ڈاکٹر اجمل منظور ✍
مولانا سلمان ندوی نے اپنے حالیہ ایک انٹرویو میں طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں سید امام بخاری وغیرہ کی طرح اہل حدیثوں کے موقف کی تائید کی ھے جسکی تشہیر سوشل میڈیا پر چل رہی ھے۔ تقلیدی مذہب سے جڑے ھونے کے باوجود مولانا کے موقف کی تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟ سیاسی، متلون مزاجی یا کچھ اور۔ ایک واٹساپ گروپ کے اندر میرے اسی سوال پر ایک تحریکی نے جواب دینے کے بجائے بے محل مولانا کی تعریف کے پل باندھ دیئے نیز سعودی حکومت اور سلفیوں کیلئے ذلت کا گڑھا کھود دیا۔ جس پر مجھے مجبوراً اختصار کے ساتھ مولانا سلمان اور تحریکیوں کی حقیقت کا انکشاف کرنا پڑا جو یہ ھے۔
..........................................................................
میں نے تو صرف یہ سوال کیا تھا کہ طلاق ثلاثہ میں مولانا کی اہل حدیثوں کے موقف کی تائید کرنے میں اس وقت کیا وجہ ھے؟
اتنے واضح سوال کا جواب نظر انداز کر کے لوگوں کو بلا وجہ مغالطوں میں ڈالنے اور مولانا کے متعلق تحریکیوں کا شیخ چلی والی خوش فہمیوں میں مبتلا ھونا ان کا بے وقوفوں کی جنت میں جینے جیسا لگتا ھے۔
کیوں کہ مولانا کے موقف کا کوئی ٹھکانہ نہیں ھوتا ھے۔ وہ کبھی ایرانیوں کی مدح سرائی کر کے طہران وزاہدان کی سیر وغیرہ کرتے ہیں پھر شام وعراق کو یاد کر کے ان کا مخالف بن جاتے ہیں۔
جناب پہلے بغدادی داعشی جیسے خارجیوں کی پر زور حمایت ہی نہیں کرتے بلکہ اسے امیر المومنین بھی مان بیٹھتے ہیں لیکن جب چاروں طرف سے ہواؤں کا رخ اپنے خلاف دیکھتے ہیں تو فورا پانسا پلٹ کر اسے خلیفہ ماننے سے معذرت کر لیتے ہیں۔
اور جہاں تک سلفیوں اور سعودی حکومت کا مسئلہ ھے تو جناب برسوں تک ان کے موافق ہی نہیں تھے بلکہ باپ بیٹے دونوں نے تمام سہولیات مع وظیفہ کے اوپر کی پوری تعلیم وہیں پر حاصل کی ہے۔ حضرت نے ملک عبد الله کی جو تعریف کی تھی اور جو جو مشورے دئیے تھے شاید ویسی توفیق وہاں کے علماء ووزراء کو بھی نہ ملی ھو۔ اور برسوں تک وہیں کے مشائخ ومحسنین کی نیاز مندی اور نہ جانے کیا کیا کر کے کافی چندہ اکٹھا کیا اور کٹولی وغیرہ میں بڑے بڑے مشاریع اور پروجکٹ پھیلا دئیے۔ لیکن حالیہ برسوں میں ملک سلمان سے کیا ان بن ہو گئی اور وہاں کے محسنین سے نا جانے کیا بگڑ گئی یا کٹولی کا کٹورہ من موافق نہیں بھر پایا حضرت ان سے کچھ زیادہ ہی خفا دکھ رہے ہیں۔ اور ان پر بے جا الزامات اور تہمتوں کی بارش کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔
اور سب سے زیادہ تعجب مجھے اخوانیوں اور تحریکیوں پر ہو رہا ھے کہ ایسے متلون المزاج انسان پر یہ پھولے نہیں سما رہے ہیں جو وقتِ زحمت میں یوگی مودی کا بھجن کرنے کا بھی عادی ھو۔ ٹھیک ھے حضرت کو آج ہر جگہ محرومی دکھ رہی ھے تو جز وقتی طور پر اخوانیوں کی مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں، تحریکیوں کے امیر سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ اخوان نواز ممالک سے ربط بنا رہے اور کٹولی کے تمام مشروعات اور پروجکٹس پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اب ایسے میں اگر کوئی مولانا کو حق گو بے باک نیز خوش فہمی میں نا جانے کیا کیا کہے تو اسے کیا کہا جائے؟ کیوں کہ ایسے شخص کو اگر موجودہ حالت میں عمان وقطر سے کوئی بڑا مرغا مل جائے تو پلٹی کھانے میں چند لمحات سے زیادہ نہیں لگیں گے۔ اور ایسے چندہ خور کبھی بے باک اور حق گو واقع ہوئے ھیں کیا؟
اللہ ہمیں شخصیت پرستی سے دور رکھے، حقیقت پسند، باطل سے نفرت کرنے والا بنائے، دین اسلام کا حقیقی خادم نیز ریا ونفاق سے بچائے۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه، ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل، واجعلنا خادما للإسلام والمسلمين. آمين.
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1457844524328830&id=100003098884948
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1457844524328830&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق