✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظور
پانچویں اور آخری قسط👇
💥کہتے ہیں: دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ شاید اسی فارمولے کی بنیاد پر تحریکیوں اور تقلیدیوں نے رافضی صفوی ایران کا پیالہ پی لیا ہے۔حسن بنا ، سید قطب ، محمد قطب ، محمد غزالی سے لیکر محمد مرسی اور یوسف قرضاوی تک سبھی نے ایرانیوں کا ساتھ دیا ہے۔ علامہ مودودی نے تو خمینی کو رافضی انقلاب کے موقع پر مبارک باد بھی دی تھی۔
ساسانی اور اسلامی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والا اچھی طرح جانتا ہے کہ ایرانیوں نے شیعیت کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو در اصل دو عظیم گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ورنہ نہ ہی ان کو اہل بیت سے کوئی محبت ہے اور نہ آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے کوئی ہمدردی ہے۔ ان کا صرف مقصد اول اور نصب العین جزیرۃ العرب کے زرخیر علاقوں پر قبضہ کرکے عربوں کو ذلیل کرنا نیز عربوں کی حکومتوں کا شیرازہ بکھیرنا ہے۔
چونکہ رواں سالوں میں سعودی عرب کئی محاذوں پر دشمنوں کا مقابلہ کر رہا ہے اور خارجی اور داخلی ہر پیمانے پر اصلاحات کاکام کر رہا ہے جسے دیکھ کر اس کے حاسدین برداشت نہیں کر پارہے ہیں چنانچہ اسے غلط رنگ دیکر دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور جانے انجانے رافضی صفوی ایرانیوں کا ساتھ بھی دے رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک تقلیدی نے اپنے فیس بوک پیج پر بڑے فخر سے یہ لکھا کہ ایرانی اگر بیلسٹک میزائل بنا رہے ہیں اپنی فوج طاقت مضبوط کر رہے ہیں تو اس پر سعودی کو برا کیوں لگ رہا ہے وہ اتنا پریشان کیوں دکھ رہا ہے؟ اسے بھی میزائل بنا لینی چاہئیے۔ اس پوسٹ پر ایک تحریکی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سعودیوں کو عیاشی کرنے سے فرصت ملے گا تو سوچیں گے۔ اور یہ سارے تبصرے ان تقلیدیوں اور تحریکیوں کی طرف سے ایسے نازک موقعے پر ہو رہے ہیں جب کہ ایرانی تیارشدہ بیلسٹک میزائل حوثیوں نے ریاض پر مار رہے ہیں۔
آخر یہ سعودیہ پر کیوں ہنستے ہیں؟ ایران کی تعریف کیوں کرتے ہیں؟ یہی نا کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتاہے۔ واقعی یہ تحریکی وتقلیدی ان صفوی ایران کی جانے انجانے سواری بنے ہوئے ہیں ۔ کیا انہیں پتہ نہیں ہے کہ ایرانی حکومت بلوچستان اور احواز صوبوں کے اندر سنی مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ کرد سنی مسلمانوں کے ساتھ کردستان میں ایرانی حکومت ترکی کے ساتھ ملکر کیا کر رہی ہے؟ انہیں سب پتہ ہے ۔ ایرانی راجدھانی تہران میں ایک بھی سنی مسجد نہیں ہے جب کہ وہاں بیس فیصد سنی مسلمان آباد ہیں۔ سنیوں کے ساتھ یہ سارے ایرانی ظلم آخر کیوں برداشت کئے جارہے ہیں؟ یہی نا کہ وہ سعودی کا بہت بڑا دشمن ہے۔
یہ بھی پتہ ہے کہ ۱۹۷۹ء میں اسلامی انقلاب کے نام پر کس طرح ایک مذہبی جنونی حکومت قائم کی گئی اور تب سے آج تک وہ حکومت ایک ہی ہدف پورا کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت جھونک رہی ہے۔ اور وہ ہدف ہے عظیم ایرانی ساسانی حکومت کا قیام ۔ وہ حکومت جو تقریباً پانچ سو سال قبل مسیح ان کے سیاسی آقا ورہنما کورش نے قائم کی تھی ۔ جس کی سلطنت افغانستان سے لیکر ایران، عراق اور شام کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس مقصد کے علاوہ اگر کوئی دوسرا مقصد ہے تو وہ صرف ان عربوں کو ذلیل کرنا ہے جنہوں نے ابو بکر صدیق اور عمر فاروق کے دور خلافت میں ایران کی عظیم سلطنت کو روند کے رکھ دیا تھا او ر معرکۂ قادسیہ میں ان کی عزت کو خاک میں ملا دی تھی۔
اس سے تقریباً ایک صدی پہلے عربوں نے انہی ساسانی فارسیوں کو جنوبی عراق میں معرکۂ (ذی قار) کے اندر دھول چٹائی تھی اور ان ایرانی فوجیوں کو عربوں نے ہانی بن مسعود شیبانی کی قیادت میں عراق کی سرزمین میں چوہوں کی طرح دوڑا دوڑا کر مارا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہی مہینہ ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ولادت ہوئی تھی۔ جس میں ایک پیغام چھپا ہوا تھا کہ عربوں کے اندر نبوت کے آنے کے بعد کسری کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ اور ہوا بھی یہی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق کے موقعہ پر مسلمانوں کو یہ پیغام دیدیا تھا کہ قیصر وکسری کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ میں آئیں گے ۔ اور اس کے بعد جب آپ نے کسری کے پاس اسلام لانے کا خط بھیجا اور اور اس نے پھاڑ دیا تو اس وقت بھی آپ نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ کسری کی حکومت اب سرزمین پر باقی نہیں رہے گی میرے خط کیطرح اس کے بھی چیتھڑے ہوجائیں گے۔ اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے جانثار صحابہ نے یہ کر کے دکھا دیا ۔آج کے یہ رافضی ایرانی ان دونوں واقعات (معرکۂ ذی قار اور معرکۂ قادسیہ) کو اپنی ذلت ورسوائی اور شکست کے طور پر دیکھتے ہیں اور قادسیہ میں شامل تمام صحابہ کرام کو یہ اپنا جانی دشمن سمجھتے ہیں۔
اگر آج کے رافضی ایرانی واقعی مسلمان ہوتے تو یہ سربراہان ایران ساسانی حکومت کے دورباہ احیاء ، نیز عربوں کو ذلیل کرنے اور ان سے بدلہ لینے کی بات ہرگز نہ کرتے ۔ کافر مجوسی کورش بادشاہ کا عظیم الشان مقبرہ بنا کر اس کا طواف نہ کرتے ۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قاتل مجوسی ابو لولو فیروز کو بہادر کا خطاب دیکر بابا شجاع الدین کے عظیم لقب سے نہ پکارتے اور نہ ہی اسکی قبر کو عظیم مزار میں تبدیل کر کے اس کی شاہانہ زیارت کرتے ۔ اور نہ ہی مجوسی تہوار نیروز کو سال بسال بڑی دھوم دھام سے سرکاری پیمانے پر مناتے، اور نہ ہی اسے سرکاری کلینڈر کے طور پر اپناتے۔صحابہ کرام کو کافر نہ گردانتے خاصکر صدیق اکبر اور فاروق اعظم پر لعنت نہ بھیجتے۔ عائشہ وحفصہ رضی اللہ عنہما کو کافرہ نہ مانتے اور جلیل القدر صحابی عمرو بن عاص کو مکار نہ کہتے۔ قرآن پاک کو محرف نہ مانتے اور علی رضی اللہ عنہ نیز دوسرے ائمہ کو انبیاء سے زیادہ مقام ومرتبہ نہ دیتے۔ یہی ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو بہت سارے مسلمان نہیں سمجھ پارہے ہیں یاسمجھتے ہوئے ان رافضیوں کی سواری بن رہے ہیں۔
چونکہ حکومتی پیمانے پر ایران کا حقیقت میں کوئی مذہب نہیں ہے ۔ عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے اہل بیت سے عقیدت کے نام پر سنی مخالف مذہب اپنا رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ورنہ در پردہ ان تمام دشمنانِ اسلام سے ان کے سیاسی ، تجارتی اور سیاحتی گہرے تعلقات ہیں۔ ان کے یہاں جھوٹ ، نفاق اور دھوکہ سب درست ہے اسی لئے لوگوں کو دکھانے کیلئے اسرائیل وامریکہ کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ ورنہ ان کا ان دونوں سے بڑا کوئی دوست ہی نہیں ہے۔ جارج بوش اور اوبامہ کے دور حکومت میں ان کی ساری مکاری اور عیاری دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ جارج بوش نے عراق پر ایرانی قبضہ دلا کر اپنی دوستی کا حق ادا کیا جس پر ایرانی حکام اور سربراہان آج بھی فخر کر رہے ہیں ۔ اسی طرح اوبامہ نے ایران کو شام تک پہونچنے کی کھلی چھوٹ دے دی اور سب سے بڑا عربوں کے ساتھ دھوکہ یہ کیا کہ ایران پر لگی تمام پابندیوں کو ہٹا کر اس کے لئے ایٹمی ہتھیار بنانے کا راہ ہموار کردیا۔ لیکن اس کے باوجود اگر ایرانی آج بھی امریکہ کو گالی دیں تو اسے کیا سمجھا جائے؟
رافضی ایرانی حکومت شروع ہی سے سنی عرب مسلمانوں کے خلاف رہی ہے ، اور یہ اپنا نصب العین پورا کرنے کیلئے اول دن سے سر گرم ہیں ، کئی اہداف پورے ہوچکے ہیں،ایرانیوں کے بقول وہ اب آخری مراحل سے گزر رہے ہیں یعنی ایک دن آئے گا کہ مسلم دنیا پر ان کی حکومت ہوگی جو خالص ایرانی کسروی مزدکی ساسانی صفوی حکومت ہوگی، جہاں مذہب اسلام کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔ اپنی تقلیدی تحریکی سواریوں کو کام چل جانے کے بعد پھینک دے گی۔ اللہ ان کے عزائم کو خاک میں ملائے۔
اب ذیل میں کچھ ایسے ایرانی سربراہان کے بیانات سپرد قلم کر رہا ہوں جو ان کے انہیں مذکورہ عزائم کی نمائندگی کر رہے ہیں:
(۱)۔ خمینئی لعنہ اللہ نے ایران-عراق جنگ میں اپنے ناپاک عزم کا اظہار کر تے ہوئے کہا تھا کہ عراق ہمارے راستے كا صرف ايك روڑا ہے، ہمارا آخری مقصد حرمین پر قبضہ کرنا ہے۔ پھر وہاں پہونچ کر ابو بکر اور عمر کی قبروں کو اکھاڑنا ہے نعوذ باللہ۔ اس رافضی خبیث کے خبیث ارادے پر عمل کرتے ہوئے کئی بار ایرانیوں نے حج کے بہانے حرمین میں فساد برپا کرنے نیز حرمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خمینی حکومت کے آنے کے بعد آج تک چھ بار منحوس کوشش کر چکے ہیں لیکن اللہ تعالی نے ہر مرتبہ انہیں ذلیل ورسوا کیا ۔ اختصار سے ان حوادث کا ذکر کر رہا ہوں:
اول: یکم محرم ۱۴۰۰ھ کی صبح فجر کے وقت جہیمان نامی شخص کی قیادت میں حرم مکی پر بہت سارے اسلحوں کے ساتھ قبضہ کیا گیا۔ اس نے خانہ کعبہ سے اپنے مہدی منتظر ہونے کا اعلان کیا۔ سیکورٹی فورسیز کے ساتھ تصادم میں سیکڑوں لوگ شہید ہوئے۔ بالآخر تین چار دنوں کے بعد بمشکل ان مجرموں پر قابو پایا گیا او رانہیں کیفر کردار تک پہونچایا گیا۔
دوم: ۶/ ذی الحجہ ۱۴۰۷ھ کے دن کہ جب سارے حجاج کرام فریضۂ حج کی ادائیگی کی تیاری کر رہے تھے اچانک ایرانی فوجی حاجیوں کے لباس میں شور وہنگامہ کرنے لگے ، اور لبیک یا خمینی کہہ کر سارے ایرانی شر پسندوں کو اکٹھا کر رہے تھے۔ اسی دن عصر کے وقت ان کا مکمل پلان تھا حرم مکی پر قبضہ کرنے کا لیکن سعودی سیکورٹی فورسیز نے انہیں گرفتار کر کے منطقی انجام تک پہونچا دیا۔ اور اس طرح پھر حرم مکی ان ایرانی شرپسندوں کے شروفساد سے محفوظ ہوگیا۔
سوم: صرف دو سال کے بعد ۱۴۰۹ھ میں حج کے دوران حرم مکی کے اندر دو جگہ بم دھماکہ ہوا ۔ سعودی سیکورٹی نے ۲۰ مجرموں کو گرفتار کیا ۔ تحقیقات کے بعد اس حادثے میں ایرانیوں کا ملوث ہونا ثابت ہوا۔
چہارم: ۱۱/ذی الحجہ ۱۴۳۶ھ کے دن ایام منی کے دوران جمرات کے پاس ایک منظم پلان کے تحت ایرانی حاجیوں نے آپس میں ملکر بھیڑ کو بے قابو کردیا جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی اور تقریباً آٹھ سو حاجی شہید ہوگئے۔ یہاں مقصد صرف سعودی حکومت کو بدنام کرکے سعودی سیکورٹی کی اہلیت کو ناکام بنا کر دنیا کے سامنے دکھا نا تھا اور یہ واضح کرنا تھا کہ سعودی حکومت اب اس لائق نہیں ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے حج جیسے عظیم فریضے کی ادائیگی کا انتظام کر سکے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ حرمین کو ایک عالمی کمیٹی کی تحویل میں دیدیا جائے جس میں پوری دنیا کے مسلمانوں کی نمائندگی ہو۔ لیکن اللہ نے ان رافضیوں کے عزائم کو اس وقت بھی خاک میں ملا دیا جب انہوں نے دیکھا کہ ساری دنیا کے مسلمان سعودی انتظامات کی تعریف کر رہے ہیں اور ان ایرانیوں کے مطالبہ کو بکواس قرار دے رہے ہیں۔ اس حادثے میں کئی ایک ایرانی فوجی گرفتار کئے گئے۔
پنجم: بروز جمعرات ۲۶/ محرم ۱۴۳۸ھ کو سعودی قیادت والی عرب الائنس نے اعلان کیا کہ رافضی حوثی ملیشیا نے یمن کے رافضی علاقے صعدہ سے مکہ مکرمہ شہر پر میزائل داغا ہے جسے راستے ہی میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس واقعہ نے ابرہہ کے منحوس حملے کی یاد دلا دی کیونکہ اس نے بھی یمن کے راستے مکہ پر حملہ کرنے کیلئے آیا تھا۔ اس طرح ایک بار پھر خانۂ کعبہ رافضی ابرہوں کے حملوں سے محفوظ ہوگیا۔
ششم: ۲۸/ رمضان ۱۴۳۸ھ کے روز سعودی سیکورٹی نے ایک بہت بڑے دہشت گردانہ حملے کو ناکام بنا دیا جس کا ٹارگٹ مسجد حرام کا منطقہ تھا۔ جس میں کافی تعداد میں زائرین ہلاک ہوتے لیکن اللہ تعالی کے فضل وکرم سے یہ حادثہ ٹل گیا۔ مجرمین نے تین جگہوں کو ٹارگٹ بنایا تھا جن میں دو جگہ حرم مکی میں اور ایک جگہ جدہ کے اندر۔ لیکن سعودی سیکورٹی نے ان سارے ٹارگیٹ کو ناکام بنا دیا اور پانچ ملزمین کو گرفتار بھی کیا جن کے بارے میں تحقیق چل رہی ہے۔
(۲)۔ قاسم سلیمانی جو کہ ایرانی فوج کا سربراہ اعلی ہے اور جسے ایرانی حکام کی طرف سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ رافضی صفوی عالمی پلان کے نفاذ میں اپنا پورا اختیار استعمال کرے۔ چنانچہ وہ فی الحال پاسداران انقلاب کا قائد اور فیلق قدس کا سربراہ بھی ہے جو ملک شام کے اندر سنی مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے اور ان پر ظلم وستم ڈھانے کیلئے وہاں کی بشاری نظامی فوج کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ساتھ ہی عراق کے اندر اس رضاکار رافضی ایرانی فوج (الحشد الشعبی Papular Mobilization Units PMU-) کا سربراہ اعلی بھی ہے جسے عراقی فوج سے بھی زیادہ چھوٹ اور اختیار حاصل ہے۔ یہ خبیث شخص سنی عرب مسلمانوں خصوصاً سعودی عرب کو اکثر دھمکی دیتا رہتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے عراق ، لبنان اور شام کو فتح کرلیا ہے ، اب باقی عربوں سے حساب چکانا باقی رہ گیا ہے۔ سعودی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا: اگر ہم ایرانیوں کو چیلنج کیا اور ہمارے عراقی مقامات مقدسہ کو کچھ نقصان پہونچا تو ہم ۲۴ گھنٹے کے اندر حساب چکا دیں گے چنانچہ ایک ہی دن میں شام کے وقت بقیع کے اندر اہل بیت کے مزارات پر قبہ بنائیں گے اور فجر کے وقت کعبہ پر (یا حسین ) کا جھنڈا گاڑ دیں گے۔
(۳)۔ ایرانی وزیر دفاع حسین دہقان کا بھی شمار ایرانی موثر سربراہوں میں ہوتا ہے ۔ اس نے ابھی حال ہی میں عربوں کو دھمکی دیتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ عربوں کو صدام حسین کا انجام نہیں بھولنا چاہئیے، عراق ہمارا تھا ، ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا۔ یہاں سے سارے عرب اپنے بے آب وگیاہ صحرائی علاقے میں واپس چلے جائیں۔ عراق اب فارسی ہوگیا ہے یہ اب کبھی بھی خلیجی عرب ممالک میں شمار نہیں ہوگا۔ اس خبیث نے اپنے ایک دوسرے بیان میں کہا کہ ہم ایک عظیم سلطنت کے مالک ہوگئے ہیں جس طرح پہلے تھے(ساسانی مجوسی فارسی کسروی حکومت کو مراد لے رہا ہے)۔ علاقے کے مالک ہم ہی ہیں۔ عراق ، افغانستان، یمن ، شام اور بحرین سب ہماری سلطنت میں شامل ہوں گے۔ عربوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے خالد بن ولید کا خواب دیکھتے رہیں ہم نے موجودہ تمام خالدوں کو ختم کر دیا ہے اب کوئی خالد آنے والا نہیں ہے۔ ہم اپنے ان عرب دوستوں (عرب شیعوں)کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ایرانی سلطنت کی طاقت میں مدد دی ہے ۔ اب ہم تاریخ کو پھر سے بنائیں گے، مدائن ہمارے پاس واپس آچکا ہے۔ فارسی تخت ہمیشہ باقی رہے۔
(۴)۔ بہزادمہدوی بخش نامی ایرانی رافضی گلوکار بڑا ہی خونخوار عرب مخالف شاعر ہے۔ حال ہی میں(عربوں کو قتل کرو) نام سے اس کا قصیدہ بہت ہی مشہورہواہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر یہ قصیدہ بڑی شہرت پا چکا ہے۔ یہ قصیدہ عربوں کے خلاف ایرانی عصبیت سے پرُ ہے ۔ اس کے اندر عربوں کو ذلیل کرنے ، انہیں گالی دینے اور قتل کرنے پر ابھارا گیا ہے، نیز بہت سارے توہین بھرے الفاظ عربوں کے خلاف استعمال کئے گئے ہیں۔ اسی قصیدے کے اندر قدیم ایرانی بادشاہ کورش کو خطاب کر کے کہہ رہا ہے کہ اے کورش بادشاہ! اٹھو تمہارے جاگنے کا وقت آگیا ہے عربوں کو سبق سکھانے کا وقت قریب ہوگیا ہے۔ اس قصیدے کے اندر شیعوں سے مخاطب ہوکر مطالبہ کر رہا ہے کہ سب لوگ حج کیلئے ایران آؤ ، عربوں کا جیب بھرنے سے باز آؤ۔ ایک جگہ قاسم سلیمانی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لو ہمارا کورش آگیا ہے جسکی فوج ہر جگہ موجود ہے ، یہ ایران کی فوج ہے۔
قصیدے کے اندر جس کورش کی تعریف کی گئی ہے یہ وہی ایرانی بادشاہ ہے جس کا مقبرہ ایران میں موجود ہے اور جسکا طواف سالانہ ایرانی کرتے ہیں۔ نیز یہ وہی بادشاہ ہے جو یہودیوں کے یہاں بہت محترم ہے ۔ اس کے نام سے اسرائیل کے اندر ایک سڑک بھی ہے۔ یہ وہی یہود تھے جن کو بخت نصر بادشاہ نے پکڑ کرکے بابل میں قید کر دیا تھا۔وجہ یہی ہے کہ جب کورش نے عراق پر قبضہ کیا تھا تو بابل کی قید سے یہودیوں کو آزاد کر دیا تھا او رانہیں دوبارہ بیت المقدس جانے کی اجازت دیدی تھی ۔ اسی لئے یہ مجوسى بادشاہ رافضى مجوسیوں اور یہودیوں دونوں کے یہاں برابر محترم ہے۔
اب اس مذکورہ حقیقت کے بعد کیا کوئی شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ رافضی ایرانیوں کا اسلام دشمنی اور قدیم طرز پر ساسانی ایرانی حکومت کے قیام کے علاوہ اور کوئی مقصد بالکل نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر تقلیدی اور تحریکی ان سے ہاتھ ملائیں ، ان کے اہداف کو پورا کریں، اور ان کی ہاں میں ہاں ملا کر یہ بھی عرب سنی مسلمانوں کی تباہی کا انتظار کریں تو ان کے حق میں کیا کہا جائے؟ کیا یہ اسلام دشمن رافضی اپنے ان اذناب واذیال تقلیدی وتحریکی سواریوں کو بخش دیں گے؟
اللہ ہمیں تحریکیت، حزبیت، شخصیت پرستی نیز جمود وتعصب سے دور رکھے۔ کتاب وسنت اور منہج سلف کا پیروکار بنائے۔ حقیقت پسند، حق گو اور باطل سے نفرت کرنے والا بنائے۔ دین اسلام کا حقیقی خادم بنائے نیز ریا ونفاق سے بچائے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت معرکۂ ذی قار اور معرکۂ قادسیہ کی طرح رافضیوں کو سنی مسلمانوں کے ہاتھوں پھر دوبارہ بدترین ذلت آمیز شکست سے دوچار کرے، دین حق اور توحید کی سربلندی عطا کرے نیز شرک وکفر اور بدعت وتقلید کی لعنتوں سے جزیرۃ العرب کو پاک رکھے۔ آمین
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10792&date=2017-11-16
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق