دیا گیا ہے۔ کبھی فساد کے نام پر ، کبھی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کے نام پر، کبھی انقلاب کے خلاف بولنے کے نام پر کبھی اپنا حق غلط طریقے سے مانگنے کے نام پر اور نہ جانے کس کس معمولی سی معمولی غلطیوں پر ایرانی عوام کو ستایا جاتا ہے ، انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے بلکہ پھانسی دے دی جاتی ہے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ حالیہ مظاہروں کے دوران جتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے سب کو پھانسی دیدی جائیگی۔
ایرانی راجدھانی تہران میں میدانِ انقلاب واقعی انقلابی میدان بن چکا ہے جہاں کی پولیس یا تو بھیڑ کا ساتھ دے رہی ہے یا بے بس نظر آرہی ہے۔ ہر طرف بدامنی ، ہڑبونگ ، انارکی اور فساد کا ماحول ہے۔ بڑے بڑے سرکا ری طیارے نامعلوم مقامات کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سارے ظالم سربراہان ایرانی سر زمین پر ذلت کی موت مرنے کے خوف سے ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق تہران کے مہرآباد ائیر پورٹ سے خامنئی کے خاندان غیر معروف جہت کی طرف بھاگ چکے ہیں۔ علی خامنئی کا ظالم بیٹا مجتبی خامنئی لبنان بھاگ چکا ہے۔ ایرانی ظالم صدر حسن روحانی کے بھی ملک سے فرار ہونے کی اطلاع ہے۔اس طرح تہران پاسدان انقلاب کے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے۔
مظاہرین انقلابی حکومت کے ذریعے بنائے گئے ان مخصوص علمی اور رافضی دانشگاہوں کو آگ لگارہے ہیں جنہیں علمی حوزات اور دعوتی حسنیات کے حسین ناموںسے جانا جاتا ہے جہاں تبرا بازی ، اہل سنت کو گالی دینے اور انہیں کافر سمجھنے کے ساتھ اہل بیت کے حق میں نوحہ اور ماتم کرنا سکھایا جاتا ہے، جہاں صرف اورصرف تشدد پسندی اور سنی مسلمانوں کے خلاف تعلیم دے کر نوجوانوں کو تیار کیا جاتا ہے، اہل بیت کے جھوٹے دعوے کے نام پر نوجوانوں کو صحابہ کرام اور اسلاف عظام کے خلاف ابھارا جاتا ہے ۔ تہران ، قم، مشہد وغیرہ میں بنے ایسے درجنوں تخریب گاہوں کو عوام جلا رہی ہے جہاں انقلابی حکومت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جبراً اٹھا کر لے جاتی ہے اور دینی سربراہی اور رفض وتشیع کی حفاظت کے نام پر ان کا برین واشنگ کر کے ان کے ساتھ جو چاہتی ہے کر تی ہے۔
ایران وہ واحد ملک ہے جہاں کے سیاسی لوگ سب سے زیادہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرر ہے ہیں۔دنیا میں ایرانی سب سے زیادہ سیاسی پناہ تلا ش کر یورپ اور امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ ایران وہ واحد ملک ہے جہاں کے لوگ زندہ حالت میں قبروں کے اندر سوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس گھر بنانے کے پیسے نہیں ہوتے۔ ایران وہ دیش ہے جہاں گانجا ، بھانگ ،ہیروئین، افیون اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال کرنے والے دنیا میں سب سے زیادہ رہتے ہیں۔ ایران وہ دیش ہے جہاں متعہ کے نام پردنیا میں سب سے زیادہ زناکاری کی جاتی ہے اور اسے قانونی جواز دیا جاتا ہے۔اسی کا اثر ہے کہ اس چھوٹے ملک میں ایک لاکھ سے زائد مرد اور عورتیں بھیانک مرض ایڈز کا شکار ہیں۔ اور اس طرح ایڈز کی بیماری میںایران دنیا کا واحد ملک بن چکا ہے ۔مظاہروں کے دوران ایرانی عورتوں نے یہ کہہ کر انقلابی جھنڈے کو پھاڑا اور خمینی و خامنئی کی تصویروں کو جلایا ہے کہ خمس اور متعہ کے نام پر ہمیں کنگال کر کے ہمارے بچوں کو چوری اور ڈاکہ ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے، امیروں کے بچیوں کو زناکاری پر ابھارا جاتا ہے اور غریب کی بچیوں کو جسم فروشی کے دھندوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔
ادھر جبری حکومت کرنے والے صرف پانچ فیصد خمینی اشرافیہ انقلابیوں کا حال یہ ہے کہ مختلف حیلوں اور مکاریوں سے ایران کی دولت پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ اسی لئے عوام سیدھا خامنئی اور اس کے دم چھلوں کو چور، ڈاکو ، لٹیرا اور ظالم کہہ کر رہی ہے جو ان کی دولت کو لوٹ کر کچھ اپنی پرتعیش زندگی پر خرچ کرتے ہیں اور کچھ اسی طرح ظالم نظام کو دوسرے ملکوںمیں بھی پہونچانے کے نام پر حزب اللاتی جیسی دہشت گرد تنظیموں پر خرچ کرتے ہیں ۔
بورگن (Burgan International Corporation) کے نام سے ایک عالمی تنظیم ہے جو پوری دنیا میں غربت اور فقرو فاقہ کے حالات کا پتہ لگا کر اسکے وجوہات پر غور کرکے اسکا حل بتاتی ہے۔2015کے سروے کے مطابق ستر فیصد سے زائد ایرانی خط افلاس کے نیچے رہ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ کچھ مخصوص حکمران انقلابی طبقہ پوری دولت پر کنڈلی مار کر بیٹھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھٹیوں میں یہ طبقہ لندن اور پیرس جیسے پر تعیش شہروں میں داد عیش دے رہے ہوتے ہیں اور 95/فیصد ایرانی دو وقت کی روٹی تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ بورگن کے سروے کے مطابق خامنئی نے صرف باہر ملکوں کے بینکوں میں 95/ ارب امریکی ڈالر جمع کر رکھا ہے۔
1989میں(ستاد اجرائی فرمان حضرت امام ) کے نام سے ایک خمینی ادارہ قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو خمینی انقلاب کے خلاف تھے ، انقلاب کے بعد جو ملک چھوڑ کر بھاگ گئے، جن ہزاروں لوگوں کو انقلاب مخالف جرم میں پھانسی دیدی گئی اورجو انقلاب مخالف سیاستدان ایرانی جیلوں میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں ان سب مظلوموں کی جائداد منقولہ اور غیرمنقولہ سب اس خمینی ادارے کے قبضہ میں کیا گیا ۔ اور اسطرح چند سالوں میں یہ ادارہ دنیا کا سب سے مالدار اداہ بن گیا جس پر ایرانی سپریم لیڈر کا قبضہ ہے ۔ اس کے ذریعے بہت ساری تجارتی کمپنیاں ، اسپتال ،اسکول اور مالیاتی بینک پوری دنیا میں چلائے جاتے ہیں ۔ یہ واحد ادارہ ہے جس کا سالانہ مالیاتی ٹرن وور آج تک کسی کو پتہ نہیں ہے۔ ایرانی انقلابی ظالم حکومت مظلوموں کی دولت لوٹ کربنائی ہوئی اسی مالیاتی ادارے کے پیسوں پر عیش کرتی ہے، اپنے اپنے ناموں پر غیر ملکی بینکوں میں بے اتھاہ دولت جمع کرتی اور دوسرے اسلامی ملکوں میں فساد مچانے اور بغاوت کرنے کیلئے دہشت گرد تنظیموں پر خرچ کرتی ہے۔
آستان قدس رضوی کے نام سے ایران میں دوسرا سب سے بڑ ا خمینی مالی ادارہ ہے جسے مشہد شہر کے اندر شیعوں کے مزعوم امام رضا کے مزار کے نام پر بنایا گیا ہے۔ خامنئی نے جس کا حالیہ نگران اعلی اپنے خاص معتقد ابراہیم رئیسی کو بنا رکھا ہے۔ یہ ادارہ ٹیکس فری ہے۔ اس ادارے کے پاس کئی ایک کمپنیاں ہیں جن میں تیل اور گیس کی کمپنی (رضوی برائے گیس وتیل) ، (رضوی برائے مائنس) ، (ماہاب قدس) ، (مجموعہ مابنا) ، اور (شہاب خودرو) مشہور ہیں۔ مشہد ایران میں دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جہاں کی تقریبا نصف اراضی اسی ادارے کے قبضے میں ہے ایک اندازے کے مطابق قومی آمدنی کے حساب سے بیس فیصد دولت اس ادارے کے پاس ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس پر حکومتی پیمانے پر کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ اسے مکمل اختیار ہے کہ وہ دولت خامنئی کے مشورے پر جیسا چاہے اور جہاں چاہے خرچ کرے۔ اس طرح علی خامنئی اپنے گرگوں اور حاشیہ برداروں کے ساتھ مذکورہ دونوں مالی اداروں کے ذریعے ایران کی تقریبا ساری دولت پر کنڈلی مار کے بیٹھا ہے ۔
پاسداران انقلاب کے جنرلوں ، کرنلوں اور سربراہوں کی بات کی جائے تو خامنئی اور اسکے حاشیہ برداروں کے بعد یہ دوسرے نمبر پر وہاں ایران کی دولت لوٹ رہے ہیں۔ چنانچہ ایک سروے کے مطابق تقریبا 100/ کمپنیاں جن میں چالیس ہزار افراد کام کرتے ہیں اور جن کی سالانہ آمدنی 12/ ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے بغیر کسی ملکی قانون کے دونوں ہاتھوں سے یہ سربراہان دولت اکٹھا کر کے غیر ملکی بینکوں میں جمع کر رہے ہیں۔ تیل ، گیس ، بجلی اور دیگر توانائی کی کمپنیوں پر انہیں سربراہوں کا قبضہ ہے۔ پاسدان انقلاب کے پاس (خاتم الانبیائ) کے نام سے ایک بہت بڑا ادارہ ہے جس کے تحت 800 سو کمپنیا ں چل رہی ہیں جو تمام سرکاری ٹینڈر اور پلان بلا کسی روک ٹوک اور نیلامی کے حاصل کرتی ہیں اور بلا کسی نقصان کے زبردست نفع کماتی ہیں۔ (مصدر سابق) (www.alittihad.ae/mobile/details.php?id=548&y=2018)
گزشتہ ماہ دسمبر 2017 میں امریکی پارلیامنٹ میں یہ قرار داد پاس کیا گیا ہے کہ وزارت خزانہ ان ستر ایرانی رہنماو¿ں کی ایک لسٹ جاری کرے جن کی دولت دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے میں خرچ ہوتی ہے ۔ اس لسٹ میں علی خامنئی کا پہلا نام ہے۔ چنانچہ یہ قرارداد (HR1638) کے نام سے پاس ہوگیا ہے۔ اس قرارداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ایرانی سیاسی اور عسکری سربراہان دونوں ہاتھوں سے ایرانی عوام کی دولت لوٹ لوٹ کر برباد کر رہے ہیں اور ایرانی عوام کو بھوکوں مار رہے ہیں۔
آج تحریکیوں کے روحانی رہنما یوسف قرضاوی نہ جانے کہاں بھول بھلیا میں گم ہیں جو اس فارسی بہاریہ اور رافضی ظلم وجبر کے خلاف کنڈلی مار کر بیٹھے ہوئے ہیں ، نہ عوام کو ابھار رہے ہیں نہ جابر انقلابی حکومت کے خلاف کچھ بول رہے ہیں اور نہ ہی ستم گر خامنئی اور خونخوار قاسم سلیمانی کے بارے میں قتل کا فتوی دے رہے ہیں۔ جبکہ یہی قرضاوی تھے جو عرب بہاریہ (عرب تباہی) کے وقت انقلابیوں کو عرب حکمرانوں کے خلاف ابھار رہے تھے ، حکمرانوں کو اس وقت ظلم کا پتلا بتا رہے تھے اور خصوصی طور پر معمر قذافی کے خلاف قتل کا فتوی اور عبد الفتاح السیسی کے خلاف مصری عوام کو انقلاب برپا کرنے کا فتوی جاری کر رہے تھے۔ کیا آج کے اس ایران کی صورت حال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریکی اپنے رہنماو¿ں کے ساتھ ساتھ رافضیوں کے غلام بنے ہوئے ہیں؟ کیا اب بھی رافضیوں کی طرح تحریکیوں کے اندر بھی سنی مسلمانوں خصوصا توحید پرستوں کی دشمنی میں کچھ شبہ رہ جاتا ہے؟ کیونکہ اس فارسی بہاریہ کے موقعہ بر کسی تحریکی کا نہ تو کوئی تجزیہ آرہا ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی فیچر اور کالم لکھا جارہا ہے۔ بلکہ یہ سوال رکھنے پر ایک تحریکی نے کہا کہ ابھی صورت حال کا کچھ اندازہ نہیں ہورہا ہے۔ عالمی منظر پر ہمیشہ نگاہ رکھنے والے جناب کو ابھی تک صورت حال کا اندازہ نہیں ہے جبکہ سارے تحریکی قطر میں بیٹھ کر قطری اشرافیہ کو انگیز کر رہے ہیں اور وہ اربوں ڈالر نیز ہر طرح کے سازوسامان سے ساتھ ایرانی جبری رافضی حکومت کیلئے امداد بھیج رہے ہیں۔ اور ان کے تحریکی روحانی رہنما رافضی حکومت کی بقا کیلئے دعائیں کررہے ہیں جبکہ انکے مزعوم خلیفة المسلمین ایرانی مظاہرین پر غصے سے تلملا رہے ہیں اور دوسروں کو انہیں انگیز کرنے پر دھمکی دے رہے ہیں۔
ایرانی مظاہرین کو مرعوب اور دیگر سنی مسلمانوں کو مایوس کرنے کی خاطر ایک تحریکی یہ پروپیگنڈہ کر رہا ھے کہ ایران کی موجودہ حکومت چلی جائے گی تو اس کے بعد اس سے بھی خراب حکومت آئے گی، تعجب ھے یہ عقل اس وقت کہاں چلی گئی تھی جب عرب بہاریہ کے نام پر عرب ممالک میں عوامی مظاہرے ھو رهے تھے.
وہیں پر ایک ہندوستانی رافضی حالیہ ایرانی مظاہرے کو ایک معمولی ایکسیڈینٹ بتا رہا ھے۔ حالانکہ بہت تیزی کے ساتھ متعصب ذہینت رکھنے والے اور ایران کے لئے دل میں نرمی رکھنے والوں کا پول کھلتا جا رہا ہے. کچھ دنوں پہلے کی بات ھے کہ یہی لوگ جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلاتے ہوئے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے ٹرمپ کی بیوی سے ہاتھ ملانے پر فتویٰ جاری کئے ہوئے تھے اور اپنی رافضی تحریروں سے خوب خوب میڈیا کو سجائے ھوئے تھے ، مگر حالیہ دنوں میں ایرانی ظالم حکومت کی طرف سے درجنوں لوگوں کی موت اور سیکڑوں کی گرفتاریوں پر مکمل خاموش ہیں.
اللہ فاسقوں (روافض)اور منافقوں (تحریکیوں) سے جمہور مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔
حالات جس طرح کروٹ بدل رہے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ مٹھی بھر اہل بیت کی محبت کا جھوٹا دعوی کرنے والے اور رفض وتشیع کے پھیلانے کا عالمی ٹھیکہ لینے والے اب اپنے ڈکٹیٹر ظالم نظام کو بچا سکیں گے۔ کیونکہ یہ اسلامی جمہوریت کا نام رکھ کر جبری حکومت چلانے والے اسلام کے نام پر کلنک ہیں بلکہ خالص فارسی عصبیت سے بھرے ہوئے مجوسی بددین کی اولاد ہیں جن کے دلوں میں یہودیوں کی طرح دوسرے انسانوں کے تعلق سے ذرا بھی رحم نہیں ہے چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی۔ اور جس طرح سے یہ مٹھی بھر رافضی مجوسی چاروں طرف سے معتدل شیعہ اور سنی مسلمانوں سے گھرے ہوئے ہیں لگتا یہی ہے کہ ان کا خاتمہ کر کے ہی چھوڑیں گے۔ چنانچہ اگرمغرب میں عرب سنیوں کازرخیز علاقہ احواز ہے جہاں زمانے سے آزادی کی آواز بلند کی جارہی ہے۔ تو دوسری طرف مشرق میں آذربیجانی معتدل شیعہ اور سنی علاقہ ہے جہاں کے لوگ سنی ملک آذر بیجان میں الحاق مدتوں سے چاہ رہے ہیں اور مجوسی ظالموں سے بیزار ہیں۔ اور جنوب مغرب میں بلوچستان کا بڑا علاقہ سنیوں کا ہے جو پاکستان میں الحاق چاہ رہے ہیں جہاں ایرانی حکومت وہاں کے عوام کو ظلم وقہر سے دبائے ہوئے ہے۔ شمال مغرب میں کردستان کا مشہور سنی علاقہ ہے جہاں بہت سالوں سے آزاد کردستان کیلئے کرد عوام لڑ رہے ہیں اور اس وقت آزادی کیلئے کافی سرگرم دکھا ئی دے رہے ہیں۔ شمال مشرق میں ترکمانی اہل سنت ہیں جو اسماعیل صفوی رافضی ہی کے دور سے ایران میں مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیشہ سے ترکمانستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
اس طرح اب ایک عام ایرانی اس بات سے بخوبی آگاہ ہوچکا ہے کہ اس کے ملک کے ظالم حکمران اندرون ملک اور خطے کے لوگوں کی اکثریت کے ساتھ تنازع میں الجھے ہوئے ہیں اور ان کی مداخلت سے ناختم ہونے والی جنگوں کی راہ ہموار ہورہی ہے ۔ اس پرمستزاد یہ کہ ایران کا عالمی برادری کے برعکس ہمیشہ موقف بھی رہتا ہے جس سے ان کے تمام تحفظات کو دور کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔ اگر ان ظالم مجوسیوں کو ملک بدر نہیں کیا گیا تو ایران جیسے زرخیز ملک کو دنیا کا ظالم ترین ، بدترین اور سنگین ترین مفلوک الحال ملک بنا کر رکھ دیں گے۔
ہم دعا گو ہیں کہ رب العزت ایرانی عوام میں وہ تڑپ پیدا کرے جو اس ظالم صفوی رافضی جبری حکومت کو اکھاڑ کر سنیوں کے دشمن نمبر ایک اسماعیل صفوی رافضی سے پہلے کی ایرانی حکومت واپس لے آئے جہاں پہلے کی طرح اہل سنت مسلمانوں کا غلبہ ہو اور جہاں رفض وتشیع کے ظالمانہ نظام کا کوئی تصور نہ ہو بلکہ شیعہ سنی ہم آہنگی کا ماحول اور اعتدال پسند رہنماؤں کی حکومت ہو۔ آمین
mdabufaris6747@gmail.com
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1521859554593993&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق