💥مالدیپ میں حق وباطل کی کشمکش
💥جیت کس کی؟
✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظور مدني
۔مالدیپ میں اسلام کے آمد کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی ہندوستان میں ؛ چنانچہ پہلی صدی ہجری ہی میں عرب تاجروں کے واسطے اس قیمتی مونگے والے جزیرے میں اسلام کی کرنیں پہونچ چکی تھیں۔ چھٹی صدی ہجری یعنی بارہویں صدی عیسوی میں یہ ملک پورے طور سے اسلام میں داخل ہوچکا تھا۔ اس وقت سے مکمل طور پر یہاں دین اسلام کا غلبہ ہے لیکن پرتگالیوں اور انگریزوں کے استعمار کے بعد اس ملک میں بھی دوسرے ملکوں کی طرح الحاد ، کفر ، شرک وبدعت اور تصوف وعلمانیت نے دھیرے دھیرے جگہ بنانی شروع کردی۔
💥۔26/ جولائی 1965 میں انگریزوں سے آزادی کے بعد ملک کو نئے سرے سے سنوارنے اور اسلامائز کرنے کی کوشش کی گئی اس کے لئے 1968 میں ملک کا نیا دستور بنایا گیا جس میں شرعی قوانین کو بالادستی حاصل ہے۔ مالدیپ کا سرکاری دین اسلام ہے۔ وہاں سوفیصد مسلم آبادی ہے؛ اسی لئے سعودی عرب کے بعد عالمی پیمانے پر مسلم آبادی کے اعتبار سے یہ دوسرا ملک ہے۔ دستور کے آرٹیکل نمبر9 کے مطابق کوئی غیر مسلم ملک کا باشندہ نہیں بن سکتا۔ آرٹیکل نمبر2کے مطابق حکومت کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر مبنی ہے۔ آرٹیکل نمبر 10کے مطابق ملک کے اندر کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو شریعت اسلامیہ کے خلاف ہو۔ آرٹیکل نمبر 19 کے مطابق مالدیپ کے اندر شہریوں کو اس چیز کی آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں جو شریعت اسلامیہ کے اندر حرام اور ناجائز نہ ہوں۔
۔ تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات کی گئیں ، انگریزوں کے نصاب تعلیم کو بدلاگیا ۔ یورپ کے بجائے طلبہ مصر، سعودی عرب، قطر، کویت اور پاکستان تعلیم کی غرض سے جانے لگے ۔ انہی میں سے استاذ عبد القیوم مامون بھی ہیں جنہوں نے ازہر سے فلسفہ اور قانون میں ایم اے کیا اور پھر واپس آکر ملک کی تیس سال تک قیادت کی ۔
۔ مامون عبد القیوم کے دور حکومت میں ملک نے کافی ترقی کی ۔ تمام شعبوں میں کافی اصلاحات ہوئیں۔ تصوف والحاد اور شرک وبدعات کا کافی خاتمہ ہوا ۔ جامع ازہر، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، جامعہ ام القری، جامعہ قطر اور جامعہ الکویت سے طلبہ پڑھ کر اس دور میں بہت آئے اور ملک کے اہم عہدوں پر فائز ہوئے ۔
💥۔ دشمنان اسلام کو یہ ساری چیزیں دیکھ کر اچھی نہیں لگ رہی تھیں ۔ خصوصا ایسا ملک جہاں لاکھوں کی تعداد میں ہرسال پوری دنیا سے لوگ سیروسیاحت کے لئے جاتے ہوں اور ان پر وہاں گھومنے پھرنے کیلئے بہت سارے قانون نافذ ہوں ۔ چنانچہ مکار یورپ نے اس ملک کو دوبارہ تصوف والحاد کے راستے پر لگانے کیلئے اپنی فکری چال چلنا شروع کردی۔
۔حقوق انسانی کی تنظیموں اور یونسکو جیسے صلیبی اداروں اور یہودی میڈیاکے ذریعے پوری دنیا میں یہ مشہور کیا گیا کہ مالدیپ میں شخصی آزادی پر پابندی ہے۔عورتوں پر ظلم ہورہا ہے۔ آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ عرب دیشوں میں جاکر نوجوان تشدد پسند ہورہے ہیں۔ اور وہی نوجوان القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں میں جاکر شامل ہورہے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے بہت سارے الزامات لگا کر مالدیپ کو دنیا کے سامنے ایک کٹر وادی مسلم ملک کے طور پر پیش کردیا گیا۔
۔گیارہ ستمبر2001 کے منحوس حوادث اور دہشت گردی کے خلاف عالمی صلیبی جنگ کے بعد مزید ان دشمنان اسلام کو مالدیپ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا ۔ اور پھر 2004 میں سونامی کے لپیٹ میں جب مالدیپ بھی آگیا اور اسکے کئی جزیرے متاثر ہوئے اور اس کے بعد رفاہ عامہ کی تنظیموں اور عالمی امدادی اداروں کے ذریعے یہاں تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود تصوف والحاد ، رفض وتشیع اور شرک وبدعت پر مشتمل لٹریچر کو اس ملک میں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ تورات وانجیل اور شیعہ کتابیں بھی اسی مدد کی آڑ میں بھولے مالدیپی عوام میں تقسیم کی گئیں جنہیں مالدیپ حکومت نے ضبط کیا اور ان پر سختی بھی کی گئی۔
💥۔ ملک میں دشمنوں کو کھلی چھوٹ نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے انٹر نیٹ ، ٹیلی ویزن اور ریڈیو کا سہارا لیا چنانچہ جنوب میں سری لنکا ، مشرق میں بھارت اور مغرب میں افریقی ملک موریشس کے اندر سے ریڈیو اور ٹیلی ویزن کے ذریعے مالدیپی زبان میں مختلف پروگرام نشر کیا جانے لگا جو تثلیث ومسیحیت ، الحاد وتصوف اور اباحیت پسندی پر مشتمل ہوتے تھے۔ مالدیپ اسلامک یونیورسٹی(جامعة المالدیف الإسلامیة) کے عمید ابراہیم رشید موسی کے بقول عیسائیوں کی یہ پوری پلاننگ تھی کہ 2050تک مالدیپ کے بھولے بھالے عوام کو دس فیصد تک مسیحیت میں بدلنا ہے اور کم سے کم راجدھانی مالے میں ایک بڑا گرجا گھر بنانا ہے۔
۔ اس طرح پھر نئے سرے سے اسلامی قوانین کے خلاف مظاہرات واحتجاجات کئے گئے ،قطر ، ایران اور یورپ وامریکہ کی دخل اندازی بڑھنے لگی۔ اسی بیچ بہت سارے نوجوان یور پی ممالک خصوصا برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے جانے لگے۔ انہیں نوجوانوں میں محمد نشید بھی ہے جس نے لندن سے صحافت میں تعلیم حاصل کی اور واپس آکر مالدیپ میں حکومت کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا یہاں تک کہ ملک کے اندر ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بن گئی جو ملک کے اندر اسلامی شریعت کو ناپسند کرنے لگے ۔
💥۔ محمد نشید اور اس طرح دیگر الحاد پسندوں کے مطالبے پر 2008 میں ملک کے اندر دستور میں ترمیم کئی گئی۔ سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔بادشاہت سے ملک کو ایک جمہوریت کا درجہ دیا گیا۔انتخابات کے ذریعے سیاسی لیڈر چننے کا وعدہ کیا گیا۔ حقوق انسانی اور رفاہی اداروں کے تشکیل کی اجازت دی گئی۔ گرچہ اسلامی تشخص کی بقاء کی خاطر باقی پرانے شرعی قوانین کو نہیں چھیڑا گیا۔
۔اس طرح2008 ہی میں وعدہ کے مطابق انتخابات کرائے گئے جس میں جمہوریت پسندوں کی جیت ہوئی اور محمد نشید کو ملک کا صدر چنا گیا۔ دور استعمار کے بعد اس طرح پھر ایک مرتبہ دشمنان اسلام کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی ۔ چنانچہ محمد نشید نے پورے پری پلاننگ کے ساتھ ملک کو آزاد جمہوریت میں بدل کر رکھ دیا اور ان ساری پابندیوں کو ختم کرنا شروع کردیاجن پر پہلے سے غیر شرعی ہونے کی بنیاد پرپابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ جیسے سیاحوں اور دیگر کسی بھی اجنبی شخص کو غیر اسلامی لٹریچر لانے پر پابندی ، شراب نوشی پر پابندی وغیرہ۔
۔ اس کے ساتھ ساتھ محمد نشید نے ایران اور اسرائیل سے بھی تعلقات بڑھانا شروع کر دئیے۔ اس کے دور حکومت میں اسلامی دستور کی دھجیاں اڑائی جانے لگیں۔ قومی املاک اور سرکاری خزانے کا غلط استعمال ہونے لگا۔ اسلامی فکر پر مینی تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف توجہ نہ دیکرالحادی فکر پر مبنی عصری علوم وفنون میں کالجز اور اسکولز کی بنیادیں رکھی جانے لگیں۔ ملک میں قیمتیں بڑھنے لگیں اور ملکی کرنسی کی اہمیت گھٹنے لگی۔ملک کا صدر ایک طرح سے ڈکٹیٹر بن گیا۔
💥۔2011 کی عرب بہاریہ گرچہ عرب دیشوں کے لئے تباہی کا باعث بنا ہو لیکن مالدیپ کیلئے یہ ایک خوش آئند انقلاب تھا ۔ کیونکہ یہاں کے اسلام پسند عوام الحادی جمہوریت میں یقین کبھی نہیں رکھتے تھے جسے محمد نشید نے آکر مکار یورپ کی پوری تعاون سے نافذ کرنا شروع کر دیا تھا اور اسی کی آڑ میں تمام دشمنان اسلام خصوصا وہ اسرائیل جس کا قدم پہلے یہاں کبھی نہیں پڑا ہوگا اس ملک میں اس سے سفارتی تعلقات بنانے لگا ۔ یہی وہ اسرائیل ہے جس کے خلاف مامون عبد القیوم جاکر اقوام متحدہ میں بولتے تھے اور فلسطین سے اپنی ہمدردی جتاتے تھے ۔ غزہ کی تباہی کے موقع پر مالدیپ نے بھی چندہ اکٹھا کرکے فلسطینیوں کی کافی مدد کی تھی۔ قطر سے تعلقات ختم کرنے میں قطر کا اسرائیل سے تعلقات بنانا بھی شامل ہے۔
۔وہ تمام بدھسٹوں کی مندریں اور تہذیبی آثار، خانقاہیں اور صوفی درگاہیں جنہوں نے دم توڑ دیا تھا اس ملحد شخص نے دوبارہ قومی ورثہ اور تہذیبی و ثقافتی آثار کے نام پر ان کی تجدید کاری شروع کردی اور کئی ایک مندروں اور خانقاہوں کو کھولنے کا اعلان بھی کیا۔ اور ساتھ ہی گرجا گھروں کے بنانے کی اجازت دینے کا قانون بھی پاس کردیا۔ انہیں ساری الحادی کارستانیوں کی وجہ سے عرب بہاریہ کے موقع پر مالدیپی عوام نے احتجاج کرنا شروع کردیا۔ اور محمد نشید کو ہٹاکر دوبارہ الیکشن کروانے کی مانگ ہونے لگی۔
۔ لیکن مکار محمد نشید نے کسی کی ایک نہ سنی اور تین ہفتوں سے مسلسل جاری احتجاجات کو ہر ممکن طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے لئے اس نے پولیس کو آرڈر دیا کہ ان پر سختی کرے لیکن پولیس نے زیادہ سختی کرنے سے انکار کردیا۔ پھر عدلیہ کو حکم دیا کہ ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ کا آرڈر جاری کردے لیکن عدلیہ نے بھی انکار کردیا۔ پھر فوج کو حکم دیا کہ قاضیوں کو گرفتار کرلیا جائے لیکن فوج نے بھی ایسے غلط قدم اٹھانے سے انکار کردیا۔
۔ اس طرح اس مردود کو فروری 2012 میں دہشت گردی،ملک کے ساتھ غداری ،دشمن ممالک کے ساتھ روابط بڑھانے ، اسلامی تشخص کو ختم کرکے الحاد وشرک کو بڑھاوا دینے ،ڈکٹیٹر شپ ، من مانی اور اختیارات کے غلط استعمال کرنے جیسے بہت سارے الزامات میں قید کے اندر ڈال دیا گیا۔ تین سال مقدمہ چلنے کے بعد مارچ2015 میں تیرہ سال قید کی سزا دی گئی ۔ 2016 میں طبیعت کے خراب ہونے پر دوسرے ملک میں علاج کی اجازت دیدی گئی ۔ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس ملعون شخص نے برطانیہ جاکر سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ اس طرح یہ اس وقت ایک غدار قوم وملت کے طور پر معروف ہے جو دوسرے ملک میں پناہ حاصل کئے ہوئے ہے۔ کبھی سری لنکا، کبھی بھارت تو کبھی برطانیہ میں گھوم پھر کر ملک کے خلاف ہر ممکن ریشہ دوانیاں اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ملک میں فتنہ وفساد برپا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ججوں کے ساتھ ساز باز کرکے حالیہ بحران اسی بدقماش کی کارستانی بتائی جاتی ہے۔
💥۔ ادھر 2013 میں دوبارہ انتخابات کے ذریعے اسلام پسند لیڈر عبد اللہ یمین کو ملک کا صدر بنایا گیا۔ یہ ایک دین پسند معتدل خیال کے لیڈر ہیں۔ انہوں نے مدرسہ مجیدیہ مالے سے ثانویہ پاس کرنے کے بعد جامعہ امریکیہ لبنان سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ اسکے بعد لاس اینجلس کے (Claremont Gragute School) کالج سے پبلک پالیسی میں گریجویشن کیاہے۔ ملک واپسی پر کئی ایک سرکاری عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
۔ ملک کا صدر بننے کے بعد آپ نے سابق جلا وطن باغی صدر محمد نشید کے دور حکومت کے دوران اٹھائے گئے تمام غلط اقدامات کو ملغی کردیا اور ساتھ ہی اسرائیل وایران سے تمام روابط ختم کرلئے ۔ اور ملک کو پھر دوبارہ اسلامائزیشن کرکے استاذ مامون عبد القیوم کے دور حکومت کی طرح کردیا۔ عرب دیشوں سے دوبارہ گہرے روابط کرلئے ۔ خصوصا مصر ، سعودی عرب ، کویت اور امارات سے۔اس طرح مالدیپ کی سرزمین ایک بار پھر ایک خالص مسلم ملک کی طرح ہوگیا جہاں صرف اسلامی احکام کا بول بالاتھا ۔ یہی چیز محمد نشید جیسے لبرل کمنسٹ لیڈروں اور اباحیت پسندوں کو اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
۔ مذکورہ چار پانچ سالوں کے اندر ان دشمنان اسلام نے حالیہ حکومت کے خلاف خوب خوب پروپیگنڈہ کیا یہاں تک کہ رواں سال کے رواں مہینے فروری کے شروع میں معاملہ اس حد تک پہونچ گیا کہ صدر مملکت کو ملک میں ایمر جنسی نافذ کرنا پڑی جس کی وجوہات پچھلے مضمون میں تفصیل سے بتایا جاچکاہے۔ ان دشمنان دین وملت کی پوری پلاننگ تھی کہ اپوزیشن کے جتنے لیڈر قید یا جلا وطن ہیں انہیں رہائی دلا کر واپس ملک میں انتخابات کروائے جائیں اور پھر کسی طرح خارجی پروپیگنڈوں اور لبرل کمنسٹوں کی حمایت سے عبد اللہ یمین کی حکومت ختم کروا دیا جائے او رایک بارپھر ملک میں الحاد واباحیت کا دور دورہ ہوجائے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!!!
۔ مجھے لگتا ہے کہ اب ان دشمنان اسلام کی ملک میں ایک بھی نہ چلنے پائے گی کیونکہ اس ملک میں اسلام کی جڑیں مضبوط ہوچکی ہیں اور ساتھ ہی سنی مسلم ممالک سے اس کے روابط مضبوط سے مضبوط تر ہوچکے ہیں نیز وہاں کے عوام بھی ایک بار جمہوریت کا تجربہ کرکے اب ہوشیار ہوگئے ہیں ۔ اللہ اس خوبصورت جزیرے پر بسنے والے بھولے اور دین پسند مسلمانوں کو امن وسکون سے رہنے اور وہاں کے حکمرانوں کو ملک اور دین اسلام کی حفاظت اور شرعی قوانین کی تنفیذ کی توفیق عطا کرے۔ آمین
💥۔مالدیپ میں سب سے بڑا چیلنج منہج تعلیم اور دین اسلام سے عدم واقفیت تھی۔ کیونکہ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں ایک معاہدے کے تحت منہج تعلیم کو خود اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا ۔ ظاہر ہے ان دشمن اسلام صلیبیوں نے کیسے اسلام مخالف منہج تیار کیا ہوگا۔ چنانچہ اس کا اثر آزادی کے بعد بھی بہت دنوں تک باقی رہا یہاں تک پچھلی صدی کے آخری دو دہائیوں سے مالدیپ کے نوجوان پاکستان، مصر، کویت اور سعودی عرب تعلیم حاصل کرنے کیلئے جانے لگے۔ پھر مالدیپ میں تصوف اور الحاد کا خاتمہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے ۔
۔ اسی جہالت کی بنیاد پر ان کے یہاں الحاد ، تصوف اور شرک وخرافات نے جنم لیا تھا چنانچہ اب بھی راجدھانی مالے میں ابو البرکات کی قبر پر ایک بڑا مزار بنا ہوا ہے جہاں ہر مہینے محفل میلاد منعقد کیا جاتا ہے اوروہاں بدعات وخرافات جاری ہیں۔ لیکن جس طرح وہاں دینی علوم کے ماہرین بڑھتے جارہے ہیں خصوصا کویت ، مصر اور سعودی عرب کے فارغین طلبہ کی تعداد بڑھ رہی اسی طرح وہاں سے اب دھیرے دھیرے تصوف ، شرک وبدعت اور الحاد میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ اور منہج سلف پر مبنی اسلام سے لوگوں کی محبت بڑھتی جارہی ہے۔
۔آخری تیس سالوں کے تجربوں سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مالدیپ کے اندر سعودی عرب اور کویت کے دخیل ہونے سے بہت پہلے ہی یہاں لوگ بیدار ہوچکے تھے اور تصوف وعلمانی اسلام کے چہرے کے خلاف لوگوں نے کام کرنا شروع کردیا تھا ۔ چنانچہ مالکی اور شافعی مکتبہ فکر کے صوفیوں نے کئی ایک خانقاہ اور درگاہ بنا رکھے تھے حتی کہ اب تک بدھوسٹوں کے بعض عبادت گاہیں (منڈالا) بھی باقی پڑے ہوئے تھے۔ لیکن مامون عبد القیوم کے دور حکومت میں جب سے وہاں کے نوجوان سعودی عرب ،کویت اور مصر کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کیلئے جانے لگے ان کے یہاں دینی شعور ، حقیقی دعوت دین اور سلفی فکر بیدار ہونا شروع ہوا ۔
۔ چنانچہ اس وقت وہاں یہ بات معروف ہے کہ جسے طب وسائنس یا دیگر عصری علوم حاصل کرنا ہو تو اسے سری لنکا، ہندوستان یا آسٹریلیا جانا چاہئیے اور اگر دینی علوم حاصل کرنا ہے تو سعودی عرب، کویت اور مصر جانا چاہیئے۔
💥۔ 2016 میں سعودی عرب نے مالدیپ کو پچاس ملین امریکی ڈالر قرضہ کے طور پر دیا تھا تاکہ وہاں خالی پڑے کچھ جزیروں پر آبادکاری کی جاسکے۔ پھر اس کے بعد اسی سال دوبارہ سو ملین امریکی ڈالر دیا تاکہ مالدیپ پڑے ہوئے کچھ قومی پروجیکٹوں کو پورا کرسکے۔
۔مالدیپ میں پہلے ہی سے یہ دستور موجود ہے کہ مالدیپی جزیروں کو اجانب ننانوے سال تک کیلئے لیز پر لے سکتے ہیں۔ لیکن 2015 میں دستور میں کچھ ترمیم کی گئی ہے جس کی رو سے اجانب خالی پڑے جزیروں کو دس فیصد تک خرید سکتے ہیں۔ دستور کے اندر یہی ترمیم در اصل فی الحال باعث نزاع بنا ہوا ہے جو اب تک پاس نہیں ہوا ہے اور دستور کے اسی دفعہ کے مطابق حالیہ سرکار پر سعودی عرب کے ہاتھ ایک جزیرے کو2017 میں فروخت کرنے کا الزام ہے اور جس کی شدو مد سے مخالفت کی جارہی ہے۔ حالانکہ سرکار نے اس کی تردید کی ہے اور اسے لیز پر دینے کی بات کہی ہے۔ حالانکہ پرانے دستور کے مطابق اجانب کے ہاتھوں زمین کی فروخت ایک بہت بڑا ناقابل معافی جرم ہے۔ اور ساتھ ہی دستور میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ اگر لیز کے اندر مالدیپیوں کی بھاگے داری پچاس فیصد سے زیادہ ہوجائے تو اس پر مالکانہ قبضہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
۔سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے 25 / فروری 2017 کو جن سات ملکوں (اردن، چین ، جاپان، انڈونیسیا، مالیزیا، برونائی اور مالدیپ) کا دورہ کیا تھا ان میں مالدیپ کو خصوصی مقام حاصل تھا اور وہی آخری پڑاؤ بھی تھا جہاں مالدیپی سرکار سے کئی اہم امور پر گفتگواور معاہدے ہوئے۔ دس (10) ارب امریکی ڈالر جیسے خطیر رقوم پر انیس(19) جزیروں کیلئے معاہدے ہوئے جہاں سعودی عرب مختلف پروجیکٹ پر کام کرے گا۔ وہاں آبادکاری سے لیکر بندرگاہ اور ائیر پورٹ بنانے تک پروجیکٹ شامل ہیں۔
۔انہیں معاہدوں کو لیکر وہاں کی حزب مخالف اور معزول سابق جلاوطن صدر محمد نشید اور تمام لبرل قسم کے لوگ مخالفت کررہے ہیں۔ اور اسے استعمار جدید ،اجنبی قبضے اور ملک کو بیچنے جیسے الزامات لگارہے ہیں۔
۔گزشتہ سالوں کے مقابلے سعودی عرب کا مالدیب سے تعلق کچھ زیادہ ہی بڑھ چکا ہے ۔ چنانچہ حزب مخالف نے بہت سارے الزامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی الزام لگایا ہے کہ در اصل سعودی عرب اربوں امریکی ڈالر سے مدد کرکے مالدیپ کو بحرعرب کے اندر اپنا اہم اقتصادی نقطہ (Economic Zone) بنانا چاہتا ہے جہاں وہ بہت سارے بندرگاہ اور ائیر پورٹ بناکر ان کے ذریعے اپنا گیس اور تیل جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک خصوصا چین کی طرف سپلائی کرے گا۔
💥۔ سعودی عرب تعلیمی ودعوتی میدان کے علاوہ مالی امداد بھی کرتا ہے ۔ ابھی حالیہ بحران کے موقع پر 160/ ملین امریکی ڈالر کی مدد کی ہے جس پر ریاض میں موجود مالدیپی سفیر عبد اللہ حمید نے ملک سلمان کا شکریہ ادا کیا ۔ جبکہ ابھی حال ہی میں اس سے پہلے ائیر پورٹوں کی تجدید کاری کیلئے100/ ملین امریکی ڈالر اور ہلہو مالے شہر (Hulhumale city) کی ترقی کیلئے 80/ ملین امریکی ڈالر کی مدد کی تھی۔
(http://www.arabnews.com/node/1248636/saudi-arabia)
۔ جامع الملک سلمان بن عبد العزیز کے نام سے اسی مہینے فروری میں مالدیپ کی راجدھانی مالے میں ایک مسجد کی بنیاد ڈالی گئی ہے جو ساڑھے اکتالیس ہزار مربع فٹ میں چھ منزلے پر مشتمل ہوگی۔ اس مسجد کے ساتھ ایک کار پارکنگ ، ایک بڑی لائبریری اور ساتھ ایک بچوں کا ابتدائی اسکول بھی شامل ہے ۔ اسکے لئے سعودی عرب نے مالدیپ کو (6.65) ملین امریکی ڈالر امداد میں دی ہے۔اس مسجد کے اندر چھ ہزار مصلیوں کی گنجائش ہے۔
(http://www.arabnews.com/node/1248281/saudi-arabia)
💥۔آزادی کے بعددینی اداروں، مساجد اور دعوتی مراکز کا کردار:
مالدیپی قوم کے اندر دینی بیداری لانے میں آزادی کے بعد قائم دینی اداروں ، مساجد اور دعوتی مراکزکا بڑا کردار رہا ہے۔ اور اس میدان میں خصوصی طور پر مصر، کویت اور سعودی عرب کا کردار ہے۔مالدیپ کے اندر ایک ہزار سے زائد مسجدیں پائی جاتی ہیں جہاں نما ز کے ساتھ بچوں کو دین کی ابتدائی معلومات اور قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی ہے۔
۔ ویسے تو سابق بادشاہوں نے کئی ایک مدرسے بنوائے تھے جن میں مدرسہ امینیہ اور مدرسہ مجیدیہ مشہور ہیں لیکن استاذ مامون عبد القیوم کے دور سے جب سے عرب ممالک سے روابط بڑھے ہیں ملک کے اندر دینی مدارس اور دعوتی مراکز کے جال پھیل گئے ہیں جہاں بچوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے اور دعوت الی اللہ کے فرائض انجام دئیے جاتے ہیں۔یہاں دینی تعلیم کیلئے اساتذہ اکثر مصر اور سعودی عرب سے آتے ہیں اور دعوت الی اللہ کے میدان میں کام کرنے کیلئے اکثر کویت اور سعودی عرب سے آتے ہیں۔
۔راجدھانی مالے کے اندر استاذ مامون عبد القیوم کے دور حکومت میں نئے طرز پر پہلا مدرسہ 1980 عیسوی میں قائم کیا گیاہے۔ جس کا نام معہد الدراسات الإسلامیة رکھا گیا جس میں تحفیظ قرآن پاک، عربی زبان اور دین کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا۔ازہری منہج کے مطابق اس میں تعلیم دی جاتی ہے۔ نصاب تعلیم کی ساری کتابیں مصر سے طبع ہوکر آتی ہیں۔ 2004 میں اس معہد کو کلیہ الدراسات الإسلامیة یعنی کالج کا درجہ دیدیا گیا اور پھر 2015 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیکر اس کا نام جامعة المالدیف الإسلامیة (Maldives Islamic University) رکھ دیا گیا۔ اور اس کے اندر دینی علوم فنون کے ساتھ ساتھ تمام عصری علوم کو پڑھایا جانے لگا۔
💥۔ تاریخ کے جھروکوں سے مالدیپ پر ایک نظر:
۔مالدیپ پہلے سری لنکا کے تابع تھا ۔قبل مسیح میں پہلے یہاں دراوڑوں کی حکومت تھی پھر یہاں بدھسٹوں کی حکومت آئی۔85ہجری میں یعنی ساتویں صدی عیسوی ہی میں ہندوستان کی طرح اس جزیرے کے اندر بھی اسلام کی روشنی بعض عرب تاجروں کے ذریعے پہونچ چکی تھی۔البتہ 548ہجری/ مطابق 1153 عیسوی میں مراکش کے ایک بہت بڑے داعی ابو البرکات یوسف البربری دعوت دین کی غرض سے یہاں تشریف لائے اوریہاں کے بدھسٹ راجہ کو اسلام کی دعوت دی جس نے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا اور اپنا نام محمدعبد اللہ رکھ لیا جبکہ اسکا پرانا نام( طاروما سانتارا سجینانو) تھا۔ اس کے ساتھ پورا ملک اسلام میں داخل ہوگیا۔ یہی ملک جو پہلے مندروں کا ملک کہا جاتا تھا اب مسجدوں کاملک کہا جانے لگا۔ مالدیپ میں بدھسٹوں کے سوائے چند آثار کے کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ انڈونیشیا اور مالیزیا کی طرح یہ ملک بھی عرب تاجروں اورداعیان اسلام کی دعوت ونصیحت اور حسن اخلاق سے اسلام میں داخل ہوا ہے۔ اس کے بارے میں مزید تفصیلات دیکھیں ڈاکٹر محمد عوض ہزائمہ کی کتاب: (حاضر العالم الإسلامی وقضایاہ السیاسیة المعاصرة ۔ ص224)۔
۔مالدیپ کی قدیم تاریخ کے بارے میں معلومات اکثر عرب سیاحوں نے اپنے سفرنامے میں ذکر کیا ہے۔ ان مشہور سیاحوں میں مشہور سیاح علامہ سلیمان قزوینی (850ء)،مشہور سياح مسعودی (916ء) ، علامہ بیرونی(1030ء)، مشہور سیاح ادریسی(1030ء) ہیں جنہوں نے مالدیپ کا سفر کیا ، وہاں رہ کر وہاں کے تمام حالات سے واقف ہوکر وہاں کے سماجی ، دینی، اقتصادی اور سیاسی حالات کو اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔
۔1343 عیسوی میں ایک بہت بڑے مشہور عرب سیاح ابن بطوطہ یہاں آئے اور چند سالوں تک ملک کے قاضی بھی رہے پھر ہندوستان چلے آئے جہاں تغلق حکومت میں کافی سالوں تک قاضی رہے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں یہاں کی ایک عجیب روایت یہ لکھی ہے کہ بدھسٹ دھرم سے متاثر ہونے کی وجہ سے یہاں کی تمام عورتیں اوپر کے نصف بدن کو بالکل نہیں ڈھانپتی تھیں ، کافی محنتوں اور کوششوں کے بعد صرف میرے سامنے کسی مقدے میں آنے پر وہ اپناپورا بدن ڈھانپ لیتی تھیں۔ اور اسی وجہ سے میں ہندوستان چلا آیا۔
۔ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں اہل مالدیپ کے اسلام لانے کے تعلق سے ایک قصہ ذکر کیا ہے جو تقریباجھوٹ ہونے میں دریائے نیل کے اس قصے جیسا ہے کہ جب اس میں کسی خوبصورت لڑکی کو ڈالنے کے بدلے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خط ڈالا گیا تو دریائے نیل جاری ہوگیا۔ اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مہینے دریا سے ایک کشتی آتی تھی جس میں ایک شیطان ہوتا تھاجو اہل مالدیپ سے ایک خوبصورت لڑکی طلب کرتا تھا اور پاجانے پر خاموشی سے بغیر انہیں کوئی تکلیف پہونچائے چلے جاتا تھا۔ پھر یہ بزرگ شخص ابو البرکات جب آئے اور ان سے ان لوگوں نے اپنا قصہ سنایا تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے اس بار آئے گا تو میں خود جاؤں گا۔ چنانچہ وعدے کے مطابق وہ شیطان کشتی کے ساتھ آیا اور اس بار لڑکی کے بدلے یہ شیخ خود گئے اور وہاں بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی۔ شیطان کچھ دیر انتظار کرتا رہا پھر واپس چلا گیا اور پھر کبھی نہ آیا۔ یہ دیکھ کر وہاں کا بدھسٹ بادشاہ ایمان لے آیا اور اسکے ساتھ پورا ملک اسلام میں داخل ہوگیا۔
۔ابن بطوطہ نے اہل مالدیپ کے صلاح وتقوی اور انکے بھولے پن کے بارے میں اپنے سفرنامے میں لکھا ہے: (أنہم أہل صلاح ودیانة وإیمان صحیح ونیة صادقة ، أکلہم حلال ودعاؤہم مجاب۔ وإذا رأی الإنسان أحدہم قال لہ: اللہ ربی ومحمد نبی وأنا أمی مسکین۔ ولا عہد لہم بالقتال والمحاربة وسلاحہم الدعاء)ترجمہ: وہ صلاح وتقوی والے دیندار لوگ ہیں ، صحیح ایمان اور سچی نیت والے ہیں، انکا کھانا حلال اور انکی دعائیں مقبول ہیں۔ ان میں سے کوئی جب کسی شخص کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے: اللہ میرا رب ہے ، محمد میرے نبی ہیں اور میں ایک ان پڑھ مسکین آدمی ہوں۔ جنگ وجدال اور لڑائی جھگڑوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں بلکہ دعاہی ان کی ہتھیار ہے۔
۔ ان کے اسی بھولے پن پرقاضی ابن بطوطہ نے اسی تعلق سے اپنے زمانہ قضا کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے ایک چور کے تعلق سے قطع ید کافیصلہ سنایا تو مجمع میں موجود بہت سارے لوگ یہ فیصلہ سن کر بیہوش ہوگئے۔ آگے ذکر کیا ہے کہ وہاں میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے شعبے کا ذمیدار تھا چنانچہ جو نماز نہیں پڑھتا اسے مارتا تھا اور شہر میں اسکی تشہیر بھی کی جاتی تھی۔ یہ اور اس طرح کی دیگر دلچسپ معلومات ابن بطوطہ نے اپنے مشہور سفرنامے (تحفة النظار في غرائب الأمصار) میں ذکر کیا ہے۔
💥۔مالدیپ کے اندر زمانے سے شرعی عدالتیں قائم ہیں جہاں شریعت کے مطابق تمام فیصلے کئے جاتے رہے ہیں البتہ حدود وقصاص میں رجم اور قطع ید کے علاوہ تمام حدود نافذ العمل رہے ہیں۔ان کے یہاں اختلافات، آپسی جھگڑے اور لوٹ چوری کے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں۔ چنانچہ مجلہ البیان کے شمارہ (جمادی الآخر 1414ہجری) کے مطابق 1413 ہجری کے پورے سال میں صرف ایک چوری کی شکایت سرکاری رجسٹر میں درج کرائی گئی تھی۔
۔لوگ وہاں آج بھی کسی اجنبی مسلم شخص کو دیکھتے ہیں تو بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں سب سے پہلے کچھ نہ کچھ ہدیہ ضرور پیش کرتے ہیں۔ نیز آج بھی وہاں اذان سن کر لوگ دکانوں کو بند کردیتے ہیں اور رمضان کے مہینے میں تو کھانے پینے کی ساری دکانیں مغرب کے وقت ہی کھولی جاتی ہیں۔
۔بعض ہندوستانی شیعہ حکومتوں کی طرف سے گاہے بگاہے وفود کی شکل میں مالدیب جاکر وہاں رفض وتشیع پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے البتہ وہ اپنی اس مہم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ راجدھانی مالے کے اندر ایک پختہ قبر پر (التبریزی) لکھا ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی شیعہ داعی تھا۔
۔اس بات پرسیاحوں پر سخت پابندی ہے کہ اپنے ساتھ کوئی ایسی چیز لائیں جس کی شریعت میں ممانعت ہے جیسے نشہ آور چیزیں اور لحم خنزیر وغیرہ۔ اسی طرح ایسی کتابیں اور پمفلٹ لانے پر بھی سخت پابندی ہے جو مذہب اسلام کے خلاف ہوں جیسے انجیل ، تورات اور رفض وتشیع وبدعت وشرک پر مشتمل کتابیں وغیرہ۔ 2004 میں سونامی کے وقت رفاہ عام اور انسانی امداد کے نام پر کام کرنے والی بہت ساری عالمی اور علاقائی تنظیموں نے اس قسم کی کتابیں اور پمفلٹ غیر قانونی طور پر چپکے سے لاکر مالدیپی عوام میں تقسیم کیا تھا لیکن حکومت نے اس پر سختی سے نوٹس لیا اور سخت سرکاری نگرانی میں بھاری مقدار میں انہیں ضبط کیا گیا۔ ویسے عام طور سے بہت دھیان کے ساتھ ائیر پورٹوں اور بندرگاہوں پر آنے والے مسافروں کی چیکنگ ہوتی ہے۔
۔سولہویں صدی عیسوی میں یہ ملک پرتگالیوں کے زیر تسلط تھا۔ پھر اٹھارہویں صدی میں جرمنی کے ماتحت ہوا۔ پھر انیسویں صدی یعنی 1887 سے برطانیہ کے زیر تسلط آیا لیکن مالدیپ کو داخلی پیمانے پرسوائے دفاع اور خارجی امور کے ہر طرح سے آزادی حاصل تھی ۔ 1960 میں مالدیپیوں کا اختلاف انگریزوں سے کافی بڑھ گیا اور مکمل آزادی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا یہاں تک کہ 1965میں مکمل طور سے آزاد ہوگیا۔ 1988 میں سری لنکا کے متشدد جماعتوں نے مالدیپ پر حملہ کرکے اسے اپنے ملک میں شامل کرنا چاہا لیکن بروقت بھارت کی فوجی مداخلت سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
💥۔مالدیپ کی وجہ تسمیہ اسکا جھنڈا اور زبان:
۔ مالدیپ کا پرانا نام بقول ابن بطوطہ (ذیبة المهل) ہے کہا جاتا ہے ایک یمنی سیاح نے اسے دراصل عربی میں (محل ذیبة)کے نام سے پکارا تھا جس کے معنی جزیروں کی جگہ ہوتا ہے۔ جسے وہاں کے لوگ (مهل دبیات۔Mahal Dibiyat) کہنے لگے۔بارہویں صدی عیسوی میں جب وہاں اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسکا نام بھی اسی طرح (الدولة المحلدیبية)رکھا گیا تھا۔ لیکن انگریزوں کے استعمار کے بعد انہوں نے اس کا نام انگلش میں (MALDIVES)مل دیب رکھ دیا ۔ آزادی کے بعد جمہوریہ مالدیپ کا نام رکھا گیا جسے آج وہاں کے لوگ دیفیہی راجیہ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
۔مالدیپ کا جھنڈا تین ستونوں پر مشتمل ہے:
1۔ لال پٹی : اس سے اشارہ عمل ، سرگرمی، محنت، کوشش، جانفشانی اور خون شہید ہے۔
2۔ مستطیل شکل میں سبز رنگ: اس سے اشارہ کھجور، امن وسلامتی او ر نیک فال ہے۔
3۔ چاند: اس سے اشارہ ملک کے سرکاری دین اسلام کی طرف ہے۔
۔مالدیپ کی سرکاری زبان دیپیہی (Dhevehi) ہے۔ ہندوستانی بعض صوبوں اور سری لنکا کے اندر بولی جانے والی مشہور زبان سنہالی کی ایک شاخ ہے۔ یہ بہت ہی عجیب زبان ہے۔ اس کے اندر ہندی ، اردو اور سنہالی کے ساتھ ساتھ عربی زبان کے سیکڑوں کلمات پائے جاتے ہیں۔ سنہالی زبان کی ایک شاخ ہونے کے باوجود عربی رسم الخط میں دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ یورپین اقوام سے حکومتی سطح پر واسطہ ہونے کی وجہ سے وہاں کی زبانیں اس پر زیادہ اثر تو نہ ڈال سکیں البتہ ان زبانوں کی طرح اسے بھی لفظوں کے حروف کو کاٹ کر لکھا جاتا ہے جبکہ اردو، ہندی، عربی اور سنہالی زبانوں سے مخلوط ہونے کے باوجود ان کی طرح نہیں لکھا جاتا ہے۔ ویسے سب سے زیادہ اس زبان پر عربی کی چھاپ ہے ساتھ ہی اس میں اسلامی مصطلحات کی بھی بھرمار ہے۔
💥مالدیپ کا محل وقوع، رقبہ اور آبادی:
-مالدیپ ہندوستان سے سیدھے جنوب مغرب میں تقریبا آٹھ سو کلو میٹر دور بحر عرب میں واقع ایک مسلم ملک ہے۔ تقریبا بارہ سو چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ ان میں تقریبا دوسو جزیرے آباد ہیں۔ باقی جزیرے سیاحتی، اقتصادی اور دیگر دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ پورا رقبہ نوے ہزار کلو میٹر ہے البتہ آباد جزیروں کا رقبہ صرف دوسو آٹھانوے (298)مربع کلو میٹر ہے۔ سب سے بڑا جزیرہ راجدھانی مالے کا رقبہ صرف ساڑھے پانچ مربع کلو میٹرہے اورتقریبا ساڑھے تین لاکھ آبادی والے ملک میں اس کی ایک تہائی آبادی اسی جزیرے میں رہتی ہے۔ مالے اپنی خوبصورتی، رنگ برنگے محلوں اور کثرت مساجد کی وجہ سے مسلم دیشوں میں ایک بہت ہی مشہور مسلم آبادی والا شہر ہے۔
- یہ ملک آبادی میں قطر کے مقابلے تقریبا چھ گنا چھوٹا ہے اور رقبے میں تقریبا چار گنا چھوٹا ہے۔ بحر عرب میں واقع ہونے ، پوری آبادی کا سنی مسلمان ہونے نیز وہاں کی اکثریت کا عربی زبان سے وابستہ ہونے ہی کی وجہ سے حال میں اس ملک کو جامعة الدول العربیة میں شامل ہونے اور اس اتحاد سے ایران کو نکالنے کا مطالبہ بڑھ رہا ہے۔
http://aakashtimes.com/2018/02/20/مالدیپ-میں-حق-وباطل-کی-کشمکش-جیت-کس-کی؟/
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1569808549799093&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق