💥جماعت اہل حدیث کے دونوں دھڑوں میں اتحاد :
💥ایک تاریخ ساز قدم
📝بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور
۔قرون اولی مفضلہ کے گزرنے کے بعد مرور زمانہ کے ساتھ جوں جوں خارجی، رافضی، بدعتی اور تقلیدی فرقوں اور جماعتوں نے سر اٹھانا شروع کیا تو خالص کتاب وسنت کے پیرو کاروں یعنی اہل حق نے ان باطل فرقوں سے تمیز وتفریق اور امتیاز کیلئے مختلف ناموں سے اپنے آپ کو موسوم کیا ۔ان میں (اہل السنہ والجماعة) سب سے مشہور ہے۔ لیکن قرون متاخرہ میں جب تقلیدی فرقوں نے بھی اپنے آپ کو اہل السنہ والجماعہ کہنا شروع کردیا تو صرف کتاب وسنت کے ماننے والوں نے اپنے آپ کو کہیں اہل حدیث اور کہیں سلفی کہنا شروع کردیا ۔
💥۔2016 میں غروزنی کے اندر جب (من ہم أہل السنّة والجماعة) کے عنوان سے عالمی صوفی کانفرنس ہوئی اور اس میں یہ طے پایا کہ سلفیوں کے علاوہ سارے تقلیدی فرقے اہل السنہ والجماعہ میں داخل ہیں۔ تو اس کے جواب میں سلفیان عرب وعجم نے کویت میں کانفرنس کیا اور اسی کانفرنس میں یہ موضوع زیر بحث آیا کہ سلفیوں میں بہت سے تقلیدی اور تحریکی بھی آتے ہیں چنانچہ اسی وقت کیوں نہ کوئی خالص تعارفی نام طے کرلیا جائے جس سے تمام باطل فرقوں سے تمیز ہوسکے۔ چنانچہ اسی کانفرنس میں جو تعارفی نام سامنے آیا وہ (اہل الحدیث) کا نام تھا ۔ کیونکہ یہ نام خالص کتاب وسنت کے ماننے والوں کے علاوہ کوئی نہیں اپنا رہا ہے۔
۔ اس طرح اہل حدیث یہ ایک تعارفی نام ہے ان سچے پکے خالص مسلمانوں کا جو صرف اور صرف کتاب وسنت کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ اس تعلق سے بہت سارے نصوص موجود ہیں۔ (ترکت فیکم امرین)، (ما انا علیہ واصحابی) اور (فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین) جیسی بہت ساری احادیث کے علاوہ قرآنی نصوص بھی کثرت سے موجود ہیں جن میں کہیں (اطیعو ا اللہ واطیعوا الرسول) کہہ کے کتاب وسنت کی پیروی کرنے اور آگے (واحذروا) کہہ کر دوسروں کی پیروی کرنے سے روک دیا گیا تو کہیں (اتبعوا ما انزل إليكم من ربکم) کہہ کر صرف وحی (کتاب وسنت) کی اتباع کرنے کا حکم ہوا تو آگے (ولا تتبعوا من دونہ اولیاء) کہہ کر دوسرے اولیا ء وبزرگ کی اندھی تقلید سے روک دیا گیا۔
💥۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے زیر سایہ جب تصوف اور شرک وبدعت نے زیادہ زور پکڑنا شروع کیا تو عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں اصلاحی تحریکوں نے جنم لینا شروع کردیا ۔ ان میں افریقہ کے اندر سنوسی تحریک، عرب کے اندر سلفی تحریک اور برصغیر کے اندر اہل حدیث تحریک زیادہ مشہور ہوئی ۔ 1924 کے اندر عثمانی سلطنت کے زوال کے بعد ان اصلاحی تحریکوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ۔ چنانچہ متحدہ ہندوستان کے اندر تحریک شہیدین کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے تحریک اہل حدیث (جسے انگریزوں نے وہابی تحریک سے مشہور کردیا) نے شرک وبدعت اور ظالم انگریزی حکومت سے برسر پیکار رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کی ابتداء سے لیکر حصول آزادی تک انہیں اہل حدیثوں نے ہی وطن عزیز کیلئے سب سے زیادہ قربانی دی ہے۔
۔ تحریک اہل حدیث برصغیر میں اتحاد واتفاق او ر اخلاص سے ایک طرف دعوت دین اور اصلاح امت کا کام کرتی ہے تو دوسری طرف ظالم انگریزوں سے حکومت وسیادت کی بازیابی کیلئے بھی برسرپیکار رہی ہے ۔ وہیں پر تیسری طر ف کتاب وسنت کی تفسیر وتشریح کے میدان میں تصنیف وتالیف اور درس وتدریس میں بھی اپنا بھرپور فریضہ انجام دیتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ مصر کے مشہور ادیب اور نامور عالم دین سید رشید رضا نے اپنے ایک ہندوستانی دورے کے موقع پر کہا تھا کہ اس وقت کتاب وسنت کی خدمت جس طرح برصغیر کے اہل حدیث کررہے ہیں اگر میں نے اسے نہ دیکھا ہوتا تو کہنا پڑتا کہ دنیا میں کتاب وسنت کا چراغ گل ہوتا دکھ رہا ہے۔
💥۔اس عظیم تحریک پر کاری ضرب اس وقت پڑی جب متحدہ ہندوستان تقسیم ہوگیا اور تحریک دو حصوں میں بٹ گئی۔ لیکن اس تحریک میں دونوں جگہ مخلص علماء کی کمی نہیں تھی پاک وہند دونوں ملکوں میں ایسے جانباز غیور خدام کتاب وسنت موجود تھے جنہوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا اور کئی سالوں تک اسلاف کی محنتوں اور ان کی کاوشوں کو سنبھالا دیا لیکن مرور ایام کے ساتھ دونوں جگہوں پر کوتاہی ہوتی رہی یہاں تک کہ (2012) میں اگر وطن عزیز کے اندر یہ تحریک دولخت ہوگئی تو دوسری طرف (علامہ احسان الہی ظہیر کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے احتشام الہٰی کے اختلاف کے بعد) میں سرحد پار بھی یہ تحریک دو لخت ہونے سے نہ بچ سکی۔ بلکہ ابھی پچھلے سالوں کی بات ہے کہ کچھ سرپھرے لوگوں نے وطن عزیز کے اندر اس افتراق وانتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک تیسرے محاذ کی بھی داغ بیل ڈال دی ۔
۔ اس افتراق وانتشار کے مختصر دور میں بعض غیور اور باحمیت لوگوں کی طرف صلح وصفائی اور اتفاق واتحاد کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن کامیابی اسی سال2018 کے اسی فروری مہنے کی (24) تاریخ کو مشیئت الہٰی کے بعد اس وقت ملی جب ایک غیور ، باحمیت اور شیر دل نے (ولایت) سے آکر اتفاق واتحاد اور صلح وصفائی کی کوششوں کو تیز کیا اور حقیقی معنوں میں اخلاص سے محنت کرکے اسے پایہ تکمیل تک پہونچایا۔
💥۔ یہ نیک نامی شخصیت شیخنا جناب مولانا شیر خان جمیل احمد عمری حفظہ اللہ وتولاہ کی ہے جو اس وقت برطانیہ کے مشہور شہر برمنگہم میں واقع جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے (نائب ناظم اعلی ، رکن مجلس القضاء ) ہیں۔ برطانیہ میں کتاب وسنت کے متوالے نوجوانوں کی طلب اور تحریک پر اس تحریک کی داغ بیل 1975 میں ڈالی گئی جہاں سے صراط مستقیم کے نام سے ایک ماہانہ مجلہ نکلتا ہے، یورپی نوجوانوں کے مطالعہ کیلئے ایک شاندار لائبری کا قیام عمل میں آیااور وہاں کے بگڑے ماحول میں نوجوانوں کے اندر دعوت وتبلیغ کرنے کیلئے ایک فعال نوجوانوں کا شعبہ بھی ہے جسے مسلم یوتھ موومنٹ سے جانا جاتا ہے۔
۔آنجناب موصوف کی برطانیہ اور ہندوستان ہر دو جگہ جماعت کی خدمت قابل رشک اور لائق تحسین رہی ہے ۔ دو سال پہلے حضرت العلامہ شیخ مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کی شخصیت اور آپکے دعوتی وتعلیمی میدان میں خدمات پر جس گرانقدر کتاب کی تالیف عمل میں آئی ہے اس میں موصوف کی کافی محنت شامل حال رہی ہے۔ اسی سال 21/جنوری کو مہسلہ کوکن میں ہونے والے (ختم نبوت کانفرنس) میں آپ ہی نے کلیدی رول ادا کیا ہے جو کہ جماعت کی طرف سے ایک بہت بڑی خدمت مانی جاتی ہے۔ یہ کانفرنس در اصل تاریخ اہل حدیث اور اس کے کارناموں پر ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کی گرانقدر خدمات کیلئے منعقد کی گئی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمات پچپن ہزار صفحات پر مشتمل پچہتر جلدوں کی کتاب (ختم نبوت) اور بارہ جلدوں پر مشتمل کتاب (تاریخ اہل حدیث ) سے عبارت ہے جو اپنے آپ میں تحریک اہل حدیث کی ایک عظیم اور شاندار خدمت ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔
۔جھولا میدان ممبئی کے اندر اسی سال 7/ جنوری کو منعقد ھونے والا چاہے پیغام حق کانفرنس ہو یا اسی دن علامہ داؤد راز رحمہ اللہ پر ہونے والی سمینار ہو ہر دو موقعوں پر فضیلة الشیخ شیر خان حفظہ اللہ کی جہود اور مساعی بالکل واضح اور نمایاں تھے۔
💥۔ یہی وہ عظیم مخلص شخصیت ہے جس نے بٹے ہوئے لوگوں کو جوڑا ہے ۔ اور اپنے اس عظیم عمل خیر سے دنیا والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب ہم زیادہ دنوں تک اختلاف کا شکار نہیں رہیں گے۔ ہمارے اندر ایمانی جذبہ اور حقیقی اسلامی روح اب بھی باقی ہے۔ اگر ہمیں زیادہ دبایا ، کریدا یا ستایا گیا تو پھر ہم اور بڑے پیمانے پر متحد ہوسکتے ہیں۔ اگر ممکن ہوا تو اعلائے کلمة اللہ اور کلمہ توحید پر ہم سارے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آسکتے ہیں ۔ ہمارے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے ، رب کریم ذو الجلال نے ہمیں ہر طاقت سے نوازا ہے ۔ ہمارے اندر صرف اتحاد کی کمی ہے جس کا دشمنان اسلام بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
۔ توارد حال اور الہام الہی کی بنیاد پر توفیق ربی سے سرحد پار سے بھی اسی طرح کی خبریں آرہی ہیں اللہ کرے سچ ثابت ہو اور سچے مسلمان دنیا میں ہر جگہ متحد وشیر وشکر ہوجائیں ۔ یہی وقت کی ضرورت ہے اور یہی وقت کی پکار ہے۔ بلکہ اس پرفتن اور آزمائش وابتلاء کے کٹھن دور میں اسی کی اشد حاجت ہے۔
۔ اس دنیا کے اندر پیار ومحبت ، صلح وآشتی اور دعوت الہی کا پیکر بن کر زندگی گزارنے کا نام ہی سچا مومن ہے ۔ منصب وعہدہ ، رعب ودبدبہ اور نام ودھاک دنیا پرستی کا دوسرا نام ہے ۔ صحابہ کرام نے اپنے کردار سے ہمارے لئے اسکی مثال قائم کردی ہے۔اجر وثواب، نیک نامی اور ذکر جمیل اسی کے حصے میں آتی ہے جو کسی نہ کسی طور پر انسانیت کیلئے خیر خواہی ، احسان اور ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوئے اسکی خدمت میں اور اپنے رب کی عبادت میں اس فانی دنیا کی زندگی کو گزار دیتا ہے۔
💥۔اگر مثبت پہلو سے دیکھا جائے تو یہی صلح واتفاق ہے جو فرمان الہی(فاصلحوا بین أخویکم) کی شکل میں جہاں ایک طرف واجب کا درجہ رکھتی ہے تو دوسری طرف (لا خیر فی کثیر من نجواہم إلا من أمر بصدقة أو معروف أو إصلاح بین الناس) کی شکل میں اس کار خیر پر ابھارا گیا ہے۔ اور اگر منفی پہلو سے دیکھا جائے تو یہی وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر ابلیس لعین اور اسکے چیلے سب سے زیادہ مایوس ، ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں اور دو گروہوں کے مابین خصوصا زوجین کے مابین افتراق وانتشار ابلیس کیلئے دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔
۔اس سے ظاہر ہوا کہ جتنے مثبت پہلو کے فرشتہ صفت لوگ ہوں گے ان سبھی کو اس عظیم کارنامے پر خوشی اور فرحت ومسرت حاصل ہوئی ہوگی اور انہوں نے خوب خوب دعائیں دی ہوں گی ان نفوس عظیمہ کو جنہوں نے اس کار عظیم میں کسی بھی طور حصہ لیا ہوگا۔ اور جتنے بھی منفی پہلو کے شیطان صفت خناس قسم کے لوگ ہوں گے ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری ہوگی اور اسی وقت سے یہ جل بھن رہے ہوں گے۔
۔ میں احباب جماعت اور اسکے ذمیداروں سے یہی امید کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کے سارے سابقہ کمزوریوں، غلطیوں اور سخت کلامیوں کو درکنار کریں گے، عفو ودر گذر اور احتساب خودی کا جذبہ پیدا کریں گے، آپس میں شیر وشکر ہوکر شکر الہی کے بعد( شیر ببر) کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سال کو (عام الجماعة )کے نام سے یاد کریں گے اور اپنی جماعت کے حق میں حسن ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے تاریخی ریکارڈ کو محفوظ کر لیں گے جس کی فضیلت حدیث نبوی میں کچھ اس طرح بتائی گئی ہے: (إن ابنی ہذا سید ولعل اللہ أن یصلح بہ بین فئتین من المسلمین)۔نیز پیار ومحبت کے جذبے سے دینی ودعوتی کاز کو آپسی رائے ومشوروں سے آگے بڑھائیں گے اور کسی غیر کو ہنسنے کا دوبارہ کبھی موقع نہیں دیں گے۔
۔اس صلح وآشتی اور اتفاق واتحاد میں جن لوگوں نے بھی محنت کی ہے سب مبارکبادی کے مستحق ہیں خصوصا جماعت کے دونوں فریق کے ذمیداران جنہوں نے صبر وبرداشت ، عفو ودرگذر اور تنازل وتوافق کی بنیاد پر ایک ہوئے ہیں اور خاص کر شیخ شیر خان جمیل احمد عمری صاحب جن کی خصوصی محنتوں اور مخلص جہود وکاوشوں سے بتوفیق الہی یہ عظیم کارنامہ انجام پایا ہے۔ اللہ سب کو سلامت رکھے ، دعوتی ، دینی، تعلیمی، سیاسی اور سماجی ہر میدان میں اس جماعت سے بھر پور خدمات لے، منافقوں اور بدخواہوں سے جماعت کو محفوظ رکھے اور ہم سب کو ادب واخلاق کے ساتھ کتاب وسنت پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین
رنگ لائی فکر مندی شیر احمد خان کی
پہونچی خوش انجام تک ان کی بالآخر ثالثی
(انور یوسفی)
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1577403035706311&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق