الجمعة، 19 أكتوبر 2018

💥احمد ریسونی اور سلمان ندوی: ایک سکے کے دو رخ💥- 2


✍بقلم: محمد اجمل المدنی
قسط نمبر ۲:
........................................................................................

سب سے زياده تفصيلى جواب  دكتور محمد بن ابراہيم سعيدى نے لكها جس كا عنوان ہے: (الصبر الجميل على عثرة الشيخ الجليل- رد على أغاليط الشريف الريسوني بحق السلفية)، جس كا خلاصہ اختصار كے ساتھ پيش خدمت ہے: 
احمد ريسونى جيسے جليل القدر  ذى علم كا اہل باطل كى صفوں ميں جا پڑنا بڑے افسوس كى بات ہے ۔ تكليف اور بڑھ جاتى ہےجب اس طرح كا عالم دين  اقليت ميں جينے والے ان سلفيوں كے خلاف ہوجائے جن كا كتاب وسنت پر عمل پيرا ہونا اس پر آشوب اور پر فتن دور ميں انگاروں پہ چلنا جيسا ہو، اور جن كے خلاف پورى دنيا سمٹ كر ايك ہوچكى ہے۔ ان سلفيوں سے ميرى مراد مملكہ ميں رہنے والے وه تمام لوگ ہيں جو كتاب وسنت پر منہج سلف كى روشنى ميں چلتے ہيں چاہے ان كا تعلق حكومت سے ہو يا عوام سے ، علماء سے ہو يا طالبان علوم نبوت سے۔ ريسونى صاحب نے  سلفيوں كے خلاف اپنا   ظالم مضمون  اسى محرم الحرام كے مہينے ميں چهپوايا جس كے بارے ميں الله نے فرمايا ہے: (فلا تظلموا فيهن أنفسكم)،  اب آگے ايك ايك كر كے مضمون كا جواب لكها جارہا ہے:   
1) - : عنوان ميں جس طرح اسلام كو سعودى كى طرف منسوب كيا گيا يہ اپنے آپ ميں انوكها ، نرالا بلكہ عجوبۂ روزگار ہے۔ كيونكہ اس طرح كى اسلام كى تقسيم نہ تو ہميں كتاب وسنت ميں ملتى ہے نہ ہى سلف صالحين كے يہاں اور نہ ہى متاخيرين خلف كے يہاں۔  "ان الدين عند الله الاسلام"  كہہ كر الله نے دينِ اسلام كو صرف اپنے لئے پسند كيا ہے۔ اس طرح كسى  علاقے اور كسى فكر كى طرف اسلام كى نسبت كرنے كى روش صرف اور صرف موجود دور ميں مستشرقين اور دشمنانِ اسلام ہى كى رہى ہے چنانچہ وہى لوگ ريڈيكل اسلام ، معتدل اسلام، روايتى اسلام، ماڈرن اسلام  اور متشدد اسلام  وغيره كہہ كر مسلمانوں كو مختلف خانوں ميں بانٹنے كى سازش رچتے رہتے ہيں۔ اور بالكل اسى  حركت شنيعہ كا ارتكاب رافضى شيعہ بهى كرتے ہيں جب اپنے علاوه دوسرے مسلمانوں كو سنى اسلام كے ماننے والے كہہ كر پكارتے ہيں۔   جناب احمد  ريسونى نے جس طرح گہرائى كے ساتھ مقاصدِ شريعت كو حاصل كيا ہے اگر وه بهى انہيں ايسا كہنے سے نہ روك سكا تو الله كے اس فرمان كى وجہ سے انہيں ضرور  ايسا كہنے سےركنا چاہيئے تها: ﴿يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا لِمَ تَقولونَ ما لا تَفعَلونَ﴾.
2) - : يہ مضمون علمى ، دعوتى اور ناصحانہ اسلوب سے بالكل عارى  صرف سياسى اور شخصيتى مصلحتوں پر مبنى ہے۔ كيونكہ اس كے اندر علمى جان بالكل نہيں ہے،  دليل ووضاحت سے بالكل خالى صرف ہجومى اور نفيساتى ہيجانى كيفيت سے پُر ہے۔ دوسرے يہ كہ حضرت نے جس طرح سلفى منہج اور سعودى علماء پر حملہ كيا ہےاس سے لگتا ہے موصوف كے نزديك يہ اسلوب  وفكر كوئى نيا نہيں ہے۔ توپهر آپ نے اپنى اس نادر  اور اسلام متعارض فكر كو پہلے كيوں نہيں ظاہر كيا؟ سعوديہ كے قطر اور اخوانيوں سے اختلاف كے بعد ہى كيوں ظاہر كيا؟ آخر اس سے كس طرح كے علم ودين كى خدمت مقصود ہے؟ تيسرے يہ كہ آپ كافى مدت تك سعودى ميں گزار چكے تهے ، وه بهى  هيئة كبار علماء كے ساتھ بلكہ رابطہ عالم اسلامى كے رئيس ڈاكٹر عبد الله تركى كے ساتھ۔ كيا ان سعودى كبار علماء كو اس طرح كى نصيحت نہيں كر سكتے تهے؟   آخر كون سى چيز  اس سے مانع  اور حائل تهى؟كيا سعوديہ سے نكلنا اور امارات كا قبول نہ كرنا  حضرت كےدل ميں اتنا گہرا اثر ڈال ديا كہ جس سے فكر ومنہج ميں اچانك اس قدر تبديلى آگئى جس كا تصور ايك صالح مسلمان سے ممكن نہيں ہے چہ جائيكہ ايك منجھے ہوئے عالم دين سے۔
3) - : ريسونى كا يہ گمان كہ سلفى منہج بنام سعودى اسلام مملكہ كے سياسى ومالى اثر ورسوخ كى وجہ سے پورى دنيا ميں پهيلا ہے بالكل غلط ہےبلكہ يہ ايك سوچى سمجهى  بهيانك علمى خيانت ہے۔ كيونكہ يہ سلفى منہج مملكہ كے پہلے دور حكومت ہى ميں  عالم اسلامى ميں پهيل  چكا تها۔ دوسرے ملكوں كو چھوڑئيے خود ريسونى كے ملك مراكش ميں علامہ ، امام ، سلطان المغرب مولى محمد ثالث بن عبد الله متوفى 1204ھ سلفى دعوت سے متاثر تهے۔ ان كے بعد ان كے بيٹے مولى سليمان كے پاس امام سعود رحمہ الله نے سلفى دعوت كى تشريح بهيجى جس سے متاثر ہوكر ملك سليمان نے شيخ محمد بن عبد الوہاب كى سلفى دعوت كى حقيقت  حال جاننے كيلئے ايك وفد بهيجا جو اس نتيجے پر پہونچا كہ يہى سلفى دعوت ہى اصل صحيح اسلام ہے۔  پهر ملك سليمان نے اپنے پورے مملكت ميں ايك عام پيغام بهجوايا جو بعينہ شيخ محمد بن عبد الوہاب اور عہد اول كے علماء سعوديہ كے منہج پر مشتمل تها۔  ان دونوں كے علاوه مراكش كے دوسرے سلاطين بهى اس سلفى منہج سے متاثر ہوئے۔  
سلاطين كے علاوه مراكش كے بہت سارے علماء اور رہنما بھى اس منہج سے متاثر ہوئے جن ميں علامہ عبد الرحمن نتيفى ، آپ كے بيٹے حسن بن عبد الرحمن نتيفى، علامہ بو شعيب دوكالى اور علامہ علال فاسى جيسے مراكش كےعلمى ميدان ميں  چار چاند  مانے جاتے ہيں جنہوں نے ديگر مغاربہ كے ساتھ وہاں كے دينى وعلمى ماحول ميں خاصا اثر ڈالا ہے۔  لہذا كسى ملك كے سياستدانوں كے ساتھ كسى نوعيت كى خصومت كى بنياد پر ايك فقيہ دين وملت كو يہ زيب نہيں ديتا كہ وه پورى قوم كے منہج سے دشمنى مول لے۔ شيخ محمد بن عبد الوہاب كى دعوت اور اسلامى دنيا پر آپ كے سلفى منہج كے اثرات كے تعلق سے بہت سارى كتابيں لكهى جا چكى ہيں ، ان ميں  ان پانچ  كا مطالعہ خاصا فائده مند ہوگا:
1- حقيقة دعوة الشيخ محمد بن عبد الوهاب وأثرها في العالم الإسلامي،تأليف: محمد بن عبد الله بن سليمان السلمان۔ 
2- عقيدة الشيخ محمد بن عبد الوهاب السلفية وأثرها في العالم الإسلامي،  تأليف:  الدكتور صالح بن  عبد الله بن عبد الرحمن العبود۔ 
3- المجددون في الإسلام من القرن الأول إلى القرن الرابع عشر الهجري،   تأليف: عبد  المتعال الصعيدى
4- صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان. تاليف: محمد بشير سہسوانى ۔
 يہ كتاب در اصل احمد زينى دحلان كى كتاب : "الدرر السنية في الرد على الوهابية"  كے جواب ميں لكهى گئى ہے۔
5- أثر الدعوة  الوهابية في الإصلاح الديني والعمراني في جزيرة العرب وغيرها،   تاليف:  الشيخ  محمد حامد الفقى الأزہرى
اردو ميں بهى آپ كے منہج پر كافى لكها گيا ہے البتہ ان  درج ذيل كتابوں كا مطالعہ كافى سود مند ہوگا: 
1- محمد بن عبد الوہاب : ايك مظلوم اور بدنام مصلح,  تاليف: مسعود عالم ندوى
2- شيخ محمد بن عبد الوہاب  كى سيرت ، دعوت اور اثرات  ،   تاليف: جمال الدين زرابوزو –  ترجمہ:  اسد الله مدنى  -  مراجعہ: شفيق الرحمن ضياء اللہ مدنى
3- شيخ محمد بن عبد الوہاب كے بارے ميں دو متضاد نظريئے، تاليف: شيخ محفوظ الرحمن فيضى
4- امام محمد بن عبد الوہاب كى دعوت اور علماء  اہل حديث كى مساعى، تاليف:  ابو المكرم عبد الجليل 
5- تحفۂ نجد ، تاليف: محمد داؤد غزنوى
6- شيخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب كى دعوت اہل انصاف كى نظر ميں،   تاليف: مولانا عبد الوہاب حجازى استاذ جامعہ سلفيہ بنارس۔ يہ در اصل ايك مقالہ ہے جو سہ ماہى مجلہ  ترجمان السنہ  اپريل 2011ء ميں شيخ رضاء الله عبد الكريم مدنى نے شائع كيا تها۔ 
6- الصواعق الإلهية لطرد الشياطين اللهابية ، تاليف: شيخ بشير الدين قنوجى۔
اس كتاب كو آپ نے ايك قبورى عالم فضل رسول بدايونى كى كتاب  "البوارق المحمدية " كے رد  ميں فارسى زبان ميں  لكهى تهى جسے 1290ھ ميں  شائع كيا تها۔  اس كتاب كے اندر شيخ محمد بن عبد الوہاب ، شيخ الاسلام ابن تيميہ اور علامہ محمد اسماعيل دعلوى پر اہل تقليد كے اعتراضات كا رد ہے۔ 
7- سلفيت پر اعتراض كرنے والوں كے خلاف  ڈاكٹر رضاء الله محمد ادريس مباركپورى كى موقر  كتاب  "سلفيت كا تعارف اور اسكے متعلق بعض شبہات كا ازالہ" سود مندى سے خالى نہيں ہوگا۔ 
4) - :  جناب ريسونى كے بقول عالم انسانيت كے مسلمان عمومى طور پر اور عالم اسلام كے مسلمان اور اسلامى تحريكوں سے جڑے افراد خصوصى طور پر سعودى سے نكلى سلفى تحريك سے بہت حد تك متاثر ہوئے ہيں۔ اب سوال يہ ہيكہ كيا اتنى بڑى تعداد ميں لوگ اس سلفى تحريك سے متاثر ہوئے تو يہ سارے كے سارے لوگ بيوقوف ، دهوكہ كهائے ہوئے اور سعوديہ كے پيسوں پر پلنے والے لوگ ہيں؟  اتنى بڑى تعداد ميں ان مسلمانوں اور اسلامى تحريكوں كے تعلق سے ريسونى كا اگر يہ نقطۂ نظر ہے تو پهر انہيں اُن حكومتوں اور فوجى طاقتوں پر كيوں اعتراض ہے جو اسلامى تحريكوں كو حكومت اور سلطنت تك پہونچنے ميں ركاوٹ ڈال ديتى ہيں؟ 
5) - :ريسونى صاحب نے بڑے افسوس اور كربناكى كے ساتھ يہ كہنے كى جرأت كى ہے كہ مملكت سعوديہ سے اٹهنے والى دعوتى اور سلفى اثر دنيا كے تمام مسلمانوں پر خصوصاً عالم اسلامى پر بڑا گہرا ہواہے۔   يہ ريسونى جيسے مخالفين سعودى كى طرف سے منہج سلفى كے حق ميں بہت بڑى گواہى ہے جو بلا شبہ لائق ستائش ہے۔  ليكن ہم دونوں كا اختلاف اس سلفى منہج كے اثرات كے نتائج ميں ہے۔ اب آنجناب تحريكى ، رافضى  ، تقليدى اور صوفى ماسك ومنظار كى روشنى ميں كچھ بهى سمجهتے ہوں ليكن بظاہر اور حقيقت ميں اس كے نتائج بڑے ہى نتيجہ خيز اور حوصلہ افزا ہيں جن ميں كچھ يہ ہيں: 
مسلمانوں كے دلوں سے اوہام وخرافات كے بندهن كافى حد تك ٹوٹ چكے ہيں اور  مسلسل ٹوٹ رہے ہيں۔ 
بحث وتحقيق اور ادلہ شرعيہ كى طلب كا دائره بڑها اور مضبوط ہوا ہے ؛ چنانچہ علماء ، طلبہ اورعوام ہر ايك يہاں كتاب وسنت كے نصوص مطہره كى تعظيم بيٹهتى جا رہى ہے۔ 
مسلمانوں كے دلوں ميں اسلامى شناخت كا شعور جاگزيں ہوا ہے ۔ عسكرى اور فكرى ہر محاذ پر  سامراج (Imperialism) كا مقابلہ كرنے ميں مسلمانوں كى ہمت مضبوط ہوئى ہے۔ چنانچہ عالم اسلامى ميں سامراجيوں كا مقابلہ كرنے كيلئے جتنى بهى تحريكيں وجود پزير ہوئى ہيں ان كے نماياں رہنما سلفى فكر ہى كے رہے ہيں۔ خاص طور سے اگر مراكش ميں ديكها جائے تو وہاں كے نماياں رہنما يا تو سلفى رہے ہيں يا سلفى منہج سے متاثر رہے ہيں۔ ان ميں عبد الكريم خطابى اور آمگار موحا  اوحمو زيانى كافى مشہور ہوئے جو كہ شيخ نتيفى كے مفتى اور مشير خاص ره چكے تهے۔ يہ تو ايك صدى پہلے كى بات ہے ليكن آج بهى دورِ حاضر كا مكار استعمار انہى سلفيوں سے مرعوب ہےاور اسے صرف انہيں سے خطره ہے جنہيں ريسونى صاحب مسلمانوں كے دلوں ميں مبغوض بنا كر پيش كر رہے ہيں۔ 
 سلفى منہج ہى امت اسلاميہ كے مجد وشرف كو بحال كرسكتى ہے۔ اسى منہج پر مملكت سعودى عرب كا قيام اور اسلامى شريعت كى پورى قوت سے تطبيق اس كيلئے ايك واضح نمونہ اور جيتى جاگتى مثال ہے۔ بالكل اخوانيوں كا مقصد بهى يہى ہے ليكن چونكہ ان كى فكر اور منہج سلفى نہيں ہے اسى لئے وه ہر جگہ ٹهوكر كها كر گرتے ہيں۔ اپنے تحريكى اور خارجى فكر كى وجہ سے پہلے درجے ميں وه حكومتوں كو كافر وملحد گردان كر اسے فوراً گرانے كوشش كرتے ہيں اسى لئے قوم پرست ، سيكولر رہنما اور ملحدين سب ان كے خلاف ہوجاتے ہيں پهر نتيجے ميں گرفتارى ، قيد وبند اوردار ورسن كے سوا كچھ ہاتھ نہيں آتا ، نيز امت مسلمہ كى رسوائى الگ سے۔  اسكى واضح مثال 1948ء ميں يمن كے اندر انقلاب كے ذريعے امام يحيى كا قتل،  1952ء ميں مصر كے اندر شاه فاروق كا تختہ پلٹ، نيز دور حاضر ميں عرب بہاريہ كى شكل ميں انقلاب لانے كى كوشش كہ جس سے امت مسلمہ كى رہى سہى كسر بهى رخصت ہوچكى ہے۔ يہ سچ ہے كہ عزت وشرف توحيد خالص اور سنت نبويہ كى روشنى ہى ميں حاصل كى جاسكتى ہے نہ كہ انقلاب وتمرد كے ذريعے، ارشاد بارى ہے: ﴿وَلَو أَنَّ أَهلَ القُرى آمَنوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَيهِم بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ وَلكِن كَذَّبوا فَأَخَذناهُم بِما كانوا يَكسِبونَ﴾سورة الأعراف: ٩٦  
6) - : ريسونى صاحب كا يہ كہنا كہ دنيا كے مسلمانوں پر سلفيت كا اثر ان كى غفلت اور نا سمجهى نيز سعودى دولت كى ريل پيل كى وجہ سے ہےاس ميں بہت بڑا مغالطہ اور امت كے ساتھ دهوكہ ہے۔يا پهر يرقان فكرى ، خر دشتى اور تجاہل عارفانہ كے علاوه كچھ نہيں ہے۔اس لئے كہ سلفيت ہى مذہب اسلام كا صحيح ترجمان ، كتاب وسنت  اور فہم سلف كا نچوڑ ،  فطرت سليمہ اور عقل رشيد كے موافق ہے۔ كيونكہ  يہاں بنده قبور وقباب اور  درگاه وخانقاه سے آزاد ہے، وه اپنے سارے حاجات الہ واحد عز وجل كے سامنے ركهتا ہے:  ﴿وَإِذا سَأَلَكَ عِبادي عَنّي فَإِنّي قَريبٌ أُجيبُ دَعوَةَ الدّاعِ إِذا دَعانِ فَليَستَجيبوا لي وَليُؤمِنوا بي لَعَلَّهُم يَرشُدونَ﴾ سورة البقرة: ١٨٦۔  يہاں ہر طرح كے شيخ وپير  اور قطب ومقتدى سے آزاد صرف رسول اكرم كى  ذات كو اسوه اور نمونہ سمجهتا ہے :  ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴾ سورة الأحزاب:21۔     
دين كى يہى تصوير اور اسكا يہى منہج تها جسے ليكر جزيرة العرب كے اسلامى لشكر ليبيا ، مراكش اور اندلس كے صحراء ميں پہونچے تهے اور جسے وہاں كے قبائل نے قبول كركے اسے حرز جان بنا ليا تها۔ سچ فرمايا پر ور دگار عالم نے :    ﴿فَأَقِم وَجهَكَ لِلدّينِ حَنيفًا فِطرَتَ اللَّهِ الَّتي فَطَرَ النّاسَ عَلَيها لا تَبديلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ﴾ سورة الروم: ٣٠
7) - : ريسونى صاحب مفروضہ سعودى اسلام كے بارے ميں بڑ بولے  (BOASTER) بن كر يہاں تك ہانك گئے كہ اس اسلام كا تعلق پورے طور سے نہ تو وہابيت ہے نہ تيميت ، نا ہى ظاہريت ہے اور نہ حنبليت بلكہ ان تمام كے مجموعے كا معجون مركب ہے اور ساتھ ہى اس ميں  اگر ايك طرف صحرائى ريت كى قساوت اور سختى ہے تو دوسرى طرف ريال كى ترى اور نرمى ہے۔ 
ہر با شعور قارى يہ احساس كر رہا ہوگا كہ اس طرح كى گفتگو اور اسلوب خطاب  نہ تو اہل علم ودانش كو زيب ديتا ہے نہ ہى كسى صحافى كو  چہ جائيكہ اس طرح  كى گفتگو كوئى شريف زاده مقاصد شريعت كا ماہر فقيہ قوم وملت كرے۔  غالب گمان يہى ہے كہ ريسونى صاحب نے حكمت سے خالى خر دشتى كى يہ حركت  سعودى وامارات سے مايوس ہوكر يا س وقنوطيت (PESSIMISM)  كى انتہائى حالت ميں پہونچ كر كى ہوگى يا  تو  تحريكيوں  اور اخوانيوں كے  "قلعة الموت " ميں پہونچ كر ان كے حسين جنت كى خر مستيوں   كى حشيشانہ ياوه گوئى (ASSASSIN ABSURD TALKS) ہوگى۔  كيونكہ جناب نے اس طرح كى فقيہانہ ومقاصدانہ سب وشتم پر نہ تو كوئى ثبوت فراہم كى اور نہ ہى اس پر كوئى مثال پيش كى ہے۔ 
پهر اگر يہ سلفى دعوت عرب كے ريتيلى صحراء سے نكلى ہے تو اس ميں عيب كى  كونسى بات ہے؟   سيد المرسلين اور خير البشر نبى اكرم صلى اللہ عليہ وسلم  كى دعوتِ دين آخر كس قسم كى سرزمين سے پنپى تهى؟  پهر كيا جناب ان مرابطين اور ان كى سلفى دعوت كو بهول بيٹھے جنہوں نے مراكش ہى كى سرزمين پر منہج سلف كى روشنى ميں حكومت كى تهى اور جنہوں نے سقوط غرناطہ كو دو سو سالوں تك روكے ركها؟   كيا ان كى  دعوت ريتيلى صحراء سے نہيں نكلى تهى؟ 
جناب كيا جوش ِ جنوں ميں يہ بهى بهول بيٹھے كہ مراكشى مملكت  كے بانى اور موسس مولاى على الشريف  (حكومت: 1631- 1635) مشرقى مراكش ميں واقع صحرائى علاقے تافيلالت  (تاريخى نام: سجلماسة) سے نكل كر وہاں ايسى مضبوط حكومت قائم كى جن كى نسل آج بهى عنان سلطنت سنبهالے ہوئى ہے؟  كيا صحراؤں سے نكلنے والى اس طرح كى حكومتوں كو جناب معيوبسمجهنا  پسند كريں گے؟ 
كيا ريال كى ريل پيل  بهى مملكہ كيلئے كسى عيب كى بات ہے  اگر حكومت اس دولت كو  عوام كى خوشحالى اور مسلمانوں كےتعاون پر خرچ كرے؟  كيا  مقاصد الشريعہ كے كسى بحث ميں آنجناب كى نظر سے يہ حديث  نہيں گزرى:  (نعم المال الصالح للرجل الصالح)؟  اگر مملكت سعودى عرب  پٹرو ريال كى بدولت بلاد ِ كفر ميں دعوت وتبليغ، مسلم ملكوں بشمول مراكش ميں  اصلاح عقائد، مدارس ومساجد كے قيام ، كنواں كهودنے ، ہينڈ پمپ لگانے نيز  اسپتالوں كے كهولنے اور ناگہانى مصيبت ميں اپنا سرمايہ خرچ كرے تو آخر اس ميں كسى كو تكليف كيوں ہے؟ 
  كيا آنجناب ريال كى تراوٹ اور اسكى چاشنى سے محفوظ رہے؟ يا چاہت سے كم ملى اسى لئے برانگيختى پر اتر آئے؟   كيا يہ ريال كى تراوٹ نہيں ہے جس كى چاشنى  جده ميں ره كر  حضرت مدتوں  ليتے رہے؟  كيا يہى ريال اور اماراتى درہم نہيں ہے جسكا سالوں سال آنجناب وظيفہ خواررہے؟ كيا يہى ريال ودرہم  كى چاشنى نہيں ہےجس كے نہ ملنے سے آنجناب باولے  ہوكر جزيره ٹى وى ميں امارات وسعودى كے خلاف ياوه گوئى پر اتر آئے تاكہ قطرى ريال كى تراوٹ اور اسكى چاشنى كا سہارا مل سكے؟ 

جارى ........................... وللكلام بقية
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1463410070438942&id=100003098884948

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...