💥تصوف اور قبرپرستی کے پردے میں💥
👾جدید ترکی کے اندر احیائے اسلام کا خواب👾
👈کیا یہ ممکن ہے؟
✍بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
۔ترقی وانصاف پارٹی کے رہنما رجب طیب اردغان 2002 سے عالم اسلام میں کافی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ اسی سال انہوں نے ترکی میں تقریبا پچھلی ایک صدی سے فوج حمایت یافتہ الحادی حکومتوں کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرکے جمہوری حکومت قائم کی ہے۔ اسی وقت سے تحریکیوں نے انہیں سر پر اٹھا رکھا ہے ۔ کیونکہ یہ سابق ترکی رہنما نجم الدین اربکان کے شاگرد رشید رہ چکے ہیں جو کہ اخوان المسلمین کے رہنماؤں میں سے مانے جاتے ہیں اور جنہوں نے ترکی میں رفاہ پارٹی قائم کرکے ترکی میں حکومت بھی بنالی تھی لیکن مصر میں مرسی حکومت کی طرح یہاں بھی فوج نے جلد ہی اسے گرادی اور اس پارٹی پر پابندی لگا دی۔
💥۔اردغان کے اندر تحریکی فکر کے ساتھ ساتھ اور کیا افکار ونظریات ہیں جو صحیح منہج اسلام سے یکسر متضاد اور مخالف ہیں جسے کوئی تحریکی نہیں بیان کرتا کیونکہ یہ انکے مقاصد میں نہیں ہے۔ ان کے یہاں اصل نصب العین حکومت الہیہ کا قیام ہے وہ کسی کے ذریعے بھی ہو۔ چنانچہ انکے یہاں قبوری ، صوفی ، تقلیدی حتی کہ رافضی اور باطنی سب مقبول ہیں۔
۔اردغان کی پارٹی اپنے کو معتدل مانتی ہے، یورپین اتحاد میں شمولیت کیلئے کوشاں یورپ کو اپنا دوست گردانتی ہے، علمانی اسلام کا قائل ہے اسلئے ترکی میں اپنے آپ کو اسلامی پارٹی نہیں کہلواتی ہے اور نہ ہی اسکے رہنما اپنے خطاب میں دینی شعار کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی پارٹی کے سربراہ اردغان سے تحریکی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ترکی میں اسلامی قانون کا نفاذ کریں گے اور اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ مذکورہ معلومات کو ویکیپڈیا میں(حزب العدالة والتنمیة فی ترکیا) لکھ کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
۔ترکی میں صدیوں سے خلافت قائم تھی تو پھر وہاں آخر اسلام کے احیاء کی ضرورت کیوں پڑی ؟ ترکی خلافت کوکیسے گرایا گیا اسکے اہم وجوہات کیا تھے؟ پھر آخر ترکی الحاد کی طرف کیسے آیا اسکے محرکات کیا تھے؟ پھر پچھلی صدی کے ساٹھ کی دہائی سے ترکی میں احیائے اسلام کی باز گشت کیسے سنائی دی اوراسکے پیچھے کس قسم کے رہنماتھے؟ وہ دین پرست تھے یا صرف اس کے ذریعے ان کا مقصد حکومت حاصل کرنا تھا؟
💥۔عدنان مندریس اور نجم الدین اربکان کے بعد اس وقت ترکی میں رجب طیب اردغان اور عبد اللہ گل کس قسم کے احیائے اسلام کے رہنما ہیں ؟ نیز فتح اللہ گولن جو کہ اس وقت امریکہ کے اندر سیاسی پناہ میں ہیں ان سے اردغان کے کس طرح کے اختلافات ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جن کے جوابات کی روشنی ہی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت ترکی کے صدر اردغان آخر کس قسم کے اسلام کی احیاء چاہتے ہیں اور جنہیں سارے تحریکی مل کر امیر المومنین بنانا چاہتے ہیں؟
۔ سب سے پہلی چیز جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر ترکی جہاں صدیوں سے اسلامی خلافت تھی وہاں آج اسلام کے احیاء کی بات آخر کیوں ہورہی ہے؟اسکا جواب بہت ہی واضح ہے کہ اس خلافت کو 1924 میں کمالی ملحدوں نے ختم کردیا۔
۔ آخر اتنی آسانی سے اس خلافت کو کیسے ختم کردیا گیا جو اس وقت دنیا میں سب سے بڑی مسلم حکومت تھی ؟ جہاں اس کے بہت سارے اسباب ہیں ان میں سب سے نمایاں سبب اس حکومت کا تقلید وتصوف اور قبرپرستی نیز شرک وبدعات میں ڈوبنا تھا۔
۔ چنانچہ سلطان محمد فاتح نے جس طرح قسطنطنیہ کو فتح کرکے یورپ میں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا تھا اور اسی کو ترکی سلطنت کا دار الخلافہ بنا دیا تھا۔ اگر اسلامی خلافت کے عوامل اور تقاضوں پر ترکی خلافت عمل کرتی آتی یعنی صحیح اسلامی منہج کو اپنا کر دنیاوی تقاضوں پر بھی عمل کرتے ہوئے نت نئی سائنسی ترقیوں میں حصہ بٹایا ہوتا اور یورپ کی طرح اس نے بھی سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور عسکری اصلاحات کیا ہوتا تو کوئی بعید نہیں کہ ترکی خلافت اتنی آسانی سے 1924 میں ختم ہوجاتی۔
💥۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترکی سلطنت ایک عرصے تک اسلام کا پاسبان رہی ہے نیز پندرہویں صدی عیسوی سے لیکر انیسویں صدی کے آخر تک اسلامی خلافت کی نشانی تھی۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ترکی سلطنت نے مسلمانوں کے عقائد میں فساد برپا کرنے اور انہیں بگاڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اسکے لئے اس نے دو راستہ اپنا یا ہے: ایک شرک وبدعت پھیلا کر، دوسرا اہل توحید کے ساتھ جنگ کر کے ۔ اور اس سلطنت کا توحید پر مبنی پہلی سعودی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے نیز اسکے توحید پرست حکمرانوں کو ناحق قتل کرنا ہے۔ اور ایسا محض شرک اور بدعت میں ڈوبی ترک عوام کو خوش کرنے کیلئے اس جرم کا ارتکاب کیا۔
۔دوسری طرف تقلید وتصوف کا زور اس حکومت کے اندر اس قدر بڑھ گیا تھا ، قبوں ، مزاروں ، خانقاہوں اور بزرگوں کے نام پر جھوٹے مقامات مقدسہ اور اشیاء متبرکہ کی اس قدر بہتات ہوگئی تھی جن کا شمار کرنا مشکل ہوگیا تھاجہاں تمام قسم کے شرک وبدعات کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔
💥عبد العزیز الشناوی نے اپنی تاریخ کی کتاب(الدولۃ العثمانیۃ دولۃ إسلامیۃ مفتری علیہا:1/59) میں ترکی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: دینی ناحیے سے ترکی حکومت کی یہ سیاست تھی کہ ترکوں کے درمیان تصوف کو بڑھاوا دیا جائے۔ حکومت نے صوفی سلسلوں کے مشائخ کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مریدوں اور پیروکاروں کے ساتھ اپنا کاروبار کریں۔ چنانچہ یہ صوفی سلسلے پہلے وسط ایسیا میں پھیل گئے پھر وہاں سے حکومت کے دوسرے علاقوں میں پھیلے۔ ترکی حکومت نے صوفی سلسلوں کی مالی امداد بھی کی۔ ترکی میں اہم صوفی سلسلوں میں سے نقشبندیہ ، مولویہ، بکتاشیہ اور رفاعیہ ہیں۔
اخوانی محمد قطب نے اپنی کتاب (واقعنا الماصر: ص155) میں لکھا ہے: عثمانی حکومت اور بطور خاص ترکی کے اندر سماج اور دین کا نام تصوف ہی تھا۔(یعنی پورا سماج تصوف میں ڈوبا ہوا تھا)
۔الموسوعة المیسرۃ فی الأدیان والمذاہب المعاصرۃ کے صفحہ 348 پر لکھا ہے:بکتاشیہ یہ وہ سلسلہ تصوف ہے جس کی طرف ترک سلاطین منسلک تھے ، اور یہ سلسلہ البانیا میں بہت پھیلا ہوا ہے ، اور یہی سلسلہ شیعوں کے تصوف سے قریب تر ہے۔ اس سلسلے کا ترک سلاطین پر کافی اثر تھا۔
💥۔الفکر الصوفی فی ضوء الکتاب والسنۃ کے صفحہ: 411پر لکھا ہے: ترک سلاطین بکتاشی سلسلے کیلئے مزارات، خانقاہوں اور درگاہوں کے بنانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جبکہ وہیں پر بعض سلاطین اسے چھوڑ کر دوسرے سلسلے کو فوقیت دیتے تھے۔
۔سلطان سلیم اول نے جب حجاز پر قبضہ کیا ہے تو اس کے شرک وبدعت میں ڈوبنے کا اندازہ آپ اس کے ان22 خطوط سے لگاسکتے ہیں جنہیں اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مقدسہ میں آپ کے نام پر لکھ کر رکھا تھا ۔ ان میں سے صرف ایک پیرا گراف نقل کرتا ہوں جس سے اس مشرک سلطان کے مشرکانہ اور تصوفانہ عقیدے کا پتہ چل جائیگا چنانچہ ایک میں اس نے لکھا ہے: ( من عُبیدک السلطان سلیم وبعد: یا رسول اللہ قد نالنا الضر ونزل بنا المکروہ ما لا نقدر علی دفعہ ، واستولی عباد الصلبان علی عباد الرحمن!! نسألک النصر علیہم والعون علیہم) ترجمہ: آپ کے ایک چھوٹے بندے سلطان سلیم کی طرف سے : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اوپر ایسی مصیبت آں پڑی ہے جسے ہم دفع نہیں کرسکتے، صلیب کے بندے رحمن کے بندوں پر غالب آچکے ہیں! ہم آپ ہی سے مدد کا سوال کرتے ہیں۔
۔آخری دور کے مشہور سلطان عبد الحمید ثانی (1327ھ) کا صوفی سلسلہ شاذلیہ تھا جو خالص قبوری شرک پر مبنی سلسلہ ہے۔ یہ سلطان برابر اس وقت کے پیر طریقت ابو الشامات محمود افندی کے بارگاہ میں خط وکتابت کرکے اور خود حاضری دیکر فیوض وبرکات اور نصرت وامداد کی درخواست کرتا تھا۔
۔جس ملک کے حکام اور سلاطین کا یہ حال ہو اسکے رعایا کا کیا حال رہا ہوگا صرف قیاس ہی کرسکتے ہیں کہ ایسے ملک میں شرک وبدعت اور خرافات کا کتنا زور اور پھیلاؤ رہا ہوگا۔
۔1924 کے اندر سقوط ترکی کے بعد جس طرح اتاترک نے ترکی جمہوریت کے اندر اسلام دشمنی کے نام پرجہاں ساری اسلامی نشانیوں کو مٹا ڈالاوہیں پر مذکورہ سارے مزارات ، خانقاہوں اور درگاہوں کو بھی بند کردیا تھا۔ اور تمام یورپی قباحتوں کے ساتھ ترکی کو علمانیت زدہ معاشرہ بنا کر چھوڑ دیا ۔ اس سے ترک مسلمان کافی ناراض تھے ۔ انہیں ایک مصلح اور دین پسند رہنما کی ضرورت تھی۔ عدنان مندریس گرچہ خود دین پسند نہیں تھا لیکن بہت سارے اتاترکی پابندیوں کو ختم کر دیا۔ اسی پاداش میں بندے کو صولی دیدی گئی۔ اس سے ترکوں کو کافی حوصلہ ملا ۔
💥۔ اکیسوی صدی آتے آتے رجب طیب اردوغان کی شکل میں ترکوں کو مزید کچھ سہارا ملا ۔ لیکن اردوغان نے جس طرح ترکوں سے وعدہ کیا تھا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کریں گے سوائے عدنان مندریس کے احکامات کو جاری کرنے کے اور کچھ نہیں کیا ۔ ہاں مساجد کے ساتھ ان تمام درگاہوں، مزارات او رخانقاہوں کو بھی کھول دیا جن پر اتاترک نے پابندی لگا رکھی تھی ۔ بلکہ اردغان نے ان سب کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا کیونکہ خود بھی نقشبندی سلسلے سے منسلک ہیں۔
۔لہذا جدید ترکی میں احیاء اسلام ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ترک رہنما اسلام کانام لیکر ترک مسلمانوں کو صرف بیوقوف بنا رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ رہنما خصوصا اردغان صرف اور صرف اپنی حکومت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کو ایک زینے کی طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسکے درج ذیل عوامل ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
۔عدنان مندریس نے 1949 میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے تھے اور اس کے بعد یہ تعلقات دھیرے دھیرے تمام میدانوں میں استوار ہوگئے بالکل ویسے ہی جیسے ایک دوست ملک کے ساتھ ہوتے ہیں حتی کہ عربوں کے خلاف اسرائیل نے ترکی کو زبردست استعمال کیا ہے ۔ آج بھی ترکی سرزمین پر اسرائیل کا خفیہ فوجی اڈہ موجود ہے جہاں سے وہ مسلم ممالک کے خلاف جاسوسی کرتا ہے۔ اردغان کبھی کبھی دکھاوے کیلئے عالمی کانفرسوں کے اندر اسرائیل کے خلاف بول دیتے ہیں تاکہ ان کے اسلام کی طرف داری کا دعوی برقرار رہے۔ اسکے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہے کیونکہ آج تک اردغان نے اسرائیل سے کسی قسم کے تعلقات میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔
💥۔حتی کہ اردغان نے2013 میں تل ابیب دورے کے موقعے پر یہودیوں کے باوا آدم ہرتزل کے مزار پر اپنی بیوی کے ساتھ پھول چڑھایا۔اس سے اردغان کی علمانیت اور یہود دوستی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اس منظر کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر خوب پھیلائی گئی: (أردوغان یضع أکلیل زہور علی قبر مؤسس الصہیونية العالمية) لکھ کر آپ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
(www.masress.com/almashhad/326925)
۔عراقی سنی کردستان کے خلاف عراقی اور ایرانی رافضیوں کے ساتھ اردغان نے پورا محاذ بنایا ہوا ہے۔ اسی طرح شامی سنی مسلمانوں کے خلاف شام ، روس اور ایران کے ساتھ سوچی میں جو پلان بنایا گیا ہے ترکی بھی اس کا ایک اہم پاٹنر ہے۔ لہذا اردغان اگر سنی مسلمانوں کے خلاف رافضیوں، باطنی نصیریوں اور ملحد روس کا ساتھ دیتے ہیں تو ان سے آخر کس قسم کے اسلام کی احیاء کی امید کی جاسکتی ہے ؟
۔ اردغان سنی عربوں کی مخالفت میں رافضی ایران کے ساتھ کندھا ملا کے کڑھے نظر آتے ہیں بلکہ ایران کے دورے کی مناسبت سے خمینی کے مزار پر جاکر پھول بھی چڑھاتے ہیں۔ کیا اردغان یہی رافضی قبوری اسلام کو ترکی میں نافذکرنا چاہتے ہیں ؟
۔ گزشتہ سال اماراتی وزیر خارجہ کے ایک ترک کے مظالم پر مبنی جملے کو ریٹویٹ کردینے پر اردغان نے جس طرح عرب سنیوں کے خلاف زبان استعمال کیا اور ایک ترک رپورٹر سے جس انداز میں عرب سنیوں کو وہابی خارجی کہہ کر اسلام سے خارج بتایا ہے اور یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا میں مشہور ہے۔ اس سے جناب سے کس طرح کے نفاذ اسلام کی امید کی جاسکتی ہے؟ کیا اسی طرح کی بات ایرانی رافضی نہیں کرتے ہیں؟ کیا یہ رافضیوں کے ساتھ مکمل یکسانیت نہیں ہے؟
💥۔ شامی بحران میں اردغان نے بہت بھیانک رول ادا کیا ہے۔ چنانچہ سقوط حلب کا ذمیدار اردغان ہی کو قرار دیا جارہا ہے ؟ کیونکہ اگست 2016 سے مارچ 2017 تک ترکی نے شام کے اندر جرابلس کے سنی مسلمانوں پرایک لمبی فوجی کارروائی کی تھی جس کا اس نے درع الفرات آپریشن کانام دیا تھا اور اسکے بدلے ترکی نے شامی حکومت ، ایرانی اور روسی خارجی دشمنوں سے فوجی معاہدہ کیا تھا کہ حلب کے سنی مسلمانوں کے خلاف کسی بھی کارروائی میں ترکی ان کے خلاف نہیں بولے گا۔
۔ اسی طرح اسی سال کے شروع میں 20/ جنوری 2018 کے دن ترکی نے شام کے عفرین شہر کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی ہے جہاں کرد سنی مسلمانوں کی آبادی ہے ۔ جن کے خلاف ملحد روس، شامی نصیری حکومت ، رافضی ایران اور تحریکی ترکی سب ہیں۔ اس فوجی آپریشن کا نام ترکی نے غصن الزیتون دے رکھا ہے۔ آخر ترکی کو کیا اختیار تھا کہ اپنا سرحد پار کرکے دوسرے کے ملک میں فوجی آپریشن کرے ؟ کیا کوئی ملک بغیر کسی معاہدے اور بڑے ڈیل کے اس طرح کی اجازت دے سکتا ہے؟ کہا جارہا ہے کہ ترکی نے یہاں بھی شام کے اندر موجود دشمنان اسلام سے ایک بڑا خفیہ ڈیل کیا ہے ۔ یعنی ترکی اپنے اس فوجی آپریشن کے ذریعے عفرین اور آس پاس کے سنی کرد مسلمانوں کا صفایا کرے گا اور شامی نصیری حکومت روسی ملحدوں اور ایرانی رافضیوں کے ساتھ مل کر ایک اور شامی مشہور سنی شہر ادلب کو بھی برباد کرنے کی کوشش کریں گے اور ترکی وہاں بھی کچھ نہیں بولے گا۔ اللہ کرے یہ ایک افواہ ہو ورنہ حلب، حمص اور مضایا وغیرہ سنی شہروں کی طرح ادلب بھی تباہ کردیا جائے گا اور پوری دنیا دیکھتی رہے گی۔
💥۔اسکے علاوہ ترک اخبارات میں اس آپریشن کے تین بنیادی مقاصد بتائے جارہے ہیں:
پہلا مقصد: مذکورہ خفیہ متوقع ڈیل کے علاوہ اردغان ترکی سرحد پر کسی بھی مضبوط ایسی قوت کو باقی نہیں رہنے دینا چاہتے جو ہمیشہ ترک فوج کیلئے مصیبت بنی رہے۔ اور اگر اس وقت کارروائی نہ کى جاتی تو شام میں مضبوط حکومت کے بننے کے بعد ممکن نہ ہوتا۔
دوسرا مقصد: تركى نہیں چاہتا کہ شام میں کسی علاقے پر کردوں کی مستقل کوئی آزاد صوبہ ہو جہاں انہیں کسی طرح کی اٹانومی حاصل ہو تاکہ عراقی کردستان کی طرح مستقبل میں ترک کردوں کے ساتھ مل کرایک الگ حکومت بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔
تیسرا مقصد: دراصل اگلے سال ترکی میں پارلیمانی انتخاب ہونے والا ہے ۔ ترکوں کے درمیان اردغان کی مقبولیت ختم ہوتی دکھ رہی ہے کیونکہ انہوں نے جس اسلام کے نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا ہے ۔ چنانچہ اس فوجی آپریشن کے ذریعے کم سے کم ترکوں اور کردوں میں قومیت کو بھڑکادیں گے جس سے خاطر خواہ ترکوں کے یہاں مقبول ہوجائیں گے۔ نیز کرد علاحدگی پسندوں اور کرد پارٹی کے خلاف ایک محاذ بن جائے گا۔
۔ یہی ساری سازشیں ہیں جن کی وجہ سے عفرین شہر پر ترک کارروائی کے خلاف میڈیا میں کوئی آواز سنائی نہیں دیتی ہے۔ اور رافضی وتحریکی میڈیا سے ایسی کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ کارروائی امیر المومنین کر رہے ہیں اور جن کے خلاف کاررائی ہورہی ہے وہ سنی کرد مسلمان ہیں ۔وہ نہ رافضی ہیں اور نہ ہی تحریکی ہیں۔
۔اردغان کا سنی مسلمانوں کے خلاف اس طرح دشمنی کو آخر کس طرح دیکھا جائے ؟ جن سنی مسلمانوں کے وجود کو یہ حضرت برداشت نہیں کرسکتے ہیں چاہے وہ عراق میں رہتے ہوں یا عرب کے کسی اور دیش میں یا شام میں رہتے ہیں یا ترکی میں پھر آخر کس طرح کے اسلام کو یہ ترکی میں نافذ کریں گے؟
۔کیا یہ وہی تقلیدی صوفی اسلام نہیں ہے جس کے دلدادہ قدیم ترکی سلطنت کے سلاطین تھے اور جس کی وجہ سے ترکی سلطنت زوال پزیر ہوئی ۔ بلکہ اس صوفی تقلیدی اسلام میں اگر تحریکیت اور علمانیت کا معجون بھی ملا دیا جائے تو وہ اسلام کا نسخہ کس قدر مکدر ہو کر رہ جائے گا اس کا صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ فتح اللہ گولن اور طیب اردغان میں یہی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ورنہ دونوں کبھی لنگوٹیا یا ر مانے جاتے تھے کیونکہ دونوں نجم الدین اربکان کے شاگرد ہیں جوکہ تحریکیوں کے رہنماؤں میں سے مانے جاتے ہیں اور سعید نورسی کے بھی چیلے ہیں جو جدید ترکی میں ایک بہت بڑا صوفی چہرہ ہیں۔
۔یعنی اردغان صوفی اور تقلیدی کے ساتھ ساتھ رافضیت زدہ تحریکی اور علمانی بھی ہیں۔
💥۔ لیکن فتح اللہ گولن کا نظریہ در اصل اردغان کے نظریہ سے کچھ مختلف ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اسی اختلاف کی وجہ سے 2016 میں ترکی کے اندر ایک بہت بڑا ڈراما رچا گیا تھا جس کے تحت فتح اللہ گولن کے نظریئے کے حاملین کو ہزاروں کی تعداد گرفتار کر لیا گیا اور بہتوں کو سرکاری نوکریوں سے برخاست کردیا گیا۔
۔ فتح اللہ گولن تحریکی اور صوفی دونوں ہیں لیکن انہیں اردغان پر بہت سارے اعتراضات ہیں : اسرائیل دوستی پر اعتراض ہے۔ رافضی دوستی پر اعتراض ہے۔ اردغان کی علمانیت پر اعتراض ہے جس کو بنیاد بناکر اردغان یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔
۔ پھر آخر امریکہ فتح اللہ گولن کو کیوں پناہ دیئے ہوئے ہے؟ آخر امریکہ بھی تو وہی سب چاہتا ہے جو اردغان عملا کر رہے ہیں۔ دراصل امریکہ نہیں چاہتا کہ وہ ایک بہت بڑے صوفی چہرے کو ختم کردے جس نے سنی مسلمانوں کو ایک بڑے پیمانے پر بانٹ رکھا ہے ۔ فتح اللہ گولن ایک بہت بڑے بزنس مین ہیں ۔ ان کے پاس بڑے پیمانے پر کمپنیاں، اسکولز اور کالجز پوری دنیا میں چل رہے ہیں۔ صرف امریکہ میں دو سو اسکول چل رہے ہیں ۔ پوری دنیا کے اندر سو ملکوں میں تقریبا ایک ہزار اسکول چل رہے ہیں جہاں صوفی نظریئے کو پھیلایا جارہا ہے۔ اس لئے امریکہ جو کہ صحیح اسلام کے چہرے کو مسخ کردینا چاہتا ہے وہ کیسے برداشت کر لے گا کہ گولن جیسے صوفی چہرے کو اردغان کے حوالے کردے جو اسے پس زنداں میں گم کردیں۔
💥۔ ترکی حکومت کی طرف سے شام کے اندر رافضی علویوں کے خلاف درسیم علاقے میں جو قتل عام کے واقعات 1936 اور 1939 کے درمیان کئے گئے اردغان نے 23/ نومبر2011 میں اس پر عام معافی مانگی اور نصیری رافضی علویوں کو خوش کردیا۔ لیکن اسی طرح یونان وغیرہ میں پہلی جنگ عظیم کے آس پاس ارمنوں کے قتل عام،اور اسی وقت شام اور جزیرۃ العرب میں عربوں کے قتل عام، گزشتہ سال شام کے اندر جرابلس کے قتل عام پر آخر معافی کیوں نہیں مانگ رہے ہیں ؟ ارمن قتل عام پر معافی مانگنے پر بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین میں داخلے کی امید ختم ہوجائے گی۔ لیکن درسیم قتل عام اور عرب قتل عام پر معافی کیوں نہیں جوکہ سنی مسلمان ہیں آخر ان سے معافی مانگنے سے یہ کیوں ہچک رہے ہیں۔ کیا انہیں صرف تحریکیت، علمانیت اور صوفیت نہیں روک رہی ہے؟
💥۔فکری یلغار کے ذریعے اسلام (خالص منہج سلف پر مبنی کتاب وسنت والا اسلام) کے خلاف اس وقت پوری دنیا ایک ہوچکی ہے ۔ اور انہوں نے اسلام کو کمزور کرنے اور اسے نہ ابھرنے کیلئے صرف اور صرف ایک ہی نسخہ چنا ہے اور وہ ہے اسلام کے چہرے کومسخ کردیا جائے ۔ اسے ترک دنیا ، زہد اور جوگی اور فقیروں والی دنیا میں ڈھکیل کرحقیقی دین ودنیا دونوں سے بہت دور کردیا جائے۔
۔2001 میں جب سے امریکہ کی سرکردگی میں دہشت گردی مخالف جنگ کو پوری دنیا پر مسلط کر دی گئی ہے اور جس کی شروعات افغانستان سے کیا گیا۔ اس عالمی جنگ کے سامنے بھی یہی دونوں مقاصد تھے: ایک اہل توحید جو خالص اسلام کی صحیح نمائندگی کرتے ہیں اور جو بالکل رفض وتشیع ، تقلید اور تصوف کے مخالف ہیں انہیں ہر ممکن طریقے سے حاشیے پر کردیا جائے۔ اور دوسرا اسلام کا مسخ شدہ تقلیدی صوفی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کردیا جائے۔ اسکے لئے یہ دشمنان اسلام دو پیمانے پر کوششیں کررہے ہیں:
اول: وہ اسلام کے ماننے والے جو صحیح منہج سلف کے طریقوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ انہیں کسی نہ کسی طرح ختم کرنے ، مٹانے ، بدنام کرنے اور آپس میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں کبھی تشدد پسند کہا جاتا ہے۔ کبھی سخت گیر اور ریڈیکل کہا جاتاہے۔ کبھی بنیاد پرست اور قدامت پرست کہا جاتاہے۔ اور کبھی خارجی وہابی سلفی اور نہ جانے کن کن ناموں کے ذریعے بدنام کیا جاتا ہے۔ اس ہدف کو پورا کرنے میں رافضی، تحریکی اور تقلیدی جانے انجانے سب مل کر ساتھ دے رہے ہیں۔
دوم: قبوری تصوف کو عالمی پیمانے پر رواج دے رہے ہیں۔ اور مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ جانے انجانے اس عالمی مقصد کا حصہ بنا ھوا ھے۔ کیوں کہ یہ بر صغیر ہند وپاک کے علاوہ مشرقی ایشیا، مشرق وسطی، سنٹرل ایشیا، افریقہ، بلکہ یورپ امریکا ہر جگہ کافی تعداد میں مسلمانوں کو تارک الدنیا جوگی بنانے اور سیاست کے جھمیلوں سے دور رکھنے والا صوفیوں کا کام بڑے پیمانے پر انجام دے رہے ہیں۔
💥۔محمد بن عبد اللہ المقدی اپنے ایک طویل مقالے (نقض العری : رؤیة في البدیل الغربی للتیار السلفی) میں لکھتے ہیں: امریکی اور برطانوی صلیبی طاقتیں جس وقت افغانستان کے شہروں میں داخل ہوئی ہیں اس وقت انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہاں کے بند تمام مزارات اور درگاہوں کو کھول دیا اور سب کی میلاد منانے کی اجازت دیدی بلکہ اسے بڑے پیمانے پر رواج دیدیا۔
۔اسی موقع پر افغانستان کے ایک صوفی (صوفی محمد) نے (Reuters) ایجنسی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا: متعصب طالبان نے تمام مزارات کو بند کردیا تھا ، تمام قسم کے محفل میلاد پر پابندی لگا دی تھی، صوفی ذکر اور صوفی گانے پر بھی پابندی لگا دی تھی، حالانکہ یہ ساری چیزیں روسی قبضے کے وقت بھی جاری تھیں۔ طالبان کی حکومت گر جانے سے آج مجھے بہت خوشی ہے، امریکہ کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں یہ سب کرنے کی مطلق اجازت دیدی ہے۔
۔2003 میں امریکی سرکردگی میں صلیبی حملے کے وقت عراق کی تباہی میں وہ اہل السنہ جو صحیح معنوں میں منہج سلف کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں ٹارگٹ کیا گیا اس کے لئے صوفی غالی رافضیوں کا استعمال کیا گیا خصوصا وہ روافض جو اہل السنہ کے کٹر دشمن ہیں ۔ ان کے ذریعے کرکوک، موصل، سامراء ، تکریت، رمادی، فلوجہ، دیالی،انبار، صلاح الدین وغیرہ سنی اکثریتی شہروں کو خاص طور سے نشانہ بنایا گیا ۔ ان علاقوں میں جتنے مزارات اور درگاہ تھے سب کو کھول دیا گیا جن پر صدام حسین نے پابندی لگا رکھی تھی اور سارے مزارات کو صوفیوں کے حوالے کرکے سرکاری تحویل میں دیدیا گیا۔
💥۔تصوف کے رواج کے لئے امریکہ ، روس اور برطانیہ جیسے بڑے بڑے اسلام دشمن ممالک انہیں تینوں (رافضی، تقلیدی اور تحریکی) چہروں کا استعمال کررہے ہیں۔ اور ان کی سرکردگی میں پوری دنیا کے اندر صوفی عالمی کانفرس کا انعقاد کر وارہے ہیں ۔ آئیے تاریخی حقائق کی روشنی میں اس پر ایک نظر دوڑاتے ہیں اور سب سے پہلے یہودونصاری اور مشرکین کی طرف سے ایک ایک کانفرسوں پر نظر ڈالتے ہیں:
۔ 2003 میں نیکسن مرکز برائے دراسات (The Nixon Center for Studies, Washington) واشنگٹن کی طرف سے امریکی یہودیوں کی سرپرستی میں ایک عالمی صوفی کانفرنس کا انعقاد کیا گیاجسکا عنوان تھا: (Understanding of Sufism and the role you play in American Politics)۔اس کانفرنس کی صدارت اسلام اور مسلمانوں کے سب سے زیادہ نقاد امریکی مورخ برنارڈ لویس(Bernrd Lewis) نے کی جس نے اپنی ساری زندگی اسلام کی دشمنی میں گزار دی اور اسلام کے خلاف بہت ساری کتابیں لکھیں ہیں۔
اس کانفرنس میں خصوصی مہمان تھے : سابق ترک صدر تورگوت اوزال کے لبرل بھائی ڈاکٹر کورکوت اوزال ،نیز اہل السنہ کے کٹردشمن لبنان کے مشہورصوفی قبوری امریکی ایجنٹ محمد ہشام قبانی جس نے امریکہ میں (المجلس الإسلامی الأمریکی) کے نام سے اسلامی سنٹر کھول رکھا ہے اور جو اپنے مسخ شدہ صوفی چہرے کی وجہ سے امریکی سیاست میں کافی مقبول ہے جو امریکی خرچے پر عالم اسلامی کا اکثر دورہ کرتا رہتا ہے جسکا مقصد صوفیوں کو اہل السنہ خصوصا سلفیوں کے خلاف ابھارنا رہتا ہے۔
۔مذکورہ کانفرنس کے ذکر کرنے کے بعد عبد العزیز بن ناصر الجلیل نے اپنی مشہورکتاب(المشروع الأمریکی فی حرب المسلمین السنة) کے اندر (ص47) پر لکھا ہے: واشنگٹن کی پوری کوشش ہے کہ اسلامی جماعتوں کو روکنے کیلئے صوفی تحریکوں کی مدد کرکے انہیں استعمال کیا جائے۔ صوفی خانقاہوں کی تعمیر پر ابھارا جائے، قدیم صوفی مخطوطات کا ترجمہ کیا جائے۔ امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ متشدد اسلام پسندوں کے خلاف یہ تصوف کے پیروکار ہمارے لئے سب سے بڑا اسلحہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
💥۔ 25-27 /اگست 2016 کی تاریخ میں چیچینیا کی راجدھانی گروزنی میں ایک بہت بڑے عالمی صوفی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا عنوان (من ھم أہل السنة؟) رکھا گیا یعنی مسلمانوں میں سے اہل سنت کون ہیں؟ اور اس کا مقصد صرف منہج سلف پر چلنے والوں کو نکال کر سارے تقلیدی ،قبوری ، صوفی، رافضی اور باطنی فرقوں کو شامل کیا گیا۔ مسیحی صلیبی ملحد روس کی سرپرستی میں اس کانفرنس کو رکھا گیا ۔ روسى صدر پوٹن جسکا مہمان خاص تھا اور روس کے خود مختارصوبے چیچینیا کے صدر رمضان قادیروف اس کانفرنس کے صدر تھے۔ یہ وہی رمضان ہیں جو پوٹن کو اپنا سب سے بڑا امام سمجھتے ہیں اور پوٹن کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
۔ اس کانفرنس کے اندر دنیا بھر کے صوفی اکٹھا ہوئے اور سب نے مل کر پوٹن کا زبردست استقبال کیا اور اسکا شکریہ ادا کیا اور آخیر میں سب نے مل کر صوفی ناچ کا ناٹک بھی کیا ۔ ان ساری چیزوں کو یوٹیوب میں دیکھا جاسکتا ہے۔
۔یہ عالمی کانفرنس تصوف اور معتدل اسلام کے نام پر ایسے موقع پر ہورہا تھا جس وقت ایران اور روس شامی جلاد حکومت کے ساتھ مل کر شام کے اندر اہل السنہ کو قتل عام میں لگے ہوئے تھے ۔ عراق میں ایرانی روافض امریکی اور برطانوی فوجیوں کے ساتھ مل کراہل السنہ کا قتل عام کررہے تھے۔ عراق وشام کے اندر اہل السنہ کے شہروں اور بستیوں کو داعش کے نام پر برباد کررہے تھے۔ لیکن اس کانفرنس کے اندر عراق وشام کے سنی مسلمانوں پر ظلم وستم کے تعلق سے کوئی بیان نہیں آیا حتی کہ کوئی ہمدردی کا کلمہ بھی بھول کر کسی صوفی نے نہیں کہی۔ اسی لئے شیخ سعد البریک نے سوال کیا تھا کہ کیا شام وعراق میں مرنے والے جنہیں رافضیوں کے ساتھ مل کر امریکہ وروس کے فوجی مار رہے تھے وہ اہل السنہ نہیں تھے؟ آخر یہ کیسے صوفی ہیں جنہیں مسلمانوں کے قتل پر کوئی افسوس نہیں ہے؟ کیا یہود ونصاری اور مشرکین کو ایسے ہی صوفیوں کی ضرورت ہے؟
💥۔مارچ 2016 میں نئی دہلی کے اندر منعقد عالمی صوفی کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے صوفیوں کو خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی وزیر اعظم مودی نے تصوف کو امید کی کرن قرار دیتے ہوئے اسے اسلام کا اعتدال پسند چہرہ قرار دیا۔ انہوں نے سب کو خطاب کرتے ہوئے کہا: آپ سب کئی ممالک سے آئے ہیں اور الگ الگ ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن تصوف کے ذریعے سب ایک مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ (گویا سارے مسلمانوں کو جوڑنے کا کام کتاب وسنت نہیں بلکہ تصوف جوڑے ہوئے ہے جس کا کتاب وسنت سے کوئی تعلق نہیں ھے)۔
💥۔ایک فرانسیسی مستشرق کٹر عالم اریک جیوفروی(Eric Geoffroy) جس نے لکسمبرگ یونیورسٹی کے اندر تصوف میں تخصص کیا پھر صوفی بن کر مصر اور دیگر خلیجی ممالک کا دورہ کرکے مسلم دنیا خصوصا عرب دنیا کا گہرائی سے جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہونچا کہ پورا عالم اسلامی مستقبل میں تصوف کے نظریئے پر چلایا جائے گا۔ (http://archive.islamonline.net/?p=1039)
۔مذکورہ مستشرق عالم نے دعوی کیا کہ باقاعدہ تصوف کا استعمال کرکے یورپ اور امریکہ اسلام کے تمام بنیادی ارکان کو مٹا دینا چاہتے ہیں تاکہ حقیقی معنوں میں کوئی مسلم دیش سیاسی پیمانے پر نہ ابھر سکے۔ اس کے لئے بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کر رہے ہیں ، شخصیات کا استعمال کررہے ہیں، تصوف کے نام پر عالمی پیمانے پر مراکز کھولے جارہے ہیں، اسی بنیاد پر مسلم حکومتوں کی مالی امداد کی جارہی ہے اور ان حکومتوں کے سربراہوں کو صوفی مجالس اورعالمی کانفرنس منعقد کروانے، صوفی اجتماع ورقص وسرور کی محفلیں رچانے نیز تصوف کے نام پر مزارات اور خانقاہوں کو آباد کرنے اور ان کی زیارت کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
💥۔چنانچہ مذکورہ تین اہم کانفرنسوں کے علاوہ ان بہت سارے کانفرنسوں میں سے صرف انہیں تین کانفرنسوں کا ذکر کروں گا جنہیں باقاعدہ یورپ اور امریکہ کی سرپرستی میں مسلم ملکوں کی طرف سے منعقد کروایا جاتا ہے اتفاق سے ان تینوں کا تعلق ترکی سے ہے:
۔8-9/ فروری 2014 میں استنبول کے اندر تیسرا عالمی صوفی کانفرنس منعقد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے صوفیوں نے شرکت کی۔ اس میں خصوصی طورپرمراکش کا سلسلہ کرکریہ کا ایک وفد بھی شریک ہوا ۔ اس کانفرنس کی سربراہی مشہور صوفی سلسلے رفاعی کے ترک شیخ محمد عجان الحدیدی الرفاعی نے کیا۔
۔صوفی سلسلے کی عالمی اتحاد ادارے (الاتحاد العالمی للطرق الصوفیة)کے صدر سلسلہ عزمیہ کے شیخ علاء الدین ماضی ابو العزائم کی سربراہی میں اگست 2015 میں دہشت گردی سے مقابلہ کیسے کریں ؟ کے عنوان پر استنبول کے اندر عالمی صوفی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
۔ گزشتہ سال اگست 2017 میں استنبول کے اندر ایک ہفتے تک عالمی صوفی کانفرنس چلتا رہا جس کے اندر دنیا بھر سے صوفیوں نے شرکت کی۔ اس کی سربراہی محمد عجان الحدیدی الرفاعی نے ہی کی۔
💥۔(التصوف فی أحضان ورعایة الغرب وأمریکا ) عنوان کے تحت الحقیقة ویب سائٹ پر مصری عالم ڈاکٹر عبد الوہاب مسیری کا یہ قول لکھا ہے:اسلام دشمن مغربی دنیا صوفی تحریکوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ یورپ میں اسلام کے نام پر سب سے زیادہ ابن عربی کی کتابیں اور جلال الدین رومی کے اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی وہ کمیٹی جو حریت ادیان سے متعلق ہے ، اس نے وصیت کی ہے کہ تمام عربی ممالک صوفی تحریکوں کو بڑھاوا دیں، کیونکہ ترک دنیا، زہد وتقوی اور سیاست سے بیزاری ہی مغربی استعمار کا مقابلے کرنے سے مسلمان کمزور ثابت ہوں گے۔
۔ عراق کے اندرمشہور امریکی سفیر زلمائی خلیل زادہ کی بیوی چیرلی بینارڈ (Cheryl Benard) کی سربراہی میں امریکی فضائیہ کی طرف سے (567) صفحہ میں ایک کتاب (The Muslim World After 9/11) تیار کی گئی ہے جس کے اندر اسلام کے ان تمام مذاہب ومسالک کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے جو سیاست کے میدان میں موثر کردار ادا کرتے ہیں نیز جو مغرب کیلئے کسی بھی طرح کا خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس کے اندر صوفی گروہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: یہی لوگ مسلمانوں میں اکثریت ہیں، یہی اسلامی عقائد اور علاقائی رسم ورواج کے محافظ ہیں ، یہ متشدد نہیں ہیں، بزرگوں کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں اور وہاں خاص عبادات ادا کرتے ہیں، روحوں اور معجزات پر یقین رکھتے ہیں، تعویذ استعمال رتے ہیں، یہی وہ اعتقادات ہیں جو مکمل طور سے تعصب، تشدد اور وہابیت کو ختم کریں گے، تقلیدیوں (مقلدین) میں سے اکثرصوفیوں کے ان اعتقادات اور پہچان میں مشابہت رکھتے ہیں، یہ اپنے دینی اعتقاد میں کوئی اختلاف نہیں پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے ملک کے علمانی غیر دینی قوانین سے اختلاف کرتے ہیں۔
(www.haqeeqa.net/Subject.aspx?id=84)
💥۔سابق مصری مفتی علی جمعہ،احمد عمر ہاشم متشدد صوفی نظریئے کے حامل ہیں۔شیخ ازہر احمد الطیب بھی ایک غالی صوفی ہیں۔ اسی طرح عبد اللہ بن بیہ اور محمد بوطی بھی ہیں جن کی سربراہی حبیب علی جفری کررہا ہے ۔ عالم عرب میں تصوف کو عام کرنے اور زیادہ سے زیادہ حکومتی پیمانے نیز شخصی پیمانے پر لوگوں کو صوفی بنانے کا کام کررہے ہیں۔
۔على حبيب الجفرى یک بہت ہی کٹر خبیث یمنی صوفی ہے جو امریکی ایجنٹ ہے ۔ امریکی خرچے پر پورے عالم اسلامی کا دورہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر محمد نجیمی کے ساتھ اپنے ایک انٹر ویو میں نجیمی کے اعتراض پر کہ کیا قبروں کا طواف کرنا شرک اکبر نہیں ہے ؟ جفری نے قبروں اور کعبہ کے طواف کو ایک جیسا سمجھتے ہوئے کہا: اگر قبروں کا طواف کرنا شرک ہے تو پھر ہمارا خانہ کعبہ کو بھی طواف کرنا شرک ہوگا۔ http://www.alsoufia.com/main/3724-1
۔یہ مذکورہ صوفی امریکی سپورٹ سے امارات کے شہر ابو ظبی میں 2005 سے یہ (طابہ )نام سے ایک صوفی موسسہ چلا رہا ہے جس میں عرب کے بڑے بڑے صوفیوں کو جمع کر رکھا ہے مثلا محمد بوطی، علی جمعہ اور عبد اللہ بن بیہ، احمد الطیب شیخ ازہر۔
۔جنوری/2011 میں ٹیونس کے اندر جب چالیس سے زیادہ صوفی مزارات اور خانقاہوں کو گرادیا گیا تو اس وقت امریکہ کے ساتھ ساتھ ترکی نے بھی اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا۔
💥۔مذکورہ تمام بیانات سے یہ اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں رہ گیا کہ تصوف کے پردے میں مذہب اسلام کے ساتھ دشمنان اسلام کیسا گھناونا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اور اسکا سب سے بڑا شکار اس وقت ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ہیں جو ایک نقشبندی اور مولوی یعنی جلال الدین رومی کے طریقہ تصوف کے قائل ہیں۔ اور اسی تصوف کے گھناؤنے نسخے کو ترکی میں پروموٹ کرنا چاہتے ہیں۔
۔صوفیوں میں ابن عربی اور جلال الدین رومی نے اللہ سبحانہ وتعالی کے تعلق سے جتنے نازیبا کلمات کہے ہیں شاید کہ اتنا کسی صوفی نے کہا ہو، جتنا الحاد اور شرک وخرافات ان کے یہاں پایا جاتا ہے شاید کسی خرافی صوفی کے یہاں موجود ہو۔ ابن عربی کا مزار دمشق میں جبکہ رومی کا خانقاہ اسی ترکی کے مزاروں اور خانقاہوں کے شہر قونیہ میں پایا جاتا ہے اور سب سے زیادہ بھیڑ انہیں کے خانقاہ پر ہوتی ہے۔ اردغان دونوں کے خانقاہوں پر برابر حاضری دیتے رہتے ہیں۔
۔ اور یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ترکی اس وقت صوفی مزارات اور خانقاہوں کا مرکز بنا ہوا ہے یعنی ترکی کے اندر جتنے صوفی خانقاہ ہوں گے پوری دنیا میں اتنا نہیں ہوں گے۔
۔ در اصل جب تحریکیوں پر مصر، سعودی عرب، امارات اور بحرین کے اندر پابندی لگ گئی اور عراق وشام سے بہت پہلے ہی مار بھگادئیے گئے تھے ۔ قطر میں محدود پیمانے پر متحرک گرچہ ہیں لیکن اس چھوٹے سے ملک میں وہ کیا کر سکتے ہیں اسی لئے مجبوری میں ترک صدر رجب طیب اردغان کی تعریف وتمجید میں لگے ہوئے ہیں تاکہ سرکاری سرپرستی میں تحریکیوں کو وہاں جگہ مل سکے۔
۔ اردغان کی علمانیت ، یورپ پرستی، اسرائیل دوستی، رافضی تعلقات،تصوفانہ قبر پرستی سب ان تحریکیوں کو برداشت رہے گا کیونکہ کچھ بھی ہیں ان کے امیر المومنین بننے پر راضی توہیں۔
💥۔آخری بات:
ان سارے صفات کے حامل اردغان ترکی میں کیسا اسلام نافذکریں گے وہ انہیں کو پتہ ہوگا یا پھر تحریکی بھائیوں کو ، ترک عوام کو تو دھوکے میں ڈال کر اردغان حکومت کر ہی رہے ہیں۔
۔ عالمی پیمانے پر دشمنان اسلام کی طرف سے تصوف کی جس طرح خلوص سے سرپرستی کی جارہی ہے اس سے ان کے مقصد کے سمجھنے میں ذرا بھی احتمال باقی نہیں رہ جاتا ۔اور یہی سارا کام ترکی میں اردغان کی سرپرستی میں باقاعدہ ہورہا ہے اور ساتھ ہی اردغان نقشبندیہ اور مولویہ سلسلے سے وابستہ بھی ہیں۔ اب اس کے باوجود بھی اگر ترکی میں اسلامی حکومت کی بات کی جائے تو یہ الحاد زدہ ترکی میں بے وقوفوں کے جنت میں رہنے جیسے خواب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔
http://aakashtimes.com/2018/02/04/تصوف-وقبرپرستی-کے-پردے-میں-جدید-ترکی-کے/
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1553818111398137&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق