الجمعة، 19 أكتوبر 2018

آل سعود اور علماء سعودیہ: الزامات اور جواب -4

✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
*قسط نمبر 4*👇
(۱۹)۔ :ریسونی صاحب کا الزام ہے کہ سعودی علماء طاغوتی حکمرانوں کیلئے پستی میں گر کر وفا داری (Loyalty) کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مداخلہ نامی طائفہ اس معاملے میں حاکم پرستی کی علامت بنا ہوا ہے۔ 
جناب ریسونی کی مذکورہ عبارت سے لگ رہا ہے کہ آپ قطر میں آکر بہت بڑے پکے تحریکی اور اخوانی بن چکے ہیں۔ کیونکہ اخوانیوں کی سب سے بڑی نشانی موجودہ حکمرانوں کو کافر گرداننا اور موجوہ معاشرے کو جاہلیت ثانیہ ماننا ہے جیسا کہ ان کے مرشد سید قطب نے انہیں سبق دیدیا ہے۔ طاغوتی حکمران کہہ کر درا صل جناب اپنے اسی کج فکری (Narrow View) اور یرقانی ذہن (Jaundiced) کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ 
آنجناب کا سعودی علماء خصوصاً مداخلہ کے بارے میں یہ لکھنا کہ وہ حاکم پرست ہیں در اصل یہ تحریکیوں کے حکماء کے خلاف خروج کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ کیونکہ سعودی علماء حکماء کے خلاف خروج کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ اس سے مزید فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے جیسا کہ اسلامی تاریخ میں بارہا ایسے انقلابات اور خروج کانقصان امت مسلمہ کو اٹھانا پڑا ہے۔ اور اس کا ایک نمونہ عرب بہاریہ (Arab Spring) کا تلخ تجربہ حال ہی میں دیکھا جا چکا جس کی قیادت انہی تحریکیوں نے کیا۔ انہیں بڑا قلق ہے اس بات پر کہ سعودی نے یمن میں حوثی سرکش نوجوانوں کی تحریک کو ابھرنے نیز یمن پر قابض ہونے سے روک کیوں دیا۔ یہ چند سلفی علماء ہیں جن سے ان تحریکیوں کو کافی پریشانی ہے: محمد امان الجامی، ربیع بن ہادی مدخلی، محمد بن ہادی مدخلی، مقبل بن ہادی الوادعی، علامہ البانی کے شاگرد رشید سلیم الہلالی اور مشہور آل سلمان وغیرہ۔ 
یہ تحریکی سعودی علماء اور خصوصاً مداخلہ سے جو اس قدر ناراض رہتے ہیں اور ان کے خلاف لکھتے بولتے رہتے ہیں اس کی وجہ حاکم پرستی وغیرہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی علماء ان تحریکیوں کی اصلیت بتاتے ہیں اور ان کے نفاق اور جھوٹ کا پردہ یہی چاک کرتے ہیں۔ دین اسلام سے انہیں کتنی محبت ہے اور اسلام کے نام پر مسلم نوجوانوں کو اپنی تنظیموں اور تحریکوں خاص طور سے طلبہ تنظیموں سے کیسے کیسے لالی پاپ دکھا کر اور بہلا کر جوڑتے ہیں اسکا بھانڈا یہی پھوڑتے ہیں۔ ان کے اصلی نصب العین اور اصل مقاصد سے پردہ یہی اٹھاتے ہیں۔ ان کے مرشدین کے نجی حالات کیسے رہتے ہیں اور اسٹیج پر آکے کیسے بھیس بدل لیتے ہیں اس پر لوگوں کو آگاہ یہی کرتے ہیں۔ روافض شیعوں سے ان کے کتنے گہرے تعلقات (Intimate Relations) ہیں اور ان کے ساتھ مل کر سنی مسلمانوں کے ساتھ یہ کیا کرنا چاہتے ہیں اس بات کو سامنے یہی لوگ لاتے ہیں۔ حتی کہ صہیونیوں اور صلیبیوں سے ان کے کیا رشتے ہیں اسکا انکشاف بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔
انہی سعودی علماء اور مداخلہ نے ان کى کج فکری، خروج، دین بیزاری اور گمراہیوں (Heresies) پر خوب خوب کتابیں لکھ کر ان کا پردہ فاش کیا ہے۔ ذیل میں کچھ مفید کتابیں درج کی جاتی ہیں جن کی روشنی میں ان تحریکیوں کو اچھی طرح پہچانا اور سمجھا جاسکتا ہے:
*المخرج من الفتنة، تالیف: شیخ مقبل بن ہادی الوادعی۔
* الإخوان المسلمون بین الابتداع الدیني والإفلاس السیاسي، تالیف: شیخ علی الوصیفی۔
*کشف شبهات مجوزي المظاهرات، تالیف: شیخ عبد العزیز الریس۔
*وقفات مع تنظیم الإخوان المسلمین، تالیف: ابو عبد اللہ عبد الوہاب الحجوری۔
* لماذا ترکت دعوة الإخوان المسلمین واتبعت المنهج السلفی، تالیف: فیصل بن عبدہ قائد حاشدی۔
* تركة حسن البنا وأسهم الوارثین، تالیف: شیخ عاید شمری۔
* العلاقة المریبة بین الشیعة والإخوان المسلمین، تالیف: شیخ خالد محمد عثمان مصری۔
* البیان عن حال کبار علماء وزعماء الإخوان، تالیف: شیخ نبیل صالح محمد مشرف۔
* الخطوط العریضة للإخوان المسلمین وخلافتهم المرتقبة، تالیف شیخ نعمان عبد الکریم الوتر۔
یہ تحریکی اور اخوانی شیخ ربیع بن ہادی مدخلی سے کچھ زیادہ ہی ناراض رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے سب سے زیادہ ان تحریکیوں کے خلاف لکھا ہے اور انہوں نے ان کی قلعی (Gilding) خوب خوب اتاری ہے۔ نیچے کچھ شیخ کی کتابیں لکھ رہا ہوں جو کافی مفید ہیں: 
*الکتاب والسنة: أثرهما ومکانتهما والضرورة إليهما فی إقامة التعلیم فی مدارسنا۔
* مکانة أهل الحدیث ومآثرهم وآثارهم الحمیدة فی الدین۔
* جماعة واحدة لا جماعات۔
* منهج أهل السنة والجماعة فی نقد الرجال والکتب والطوائف۔
* التعصب الذمیم وآثاره۔
*دفاع عن السنة وأهلها، یہ در اصل محمد غزالی کے رد میں تین مقالات ہیں۔
*کشف موقف الغزالی من السنة وأهلها ونقد بعض آرائه، یہ کتاب محمد کے رد میں ہے۔
* أهل الحدیث هم الطائفة المنصورة الناجية، سلمان عودہ سے مناظرہ کرتے ہوئے۔ 
* مجازفات الحداد۔
*طعن الحداد فی علماء السنة، یہ دونوں کتابیں محمود بن محمد الحداد کے رد میں ہیں۔
* رد علی سعید حوی، اس کتاب کو آپ نے تقریباً ۱۴۰۳ھ میں لکھی جس میں سعید حوی کی صوفیانہ گمراہیوں کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ 
خاص طور سے سید قطب کے اوپر شیخ ربیع کی کی چند کتابیں یہ ہیں:
* أضواء إسلامية علی عقیدة سید قطب وفکره۔
* الحد الفاصل بین الحق والباطل، شیخ بکر ابو زید کے ساتھ سید قطب کے عقیدہ وفکر پر بحث کرتے ہوئے۔
* العواصم مما فی کتب سید قطب من القواصم۔
* مطاعن سید قطب فی الصحابة۔
* حول سید قطب۔
(۲۰)۔ :ریسونی صاحب کا بیان ہے کہ حالیہ دنوں میں سعودی ثقافتی اداروں (Cultural Departments) کی طرف سے بے حساب کتابوں کو ضائع کر دیا گیا یا آگ کے حوالے کر دیا گیا جو برسوں سے سعودی حکومت کی زیر نگرانی شائع اور تقسیم کی جارہی تھیں جیسے ابن تیمیہ کی کتابیں ، موسوعۃ الدرر السنیۃ وغیرہ، اور آج سعودی فرمانرواؤں کو اس میں اپنے لئے خوف اور خطرہ نظر آنے لگا۔ 
ریسونی صاحب نے اپنی عادت کے مطابق یہ بھی ایک بڑا بہتان اور جھوٹ باندھا ہے کیونکہ کتابوں کے جلانے کا حکم کہیں صادر نہیں ہوا ہے۔ در اصل تحریکیوں کی گرفتاریوں سے سبکی مٹانے کیلئے سعودی پر طرح طرح کے الزامات لگارہے ہیں ۔ آخر اتنا درد سہنے کے بعد بھی اگر سعودی ان پر شکنجہ نہ کسے تو کیا کرے؟ اس سے پہلے مارچ ۲۰۱۵ء میں اخوانیوں اور تحریکیوں کے خلاف سعودی میں سرکاری فرمان(Royal Order) جاری ہوا تھا جس کے تحت ان کی وہ اسی (۸۰)کتابیں جو انحراف سے پر ہیں انہیں مساجد ، لائبریریوں اور تمام تعلیمی اور ثقافتی جگہوں سے ہٹانے اور ان پر پابندی لگانے کاحکم دیا گیا تھا۔ ان میں ان کے بڑے بڑے مرشدین شامل ہیں: حسن البنا، سید قطب، محمد قطب، یوسف قرضاوی، علامہ مودودی ، مالک بن نبی، سلمان عودہ، عبد القادر عودہ، مصطفی سباعی، انور جندی اور حسن ترابی وغیرہ۔ چنانچہ ان سب کی اکثر کتابوں میں منحرف افکار بھرے پڑے ہیں۔ 
ان منحرف کتابوں کی فہرست بہت طویل ہے جن میں چند کتابیں کچھ یہ ہیں: حسن البنا کی ( الله فی العقیدة الإسلامية) ، اور( الوصایا العشر )، یوسف قرضاوی کی: (الحلال والحرام في الإسلام)، سید قطب کی : (شبهات حول الإسلام)، علامہ مودودی کی: (الخلافۃ والملوکیۃ) وغیرہ۔ اس موضوع سے متعلق  دو جلد ميں ایک جامع کتاب بکر ابو زید نے لکھی ہے جو کافی مفید ہے جس کا نام ہے: (کتب حذر منها العلماء)۔
لیکن اگر ضائع کرنے کے نام پران کتابوں کو جلا بھی دیا جائے یا دفن کردیاجائے تو اس میں کیا کوئی شرعی قباحت ہے؟ تاریخ میں بہت ساری ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ شرعی یا سیاسی بنیادوں پر کتابوں کو جلایا گیا ہے ۔ فکری انحراف پر مشتمل کتابیں جن سے لوگوں کو گمراہ اور منحرف ہونے کا شبہ ہو تو انہیں جلانا ہی بہتر ہے ۔ لیکن تحریکی اپنی ان کتابوں کا نام نہیں لیتے بلکہ غلط بیانی کرتے ہوئے ابن تیمیہ وغیرہ کی کتابوں کا نام لیتے ہیں تاکہ انکا اگلا جملہ پورالا ہوسکے کہ سعودی اسطرح متشدد تیمی وہابی ماڈل سے معتدل اسلام (Moderate Islam) کی طرف آنا چاہتا ہے۔ واقعی جھوٹ بول کر جملے تو بنائے جاسکتے ہیں لیکن لوگوں کا اعتبار حاصل نہیں کیا جاسکتاکیونکہ جھوٹ کبھی نہ کبھی سامنے آہی جاتا ہے۔ 
ان تحریکیوں کی کتابوں پر پابندی مصر وغیرہ ملکوں میں بھی لگائی گئی ہے بلکہ مصر کے اندر جمال عبد الناصر کے دور میں ان منحرف کتابوں کو ضائع کرنے کے نام پر بڑے پیمانے پر جلایا بھی گیا تھا لیکن یہ تحریکی اس سچ کو دنیا کے سامنے نہیں پھیلاتے ہیں۔ انہیں تکلیف ہے تو صرف سعودی سے کہ آخر یہاں بگاڑ اور فساد کیوں نہیں پنپ رہے ہیں؟ یہ اپنی سازشوں میں کامیاب کیوں نہیں ہو پارہے ہیں؟ عرب بہاریہ نے سعودی کو اپنی لپیٹ میں کیوں نہیں لے پایا؟ یہی انکاسعودی کے ساتھ سب سے بڑا درد ہے؟ اللہ بلاد حرمین کو ان کی سازشوں سے محفوظ رکھے۔ 
ان تقلید اور تحریک پرستوں کی نظر میں آل سعود اور علماء سعودیہ کے اندر صرف برائی کے علاوہ اور کچھ دکھتا ہی نہیں ہے۔ فکری ، معاشی، سماجی نیز تعلیمی اور ٹکنالوجی ترقیاتی پیمانے پر بروقت سعودی حکومت کیا اقدام کر رہی ہے اور اسکے لئے تمام بڑے بڑے شہروں میں کتنے بجٹ کے کون کون سے پروجیکٹ پاس کئے جارہے ہیں؟ ان سب ترقیاتی کاموں اور اصلاحات پر نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی تشہیر کرتے ہیں یا جان کر ان سے تجاہل برتتے ہیں کہ کہیں دنیا کی نظر میں آل سعود اور علماء سعودیہ کے تئیں مثبت سوچ اور اچھا اثر نہ چلا جائے اور دھیرے دھیرے ان کی پروپیگنڈے والی ڈفلی کمزور پڑ کر پھٹ نہ جائے۔
جس طرح مملکہ کے حاسدین نے سلمان کمپلیکس برائے حدیث پرنٹنگ کے تعلق سے غلط پروپیگنڈہ دنیا بھر میں پھیلایا اسی طرح بہت سارے ایسے سعودی پروجیکٹ کوبھی انہوں نے نظر انداز کیا جن کا سیدھا فائدہ سعودیوں کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو پہونچتا ہے ۔ ان میں صرف میں ایک عظیم پروجیکٹ کی طرف اشارہ کر رہا ہوں ۔ چنانچہ خادم الحرمین الشریفین سلمان بن عبد العزیز آل سعود / حفظہ اللہ نے بروز منگل ۷/نومبر ۲۰۱۷ء موافق ۱۸۔۲۔۱۴۳۹ھ کو حرمین مٹرو ریلوے کا افتتاح کیا ہے ۔ یہ مٹرو ٹرین جس کا نام (قطار الحرمین) ہے جدہ ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ صرف ۹۰ منٹ میں پہونچ جائے گی۔ اس ریلوے نظام کا واحد مقصد حجاج کرام اور حرمین کے زائرین کیلئے عمدہ سہولیات فراہم کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے منی اور عرفات کے درمیان حجاج کرام کے آمد ورفت کیلئے ۲۰۱۰ء میں بہتر ریلوے کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ حجاج کرام خصوصاً عورتوں ، بچوں اور بزرگوں کیلئے کسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا نہ ہو۔ یہ واضح ہو کہ مملکہ کے مشرقی شہر دمام سے راجدھانی ریاض کے مابین ۱۹۶۶ء سے ہی ریلوے نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ نیز مستقبل قریب میں ریاض شہر کو مدینہ منورہ سے حرمین مٹرو ٹرین پروجکٹ کے تحت جوڑنے کی تیاری ہورہی ہے۔ اس طرح جلد ہی مملکت سعودی عرب ریلوے ٹریک کے ذریعے مشرق میں خلیج عربی کو مغرب میں بحر احمر سے جوڑ دے گا۔ 
سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی طرف سے حدیث کمپلیکس کی طرح اہل مدینہ کیلئے قطار الحرمین مٹرو ٹرین اس سال کا دوسرا بڑا تحفہ ہے جو خود ان کے لئے اور تمام سعودیوں نیز مسلمانان عالم کیلئے بھی باعث شرف اور لائق فخر ہے۔ 
لیکن برا ہو مملکہ کے ان حاسدین اور مخالفین رافضی ، تحریکی اور تقلید پرستوں کا جو سعودی میں ہر معمولی اور چھوٹی چھوٹی پیش آنے والی چیزوں کو ایک بھیانک اور ہولناک ہوا بنا کر پیش کرتے ہیں پھر ان کے چمچے اور اذناب واذیال اس کا پروپیگنڈہ کر کے پوری دنیا میں پھیلا دیتے ہیں ۔ لیکن وہیں پر قطار الحرمین مٹرو ٹرین جیسی عظیم پروجیکٹ سے نظریں بچا کر صم بکم عمی جیسی صفتوں کا پیکر بن جاتے ہیں اور میڈیا میں اس کی بھنک بھی نہیں لگنے دیتے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا والے مملکہ کے عظیم کاموں کے بارے میں سن کر وہاں کے سربراہان کی سراہنا کرنے لگیں اور مملکہ کے تعلق سے ان کے کھوکھلے دعوے لوگوں کے سامنے کھل کر سامنے آجائیں۔
ایک اندازے کے مطابق رافضی ملک ایران مملکہ کے خلاف پروپیگنڈہ اور افواہ پھیلانے کیلئے سالانہ تیس بلین ڈالر اپنی پبلک رلیشن اور میڈیا پر خرچ کرتا ہے پھر بھی پریشان رہتا ہے کیونکہ اس کا پیسہ جھوٹ اور نفاق پر خرچ ہو تا ہے۔ کس قدر مشابہت ہے انکی اللہ کے نافرمان کافر بندوں سے ؛ سچ فرمایا پرور دگار عالم نے: (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ)() ترجمہ: بیشک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کر رہے ہیں تاکہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکیں، سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہو جائیں گے، پھر وہ مغلوب ہوجائیں گے، اور کافر لوگوں کو درزخ کی طرف جمع کیا جائے گا۔ 
پھر یہ تحریکی اور تقلیدی روافض کے ان افواہوں ، ان کے ظنون واوہام ، اندیشوں اور خدشات کو یقین کا درجہ دیکر خود فیصلہ کر لیتے ہیں اور آل سعود نیز علماء سعودیہ کو دنیا کی نظر میں مجرم بنا کر پیش کرنے لگتے ہیں ، اور یہی روافض کا نصب العین ہے۔ جس طرح یہودیوں کی سواری کاکام صلیبی مسیحی کرتے ہیں بالکل اسی طرح روافض کی سواری کا کام تحریکی تقلیدی کرتے ہیں۔ 
لیکن یہ طے ہے کہ جب تک سعودی عرب کے اندرطاقت ہے وہ ان شاء اللہ کبھی دین کا سمجھوتہ نہیں کرے گا اور نہ ہی علماء سعودیہ ان کی غلط رہنمائی کریں گے۔ امام محمد بن سعود اور شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہما اللہ نے جس دین اسلام کے نام پر حکومت چلانے کی بیعت کی تھی وہ بیعت آج بھی باقی ہے، اور دونوں خاندان اسی بیعت پر قائم ہیں اوراسی ایمان کی قوت اور مضبوطی سے حکومت چلا رہے ہیں اور امید یہی ہے کہ مستقبل میں بھی یہ مملکت توحید اسی بیعت پر قائم رہے گا۔ حاسدین لاکھ چلائیں اور پروپیگنڈہ کریں ، اللہ نے چاہا تو سعودی عرب ترقی کرتا رہے گا ، اور عالم اسلام کی روحانی قیادت کرتا رہے گا۔ 
اب عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ مکار میڈیا وہاں کی اچھی اور خیر والی خبروں کو کتنا ہی چھپائے سوشل میڈیا کے ذریعے ان خبروں کی حقیقت اور سچائی سامنے آہی جائے گی۔ اس طرح مملکت سعودی عرب کے تئیں مسلمانان عالم کا اعتماد اور بھروسہ بڑھتا جائے گا اور مملکت توحید کا جھنڈا بلند رہے گا۔ امید یہی ہے کہ اللہ کے فضل وکرم سے شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں مستقبل قریب ہی میں سعودی عرب دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا اور اس کے حاسدین اور معارضین کا چہرہ مزید سیاہ ہوگا اور ان کی صفوں میں ماتم کا عالم بنا رہے گا۔
(جاری)
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10784&date=2017-11-15

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1473354329444516&id=100003098884948

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...