📚کیا حضرت یوسف علیہ السلام
✔نعوذ باللہ ظالم مسولینی کی طرح ایک ڈکٹیٹر تھے؟
😈جی تعجب نہ کریں! تحریکیوں کے پیر مودودی نے اپنی رافضی مجددانہ اور مفکرانہ شان سے رحم دل پاکیزہ نبی معصوم حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہی تحقیق کی ہے۔۔۔
🌐لیکن پہلے چودہ صدیوں کے مفسرین کی تفسیر کے خلاصے پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں:
عزیز مصر کے خواب کی تعبیر جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بتائی کہ سات سال تک مسلسل بھکمری کا زمانہ رہے گا لہذا ان سالوں کے لئے ابھی سے تیاری شروع کردو۔ یہ جواب سن کر اس نے آپ کو رہا کردیا اور آپ کی سچائی امانت داری اور دیگر اخلاق عالیہ کو دیکھ کر کہا جیسا کہ قرآن نے نقل کیا ہے:
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ۔
بادشاه نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کر لوں، پھر جب ان سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے عزت والے اور امانت دار ہیں۔
🌐چنانچہ عزیز مصر نے کہا: اس کی زمہ داری کون لے سکتا ہے آپ کے علاوہ؟ چنانچہ آپ نے کہا: ٹھیک ہے اس کی ذمہ داری مجھے دیدو۔ مجھے حساب کتاب کا بھی علم ہے اور لوگوں کی مختلف زبانوں کا بھی۔
غلوں کی فراہمی، انکی حفاظت کرنا اور بھکمری کے زمانے میں اسے تقسیم کرنے کی ذمیداری کیلئے آپنے (خزائن الأرض) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور آگے فرمایا: (إني حفيظ عليم) یعنی مجھے حساب کتاب یاد ہے اور لوگوں کی زبانوں کو بھی جانتا ہوں۔
📚تفسیر ابن کثیر کا خلاصہ:
{{جب بادشاہ کے سامنے یوسف علیہ السلام کی بےگناہی کھل گئی تو خوش ہو کر کہا کہ انہیں میرے پاس بلا لاؤ کہ میں انہیں اپنے خاص مشیروں میں کر لوں۔ چانچہ آپ تشریف لائے۔ جب وہ آپ سے ملا، آپ علیہ السلام کی صورت دیکھی۔ آپ علیہ السلام کی باتیں سنیں، آپ علیہ السلام کے اخلاق دیکھے تو دل سے گرویدہ ہو گیا اور بےساختہ اس کی زبان سے نکل گیا کہ آج سے آپ ہمارے ہاں معزز اور معتبر ہیں۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے ایک خدمت اپنے لیے پسند فرمائی اور اس کی اہلیت ظاہر کی۔ انسان کو یہ جائز بھی ہے کہ جب وہ انجان لوگوں میں ہو تو اپنی قابلیت بوقت ضرورت بیان کر دے۔ اس خواب کی بنا پر جس کی تعبیر آپ نے دی تھی۔ آپ نے یہی آرزو کی کہ زمین کی پیداوار غلہ وغیرہ جو جمع کیا جاتا ہے اس پر مجھے مقرر کیا جائے تاکہ میں محافظت کروں نیز اپنے علم کے مطابق عمل کر سکوں تاکہ رعایا کو قحط سالی کی مصیبت کے وقت قدرے عافیت مل سکے۔ بادشاہ کے دل پر تو آپ کی امانت داری، سچائی، سلیقہ مندی اور کامل علم کا سکہ بیٹھ چکا تھا اسی وقت اس نے اس درخواست کو منظور کر لیا۔}}
مزید (حفیظ) کی تفسیر امانت دار خازن اور (علیم) کی تفسیر ان تمام امور کی جانکاری سے کی ہے جن ذمیداری عزیز مصر نے آپ کو دی تھی۔۔۔۔
📚یہی تفسیر دور نبوی سے لیکر آج تک مفسرین کرتے ہیں چنانچہ بیسویں صدی کے عراقی مفسر علامہ الوسی نے نقل کیا ہے:
اجعلني على خزائن الأرض أي أرض مصر وفي معناه قول بعضهم أي أرضك التي تحت تصرفك وقيل : أراد بالأرض الجنس وبخزائنها الطعام الذي يخرج منها و ( على ) متعلقة على ما قيل بمستول مقدر والمعنى ولني على أمرها من الإيراد والصرف إني حفيظ لها ممن لا يستحقها علیم بوجوه التصرف فيها وقيل : بوقت الجوع وقيل : حفيظ للحساب عليم بالألسن وفيه دليل على جواز مدح الإنسان نفسه بالحق إذا جهل أمره : وجواز طلب الولاية إذا كان الطالب ممن يقدر على إقامة العدل وإجراء أحكام الشريعة وإن كان من يد الجائر أو الكافر وربما يجب عليه الطلب إذا توقف على ولايته إقامة واجب مثلا وكان متعينا لذلك۔
🌐یہ ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے وزارت کا قصہ جو آپ کو تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں ملے گا۔
http://www.alukah.net/sharia/0/123651/
👈لیکن مذعوم حکومت الہیہ کی بھوکے شخص نے ایک پاکیزہ دنیا بیزار زاہد وعابد جیسے نبی پر کیا الزام لگایا ہے اور کس سے تشبیہ دی ہے پڑھیں اور سر دھنیں:
((یہ محض وزیر مالیات کا مطالبہ نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۔)) تفہیمات حصہ دوم ص115
✔جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ مودودی اس سے کن لوگوں کو مراد لے رہے ہیں بات اچھی طرح سمجھ میں آ رہی ہوگی کہ اس سے مراد اپنے سے پہلے چودہ صدیوں کے مفسرین کو لے رہے ہیں جنہوں نے آج تک اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ تاکہ بھکمری کے زمانے میں عدل وانصاف کے ساتھ لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اور اس پر عزیز مصر خوش بھی ہوا۔
✔مودودی کا تمام تفاسیر سے ہٹ کر موجودہ دور میں اس طرح ایک معصوم نبی پر الزام لگانا وہ بھی ڈکٹیٹر شپ کا الزام بتا رہا ہے کہ حکومت الہیہ کا جھانسہ دیکر جناب مودودی نے دین اور مذہب کی آڑ میں ایک معصوم نبی کو بھی نہیں بخشا ۔۔۔۔
✔مسولینی ایک ظالم ڈکٹیٹر تھا وہ ملحدانہ نظریہ
Survival of the fittest
یعنی البقاء للاصلح کا قائل تھا کہ جو اس کارہائے زندگی میں کام کے لائق ہوں صرف وہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہذا یہ ظالم کمزوروں اور معذوروں کو مروا دیتا تھا۔۔۔۔۔
✔اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مودودی نے ایسے ظالم خطرناک شخص سے ایک معصوم رحم دل نبی کو تشبیہ دینے میں ذرا بھی خوف نہیں کھایا۔۔۔۔۔
📖باقی تبصرہ قارئین کے حوالے۔۔۔
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق