💥سعودی اتحادیوں کے ساتھ مالدیپ نے بھی
💥قطر سے تعلقات کیوں توڑے؟
✍بقلم اجمل منظور مدنی
- 5/مئی 2017 کو جب یہ خبر آئی کہ ان بارہ ملکوں میں جنہوں نے قطر سے اپنے تعلقات ختم کئے ہیں مالدیپ کا بھی نام ہے تو تحریکیوں اور رافضیوں نے اسکا خوب مذاق اڑایا اور سوشل میڈیا پر مالدیپ کے تعلق سے خوب خوب انہوں نے مزہ لیا ۔ کسی نے اس ملک کو بلاد واق واق کہہ کر اسکا مسخرہ اڑایا تو کسی نے اسے سات سمندر پار واقع ایک معمولی بے وقعت جزیرہ کہہ کر اسے پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔ کچھ نے اسے سیاسی بصیرت سے اندھا کہا تو بہت لوگوں نے اسے سعودی عرب کا دم چھلا کہا یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ان تحریکیوں اور رافضیوں نے اس ملک کے لئے استعمال کیا ۔
- حالانکہ یہ ان کی خود بے بصیرتی اور اندھ بھکتی ہے ورنہ اس ملک کی اہمیت ہر غیر معمولی اہمیت کے حامل تمام پڑوسی اور عالمی ممالک کو پتہ ہے کہ یہ ملک کس قدر عسکری ، سیاسی اور اقتصادی اہم پوائنٹ پر واقع ہے ۔ اس سے قربت بڑھانے میں جس قدر سعودی عرب آگے آگے ہے اس سے کہیں زیادہ بھارت ، چین، سری لنکا، پاکستان جیسے پڑوسی ممالک اس چھوٹے مگر غیر معمولی اہمیت والے ملک میں اپنے اپنے اثر ورسوخ بڑھانے کے چکر میں ہمیشہ پڑے رہتے ہیں ۔ حتی کہ بڑے بڑے سپر پاور والے امریکہ، برطانیہ ، چین اور روس جیسے ممالک اس پر ہر پہلو اپنی نظر جمائے رہتے ہیں اور یہاں واقع ہر معمولی تبدیلی اور واقعے سے باخبر رہتے ہیں۔
💥- مالدیپ نے قطر سے اپنے تمام تعلقات کیوں ختم کئے ؟ اسے ہم تین خانوں میں بانٹ سکتے ہیں: اول :مالدیپ کے خلاف قطر کی ریشہ دوانیوں، کچھ ذاتی مصلحتوں اور کچھ شرعی تقاضوں کی خاطر۔ دوم:سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملکوں سے ہمدردی اور ان کے ساتھ اتحاد کو باقی رکھنے کی خاطر۔سوم: تحریکیوں کے بتائے گئے کچھ اسباب کے مطابق۔
-پہلا نقطہ:
- 2015 میں ملک سلمان بن عبد العزیز کے سربراہ بننے کے بعد جہاں ایک طرف مالدیپ کے تعلقات سعودی عرب سے مضبوط ہوتے گئے وہیں دوسری طرف مختلف وجوہات کی بنیاد پر قطر سے اسکے تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ سب سے پہلے ان اسباب پر غور کرنا ضروری ہے جن کی وجہ سے قطر کے ساتھ مالدیپ کے تعلقات خراب ہوئے ہیں یہاں تک گزشتہ سال سعودی اتحادیوں کے ساتھ اس نے بھی مکمل طور سے اپنے تمام تعلقات ختم کرلئے۔
💥- سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 2016 میں قطری حکومت نے مالدیپی حکمرانوں کے خلاف مختلف پیمانے پر جاسوسی کروا کے الجزیرہ ٹی وی چینل کے ذریعے ایک دستاویزی فلم بنوایا اور مالدیپ کو بلیک میل کرنا شروع کیا لیکن مالدیپ حکومت نے تحریکیت، رافضیت اور یہودیت کی جال میں پھنسنے سے صاف انکار کردیا ۔ نتیجے میں الجزیرہ نے اس دستاویزی فلم کو (المالدیف: الجنة المسروقة: Maldives: the Stolen Paradise) کے نام سے نشر کردیاجس کے اندر ان مالدیپی حکمرانوں پر جو سعودی اتحادی ہیں اور مالدیپ کے اندر سلفیت کا چہرہ ہیں مختلف الزامات عائد کئے گئے۔
-رشوت لینے کا الزام
-سرکاری خزانے سے چوری کرنے کا الزام
- سرکاری پروجیکٹوں میں گھوٹالے اور بدعنوانی کا الزام
-منی لانڈرنگ کا الزام
-صدر مملکت پرمرکزی بینک کے ذریعے غیر ملکی بینکوں میں اقرباءودوستوں کے واسطے سے ڈیڑہ ارب امریکی ڈالر غیر قانونی طور سے منتقلی کا الزام۔
اس دستاویزی فلم کی تفصیل الجزیرہ کے اس ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں:
المالدیف-الجنة-المسروقة/www.aljazeera.net/programs/investigation/2016/9/4
-حکومت مالدیپ نے اس فلم پر پابندی لگادی اور ہتک عزت قانون کے تحت اس فلم کی تشہیر کرنے والے کو مجرم قرار دیا گیا۔ اور جو بھی اس فلم کو پھیلانے میں پکڑا جائے گا اسے چھ ماہ کی قید ہوگی۔ نیز اس فلم کے نشر کرنے کے بعد قطر اور مالدیپ کے درمیان تعلقات کافی تلخ ہوگئے۔ ایک دوسرے پر اتہامات والزامات کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ مالدیپ میں موجود الجزیرہ کی آفس میں مالدیپی پولیس نے دھاوا بول کر سارے کمپیوٹر اور الٹرانک اشیاء کو ضبط کرلیا اور آفس لاک کردی۔ نیز وہاں موجود سارے قطری رپورٹر کو ڈی پورٹ کردیا۔ سرکاری پیمانے پر قطر کے اس بدبختانہ عمل کو ملک میں دخل اندازی، ملک کو اندر سے توڑنا، تختہ پلٹ اور فساد پھیلانا قرار دیا گیا ۔ (شاید قطر کا اپنے حواریوں کے ساتھ مقصد یہ رہا ہو کہ مالدیپ جو کہ سعودی پکا اتحادی ہے کسی طرح بدنام ہوجائے اور کسی طرح وہاں کمنسٹوں اور ملحدوں کی حکومت آجائے جو قطر ، ایران، اسرائیل اور ان جیسے ملحد حکومتوں کا ساتھ دے)۔ اسكے لئے ديكھيں يہ ويب سائٹ:
(/قطر-مع-العلاقات-المالدیف-تقطع-لماذاhttp://madaad.net/)
تفصیل کیلئے ان دونوں ویب سائٹس کو بھی دیکھ سکتے ہیں:
سکان++السعودیة++قطر+المالدیف+جزر/http://www.tahrirnews.com/posts/779648
https://www.sasapost.com/aljazeera-investigations/amp/
- اس طرح کی دستاویزی فلمیں الجزیرہ ٹی وی چینل اس سے پہلے بھی کئی ایک ملکوں کے بارے میں بناکر دکھا چکا ہے اور بہت ساری ذلت ورسوائی کا تمغہ حاصل کرچکا ہے۔ اس طرح کا ڈائرکشن اسے سیدھا بی بی سی لندن اور یہودی لابی سے ملتا ہے۔ چنانچہ سب سے زیادہ اس طرح کی متنازع فیہ دستاویزی فلم اس نے مصر کے بارے میں بنائی ہے پھر اس کے علاوہ لیبیا، فلسطین، سعودی عرب اور امارات کے بارے میں بنا چکا ہے۔
💥- لیکن ان سب گندی سازشوں اور بدبختانہ اور گھناؤنا عمل کے بعد بھی قطر مالدیپ میں کا میاب نہ ہوسکا بلکہ اسے مالدیپ اور ساری دنیا میں رسوائی وذلت کے علاوہ کچھ نہ مل سکا۔ بالکل ویسے ہی جیسے مصر، لیبیا اور ٹیونس میں پہلے اسے رسوائی مل چکی ہے۔
-مالدیپ اور قطر کے تعلقات گرچہ1984 میں استوار ہوکر ٹھیک ٹھاک چلے آرہے تھے لیکن سعودی عرب سے زیادہ قریب ہونے کے بعد قطر کی تکلیف میں اضافہ ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مالدیپ کو قطر کے مذکورہ گھناؤنے عمل کے علاوہ قطر کے اور دیگر کئی غیر انسانی ، غیر دینی وغیر اخلاقی سرگرمیوں پر اعتراض رہا ہے۔
-دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعاون ، تشدد پسند جماعتوں اور انکے لیڈروں کی سرپرستی، دوسرے ملکوں میں دخل اندازی ، حزب مخالف کے ساتھ مل کر حکمراں پارٹی کو بدنام کرنا، غلواور شدت پسندی کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلانا۔ یہ اور اس طرح کے بہت سارے غیر اخلاقی حرکتوں کو مالدیپ برداشت کرتا رہا۔
- وہ اسرائیلی حکومت جس کی کھل کر ہمیشہ مالدیپ نے مخالفت کی ہے ۔ اقوام متحدہ میں جس کے خلاف تقریریں کی ہیں۔ فلسطین کا بلا شرط ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ لیکن قطر اور اسرائیل کے تعلقات کا پتہ چلنے کے بعد مالدیپ اس سے متنفر ہونے لگا۔
-کچھ سالوں سے قطرکا رافضی ایران کے ساتھ تعلقات حد درجہ بڑھانے کے بعد بھی مالدیپ کو کافی پریشانی ہوئی ہے۔
/قطر-علاقة-قطع-المالدیف-جزر-https://arabic.sputniknews.com/world/201706051024399037
💥- یہ مذکورہ اسباب قطع تعلق کا ایک پہلو تھا ۔ اب آئیے نظر ڈالتے ہیں دوسرے اس پہلو پر جس کی وجہ سے مالدیپ نے مجبور ہوکر قطر سے تعلقات ختم کیا ہے۔ یہ پہلو مالدیپ کا سعودی عرب کے ساتھ سیاسی ، اقتصادی، فکری اور دعوتی جیسے بہت سارے میدان میں گہرے روابط اور مضبوط تعلقات کا ہونا ہے۔ پچھلے دو مضامین میں اس بات کی وضاحت ہوگئی ہے کہ مالدیپ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں کس قدر گہرائی ہے ۔
-سعودی عرب مالدیپ کی مالی امداد بھی کرتا ہے۔
-قومی اور سماجی فلاح وبہبود کے کاموں کیلئے قرضہ بھی دیتا ہے۔
- اقصادی پیمانے پر سعودی عرب اس وقت مالدیپ کیلئے سب سے بڑا مچھلیوں کے کھپت کا بازار ہے۔
- انفرا اسٹرکچر، سیاحت اور اقتصاد کے دوسرے میدان میں سعودی عرب اچھا خاصا پیسہ مالدیپ میں لگا رہا ہے۔
-اس وقت چین کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب مالدیپ کو اپنا تیل مرکز بنا رہا ہے چنانچہ چین سعودی عرب نہ جاکر سیدھے مالدیپ ہی سے سعودی تیل اپنے ملک لے جائے گا۔
-سعودی عرب فکری اعتبار سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے تعلیمی اور دعوتی میدان میں مالدیپ کی خوب مدد کر رہا ہے۔
💥- آئیے اب تیسرا پہلو دیکھتے ہیں جو تحریکیوں کے اپنے نقطۂ نظر کے اعتبار سے ہے ۔
-تحریکیوں نے اس کے اسباب کچھ اپنے انداز میں بیان کئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سوچ سوچ کا فرق ہوتا ہے ورنہ یہ بھی حقیقی اسباب ہی میں سے ہیں کیونکہ ہر ملک کے کچھ ضروریات ہوتے ہیں جو دوسرے ممالک سے وابستہ ہوتے ہیں ، اگر انہیں جائز طور پر پورا کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا ۔
آئیے دیکھتے ہیں ان کے یہاں کیا اسباب ہیں، ایک تحریکی اخبار سے مفہوم لکھ رہا ہوں :
1- مالدیپ سعودی عرب کا (لے پالک بیٹا)بن گیاہے:
فروری 2014 میں بعض اجانب کی طرف سے جب مالدیپ کے کسی جزیرے میں سیاحت کیلئے بکنگ کی مانگ کی گئی تو بتایا گیا کہ یہ اور اس طرح کے تین جزیرے تین مہینوں کیلئے ملک سلمان کی طرف سے بک کر لئے گئے ہیں۔
سعودی عرب نے اس خوشی میں مالدیپ کو پانچ سالوں کیلئے 300/ ملین امریکی ڈالر قرضے پر دیا ہے۔ اور اب مالدیپ اور سعودی عرب کے مابین ہفتے میں چودہ طیارے پرواز بھر رہے ہیں جوکہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ لگ رہا ہے مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔
💥-ایک بہت ہی اہم پہلو جس نے مالدیپ کو مجبور کیا کہ وہ سعودی خیمے میں پناہ لے وہ مالدیپ کا( خالص )سنی عقیدے پر کاربند ہونا ہے اور مالدیپ کے صدر عبد اللہ یمین کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی زیارت میں مالدیپ نے سعودی عرب سے تعلیم کی ترقی کے نام پر ایک لاکھ امریکی ڈالر ہدیہ حاصل کرلیا ، کئی ایک سعودی اساتذہ اور باحثین مالدیپ بھیجے گئے وہاں تعلیمی کاز میں حصہ بٹانے کیلئے۔ نیز سعودی جامعات میں مالدیپی بچوں کو پڑھنے کیلئے ایک ہی سال میں پچاس درخواستیں قبول کر لی گئیں جو سعودی سرکار کے خرچے پر پڑھائی کریں گے۔
2- مالدیپی حلال مچھلیوں کیلئے سعودی مارکیٹ ہی کھپت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے:
مالدیپ کے اندر سیاحت کے بعد مچھلیوں کا شکار ہی سب سے بڑا قومی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ بیس فیصد مالدیپی اسی پیشے سے جڑے ہوئے ہیں۔ 2014 میں جب سے یورپی اتحاد (22/ یورپی ملکوں کا عظیم اتحاد) نے کچھ خامی بتاکر اپنی مارکیٹ میں مالدیپی مچھلیوں کے آنے پر پابندی لگادی اسی وقت سے ان مچھلیوں کی کھپت کیلئے سعودی عرب نیا مارکیٹ بن گیا ہے۔ بلکہ 2016 میں مالدیپی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب اس اہم اقتصادی میدان کو بڑھانے کیلئے مالدیپ کے اندر چار مزید کارخانے کھولے جائیں گے جہاں مچھلیوں کو نئی تکنیک سے پیکنگ کیا جائے گا۔
3- مالدیپ میں سعودی پٹرول اسٹیشن چینی سیاحوں اور ملکی اقتصاد میں اضافے کا سبب ہوگا:
مالدیپ کے اندر سب سے زیادہ سیاح چین سے آتے ہیں۔ 2014 میں تمام سیاحوں کا صرف 44/ فیصدچینی تھے ۔ لیکن مارچ 2016 میں جب سے سعودی عرب اور مالدیپ کے بیچ یہ معاہدہ طے پایا ہے کہ سعودی عرب مالدیپ کے ایک جزیرے کو تیل کا مرکز(Petrol Base )بنائے گا جہاں سے پٹرول کو جنوبی ایشیا خصوصا چینی حکومت کو سپلائی کرے گا ۔ اس طرح مالدیپ چین اور سعودی عرب کیلئے ایک بڑا اقتصادی زون بن جائے گا ۔ اور پھر چینی اور سعودی حکومتیں بھی اپنے باشندوں کو زیادہ سے زیادہ مالدیپ سیروسیاحت کیلئے جانے پر ابھاریں گے اور بالآخر مالدیپ( چین اور سعودی عرب کے تعاون سے )سیاحت اور ایندھن کے اعتبار سے ایشیا کے اندر کافی مضبوط ملک بن جائے گا۔
4- 10/ ارب امریکی ڈالر کے ساتھ مالدیپ سعودی عرب کے رحم وکرم پر:
مالدیپ اس وقت ترقی پزیر ملکوں میں شمار ہوتا ہے لیکن جس طرح گزشتہ سال مارچ کے مہینے میں ملک سلمان بن عبد العزیز نے مالدیپ کاسفر کیا اور وہاں اربوں ڈالر کی مالیت اقتصادی مارکیٹ میں لگانے کا اعلان کیا اس سے مالدیپی حکومت کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ سعودی عرب یہ پیسہ سیاحت ، اقتصاد اور ایندھن کیلئے مرکزی ہب بنانے میں لگائے گا ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مالدیپ مستقبل قریب میں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں آجائے گا۔
اس طرح سعودی عرب نے چین کو ساتھ لیکر مالدیپ کو اپنا ایسا مضبوط حلیف بنا لیا ہے کہ اب سعودی عرب کے اشارے پر مالدیپ کچھ بھی کرنے کو تیار رہے گا ۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مالدیپ نے قطر سے اپنے تعلقات کو ختم کیا ہے جس سے قطر کا کافی نقصان ہوا ہے کیونکہ اب تک خلیجی ملکوں میں قطر ہی وہ ملک تھا جہاں سے سب سے زیادہ سیاحتی طیارے مالدیپ آتے تھے۔
www.sasapost.com/maldives-cut-relationships-with-qatar/amp/
💥- اس کے علاوہ فی الحال قطر کے اندر کچھ ایسے اخلاقی گراوٹ والے فیصلے لئے جارہے ہیں جنہیں سن کر مالدیپ راحت کی سانس لے رہا ہوگا کہ اچھا ہوا اس سے تعلقات ختم کرکے ۔
آئیے قطر کے موجودہ کچھ فیصلوں پر نظر ڈالتے ہیں:
-شراب نوشی اور جنسی بے راہ روی:
قطری دستور میں گرچہ ہم جنسی شادی پر پابندی ہے لیکن نومبر (2008) میں جب سے مشہورامریکی ہم جنس پرست جورج مایکل نے اپنامیوزک کنسرٹ پروگرام کامیابی سے دوحہ میں چلایا ہے اسی وقت سے قطر میں ہم جنس پرستوں (Lesbians)کے حقوق کی بات سامنے آنے لگی تھی۔ اور 2022 میں عالمی کپ منعقد کرنے کے چکر میں جہاں ایک طرف صریح دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاکم قطر تمیم بن حمد نے شراب پر سے پابندی ہٹا لی وہیں دوسری طرف خبریں آنے لگی ہیں کہ عالمی کپ کے ذمیداروں اور دیگر مشارکین کی طرف سے اعتراض کرنے پر اب(19/فروری2018 کی خبرکے مطابق) ہم جنس پرستوں کو قطر آنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔اب قطر کے اندر انہیں قانونی جواز حاصل ہوگی۔
(بعد-الخمور-الدوحة-تسمح-للمثلیین-بممارسة-عاداتهم-في-قطرwww.soutalomma.com/Article/758439/)
💥-فلسطینیوں کے ساتھ دھوکہ:
19/فروری ہی کی خبر کے مطابق قطری سفیر محمد العمادی غزہ کے اسپتال میں منعقد پروگرام میں شرکت کیلئے جیسے ہی پہونچے اہل غزہ نے انہیں روک لیا اور ان پر پتھر پھینکنے لگے اور جوتے پھینک کر سفیر کو مارنے لگے۔ بڑی مشکل سے سیکوریٹی نے بھیڑ سے نکال کر باہر کیا۔ اہل غزہ کے ساتھ قطر پر دھوکہ دینے اور اسرائیل کے ساتھ دوستی کرنے کا الزام لگایا گیا۔نیز یہ بھی الزام ہے کہ قطر نے غزہ میں جو رہائشی مکانات بنائے ہیں وہاں حماس مکینوں سے قسط میں کرایہ اصول کررہا ہے اور وقت پر ادا نہ کرپانے کی صورت میں مکینوں کو گھروں سے نکالا جارہا ہے۔سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کیا قطر اسرائیل سے مل کر فلسطین میں تجارت کررہا ہے۔
وہاں موجود قطری جھنڈے کو فلسطینیوں نے پھاڑ کر اسے جلادیا۔ وجہ یہ ہے کہ قطر نے پورا وعدہ کیا تھا کہ اسپتال میں ادویہ کی کمی نہیں ہونے پائے گی لیکن اسرائیل کے روکنے کی وجہ سے اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیاجس پر فلسطینیوں نے قطر کی دوہری پالیسی اور اسکی دوغلے پن کوسمجھ لیا کہ کس طرح یہ اوپر سے فلسطین فلسطین کا نعرہ لگاتا ہے او راندر سے اسرائیل کے ساتھ دوستی کئے ہوئے ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر خوب چل رہی ہے اور اس کی ویڈیوبھی وائرل ہوئی ہے۔
www.alhayat.com/m/story/27501961#sthash.XQkDZvd2.dpbs
💥- قطری ایرانی سازش:
قطری حزب مخالف کے ترجمان خالد الہیل نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ عزہ میں قطری سفیر محمد عمادی در اصل یہ ایرانی النسل ہیں ۔ان کا اصل نام محمد عماد دہی ہے ، نام کے اندر تبدیلی کرکے عمادی کیا گیا پھرایران کے اتفاق کے ساتھ قطری نیشنلٹی دیکر فلسطین کا سفیر بنایا گیا کیونکہ انہیں فارسی زبان پر اچھی قدرت حاصل ہے ۔ فلسطین میں ایرانی قطری پلاننگ کو پورا کرنے کیلئے ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایران کا سفر بار بار کرتے رہتے ہیں۔خالد الہیل کا کہنا ہے کہ محمد عماد دہی اس وقت موجودہ قطر کے وزیر مالیات شریف عماد دہی کے رشتے دار ہیں۔
اسی طرح قطر میں سابق وزیر تجارت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے یعنی ریمی روحانی جو کہ ایرانی صدر حسن روحانی کے رشتے دار ہیں انہیں پہلے ایرانی نیشنلٹی دی گئی پھر قطر کا وزیر بنا دیا گیا۔ لیکن کافی اعتراض کرنے پر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ کویتی سیاسی تجزیہ کار فواد الہاشم نے اس کی صراحت کی ہے۔دیکھیں یہ خبریں:
www.vetogate.com/mobile/1749276
www.eremnews.com/news/arab-world/gcc/1205560/amp
https://ajel.sa/local/2068886?amp
💥-مالدیپ نے ایران سے بھی تعلقات ختم کرلئے:
- یہ بھی علم میں رہے کہ مالدیپ نے قطر سے ایک سال پہلے ہی ایران کی شرارتوں کی وجہ سے اور جزیرة العرب جہاں کہ حرمین شریفین موجود ہے وہاں فتنہ وفساد پھیلانے اور اسے تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کی وجہ سے اس سے بھی تعلقات ختم کرلئے ہیں جسکی تفصیل درج ذیل ہے:
-سعودی عرب کے ساتھ ساتھ مئی 2016 میں مالدیپ نے بھی ایران سے اپنے تعلقات ختم کرلئے۔ کیونکہ ایرانی شیعہ کلچر اور ثقافت کے نام پر دوسرے ملکوں میں رفض وتشیع اور صحابہ دشمنی پھیلاتے ہیں، نیز سنی ملکوں میں اپنے جاسوسوں، چیلوں، پٹھؤوں ،ایجنٹوں اورمعتقدین کے ذریعے امن وامان کو غارت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ایرانی امور کے ماہر اور تعلیم کے میدان میں تجربہ کار ڈاکٹر محمد ریان کا کہنا ہے کہ مالدیپ کو خلیجی ملکوں خصوصا سعوی عرب سے جو اقتصادی اور مالی تعاون ملتا ہے اور ہر سطح سے جو اچھے تعلقات قائم ہیں ایران کے ساتھ تعلق بنائے رکھنے میں ان سب کے اندر کافی فرق پڑتا ۔
- حالانکہ اسی سال قطع تعلق سے ایک مہینہ پہلے اپریل 2016 میں حالیہ صدر عبد اللہ یمین نے ایرانی سفیر سے سری لنکا کی راجدھانی کولمبو میں ملاقات کی تھی اور ایرانی سفیر نے مالدیپی صدر کو ہرممکن طریقے سے ورغلانے کی کوشش کی تھی اور ہر طرح سے مالی تعاون کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن کسی طور سے ممکن نہ ہوسکا۔
-اسی لئے ایرانی وزارت خارجہ سے یہ آخری اعلان آیا کہ مالدیپ اور ایران کے درمیان 1975 ہی سے گرچہ سفارتی پیمانے پر تعلقات قائم تھے لیکن یہ تعلقات بہت ہی محدود پیمانے پر تھے حالیہ قطع تعلق سے ایران پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ اور اسی اعلامیہ بیان میں ایران نے اپنے اصلی چہرے کو ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مالدیپ بھی خلیجی وسعودی ریال مزید حاصل کرنے کیلئے ناصبیوں اور آل بیت دشمنوں کے جال میں پھنستا جارہا ہے۔
- رافضی شیعوں کے اس اعلان کے بعد ان سنی مسلمانوں کو آگاہ ھو جانا چاہیے جو ایران کی تعریف کرتے ہیں یا ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں کہ یہ انہیں استعمال کرتے ہیں جب کہ اندر سے سارے سنی مسلمانوں کے سخت ترین دشمن ہیں۔
اللہ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
http://aakashtimes.com/2018/02/25/سعودی-اتحادیوں-کے-ساتھ-مالدیپ-نے-بھی-قط/
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1574569769322971&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق