❎تحریکی ہرکارہ تقلیدی سلمان ندوي❎
🔥اور حدیث رسول وصحابہ کا مذاق🔥
💥صحیح بخاری میں کتاب الصلاة کے اندر امام بخاری نے یہ ذکر کیا ہے کہ صف بندی میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونگے۔ اور دلیل میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ذکر کی ہے جس میں صحابی رسول کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو دیکھتا تھا کہ صف بندی کرتے وقت ایک مصلی اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔ دیکھیں:
صحيح البخاري: أبواب صلاة الجماعة والإمامة
باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم في الصف وقال النعمان بن بشير رأيت الرجل منا يلزق كعبه بكعب صاحبه۔
👈اور اسی باب کے تحت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث لائے ہیں :
عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أقيموا صفوفكم فإني أراكم من وراء ظهري وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه.
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی صفوں کو سیدھی رکھو کیونکہ میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ حضرت انس کا بیان ہے: چنانچہ ہم لوگ صف میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوجاتے۔
👈نعمان بن بشیر کی مکمل روایت ابو داود میں اس طرح ہے:
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا”اپنی صفیں برابر کر لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔“ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔“سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔
👈وضاحت: اس حدیث میں صحابی رسول نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر تعمیل کی وضاحت کر دی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں خوب جڑ کر کھڑے ہوتے تھے، حتی کہ کوئی خلا باقی رہتا نہ کوئی ٹیڑھ۔
تفصیل فتح الباری میں دیکھیں
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=1358&idto=1359&bk_no=52&ID=471
◀️صفوں کے سیدھا کرنے کے تعلق سے اب اس سے زیادہ وضاحت کی شاید ضرورت نہ پڑے۔ اور دو دو صحابی صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب بھی بتا رہے ہیں اور صحابہ کا عمل بھی بتارہے ہیں کہ کندھے سے کندھا قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔
📛اتنی وصاحت کے بعد سلمان ندوی کے اس بیان کو سنیں اور اسکی حدیث دشمنی، نبی دشمنی، صحابہ دشمنی ، سلفیت دشمنی کو دیکھ کر ماتم کریں کہ کس طرح صف سیدھی کرنے کا بندہ مذاق اڑا رہا ہے۔ صحابہ کے عمل کو شاذ بتا رہا ہے۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو صحابہ سے زیادہ کیا آج کا ایک اندھا مقلد سمجھ سکتا ہے۔
👈اسکی ہٹ دھرمی اور بدبودار تعصب تو دیکھیں کہ کندھے اور ایڑی ملانے والی حدیث(حاذوا بين الأعقاب والمناكب) تو پڑھ رہا ہے مگر کندھا ملانے کی بات ذکر کرکے آگے نکل جاتا ہے اور ایڑی ملانے کا ترجمہ نہیں کرتا ہے۔
کیا یہ متعصب ملا قرآن کریم کی اس آیت کے حکم میں نہین آئے گا؟:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ۔ بقرہ: 159
جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔
👈بندہ کیسا بے وقوف بنا رہا ہے کہ صحابہ اگر کسی جذبے سے ایسا کرلیتے تھے تو کیا وہ دلیل بن جائے گی؟ آخر اس اندھے مقلد کو کون سمجھائے کہ اسی جذبے سے تو ہم بھی وہی کرتے ہیں۔ آخر تم کس جذبے سے ویسا نہیں کرتے؟ آخر جب صحابہ ٹخنہ ملاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے بھی تھے تو کیا کبھی آپ نے انہیں منع فرمایا کہ صرف کندھا ملاو؟ واقعی ہٹ دھرمی میں یہ اندھے مقلد ابو جہل کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے۔
اور کیسے ناو میں دھول اڑا رہا ہے یہ بندہ کہ قدم ملانے سے فرجہ باقی رہے گا جبکہ صرف کندھا ملانے سے نہیں باقی رہے گا۔ یہ صرف تعصب اور سلفیت دشمنی میں بک رہا ہے ورنہ کندھے کے ساتھ قدم اور ٹخنہ ملانے سے ہی فرجہ باقی نہیں رہے گا۔ اور ایسے ہی صحابہ کرام کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بہتر سمجھتے تھے۔
👈آخر یہ متصب سڑیل تحریکی مُلّا حدیث کا مذاق کیوں نہیں اڑائے گا جو حج کی قبولیت کے شرائط بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ آل سعود اور سیسی وغیرہ پر لعنت بھیجنا ضروری ہے۔ اگر ان سب پر لعنت نہیں گئی تو حج قبول نہیں ہوگا:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2132815776792424&id=148892475184774
👈یہ وہی مت مارا حدیث کا دشمن اور رافضیت گزیدہ ہے جو حدیث رسول سے جھوٹا استدلال کرکے عربوں کو گالی دینے پر لوگوں کو ابھارتا ہے۔ اور نبی پر بہتان باندھتا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے کسی کو گالی دینے کا جواز نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ ویڈیو نمبر2
♨️ایسے حدیث کے دشمنوں اور مذاق اڑانے والوں کو یہ دونوں آئتیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے:
1۔ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ نور: 63
سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔
2۔ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ۔ توبہ: 65
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے ره گئے ہیں؟۔
■■■■■■■■■■■■■■■■■■■■■■■■
🎪یہ جناب سعودی کی مشہور یونیورسٹی جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے حدیث میں تخصص کر کے آئے ہیں اور حدیثوں کے ساتھ ان کا یہ برتاو ہے۔ اور حدیث دانی بھی خوب ہے! پڑھیں محترم سعید الرحمن سنابلی صاحب کا یہ وقیع تبصرہ:
[[عربی دانی، زبان آوری اور ثرثرہ بازی ایک چیز ہے اور فہم حدیث دوسری چیز ہے۔ آپ کو عربی اچھی آتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ علم حدیث کے بھی اچھے استاذ ہوں گے۔
آج ایک اخوانی مولوی کا تسویۃ صفوف کے تعلق سے ویڈیو سننے کو ملا، حد درجہ تکلیف ہوئی اور افسوس ہوا کہ اپنے علم کا اتنا غرہ کہ کہ وہ علمی مجلسوں میں علم حدیث کا اس طرح سے برملا مذاق اڑائے اور استہزاء بالدین کا مرتکب ہو۔
علامہ فہامہ اور محدث کہلانے والے یہ لوگ اس امر کا ادراک نہیں کرپائے کہ بعض نصوص دوسرے نصوص کے لئے تشریح و توضیح کا کام کرتے ہیں لہذا، بعض روایتوں میں محاذاۃ کے الفاظ ہیں کسی مولوی کو اس سے اشتباہ ہوسکتا ہے کہ کندھا ملانا ہے، ٹخنہ نہیں لیکن کنا نلزق الکعب بالکعب والمنکب بالمنکب کا جواب کیا دیں گے یہ حضرت عالی جاہ؟
اچھا عربی دانی اور زبان آوری پر تو جناب عالی کو ناز ہے تو پھر ’’تراصوا‘‘ کا مطلب کیا سمجھتے ہیں جناب من؟
’’ سدوا الخلل‘‘ ’’لا تترکوا بین الصفوف فروجات للشیطان‘‘ اور اس جیسی روایتوں سے مولوی صاحب نے کیا نتیجہ نکالا ہے اور کن بنیادوں پر نکالا ہے، یہ تو اب وہی بتائیں گے لیکن انہیں یہ واضح طور پر معلوم ہونا چاہئے کہ مسلکی عناد، خاندانی رعب و دبدبہ، سیاسی اثرو رسوخ، چرب زبانی اور طنطنہ یا سامنے والے کی تحقیر و تذلیل سے علمی مسائل ثابت نہیں ہوتے۔۔۔۔
کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں سے کوئی امر ثابت ہو اور اسے برت کر صحابہ کرام نے دکھایا ہو اور اس امر کی توضیح و تعیین افعال صحابہ سے ہورہی ہو تو ہم یہ شگوفہ چھوڑ کر اس قول صحابہ کو رد کریں کہ کسی صحابی اور کسی تابعی سے مرجوح قول منقول ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو دوسرے پر گستاخ صحابی اور گستاخ اسلاف ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن جب ان کے اندرون دیکھتے ہیں تو یہ کسی صحابی کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو چھوڑ کر بزرگوں کے اقوال کا تمسک کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ بعض لوگ پاؤں پھیلانے میں مبالغہ کرتے ہیں، اپنے بغل میں کھڑے انسان کے لئے پریشانی کا سبب بھی بنتے ہیں، اپنے جثہ سے زیادہ پاؤں دراز کرتے ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی حدیث کی استہزاء کرکے اپنے ایمان کو غارت کریں۔
جہاں تک پاوں کے درمیان یا بغل سے بکری کے بچہ گزرنے کی بات ہے تو اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا علم حدیث سے کورے ہونے کے ساتھ ہی عقل سلیم سے بھی عاری ہیں اور انہیں عام مسائل کی بھی سمجھ نہیں ہے،۔ مولانا سے عرض یہ ہے کہ اپنے حلقہ میں مداری بن کر گمراہ کرنے کا ناٹک کریں، یہ نوٹنگی اپنے حلقہ سے باہر کریں گے تو پھر آپ کی گرفت بھی ہوگی اور لوگ شک کریں گے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عقل میں فتور ہے۔۔۔۔ آپ کو یہ نہیں معلوم کہ یہ استہزاء کے قبیل سے ہے اور دوسری بات احکامات تعبدیہ میں عقلی گھوڑے کو آزاد چھوڑ دینا گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔ نیز یہ بھی تو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انسانوں کے بیچ میں اتنی جگہ چھوڑنے سے منع کیا ہے جس سے بکری کا بچہ گزر سکے، ناکہ دونوں پاؤں اور دونوں بازؤوں اور بغل کے درمیان سے اور اگر انسان جب باہم ٹخنہ سے ٹخنہ یا پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑا ہوں گے تو یہ بذات خود شیطان سے حفاظت کا ذریعہ ہے تو اب یہ کہاں لکھا ہے کہ پاؤں کے درمیان زیادہ جگہ چھوڑ دی گئی یا ہاتھوں کے بیچ میں چھوڑ دیا گیا تو شیطان وہاں سے بھی گزر سکتا ہے،۔؎
بہرحال مولانا تو ٹھہرے جوتی سیدھی کرنے کے ایکسپرٹ، سیاسی گلیاروں میں اپنے آقا بدلنے میں ماہر ہیں، لیکن کبھی کبھی علمی میدان میں بھی شگوفے چھوڑ جاتے ہیں لہذا، اس طرح کی باتوں کو شاید سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ سعودی، سعودی حکمران، ائمہ حرمین وغیرہ پر ان کی کرم فرمائیاں وقتا فوقتا ہوتی رہتی ہیں۔۔۔۔
ابوعدنان سعیدالرحمن نورالعین سنابلی
14؍ستمبر 2018ء]]
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق