✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
🚏قسط نمبر ۳
(۱۱)۔ :جہاں تک آنجناب کا یہ فرمان کہ سعودی عرب نے اپنی تمام لڑائیاں مسلمانوں کے خلاف لڑی ہیں۔ تو اس سے آنجناب کا مقصد یاتو مغالطے میں ڈال کر تمام مسلمانوں کو مملكت توحيد سعودی عرب كا دشمن بنانا ہے یا پھر ہم حضرت کے بارے میں یہی کہیں گے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اس اجمالی جواب کے بعد میں پورے وثوق سے کہوں گا کہ یقیناً سب کی طرح مملکہ کو بھی دفاع کا حق حاصل ہے، چنانچہ مملکہ ہر اس شخص سے لڑتا ہے اور لڑتا رہے گا جو بھی اسکی قومی سلامتی (National Security)کیلئے خطرہ بنے گا چاہے وہ شخص مسلمان ہو، کافر ہو یا منافق ہو۔ عراق کے حاکم صدام حسین نے مملکہ پر حملہ کی جس کی ملحد پارٹی کا شعار (Motto) تھا:
آمنت بالبعث رباً لا شریك له وبالعروبة دیناً ما له ثاني
ترجمہ: بعث پارٹی پر میں ایسا رب مان کر ایمان لاتا ہوں جس کا کوئی ساجھی نہیں، اور عربیت پر میں ایمان لاتا ہوں ایسا دین مان کر جس کا کوئی ثانی نہیں۔
چنانچہ مملکہ نے اپنے فرزندوں کے دین وعقیدہ، عزت وآبرو اور گھر بار کی حفاظت کی خاطر اس سے لڑائی کی تاکہ یہاں بھی لوگوں کو اُنہیں مصیبتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جسے اہل عراق اسکے پورے دور حکومت میں اور اب تک جھیل رہے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں بھی مملکۂ توحید کے خلاف اس ملحد بعث پارٹی کا اخوان المسلمین جماعت پورا پورا ساتھ دے رہی تھی پھر بھی مملکہ نے کسی کی پروا نہیں کی یہاں تک کہ پروردگار نے ساتھ دیا اور دشمنانِ مملکہ کو ذلیل ورسوا کیا۔
رافضی خبیث صفوی ایرانی حکومت نے مملکہ کے خلاف دو مرتبہ سر اٹھایا: پہلی مرتبہ عراق ایران جنگ کی شکل میں جس میں خمینی لعنہ اللہ کا ہدف حرمین شریفین تک پہونچ کر پہلی فرصت میں شیخین کی قبروں کو ۔نعوذ باللہ۔ اکھاڑنا تھا۔ چنانچہ مملکہ نے عراق کا ہر طرح سے ساتھ دیا اور رافضیوں کو منہ کی کھانی پڑی یہاں تک کہ خمینی نے اپنی شکست کا اعلان کردیا۔ اس لڑائی میں رافضی ایجنٹوں اور تحریکیوں کے سوا تقریباً تمام سنی ممالک کسی نہ کسی طورسے مملکہ کے ساتھ تھے۔ یہاں بھی سعودی ریال کی تراوٹ کا بڑا عمل دخل تھاجناب ریسونی جس کا مسخرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
دوسری مرتبہ ایرانیوں کے ایجنٹ حوثیوں سے جنگ کی شکل میں، چنانچہ مملکہ ان حوثی خبیث رافضیوں سے لڑائی کرتا رہے گا جب تک کہ وہ اپنی سرکشی اور تمرد سے باز نہیں آجاتے کیونکہ رب العزت کا فرمان ہے: (وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ)()ترجمہ: اور اگر مسلمانوں كى دو جماعتيں آپس ميں لڑ پڑيں تو ان ميں ميل ملاپ كرا ديا كرو۔ پھر اگر ان دونوں ميں سے ايك جماعت دوسرى جماعت پر زيادتى كرے تو تم سب اس گروه سے جو زيادتى كرتا ہے لڑو يہاں تك كہ وه الله كے حكم كى طرف لوٹ آئے تو پھر انصاف كے ساتھ صلح كرادو اور عدل كرو بيشك الله تعالى انصاف كرنے والوں سے محبت كرتا ہے۔
اس لڑائی میں بھی مملکہ تنہا نہیں ہے بلکہ کئی ایک عرب اور مسلم دیش اسکا ساتھ دے رہے ہیں جن میں ریسونی کا وطن عزیز مراکش بھی پیش پیش ہے۔ آنجناب اپنے ملك كے اس فيصلے كے بارے ميں كيا فتوى صادر كرتے ہيں؟
تاریخ کے صفحات میں یہ بھی موجود ہے کہ فلسطین میں ۱۹۴۸ء کے اندر عربوں (جس میں سعودی عرب سب سے آگے تھا) کی پسپائی کے بعد صہیونیوں سے لڑائی کیلئے مملکہ نے دس ہزار رضا کار پیادہ فوج (Volunteer InfantryTroop) بھیجی تھی ، لیکن افسوس کہ جہاد ان کے حق میں مقدر نہ تھی، پورے ایک مہینے تک منطقۂ جوف میں انتظار کرتے رہے لیکن ان عالمی سپر پاور طاقتوں نے بارڈر کراس کرنے نہیں دیا جو اس وقت صہیونی ناجائز ریاست کی محافظ بنی ہوئی تھیں۔
مملکہ نے افغانستان کے اندر بھی سوویت یونین جنگ کے خلاف افغان مسلم بھائیوں کا مالی اور فوجی ہر اعتبار سے ساتھ دیا تحریکیوں کو جسکا اچھی طرح اندازہ ہوگا۔ بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں اگر مسلمان بھائی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں تو مملکہ عالمی قوانین (International Laws) کی رعایت کرتے ہوئے اپنی بساط بھر ضرور ان کی مدد کیلئے پہونچتا ہے۔ ان ساری قربانیوں کے بعد بھی اگر کوئی مملکہ پر انگلی اٹھائے تو اسے سورج کو چراغ دکھانا ہی کہیں گے۔
(۱۲)۔ :جہاں تک ریسونی صاحب کاعلماء سعودیہ پر یہ الزام لگانا کہ مسلمانوں کے مابین تمام اختلافات اور جھگڑوں کا سبب اور جڑ یہی ہیں تو یہ بڑا ہی بچکانہ حرکت (Childish Mischief) نیز عقل وشعور سے عاری کسی دیوانے کی بڑ(Insanity Dialogue) اور بکواس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ ایک معمولی سوال ریسونی صاحب سے یہ ہے کہ علماء سعودیہ سے پہلے مسلمانوں کی حالت کیسی تھی؟ کیا پہلے سارے مسلمان متحد (Unite) تھے اور پھر علماء سعودیہ کے آنے کے بعد سب کے اندر اختلاف ہوا اور سب فرقوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے سے لڑنے لگے؟ کیا آج سے بہت پہلے جب اصفہان وخراسان اور بلخ وبغداد کے علاقوں میں تقلید کی فتنہ سامانیوں (Mischievous Tendencies) کی وجہ سے آبادی کی آبادی اجڑ جاتی تھی اسکا سبب علماء سعودیہ تھے؟ یہاں تک کہ رمضان کے مہینے میں مناظرہ بازی کیلئے احناف وشوافع اپنے اپنے پیروکاروں کو روزہ توڑنے کی رخصت دیدتے تھے تاکہ جوش وخروش سے مناظرہ ہوسکے پھر فتح یاب جماعت مغلوب گروہ کے ساتھ جو کرتی تھی وہ صرف میدان جنگ کا نقشہ ہوا کرتا تھا جس پر الامان والحفیظ ! تو ریسونی صاحب کیا اسکا بھی سبب علماء سعودیہ تھے؟
اندلس (موجودہ اسپین و پرتگال)میں آٹھ سو برسوں تک مسلمانوں نے حکومت کی جہاں صدیوں تک طوائف الملوکی (Anarchy) کی کیفیت جاری رہی اور ہر ریاست دشمنوں سے مل کر اپنے مسلمان بھائی پر حملہ کرتا رہا یہاں تک کہ سقوطِ غرناطہ (Fall of Granada) کا دردناک سانحہ تاریخ کو دیکھنا پڑا ۔ کیا اس میں بھی علماء سعودیہ کا ہاتھ تھا؟ خود ریسونی کے وطن مراکش جو سیاسی اور دینی اختلاف وانتشار سے بھرا پڑا ہے کیا اسکاسبب علماء سعودیہ ہیں؟ اور پھر سعودیہ کے اندر آخر کتنے تقلیدی مذاہب ہیں؟ کتنی سیاسی پارٹیاں ہیں؟ اختلاف وانتشار کی شرح (Ratio) دوسرے ملکوں کے لحاظ سے سعودیہ میں کتنا بڑھا ہوا ہے کیا ریسونی اپنے تحریکی پیمانے (Scale) سے بتا سکتے ہیں؟
اس کے بعد بھی آج تک اسلام کے نام پر جتنے فرقے اور گروہ پائے جاتے ہیں اور جو مسلمانوں کے مابین آپسی اختلاف ہے کیا اسکے ذمیدار علماء سعودیہ ہیں؟ علماء سعودیہ کا کتاب وسنت اور منہج سلف سے ہٹ کر آخر وہ کونسا منہج اور تقلیدی فکر ہے جسے ریسونی جیسے باشعور اور دانشور حضرات (Intelligentsias) مسلمانوں کے مابین اختلاف وانتشار کا سبب بتا رہے ہیں؟ آخر اختلاف وانتشار کے اس ماحول میں اتفاق واتحاد کی بنیاد اور اسکا حل کیا جناب ریسونی صاحب جیسے فقیہ دین وملت پیش کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر علماء سعودیہ کو مشق ستم کیوں بنایا جارہا ہے ؟ تمام قسم کے عیب وکمی انہیں کے اندر کیوں تلاشا جارہا ہے؟ تمام الزامات اور تہمتوں (Allegations & Blames) کی بارش انہیں پر کیوں کی جارہی ہے؟
آخر علماء سعودیہ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کے نام پر بدنام کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا کتاب وسنت اور منہج سلف کا اپنانا اور اسے پھیلانا ہی تحریکیوں اور تقلیدیوں کیلئے مصیبت کا سبب بنا ہوا ہے؟ ایسی مصیبت میں تعصب وتصلب، تعنت وہٹ دھرمی اپنانا اور اندھ بھکتی میں سلفی منہج پر پاگل ہاتھی کی طرح حملہ کرنا بہتر ہے یا کتاب وسنت اور منہج سلف کی روشنی میں اسکا حل نکالنا جیسا کہ پروردگار عالم کا فرمان ہے:
*۔ (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا)() ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول پاک کی اطاعت کرو اور تم میں جو صاحب معاملہ ہوں، پس اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تمہارا ایمان اللہ اور یوم آخرت پر ہو، یہی بہتر ہے اور یہی انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔
*۔ (فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ)() ترجمہ: پس اگر انکا ایمان تمہاری طرح ہوگا تو یقیناًیہ ہدایت پر ہوں گے ، اور اگر انہوں نے روگردانی کی تو یقیناًیہ اختلاف میں ہیں، عنقریب ان کی طرف سے تمہارے لئے اللہ کافی ہوگا اور وہ تو سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہی ہے۔
*۔ (وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا)() ترجمہ: ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد جو رسول سے اختلاف کرے گا اور مومنوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر جائے گا تو ہم اسکا معاملہ اس پر چھوڑ دیں گے (اس کی پروا نہیں کریں گے) اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے، اور یہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہوگا۔
*۔ نیز فرقۂ ناجیہ کے بارے میں صحابۂ کرام کے سوال کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ما أنا علیہ وأصحابی) فرما کر اپنی امت کو اپنے اور صحابہ کے منہج پر چلنے کی تلقین کر دی تھی()۔
ان نصوص مطہرہ کی روشنی میں روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی طرح کے اختلاف کی صورت میں ایک مسلمان کو کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا ہے۔ نیز ایک مسلمان کا معاشرے میں یہ ذمیداری ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اپنی زندگی کو کتاب وسنت اور منہج سلف کے مطابق ڈھالے اور اسی کی دوسروں کو تلقین کرے۔
(۱۳)۔ :ریسونی کا علماء سعودیہ پر یہ تہمت اور الزام ہے کہ وہ مسلم عوام کیلئے شدت پسند، ہٹ دھرم (Stubborn) اور سخت ہیں جبکہ حکمرانوں کیلئے بالکل نرم رویہ (Fictile Policy) رکھتے ہیں، ان کے لئے ساری تاویلیں اور عذر تلاش کرلیتے ہیں۔ بزعم ریسونی گویا وہ حاکم پرستی کا نمونہ ہیں۔
اس طرح کی اوچھی اور زہریلی سیاست (Poisonous Politics) پر مبنی حرکت اگر کوئی ریسونی کے علاوہ کرتا تو میں اسے معذور سمجھتا ۔ یہ بات اگر کسی ایسے مراکشی مخلص داعی نے کہی ہوتی جو مراکش میں امر بالمعروف والنہی عن المنکر کے فریضہ میں بے باک رہا ہو، کسی کی ملامت کا اسے خوف نہ ہوتا ہو بلکہ مراکشی بادشاہ کے سامنے حق گوئی کی مثال رہا ہو تو میں اسے بھی معذور سمجھتا۔ لیکن یہ بات تو ایسے شخص نے کہی ہے جو سیاسی پارٹی کا رکن ہے، اپنے ملک میں وہی بولتا ہے جو اسکی پارٹی کی مصلحت میں ہو، قطر وغیرہ تحریکی پسند ممالک میں وہی بولتا ہے جو تحریکیوں کی مصلحت میں ہو۔ مکان وزمان جس کی مصلحتوں کا فیصلہ کرتے ہوں۔ مقاصد شریعت میں تفقہ کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود جو شرعی مصلحتوں کو بھول بیٹھا ہو اسے کیسے معذور سمجھا جائے ؟ جو دنیوی مصلحتوں کی بنیاد پر بنا کسی معیار کے جہاں رہے اسکی گائے : مراکش میں مراکشی مملکت کی، سعودی میں سعودی مملکت کی اور قطر میں قطری مملکت کی اسے کیسے معاف کر دیا جائے؟ مصلحت کوشی، مطلب پسندی، بو الہوسی اور بو العجبی کا جو معجون مرکب بن جائے اسے کیسے چھوڑ دیا جائے؟
حضرت کو جزیرہ ٹی وی پر مراکشی بادشاہ کے اصلاحی کاموں پر تعریف کرتے اور ان کاموں پر نقد کرنے والوں کی ملامت کرتے دیکھا گیا ہے۔ اب یہی کام حضرت کریں تودرست لیکن اگر کوئی دوسرا یہی کام اپنے ملک میں کرے تو وہ غلط کیسے ہوجائے گا؟ اسے حاکم پرستی کیوں کہیں گے؟ سچ کہا شاعر نے:
فوا عجباً کم یدعي الفضل ناقصٌ ووا أسفاً کم یظهر النقص فاضلٌ
ترجمہ: تعجب ہے ایسے کمتر لوگوں پر جو فضیلت کا دعوی کرتے پھرتے ہیں! اور افسوس ہے ایسے صاحب فضل پر جو اپنی کمی کا اظہار کرتے ہیں!
مراکشی حکومت اور عوام دونوں کی پورے احترام کے ساتھ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ سعودی حکومت نے عوا م کیلئے اصلاحات کے نام پر جتنے کام کئے ہیں اسکا عشر عشیر بھی اس مراکشی حکومت نے نہیں کیا ہوگا جناب ریسونی جہاں کے بادشاہ محمد خامس کی تعریف کے پل باندھ رہے تھے۔
شاید کہ دنیا میں حکومتی اہل کاروں کے ساتھ خیر خواہی، نصیحت اور سچائی میں سعودی علماء سے زیادہ اور کہیں کے علماء ہوں گے۔ لیکن ہر ایک کے ساتھ نصیحت اور خیر خواہی کے آداب اور اسلوب بھی الگ ہوتے ہیں جیسا کہ ریسونی صاحب کو مقاصد شریعت میں تخصص کرتے وقت پتہ چلا ہوگا۔ اب ریسونی صاحب یہ آداب اور اسلوب نصیحت اپنے ملک کے بادشاہ کے ساتھ روا رکھیں تو بہت اچھا لیکن اگر وہی اسلوب سعودی علماء اپنائیں تو ان کی نظر میں برا ہوجائیں ، یہ دو پیمانے آخر کیوں؟
(۱۴)۔ :ریسونی کا یہ گمان کہ آج کا سعودی نوجوان وہابی نمونے(Wahhabi Model) سے باہر اپنے لئے متوازن اور درست دین وفکر کی تلاش میں مصروف ہے تو یہ دعوی بلا دلیل نیز لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے ورنہ سعودی کے اندر منحرف فکر (Divergent Ideology) کے حاملین کے علاوہ کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف جب سعودی عرب میں رافضیوں اور تحریکیوں کے باعث لوگ اختلاف وانتشار کا شکار ہوتے ہیں تو ریسونی جیسے عمیل (Agent) اسکی پوری ذمیداری سلفی علماء اور انکی فکر پر ڈال کر شاداں اور فرحاں نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف جب حکومت فکری اصلاحات (Ideological Reforms) کے نام پر ان رافضی اور تحریکی فکر کے حاملین پر شکنجہ کستی ہے تو یہی لوگ بلبلانے لگتے ہیں اور دنیا میں پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیتے ہیں کہ بھائیو بہنو! دیکھو ۔۔۔۔ ۔۔ سچ کہا شاعر نے:
لا تنه عن خلق وتأتي مثله عار علیك إذا فعلت عظیم
ترجمہ: جن عادات واطوار میں آپ خود مبتلا ہوں ان سے دوسروں کو منع مت کرو، اگر ایسا کرتے ہو تویہ تمہارے لئے بڑی عار وشرم کی بات ہوگی۔
میڈیا، مختلف ذرائع ابلاغ اور گلوبلائزیشن سے مختلف تہذیبوں کے تصادم (Clash of Civilizations) کی وجہ سے تمام ملکوں کی طرح سعودی میں بھی فکری تبدیلی آئی ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عوام کو شریعت کا پابند بنانے اور کافی حد تک انہیں کنٹرول رکھنے میں اللہ تعالی کے فضل واحسان سے سلفی منہج کا بڑا دخل رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریسونی کے وطن مراکش میں وہاں کے نوجوان جن فکری انحرافات کا شکار ہیں اس کیلئے حضرت کیا کر رہے ہیں؟ آنجناب کی سعودی نوجوانوں سے آخر یہ کیسی محبت ہے؟ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایک طرف سعودی کی جڑ کھودنے کی کوشش میں ہیں تو دوسری طرف سعودی نوجوانوں سے محبت کیا معنی رکھتا ہے؟ نیز ڈاکٹر سعیدی کا یہ سوال کس قدر برمحل ہے ملاحظہ کریں: (أي حب للمسلمین ورجاء خیر یحمله هذا العالم المقاصدي في قلبه؟ !) سعودی مسلمانوں کیلئے اس مقاصدی عالم کے دل میں آخريہ کیسی محبت ہے ؟ نیز ان سے کیسے خیر کی امید کی جاسکتی ہے؟ ! اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے : (کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں) ۔ اور سچ کہاہے فراق گورکھپوری نے:
پردۂ لطف میں یہ ظلم وستم کیا کہئیے ہائے ظالم ترا اندازِ کرم کیا کہئیے!
بلکہ حضرت کا حال تو بالکل وہی ہے جیسا کہ موہن رہبر نے کہا تھا:
چھپے ہیں سات پردوں میں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں انہیں میری نگاہوں نے جہاں ڈھونڈا وہاں نکلے
(۱۵)۔ : جناب ریسونی نے جس طرح خواتین کیلئے گاڑی چلانے(Driving Car) کی اجازت کو حلال اور حرام کا مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے اس سے جناب کا مقصد سوائے سعودی حکومت اور علماء سعودیہ کو بدنام کرنے کے اور کچھ نہیں دکھ رہا ہے۔ اس مسئلے کی حقیقت حال چھپا کر نیز اسے غلط رخ دیکر پیش کیا گیا ہے ورنہ یہ مسئلہ علماء سعودیہ کیلئے باعث فخر ہے۔ کیونکہ سعودی حکومت کئی دہائیوں سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا چاہتی تھی لیکن سد ذریعہ کی وجہ سے علماء نے اسے روکے رکھا تھا اور اسکی اجازت پر مہر نہیں لگائی تھی اس لئے حکومت اس پر خاموش تھی ۔ کیا یہ سعودی علماء کیلئے لائقِ فخر بات نہیں ہے؟
دنیا میں سعودی کے علاوہ کونسی ایسی حکومت ہوگی جو تمام دینی معاملات (Religious Matters) میں علماء کی طرف رجوع کرکے ان کے فیصلوں پر چلتی ہو؟ کئی دہائیوں کے بعد جب پھر اسی حکومت نے کئی مجبوریوں کو بتا کر دوبارہ اجازت پر مہر چاہی تو سعودی علماء نے یہ فتوی دیا کہ سد ذریعہ کی وجہ سے اجازت درست نہیں ہے ، ہاں اگر حکومت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ تمام فساد کے ذرائع سے خواتین کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی تو کچھ محدود صورتوں میں کچھ شرائط کے ساتھ اجازت دی جاسکتی ہے۔ چنانچہ جب حکومت نے خواتین کی حفاظتی ضمانت (Protection Guarantee) لے لی تو علماء نے اجازت کی مہر لگادی۔
آخر اس میں کونسی دینی قباحت ہے؟ کیونکہ یہاں نہ تو کسی حرام چیز کو حلال کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی حلال کام کو حرام۔ پھر آخر اسے حلال اور حرام بنا کر کیوں دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے؟ حکومت کی طرف سے میڈیا میں ان تمام شرائط اور پابندیوں (Conditional Rules & Regulations) کے ساتھ ہی اجازت کو نشر کیا گیا تھا۔ پھر آخر یہ کیسی ضمیر فروشی ہے کہ اسے غلط رخ دیکر ایک قابل فخر چیز کو قابل مذمت بنا یا جارہا ہے؟ علماء سعودی کو چھوڑ کر اگر مقاصد شریعت کے ماہر فقیہ دین وملت جناب ریسونی سے پوچھا جاتا تو آخر آنجناب کا اس مسئلے میں کیا جواب ہوتا؟ اللہ رحم فرمائے ایسے ضمیر فروشوں اور بزدل دنیا پرستوں پر۔
(۱۶)*۔ :جہاں تک امریکا کے اندر اسلامی کانفرنس کے اندر حرم مکی کے امام شیخ سدیس کے بیان کا مسئلہ ہے جسے آپ نے یورپ اور امریکہ کے اندر بسنے والے مسلمانوں کے پس منظر (Background) میں دیا تھا تاکہ ان کے تئیں امریکا اور یورپی ممالک کا رویہ ( $ BehaviorPolicy) بہتر رہے۔ خاص کر اس صورت حال میں کہ اس کانفرنس کے اندر امریکہ اور یورپ میں بسنے والے مغاربہ (مراکش اور پڑوسی ممالک کے اصلی باشندے ) کی اکثر تعداد موجود تھی۔
اس بیان کو اگر مذکورہ حقیقت حال کی وضاحت کئے بغیر اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے اور اس کی وجہ سے شیخ سدیس کے مقام ومرتبہ کو گھٹانے کی کوشش کی جائے اور اسے انہیں بدنام کرنے کا ذریعہ بنا لیا جائے تو اسے سازش (Conspiracy) اور ہوا پرستی کے علاوہ کیا کہا جائے؟ او راگر اس بات کو کسی اعتبار سے غلط ہی مان لیا جائے تو کیا شیخ سدیس کے تمام حسنات اور خوبیوں کو اس ایک غلطی کی وجہ سے بھلا دیا جائے گا جس میں تاویل کی کافی گنجائش بھی موجود ہے؟ اور خاص طور سے ریسونی جیسے لوگوں کیلئے تو بالکل زیب نہیں دیتا کہ اس بیان کو غلط رخ (Wrong Turn) دیکر اسکا پرچار کرتے جو ہمیشہ بدبو دار اور مطلب برآری والی ہی بات کرتے ہیں۔
آخر کیا انصاف کی بات یہی تھی کہ اس کانفرنس کے تمام پہلوؤں کو چھوڑ کر صرف شیخ سدیس کی ایک بات کو اچھالا جائے جو انہوں نے اسے ایک سوال کے جواب میں کہی تھی؟ وہ کانفرنس یورپ وامریکا کے اندر دعوت وتبلیغ کیلئے کتنا سود مند تھی؟ وہاں کے مسلمانوں کے امن وسلامتی کیلئے وہ کانفرنس کس حد تک معاون ثابت ہوئی؟ یا اس طرح کے دیگر پہلوؤں (Aspects)کے بارے میں آخر بات کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا ان سارے پہلوؤں سے لوگ آگاہ ہیں؟ بلکہ کیا لوگوں کو یہ بھی پتہ ہے کہ امریکا میں سعودی خالص دینی تنظیم (رابطۂ عالم اسلامی) کے تعاون سے (التواصل الحضاري بین الولایات المتحدة الأمریکية والعالم الإسلامي) کے عنوان پربتاریخ ۱۶/ستمبر ۲۰۱۷ء، نیو یارک شہر میں کوئی اسلامی کانفرنس ہوئی تھی جس میں بہت سارے کانفرنسوں کی طرح وہاں بھی شیخ سدیس کو مدعو کیا گیا تھا؟
اورکیا لوگوں کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس عظیم کانفرنس کے اندر تمام ۵7 /مسلم ممالک کی طرف سے ۴۵۰/ علماء ومفکرین موعو تھے۔ بلکہ جس طرح سے ان کے اس بیان کو لیکر انہیں بدنام کیا جارہا ہے اس سے تو بہت سارے لوگوں کو یہی محسوس ہوتا ہوگا کہ شاید امام حرم کسی سرکای دورہ پر امریکا گئے ہوں گے جس میں انہوں نے ایسا بیان دیا ہوگا۔ آخر دوسرے مشارکین علماء ومفکرین کے بھی تو بیانات رہے ہوں گے ان سب کو چھوڑ کے انہیں کے بیان کو غلط معنی پہنا کر کیوں اچھالا گیا؟ مثال کے طور پر رابطہ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم عیسی نے کہا: عالم اسلامی اور امریکہ کے درمیان انسانی ، علمی ، اقتصادی اور سیاسی تعاون کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔
اماراتی اوقاف کے صدر ڈاکٹر محمد بن مطر کعبی نے اپنے بیان کے اندر کہا: امریکی دستور جمہوریت، آزادی اور قانون کا محافظ ہے نیز حقوق انسانی کا احترام کرتا ہے۔ محض اسی بنیاد پر خلیجی ممالک نے امریکہ کے ساتھ ہر طرح کا تعلق بنا کے رکھا ہے۔ عالم اسلامی ، عربی اور امریکہ اس بات پر متفق ہیں کہ تشدد اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے نیز عالمی امن وسلامتی اور ترقی کو بحال رکھیں گے۔
مجلس برائے فروغ امن(Promoting Peace Forum) کے صدر شیخ عبد اللہ بن بیہ نے مملکہ کی تعریف کی اور مزید اپنے بیان میں کہا: امریکا کا اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات چار مشترک انسانی بنیادوں پر قائم ہے: وہ رحمت، حکمت، مصلحت اور عدل ہے۔ اور یہ چاروں بنیادیں امریکی دستور کے موافق ہیں[peacems.com]()۔
اللہ محفوظ رکھے ایسے سازشی اور عیار ذہن کے بندوں سے جنہیں ہر طرح کی برائی صرف مملکہ ہی میں دکھتی ہیں۔
(۱۷)۔ :آنجناب ریسونی صاحب کا ایک طرفہ تماشہ (Comical Plot) یہ بھی ہے کہ جن کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے اور جن کے ساتھ رہ کر ایک زمانہ گزارا ہے اور ان کے فیوض واحسانات سے محظوظ بھی ہوتے رہے ہیں ان پر تنقید کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ ان کے حق میں شکریہ کے دو کلمات کہنے کے بجائے صرف تہمتوں اور الزامات کے بارش ہی برساتے ہیں۔آخر یہ کیسی احسان فراموشی (Ingratitude) ہے؟ اور جن کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ان کا تزکیہ (Character Certify) کرتے ہیں۔
جناب ایک ایسے ہندوستانی عالم کا تزکیہ کر رہے ہیں اور اسے دلیر (Bold) بتارہے ہیں جو بغض وحسد اور تعصب میں مشہور ہے۔ نظریات کے بدلنے اور پلٹی کھانے میں جو بے مثال ہے۔ ایک ایسا شخص جس نے بغدادی کی تعریف کی اور اس سے بیعت بھی کی ہے لیکن پھر کسی مصلحت پر بیعت توڑ ڈالی۔ ایسے شخص کی تعریف کرنے اور تزکیہ کرنے میں آخر ریسونی صاحب کے پاس کیا جواز تھا سوائے اس کے کہ اس شخص نے سعودیہ اور امام حرم کو گالی دی تھی اور ان کی تکفیر وتفسیق کی تھی جس پر خوش ہوکر اسکی جرأت کو داد دی ہے۔ اسی وقت بولا جاتا ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔
(۱۸)۔ :جہاں تک اخوانیوں کے تعلق سے مملکہ کے سخت موقف پر ریسونی صاحب نے رونا رویا ہے تو یہ مسئلہ مناقشے کے قابل ہے کہ آخر ریسونی صاحب سعودی کے خلاف اخوانیوں کے مخالف اور دشمنی پر مبنی موقف پر کیوں نہیں روتے؟ آخر ریسونی صاحب اس وقت کیا کر رہے تھے جب تمام اخوانی سعودی کے خلاف خمینی کی ہر طرح سے مدد کر رہے تھے؟
آخر اس وقت ریسونی کیوں نہیں بول رہے تھے جب صدام اور بعث پارٹی کے ساتھ ملکر تمام اخوانی سعودی کو ختم کرنے کا پلان بنا رہے تھے؟ حالانکہ اسی صدام نے عراق میں اخوانیوں کی چن چن کر مارا لیکن سعودی دشمنی میں یہ اخوانی اپنا خون اور عزت وآبرو سب بھول گئے صرف اس وجہ سے کہ صدام کے ساتھ سعودی دشمنی میں دونوں ہم پیالے اور ہم مشرب (Isometric View) تھے۔
القاعدہ اور اسکے گرگے (Henchmen) اسامہ بن لادن اور ایمن ظواہری وغیرہ جس وقت سعودی کے خلاف لوگوں کو اکسا رہے تھے، اور وہی جزیرہ چینل جہاں سے ریسونی صاحب بیان بازی کرتے نظر آتے ہیں اور سعودی کو برا بھلا کہتے ہیں اسی چینل سے القاعدہ کے یہ سارے گرگے سعودی کو دھمکی دیتے تھے اور اپنے چیلوں کو سعودی میں بم دھماکے کرنے کا اشارہ دیتے تھے۔ اسوقت یہ اخوانی اور تحریکی خوش ہورہے تھے اور ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ آخر اس وقت ریسونی صاحب اپنی زبان پر تالا کیوں لگا کے بیٹھے تھے؟
یہی اخوانی سعودی کے خلاف رافضی سرکش حوثیوں کا پورا پورا ساتھ دے رہے ہیں بلکہ اسی جزیرہ ٹی وی سے حوثیوں کا بیان بھی دکھایا جاتا ہے لیکن اس پر جناب ریسونی کچھ اظہار خیال نہیں کرتے، آخر اس دوغلاپن (Duplicity) کی کیا وجہ ہے؟ آخر ان اخوانیوں کو سعودی کب تک برداشت کرتا؟ کیا کوئی ملک یہ چھوٹ دے گا کہ کوئی اس کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ (National Security Threat) بنے؟
ریسونی صاحب جن اخوانیوں کا رونا رو رہے ہیں انہیں پتہ ہوگا کہ سعودی نے انہیں بہت برداشت کیا۔ انہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ جب جمال عبد الناصر انہیں مصر میں چن چن کر مار رہا تھا اور قید میں ٹھونس رہا تھا اس وقت انہیں سعودی ہی نے پناہ(Shelter) دی تھی۔ جناب کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ایسے ہی عبد الکریم قاسم جب عراق کے اندر ان اخوانیوں پر ظلم کر رہا تھا تو اسوقت بھی اسی سعودی نے انہیں پناہ دی تھی ۔ اسی طرح حضرت اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ جس وقت حافظ اسد شام کے اندر ان اخوانیوں کا جینا حرام کر دیا تھا اس وقت بھی یہی سعودی ہے کہ ان اخوانیوں کا ساتھ دیا تھا اور ان کی پوری مدد کی تھی اور بہتوں کو اپنے یہاں پناہ بھی دی تھی۔
ان سب احسانات وعنایات کے بدلے میں آخر اخوانیوں نے سعودی کو کیا دیا سوائے درد اور تکلیف کے؟ ان احسان فراموشوں کے ساتھ کوئی بھی ملک آخر کیا سلوک کرے گا؟ اور خاص طور سے ایسے سنگین حالت میں کہ جب سعودی کو ان کے سپورٹ کی ضرورت تھی انہوں نے اس وقت بھی سعودی کے خلاف رافضی حوثیوں کا ساتھ دیا۔ لیکن اللہ رب العزت نے ان فراموشوں سے بے نیاز کر کے سعودی کو یہاں بھی سرخرو کیا اور یہ روافض پرست تحریکی اپنا منہ لے کر رہ گئے۔ (جاری)
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10776&date=2017-11-14
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1472451016201514&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق