قسط نمبر۱
✍بقلم : محمد اجمل المدنى
................................................................................................
جناب کا پورا نام احمد بن عبد السلام بن محمد الريسونى ہے۔ آپ افریقی ملک مراکش کے ہیں۔ قضا اور اصول فقہ آپ کا تخصص رہا ہے۔ تدریسی، اداری اور قانونی کے مختلف فرائض انجام دیکر 2006 ء میں اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر جدہ سعودی چلے آئے۔
*فکری اور سیاسی تجربہ:
اسلامی فکر کے حامل آپ شروع ہی سے تھے اور بہت ہی متحرک واقع ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مراکش میں ایک اسلامی جمعیت کو بنانے میں جلد ہی کامیاب ہو گئے۔ اسى كے ساتھ "رابطة المستقبل الإسلامي" نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی۔ اور كچھ دنوں كے بعد «الإصلاح والتجديد» کے نام سے ایک تحریک بھی بنا ڈالی۔ ان دونوں (تنظیم وتحریک) کی فکر بالکل وہی ہے جو «الشبيبة الإسلامية» نامی تنظیم کی تھی جسے عبد الکریم مطیع نے ستر کی دہائی میں قائم کیا تھا۔ البتہ مصری اخوانی تنظیم کی طرح اس کے کارکنان کو بھی قید وبند کے حوالے کر دیا گیا۔ کیونکہ اس تنظیم پر 1975 کے اندر ایک سیکولر لیڈر عمر بن جلون کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ 1996 میں دونوں کو ضم کر کے «الإصلاح والتوحيد» کے نام سے ایک الگ تحریک بنائی۔ اور 2003 تک آپ اس کے صدر رہے۔ لیکن اسی سال الدار البیضاء میں پے در پے دھماکوں کے بعد آپ کو سخت تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے آپ کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ آپ نے کئی علمی اور ثقافتی جمعیتوں کے قیام میں بھی حصہ لیا۔
*سعودی اور الریسونى:
جناب كواصول فقہ اور قضا کے میدان میں کام کرنے کیلئے سعودی بلایا گیا۔ یہاں جدہ میں سعودی اور امارات کے تعاون سے "معلمة زايد للقواعد الفقهية والأصولية" جیسے عظیم پروجکٹ کے تحت "مجمع الفقه الإسلامي الدولي" کے نام سے اسلامک فقہ اکیڈمی قائم کیا گیا تھا جس میں آپ نے ایک ماہر تجربے کار کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس پروجکٹ کے آپ نائب مدیر بنے اور پھر مدیر بن گئے۔ اس اثنا میں آپ نے مکہ مکرمہ اوپن یونیورسٹی کی مجلس علمی کی رکنیت حاصل کی، "المعهد العالمي للفكر الإسلامي" میں تعلیمی مشیر کی حیثیت سے بھی کام کیا اور ساتھ ہی جامعة زايد بالإمارات العربية، اور جامعة حمد بن خليفة بقطر كے مہمان استاذ بھی رہے۔ 2013ء ميں اس عظيم فقہى موسوعہ كى تكميل كے بعد آپ كى خواہش امارات جانے كى ہوئى۔ ليكن كسى وجہ سے سعودى اور امارات نے آپ كى يہ خواہش پورى نہيں كى۔
اسى مسئلے كو ليكر جناب امارات اور سعودى كے مخالف ہوگئے اور دسمبر 2013ء ميں "رابطة علماء أهل السنة" كے ركن بن گئے اور " الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين " كے نائب صدر بنا ديئے گئے۔ اور يہ معلوم ہے كہ يہ دونوں تنظيميں "رابطة العالمي الإسلامي" اور "هيئة كبار العلماء" كى مخالفت ميں بنائى گئى ہيں۔ جس ميں اخوانى ، تحريكى ، رافضى ، صوفى اور قبورى ہر فكر كے لوگ اكٹها ہيں۔ 25/اگست 2016ء ميں چيچينيا كى راجدهانى گروزنى كے اندر مؤتمر اھل السنة والجماعة كے نام سے صوفى عالمى كانفرنس انہيں لوگوں كى تحريك پر بلائى گئى جس ميں يہ اعلان كيا گيا كہ سلفى وہابى سعودى فكر كے حامل لوگ اہل السنہ سے خارج ہيں۔ اس كانفرنس ميں اہل السنہ اسى كو مانا گيا جو صوفيت اور تقليد جامد ميں يقين ركهتا ہے۔گويا ان كى نظر ميں كتاب وسنت كو ماننا اور اس پر عمل پيرا ہونا ايك ثانوى درجہ سے زياده كوئى اہميت نہيں ركهتا ہے۔ اس كانفرنس كے آخر ميں صوفى ناچ كا پروگرام بهى چلاجس ميں سارے تحريكى ، رافضى اور صوفى ناچتے ہوئے ديكهے گئے۔
اس طرح جناب اماراتى اور سعودى مخالفت ميں تحريكيوں سے جاملے اور انہيں كے پليٹ فارم سے سعودى پر اپنا غصہ اتارنے لگے۔ آپ كا معاملہ بالكل مولانا سلمان ندوى جيسا ہے ۔ دونوں كے حالات زندگى اور كارناموں كو ديكھ كر اس كا صحيح اندازه لگايا جاسكتا ہے ۔ خاص طور سے اس وقت جب مولانا سلمان ندوى كے بارے ميں شيخ عبد المعيد مدنى اور جناب محمد شاہد خان ندوى كى تحريريں اور دكتور احمد ريسونى كے بارے ميں دكتور محمد بن ابراہيم السعيدى -أستاذ الفقه وأصوله بجامعة أم القرى- اور جناب عبد الواحد الأنصارى كى تحريريں پڑھ ليا جائے۔
ريسونى صاحب نے ابهى حال ميں سعودى اور سلفى علماء كے خلاف كچھ زياده ہى زہر افشانى كردى اور ايك مقالہ بعنوان " الإسلام السعودي من الازدهار إلى الانحدار" لكھ مارا جسے 21/ محرم الحرام 1439ھ موافق 12/ اكتوبر 2017ء كو ايك مراكشى ويب سائٹ " العمق" نے نشر كيا اور تحريكيوں نے اسے خوب تشہير كيا۔ايك تحريكى مبصر ذو القرنين حيدر سبحانى نے اس مقالے كا اردو ميں بعنوان "سعودى حكومت كا اسلام چڑهاؤ سے اتار كى طرف" ترجمہ كيا جسے فورى طور پر افكار ملى نے اسى مہينے نومبر كے شمارے ميں نشر كرديا۔ اس طرح بر صغير ہند وپاك ميں بهى اس مضمون كا خوب چرچا ہوا ۔ اور تحريكى اسے سوشل ميڈيا ميں پهيلا پهيلا كے پهولے نہيں سما رہے ہيں۔
اس مضمون كى شكل وصورت ، علمى وزن ، ديانت دارى نيز تحرير كى موضوعيت ، اصالت اور حيثيت بالكل ويسے ہى ہے جيسے ابهى كل يكم نومبر 2017ء كو ايك ہندوستانى تقليدى اردو نيوز پورٹل ملت ٹائمز نے ايك خبر شائع كى جس كا عنوان ہے: (سعودى عرب ميں احاديث رسول كى از سر نو ہوگى تدوين ، كميٹى كى تشكيل، موجوده مذہبى مواد انتہا پسندى پر مبنى)۔ جس كے اندر كچھ اس طرح گل افشانى كى گئى ہے: "سعودی عرب نے انتہاءپسندی کے خاتمہ اور اسلام کو جدید شکل میں پیش کرنے کیلئے متعدد اہم فیصلوں کے بعد اب احادیث رسول کی از سر نو تدوین کا فیصلہ کیا ہے ،اطلاع کے مطابق اس کیلئے علماءودانشوران پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے ۔ رائٹر ،ٹائمز آف انڈیا اور دیگر اخبار کی رپوٹ کے مطابق سعودی عرب نے اپنے یہاں سے وہابی ازم کو ختم کرنا شروع کردیا ہے ،اسلامی تعلیمات کو جدیدانداز میں پیش کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے اور اسی سلسلے میں ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اب احادیث رسول کو از سر نو تدوین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،ذرائع کے مطابق تشدد اور انتہاءپسندی پر مشتمل احادیث کو کتابوں سے نکالا جائے گا ساتھ ہی اس بات کی بھی تحقیق کی جائے گی کہ جسے اب تک حدیث سمجھاجارہاہے تھا وہ واقعی حدیث ہے یا کوئی فرضی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہے ۔ واضح رہے کہ سعودی عرب کے نئے ولی وعہد محمد بن سلمان متعدد مرتبہ یہ کہ چکے ہیں وہ سعودی میں جدت لانا چاہتے ہیں ،فی الحال وہاں جو اسلامی اور مذہبی تعلیمات موجود ہے وہ ان کے مطابق انتہاءپسندی اور شد ت پر مبنی ہے اور اس سے سعودی عرب کی دنیابھر میں شبیہ خراب ہوئی ہے ۔"
سعودى كا ہر كام تحريكىوں اور تقليديوں كے يہاں غلط ہى دكها ئى ديتا ہے ، آپ كواس كا اچهى طرح اندازه ہوجائے گا جب اس كے بعد ايك غير جانبدار نيوز پيپر ميں اسى خبر كو پڑھيں گے چنانچہ ڈیلی پاکستان آن لائن نے 18/ اكتوبر 2017ء كواس عنوان سے نشر كيا تها: " سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خادم الحرمین الشریفین کمپلیکس برائے ’’حدیث نبویﷺ ‘‘ کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے" اس ميں مزيد لكها ہے: (کمپلیکس کا قیام مدینہ منورہ میں عمل میں لایا جائے گا۔ جس میں احادیث نبوی پر جامع انداز میں کام کیا جائے گا۔ حدیث نبوی ﷺ کمپلیکس چیدہ چیدہ علماء حدیث پر مشتمل ہو گا۔ ادارے کو چلانے کے لیے علما کونسل قائم کی جائے گی اور ممتاز شیوخ الحدیث اس کے رکن ہوں گے۔ اس کے چیئرمین اور ارکان کا تقرر براہ راست مملکت کے فرمانروا کی طرف سے کیا جائے گاجبکہ ابتدائی طور پرسعودی علماکو نسل کے رکن الشیخ محمد بن حسن آل الشیخ کو علمی کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں شاہ سلمان کی جانب سے جاری کردہ شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ احادیث اور’’ سنت رسولﷺ ‘‘ کا اہل اسلام کے نزدیک غیر معمولی مقام و مرتبہ ہے۔قرآن کریم کے بعد ’’ احادیث نبوی ﷺ ‘‘اسلا کا دوسرا ماخذ ہے۔سعودی عرب ملک میں اسلامی شرعی اصولوں پر عمل درآمد کے لیے ’’ احادیث نبویﷺ ‘‘ کی تصنیف، تحقیق اور ان کے مطالعے کا ایک جامع پروگرام شروع کررہی ہے تاکہ عوام الناس اور علمی حلقوں کو احادیث اور’’ فرمودات نبویﷺ ‘‘ سے مستفید ہونے کا نیا موقع فراہم کیا جاسکے۔تاہم متعلقہ حکام کو ’’ حدیث نبوی ﷺ ‘‘کمپلیکس کے قیام کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔)
واضح رہے كہ مدينہ منوره ہى ميں آج سے تقريباً 35 سال قبل شاه فہد بن عبد العزيز نے قرآن كريم پرنٹنگ كمپليكس كى بنياد ركهى تهى۔ اس ادارے نے قرآن مجيد كے تعلق سے عظيم خدمات انجام دين اور اب بهى مسلسل مصروف عمل ہے۔ قرآن كريم كے لاكهوں معرى اور مترجم نسخے اس اداره سے شائع ہوكر پورى دنيا ميں پہونچ رہے ہيں اور لوگوں كى ہدايت كا سبب بن رہےہيں۔ اب موجوده حكمراں شاه سلمان بن عبد العزيز كى جانب سے اسى نوعيت كے حديثى اداره كے قيام كا فيصلہ مملكت سعودى عرب كے عظيم الشان اور قابل فخر كارناموں كى ايك سنہرى كڑى ثابت ہوگا ۔ اس حديثى كمپليكس كا قيام اسى سال 17/ اكتوبر كو عمل ميں آيا ہے۔
حقيقت يہ ہے كہ سعودي عرب کتنا بھی اچھا کام کرے تحریکی لوگ اسے غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح چور ہمیشہ ڈر اور خوف میں مبتلا رہتا ہے ایسے ہی مقلد، تحريكى اور رافضی سلفیوں سے ہمیشہ گھبرائے رہتے ہیں. اصل بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید اور اس کے ترجمے وتفاسیر کو مختلف زبانوں میں مجمع ملك فهد کے تحت چھاپ کر دنیا کے کونے کونے میں فری تقسیم کیا جاتا ہے اسی طرح احادیث پر بھی کام شروع ہونے جا رہا ہے جسکا اعلان شاه سلمان نے كرديا ہے۔ حدیث کی کتابیں، ان کے ترجمے، ان کا حکم کہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف جب دنیا کے کونے کونے میں پہونچيں گے، ایسی صورت میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سب سامنے آ جائے گا. اس لئے اھل بدعت بوکھلاہٹ کے شکار ہیں اور الزام تراشی شروع کر دئیے ہیں۔
سب سے پہلے عبد الواحد انصارى كى تحرير كا خلاصہ پيش كروں گا جسے انہوں نے احمد ريسونى كے جواب ميں لكھا ہے جس كا عنوان بڑا دلچسپ ہے : (بين الريسوني وحلاّق باماكو)۔ آگے لكهتے ہيں كہ ريسونى نے سعودى كيلئے ايك الگ سے اسلام كا تعارف دنيا كے سامنے پيش كيا ہے، ايسا اسلام جو كٹر پنتھ ہو، تكفيرى ہو، بڑے بڑے علماء كو گمراه كرتا ہو، تشدد اور تلوار پر جس كا بهروسہ ہو، مسلمانوں كے مابين نت نئے فتنے كهڑا كرتا ہو اور تمام اسلامى انقلابات اور تحريكوں سے لڑتا ہو۔ ليكن اب سعودى ان تمام نظريات وافكار سے چهٹكارا حاصل كرنا چاہتا ہے چنانچہ اب اس نے اپنے تمام سفارت خانوں اور سركارى دفاتر ميں يہ احكام جارى كردئيے ہيں كہ ابن تيميہ كى كتابوں كو جلا ديا جائےكيونكہ اس متشدد سعودى اسلام نے مملكت كو اس قدر دنيا كے سامنے معيوب بنا كر پيش كيا ہے كہ اتنا ابو حيان توحيدى كى كتاب "مثالب الوزيرين" نے بهى نہيں كيا تها۔ وغيره وغيره
آگے جواب ميں لكهتے ہيں كہ يہ اچانك شيخ ريسونى كو كيا ہوگيا كہ جو سعودى ميں ره كر سلفى طالب علموں كو اپنى كتابوں اور بحوث كو پڑهنے كى نصيحت كرتے تهےاور خود سلفى كتابوں كى تعريف كرتے تهےاور جہاں انہوں نے سالوں سال ره كر وہاں كى نعمتوں كو حاصل كيااور آج انہيں كے خلاف زہر اگل رہے ہيں؟!! مجھے لگتا ہے يہ منافقت ہے كہ جس سعوديہ نے انہيں اپنا نمك روٹى كهلايا اور ان كا ہر طرح كا اكرام كياليكن اچانك انہوں نے اپنے تكفيرى چہرے كو ظاہر كرديا معمولى كسى اختلاف پر۔ يہ سب سر اسر جهوٹ ہے كہ ابن تيميہ رحمہ الله كى كتابوں كے جلانے كا حكم كہيں صادر ہوا ہے۔ مجھے افسوس ہے ايسے فقيہ عالم پر جو دنيا كے عوض اپنے دين واخلاق كو بيچ ڈالے۔ ٹهيك ہےكسى وجہ سے دنيوى نفع وقتى طور پر رك گيا تها ليكن اس كى وجہ سے اپنے دين واخلاق كو برباد كرلينا كيا معنى ركهتا ہے؟!! اس سے تو بالكل آپ ان لوگوں كى صفوں ميں پہونچ گئے جن كے بارے ميں الله تعالى نے فرماياہے: (فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ= سوره توبہ:58) ترجمہ: اگر ان منافقوں كو كچھ دے ديا جاتا ہے تو خوش رہتے ہيں اور اگر نہ ديا جائے تو فوراً ناراض ہوجاتے ہيں۔
يہ تو رہا فقيہ مراكش احمد ريسونى كا قصہ اورايك دوسرے افريقى ملك مالى كى راجدهانى باماكو كے نائى كا كيا قصہ ہے جس كا ريسونى صاحب سے گہرا تعلق ہے ؟ وه قصہ درحقيقت يہ ہے كہ ميں اپنے بهانجے عبد الله بن عبد الرحمن انصارى كے ساتھ باماكو ميں تها۔ وہاں كے افريقى صحراؤں ميں گهومنے كے بعد مجهے سخت حرارت كا احساس ہوا ۔ چنانچہ ميں نے شہر ميں آكر سب سے پہلے نائى كى دكان تلاش كى ۔ بروقت مجهے ہوٹل كے قريب ہى ميں ايك جزائرى نائى كى دكان كا پتہ چلا ۔ اس كى دكان پر گئے اور ميں جيسے ہى كرسى پر بيٹها وه نائى سعودى كى لگا برائى كرنے، قتل وغارت گرى اورنہ جانے كن كن الزامات كى بارش كرنے لگا۔ جب مجھ سے گهل مل گيا تو تهوڑى ہى دير ميں اس نے يہ اعتراف كيا كہ اس سيلون كے اندر كئى سالوں سے كام كرتا ہےليكن اس بيچ كسى نے بخشش نہيں دى سوائے ايك سعودى كے كہ جس نے ايك مرتبہ سر منڈانے كے بعد پانچ سو ڈالر بطور ہديہ پيش كيا تها۔
ايك دوسرے سعودى عالم سليمان ضحيان نے جواب ميں كہا كہ ريسونى كا يہ مضمون بالكل ہجومى ہے اس كا مقصد شہرت طلبى اورميڈيا ميں نام پيدا كرنے كے سوا اور كچھ نہيں ہے۔ دين اسلام كو سعودى كى طرف منسوب كرنا كسى عالم دين كا شيوه نہيں ہوسكتا ۔ كيا كسى فكر ، شخصيت يا علاقے كى طرف اسلام كو منسوب كر سكتے ہيں؟ كيا قطرى اسلام ، ايرانى اسلام ، مصرى اسلام اور مراكشى اسلام وغيره كہہ سكتے ہيں؟ كيا صوفى اسلام ، قبورى اسلام ، رافضى اسلام، تحريكى اسلام ، اخوانى اسلام يا قاديانى اسلام كہہ سكتے ہيں؟ كيا حنفى اسلام، حنبلى اسلام ، شافعى اسلام ، مالكى اسلام يا سلفى اسلام كہہ سكتے ہيں؟ مجهے لگتا ہے يہ جناب تحريكيوں كے صف ميں بہت پہلے سے تهے ليكن سعودى ميں رہنے كى وجہ سے اپنى زبان پر تالا لگائے ہوئے تهے ليكن جيسے ہى اس سے سارى اميديں منقطع ہوگئيں اس كے خلاف تحريكيوں كى گود ميں جاكر بولنا شروع كردئيے۔ قطر محاصرے پر اگر انہيں اتنا تكليف ہے تو پهر عراقى كردستان كے محاصرے پر تكليف كيوں نہيں ہے ؟ وه بهى تو سنى مسلمان ہيں جن كے خلاف تركى اور ايران نے مل كر سياسى فيصلہ ليا ہے۔ سعودى ميں چند متشدد تحريكى قسم كے علماء كى گرفتارى كے خلاف مذمتى قرار داد پاس كرتے ہيں ليكن تركى كے اندر جب انقلابيوں سے پاك كرنے كے نام پر ايك لاكھ بيس ہزار لوگوں كو گرفتار كيا جاتا ہے تو اس پر حضرت خاموش كيوں رہتے ہيں؟ اسرائيل سے كسى بهى قسم كے تعلق ركهنے كى بارہا مذمت كرتے ہيں اور جو نہ بهى ركھے اس پر جهوٹا الزام بهى لگاتے رہتے ہيں ليكن قطر كے خلاف اپنى زبان كو سى ليتے ہيں جس نے اسرائيل سے گہرا تعلق بنا ركها ہےاور اپنے يہاں جس نے اسرائيلى تجارتى آفس بهى كهول ركها ہےبلكہ اسرائيلى سابق صدر شمعون پيريز نے قطر كا دوره بهى كيا ہے۔ واقعى مصلحت اور دنيا طلبى كيا كيا نہيں كراتى ہے۔
جارى ............ وللكلام بقية
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1461598340620115&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق