الجمعة، 19 أكتوبر 2018

کیا تحریکی رافضی ایجنڈوں کو پورا کر رہے ہیں ؟

💥کیا اہل سنت کا دعویٰ کرنے والے بھی رافضی ایجنڈوں کو پورا کر رہے ہیں؟
ایک  صاحب نے (ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز) کے عنوان سے حال ہی میں ایک مضمون لکھا ہے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2000453406945913&id=100009438181427
 جس کے اندر یزیدی اور حسینی نظریے کو اس طرح دہرایا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ کاتب جانے انجانے خود روافضی ایجنڈے پر کاربند ہے۔ 
(اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد) والے رافضی شعر کی طرح علامہ اقبال کے اس مشہور شعر (ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز) کو بھی اسی رافضی پیراۓ میں ڈھالا جا رہا ہے۔ 
اس لیے ان کی خدمت میں چند وضاحتیں ضروری ہیں تاکہ رافضی ایجنڈوں کا پول کھل سکے نیز جو جانے انجانے غفلت میں ان کے ایجنڈوں کو پورا کر رہے وہ بھی بیدار ہو جائیں یا کم از کم ان پر حجت قائم ھو جائے:
💥حسین رضی اللہ عنہ کے پاس خطوط کن لوگوں نے بھیجا پھر آپ کے قاصد چچیرے بھائی کو دھوکا کس نے دیا؟ کربلا میں أہل بیت کو مارنے کے لئے فوج کہاں سے آئی تھی؟ آپ کے بوری بھر خطوط کو کس نے جلایا؟
حسین رضی اللہ عنہ کے تینوں مطالبات کو کوفی فوج نے کیوں ٹھکرا دیا؟
نیز یہ بھی تحقیق کریں کہ سليمان بن صرد الخزاعي کی سربراہی میں توابین کی جماعت کس مقصد کے لیے جہاد کرنے نکلی تھی؟ علامہ طبری کی درج ذیل عبارت کا کیا مطلب ہے آپ ہی ترجمہ کر دیں: 
 ((لما قُتِل الحسين بن علي تلاقت الشيعة بالتلاوم والتندّم، ورأت أنها قد أخطأت خطأً كبيراً بدعائهم الحسين إلى النصرة وتركهم إجابته، ومقتله إلى جانبهم ولم ينصروه، ورأوا أنه لا يغسل عارهم والإثم عنهم في مقتله  إلا بقتل من قتله أو القتل فيه)).
ان سب پر پردہ ڈال کر یزید کو کوسنا تاکہ شیعہ منظرنامے سے غائب ہو جائیں آخر کس کی سازش ہے؟ 
اور یزید ہی کیوں ؟ مطعون تو اس کے باپ دادا کو بھی کیا جاتا ہے جنہیں شرف صحبت جیسی نعمت ملی تھی۔ ان کے علاوہ خلیفہ سوم، عمرو بن العاص، مغیرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نہ بچ سکے۔ پھر خمینی اور خمینی نواز میں فرق کیا ہے۔ خمینیوں نے چند کو چھوڑ کر سارے صحابہ کو  مطعون کیا اور خمینی نوازوں نے سب کو چھوڑ کر چند کو مطعون کیا۔ عمر بن خطاب سے ڈائرکٹ عمر بن عبدالعزیز پر آجاتے ہیں لیکن بات مغربی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کی کرتے ہیں۔ آخر اسے کیا نام دیا جائے؟ آپ ہی بتائیں مہربانی ہوگی۔
💥رافضیوں سے نہیں اہل سنت سب سے بڑا سوال: کیا اس وقت شہدائے کربلا ستر بہتر لوگوں (جس میں اکثر اہل بیت اور چند دیگر قبائل کے لوگ تھے) کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام وتابعین عظام باطل پر تھے؟ اس وقت کے لاکھوں صحابہ وتابعین کو چھوڑ کر  صرف یہی حق کے لئے لڑنے آخر کیوں نکلے تھے؟ دوسرے صحابہ وتابعین آخر ان کے ساتھ کیوں نہیں نکلے؟ حتی کہ ابن عباس نہ خود نکلے بلکہ حسین کو ہر ممکن کوشش کی نہ نکلنے کی۔ آخر کیوں؟ کیا رافضیوں کے مطابق اس وقت نکلنے والے ہی صرف حق پر تھے؟ یا حسین کا کوفہ جانے کا مقصد کچھ اور تھا جسے رافضیوں نے بڑی عیاری سے چھپا دیا؟ کیوں آپ پہلے مدینہ سے بھاگ کر مکہ گئے پھر جب وہاں بھی اطمینان نہیں ہوا تو اہل کوفہ کے اطمینان دلانے پر کوفہ جانے کا قصد کیا اور بس۔ نہ کوئی سیاسی ایجنڈا تھا اور نہ ہی خلیفہ وقت سے لڑنا۔ جو مقصد مدینہ سے مکہ جانے کا تھا بالکل وہی مقصد مکہ سے کوفہ جانے کا تھا۔ آپ وہاں جانے میں یوں بھی تھوڑا مطمئن تھے کیونکہ آپ کے والد کا وہ خلافت کا مرکز رہا چکا تھا۔ چنانچہ وہاں زیادہ اعوان وانصار کی امید تھی۔ 
💥کیا اہل بیت سے محبت صرف روافض اور بریلوی وتحریکی ہی کرتے ہیں؟ یہ اس محبت میں کس حد تک سچے ہیں؟ رافضیوں، تحریکیوں اور بریلویوں کا دین وعمل کیا اہل بیت کے دین وعمل جیسا ہے؟ محبت کا آخر کیا معیار ہے؟ 
رافضیوں کے ساتھ حب آل بیت کے جھوٹے دعوے میں أہل سنت میں سے بریلوی اور تحریکی بھی ان کے سر میں سر ملانے لگتے ہیں۔ حالانکہ ان کے یہاں بھی زبانی دعووں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اہل سنت کے دیگر لوگ اہل بیت سے جتنی محبت کرتے ہیں اور اس محبت میں انہوں نے جتنی کتابیں لکھ دی ہیں اس کا عشر عشیر بھی انہیں محبت ہے اور نہ انہوں نے ان کے فضائل اور محبت اتنی کتابیں لکھی ہیں۔ کتابوں کی ایک فہرست پیش کی جا سکتی ہے۔ 
💥میرا صرف اتنا کہنا ہے کہ چودہ صدیوں کے بعد آج ہمیں قرن اول کے بارے میں نہ تو حکم بننا چاہئیے اور نہ رافضیوں کے رو میں بہہ کر انہیں دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ 
آخر کیا اس وقت لوگ موجود نہیں تھے؟ 
ابن عباس سے زیادہ کون سمجھنے والا ہو سکتا ہے یزید اور حسین کے بارے میں۔ کیا آپ لوگوں نے ان کا موقف جانا؟
اہل بیت کی معزز شخصیت محمد ابن الحنفیہ کی ہے۔ یزید کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے اسے کیوں نہیں سامنے لایا جاتا؟ 
عبد اللہ بن عمر، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کا اس وقت کیا موقف تھا اسے رافضیوں کی طرح کیوں چھپایا جاتا ہے؟ وہ تو صحابہ کرام کو مرتد مانتے ہیں البتہ ہم تو انہیں ہر اعتبار سے سند مانتے ہیں۔ 
جس وقت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے نکل رہے تھے عبد اللہ بن زبیر اور عائشہ صدیقہ وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انہیں کیا نصیحت کی تھی؟ کیا اسے کبھی آپ نے جاننے کی کوشش کی؟ 
خود ابن حسین علی زین العابدین کا یزید اور اہل کوفہ کے بارے میں کیا موقف تھا؟ اسے کیوں نہیں سامنے لایا جاتا؟
💥امیر معاویہ اور یزید نے اہل بیت کے ساتھ کیسے اکرام سے پیش آتے تھے ابن الحنفیہ اور دیگر اہل مدینہ کے بیانات سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟
حسین کا سر جب دمشق لایا جاتا ہے اس وقت یزید سر لانے والے اور ابن زیاد کے بارے میں کیا کہتا ہے اسے کیوں نہیں مشہور کیا جاتا؟
اس سے بڑا حادثہ تو حسن رضی اللہ عنہ کا ہے۔ ان کی فوج بھی بڑی تھی۔ آپ کیوں خلافت سے دست بردار ہو گئے؟ اس پر سارے مسلمان ایک طرف خوشی منا رہے تھے تو دوسری طرف کون لوگ غم میں مبتلا تھے؟ مذل المومنین کس نے کہا آپ کو؟ بلکہ آپ کو جسمانی تکلیفیں بھی پہونچائیں۔ اور قتل کا بھی ارادہ کیا۔ اسے کیوں نہیں اچھالا جاتا؟ 
💥یزید نے ابن زیاد کے ساتھ کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ یہی سوال تو علی رضی اللہ عنہ سے بھی تھا کہ بلوائیوں کے ساتھ کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ وہاں آپ جیسے کیا جواب دیتے ہیں ظاہر ہے وہی جواب یہاں بھی ہو گا۔ یعنی بلوائیوں کی وجہ سے جس طرح علی رضی اللہ عنہ مجرم نہیں ٹھہریں گے اسی طرح ابن زیاد جیسے کوفیوں کی وجہ سے یزید بھی مجرم نہیں ٹھہرے گا۔ جس طرح قتل عثمان کا ذمہ دار بلوائی ہیں اسی طرح قتل حسین کا ذمہ دار کوفی ہیں۔ 
اس سے بڑا بھیانک حادثہ حرم نبوی میں ھوا عثمان بن عفان ذو النورین کا حادثہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ میں تیسرے افضل ترین شخصیت ہیں۔ انہیں بلوائیوں نے کیسے تڑپا تڑپا کے مارا اور کیسی زیادتی کی اہل خانہ پر۔ بلوائی کون تھے بعد میں کس کے پاس پناہ لی؟
کبھی جاننے کی کوشش کی؟ بلکہ الٹا ذو النورین ہی کو مطعون کیا جاتا ہے۔ 
💥حادثہ کربلا سے کہیں بڑا حادثہ شہادت عمر بن خطاب ھے۔ اس کے پیچھے کن کی سازش تھی؟ اسے کیوں نہیں بیان کر کے اچھالا جاتا ہے؟ 
بلکہ الٹا قاتل عمر مجوسی کافر فیروز کو شجاع الدین یعنی دین اسلام کا سب سے بڑا بہادر بنا کر اس کی برسی پر خوشی کون منا رہا ہے؟ اس کے پیچھے چھپے راز کو کبھی جاننے کی کوشش کی گئی؟
حسین کو رضی اللہ عنہ کہنے والا اگر یزید کو رحمہ اللہ کہتا ہے تو اس میں کون سی غلطی ہے؟ کیا اس کے لئے رحمت کی دعا بھی نہیں کر سکتے ہیں؟ کیا رافضیوں کی طرح لعن طعن کریں گے گالی دیں گے؟ 
حب علی کے آڑ میں بغض معاویہ در اصل رافضیوں کا شیوا ہے اہل سنت کا کبھی نہیں رہا ہے سوائے ان کے جو غفلت یا دھوکے میں جانے انجانے روافض کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔ 
ہمارا موقف یہی ہے کہ ان حساس واقعات کو شیعی کتب وروایات کے علاوہ سنی کتب وروایات کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اور حسینی ویزیدی کا نعرہ نہ لگا کر اس وقت کے صحابہ کرام وتابعین عظام کے موقف کو جان کر فیصلہ کیا جائے۔ 
ورنہ رافضی تو اپنے علاوہ سب کو یزیدی کہتے ہی ہیں۔ اور یہی کہہ کر اس وقت ایرانی اہواز وبلوچستان، یمن اور عراق وشام میں أہل سنت مسلمانوں کو قتل بھی کر رہے ہیں۔ اور مارتے وقت یا حسین کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں۔ حالانکہ انہیں نہ حسین سے مطلب ہے نہ یزید سے انہیں تو بس مسلمانوں سے دشمنی ھے۔ اگر ہم بھی انہیں کی طرح کچھ کو حسینی اور کچھ کو یزیدی کہنے لگیں تو ہمیں کن کی صفوں میں شامل کیا جائے گا؟ 
آپ ہی فیصلہ کر کے بتائیں؟ عین نوازش ہوگی۔ 
💥صحابہ کرام کی محبت سے سرشار ایک غیور متبع سنت کی للکار: 
((کاتب وحی ، خال المسلمین ، فاتح عرب وعجم ، امام تدبیر وسیاست ، سیدنا حضرت امیرمعاویہ بن ابوسفیان رضی اللّٰہ عنہما......
آپ کی شخصیت، آپ کا کردار اور کارنامے، تاریخ اسلام میں ایک درخشندہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ کی شخصیت وہ مظلوم ترین شخصیت بھی ہے جو دشمن کی آنکھوں میں تو کانٹوں کی طرح ہر وقت چبھتی رہتی ہے، دشمنوں کے دلوں پر آپ تلوار کی طرح ہر وقت چلتے رہتے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آپ کا نامِ نامی اسم گرامی تعظیم واکرام کے انداز میں لینے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ایسی عظیم شخصیت جسے وحی کی کتابت کا منصب حاصل ہوا ہو، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پرسنل سیکرٹری کے طورپر کام کرتے رہے ہوں، جن کے ہاتھوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیش گوئیاں مکمل ہوئی ہوں ، جنہیں خلیفہ ٔ راشد کی حیثیت سے 64 لاکھ 65 ہزار مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرانے کا شرف حاصل ہوا ہو، جنہیں پرتگال کے ساحل سے لے کر چین کی دیواروں تک اسلامی مملکت قائم کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہو۔
وہ عظیم شخصیت جسے سید الکونین سرکارِ دو عالم ﷺ کے نواسوں، سیدنا علی المرتضیٰؓ اور حضرت فاطمہؓ کے گوشۂ جگر حضرت حسن وحسینؓ کی طرف سے بیعت حاصل ہو۔ پیغمبراسلام کے نواسوں نے جس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی ہو ، آج اس کو امت مسلمہ فراموش کر دے تو یہ سانحہ سے کم نہیں ہے۔
خود ساختہ نام نہاد مفکروں نے تاریخ کے رطب ویابس کوجمع کرکے، تاریخ کے چند جھوٹے چیتھڑوں کو جمع کر کے سیدنا معاویہؓ کی ذات اقدس پر کیچڑ اچھال کر اپنے آپ کو ایک اسکالر اور مؤرخ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آج یہ حقیقت آشکارا ہو چکی ہے کہ جس شخصیت نے بھی حضرت امیرمعاویہؓ کی زندگی کا غیر جانبدارانہ انداز میں، انصاف کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اسے یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ آپ کا دورِ خلافت ایک مثالی خلافت راشدہ کا دور تھا۔
دوستو! کیا بتائوں آپ کو،یہاں تو جن لوگوں کی زندگیاں گزر گئیں اصحابِ رسولؐ کی مدح وتعریف کا کام کرتے ہوئے......وہ لوگ بھی......یہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ خلیفۂ راشد نہیں۔
وہ لوگ جو عمر بن عبد العزیز جیسے تابعی کو خلیفہ راشد کہتے ہیں ، خلافت راشدہ کا تتمہ قراردیتے ہیں، غیر صحابی کو خلیفہ راشد کہتے ہیں مگر صحابی رسولؐ کو خلیفہ راشد کہتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے))۔
👈نوٹ: اگر دو کتاب کا مطالعہ کر لیا جائے تو رافضیوں کی سازش اور بعض سنی مسلمانوں کی غفلت واضح ھو جائے گی۔ ایک ابن تیمیہ کی منہاج السنہ اور دوسری کفایت اللہ سنابلی کی یزید پر لگائے گئے الزامات اور ان کا جواب۔ 
🌹منہاج السنہ کو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک سڑے رافضی کے جواب میں لکھی ہے۔ تمام رافضیوں کی پول کھول دی ہے۔ ایک ایک کر کے ان کے تمام الزامات کا براہین قاطعہ کی روشنی میں رد کیا ہے۔ 
کتاب کا پورا نام (منہاج السنہ النبویۃ فی نقض کلام الشیعہ القدریہ) ہے۔ نو جلدوں میں محمد رشاد سالم کی بہترین تحقیق کے ساتھ درج ذیل لنک پر موجود ہے:
http://waqfeya.com/book.php?bid=589
✍اس وقیع کتاب کا اردو میں ترجمہ بھی ہو چکا ھے۔ مترجم  پیرزادہ شفیق الرحمن الدراوی ہیں جو کہتے ہیں: '' مجھے ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنہ ایک سنہری ہار کی شکل میں ملی ؛ جس پر میں نے اہل سنت کی معتبر کتب سے حواشی کی شکل میں ہیرے جڑ دیے۔ اب یہ نوجوان نسل کی نذر کررہا ہوں۔نوجوان اسے اپنی زینت بنالیں۔ جو انسان حقیقی معنوں میں اس کتاب کا مطالعہ کرلے گا وہ کبھی بھی رافضیت کے جال میں نہیں پھنس سکے گا ؛ انشاء اللہ" ۔ 
البتہ اس کتاب کی لنک مل نہ سکی لیکن اسی کتاب کا اختصار کیا ہے علامہ ذہبی نے المنتقى من منهاج الاعتدال في نقض كلام أهل الرفض والاعتزال [ مختصر منهاج السنة ] کے نام سے جو اس لنک پر موجود ہے:
https://islamhouse.com/ur/books/311412/
🌹"یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ  پر الزامات کا تحقیقی جائزہ"
مؤلف: شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ
اپنی نوعیت کی ایک بالکل مختلف اور منفرد تحقیق جس میں  واقعہ کربلا سے متعلق غلط فہمیوں اور یزید پر لگائے گئے الزامات اور اعتراضات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا اور ساتھ  ہی ساتھ روایات کی استنادی حیثیت پر سیر حاصل بحث بھی کی گئی  ہے جو اس تحقیق کو چار چاند لگا دیتی ہے اور اس انداز  کی یہ اپنی نوعیت کی پہلی کاوش ہے۔
کتاب کے بعض مقامات پر حافظ ندیم ظہیر صاحب نے اعتراضات کیئے تھے جن کا  تفصیلی جواب بھی مؤلف کی جانب سے دیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ابھی تک کسی نے مکمل کتاب کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی جس سے  اس بات کو مزید تقویت پہنچتی ہے کہ مؤلف کے دلائل واقعتاُ کافی مضبوط  ہیں جو مؤقف اختیار کیا گیا ہے وہ کافی جاندار ہے۔ ڈاؤن لوڈ کی لنک درج ذیل ہے:
https://archive.org/details/YazeedParIlzamatKaJayezahPdf
🌹اور ساتھ ہی اگر ابن العربی المالکی کی مایہ ناز کتاب (العواصم من القواصم) کا بھی مطالعہ کر لیا جائے خاص کر علامہ محب الدین الخطیب کی تعلیق وتحقیق والا نسخہ تو پھر کوئی بھی بڑے سے بڑا رافضی عالم اس کے سامنے ایک لمحے کے لئے نہیں ٹک سکے گا۔ یہ کتاب اس لنک سے حاصل کی جا سکتی ہے:
http://waqfeya.com/book.php?bid=345
🌹شیخنا عامر انصاری مدنی حفظہ اللہ کے قیمتی مشوروں سے اگر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کی مشہور کتاب (واقعه كربلاء أور اس كا پس منظر)، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی (تحفہ اثنا عشریہ)کا مختصر اور حافظ صلاح الدین یوسف کی (خلاف وملوکیت کی تاریخی وشرعى حیثیت) کا بھی اگر مطالعہ کر لیا جائے تو رد شیعیت اور صحابہ کرام پر اعتراض کرنے والوں کو دھول چٹانے میں وقت کا احسان الٰہی ظہیر بن سکتا ہے۔ 
 آخری کتاب پر کسی کا تبصرہ: علامہ مودودی رحمہ اللہ کی بدنام زمانہ کتاب (خلافت وملوکیت) کہ جسمیں انہوں نے سید قطب’طہ حسین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحابہ کرام خصوصاً عثمان وامیر معاویہ رضی اللہ عنہم پر طعن درازی کی ہے کا مدلل وعلمی رد ہے- حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی "خلافت وملوکیت" کی ردّ میں یہ سب سے انفرادی تالیف ہےضرور مطالعہ کریں.
____________________________________________
💥منقولات مفیدہ:
🌹منقول اول: "عمر بن عبدالعزیز کی خلافت راشدہ اور سیدنا معاویہ رض کی ملوکیت"
تحریر: محمد فھد حارث
مقام حیرت تو یہ ہے کہ عمر بن عبدالعزیز جنہیں خلیفہ راشد باور کروایا جاتا ہے وہ اسی "ملوکیت" کے تحت اقتدار میں آئے جس کا بانی سیدنا معاویہ رض کو قرار دیا جاتا ہے اور پھر جاتے جاتے عمر بن عبدالعزیز نے اقتدار اسی ملوکیت کے تحت یزید بن عبدالملک کو سونپنے کا سوچا جو کہ اسی "مذموم" نظام حکومت کا پروردہ تھا۔ اگر یہ ملوکیت اتنی ہی بری شے تھی تو وہ اس کے "شر الملک" جناب سلیمان بن عبدالملک کے مشیر کیونکر رہے اور نہ صرف مشیر رہے بلکہ ولیعہد بھی مقرر ہوگئے۔ چلو سلیمان نے بہت زور زبردستی کرکے آپکو ولی عہد بنا بھی دیا تھا تو اس کے انتقال کے بعد عمر بن عبد العزیز کو معاویہ بن یزید بن معاویہ کی طرح سے اقتدار چھوڑ کر "شوری انتخاب" کا مشورہ دیدینا چاہیئے تھا اور پھر اگر لوگ انکو خلیفہ منتخب کرلیتے تو وہ خلیفہ بن جاتے۔ لیکن عمر بن عبدالعزیز نے یہ بھی نہ کیا بلکہ "کاٹ کھانے والی ملوکیت ۔ملک عضوض۔" کے ذریعے اقتدار میں آئے، پھر اسی ملوکیت کو "کمزور" کرنے کے لئے سارے اقدامات کئے۔ لیکن اس کی سرکوبی کا سب سے بڑا قدم یعنی جاتے جاتے ولیعہد مقرر کرنے کے بجائے ملوکیت کو "شوری انتخاب" کے ذریعے دوبارہ خلافت میں بدلتے پھر سے بنو امیہ سے ولیعہد مقرر کرکے اسی ملوکیت کے ہاتھ مضبوط کر بیٹھے۔ 
اب اسکے دو ہی مطلب لئے جاسکتے ہیں، یا تو عمر بن عبد العزیز کے سارے اقدامات معاذ اللہ منافقانہ تھے کہ اسی نظام کا حصہ بنے رہے جس کو برا سمجھتے تھے اور اسی کو مزید مضبوط کرکے چلتے بنے یا پھر یہ مان لیا جائے کہ ان کے نزدیک ملوکیت کبھی منبع فساد تھی ہی نہیں، ان کو اپنے پیشرو چند خلفاء سے انتظامی و حکومتی اختلاف تھا جس کی اصلاح کی اپنے تئیں انہوں نے کوشش کی تاہم یہ اختلاف اسی نوعیت کا تھا جس نوعیت کا اختلاف امور جہانبانی میں ایک سلطان کو دوسرے سلطان سے عموما ہوتا ہے۔ اس سے کوئی ایک صحیح و "راشد" اور بقیہ غیر صحیح و "غیر راشد" نہیں ٹھہر جاتے۔ 
پھر حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کو نامزد کرنے والے اصحاب رسول نہیں بلکہ ملوکیت کے سرکردہ جناب سلیمان بن عبدالملک تھے اور ان کے ہاتھ پر بیعت بھی "غیر قرآنی راشدین" نے کی تھی اور انکی حکومت کے عمال بھی یہی لوگ تھے، پھر بھی عمر بن عبدالعزیز خلیفہ راشد، جبکہ سیدنا معاویہ رض کو برسراقتدار لانے والے انصار و مہاجرین اور ازروئے قرآن "الراشدون" تھے اور ان کے حکومتی عمال کی اکثریت بھی انہیں راشدین پر مشتمل تھی لیکن پھر بھی سیدنا معاویہ رض خلیفہ راشد نہیں۔ جبکہ قرآنی نص سے سیدنا معاویہ رض "راشد" ہیں جبکہ ایسی کوئی چیز نص سے عمر بن عبدالعزیز کے لئے ثابت نہیں۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کیجیے۔
🌹منقول دوم: پانچواں خلیفہ راشد کہنا بھی دراصل حضرت عمر بن عبدالعزیز کی تکریم سے زیادہ حضرت امیر معاویہ کی تذلیل کے لیے کہا جاتا ہے- تاریخ دعوت و عزیمت جلد اول  پڑھیں، تو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی تعریف کی آڑ میں  مصنف کا حضرت امیر معاویہ کے لیے بغض بہت نمایاں نظر آرہا ہے- کبھی کبھی شدید افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے انتہائی وسعت نظر والے اسلاف بھی اتنی تنگ نظری کا مظاہرہ کریں گے۔
🌹منقول سوم: ناقدین معاویہ سیدنا معاویہ پر یزید کی ولی عھدی پر انگلی اٹھاتے ہیں کے شاید یہ کوئی غیر شرعی کام تھا تو میں ان سے کہتا ہو کہ اس طرح اعتراض تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر پر اٹھائی جاسکتی ہے ۔ مثال کی طور سیدنا ابوبکر نے سیدنا عمر کو خلیفہ مقرر کرکے نبی کریم کی مخالفت کی معاذ اللہ کیونکہ انھوں نے تو کسی کو اپنے بعد خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا ؟؟
اسی طرح سیدنا عمر پر بھی اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ انھوں رسول خدا اور ابوبکر صدیق دونوں کا طریقہ چھوڑ کر ایک نیا طریقہ اپنایا اور چھ لوگوں کی کمیٹی بنا ڈالی ؟؟ تو ناقدین معاویہ اس پر کیا جواب دینگے ؟؟
دوسرا بلاشبہ سیدنا علی کے بعد اس کا بیٹا خلیفہ بنا ہے اور دیکھا جائے تو اسلام میں سب سے پہلے باپ کے بعد بیٹے کا خلیفہ بننے کی رسم یہاں سے شروع ہوئی ہے ۔۔۔اب اس پر جواب دیا جاتا کہ سیدنا علی نے تو نہیں بنایا لوگوں نے بنایا ۔۔۔تو پوچھنا یہ تھا کہ جنھوں نے بھی منتخب کیا انھوں نے غیر شرعی کام کیا ؟ اگر یہ طریقہ غلط ہوتا تو سیدنا حسن خود بھی تو کہہ سکتے تھے کہ یہ درست عمل نہیں ھے  ۔۔چوں کہ چناچہ وغیرہ وغیرہ سیدھی اور سادہ بات یہی ہے کہ  سیدنا حسن سابق خلیفہ کے بیٹے ہی تھے ۔
تیسرا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک صحابی کے ساتھ ساتھ مجتھد بھی تھے بقول سیدنا ابن عباس کے  ۔۔میرے خیال وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ امام ابو حنیفہ اور امام احمد سے بڑے مجتھد اور افضل تھے اگر ان آئمہ کا قول فعل حجت ہے تو ایک مجتھد صحابی کا وہ فیصلہ کیوں حجت نہیں جس فیصلے پر بعد میں امت کا اجماع بھی ہوچکا ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق جاننے اور حق پر قائم رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1594077557372192&id=100003098884948

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...