*بقلم ڈاکٹر اجمل منظور
(قسط نمبر2)
(۴)۔ :جناب ریسونی کے بقول عالم انسانیت کے مسلمان عمومی طور پر اور عالم اسلام کے مسلمان اور اسلامی تحریکوں سے جڑے افراد خصوصی طورپر سعودی سے نکلی سلفی تحریک سے بہت حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس سلفی تحریک سے متاثر ہوئے تو یہ سارے کے سارے لوگ بیوقوف، دھوکہ کھائے ہوئے (Deceived) اورسعودیہ کے پیسوں پر پلنے والے لوگ ہیں؟ اتنی بڑی تعداد میں ان مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں(Islamic Movements) کے تعلق سے ریسونی کا اگر یہ نقطۂ نظر ہے تو پھر انہیں اُن حکومتوں اور فوجی طاقتوں (Military Forces) پر کیوں اعتراض ہے جو اسلامی تحریکوں کو حکومت اور سلطنت تک پہونچنے میں رکاوٹ ڈال دیتی ہیں؟
دوسرا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس تحقیقی اور علمی دور میں کیا کوئی کسی کو زیادہ دنوں تک بے وقوف بنا کر اتنے بڑے پیمانے پر متاثر کر سکتا ہے؟ آخر ریسونی صاحب ان حقیقی اسباب وعوامل پر غور کیوں نہیں کرتے جن کی بنیاد پر ان کے بقول دنیا کے سارے مسلمان سلفی تحریک سے متاثر ہورہے ہیں؟ کیا یہاں ریال کی تراوٹ کام کر رہی ہے یا یہ کہ یہ دھوکہ اور ملاوٹ سے دور ہوکر لوگوں کے پاس دین اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرتے ہیں جو کہ خالص کتاب وسنت اور منہج سلف پر مشتمل ہوتا ہے؟
ریسونی صاحب کچھ بھی کہیں حقیقت یہی ہے کہ چونکہ سلفی علماء وہی سادہ ، آسان اور واضح دینِ اسلام کا چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں جسکی ترجمانی کتاب وسنت کے اندرکی گئی ہے۔ یہ لوگوں کے سامنے قرآن پاک کو مشکل بنا کر نہیں بلکہ بہت ہی آسان بنا کر پیش کرتے ہیں ؛ ارشاد باری ہے: (وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ)() ترجمہ: اور یقیناًہم نے قرآن کو نصیحت کیلئے آسان بنا دیا پس کوئی ہے نصیحت لینے والا؟
سلفی علماء لوگوں کے سامنے حدیث پاک بھی کو سہل اور آسان بنا کر پیش کرتے ہیں؛ ارشاد نبوی ہے: «إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَةِ»() ترجمہ: بیشک دین آسان ہے ، اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا، پس اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو، اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو، اور خوش ہوجاؤ(کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے) اور صبح ، دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں (عبادت) سے مدد حاصل کرو۔
اسی طرح سلفی علماء کے پاس نہ تو فرضی مسائل ہوتے ہیں نہ ہی فقہی اور منطقی موشگافیاں، یہ لوگوں کے سامنے دین کو واضح اور بالکل صاف روشن بتا کر پیش کرتے ہیں، اور انہیں اجتماعیت کی طرف دعوت دیتے ہیں نہ کہ ان میں اختلاف وانتشار کی بیج بوتے ہیں؛ ارشاد نبوی ہے: (قَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ، لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا، لَا يَزِيغُ عَنْهَا بَعْدِي إِلَّا هَالِكٌ، فمَنْ يَعِش مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَعَلَيْكُمْ بِالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ كَالْجَمَلِ الْأَنِفِ، حَيْثُمَا قِيدَ انْقَادَ)() ترجمہ: میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستے پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستے سے میرے بعدصرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا ؛ لہذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت سے جو کچھ تمہیں معلوم ہے اس کی پابندی کرنا ، اسکو اپنے دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنا، اور امیر کی اطاعت کرنا ، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لئے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اس اونٹ کی طرح ہے کہ جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے۔
مدینہ منورہ کے اندر قرآن پرنٹنگ فہد کمپلیکس اسی مقصد سے قائم کیا گیا ہے، اور حدیث پرنٹنگ سلمان کمپلیکس کے قیام کا اعلان بھی اسی غرض سے کیا گیا ہے۔ قرآن اور حدیث پر الگ الگ ٹی وی چینل باقاعدہ برسوں سے مدینہ منورہ کے اندر چل رہا ہے۔ مدینہ ہی کے اندر سنت مطہرہ کی خدمت کیلئے (مرکز لخدمة السنة النبوية بالمدینة المنورة) بھی بہت سالوں سے قائم ہے۔ اسی مرکز کے تحت سالوں سال سے حدیث نبوی پر کام کرکے ( الجامع الکامل في الحدیث الصحیح الشامل) نامی حدیثی موسوعہ ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللہ نے تیار کیا ہے جو بڑے حجم میں بارہ جلدوں میں منظر عام پر آچکا ہے ، جس کے اندر تمام صحیح حدیثوں کو اکٹھا کردیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا حدیث کے باب میں ایک منفرد اور بے مثال کام ہے۔ طباعت کے ساتھ ساتھ یہ تمام صحیح حدیثوں کا انسائیکلوپیڈیا ڈیجیٹل لائبریریوں میں بھی موجود ہوگا کہ جس کی مدد سے ایک بٹن دبا کر حدیثوں کی صحت اور ضعف کا پتہ لگ جائے گا۔
(۵)۔ :ریسونی صاحب نے بڑے افسوس اور کربناکی کے ساتھ یہ کہنے کی جرأت کی ہے کہ مملکت سعودیہ سے اٹھنے والی دعوتی اور سلفی اثر دنیا کے تمام مسلمانوں پر خصوصاً عالم اسلامی پر بڑا گہرا ہوا ہے۔ یہ ریسونی جیسے مخالفین سعودی کی طرف سے منہج سلفی کے حق میں بہت بڑی گواہی ہے جو بلا شبہ لائق ستائش ہے۔ لیکن ہم دونوں کا اختلاف اس سلفی منہج کے اثرات کے نتائج میں ہے۔ اب آنجناب تحریکی ، رافضی، تقلیدی اور صوفی ماسک ومنظار (Mask) کی روشنی میں کچھ بھی سمجھتے ہوں لیکن بظاہر اور حقیقت میں اس کے نتائج بڑے ہی نتیجہ خیز اور حوصلہ افزا ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:
۱۔ مسلمانوں کے دلوں سے اوہام وخرافات کے بندھن کافی حد تک ٹوٹ چکے ہیں اور مسلسل ٹوٹ رہے ہیں۔
۲۔ بحث وتحقیق اور ادلۂ شرعیہ کے طلب کا دائرہ بڑھا اور مضبوط ہوا ہے؛ چنانچہ علماء، طلبہ اور عوام ہر ایک کے یہاں کتاب وسنت کے نصوص مطہرہ (Holy Texts) کی تعظیم بیٹھتی جارہی ہے۔
۳۔ مسلمانوں کے دلوں میں اسلامی شناخت (Islamic Identification) کا شعور جاگزیں ہوا ہے۔ عسکری اور فکری ہر محاذ پر سامراج (Imperialism) کا مقابلہ کرنے میں مسلمانوں کی ہمت مضبوط ہوئی ہے۔ چنانچہ عالم اسلامی میں سامراجیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جتنی بھی تحریکیں وجود پزیر ہوئی ہیں ان کے نمایاں رہنما سلفی فکر ہی کے رہے ہیں۔ خاص طور سے اگر مراکش میں دیکھا جائے تو وہاں کے نمایاں رہنما یا تو سلفی رہے ہیں یاسلفی منہج سے ضرور متاثر رہے ہیں۔ ان میں عبد الکریم خطابی اور آمگار موحا اوحموزیانی کافی مشہور ہوئے جو کہ شیخ نتیفی کے مفتی اور مشیر خاص رہ چکے تھے۔ یہ تو ایک صدی پہلے کی بات ہے لیکن آج بھی دورِ حاضر کا مکار استعمار (Deceiver Colonialism) انہی سلفیوں سے مرعوب ہے اور اسے اپنی اباحیت زدہ تہذیب وثقافت(Porn & Permissiveness Culture) کیلئے صرف انہیں کو خطرہ سمجھتا ہے جنہیں ریسونی صاحب مسلمانوں کے دلوں میں مبغوض بناکر پیش کر رہے ہیں۔
۴۔ سلفی منہج ہی امت اسلامیہ کے مجد وشرف کو بحال کر سکتی ہے۔ اسی منہج پر مملکت سعودی عرب کا قیام اور اسلامی شریعت کی پوری قوت سے تطبیق اس کیلئے ایک واضح نمونہ اور جیتی جاگتی مثال ہے۔
اخوانیوں کا مقصد کیا ہے نیز انکے نصب العین سے کیا مراد ہے؟ وہ اپنی انقلابی تحریک سے اسلامی شریعت کی کون سی شکل پیش کرنا چاہتے ہیں ؟اسے وہی بہتر جانتے ہوں گے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ وہ گرچہ اسلامی انقلاب، اسلامی تحریک اور اسلامی شریعت وخلافت کے نام پر عوام کی بھیڑ اکٹھا کر لیتے ہیں لیکن چونکہ ان کی فکر اور منہج سلفی نہیں ہے اسی لئے وہ ہر جگہ ٹھوکر کھا کر گرتے ہیں۔ اپنے تحریکی اور خارجی فکر کی وجہ سے پہلے ہی درجے میں وہ حکومتوں کو کافر وملحد گردان کر اسے فوراً گرانے کی کوشش کرتے ہیں اسی لئے قوم پرست ، سیکولر رہنما اور ملحدین سب ان کے خلاف ہوجاتے ہیں پھر نتیجے میں گرفتاری ، قید وبند اور دار ورسن کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، نیز امت مسلمہ کی رسوائی الگ سے۔ اسکی واضح مثال ۱۹۴۸ء میں یمن کے اندر انقلاب کے ذریعے امام یحی کا قتل، ۱۹۵۲ء میں مصر کے اندر شاہ فاروق کا تختہ پلٹ، نیز دورِ حاضر میں عرب بہاریہ کی شکل میں انقلاب لانے کی کوشش کہ جس سے امت مسلمہ کی رہی سہی کسر بھی رخصت ہوتی جا رہی ہے۔ بھلا ہو سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا کہ جنہوں نے اپنی دور اندیشى اور سلفی اسلامی فکر وقیادت کے ذریعے جزیرۃ العرب کو ان تحریکیوں اور انقلابیوں سے پاک رکھا۔ سچ ہے کہ عزت وشرف توحید خالص اور سنت نبویہ کی روشنی ہی میں حاصل کی جاسکتی ہے نہ کہ انقلاب وتمرد کے ذریعے، ارشاد باری ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ)()۔ ترجمہ: اور اگر بستى والے ايمان لے آتے اور تقوى اختيار كرتے تو ہم ان كے اوپر زمين وآسمان سے بركتوں كے دروازے كھول ديتے ليكن انہوں نے جهٹلاديا پس ہم نے ان كے كرتوتوں كى وجہ سے انہيں (عذاب ميں) گرفتار كر ليا۔
(۶)۔ : ریسونی صاحب کا یہ کہنا کہ دنیا کے مسلمانوں پر سلفیت کا اثر ان کی غفلت اور ناسمجھی نیز سعودی دولت کی ریل پیل کی وجہ سے ہے تو اس میں بہت بڑا مغالطہ اور امت کے ساتھ دھوکہ ہے۔ یا پھر یرقان فکری، خردشتی اور تجاہل عارفہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس لئے کہ سلفیت ہی مذہب اسلام کا صحیح ترجمان ، کتاب وسنت اور فہم سلف کا نچوڑ، فطرت سلیمہ اور عقل رشید کے موافق ہے۔ کیونکہ یہاں بندہ قبور وقباب اور درگاہ وخانقاہ سے آزاد ہے، وہ اپنے سارے حاجات صرف ایک معبود اللہ عزوجل کے سامنے رکھتا ہے۔: (وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ)()۔ ترجمہ: اور جب ميرے بندے ميرے بارے ميں آپ سے سوال كريں تو آپ كہہ ديں كہ ميں بہت ہى قريب ہوں، ہر پكارنے والے كى پكار كو جب كبھى وه مجھے پكارے ، قبول كرتا ہوں۔ اس لئے لوگوں كو بهى چاہئيے كہ وه ميرى بات مان ليا كريں اور مجھ پر ايمان ركهيں يہى ان كى بهلائى كا باعث ہے۔
یہاں ہر طرح کے شیخ ومرشد اورپیر و قطب سے آزاد صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اپنا مقتدی ، اسوہ اور نمونہ سمجھتا ہے: (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا)()۔ترجمہ: يقينا تمہارے لئے رسول الله ميں عمده نمونہ (موجود)ہے ہر اس شخص كيلئےجو الله تعالى كى اور قيامت كے دن كى توقع ركھتا ہے اور بكثرت الله تعالى كى ياد كرتا ہے۔
دین کی یہی تصویر اور اسکا یہی منہج تھا جسے لیکر جزیرۃ العرب کے اسلامی لشکر لیبیا ، مراکش اور اندلس کے صحراء میں پہونچے تھے اور جسے وہاں کے قبائل نے قبول کر کے اسے حرزِجان بنا لیا تھا۔ سچ فرمایا پروردگار عالم نے: (فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ)()۔ ترجمہ: پس آپ يكسو ہو كر اپنا منہ دين كى طرف متوجہ كرديں۔ يہى الله تعالى كى وه فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں كو پيدا كيا ہے ، الله تعالى كى تخليق ميں كوئى تبديلى نہيں، يہى سيدها دين ہے ليكن اكثر لوگ نہيں سمجهتے۔
(۷)۔ :ریسونی صاحب مفروضہ سعودی اسلام کے بارے میں بڑبولےبن کر یہاں تک ہانک گئے کہ اس اسلام کا تعلق پورے طور سے نہ تو وہابیت سے ہے نہ تیمیت، نا ہی ظاہریت سے ہے اور نہ ہی حنبلیت بلکہ ان تمام کے مجموعے کی بگڑی ہوئی شکل اور ان کا معجون مرکب ہے اور ساتھ ہی اس میں ایک طرف صحرائی ریت کی قساوت اور سختی ہے تو دوسری طرف ریال کی تراوٹ اور اسکی نرمی ہے۔
ہر باشعور قاری یہ احساس کر رہا ہوگاکہ اس طرح کی گفتگو او راسلوب خطاب نہ تو اہل علم ودانش کو زیب دیتا ہے نہ ہی کسی صحافی کو چہ جائیکہ اس طرح کی گفتگو کوئی شریف زادہ مقاصد شریعت کا ماہر فقیہِ قوم وملت کرے۔ غالب گمان یہی ہے کہ ریسونی صاحب نے حکمت سے خالی خردشتی کی یہ حرکت سعودی وامارات سے مایوس ہوکر یاس وقنوطیت (PESSIMISM) کی انتہائی پست حالت میں پہونچ کر کی ہوگی یا تو تحریکیوں اور اخوانیوں کے قلعۃ الموت میں پہونچ کرنیز ان کے حسین جنت کی خر مستیوں میں آکر حشیشانہ یاوہ گوئی (ASSASSIN ABSURD TALKS) کی ہوگی۔ کیونکہ جناب نے اس طرح کی فقیہانہ ومقاصدانہ سب وشتم پر نہ تو کوئی ثبوت فراہم کی اور نہ ہی اس پر کوئی مثال پیش کی ہے۔
پھر اگر یہ سلفی دعوت عرب کے ریتیلی صحراء سے نکلی ہے تو اس میں عیب کی کونسی بات ہے؟ سید المرسلین اور خیر البشر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ دین آخر کس قسم کی سرزمین سے پنپی تھی ؟ پھر کیا جناب ان مرابطین اور ان کی سلفی دعوت کو بھول بیٹھے جنہوں نے مراکش ہی کی سرزمین پر منہج سلف کی روشنی میں حکومت کی تھی اور جنہوں نے سقوط غرناطہ کو دو سو سالوں تک روکے رکھا ؟ کیا ان کی دعوت ریتیلی صحراء سے نہیں نکلی تھی؟
جناب کیا جوشِ جنوں میں یہ بھی بھول گئے کہ مراکشی مملکت کے بانی اور مؤسس مولای علی الشریف (حکومت: ۱۶۳۱۔۱۶۳۵ء) مشرقی مراکش میں واقع صحرائی علاقے تافیلالت (تاریخی نام: سجلماسہ) سے نکل کر وہاں ایسی مضبوط حکومت قائم کی جن کی نسل آج بھی عنانِ سلطنت سنبھالے ہوئی ہے؟ کیا صحراؤں سے نکلنے والی اس طرح کی حکومتوں کو جناب معیوب سمجھنا پسند کریں گے؟
کیا ریال کی ریل پیل بھی مملکہ کیلئے کسی عیب کی بات ہے اگر حکومت اس دولت کو عوام کی خوشحالی اور مسلمانوں کے تعاون پر خرچ کرے؟ کیا مقاصد الشریعہ کے کسی بحث میں آنجناب کی نظر سے یہ حدیث نہیں گزری: (نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ مَعَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ)؟ ترجمہ:اچھا مال اچھے آدمى كيلئے كيا ہى بہتر ہے()۔
اگر مملکت سعودی عرب پٹروریال کی بدولت بلادِ کفر (Islamic Land- Non) میں دعوت وتبلیغ ، مسلم ملکوں بشمول مراکش میں اصلاحِ عقائد، مدارس ومساجد کے قیام، کنواں کھودنے، ہینڈ پمپ لگانے نیز اسپتالوں کے کھولنے اور ناگہانی مصیبت (The calamities) میں اپنا سرمایہ خرچ کرے تو آخر اس میں کیا خرابی ہے ؟ نیز اس سے کسی کو تکلیف کیوں ہے؟
کیا آنجناب ریال کی تراوٹ اور اسکی چاشنی سے محفوظ رہے؟ یا چاہت سے کم ملی اسی لئے ناراضگی پر اتر آئے؟ کیا یہ ریال کی تراوٹ نہیں ہے جس کی چاشنی جدہ میں رہ کر حضرت مدتوں لیتے رہے؟ کیا یہی ریال اور اماراتی درہم نہیں ہے جسکا سالوں سال آنجناب وظیفہ خوار رہے؟ کیا یہی ریال ودرہم کی چاشنی نہیں ہے جس کے نہ ملنے سے آنجناب باولے ہوکر جزیرہ ٹی وی میں امارات وسعودی کے خلاف یاوہ گوئی پر اتر آئے تاکہ قطری ریال کی تراوٹ اور اسکی چاشنی کا سہارا مل سکے؟
(۸)۔ :ریسونی صاحب نے سلفیت اور سلفی منہج پر چلنے والوں پر کچھ زیادہ ہی کرم فرمائی کر ڈالی ؛ بزعم خویش خوب خوب ان کے عیوب کا پردہ فاش کیا ، ان کے حق میں اپنے بیہودہ کلام (Blatant Gossips) کی ایسی آری چلائی کہ بازاری عوام بھی ایسی طرزِ گفتگوسے اپنی زبان کو پاک رکھتے ہوں گے۔
آنجناب نے سلفیت کے حق میں شدت ، درشتی اور تنگ دلی کا عیب لگایا جب کہ یہ بھول گئے کہ بذات خود رعونت کا پیکر (Arrogant) اور سخت پہاڑ کی مثال بنے بیٹھے ہیں۔ ایسے وصف نادر کو سمجھنے کیلئے محترم کا یہ مضمون کافی ہوگا جس کی سرخی کچھ یوں ہے: (الإسلام السعودي من الازدهار إلی الاندحار)، جو خودبغض وعناد اور سختی سے پُر ہے۔ اس کے اندر لفظ (اندحار) کا استعمال کیا ہے جو لفظ (دحر) سے ماخوذ ہے۔ اور یہ ہر عام وخاص عربی کو معلوم ہے کہ اس لفظ سے بنے صیغے کس سیاق ومفہوم میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایسا استعمال جس کے اندر شکست خوردگی ، دھتکارا ہوا، بھگایا ہوا نیز اسی قسم کا خست بھرا مفہوم (Contemptuous Concept) اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس لفظ کو عام طور سے دیہاتی بدو اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ شیاطین کا ذکر کرتے ہیں یا انسانوں میں سے ایسے ظالموں کا جو شیطانی حرکتیں کرتے ہوں ، اور کہتے ہیں: (دحره الله وأخزاه) ۔ یعنی اللہ اسے اپنی رحمت سے دور رکھے اوراسے ذلیل ورسوا کرے()۔ اس لفظ کا استعمال قرآن پاک کے اندر بعینہ اسی سیاق ومفہوم میں آیا ہے ؛ ارشاد باری ہے: (وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ * دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ)() ترجمہ: اور ان شیاطین کو ہر طرف سے دھتکار کر اور رسوا کر کے مارا جاتا ہے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔
آنجناب نے اپنے طرزِ گفتگو (yleking StalT) میں وہ کونسی مٹھاس اور رقت کو روا رکھا ہے جو دوسروں پر رعونت وسختی ، اکڑپن اور اکھڑپن کا طومار باندھتے ہیں؟ آنجناب مدتوں سعودی میں رہ چکے ہیں کوئی ایک مثال تو بیان کردیتے کہ سلفیوں نے ہمارے ساتھ اس طرح کے اکھڑپن کا سلوک کیا ہے تاکہ ان کے اس مغالطانہ دعوے (Hallucinational Claim) پر کوئی ادنی شاہد تو ہوجاتا، وأنی لہ ذلک!!
ہاں اس ابلہانہ دعوے پر جناب نے مصری سنیما (Egyptian film industry) میں نام زد وہ جملہ سعودیوں کی طرف غلط منسوب کر کے بطور شاہد ضرور پیش کیا ہے؛ چنانچہ کیا ہی گل کھلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سعودیوں کی روز مرہ کی زندگی میں جو شخص کسی معاملے میں بہت سختی اور درشتی کا مظاہرہ کرنے لگے تو اس سے کہا جاتا ہے: (لا تحنبلہا) یعنی اس معاملے میں حنبلی سلفیوں والا شدت پسندانہ طرزِ عمل (Radical Behavior) نہ اختیار کرو۔ جیسا کہ ہر خاص وعام اس سے واقف ہے کہ یہ محاورہ مصری سنیما سے ماخوذ ہے نہ کہ سعودی محاورہ ہے جب کہ جناب بڑی فنکاری اور مہارت سے جھوٹ بول کر اسے سعودیوں کے سر منڈھ رہے ہیں اور اپنے اندھ بھکتوں (Blind Adherents) میں اپنے سر کوبزعم خویش بلند کر کے خوب واہ واہی بٹور رہے ہیں۔
اس محاورے کی حقیقت: در اصل رافضی فاطمی دور میں مصر کے اندر علماءِ حنابلہ اپنی پابندئ شریعت اور دین پر سختی سے عمل کرنے نیز رافضیوں کے نکالے ہوئے بدعات وخرافات سے دور رہنے میں معروف تھے۔ وہ کسی بھی سیاسی، عقدی یا فقہی مسئلے میں جادۂ حق سے نہیں ہٹتے تھے نیز امراء وحکام کے حق میں کسی طرح کا نرم رویہ (Fictile Policy) بھی اختیار نہیں کرتے تھے۔ اسی لئے امراء وحکام اپنے قاضیوں اور فقیہوں کو حکم دیتے تھے: (لاتکن حنبلیاً) یعنی فیصلہ کرنے یا کوئی مسئلہ بتانے میں حنبلیوں کی طرح رویہ مت اپنانا۔ چنانچہ اس وقت کے قاضی ، مفتی اور فقیہ امراء وحکام کی بات مان کر ان کی خواہشات کے مطابق فتوی دیتے تھے۔
آنجناب کا معاملہ اس شخص جیسا ہے جس نے عبد اللہ بن الزبیر کو جب (یا ابن ذات النطاقین) کہہ کر عار دلایا تو آپ نے اسکے جواب میں مشہور شاعر ابو ذؤیب ہذلی کا یہ شعر پڑھا:
وعیرها الواشون أني أحبها وتلك شكاة ظاهر عنك عارها
ترجمہ: چغلخور اسے میری محبت کا عار دلاتے ہیں جبکہ یہ ایسی شکایت ہے جس کے عار سے تم بہت بلند ہو۔ یعنی ذات النطاقین کا لقب آپ کی والدہ کیلئے باعث شرف ہے نہ کہ باعث عار وشرم۔
یہاں پر ہم آنجناب کے حق میں یہ مشہور مثل بھی کہہ سکتے ہیں : (رمتني بدائها وانسلت) یعنی وہ اپنا عیب مجھ پر تھوپ کر چلتی بنی۔ یہ مثل اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی اپنا عیب دوسروں پر ڈالے اور خود کو اس سے بری قرار دے۔
انگلش میں اسی تعلق سے کیا ہی زبردست محاورہ بولا جاتا ہے: (The pot calling the kettle black) ، اسی کو ہندی میں کہتے ہیں: چھانجھ بولے سو بولے، چھلنی کیوں بولے جس میں نو سو چھیند ۔ ہماری زبان میں دوسرا محاورہ کچھ اسطرح ہے: الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
(۹)۔ :اس وقت مسلم قوم وملت کو گمراہ کرنے کیلئے متبعین کتاب وسنت اور منہج سلف کے پیروکار علماء کے بارے میں جس طرح آنجناب نے زہر افشانی کی ہے اور ان پر جس طرح بے جا تہمت، تلبیسانہ اور جھوٹا مغالطانہ طومار باندھا ہے اس طرح کی حرکت شنیعہ (Uncourteous Faults) تو شیخ محمد بن عبد الوہاب کے دور میں احمد زینی دحلان نے بھی نہیں کی تھی۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ حضرت کی ان حرکتوں پر ابلیس بھی شرماتا ہوگا۔ چنانچہ آنجناب سلفی علماء کے بارے میں اپنی تحریکی اور تقلیدی جیب سے فتوی جاری کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (ان کی جانب سے صادر ہونے والے بدعت اور گمراہی کے فتووں سے کوئی محفوظ نہیں ہے بلکہ اکثر اوقات معاملہ تکفیر تک پہونچ جاتاہے چاہے ان کا تعلق قوموں اور گروہوں سے ہو، مسلکوں اور جماعتوں سے ہو یا افراد اور اکابر علماء دین سے ہو اور پھر وہ قدیم علماء ہوں یا معاصر ، غرض مسلمانوں کے ساتھ یہ اسی طرز کا معاملہ رکھتے ہیں۔ اس طرح ان لوگوں نے مسلمانوں کو کافر، گمراہ اور بدعتی قرار دینے کا ایک ماحول اور کلچر بنا رکھا ہے)۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سلفی علماء تکفیر وتبدیع اور گمراہ بازی کے فتووں سےبہت دور رہتے ہیں اور اس تعلق سے کافی محتاط ہوتے ہیں بلکہ یہ تو تکفیر معین کے قائل ہی نہیں ہیں۔ اگر آنجناب کی بات میں کچھ بھی دم ہو تو سعودی عرب میں رہنے والے معتبر سلفی علماء میں سے کسی ایک کابهى تکفیری فتوی دکھا دیں کسی ایسے شخص کے بارے میں جسے اہل تقلید نے -خاص طور سے مالکیوں نے- کافر نہ کہا ہو۔ یہ شیوہ تو رافضی ، تحریکی، خارجی اور تقلیدی فکر کے حاملین کا رہا ہے کہ ان کے مذہب ومسلک سے جو نہ جڑا وہ بدعتی ، کافر اور گمراہ ٹھہرا۔
اپنے اپنے مسلک ومذہب کی حفاظت کی آڑ میں جس تقلید کو دین کی حفاظت وبقا ،اور امت کی صفوں میں اتحاد ویگانگت (Unity & Fraternity) پیدا کرنے کیلئے ضروری قرار دیا جاتا ہے اس تقلید نے حفاظت وبقا تو در کنار الٹا دینِ اسلام کا تیا پانچا کر کے رکھ دیا ہے۔ اتفاق واتحاد تو کجا امت کو مختلف ٹکڑیوں میں بانٹ کر رکھ دیا کہ ہر گروہ دوسرے گروہ کے خلاف بر سر پیکار نظر آتا ہے۔ ہر ایک کا دل دوسرے کے خلاف بغض وحسد اور نفرت وعداوت سے لبریز معلوم ہوتا ہے۔ اسکے واضح اثرات مختلف مسلکی کتابوں میں محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ اصفہان کے تذکرہ میں یاقوت حموی متوفی ۶۲۶ھ نے اپنے جس کرب کا اظہار کیا ہے اسے آپ بھی پڑھئے اور محسوس کیجئے: (شوافع اور احناف کے مابین کثرتِ فتن، مسلکی تعصب اور مسلسل خونی تصادم کے باعث اس شہر کے مختلف علاقوں میں ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ جب بھی کوئی گروہ غالب آتا ہے دوسرے گروہ کے محلوں میں بغیر کسی رو رعایت کے لوٹ مار مچاتا ، آتش زنی اور تباہی پھیلاتا ہے، یہی حالت قصبوں اور دیہاتوں کی بھی ہے)۔
خود آنجناب کی تقلیدی پارٹی مالکیہ کے بارے میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مالکی قاضیوں نے اپنی جہالت، ضلالت، دینی جسارت، مخالفتِ شریعت محمدی اور دین کو کھیل سمجھتے ہوئے اہل علم کی ایک بڑی جماعت کا خون بہایا ہے۔ اور ایسے فتاوے فقط فروعی استنباط اور فقہی نصوص کی روشنی میں جاری کئے گئے جن میں نص شرعی کا کچھ بھی سہارا نہیں ملتا ہے،انا للہ وانا الیہ راجعون()۔ بلکہ تکفیر کے باب میں مالکیہ دوسرے تقلیدی مذاہب سے کچھ زیادہ سخت واقع ہوئے ہیں چنانچہ ان کے نزدیک زندیق کیلئے توبہ بھی نہیں ہے ہر حال میں اسے قتل کیا جائے گا()۔
در اصل انسانی طبیعت ہی کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ دوسروں کے محاسن کو معایب اور اپنے عیوب کو ہنر کی شکل میں دیکھتی ہے ۔ چنانچہ تقلید سے جو خرابیاں پیدا ہوتی رہی ہیں انہیں عدم تقلید کی طرف منسوب کر کے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ ان خرابیوں پر نظر ڈالئے جو امت میں تقلید کے رواج کے بعد سے رونما ہوئی ہیں تو صاف نظر آئے گا کہ دین سے دوری، شرک میں آلودگی،اتباع سنت سے گریز، نت نئی بدعتوں سے محبت، شخصیت پرستی کا زور، گروہی تعصب کا شباب وغیرہ جیسے امراض میں یہ امت اسی تقلید کے سبب مبتلا ہوئی ہے، اور اب اس کے اندر ایک طرح کا تصلب (Gruffness) پیدا ہو گیا ہے، اس لئے وہ اس مسئلہ پر مثبت طور پر سوچنے کیلئے بھی آمادہ نظر نہیں آتی!
(۱۰)۔ :آنجناب نے سعودی حکومت کے بارے میں جس ظلم وتعذیب اور قید وقتل کی بات کی ہے اور یہ کہ اسکی ان تمام حرکتوں کو جائز اور آئینی قرار دینے کیلئے سعودی اسلام کے شیوخ کے یہاں پوری پوری گنجائش رہتی ہے اور ان کے رضاکارانہ فتوے اس کیلئے مہیا رہتے ہیں۔
اس طرح کی بھونڈی کذب بیانی اور صریح بہتان (Explicit Imputation) کے بارے میں ایک سر پھرا جاہل بھی نہیں سوچ سکتا چہ جائیکہ ایک فقیہ اور عالم دین یہ حرکت شنیعہ کرے۔ مجھے نہیں معلوم سعودی عرب کے اندر کسی عالم دین، داعی حتی کہ کسی طالب علم نے بلا ثبوت ودلیل کسی کے بارے میں تادیبی کارروائی یا قید وبند کے جواز کا فتوی دیا ہو۔ یہاں کے قید خانوں کی میں نے زیارت کی ہے، وہاں گھوم پھر کر قیدیوں کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ دروس ومحاضرات کا اہتمام کیا ہے لیکن وہاں میں نے کسی ایسے قتل وتعذیب اور پر مشقت اعمال (Rigorous Imprisonment) کا مشاہدہ بالکل نہیں کیا جس کا پروپیگنڈہ رافضی اور تحریکی اور ریسونی جیسے ان کے اذناب واذیال (Touts) شب وروز کرتے رہتے ہیں۔
یہاں کے قید خانوں میں حقوق انسانی (Human Rights) کی تنظیموں کی آفسیں بھی رہتی ہیں جو ہر رطب ویابس (Insignificant matters) کو اکٹھا کر کے پھیلاتی رہتی ہیں۔ تو پھر کیا جو انہیں بھی نہیں معلوم وہ جناب ریسونی کو کیسے پتہ چل گیا یا یہ کہ آنجناب نے جس مقاصد شریعت کی تعلیم حاصل کی ہے اسکے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ چند دنیوی اہداف کی خاطر فتنوں کو بھڑکایا جائے نیز بے بنیاد باتوں اور افواہوں (Rumors) کا خوب خوب پروپیگنڈہ کیا جائے یہاں تک کہ اس میدان میں گوبلز (Paul Joseph Goebbels) کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جائے۔
نازی جرمنی میں ہٹلر کے دور حکومت میں افواہ، جھوٹ اور پروپیگنڈہ پھیلانے کیلئے باقاعدہ ایک وزارت قائم تھی جسکا نام :(Ministry of Propaganda) تھا جسکا ذمیدار یہی گوبلز تھا جس کی مکار اور سازشی تھیوری آج بھی مشہور ہے کہ کسی بات کو منوانے کیلئے اس وقت تک افواہ پھیلاتے رہو اور جھوٹ بولتے رہو جب تک کہ لوگ اسے سچ نہ مان لیں۔
حالانکہ سوشل میڈیا (Social Media) اور تمام ذرائع ابلاغ میں اس طرح کے پھیلائے جارہے پروپیگنڈوں کے بارے میں دینِ اسلام کا موقف بہت ہی واضح ہے ؛ ارشاد ربانی ہے:(يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ)() ترجمہ : اے مسلمانو! اگر تمہيں كوئى فاسق خبر دے تو تم اس كى اچھى طرح تحقيق كرليا كروايسا نہ ہو كہ نادانى ميں كسى قوم كو ايذا پہونچا دو پھر اپنے كئے پر پشيمانى اٹھاؤ۔
اس آیت کی روشنی میں ہر مسلمان کا یہ شیوہ (Conduct) ہونا چاہئیے کہ کسی بھی مجہول ذرائع (Unknown Sources)سے یا کسی بھی غیر معتبر شخص کی طرف سے کسی بھی مسلمان کے تعلق سے کوئی بھی خبر ہو تو بلا تحقیق اسے قبول نہیں کرنا چاہئیے ۔ لیکن بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ ریسونی جیسے عالم دین ایسے واضح حکم الہی پر عمل کرنے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں خصوصاً ایسے لوگوں کے بارے میں خبروں کے تعلق سے جن کے ساتھ مدتوں رہنے کا تجربہ رہا ہے اس کے باوجود نہ جانے کن مقاصد کے پیش نظر ان لوگوں کے بار ے میں ایسی بے بنیاد (Baseless) باتیں کہنے کی جسارت کرتے ہیں جنہیں مملکت کے اغیار دشمن ممالک کی مالی تعاون (Financial Support) سے لندن میں بیٹھ کر گڑھتے، بناتے اور پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں۔
اور اگر کہیں سرکاری سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے اس قسم کی کچھ غلطیاں سر زد ہوئی بھی ہوں تو کیا ان غلطیوں کی ذمہ داری سلفی منہج اور سلفی علماء پر عائد ہوگی؟ کیا آنجناب ریسونی صاحب مراکش کی سابق تنظیم (الشبیبة الإسلامية) پر عاید قتل کے الزام کی ذمہ داری (Responsibility) قبول کریں گے کہ جسے تحلیل کر کے (الإصلاح والتوحید) نامی تنظیم بنائی گئی اور اسکے آپ ۲۰۰۳ء تک صدر رہے؟ پھر اسی سال الدار البیضاء میں پے در پے دھماکوں (Serial Bombings) کے بعد آپ کو سخت تنقیدوں کا سامنا کرناپڑا جس کی وجہ سے آپ کو مستعفی ہونا پڑا۔ تو کیا جناب اس کی بھی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے راضی ہوں گے؟ اگر نہیں اور بالکل نہیں تو پھر اسی طرح کے قضایا (Issues) میں دوسروں کیلئے دوہرا اور الگ معیار کیوں؟
اور جہاں تک مملکہ پر قتل کا الزام ہے تو اگر اس سے مراد مملکہ میں جاری حدود وقصاص ہے (مثلا قاتل اور زانی محصن کو قتل کرنا، فساد فی الارض یعنی دہشت گردی اور نشہ آور چیزوں کی اسمگلنگ میں قتل کرنا) تو اس طرح کا الزام لگانے والا ایک عام مسلمان بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ ایک عالم دین اور فقیہ ملت ہو۔ لیکن اگر حدود وقصاص کے علاوہ کسی اور وجہ سے قتل کی خبر آنجناب کے پاس ہو تو اسکی مثال پیش کریں ، وانی لہ ذلک!! ، ورنہ حد تہمت کیلئے تیار رہیں۔
(جاری ۔۔۔۔۔۔۔ وللكلام بقية)
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10768&date=2017-11-13
👇
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1471521586294457&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق