د۔ اجمل منظور
جناب محمد علم الله صاحب ایک نوجوان قلم کار ہیں۔ مدرسوں سے تعلیم وتربیت حاصل کر کے پختگی حاصل کی ھے، بعد ازاں کالج اور یونیورسٹی کی راہ لی۔ راجدھانی دہلی میں آکر اپنا سب کچھ بدل ڈالا۔ وضع قطع کے ساتھ ذہن وفکر بھی بدل ڈالی۔ بلکہ الٹا وہی مدرسے اور مدرسے والے ان کی نظر میں سب سے برے ھو گئے۔ جناب کبھی ان کا ذہنی لیول ناپتے ہیں تو کبھی ان کی تنگ نظری پہ ماتم کرتے ہیں۔ کبھی فتوے فتاؤں پر فضول بحث کر کے دینی احکام و مسائل کا مذاق اڑاتے ہیں تو کبھی مقصد حیات سے بالکل غافل ھو کر ماڈرن سائنس اور عصری علوم پر اس قدر فریفتہ نظر آتے ہیں جس سے لگتا ھے کہ حضرت کی نظر میں دنیا کا حصول ہی اصل معیار ھے نا کہ دین۔ معلوم نہیں انہیں پتہ نہیں یا کہ لوگوں سے یہ چھپانا چاہتے ہیں کہ پابند شرع رہ کر بھی ہر طرح کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ھے۔ اور حاصل کی جاتی رہی ھے۔
ایک مخصوص مکتب فکر کے فتاوے کو لیکر جس طرح جناب نے دینی مدارس، علماء دین اور طالبان علوم نبوت کا طنزیہ ادبی انداز میں مذاق اڑایا ھے وہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ھے کہ حضرت نے مدرسة الاصلاح میں کس چیز کی اصلاح کیلئے داخلہ لیا تھا: دینی یا دنیوی؟
شریعت کے جن دو اہم بنیادی احکام (سود اور پردہ) کو لیکر جناب نے دین اسلام کو مادیت اور الحاد جدید سے قریب کرنے کی کوشش کی ہے اس سے تو یہی لگتا ھے کہ جناب اگر غیر کا آلۂ کار نہ بھی سہی تو دین بیزار ضرور ہیں۔
ورنہ تاریخ وثقافت سے گہری وابستگی کے باوجود کیا جناب نے علامہ مودودی کی دونوں معرکة الآراء کتاب (سود اور پردہ) کا مطالعہ نہ کیا ھوگا۔ جن میں مولانا نے مزید کچھ کہنے کیلئے چھوڑا ہی نہیں ھے۔
اصلاحی ھوتے ہوئے اگر مودودی فکر بھی نہ رہی تو پھر کوئی فکر ہی نہیں جس کا دین سے کچھ واسطہ ھو۔
در اصل مدرسوں اور علماء کرام سے نفرت کی بنیاد انگریز تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ دینی تعلیم اور علماء کے خلاف نفرت پھیلانے سے ہی دینی اور اسلامی حمیت معاشرے سے ختم ھوگی۔ جس کے نتیجے میں ھماری پکڑ سماج پر مضبوط ھوگی اور ھماری حکومت کو استحکام حاصل ھوگا۔
اس کے لئے لندن میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ چنانچہ اٹھارہ سو پینتیس (۱۸۳۵ء) میں ذریعہ تعلیم پر بیٹھنے والی کمیٹی میں لارڈ میکالے (Thomas Babington Macaulay) نے اپنے پر زور مقالے (Minutes on Indian Education) کو پیش کر کے عربی، فارسی اور سنسکرت کے مقابلہ انگریزی کیلئے زبردست ووٹنگ حاصل کی۔ جس کے نتیجے میں تمام علوم کو انگریزی زبان میں حصول کو لازمی قرار دے دیا گیا۔
وہ تمام عربی مدارس جو پورے متحدہ بھارت میں جال کی طرح پھیلے ھوئے تھے اور جہاں عربی وفارسی زبان میں دینی وعربی علوم وفنون کے ساتھ ساتھ تمام عصری علوم پڑھائے جاتے تھے، لارڈ میکالے کے اس قانون کی بنیاد پر ان پر پابندی لگا دی گئی۔ ان میں سے بہت سارے مدارس کو مسمار بھی کر دیا گیا۔ ان کی جگہوں پر سرکاری امداد پر بہت سارے اسکول اور کالجز انگلش میڈیم میں عصری علوم کیلئے کھولے گئے۔ جس پر مسلمانوں کو دینی علوم کیلئے بڑی تشویش لاحق ھوئی۔ اور فطری طور پر رد عمل میں مسلمانوں کے اندر انگریزی زبان سے نفرت ھوگئی۔ لہذا اس وقت کے بڑے بڑے علماء نے تاریخی فیصلہ لیا کہ دین اسلام کو بچانے کیلئے خالص دینی علوم کیلئے ذاتی اور عوامی امداد پر مدارس کھولے جائیں۔ چنانچہ اسی دینی ضرورت کے مقصد سے جگہ جگہ مدارس دینیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
چونکہ انگریزی زبان کی شدید مخالفت کرنے والے علماء کرام تھے۔ اسی لئے انگریزوں کو اسی طبقے سے زیادہ اندیشہ تھا۔ اسی لئے ان کے دماغ میں جس طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی وہ تھا اس سر زمین کا مولوی۔ حالانکہ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔
نفرت کی ایک دوسری وجہ علماء کا انگریزوں کے خلاف اعلان جہاد کا فتوی ھے اور بنفس نفیس علماء کا جہاد میں حصہ لینا ھے۔ اور اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی ہی میں پڑ گئی تھی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ جنہوں نے دلّی کی جامع مسجد سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر کے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا تھا۔ جو کہ حقیقت میں گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جسے مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔
انگریز زدہ موجودہ ماڈرن معاشرے کی مولوی مخالفت کی سنگین صورت حال کو بھی اوریا مقبول جان نے اس طرح واضح کیا ھے: (ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ - یعنی اللہ کی جانب بلانا- ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔
عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت کی روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔ اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبہے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔)
حقیقت یہی ھے -جیسا کہ آغاز میں بتایا گیا- کہ انگریزی حکومت کے سائے میں ان مدارس کے قیام کا مقصدِ وحید محض نونہالانِ قوم وملت کو مغربی تہذیب جدید سے دور رکھ کر ان کیلئے دینی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرنا نیز انہیں اخلاقی قدروں سے آراستہ کرنا تھا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی نیتوں کے ساتھ اپنے اپنے خاص اہداف ومقاصد کے حصول میں سر گرداں ھے۔ سچ فرمایا پروردگار عالم نے : (قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا) ترجمہ: کہہ دیجئیے! کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر عمل کر رہا ہے۔ اور جو پوری ہدایت کے راستے پر ہے اسے تمہارا رب ہی بخوبی جاننے واﻻ ہے۔ (17-الإسراء:84)
چنانچہ جس طرح انگریزی اسکولوں اور کالجوں کا مقصد داعی اور عالم بنانا نہیں ھے بالکل اسی کے بر عکس مدارس دینیہ کا مقصد ڈاکٹر اور انجینئر بنانا بھی نہیں ھے۔ یہ الگ بات ھے کہ مدارس دینیہ کے تربیت یافتہ دینی میدانوں کے ساتھ ساتھ آپ کو سماج کے ہر شعبے میں دکھائی دیں گے۔ جبکہ اس کے بالکل بر عکس کالجوں کے تربیت یافتہ دینی میدانوں میں تو دِکھنے سے رہے وہ عربی اور دینی علوم وفنون کے حروف تہجی سے بھی واقف نہیں ھوتے ہیں۔ آپ سماج میں ایسے بہتوں کو پا جائیں گے جنہیں قرآن کی بعض چھوٹی چھوٹی سورتوں کو یاد کرنے کیلئے انگریزی یا ہندی تلفظ کا سہارا لینا پڑتا ھے تاکہ محض سو روپئے والے کرتا پیجامہ کے منفرد جوڑے اور مسجد کی فری والی ٹوپی میں جمعہ اور عیدین کی نماز ادا کر سکیں تاکہ مسلم کمیونٹی میں نام برقرار رہ سکے اور نان مسلموں میں اپنی آزاد فکری پر واہ واہی بھی لوٹتے رہیں۔
الله رب العزت مسلم نوجوانوں کی فکری اصلاح فرمائے۔ نیز انہیں مغربی لا دینی افکار ونظریات سے دور رکھے۔ آمین
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1454860194627263&id=100003098884948
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1454860194627263&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق