💥کیا فلسطین پر یہودیوں کا حق ہے؟💥
🌲بقلم : ڈاکٹر اجمل منظور مدنی🌲
ایک صاحب نے اپنے فیس بک وال پر لکھا کہ فلسطین پر سیاسی اور مذہبی ہر دو اعتبار سے یہودیوں کا حق بنتا ہے۔ سیاسی اعتبار سے وہ مسلمانوں سے اس وقت مضبوط ہیں اور مذہبی اعتبار سے وہ سرزمین تو انہیں نے بسایا تھا اور وہی زمانے سے وہاں رہتے آئے ہیں۔ اسلئے مسلمانوں کو اس کا پیچھا چھوڑ دینا چاہئیے۔
حالانکہ یہ ایک واضح تاریخی اور جغرافیائی مغالطہ اور دھوکہ ہے۔ اس طرح کے پراگندہ خیالات کا اظہار علمانی فکر ، مالیخولیائی سوچ اور اسلام بیزاری کا واضح ثبوت ہے۔ سیاسی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کو صرف متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اسرائیل سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کے مقابلے میں کبھی مضبوط نہیں ہوسکتا۔ اس کے مقابلے میں صرف ایک ملک پاکستان کافی ہے لیکن جب وہ رافضی اور تقلیدی دباؤ سے آزاد ہو تب۔ ورنہ 57/ممالک کے سامنے اسرائیل کی کیا حیثیت ہے۔ ان کے سامنے جغرافیائی اعتبار سے اسرائیل کی حیثیت صرف ایک نقطے کی ہے۔ ان کے یہاں کمی ہے تو صرف اتحاد کی۔ 1969ء میں یہودی ظالم نوجوانوں نے جب مسجد اقصی میں آگ لگائی تھی تو اس وقت کے وزیر اعظم گولڈ مائیر نے کہا تھا کہ رات بھر مجھے نیند نہیں آئی تھی ۔ میں رات بھر یہی سوچتی رہی کہ مسلمان کب جذبات میں آکر اسرائیل پر حملہ کردیں اور اسے نیست ونابود کردیں۔ لیکن صبح ہونے پر میں ہر طرف جب خاموشی ہی خاموشی دیکھی تو سمجھ گئی کہ اب مسلمان ایک مردہ قوم کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
حالانکہ اگر وہ اس وقت ہوتی تو پتہ نہیں کیا کہتی کیونکہ اس وقت مسلمان نظریاتی اعتبار سے بھی کئی طرح سے اختلاف کے شکار ہیں۔ رافضی اور تحریکی ٹولوں نے تو فلسطین کے نام پر تجارت بھی شروع کر رکھی ہے۔ انہیں وہاں کے مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں رہ گیا ہے۔ ویسے رافضیوں کا عقیدہ بھی دیگر مسلمانوں سے کافی ہٹ کر ہے ۔ خصوصا فلسطین کے تعلق سے ان کا عقیدہ ہے کہ مسجد اقصی آسمان میں ہے نہ کہ فلسطین میں ، اسکے کئی ایک لیڈر اسکی وضاحت بھی کرچکے ہیں۔ جس طرح انہیں خانۂ کعبہ سے کوئی سروکار نہیں اسی طرح انہیں مسجد اقصی سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ انہیں اگر مطلب ہے تو صرف اپنے عقیدے کی تجارت سے۔ اپنے رافضی انقلاب کو ساری مسلم دنیا میں پہونچانے سے۔ اسی لئے اسرائیل بھی انکے سارے شعارات ، ان کے سارے نعروں کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ایران جتنا بھی ایٹمی ہتھیار بنا لے اسے کچھ نقصان نہیں پہونچا سکتا ۔ وہ صرف سنی عرب اور مسلم دنیا کے لئے تیار کر رہا ہے۔
اور ترکی تو پہلے ہی سے اسرائیل کو بحیثیت پڑوسی ملک کے تسلیم کر چکا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہر اعتبارسے تعلقات بنائے ہوئے ہے۔ گزشتہ سال تو یہ بھی مان لیا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل اپنی راجدھانی بنا سکتا ہے۔ اس لئے ترکی سے ہر اعتبارسے اسرائیل مطمئن ہے۔ وہ کسی طور پر اس کے لئے خطرہ نہیں ہوسکتا۔
اور جہاں تک مذہبی اعتبار سے فلسطین کا تعلق ہے تو یہودیوں سے کہیں زیادہ اس پر مسلمانوں کا حق بنتا ہے۔ کیونکہ سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکل دو مرتبہ میں تباہ وبرباد ہوچکاہے۔ بخت نصر کلدانی نے تو 586 قبل مسیح میں مکمل طور سے تباہ کرکے بیت المقدس کو لوٹ کر یہودیوں کو غلام بناکر عراق کے اندر بابل میں قید کردیا تھا۔ لیکن تقریباً پچاس ساتھ سال بعد ایرانی بادشاہ قورش نے انہیں آزاد کردیا اور دوبارہ فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دیدی۔ آج ایرانیوں اور یہودیوں میں یہی شخص اتحاد کا سبب ہے کیونکہ یہ بادشاہ ایرانیوں کی طرح یہودیوں کے یہاں بھی برابر مقبول ہے۔ اور موجودہ دور میں ایران واسرائیل دونوں کی حکومتیں یہ پسند کرتی ہیں کہ قورش کی طرح ایرانیوں کی ساسانی حکومت ہو جو یمن سے لیکر عراق وشام کے علاقوں تک پھیلی ہوئی ہو اور یہودیوں کی اسرائیل عظمی ہو جو نیل سے فرات تک پھیلی ہوئی ہو۔ دونوں حکومتوں کے متعدد سربراہان اس عزم کا اظہار فخر سے کرتے بھی رہتے ہیں۔
پھر دوبارہ یہودیوں کو رومی بادشاہ نے تقریباً ستر عیسوی کی دہائی میں تباہ کردیا تھا۔ اسکے بعد عیسائیوں نے وہاں قبضہ کرلیا تھا۔ پھر تو وہ در بدر کی زندگی یورپ کے مختلف ملکوں میں گزارنے پر مجبور تھے۔ لیکن ان کی بدتمیزی اور بد اخلاقی کی وجہ سے یورپ نے کمال ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر 1948ء میں فلسطین میں لا کر بسا دیا۔ یہودیوں کے بسنے کی مکمل تاریخ کو اگر جوڑا جائے تو پانچ سو سے زیادہ سال نہیں بنتا ہے۔ جبکہ فلسطینیوں کو اگر بحیثیت مسلمان کے دیکھا جائے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہی کے زمانے سے مسلسل 48ء تک رہتے چلے آئے ہیں سوائے بیچ میں80/ سال کے کہ جب صلیبیوں نے گیارہویں صدی میں بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس طرح کم سے کم تیرہ سو سال یہی ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینیوں کو اگر بحیثیت قوم کے دیکھا جائے تو فلستینی (ت کے ساتھ) وہاں ہزاروں سال سے بستے چلے آئے ہیں۔ سامی نسل کے لوگ جن سے بنی اسرائیل ہوئے ہیں جنوب جزیرۂ عرب سے بہت بعد میں جاکر فلسطین کے کنعان نامی علاقے میں آباد ہوئے تھے۔
پھر یہ جن کی طرف منسوب ہیں وہ یعقوب علیہ السلام ہیں جن کا لقب اسرائیل تھا ، اور انہی کی طرف منسوب کرکے انہیں بنی اسرائیل کہتے ہیں ۔ اور یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام مع اہل وعیال یوسف علیہ السلام کے زمانۂ حکومت میں مصر چلے گئے تھے۔ پھر بنی اسرائیل وہیں رہنے لگے۔ لیکن جب بہت بعد میں مصر کے فوعونوں نے ان پر ظلم وزیادتی کرنا شروع کی اور انہیں غلام بناکر استعمال کرنے لگے تو اللہ تعالی موسی اور ہارون علیہما السلام کو نبی بناکر ان کے پاس بھیجا ۔ موسی علیہ السلام انہیں فرعون کے ظلم سے نجات دلاکر دوبارہ فلسطین لے آئے لیکن اپنی نافرمانی کی وجہ سے میدان تیہ میں چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ پھر یوشع بن نون نے انہیں فلسطین پہونچایا۔ یہ کوئی گیارہ سو قبل مسیح کی بات ہے۔ اسکے بعد سلیمان علیہ السلام کے ہیکل بنانے اور پھر اسکے دو بار برباد ہونے کا واقعہ پیش آتا ہے۔ پہلی مرتبہ ایرانی بادشاہ بخت نصر کے ہاتھ پراور دوسری مرتبہ رومی بادشاہ ٹیٹس کے ہاتھ پر۔
مذکورہ وضاحت سے پتہ چلا کہ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ظالمانہ ہے ، اس پر صرف اور صرف اہل فلسطین کا حق ہے جو صرف یا تو مسلمان ہیں یا کچھ عیسائی ہیں۔ یہودی وہاں کے نا تو اصلی باشندے ہیں اور نہ ہی مذہبی اعتبار سے ان کا اس پر کوئی حق ہے۔ مسجد اقصی اور قبۃ الصخرہ دونوں کو مسلم رہنما ؤں نے بنایا ہے۔ رہا دیوار گریہ تو اس تعلق سے نیشن لیگ نے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کردیا ہے ۔ کیونکہ یہی جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسراء کے موقعہ پر اپنا براق باندھا تھا جسے آج حائط البراق کہتے ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ رافضیوں کو چھوڑ کر سارے مسلمان اکٹھا ہوکر اور سیاسی اعتبار سے متحد ہوکر یہودیوں کے خلاف لام بند ہوجائیں۔ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، روس اور پوری دنیا مل کر اسرائیل کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔ اللہ ہمارے اندر اتحاد پیدا کردے ، ایمانی روح کو بیدار کر اور دینی جذبہ پیدا کر کہ یہی وقت کی ضرورت ہے۔
mdabufaris6747@gmail.com
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1501828713263744&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق