💥ایران، ترکی اور سعودی عرب:💥
🎪فلسطین کے لئے حقیقی ہمدرد کون؟🎪
✍بقلم : ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
اسی مہینے دسمبر کی ۶/تاریخ کو امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ بیت المقدس اسرائیل کی راجدھانی ہوگی نیز امریکہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرلے گا۔ در اصل یہ قرار داد بیس سال پہلے ہی امریکی کانگریس میں پیش ہوچکا ہے اور اسی وقت امریکی سفارت خانے کی منتقلی کیلئے ۱۰۰/ ملین ڈالر کا بجٹ بھی پا س ہوگیا تھا ۔ اور امریکہ نے اس کے بعد کئی بار اسکی کوشش بھی کی ہے لیکن اب تک اس میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔ اس کے کیا وجوہات ہیں ؟ کس کی مداخلت اور اثر سے امریکہ ایسا کرنے سے آج تک باز رہا ؟ اسکا جواب تو مضمون کے پڑھنے سے مل جائے گا البتہ ٹرمپ کے اعلان کے بعد میڈیا میں کیا چل رہا ہے پہلے اسے دیکھ لیتے ہیں۔ پروپیگنڈوں اور افواہوں کے موجودہ دور میں حقائق کو کیسے چھپا کر باطل کو سراہا جاتا ہے اسے درج ذیل کچھ خبروں سے سمجھا جاسکتا ہے: چنانچہ حالیہ دنوں میں ایک تحریکی ویب سائٹ(middleeastmonitor.com) میں ۶/دسمبر کو یہ خبر منظر عام پر آئی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فلسطینی صدر محمود عباس کو یہ مشورہ دیا ہے کہ بیت المقدس کو چھوڑ کر اسکے قریب ایک قصبے (ابو دیس) کو فلسطین کا دار السلطنت مان لیں۔ اسی خبر کو ایک کٹر تقلیدی سعودی مخالف روزنامے سیاست ڈیلی نے بھی نشر کیا۔ کئی ایک روزناموں میں یہ خبر بھی چل رہی ہے کہ محمد بن سلمان نے ساڑھے چار ملین ڈالر میں عیسی مسح کا ایک کتبہ خریدا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی پھیلائی جارہی ہے کہ شاہ سلمان اپنی کرسی کے چکر میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک صاحب نے(ہمیں ٹرمپ سے کیا گلہ؟) کے نام سے تو ایک بڑا ہی نادر مضمون بھی لکھ ڈالا جس میں سعودی کے خلاف بہت کچھ کہنے کے بعد یہ خلاصہ پیش کردیا کہ چاہے سعودی ہو یا ایران یا اسرائیل ہر کوئی اپنے اپنے مفاد میں لگا ہوا ہے۔ پوری تحریکی اور تقلیدی میڈیا اس بات کو زور شور سے پیش کر رہی ہے کہ ایسے سنگین موقعہ پر سعودی کچھ نہیں کر رہا ہے ۔ دیکھو ایرانی صدر روحانی نے امریکہ کو یہ دھمکی دے ڈالی ہے ۔ ترکی کے صدر رجب اردگان نے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دیدی ہے۔ حسن نصر اللہ نے پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے کی دعوت دی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بالکل واضح ہے کہ سعودی کے خلاف یہ ساری جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈے نیز کاغذ کے لیڈروں کی دھمکیاں اس لئے پھیلائی جارہی ہیں تاکہ فلسطین کے تعلق سے سعودی کا واضح موقف کھل کر سامنے نہ آسکے۔ اور ساتھ ہی ڈھول اور بھونپو جیسے لوگوں کو موجودہ وقت کا سپریم رہنما ، مسیحا ، اصلی ہمددر اور امیر المومنین بنا کر پیش کیا جاسکے۔ اور بلا کسی عملی اقدام کے سارا کریڈٹ سمیٹ لیں اور ساتھ ساتھ جمہور مسلمانوں کی ہمدردی بھی بٹور لیں تاکہ مستقبل میں اپنے خفیہ پلاننگ میں اِنہیں کے خلاف اقدامات کے کرنے میں اُنہیں کوئی پریشانی اور دقت پیش نہ آئے۔ تحریکیوں اور تقلیدیوں سے سوال یہ ہے کہ انکے یہ سارے سربراہان آخر عملی میدان میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں کیا کر رہے ہیں ؟ آخر ترکی اور ایران نے فلسطین کیلئے کیا خدمات پیش کئے ہیں؟ اسرائیل کے خلاف انہوں نے کتنی جنگیں لڑی ہیں؟ اگر حقائق کی دنیا میں جائیں گے تو پتہ چلے گا کہ حسن نصر اللہ کا ایران نواز حزب اللہ تنظیم شام اور فلسطین کے خطے میں صرف اور صرف اسرائیلی مفاد کیلئے کام کر رہا ہے ۔ وہ اس بات کی بھی نگرانی کررہا ہے کہ اس خطے میں کوئی سنی تنظیم فلسطین کیلئے آکر کام نہ کر سکے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ حزب اللہ اسرائیل کو کچھ نقصان پہونچائے اور نہ ایسا کبھی ہوسکتا ہے کہ اسرائیل لبنا ن میں موجود اسکے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے ۔ وہ لبنان کے سنی علاقوں پر حملہ کرسکتا ہے ۔ شام پر حملہ کرسکتا ہے ۔ اردن پر بھی حملہ کرسکتا ہے۔ مصر پر حملہ کرسکتا ہے۔ فلسطینی علاقوں : غزہ ، الخلیل، خان یونس، مغربی پٹی اور مشرقی بیت المقدس پر حملہ کرسکتا ہے۔ لیکن حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ نہیں کر سکتا۔ ایران کا تو جگ ظاہر ہے کہ ایرانی راجدھانی طہران میں ایک بھی سنی مسجد نہیں ہے جبکہ وہاں سیکڑوں یہودی اور عیسائی عبادت خانے موجود ہیں ۔ اسرائیل کے یہود سب سے زیادہ تجارت ایران سے کرتے ہیں۔ لاکھوں یہودی اقلیت میں رہ کر ایران میں جتنا سکون محسوس کرتے ہوں گے اتنا سکون انہیں اسرائیل میں بھی نہیں ملے گا۔ جبکہ بلوچستان اور اہواز کے کروڑوں سنی مسلمانوں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ رافضی حکومت انہیں معمولی بات پر بلکہ بلا وجہ ستانے اور جیل میں ڈالنے اور پھانسی کے پھندے پر لٹکانے جیسا سزا دینے میں کوئی شنوائی نہیں کرتی ۔ایران کے اسرائیل اور امریکہ سے تجارتی تعلقات اور خفیہ طور سے سیاسی تعلقات کس پیمانے پر ہیں امریکی مصنف ٹریٹا پارسی کی کتاب (Treacherous Alliance: The Secret Dealings of Israel, Iran and the U.S.A.) پڑھ کر آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ عراق ایران جنگ میں اسرائیل ایران کی کس طرح خفیہ مدد کرتا تھا یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر امریکہ کا نعرہ ہم جیسے سنی مسلمانوں اور شیعہ عوام کو صرف دھوکہ دینے کیلئے ہے۔ ایرانی فوج عراق میں جاکر سنی آبادی کے خلاف تباہی مچا سکتے ہیں ۔ شام میں جاکر سنیوں کے خلاف جلاد اسد کی مدد کرسکتے ہیں ۔ یمن میں رافضی حوثی باغیوں کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ پورے عرب میں تباہی مچاسکتے ہیں لیکن ہزار دھمکی دینے اور اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے تک کی بات کرکے ایک گولی بھی اسرائیل نہ پھینکیں آخر عوام کو بھوکوں مار کر ایٹمی ہتھیار کس کے لئے بنا رکھا ہے؟ آخر ایران نے اسرائیل کے خلاف آج تک کیا کیا ہے؟ کیا کوئی رافضی ، تحریکی اور تقلیدی اس کا ریکارڈ پیش کرسکتا ہے؟ آخر فلسطینیوں کیلئے ایران نے کیا کیا ہے؟ ہاں اس نے حماس کو شیعہ ضرور بنا دیا ہے ؟ اپنی سیاسی مصلحت حاصل کرنے کیلئے تنظیمی سطح پر حزب اللہ کی طرح حماس کا ساتھ ضرور دے رہا ہے۔ رافضیت کو پھیلانے اور سنی مسلمانوں کو بگاڑنے کے اپنے فارمولے پر عمل پیرا ہوکر حماس تنظیم کو ہیک ضرور کر لیا ہے۔ کیا اس نے کبھی کوئی سیاسی حل پیش کیا ہے ؟ فلسطینیوں کے لئے کوئی بجٹ پاس کیا ہے؟ سیکڑوں کانفرسیں فلسطین کے حق میں ہوئی ہوں گی آخر ایران کتنے کانفرنس میں شریک ہوا اور اپنا حل پیش کیا اپنا تعاون پیش کیا؟ دھمکی دینے اور عوام کو مظاہرہ اور احتجاج کرنے کیلئے سڑکوں پر اتار دینے سے آخر کیا حل ہوجائے گا ؟ مکار یورپ نے ہی یہ فارمولہ نکالا ہے کہ عملی اقدام کرنے کے بجائے توڑ پھوڑ مچاکر نیز اپنے غصہ کو سڑکوں پر جاکے اتار کر خاموش ہوجاؤ۔
💥جہاں تک ترکی بہادر کا معاملہ ہے تو اسے فلسطین کے معاملے میں بولنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے کیونکہ اس ملک نے شروع ہی سے اسرائیل جیسی ظالم حکومت سے اپنے تعلقات ہر سطح پر بنائے ہوئے ہے۔ قومی دن پر ایک دوسرے کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں۔ ترکی سفارت خانہ تل ابیب میں اور اسرائیلی سفارت خانہ انقرہ میں اب بھی موجود ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین زبردست تجارت ہوتی ہے۔ حتی کہ عسکری اور فوجی پیمانے پر ایک دوسرے کے تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک مل کر آپس میں عسکری پریڈ کرتے ہیں۔ ضرورت پر ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں جس کی مثال اسرائیل میں بڑے پیمانے پر آگ بھڑکنے کی صورت میں قابو نہ ہوپانے پر ترکی نے اپنا خاص جہاز بھیجا تھا ۔ آج یہی ترکی اسرائیل کو دھمکی دے رہا ہے کہ ہم اپنے تعلقات ختم کرلیں گے۔ اسے شرم نہیں آتی کہ ایسے ظالم ملک سے تعلقات بنانا ہی نہیں چاہیئے آخر دھمکی کس بات کی۔ کچھ سال پہلے بلا اجازت ایک ترکی امدادی جہاز کے اسرائیلی علاقے میں داخل ہوجانے پر جب اسرائیل فورسیز نے اس پر حملہ کردیا تھا اور کئی ایک ترکی عملہ کے لوگ قتل ہوگئے تھے اس وقت بھی ترکی کے اسی صدر اردگان نے اسرائیل کو تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن کچھ نہیں کیا ۔ تعلقات جوں کے توں باقی رہے۔ اور اس موجودہ دھمکی کے بعد بھی باقی رہیں گے۔ پھر بھی تحریکیوں اور تقلیدیوں کے امیرا لمومنین بنے ہوئے ہیں۔ اب آئیے دیکھتے ہیں سعودی عرب نے فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف کیا کیا ہے؟ چنانچہ سعودی عرب نے فلسطین کی ہر سطح پر مدد کی ہے ۔ عسکری ، فوجی اور سیاسی پیمانے پر ، سماجی اور اخلاقی پیمانے پر نیز اقتصادی اور مالی پیمانے پر ۔ سر دست میں سعودی عرب کے سیاسی اور عسکری پیمانے پر فلسطین کی مدد کو واضح کروں گا تاکہ میڈیا میں سعودی کے خلاف پروپیگنڈہ، جھوٹ اور افواہ کے علاوہ سعودی کا حق اور سچ بھی سامنے آسکے۔ سب سے پہلے موجودہ امریکی قرار داد پر سعودی موقف اور اسکا عمل کیا رہا ہے ؟ نیز ۱۹۸۰ء میں جب اسرائیل نے اسی طرح کا قرار داد پاس کیا تھا تو اس وقت سعودی نے کیا کیا تھااسے بھی ملاحظہ کرلیں:
💥(تقریباً بیس سال کے بعد امریکی قرار داد کے مطابق موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جب یہ اعلان کیا کہ بیت المقدس اسرائیل کی راجدھانی ہوگی اور امریکہ اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کر لے گا تو اس پر تمام اسلامی ممالک اور اکثر غیرمسلم ممالک نے بھی اعتراض جتایا ۔ لیکن ملک سلمان بن عبد العزیز نے فوری کانفرنس بلا کر اس کی کھل کرمذمت کی اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ بلا واسطہ ٹرمپ سے فون کرکے اس مسئلے پر گفتگو کی ۔ نیز علاقائی اور خطے کی سلامتی کے پیش نظر اسے اس قدم سے باز رہنے کی ہدایت بھی کی۔ اور کہا کہ یہ قدم دنیا کے تمام مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچائے گاکیونکہ مسجد اقصی ہمارا قبلہ اول ہے جو بیت المقدس میں موجود ہے ۔ آپ نے یہ اعلان کیا کہ مملکت سعودی عرب فلسطین کے ساتھ ہر طرح کا تعاون جاری رکھے گا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ (https://urdu.alarabiya.net/ur/international/2017/12/07/)کے مطابق سعودی عرب نے امریکی صدر کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دار الحکزمت قرار دیئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور ساتھ ہی اس پر فوری طور پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ شاہی دیوان سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی عالمی قرار دادوں کے منافی اور ناقابل قبول اقدام ہوگا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ القدس کے بارے میں غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدام کے تباہ کن نتائج سے سعودی عرب بہت پہلے سے خبر دار کر چکا ہے۔ حالیہ امریکی فیصلے سے فلسطین ۔ اسرائیل تنازعہ مزید پیچیدہ ہوگا اور اور اس کے نتیجے میں پورے خطے میں تشدد کی ایک نئی لہر اٹھ سکتی ہے۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطینی قوم کو عالمی قراردادوں کے مطابق جو حقوق دیئے گئے ہیں انہیں حاصل کرنے اور عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے کی مساعی فلسطینیوں کا حق ہے۔ سعودی عرب کسی ملک کے ایسے کسی اقدام کی حمایت بالکل نہیں کرے گا جس کے نتیجے میں فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق، القدس کے اسلامی تشخص اور خطے میں دیرپا امن کی مساعی پر ضرب لگتی ہو۔ شاہی دیوان نے فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق بشمول حق خود ارادیت کے فراہم کرنے، مسئلہ فلسطین کے دائمی اور منصفانہ حل کیلئے عالمی سطح پر کوششیں تیز کرنے، عرب ممالک کی طرف سے پیش کردہ امن فارمولے پر عمل در آمد کی راہ ہمواہ کرنے، فلسطینی قوم کے سلب شدہ حقوق انہیں فراہم کرنے اور خطے میں امن واستحکام کے قیام کیلئے جد وجہد کرنے پر زور دیا ہے۔
💥بالکل اسی طرح امریکی شہہ پاکر ۱۹۸۰ء میں اسرائیلی پارلیامنٹ نے جب یہ قرارداد منظور کیا کہ بیت المقدس اسرائیلی ابدی راجدھانی ہوگی نیز اسے اسرائیل میں مکمل طور سے شامل کر لیا جائے گا۔ اس وقت اس ظالمانہ قرارداد کے خلاف سعودی حکومت نے پہل کرتے ہوئے اسکی مذمت کی اور تمام عرب اور اسلامی ملکوں کے تعاون سے اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں ۴۷۸ نمبر قرار داد پاس کرایا جس کے تحت مطالبہ کیا گیا کہ تمام ممالک اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات فوری طور سے ختم کرلیں ، اور صہیونی ریاست نے بیت المقدس کو یہودی دار السلطنت بنانے کی جو گھناؤنا کوشش کی ہے اسے سیاسی طور پر رد کیا جائے۔ چنانچہ اس قرارداد کے پاس ہونے پر اسرائیل خاموش ہوگیا اور اسے مسلمانوں کیلئے اسرائیل کے خلاف ایک بہت بڑا تاریخی سیاسی جیت سمجھا گیا۔ مملکت سعودی عرب کے دستور اساسی میں ہمیشہ سے یہ پہلو شامل رہا ہے کہ فلسطین مسئلے پر اہل فلسطین کی ہر سطح پر تعاون کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بانئ مملکہ ملک عبد العزیز بن بن عبد الرحمن الفیصل آل سعود شروع ہی سے اسلامی اور عربی بھائی چارگی جذبے کے تحت فلسطین کے حق کیلئے ہمیشہ سرگرم رہے اور اہل فلسطین کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے رہے۔ چنانچہ سرزمین فلسطین میں۱۹۴۸ء میں ناجائز صہیونی ریاست کے وجود میں آنے سے کئی سال پہلے ہی انگریزی صہیونی سازش کو بے نقاب کرنے اور انہیں ناکام بنانے کیلئے کوشش کرنا شروع کردی تھی۔
💥اکتوبر ۱۹۲۹ء کے اندر ظالم یہودیوں کے ایک بدمعاش گروپ نے جب صلاۃ جمعہ کے وقت مسلمانوں پر بم پھینک دیا جس سے کئی ایک مصلی شہید اور کئی ایک زخمی ہوگئے۔ تو ملک عبد العزیز ؒ نے سب سے آگے بڑھ کر اس یہودی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے غم وغصے کا شدت سے اظہار کیا اور لندن ایک مذمتی خط ارسال کیا۔ نیز اس وقت موجود عربی اور اسلامی عالمی اداروں کے پاس آپ نے خطوط روانہ کئے جس کے اندر صہیونی ظالمانہ اعمال کی مذمت کے ساتھ ساتھ سب کو یہودیوں کے خلاف متحد ہونے کی دعوت پیش کی۔
💥۱۹۳۵ء کے اندر لندن میں فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کیلئے جو مشہور گول میز کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس کے اندر ملک عبد العزیزرحمہ اللہ نے فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت اور یہودیوں کو ہٹانے نیز جہاں سے آئے ہیں وہاں واپس بھیجنے کی واضح موقف کو کھل کر رکھا تھا ۔
💥( ۱۹۳۶ء کے اندر فلسطین کے اندر جب اہل فلسطین نے انگریزوں کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی تو برطانوی حکومت نے مالٹا اور مصر (جہاں انگریزوں کی حکومت تھی) سے فوجی مدد منگوا کر اس انقلاب کو ختم کردیا اور فلسطینیوں کو کافی نقصان پہونچایا۔ اس ظالمانہ کارروائی پر ملک عبد العزیز ؒ نے کھل کر برطانیہ کی مذمت کی اور اہل فلسطین کو حق دفاع کی پوزیشن میں مان کر ان کا پورا پورا ساتھ دیا۔ 💥( ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے فلسطینی مسئلے کو لیکر بہت سارے امریکی اور برطانوی رہنماؤں سے گفتگو کی ، ان کے ساتھ میٹنگ کی اور یورپی نیز امریکی میڈیا میں آپ نے فلسطین کے حق میں کھل کر بات کی ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ میں لائف (Life) اخبار نے ۱۹۴۳ء میں فلسطین کے حق میں ملک عبد العزیز ؒ کے دفاع کو مغربی میڈیا میں سب سے نمایاں کر کے دکھایا۔
💥( ملک عبد العزیز ؒ حج کے موسم کو بھی غنیمت سمجھتے تھے چنانچہ اسکا استغلال ہر سال کرتے۔ اور پوری دنیا سے آئے ہوئے تمام مسلمانوں کے سامنے فلسطینی مسئلے کو رکھتے اورانہیں فلسطینیوں کے حق میں لڑنے نیز غاصب یہودیوں کے خطرے سے آگاہ کرتے۔
💥( ۱۹۴۵ء کے اندر جب فلسطین کی سرزمین میں یہودیوں کے بسانے کی بات انگریزوں کی طرف سے سامنے لائی گئی اور اس کے لئے انہوں نے لندن میں فلسطین کانفرنس منعقد کی جس میں ملک عبد العزیز ؒ نے امیر فیصل اور امیر خالد کے ہمراہ شرکت کی۔ ملک عبد العزیز ؒ نے اس منحوس پلان کی کھل کر مخالفت کی اور اسکے خلاف آواز اٹھائی۔ اس طرح یہ مسئلہ کچھ وقت کیلئے دب کر رہ گیا۔
💥(۱۹۴۷ء کے اندر جب یہی مسئلہ(فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کا مسئلہ) دوبارہ اٹھایا گیااور تقسیم فلسطین کی بات چھیڑی گئی تو اس وقت بھی امیر سعود بن عبد العزیزؒ نے سب سے پہلے اسے سختی سے رد کردیا اور اس کے خلاف مہم چھیڑ دی۔ چنانچہ آپ نے مجلس شوری منعقد کرائی اور سب کے سامنے اپنے خطاب میں کہا: ( إننا مستعدون لإنقاذ فلسطین بأموالنا وأنفسنا متکلین علی الله الذی نستمد منه العون وحده) ترجمہ: اپنے مال اور جان سے ہم ہر حال میں فلسطین کو بچانے کیلئے تیار ہیں، ہمیں اپنے اللہ پر بھروسہ ہے ، ہم صرف اسی سے ہر طرح کی مدد حاصل کرتے ہیں۔
💥(۱۹۴۸ء میں ناجائز صہیونی ریاست کے اعلان کے وقت ہی اسرائیل کے خلاف جنگ میں مملکت سعودی عرب نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ چنانچہ مملکہ کی طرف سے سرکاری فوج کے ساتھ ساتھ عوامی اور رضاکارانہ فوج بھی تھی جنہوں نے جذبۂ شہادت کے ساتھ یہودیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور عملاً بہت سارے سعودی بہادر شہید بھی ہوئے تھے۔ 💥(ملک عبد العزیز ؒ پہلے مسلم رہنما ہیں جنہوں نے یہ پہل کیا کہ فلسطینیوں کو مال اور ہتھیار سے مدد کی جائے تاکہ وہ اپنی سرزمین کی دفاع کرسکیں۔ پھر اور ایک قدم اور آگے بڑھ کر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے سب سے پہلے سعودی مجاہدین کو سرزمین فلسطین کی دفاع اور اسے غاصب صہیونیوں سے بچانے کیلئے بھیجا ۔ سعودی مجاہدین کو فلسطین کی طرف روانہ کرتے وقت آپ نے یہ تاریخی کلمہ کہا تھا: (إن أبناء فلسطین کأبنائی فلا تدخروا جهداً فی مساعدتهم وفی تحریر أرضهم)ترجمہ: فلسطین کے بچے ہمارے بچوں کی طرح ہیں، ان کی مدد کرنے اور انکی زمین آزاد کرانے میں کوئی لمحہ ضائع نہیں کرنا۔
💥 امیر سعود بن عبد العزیز ؒ نے ۱۹۵۳ء میں فلسطین کی زیارت کی ، مسجد اقصی اور مسجد ابراہیمی میں نماز ادا کی ، اہل فلسطین کی خبر گیری کی نیز ان کے حالات کا جائزہ لیااور انہیں ہر طرح کی تعاون کایقین دلایا۔
💥(۱۹۵۶ء کے اندر فلسطینی عزہ پٹی اور مصر پر جب سہ طرفہ (اسرائیلی۔برطانوی۔فرانسیسی)ظالمانہ حملہ ہوا تو مملکت سعودی عرب نے سب سے آگے بڑھ کر مصر کا ساتھ دیا۔ اور ظالم ممالک برطانیہ اور فرانس کیلئے پٹرول کی سپلائی بند کردی اور انکے ساتھ تمام سیاسی تعلقات کو منقطع کرلیا۔ کیونکہ ان ظالموں نے فلسطین کے خلاف غاصب صہیونی ریاست کی کھل کی حمایت کی تھی جو تمام مسلمانوں کے خلاف کھلا چیلنج تھا۔ اس طر ح یورپ کے خلاف پٹرول کا کارگر ہتھیار ملک سعود بن عبد العزیزؒ نے سب سے پہلے استعمال کیا۔
💥( ملک فیصل بن عبد العزیز ؒ اپنے والد ہی زمانے سے محض ۲۵ سال کی عمر ہی سے سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔ لندن کانفرنس میں بھی اپنے والد کے ساتھ فلسطینی مسئلے میں شریک تھے۔ خصوصا اپنے دور حکومت میں آپ نے فلسطین کے مسئلے کو تمام مسلمانوں کا مسئلہ بنا کر پیش کیا ۔ ۱۹۶۷ء میں تیسری عرب (اسرائیل جنگ جسے جون کی لڑائی (نکسة یونیو۔June war) سے جانا جاتا ہے ،میں مصر ، اردن اور شام کا آپ نے کھل کر ساتھ دیا۔ اس وقت اسرائیل کی دادا گیری ختم کرنے کیلئے آپ نے فلسطینی تنظیم (منظمة التحریر الفلسطینيةPLO-)کو مضبوط کرنے کیلئے کویت ، لیبیا اور تمام عربی اور اسلامی ممالک کو متحد کیا۔ نیز اسی موقعہ پر اگست ۶۷ء میں خرطوم کانفرنس آپ ہی کی اپیل پر بلوائی گئی اور تمام عربوں نے جس میں متحد ہوکراسرائیل کے خلاف عرب اتحاد کا ساتھ دیا تھا۔
💥( ۱۹۶۴ء میں اسکندریہ میں دوسری عرب عالمی کانفرنس ملک فیصل ؒ کی سربراہی میں منعقد ہوئی جس میں آپ نے تمام عربوں اور مسلمانوں سے فلسطین کا ہر طرح سے مدد کرنے کیلئے اپیل کی۔ اسی کانفرنس کے اندر آپ نے خود فلسطینی وجود کیلئے ہر طرح تعاون کا وعدہ کیا۔ سرزمین فلسطین کی آزادی کیلئے آپ نے فوری طور پر پانچ ملین اسٹرلنگ کی مدد پیش کی جس سے پانچ فوجی دستے بنائے گئے تاکہ جومستقل طورپر اسرائیلی فوجوں سے لڑنے کیلئے فلسطین میں کام کریں۔
💥( ۱۹۶۷ء کے اسرائیلی جارجانہ اقدام اور غاصبانہ قبضے کے بعد اسی سال اگست میں عرب لیگ کی چوٹی کانفرنس خرطوم میں منعقد کی گئی جس میں ملک فیصل بن عبد العزیز ؒ نے شرکت کی جو تین انکاری پوائنٹ کانفرنس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیونکہ عرب سربراہان نے اس کانفرنس کے اندر اسرائیل کے ساتھ کسی طرح کی صلح، کسی طرح کی گفتگو اور کسی طور پر اس صہیونی ریاست کو نہ ماننے پر اتفاق کیا تھا جب تک کہ فلسطینیوں کا تمام زمینی حق واپس نہ ہوجائے۔ (لا صلح ولا اعتراف ولا تفاوض مع العدو الصهیونی قبل أن یعود الحق لأصحابه)۔ اسے عربی میں (قمة اللاء ات الثلاث) سے جانا جاتا ہے۔ (۱۹۶۹ء میں ظالم صہیونیوں نے جب مسجد اقصی میں آگ لگانے کی کوشش کی تو اس وقت عالم اسلامی میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی تھی۔ ملک فیصل ؒ کو اس عظیم حادثے نے بہت زیادہ بے چین کردیا تھا اور اس سے آپ کو دلی صدمہ لاحق ہوگیا تھا۔ پھر تو آپ خاموش بیٹھے نہ رہ سکے بلکہ آپ نے فوری اقدام کرتے ہوئے تمام اسلامی ملکوں کو چوٹی کانفرنس منعقد کرنے کی دعوت دی جو اسلامی کانفرنس تنظیم (منظمة المؤتمر الإسلامی –OIC)کے وجود میں آنے کا ذریعہ ثابت ہوا۔ یہ تنظیم اس وقت اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی عالمی تنظیم مانی جاتی ہے۔ اس تنظیم نے فلسطینی مسئلے کی تعاون میں بہت بڑا رول اور کردار ادا کیا ۔یہی وہ پہلی علاقائی ، ملکی اور عالمی تنظیم ہے جس نے سب سے پہلے فلسطینی آزاد تنظیم (PLO) اہل فلسطین کے حق میں قانونی طور پر کام کرنے اور سرزمین فلسطین کی آزادی کیلئے لڑنے کے طور پر تسلیم کیا۔ ملک فیصل بن عبد العزیز ؒ نے فلسطینی کاز اور مسئلے سے متاثر ہوکر ہی کئی ایک اسلامی تنظیم کوقائم کیا جن میں او آئی سی کے علاوہ ندوۃ الشباب الاسلامی ، رابطۂ عالم اسلامی نیز تعمیر وترقی کے نام پر اسلامی بینک کا قیام بھی ہے۔
💥( ۱۹۷۳ء کے اندر اسرائیل نے جب امریکہ کے شہہ اور اسکی مدد سے مصر پر حملہ کیا تھا تو اس وقت اسرائیل کے خلاف مصر کی کامیابی میں ملک فیصل ؒ نے بڑا کردار ادا کیا تھا جسے پوری عرب دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ ملک فیصل ؒ کے کردار سے اسرائیل پر جو ضرب پڑی تھی شاید وہ اس سے آج بھی کراہ رہا ہو۔
💥منافقین اور بھٹکے ہوئے لوگ آج جب سعودی اور اسرائیل کے مابین خفیہ تعاون اور دوستی کی بات کہتے ہیں تو مجھے ان پر ہنسی آتی ہے۔ جمال عبد الناصر کے ساتھ آپ نے میٹنگ کرکے جب پریس کانفرنس کیا تھا اور اپنا مشہور کلمہ یورپ کے سامنے پیش کیا تھا تو اس وقت آج کی ماڈرن دنیا سن کر ششدر ہوگئی تھی۔ آپ نے اس وقت یورپ وامریکہ والوں کوپٹرول کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دی اگر اسرائیل واپس اپنی حد میں نہیں چلا جاتا ، اور انہیں خطاب کرکے کہا تھا: (عشنا وعاش أجدادنا علی التمر واللبن، وسنعود لهما)ترجمہ: ہمارے باپ دادا کھجور اور دودھ پر گزارا کر چکے ہیں اور ہم بھی اسی پر گزارا کر سکتے ہیں۔اور عملاً سارے تیل کے جہاز فوری طور پر رکوا دئیے گئے۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے یہ سنتے ہی فوراً اسی دن سعودی کا سفر کیا اور جدہ میں قصر ملکی کے اندر ملک فیصل ؒ سے ملاقات کرنے کا وقت مانگا۔ چنانچہ ملاقات کے وقت دیکھا گیا کہ ملک فیصل ؒ پورے غصہ میں بے رخی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ہنری کسنجر ان کی طرف جھک کر چاپلوسی کے انداز میں باتیں کر رہا تھا۔ اس نے اپنے مکر کو کام میں لاتے ہوئے از راہ مذاق کہا کہ جس جہاز سے میں جدہ اترا ہوں اسکا تیل ختم ہوچکا ہے، کیا آپ اس میں تیل ڈلوا کرہمارے اوپر تھوڑا کرم کرسکتے ہیں ؟ میں ابھی اس کی منہ مانگی قیمت دے سکتا ہوں۔ ہنری کسنجر آگے بیان کرتا ہے کہ ملک فیصل ذرا بھی نہیں مسکرائے اور نہ میری بات کا جواب دیا بلکہ میری طر ف چہرے کو پھیر کر کہا: (وأنا رجل طاعن فی السن ، وأمنیتی أن أصلی رکعتین فی المسجد الأقصی قبل أن أموت، فهل تساعدنی علی تحقیق هذه الأمنية) ترجمہ: میں عمر دراز ہوگیا ہوں ، میری خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے مسجد اقصی میں دو رکعت نماز پڑھ لوں، کیا آپ میری اس آرزو کو پورا ہونے میں مدد کرسکتے ہیں؟ یہ سنتے ہی کسنجر اپنا منہ لے کرواپس چلا گیا اورامریکی دباؤ میں آکر مجبوراً اسرائیل کو واپس پسپائی اختیار کرنی پڑی۔کیونکہ تیل کی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے یورپ وامریکہ کا برا حال ہورہا تھا۔
💥(ملک فیصل ؒ کے بعد ملک خالد بن عبد العزیز ؒ بھی فلسطین کیلئے بہت فکر مند رہا کرتے تھے۔ آپ برابر اپنے رفقاء کار کی مجلسوں میں یہ کلمات دہرایا کرتے تھے: (إن تحریر فلسطین وفی مقدمتها القدس الشریف هی قضية الإسلام والمسلمین الأولی وأن مواجهة المخططات الصهيونية فی فلسطین هی مسؤولية جمیع الدول والشعوب الأخری المحبة للسلام)ترجمہ: یقیناًفلسطین کی آزادی جس میں بیت المقدس سرفہرست ہے اس وقت اسلام اور تما م مسلمانوں کا سب بڑا مسئلہ ہے ۔ اور اس وقت فلسطین کے اندر صہیونی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہی امن وسلامتی چاہنے والے تمام ملکوں اور قوموں کی ذمیداری ہے۔ 💥(۱۹۸۲ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر ظالمانہ حملہ کیا اور بیت المقدس کو اپنے حدود میں شامل کرنے کی ناپاک کوشش کی تو ملک خالد بن عبد العزیزؒ نے مکہ مکرمہ کے اندر حرم مکی میں ایک چوٹی سطح پر عالمی کانفرنس بلائی جس میں تمام مسلم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی ۔ اور اس کانفرنس کے اندر فلسطین کے مسئلے کو زور دار انداز میں آپ نے اٹھایا جس میں سختی سے بیت المقدس کی شمولیت پر اسرائیل کی مذمت کی۔ اور اس طرح وہ مسئلہ رک گیا۔
💥( فلسطین کے مسئلے کو ابدی طور پر حل کرنے کیلئے مملکت سعودی عرب نے خصوصی طور پر کوششیں کی ہیں جنہیں پوری دنیا نے سراہا ہے۔ ان میں دو کوششیں خاصا مشہور ہیں جو فلسطین کیلئے سعودی کوشش (المبادرات السعودية لحل قضية فلسطین۔Saudi Initiatives to resolve the Palestine Issues) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان میں ایک پہل ملک فہد بن عبد العزیز ؒ کی طرف سے کی گئی اور دوسری ملک عبد اللہ بن عبد العزیزؒ کی طرف سے۔ 👈اول:ملک فہد فارمولہ برائے امن وسلامتی :
جو( مشروع الملک فہد للسلام) یا (المشروع العربی للسلامArab Peace Project)کے نام سے مشہور ہے۔ اس سعودی پہل کو مشرق وسطی کی طرف سے پیش کی گئی تمام کوششوں میں بنیادی کوشش مانا جاتا ہے۔ نیز اسے ایک متوازن اور حل کامل پہل کے طور پر دیکھا گیا۔
اس پہل کو ملک فہد بن عبد العزیزؒ نے مراکشی شہر فاس میں ۱۹۸۲ء کے اندر منعقد عرب چوٹی کانفرنس کے اندر رکھا تھا۔ اس پہل کو تمام عرب سربراہان نے سراہا اور سب نے اسکی موافقت کی۔ بعد میں چل کر ۱۹۹۱ء میں مڈریڈ، اسپین کے اندر منعقد سلامتی کانفرنس میں اسی پہل کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ ملک فہد ؒ کے اس فارمولے کے بنیادی عناصر کچھ اس طرح تھے:
۱-اسرائیل ان تمام علاقوں کو چھوڑ دے جن پر ۱۹۶۷ء کے اندر بشمول بیت المقدس پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ہے ۔
۲-اسرائیل ان تمام یہودی آبادیوں کو ختم کردے جنہیں اس نے ۱۹۶۷ء کے بعد ناجائز طور پر فلسطینی اراضی پر بسا دیا ہے۔
۳- فلسطین کے اندر مقدس مقامات میں ہر دھرم کے ماننے والوں کو آزادی کے ساتھ آنے جانے اور عبادات کرنے کی کھلی اور مکمل ضمانت دی جائے۔
۴-فلسطینی مہاجرین کو واپسی اور جو واپس نہ آنا چاہیں انہیں معاوضہ دینے کی ضمانت دی جائے۔
۵-مغربی پٹی اور غزہ پٹی کوعبوری طور پرچند مہینوں کیلئے اقوام متحدہ کے ماتحت دیدیا جائے پھر حالات بہتر ہونے پر فلسطینیوں کوواپس سونپ دیا جائے۔
۶-آزاد فلسطینی حکومت کے قیام اور اسکی راجدھانی بیت المقدس کے ہونے کی ضمانت دی جائے۔
۷- امن وسلامتی کے ساتھ پڑوس ممالک کو رہنے کی تاکید کی جائے نیز انہیں اس کا حق دیا جائے۔
۸-اقوام متحدہ یا اس کے بعض ممبر ممالک اس بات کی ضمانت لیں کہ ان سارے عناصر اور بنیادی باتوں کو نافذ کریں گے۔
👈دوم: ملک عبد اللہ بن عبد العزیز فارمولہ برائے امن وسلامتی : یہ وہ پہل ہے جسے ملک عبد اللہ فارمولہ/پہل (King Abdullah Initiative) کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا اعلان آپ نے مارچ۲۰۰۲ء کے اندر بیروت میں منعقد عرب چوٹی کانفرنس میں کیا تھا۔ اسے بھی تمام عرب ممالک نے فلسطینی اختلاف کو ختم کرنے میں واحد حل کے طور پر قبول کیا تھا۔ اس پہل کے اندر اس بات کی ضمانت ہے کہ تمام پڑوسی قومیں امن واستقرار کے ساتھ رہ سکیں۔ نیز اس پہل نے عرب ۔اسرائیل اختلاف کے خاتمے کیلئے عادلانہ اور دائمی حل پیش کیا ہے۔ اس پہل کے خاص عناصر درج ذیل ہیں:
۱-فلسطینی مقبوضہ تمام علاقوں کو اسرائیل چھوڑ کر ۱۹۴۸ء کے اپنے حدود میں واپس چلا جائے۔
۲- ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنایا جائے جسکا دار السلطنت بیت المقدس ہو۔
۳- عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے قرار دار کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل کیا جائے۔
💥(نومبر ۱۹۹۷ء میں امریکی کانگریس (پارلیامنٹ) کے اندر جب بیت المقدس کو اسرائیلی راجدھانی بنانے کی بل پاس کی گئی۔ اور اس کے تحت اس امریکی ظالم بل نے۱۰۰/ملین ڈالر کابجٹ بھی پاس کردیا تاکہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا جاسکے۔ تو اس موقعے پر ملک فہد بن عبد العزیز ؒ نے فوری طور پر جدہ کے اندر عرب چوٹی کانفرنس بلائی جس میں تمام عرب وزراء خارجہ نے شرکت کی ۔ اس کے اندر آپ نے امریکی کانگریس کے اس قرارداد کو سختی سے رد کردیااور سب نے اپنا اپنا احتجاج درج کروایا۔ اس طرح یہ قرار داد سرد بستے میں چلا گیا۔ 💥۲۰۰۰ء میں جب امریکہ کی طرف سے سفارت خانے کو بیت المقدس کی طرف منتقل کرنے کی بات دوبارہ سامنے آئی تو ملک فہد بن عبد العزیز ؒ نے دوحہ کانفرنس کے اندر کھل کر اس کی مخالفت کی اور یہ دھمکی دی کہ ان سارے ممالک سے ہم سفارتی تعلقات ختم کرلیں گے جو اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے گا۔ اور مملکت سعودی عرب کا اسرائیل کے تئیں کھلا موقف بھی واضح کردیا کہ جب تک اسرائیل اپنے حدود میں نہیں چلا جاتا اور فلسطینی ریاست کو یقینی نہیں بنایا جاتا تب تک اسرائیل سے کسی قسم کے تعلق کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
💥( 2008ءمیں اسرائیلی نے جب فلسطین پر جارحانہ حملہ کیا تو مملکت سعودی عرب نے اسکی صرف مذمت ہی نہیں کی بلکہ سیکورٹی کونسل کے اندر جاکر ۰۶۸۱ نمبر قرارداد منظور کرایا جس کے تحت ظالم اسرائیل کو فوری طور پر فلسطین کے خلاف ظلم کو روکنا پڑا اور فلسطینی علاقہ کو خالی کرنا پڑا۔ ساتھ ہی رفح گزر گاہ کو کھولنا پڑا نیز غزہ پٹی میں ہر طرح کی انسانی مدد اور سہولیات پہونچانے کی ضمانت دی گئی۔
💥( حالیہ فرمانروا ملک سلمان بن عبد العزیز نے فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی اور اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کیلئے زور دیا ہے۔ آپ نے تاکید کی ہے کہ مملکت سعودی عرب کی طرف سے تمام سیاسی ، مالی اور عوامی تعاون جاری رہے گانیز مملکہ فلسطینی وطن کی وحدت کیلئے اپنا موقف برقرار رکھے گااور اسے علاقائی اور عالمی ہر سطح پر اٹھائے گا۔ آپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطین اورشام کے اندر بدامنی در اصل اقوام متحدہ اور امریکہ کی نااہلی کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہے حالانکہ مملکت سعودی عرب نے ہر دو جگہ امن وسلامتی کی بحالی کیلئے سیاسی اور مالی ہر پیمانے پر کوشش کی ہے۔ آپ نے دنیا کے تمام قوموں کو اس بات کی طرف کی طرف دعوت دی کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب کو ایک ہونے کی ضرورت ہے۔
💥( حالیہ سال ۲۰۱۷ء میں جون مہینے کے اندر جب اسرائیلی سیکورٹی فورسیز نے مسجد اقصی کے آس پاس ناجائز کھدائی کے نام پر اس کے سارے دروازے مصلین اور زائرین پر بند کردئیے تو اسلامی دنیا نے خوب واویلا مچایا ، جگہ جگہ احتجاج ہوا لیکن مسئلہ جوں کا توں بنا رہا یہاں تک کہ ملک سلمان بن عبد العزیز نے شخصی طور پر اس میں مداخلت کی۔ اور امریکہ کے ذریعہ اپناواضح پیغام اسرائیل کو بھجوادیا کہ ہر حال میں ہمہ وقت مسجد اقصی کے دروازے کھلے رہنا چاہئیے۔ چنانچہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے امریکہ سے دروازہ کھولنے کا وعدہ کیا نیز یہ کہ مسجد اقصی کو کسی طور پر چھیڑا نہیں جائے گا۔نتن یاہو نے سعودی اہل کاروں کومسجد اقصی کے زیارت کی دعوت بھی دے ڈالی تاکہ زمینی صورت حال کا جائزہ لے لیا جائے لیکن اسے اپنی دعوت کا کوئی جواب نہیں مل پایا۔
💥مذکورہ ساری باتیں روسی ٹی وی (www.arabic.rt.com/middle_east/889177) نے (أبواب الأقصی فتحت بعد تدخل الملک سلمان) کے عنوان سے ۱۸/جولائی ۲۰۱۷ء کے روز ذکر کی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ مملکت سعودی عرب کی طرف سے یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ۱۹۸۲ء میں ملک فہد بن عبد العزیز نے شخصی طور پر مداخلت کی تھی جب اسرائیل کی جارحیت بڑھ گئی تھی ۔ آپ نے اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن سے مطالبہ کیا تھا کہ فوری طور پر یاسر عرفات کو محفوظ علاقے میں منتقل کیا جائے اور انہیں کوئی گزند لاحق نہ ہو ۔ چنانچہ انہیں وقتی طور پر ٹیونس منتقل کردیا گیا تھا۔
💥فلسطین کے حق میں مملکت سعودی عرب کے ان نمایاں کارناموں پر اگر رافضیوں، تحریکیوں اور تقلیدیوں کو ایک سعودی یہ کہتے ہوئے چیلنج پیش کرے: (هولاء آبائی فجئنی بمثلهم إذا جمعتک یا جریر المجامع) تو بجا ہوگا اور ان ایران وطوران کے ہمنواؤں پر واجب ہوگا کہ یا تو اسی طرح کے مخلصانہ کارناموں کا ریکارڈ پیش کریں یا پھر کم از کم سعودی مخالف پروپیگنڈوں سے باز آکر کم از کم اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیں۔
اللہ ہمیں حقائق کو تسلیم کرنے اور باطل پروپیگنڈوں سے دور رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین (سعودی عرب کا فلسطینیوں کے ساتھ اخلاقی اور مالی تعاون کے عنوان سے مضمون جلد ہی آنے والا ہے)
mdabufaris6747@gmail.com
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10983&date=2017-12-11
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1499164973530118&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق