💥مہبط انبیاء سر زمین شام میں جاری قیامت خیز تباہی :
💥ذمہ دار کون؟
📝بقلم ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
-انبیاء کی سر زمین ملک شام کے اندر فی الحال جس طرح کی قیامت خیز ہلاکتوں اور تباہیوں کا کھیل کھیلا جارہا ہے وہ کسی فرد بشر سے اوجھل نہیں ہے۔ شامی سنی مسلمانوں کا جس گھناؤنے طریقے سے قتل عام کیا جارہا ہے، ان پر نئے نئے ہلاکت خیز ہتھیار وں کا تجربہ کیا جارہا ہے موجودہ تاریخ میں اس کی نظیر شاید کہ مل سکے۔ایک طرف جہاں ادلب اور الغوطہ شہر پر روسی ملحد، رافضی ایرانی اور نصیری بشار رجیمی بربریت کا خونی کھیل جاری ہے وہیں دوسری طرف صوفیوں اور سرپھرے تحریکیوں کے خناس اردگان کے مظالم عفرین اور دیگر کرد علاقوں پر ڈھائے جارہے ہیں۔
💥-اگست 2016 میں تاریخی شامی شہر جرابلس اور آس پاس کے سنی کرد علاقوں میں داعش اور دہشت گردی کے نام پر ترکی نے جب (درع الفرات) جنگی آپریشن شروع کیا تھا اس کے فوراً بعد مشہور سنی شہر حلب، مضایا اور حمص وغیرہ کو ظالموں کے ہاتھ برباد ہوتا دیکھا گیا تھا۔ اور اس سال پھر جنوری کے شروع میں جب سے (غصن زیتون) نامی جنگی آپریشن سنی کرد شہر عفرین اور منبج وغیرہ کے علاقے میں ترکی نے شروع کیا تھا تو ایک بار پھر سیاسی تجزیہ کاروں نے یہ اندازہ لگانا شروع کردیا تھاکہ ایسا تو نہیں کہ کہیں پھر ظالم بشار رجیم ابالسہ زمانہ کی مدد سے دوبارہ کسی سنی شہر کو نشانہ بنانے کیلئے منافق اردگان سے ساز باز کیا ہو۔ اندازہ سچ ثابت ہوا اور اس طرح پھر ایک بار ظالم کافروں نے منافقوں کے ساتھ مل کر شامی مسلمانوں کو خاک وخون میں لت پت کر دیا۔
-منافق اردگان بڑی دلیری سے آکر یہ بیان بھی دے رہا ہے کہ تعجب ہے پوری دنیا بشار اسد کے ساتھ کھڑی ہے۔ تحریکیوں کوبھی اس منافق کے بیان پر تعجب ہوسکتا ہے لیکن مجھے اس پر کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے بیانات کی وزیرخارجہ (مولود جاوش اوگلو) نے یہ کہہ کر قلعی کھول دی ہے کہ لوگوں کو خوش کرنے کیلئے کچھ ان کے حق میں بھی کبھی کبھی بیانات دینے پڑتے ہیں جو ہمارے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں ویسے ہمیں جو کرنا ہے وہ ہم کرتے رہتے ہیں۔فلسطین اور برما کے تعلق سے دئیے گئے بیانات کو ہم اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ (اخبار سبوٹنیک ترکی) لعنة اللہ علی الکاذبین المنافقین۔
💥-وہ سارے تحریکی مفتیان اور ابناء وقت جو 2011 کے عرب فسادیہ کے موقع پر نوجوانوں کو عرب حکام کے خلاف ابھار رہے تھے اور حکومتوں کے خلاف مظاہروں اور تختہ پلٹ میں حصہ لینے کو ثواب بتا رہے تھے آج وہ سارے مفتیان اور علماء سوء اپنے اپنے بلوں میں گھسے ہوئے ہیں بلکہ " علامہ الدہر قرضاوی" کا تو پتہ نہیں چل رہا ہے اور نہ ہی کوئی تحریکی ان سے جاکر فتوی پوچھتا ہے کہ آخر اب وہ نوجوان جنہوں نے شامی حکومت کے خلاف مظاہروں اور حکومت گرانے میں حصہ لیا تھا آج اس کے نتیجے میں جو تباہی ہور رہی ہے اس پر آپ کیا فرماتے ہیں ؟ اب آپ مسلمانوں کو کیا فتوی دیتے ہیں ؟ وہ نوجوان اور شامی سنی مسلمان اب کہاں جائیں ؟
-حقیقت یہ ہے کہ ان منافق کے بچوں کو مسلمانوں کے نفع نقصان اور انکی تباہی وبربادی سے کچھ لینا دینانہیں ہوتا ہے ۔ انہیں تو سستے میں حکومت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ کامیابی کی صورت میں حکومت تو مل ہی جائے گی ورنہ ہمارا کیا ۔ مریں گے عوام، ہم اور ہمارے بچے تو اونچے اونچے قطر ، ایران اور یورپ وامریکہ کے محلوں میں آرام فرمارہے ہوں گے اور دو میں اسے ایک مقصد تو ہمارا ہر حال میں پورا ہوگا ہی : کامیابی کی صورت میں حکومت اور ناکامی کی صورت میں اپنے آقاؤں کی خوشنودی اور مسلمانوں کی تباہی سے ان کی خوشی۔
-کس قدر بیوقوفوں کی جنت میں رہنے والے وہ تحریکی نوجوان ہیں جو ان سب کے باوجود تباہی مسلط ہونے پر دوسرے سنی ملکوں کو کوستے ہیں کہ 57/ مسلم ممالک خواب غفلت میں سورہے ہیں ۔ انہیں اپنی اپنی حکمرانی اور عیش پرستی محبوب ہے ،انہیں دوسرے مسلمان بھائیوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ لیکن جب سب کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کیلئے کہاجاتا ہے تو وہاں بھی اختلاف کرتے نظر آتے ہیں اور اسکے الگ الگ مقاصد بتانا شروع کردیتے ہیں۔ اللہ بچائے ان منافقوں سے۔
💥-روافض شیعوں کا تاریخی نفاق اور سنی مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ اور ہمیشہ کافر دشمنوں کی صف میں نظر آنا سب پر عیاں ہے لیکن ترکی حکومت نے شامی سنیوں کے علاوہ عام سنی مسلمانوں کو نقصان پہونچانے میں امریکہ ، اسرائیل اور یورپ کا کس طرح ساتھ دیا اور آج تک ان کا دم چھلا بنا ہوا ہے موجودہ تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے:
-یورپی یونین اتحاد میں شامل ہونے کیلئے ترکی ہمیشہ امریکہ اور یورپ کا دم چھلا بنا رہا لیکن آج تک سوائے ذلت ورسوائی کے کچھ نہ حاصل کرسکا ۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کے مصداق ترکی آج بھی اپنابہت کچھ عزت پانی گنوا کے امریکہ ویورپ سے شاکی دکھتا ہے۔
-1952 میں کوریائی جنگ میں ترکی نے امریکہ کے کہنے برفوج بھیج کر اسکا ساتھ دیا تھا۔ 462 فوج ہلاک کرکے کچھ ہاتھ نہ آیا۔
-1955 میں امریکہ ، روس، اسرائیل کے اشارے پر بغداد معاہدے کے تحت عرب دیشوں کے خلاف بنائے گئے اتحاد میں ترکی بھی داخل ہوا تھا جس کے ساتھ ایران اور شام بھی تھا۔ عراق نے بعد میں اس سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اس میں بھی سوائے رسوائی کے اسے کچھ ہاتھ نہ آیا۔
-1975میں ویتنام جنگ میں امریکہ کے ساتھ ترکی نے ساتھ دیا۔ وہاں بھی بہت سارے فوجی گنوا کر واپس آیا۔
-1989 میں امریکہ کے ساتھ ملکر روس کے خلاف سرد جنگ میں ترکی نے کافی بڑا رول ادا کیا جس کا صلہ اسے آج تک نہ مل سکا بلکہ عبد اللہ گولن کی گرفتاری میں امریکہ نے کسی بھی طرح مدد کرنے سے انکار کردیا۔
-2001 میں افغانستان کے خلاف ناٹو فوج میں ترکی نے بھی ہزاروں کی تعداد میں فوج بھیجی تھی وہاں سنی مسلمانوں کو مارنے کیلئے۔ اس پر بھی ترکی کو کوئی انعام نہیں ملا سوائے رسوائی کے۔
-2003 میں عراق کی تباہی میں بھی ناٹو فوج کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں ترکی فوج عراق آئی تھی۔ لیکن یہاں بھی ترکی کو کوئی مادی فائدہ حاصل نہیں ہوا جس طرح ایران اور امریکہ حاصل کررہے ہیں۔
-ان سب کے باوجود ترکی آج بھی اپنے ملک میں امریکہ اور اسرائیل کو مشترکہ فوجی اڈہ دئیے ہوئے ہے جہاں سے یہ دونوں صہیونی اور صلیبی ممالک مسلم ملکوں کی جاسوسی کرتے ہیں اور وہاں ترک فوج کے ساتھ مل کر فوجی تجربہ بھی کرتے ہیں۔
- لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ! ترکی آج بھی یورپی یونین اتحاد سے باہر ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسی کوئی امید ہے کہ مکار مغرب اسے اپنے یہاں کوئی جگہ دے گا۔ ابھی اسی ہفتے کی بات ہے کہ ترکی نے زناکاری کے اڈوں پر پابندی لگانے کے قانون بنانے کی تیاری کر رکھی تھی لیکن یورپ کے کئی ملکوں کی طرف سے اعتراض آنے پر اس قانون کو روک دیا گیا اور باقاعدہ اردگان نے یورپی اقوام سے اس کے لئے معذرت کرلی۔یہ ہیں بہادر "مذل التحریکیین وخادع المسلمین"۔
💥 -بعض یورپی اقوام کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجودہ شام کے مسئلے کو جس طرح کل(24/فروری) اٹھایا گیا اور پھر اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا اس سے یورپ ، امریکہ اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ملحد روس کی سرپرستی اور تحریکی ترکی کی مکمل تائید میں جلاد بشار اسد کی شامی ملحد نصیری فوج ، مجرم نصر الشیطان کی حزب اللاتی گوریلا فوج اور رافضی مجوسی ایران کی القدس فورس جس طرح شامی سنی مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے یہ ایک عالمی سوچی سمجھی سازش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
- صورت حال ایسی بنی ہوئی ہے کہ اس وقت سنی مسلمان شامی بھائیوں کے حق میں یا تو اپنے رب ذو الجلال سے دعا کرسکتے ہیں یا پھر جتنا جس طرح ہوسکے ان کی مالی امداد کرسکتے ہیں۔ روافض شیعہ تو خوشی منا رہے ہیں۔ تحریکی اپنے امیرالمومنین کے اشاروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ سنی مسلمان ہی ان کے حق میں دعائیں کررہے ہوں گے ، مجرموں پر بدعائیں بھیج رہے ہوں گے اور ان کے لئے مالی امداد کر رہے ہوں گے۔
💥- 2016 میں جس طرح نصیری اور رافضی فوج پسپا ہورہی تھی اور اہل سنت کا شام میں پلڑا بھاری ہورہا تھا اور اسی وقت شام میں کنٹرول سنبھالنے کیلئے سعودی عرب اسلامی ملکوں کا اتحاد بناکر ترکی میں ایک بڑی اسلامی فوج بھیجنے ہی والا تھا کہ ایک طرف یورپ وامریکہ نے باز رہنے کی تلقین کی تو دوسری طرف ترکی نے اس میں حصہ لینے سے صاف انکار کردیا تو تیسری طرف ملحد روس نے دھمکی دیدی کہ اگر شام میں کوئی فوج آئے گی تو روسی فوج یمن میں بھی جائے گی۔ اس طرح کافروں ، رافضیوں اور باطنی نصیریوں کے ساتھ ساتھ تحریکیوں نے بھی شامی قضیے کے حل میں رکاوٹ ہمیشہ ڈالی ہے۔ ورنہ سعودی عرب ہمیشہ سنی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ -بحرین میں روافض کے خلاف ، مصر میں تحریکیوں کے خلاف ، لیبیا اور ٹیونس میں ملحدوں کے خلاف اور موجودہ وقت میں یمن کے اندر رافضی حوثیوں کے خلاف سنی مسلمانوں کی حمایت اور مدد سعودی عرب کیلئے روشن باب ہے۔لبنان میں سعودی عرب نے روافض کے خلاف ہمیشہ سے سنی مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے۔ عراق کی تباہی میں ایرانی رافضیوں کے ساتھ ساتھ ترکی فوج نے برابر حصہ لیا ہے اور قطر کے ائیر بیس کو پورا پورا استعمال کیا گیا ہے۔ عراقی حکومت سے اختلاف کے باوجود سعودی عرب نے امریکہ کو اپنا فوجی اڈہ استعمال کرنے سے منع کردیا تھا جس پر عراقی حکومت نے سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا تھا۔
-سعودی عرب کے علاوہ اگر کوئی شامی مسلمانوں کی فوجی مدد کرسکتا ہے تو وہ پاکستانی فوج ہے ۔ صرف اگر پاکستانی فوج ایٹمی ہتھیار کے استعمال کی دھمکی دیدے تو چاہے مغربی سورما ہوں، روسی ریچھ ہو ، بزدل ترکی ہو یا آدم خور نصیری اور رافضی افواج ہوں سب اپنے اپنے بلوں کی طرف بھاگ جانے میں عافیت محسوس کریں گے۔ شمالی کوریا کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار اور متحد قوم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ چین کی تائید ایک دھوکہ اور امریکہ کی سبکی مٹانے کا ایک ذریعہ ہے کیونکہ چین عالمی پیمانے پر امریکہ کے بعد سب سے بڑا مفاد پرست ملک ہے ۔
💥- لیکن پاکستانی فوج کو جس طرح ایک عالمی سازش کے ذریعے نرغے میں پھنسادیا گیا ہے وہ وہاں سے اس وقت ایک بیان بھی نہیں دے سکتا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
-سیاسی پیمانے پر جس طرح الجھا ہوا ہے مستقبل قریب میں اس کا اس الجھاؤ سے نکل پانا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ اور کسی بھی بڑے فیصلے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے خصوصا اس وقت جب اسکا تعلق قومی سلامتی سے ہو۔
- علاحدگی پسندوں، فرقہ واریت کے دلدادوں اور امن وسکون کے قاتلوں سے نپٹنا پاکستانی فوج کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے اور ایرانی روافض اور ان کے گماشتوں کی طرف سے ملک میں دخل اندازی سے فی الحال کچھ زیادہ بڑھ گیا ہے۔
-مختلف آپریشنوں کے ذریعے اندون ملک پاک فوج نے علاحدگی پسندوں اور دہشت گردوں سے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے جس میں گرچہ بہت حد تک کامیابی ملی ہے لیکن ابھی بھی وہ اپنے ٹارگیٹ کو پورا نہیں کر سکا ہے۔
- فی الحال امریکہ اس کے پیچھے ایک سازش کے تحت کچھ زیادہ ہی پڑا ہوا ہے ۔ بلکہ پچھلے ہفتے تو یورپ اور امریکہ کی پوری کوشش تھی کہ اسے (واچ لسٹ )والے ممالک میں شامل کروا دیا جائے لیکن چین کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا ۔ رافضیوں ، صہیونیوں اور صلیبیوں کو پتہ ہے کہ انہوں نے مل کر 1981 میں گرچہ عراقی ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کر دیا تھا جس میں بلا واسطہ ایران نے ساری جگہوں کی تفصیل فراہم کی اور اسرائیل نے ان عراقی ایٹمی پلانٹوں کو تباہ کیا ۔ لیکن پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو 1987 میں تباہ نہیں کرسکے کیونکہ سعودی خفیہ ایجنسی نے بروقت پاکستانی فوج کو آگاہ کر دیا تھا اور پھر امریکہ کے ذریعے پاکستان نے اسرائیل کو ایسی کھلی دھمکی دی تھی جس سے پورا یورپ اور امریکہ ہل گیا تھایعنی پاک فوج نے سیدھا یہ چیلنج کیا کہ اگر پاکستانی بارڈر کے قریب بھی کوئی اسرائیلی طیارہ دکھ جائے گا تو سیدھا تل ابیب کو تباہ ہونے میں سیکنڈوں نہیں لگیں گے۔ اور یہ پہلی اور آخری وارننگ ہے ۔ لیکن آج حالت پہلے کے مقابلے بہت مختلف ہے ۔ نسل چہارم کی جنگ (4th Generation war) کے ذریعے صہیونی اور صلیبی اقوام نے پاکستان کو بری طرح الجھایا ہوا ہے۔
- ملکی اعتبار سے بدعنوانی ، کرپشن اور اقتصادی بحران کا جس طرح شکار ہے اس سے نکلنے کیلئے جس قرضے کی اسے ضرورت پڑتی ہے اس کے لینے کے بعد کچھ ایسی شرطیں رکھی جاتی ہیں کہ عالمی بینکوں اور مغربی ملکوں کی تائید کے بغیر کسی کے خلاف کوئی بھی عالمی فیصلہ نہیں لے سکتا۔
-گویا اسے ہر طرح سے کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ یہ ایٹمی ملک کسی بھی طرح سے مسلمانوں کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہ آسکے۔
- اور اس کے لئے جہاں ایک طرف امریکہ، یورپ، اسرائیل اور سارے کافر ممالک ذمیدار ہیں وہیں دوسری طرف ملک کے ملحد اور رافضی سیاست داں بھی ہیں تو تیسری طرف وہاں کی رافضی اور الحادی میڈیا بھی سب سے بڑا ذمیدار ہے ۔ یہ ملحد اور روافض ہر مسئلے میں ٹانگ اڑاتے ہیں اور ہمیشہ ایران کو چھوڑ کر دوسرے کسی بھی ملک کی مدد کیلئے جانے پر بھونکنا شروع کردیتے ہیں۔ ڈیڑھ ہزار فوج جسے سعودی عرب حال ہی میں بھیجا گیا اس قدم پر ملحد اور رافضی میڈیا نے جس طرح طوفان بدتمیزی کھڑا کیا ہے (خصوصا بی بی سی اردو کے جانے مانے سعودی کٹر دشمن وسعت اللہ خان کی رپورٹ اس تعلق سے بہت مشہور ہے) اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا کہ اگر پاکستان شام کی جنگی مدد کسی طور پر کرنے کیلئے تیار ہوجائے تو دوسروں (صہیونیوں، صلیبیوں، ملحدوں، رافضیوں اور تحریکیوں) سے پہلے یہی ملکی ملحد اور رافضی میڈیا ہی سرپر آسمان اٹھالے گی۔
💥- مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد عالمی پیمانے پر لڑائی کا پیمانہ بالکل بدل چکا ہے۔ دور حاضر کے مغربی سورما ؤں نے ہر لڑائی مادے کے حصول میں لڑی ہے اور ان کے لئے جہاں مستشرقین مغربی علماء نے ایک طرف جاسوسی کے طور پر کام کیا ہے وہیں دوسری طرف ماجیلان، واسکو ڈی گاما اور کرسٹوفر کولمبس جیسے لٹیرے خون کے پیاسے سیاحوں نے ان کے لئے ہراول دستے کا کام کیا ہے۔
- موجودہ دور طاقت وقوت کا دور ہے۔ رافضیوں کوچھوڑ کر جب تک سارے سنی مسلمان متحد نہیں ہوجائیں گے۔ (ایرانی رافضی لیڈروں کی طرف سے اتحاد کی باتیں دھوکے اور تقیہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے) اور ایک آواز ہوکر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں ہوجائیں گے اور سیدھا دشمنوں سے لڑنے سے پہلے اندر کے منافقین اور آستین کے سانپوں سے نہیں لڑیں گے تب تک کچھ نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ دشمن بہت عیار ہے ۔اپنوں میں اسے ہر جگہ میر جعفر، میر صادق ، طوسی اور ابن علقمی جیسے منافق ہمیشہ مل جاتے ہیں ۔ ساتھ ہی دشمن سخت جان بھی ہے۔ مادہ پرست ہے۔ انسانی جان سے زیادہ اسے مالی مفاد کی فکر ہے۔
💥-"وأنتم الأعلون إن کنتم مومنین" کے الہی شرط کو پورا کرتے ہوئے جب تک ہم اپنی ایمانی طاقت کو مضبوط نہیں کرلیتے اور "وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة "کے دوسرے ربانی شرط فوجی طاقت کو مضبوط نہیں کرلیتے تب تک ہم موجودہ وقت کے دشمن کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔عدل وانصاف کی عالمی عدالتیں، امن وسلامتی کے سارے ادارے اور حقوق وفرائض کی ساری تنظیمیں صرف سوءکیل اور تطفیف پر کام کرتی ہیں۔ چنانچہ جس کے ہاتھ میں لاٹھی دیکھتی ہیں اسی کے حق میں بھینس کا فیصلہ کرتی ہیں۔ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ کشمیر، رکھائن، اہواز ، کردستان، سینکیانگ اور کئی ایک روسی اکثریتی مسلم صوبوں کو اسی سوءکیل کی مار آج تک مل رہی ہے۔
- انسان جب مادہ پرست ، مفاد پرست اور مصلحت خیز ہوجاتا ہے تو وہ انسان تو انسان اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ کو بھی بیچ دیتا ہے۔ اور یقینا موجودہ دور کا انسان مادہ پرست ہوچکا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کے زوال کے بعد جتنی بھی لڑائیاں لڑی گئی ہیں اور جتنے بھی انسانوں کا قتل عام کیا گیا ہے اس کے پیچھے صرف اور صرف مادہ پرستی اور وقتی مالی حصول رہا ہے۔ بلکہ اکثر لڑائیاں کسی نہ کسی مادے کی طرف منسوب بھی رہی ہیں۔
💥- آئیے ان لڑائیوں میں کچھ ایسی لڑائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جنہیں کسی نہ کسی مادے کی طرف منسوب کیا گیا ہے:
1- تیل کی جنگ: WAR FOR OIL
2003 میں عراق کو جس پیمانے پر تباہ کیا گیا اسکے پیچھے جہاں اور بہت سارے مقاصد تھے وہیں پر امریکہ کا سب سے بڑا مقصد عراقی تیل پر قبضہ کرنا تھا ۔ اسکے لئے دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بولا گیا کہ صدام حسین کے پاس ایٹمی ہتھیار ہے جو دنیا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔اسکے لئے ایرانی رافضیوں کو استعمال کیاگیا جنہوں نے جھوٹ پر مبنی ہزاروں صفحات کا ریکارڈ یورپ اور امریکہ کے سپرد کردیا جس میں یہ ثابت کیا گیا کہ صدام حسین ایسے مہلک اور خطرناک ہتھیار رکھتا ہے جس سے پوری دنیا آن کی آن میں تباہ ہوکر رہ جائے گی۔سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر آج ہنس رہا ہے کہ ایرانیوں نے کیسے جھوٹ بول کر اسے اس مہلک جنگ میں پھنسا دیا۔
- آج وہاں کے تیل کو عراق سے کئی گنا زیادہ یا تو امریکی استعمال کررہے ہیں یا ایرانی رافضی استعمال کررہے ہیں۔ اور اس کے ایک بڑے صوبے کردستان سے اسرائیل استعمال کر رہا ہے جسے وہ خفیہ طور پر ترکی کے راستے سستے داموں پر اپنے ملک تک لے جاتا ہے۔ وہ عراق جو سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے میں دوسرے نمبر پر تھا آج اس کا شمار غریب ملکوں میں ہوتا ہے ۔ اسے آج عالمی امداد کا سہارا ہر وقت رہتا ہے۔ پندرہ سالوں کے بعد بھی عراق میں آباد کاری پر باتیں ہورہی ہیں کہ کون کرے اور کیسے کیا جائے ۔ اس طرح ایک سنی مسلم دیش کی ابھرتی ہوئی طاقت کو تہس نہس کر کے ایرانی کلاب کے ہاتھوں سونپ دیا گیا جہاں آج بھی رافضی درندے مذہب ومسلک کے نام پر سنی مسلمانوں کا کھلے عام قتل کررہے ہیں اور ایرانی لیڈران نفاق وتقیہ پر مبنی شیعہ سنی اتحاد کا ڈھنڈھورا پوری دنیا میں پیٹ رہے ہیں۔
2- ہیروئین کی جنگ:WAR FOR HEROIN
-جب سے افغانستان میں طالبان نے حکومت بناکر وہاں کی پہاڑی وادیوں میں پھلتی پھولتی ہیروئین کی کھیتیوں پر پابندی لگا دی تھی جس کی سپلائی تمام یورپ وامریکی ممالک اور دنیا کے اکثر نشیلی ملکوں میں کی جارہی تھی سارے عالمی تجارت کے ٹھیکیداروں کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی کیونکہ یہ تجارت ڈرگس اور گولڈ کے بعد سب سے منافع بخش تجارت مانی جاتی ہے۔ صہیونی -صلیبی مادہ پرستوں نے ایک سازش کے تحت (9/11) کا بھیانک کھیل کھیلا اور اس کی آڑ میں 2001 کے اندر سنی مسلم ملک افغانستان کو تباہ وبرباد کر دیا گیا ۔ اور جس طرح (عراق لڑائی) کے وقت سب سے پہلے امریکی فوجیوں نے تیل کے کنوؤں کی حفاظت کرنا شروع کردی تھی اسی طرح یہاںبھی سب سے پہلے ہیروئین کی کھیتیوں کی حفاظت اور وہاں کے بڑے بڑے ہیروئین مافیاؤں کے ساتھ مل کر اسے اپنے قبضے میں کرنا شروع کردیا۔ -یہاں بھی جہاں ایک طرف ناٹو فوج کے اندر ترکی نے اپنے کئی ہزار فوج بھیجے وہیں دوسری طرف ایرانی رافضیوں نے طالبان کے خلاف امریکا کی ہر سطح پر تعاون کیا جس کا پھل وہ وہاں آج بھی کاٹ رہے ہیں۔ اور تحریکی ترکی کف افسوس مل رہا ہے۔ اسی ہیروئین کے ذریعے یہ( جنگ مافیا )جہاں ایک طرف اپنی اقوام کو نشے میں دھت رکھتی ہیں وہیں دوسری طرف اپنے دشمن ممالک میں بھی اسے اسمگنگ کرکے وہاں کے اقوام کو نشہ میں ڈال کر مست رکھتے ہیں۔
3-دولت کی جنگ: WAR FOR WEALTH
-1815 میں برطانیہ کی فرانس کے خلاف واٹر لو (WATERLOO) کی لڑی جانے والی جنگ بہت مشہور ہے۔ فرانس کے بادشاہ نے جب برطانوی مصنوعات کو فرانس کے اندر درآمد کرنے سے انکار کردیا تو برطانیہ نے نیپولین کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔ اور اس جنگ میں یہودیوں نے برطانیہ کی پوری پوری مالی مدد کی ۔اور اسی جنگ کے موقع پر یہودیوں نے پہلے برطانیہ کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جس سے سارے شیئر ہولڈرس نے بینک آف انگلینڈ سے اپنے شیئرز بیچنا شروع کردیا اور یہودیوں نے خصوصا گولڈ اسمتھ خاندان نے سارا شیئرز خرید لیا اور جب صبح پتہ چلا کہ برطانیہ کی جیت ہوئی ہے تو دوسرے دن یہودیوں نے بھاری قیمتوں میں خریدے گئے شیئرز کو بیچا ۔اور ادھر فرانس کی مارکیٹوں میں برطانیہ کا دبدبہ ہوگیا۔ اس طرح اس جنگ نے دو پیمانے پر دولت کمانے کا سبب بنا۔
4-افیم کی جنگ: WAR FOR OPIUM
-واٹرلو کی جنگ سے نکل کر برطانیہ ابھی پوری دنیا میں مشہور ہوا تھاکہ 1840 میں چین کے بادشاہ نے برطانوی سامان کو خصوصا نشہ آور چیزوں کو چین میں فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی ۔ برطانیہ کو غصہ آیا اور اپنی فوج کو چین میں اتار دیا اور افیم کے نام پر چین سے پہلی جنگ لڑی جس میں چینی بادشاہ سے افیم کی فروخت کرنے کی اجازت پر معاہدہ ہوا ۔ تقریبا بیس سالوں کے اندر چین دنیا میں سب سے زیادہ افیم اور نشہ آور اشیاء کا استعمال کرنے والا ملک بن گیا ۔ اس طرح دوبارہ شاہِ چین نے 1858 کے اندر ہزاروں ٹن افیم اور نشہ آور اشیاء کو انگریز تاجروں کے قبضے سے لیکر سر بازار جلوا دیا اور ملک سے نکل جانے کا آرڈر جاری کردیا۔ اس طرح برطانیہ پھر ایک بار اپنے مزید کچھ طاقت کے نشے میں چور(روس، امریکہ اور فرانس) ملکوں کو ساتھ لیکر چین پر چڑھائی کردی اور ہانگ کانگ کے ساتھ چین کا ایک بڑا زرخیز علاقہ اپنے قبضے میں کرلیا جہاں افیم کی کھیتی بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔ ابھی 1997 میں برطانیہ نے ایک معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کیا ہے۔
5- مسالے کی جنگ : WAR FOR SPICES
-اٹھارویں صدی کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگریزوں کا اور انیسویں صدی کے اندر واسکو ڈی گاما کے ذریعے پرتگالیوں کا اور پھر ولندیزیوں کا ہندوستان کی طرف للچائی ہوئی نگاہ سے آنا دراصل یہاں کی زرخیزی اور یہاں سے عرب ممالک اور پھر وہاں سے یورپ کی مارکیٹوں میں بھارت کی پہونچنے والی مختلف ذائقہ سے بھرے ہوئے گرم مسالے اور ڈرائی فروٹس تھے۔ ٹکنالوجی میں ترقی کے بعد انہوں نے سوچا کہ عربوں کے واسطے کو ختم کیا جائے اور خود برصغیر ایشیا جاکر وہاں کے بھولے اقوام سے لڑکر مساجالات اور دیگر قیمتی اشیاء کی تجارت پر خود قبضہ جمایا جائے۔ اور وہی ہوا جس طرح ان مکار انگریزوں نے برصغیر کے خلاف پلان بنایا تھا کہ صرف مسالوں کی تجارت ہی نہیں یہاں سیاست بھی کرکے گئے اور سونے کی چڑیا کہے جانے والے ملک کو کنگال بھی کر کے گئے۔اس طرح مسالوں کی تجارت کا بہانہ بنا کر ملک کو لوٹ کے گئے اور بعد میں آنے والے اپنے چیلوں کو یہ گر سکھا کے بھی گئے۔
6-انسانی جانوں کی جنگ:WAR AGANST HUMANITY
-مغربی اقوام کے بارے میں یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ دولت کی خاطر یہ کس قدر سخت جان ثابت ہوئے ہیں۔ ہندوستان سے تقریبا ایک ہزار میل دور جنوب کی طرف بحر ہند میں واقع ایک بہت ہی خوبصورت مونگوں والا جزیرہ جسے چاگوس (Chagos) کہتے ہیں جسکی راجدھانی( دیغو گارسیا-Deigo Garcia )ہے 1965 میں برطانیہ اور امریکہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس جزیرے پر موجود تقریبا تین ہزار لوگوں کو یہاں سے جلا وطن کردیا جائے کیونکہ عسکری اور اقتصادی اعتبار سے یہ جزیرہ بہت ہی اہم مرکز پر واقع ہے۔ بہر حال اس بدبختانہ فیصلے کو ان قصابوں نے عملی جامہ پہنایا اور مقامی لوگوں میں سے لڑنے والوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور باقی کو جن کی تعداد ڈھیڑ ہزار تعداد بتائی جاتی ہے انہیں قریبی افریقی جزیرے موریسیش اور دیگر دوسرے جزیروں کی طرف منتقل کردیا۔ اور ان دونوں غاصب ملکوں نے وہاں اپنے مستعمرات کی حفاظت نیز علاقے میں دبدبہ اور رعب بنانے کی خاطر عسکری اڈہ قائم کر لیا اورکچھ سالوں کے بعد برطانیہ نے مکمل طور پر اس جزیرہ کو بھاری قیمت میں امریکہ کے ہاتھ فروخت کردیا حالانکہ اس جزیرے کے باشندوں نے پانچ سو کی تعداد میں لندن کے ہائی کورٹ میں مقدمہ کردیا تھا جس نے 2000 میں وہاں کے باشندوں کے حق میں فیصلہ دیدیا لیکن آج تک وہ لوگ ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں ۔ ایک طرف برطانیہ اس جزیرے کی بھاری قیمت وصول چکا ہے اور دوسری طرف امریکہ اس جزیرے سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہا ہے کیونکہ اس پرایشیا میں سب سے بڑ ا عسکری اڈہ بنائے ہوئے ہے اور یہیں سے اس نے افغانستان، عراق اور خلیجی دونوں جنگوں میں عسکری جنگ لڑی تھی۔
💥- موجودہ شام کی بے نام لڑائی : SYRIAN NAMELESS WAR
-ویسے شام میں اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے ایران، ترکی اور روس کے مابین دو مرتبہ معاہدہ ہوچکا ہے ۔ پہلی مرتبہ دسمبر 2016 میں ماسکو کے اندر اور دوسری مرتبہ نومبر 2017 میں سوچی کے اندر ۔ اس بھیانک جنگ میں انسانی لاشوں کی قیمت یہی تین بہادر قوم حاصل کریں گے اور اتفاق سے اس مرتبہ یورپین اقوام کے علاوہ مشرقی اقوام ہیں جو شقاوت، قساوت اور بدبختی میں ان سے کسی بھی طور سے کم نہیں ہیں چاہے وہ ملحد روس کی شکل میں ہو یا ایرانی روافض کی شکل میں یا علمانی ترکی کی شکل میں۔بد قسمتی سے ان تینوں نے اپنی اپنی طاقت کے مطابق مختلف پیمانے پر سنی مسلمانوں کو کافی نقصان پہونچایا ہے اور پہونچاتے آرہے ہیں۔
-مسکن انبیاء سنی اکثریتی ملک شام کے اندر ایک طرف ایران کو اگر رفض وتشیع اور افیم کی تجارت کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور کئی ایک شہروں میں کمپنی قائم کرکے اپنی مصنوعات تیار کرنے کی اجازت مل گئی ہے تو وہیں دوسری طرف اگر ملحد روس کو فضائی اور بحری اڈہ قائم کرنے اور معدنیات کے نکالنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہوگئی ہے تو وہیں پر تیسری جانب ترکی کو شامی سرحد پر کردوں کو تباہ کرکے اس علاقے میں ترکی رعب ودبدبہ قائم کرنے کی کھلی اجازت ملی ہوئی ہے۔ اس سودے میں لگتا ہے سب سے گھاٹے میں ترکی رہے گا جبکہ سب سے زیادہ رسوائی اسی کے حصے میں آئے گی۔
- ابھی تک اس خونی جنگ کا کوئی خاص نام سامنے نہیں آیا ہے ۔ جنگ کے خاتمے پر طاقت کے نشے میں چور یہی ظالم اقوام یا تاریخ نویس ضرور اس کا کچھ نام دیں گے۔
💥-پس چہ باید کرد؟
- جس طرح ساری کافر طاقت بشمول رافضیوں، تحریکیوں اور علمانیوں کے اس وقت سنی مسلمانوں کے خلاف پل پڑی ہے اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں سنی مسلمان بالکل نہیں ہیں ۔ اس وقت سب سے پہلے اسلامی عسکری اتحاد (41/سنی ممالک کا اتحاد جسے سعودی عرب نے دسمبر 2015 میں قائم کیا ہے )کے بینر تلے سارے سنی ممالک کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک جائزے کے مطابق بروقت مسلمانوں کے پاس سب سے بڑی افرادی قوت موجود ہے، ثروت ودولت اور معدنیاتی طاقت میں اسلامی ملکوں خصوصا عرب دیشوں کا کوئی ثانی نہیں ۔ عقلی صلاحیت اور لیبر کی فراہمی ان مسلم دیشوں سے زیادہ کہیں نہیں ہے ۔سعودی عرب کی کوشش سے ان کے پاس پاک ایٹمی طاقت بھی موجود ہے۔
-اور سب سے بڑی بات عالم اسلامی دنیا کے قلب میں ایسی پوزیشن میں واقع ہے جو اسٹراٹیجک پیمانے پر دنیا میں سب سے اہم جگہ ہے۔ دنیا کے اکثر معدنیاتی خزانے ، بحری اڈے اور اہم سات آبی گزر گاہیں(Sea Straits) اسی جگہ اور انہیں مسلم دیشوں کے قبضے میں ہیں جہاں سے ساری دنیا کے مال بردار جہاز بلا روک ٹوک روزآنہ سفر کرتے ہیں ۔ساتوں اہم آبی گزرگاہوں کی فہرست کچھ اس طرح ہے: ملاکا اسٹریٹ(ملیشیا)، ہر مز اسٹریٹ (ایران وامارات)، باب مندب اسٹریٹ(یمن واریٹریا)، سوئز کینال(مصر)، جبل الٹر اسٹریٹ(مراکش)، بنزرٹ اسٹریٹ(ٹیونس) اور دردنیل اسٹریٹ(البانیا)۔بحر مرمرہ میں واقع فاسفورس اسٹریٹ(ترکی) بھی بہت اہم ہے جو بحر ابیض متوسط کو بحر اسود سے ملاتا ہے جہاں سے روسی اور دیگر یورپی بحری بیڑے گزرتے ہیں۔
-1972 میں اسرائیل مصر جنگ میں شاہ فیصل نے جمال عبد الناصر کے ساتھ مل کر اسی ہتھیار کا استعمال کرکے اسرائیل، فرانس اور امریکہ کی جارحیت کو پسپائی پر مجبور کردیا تھا ۔ یعنی شاہ فیصل نے جہاں ایک طرف یورپ اور امریکہ کی طرف تیل کی سپلائی روک دی تو دوسری طرف جمال عبد الناصر نے سوئیز کینال بند کرکے سارے مال بردار جہازوں کو بحر احمر میں گزرنے پر پابندی عائد کردی ۔سارے یورپ اور امریکہ کے عوام سڑک پر آگئے۔ مجبور ہوکر اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے سعودی عرب کا سفر کرکے فوری طور پر جنگ بندی کیا اور اسرائیل کو صحرائے سینا چھوڑ کر واپس اپنے حدود میں جانے پر مجبور کیا گیا۔
💥-سارے سنی مسلمان اسلامی فوجی اتحاد اور او آئی سی کے تحت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر اگر اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جارحیت کو روکنے میں کامیاب ہوجائیں ۔ شکوہ وشکایت کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ دشمن چالاک ہے ۔ ہمارے انتشار کا بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ طاقت کا مظاہرہ حکومتی پیمانے پر اگر نہیں کرسکتے تو دعاؤں کا ہتھیار کبھی نہیں بھولنا چاہئیے ۔ اور ساتھ میں اگر ممکن ہوسکے تو مالی امداد ضرور کریں۔ سعودی عرب نے الغوطہ میں بھاری مالی امداد بھیجا ہے اور وہاں دو ہزار خوراک ڈیلی فراہم کیا جارہاہے۔ اس کے علاوہ 1952 میں جب اسرائیل نے ملک شام کے خلاف فوجی جارحیت کی دھمکی دی تھی تو سعودی عرب نے گیارہ (11)ملین امریکی ڈالر کا اسلحہ یوگوسلاویا سے خرید کرشام کی مدد کی تھی ۔ اس وقت کے سعودی وزیر دفاع امیر مشعل بن عبد العزیز نے یہ بہادرانہ عمل انجام دیا تھا۔
- دعا کرتے ہیں کہ رب العزت شامی بھائیوں کی مدد فرمائے ، جاری تباہی میں ملوث تمام مجرموں اور ظالموں کو تباہ وبرباد کرے ۔ نیز توفیق بخشے کہ سارے سنی مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر ظالموں ، مجرموں اور منافقوں کے خلاف کوئی مشترکہ فیصلہ لے سکیں۔ رب العالمین تو ہی بہتر کارساز ہے۔ حسبنا الله ونعم الوكيل. نعم المولى ونعم النصير.
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1576090089170939&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق