الجمعة، 19 أكتوبر 2018

آل سعود اور علماء سعودیہ: الزامات اور جواب -1

بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
قسط نمبر ۱
◀️ویسے آل سعود اور علماء سعودیہ سلفیوں کو چھوڑ کر سارے مکاتب فکر کے الزامات اور تہمتوں کا شکار رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ان پر رافضیوں اور تحریکیوں نے کرم فرمائی کی ہے۔ لیکن بروقت افریقہ کے ایک ملک مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک اخوانی عالم احمد ریسونی کے حالیہ چھپے ایک مضمون پر رد مقصود ہے جسکا عالم ِعرب اور برصغیر میں کافی چرچا ہے جنہوں نے اس مضمون کے اندر آل سعود اور سعودی علماء پر بہت ہی بے تکے اور جھوٹے الزامات کی بارش کی ہے۔ یہ حضرت عالم عرب میں بروقت سعودی مخالفت میں بالکل ویسے ہی مشہور ہیں جیسے برصغیر میں فی الحال مولانا سید سلمان ندوی صاحب سعودی مخالفت میں مشہور ہیں۔ دونوں کے افکار ونظریات اور عقائد مختلف ہوسکتے ہیں لیکن سعودی مخالفت میں چونکہ دونوں جذبات اوراہداف کے اعتبار سے متحد نظر آرہے ہیں اس لئے اس مسئلے میں دونوں ایک سکے کے دو رخ دکھائی دے رہے ہیں۔ اور چونکہ مولانا سلمان ندوی صاحب کے الزامات کا کافی وشافی جواب اردو دنیا میں موجود ہے لہذا مناسب سمجھا کہ پہلے سید زادے مولانا سلمان ندوی صاحب کا مختصر تعارف (سکے کا پہلا رخ) ملاحظہ ہو پھر شریف زادے احمد ریسونی کا تفصیلی جائزہ (سکے کا دوسرا رخ) پیش کیا جائے۔
مولانا سلمان ندوی صاحب ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فارغ التحصیل ہیں۔ سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسینی سلسلۂ نسب سے اپنے آپکو جوڑ کر حسینی کا لاحقہ ضرور لگاتے ہیں۔ شجرۂ نسب کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ مزاج ضرور حسینی دعوے داروں جيسا ہے۔ کیونکہ آپ کے موقف کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔  کبھى آپ ایرانیوں کی مدح سرائی کرکے طہران وزاہدان کی سیر کرتے ہیں اور اپنے تعلیمی مشاریع (Educational Projects) کیلئے راہ ہموار کرتے ہیں لیکن پھر شام وعراق اور احواز کے سنی مسلمانوں کے خلاف ایرانیوں کے مظالم کو یاد کرکے ان کا مخالف بن جاتے ہیں۔
جناب پہلے بغدادی داعشی جیسے خارجیوں کی پر زور حمایت ہی نہیں کرتے بلکہ اسے امیر المومنین بھی مان بیٹھتے ہیں لیکن جب چاروں طرف سے ہواؤں کا رخ اپنے خلاف دیکھتے ہیں تو فوراً پانسا پلٹ کر اسے خلیفہ ماننے سے معذرت کر لیتے ہیں۔ 
مولانا نے ابھی اپنے حالیہ ایک انٹر ویو (ممبئی اردو نیوز، سنڈے میگزین ،۲۹/اکتوبر ۲۰۱۷ء) میں طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں سید امام بخاری وغیرہ کی طرح اہل حدیثوں کے موقف کی تائید کی ہے جسکی تشہیر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ تقلیدی مذہب سے جڑے ہونے کے باوجود مولانا کے موقف کی تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟ سیاسی ، متلون مزاجی یا کچھ اور۔ فی الحال اس کے وجوہات واسباب کا پتہ نہ چل سکا۔
اور جہاں تک آل سعود اور سعودی سلفی علماء کا مسئلہ ہے تو جناب برسوں تک ان کے موافق ہی نہیں تھے بلکہ باپ بیٹے دونوں نے تمام سہولیات مع وظیفہ(Full Facilities+Scholarship) کے علیا مراحل (Higher Education levels) کی پوری تعلیم وہیں حاصل کی ہے۔ حضرت نے ملک عبد اللہ کی جو تعریف کی تھی اور جو جو مشورے دئیے تھے شاید ویسی توفیق وہاں کے علماء اور وزراء کو بھی نہ ملی ہو۔ اور برسوں تک وہیں کے مشائخ ومحسنین کی نیاز مندی کرکے کافی چندہ اکٹھا کیا اور کٹولی وغیرہ میں بڑے بڑے مشاریع اور پروجیکٹ پھیلا دئیے ۔ لیکن حالیہ برسوں میں ملک سلمان سے کیا ان بن ہوگئی اور وہاں کے محسنین سے نا جانے کیا بگڑ گئی یا کٹولی کا کٹورا من موافق نہیں بھر پایا حضرت ان سے کچھ زیادہ ہی خفا دکھ رہے ہیں۔ اور ان پر بے جا الزامات اور تہمتوں کی بارش کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ 
تعجب ہے اخوانیوں اور تحریکیوں پر کہ ایسے متلون المزاج (Variable Minded) انسان پر یہ پھولے نہیں سمارہے ہیں جو وقتِ زحمت میں یوگی مودی بھجن کرنے کا بھی ہنر رکھتا ہو۔ ٹھیک ہے حضرت کو آج ہر جگہ محرومی دکھ رہی ہے تو جز وقتی طور پر اخوانیوں کی مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں، تحریکیوں کے روحانی قائد سے ملاقاتیں کر رہے ہیں نیز ان کے سیاسی قائد ورہنما امیر المومنین اوردگان کی تعریف کر رہے ہیں تاکہ اخوان نواز ممالک سے ربط وضبط بنا رہے اور کٹولی کے تمام مشروعات اور پروجیکٹ پر کوئی اثر نہ پڑے۔ 
اب ایسے میں اگر کوئی مولانا کو حق گو ، بے باک (Daring) نیز خوش فہمی میں نا جانے کیا کیا کہے تو اسے کیا کہا جائے؟ کیونکہ ایسے شخص کو اگر موجودہ حالت میں عمان وقطر سے کوئی بڑا مرغا مل جائے تو پلٹی کھا نے میں چند لمحا ت سے زیادہ نہیں لگیں گے۔ لہذا مولانا کے متعلق تحریکیوں کا شیخ چلی والی خوش فہمیوں میں مبتلا ہونا ان کا بے وقوفوں کی جنت میں جینے جیسا لگتا ہے۔ سید زادے مولانا سید سلمان ندوی کے بارے میں مزید تفصیلی معلومات کیلئے شیخ عبد المعید مدنی، دکتور محمد وسیم محمدی، برادرم عبد السلام شکیل اور جناب محمد شاہد خان ندوی صاحبان کی تحریریں کافی وشافی ہیں۔ 
اور جہاں تک شریف زادے ریسونی صاحب کا تعلق ہے تو جناب کا پورا نام احمد بن عبد السلام بن محمد الریسونی ہے۔ آپ افریقی ملک مراکش کے ہیں۔ مقاصد الشریعہ، قضا اور اصول فقہ آپ کا تخصص رہا ہے۔ تدریسی، اداری اور قانونی میدان میں مختلف فرائض انجام دیکر ۲۰۰۶ء میں اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر جدہ، سعودی عرب چلے آئے۔ 
فکری اور سیاسی تجربہ: اسلامی فکر کے حامل آپ شروع ہی سے تھے اور بہت ہی متحرک واقع ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مراکش میں ایک اسلامی جمعیت بنانے میں جلد ہی کامیاب ہوگئے۔ اسی کے ساتھ ْ ْْْ (رابطة المستقبل الإسلامي) نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی۔ اور کچھ دنوں کے بعد (الإصلاح والتجدید) کے نام سے ایک تحریک بھی بنا ڈالی۔ ان دونوں (تنظیم وتحریک) کی فکر بالکل وہی ہے جو (الشبیبة الإسلامية) نامی تنظیم کی تھی جسے عبد الکریم مطیع نے ستر کی دہائی میں قائم کیا تھا۔ البتہ مصری اخوانی تنظیم کی طرح اس کے کارکنان کو بھی قید وبند کے حوالے کر دیا گیا۔ کیونکہ اس تنظیم پر ۱۹۷۵ء کے اندر ایک سیکولر لیڈر عمر بن جلون کے قتل کا الزام لگایا گیاتھا۔ 
یہی وجہ ہے کہ ۱۹۹۶ء میں دونوں کو ضم کر کے (الإصلاح والتوحید) کے نام سے ایک الگ تحریک بنائی۔ اور ۲۰۰۳ء تک آپ اس کے صدر رہے۔ لیکن اسی سال الدار البیضاء میں پے در پے دھماکوں کے بعد آپ کو سخت تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے آپ کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ آپ نے کئی علمی اور ثقافتی جمعیتوں کے قیام میں بھی حصہ لیا۔
سعودی اور ریسونی: جناب کو فقہ اور اصول فقہ کے میدان میں کام کرنے کیلئے سعودی بلایا گیا۔ یہاں جدہ میں سعودی اور امارات کے تعاون سے (معلمة زاید للقواعد الفقهية والأصولية) جیسے عظیم پروجیکٹ کے تحت (مجمع الفقه الإسلامي الدولي) کے نام سے اسلامک فقہ اکیڈمی قائم کیا گیا تھا جس میں آپ نے ایک ماہر تجربے کار (Masterful Expert)کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس پروجیکٹ کے آپ نائب مدیر بنے اور پھر مدیر بن گئے۔ اس اثنا میں آپ مکہ مکرمہ اوپن یونیورسٹی کی مجلس علمی کی رکنیت حاصل کی، (المعهد العالمي للفکر الإسلامي) میں تعلیمی مشیر (Academic Secretary) کی حیثیت سے بھی کام کیا اور ساتھ ہی (جامعۃ زاید بالإمارات العربیۃ) اور (جامعۃ حمد بن خلیفہ بقطر) کے مہمان استاذ بھی رہے۔ ۲۰۱۳ء میں اس عظیم فقہی موسوعہ (ntialJurisprude Encyclopedia) کی تکمیل کے بعد آپ کی خواہش امارات جانے کی ہوئی۔ لیکن کسی وجہ سے سعودی اور امارات نے آپ کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ 
اسی مسئلے کو لیکر جناب امارات اور سعودی کے مخالف ہوگئے اور دسمبر ۲۰۱۳ء میں (رابطة علماء أهل السنة) کے رکن بن گئے اور (الاتحاد العالمي لعلماء المسلمین) کے نائب صدر بنا دئیے گئے۔ اور یہ معلوم ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں (رابطة العالمي الإسلامي) اور (هيئة کبار العلماء) کی مخالفت میں بنائی گئی ہیں۔ جس میں اخوانی، تحریکی، رافضی، صوفی اور قبوری ہر فکر کے لوگ اکٹھا ہیں۔ ۲۵/اگست ۲۰۱۶ء میں چیچینیا کی راجدھانی گروزنی کے اندر (مؤتمر أهل السنة والجماعة) کے نام سے صوفی عالمی کانفرنس انہی لوگوں کی تحریک پر بلائی گئی جس میں اعلان کیا گیا کہ سلفی وہابی سعودی فکر کے حامل لوگ اہل السنہ سے خارج ہیں۔ اس کانفرنس میں اہل السنہ اسی کو ماناگیا جو صوفیت اور تقلید جامد میں یقین رکھتا ہو۔ گویا ان کی نظر میں کتاب وسنت کو ماننا اور اس پر عمل پیرا ہونا ایک ثانوی درجہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتاہے۔ اس کانفرنس کے آخر میں صوفی ناچ کا پروگرام بھی چلا جس میں سارے تحریکی ، رافضی اورصوفی ناچتے ہوئے دیکھے گئے۔ 
اس طرح جناب اماراتی اور سعودی مخالفت میں تحریکیوں سے جاملے اور انہیں کے منصہ شہود (Platform) سے سعودی پر اپنا غصہ اتارنے لگے بالکل اسی طرح جیسے آج کل مولانا سلمان ندوی اپنا غصہ اتار رہے ہیں۔ دونوں کے حالات زندگی اور کارناموں (Achievements) کو دیکھ کر اس کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آنجناب کے بارے میں دکتور محمد بن ابراہیم سعیدی استاذ فقہ واصول فقہ بجامعہ ام القری، شیخ سلیمان ضحیان اور جناب عبد الواحد انصاری کی تحریریں (Articles) کافی مفید ہیں۔ 
ریسونی صاحب نے ابھی حال میں سعودی اور سلفی علماء کے خلاف کچھ زیادہ ہی زہر افشانی کردی اور ایک مقالہ بعنوان (الإسلام السعودي من الازدهار إلی الانحدار) لکھ مارا جسے ۲۱/محرم الحرام ۱۴۳۹ھ موافق ۱۲/اکتوبر ۲۰۱۷ء کو ایک مراکشی ویب سائٹ (العمق) نے نشر کیا اور تحریکیوں نے اسے خوب تشہیر کیا۔ ایک تحریکی مبصر ذو القرنین حیدر سبحانی نے اس مقالے کا اردو میں بعنوان (سعودی حکومت کا اسلام چڑھاؤ سے اتار کی طرف ) ترجمہ کیا جسے فوری طور پر افکار ملی نے اسی مہینے نومبر کے شمارے میں نشر کردیا ۔ اس طرح بر صغیر ہند وپاک میں بھی اس مضمون کا خوب چرچا ہواجسے تحریکی اسے سوشل میڈیا میں پھیلا پھیلا کر پھولے نہیں سما رہے ہیں۔
جبکہ اس مضمون کی شکل وصورت ، علمی وزن، دیانت داری نیز تحریر کی موضوعیت ،اصالت اور حیثیت بالکل ویسے ہی ہے جیسے ابھی کل یکم نومبر ۲۰۱۷ء کو ایک ہندوستانی تقلیدی اردو نیوز پورٹل ملت ٹائمز نے ایک خبر شائع کی جس کا عنوان ہے: (سعودی عرب میں احادیث رسول کی از سر نو ہوگی تدوین، کمیٹی کی تشکیل، موجودہ مذہبی مواد انتہا پسندی پر مبنی) ۔ جس کے اندر کچھ اس طرح گل افشانی کی گئی ہے: (سعودی عرب نے انتہا پسندی کے خاتمے اور اسلام کو جدید شکل میں پیش کرنے کیلئے متعدد اہم فیصلوں کے بعد اب احادیث رسول کی از سر نو تدوین کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاع کے مطابق اس کیلئے علماء ودانشوران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ رائٹر، ٹائمز آف انڈیا اور دیگر اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنے یہاں سے وہابی ازم کو ختم کرنا شروع کردیا ہے، اسلامی تعلیمات کو جدید انداز میں پیش کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے اور اسی سلسلے میں ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اب احادیث رسول کو از سر نو تدوین کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تشدد اور انتہا پسندی پر مشتمل احادیث کو کتابوں سے نکالا جائے گا ساتھ ہی اس بات کی بھی تحقیق کی جائے گی کہ جسے اب تک حدیث سمجھا جارہا تھا وہ واقعی حدیث ہے یا کوئی فرضی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب کے نئے ولی عہد محمد بن سلمان متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ سعودی میں جدت لانا چاہتے ہیں۔ فی الحال وہاں جو اسلامی اور مذہبی تعلیمات موجود ہیں وہ ان کے مطابق انتہا پسندی اور شدت پر مبنی ہے اور اس سے سعودی عرب کی دنیا بھر میں شبیہ خراب ہوئی ہے)۔
سعودی کا ہر کام تحریکیوں اور تقلیدیوں کے یہاں غلط ہی دکھائی دیتا ہے چنانچہ آپ اس مذکورہ جھوٹ در جھوٹ سے بھری خبر کے بعد جب ایک غیر جانب دار نیوز پیپر میں چھپی اسی خبر کو پڑھیں گے تو آپ کو ان کے سینے میں سعودی کے خلاف بھری آگ نیز اس خبر کی سچائی کا پتہ چل جائے گا۔ چنانچہ ڈیلی پاکستان آن لائن نے ۱۸/ اکتوبر ۲۰۱۷ء کواسی خبر کو اس عنوان سے نشر کیا تھا: (سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے خادم الحرمین الشریفین کمپلیکس برائے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے)۔ اس میں مزید لکھا ہے کہ کمپلیکس کا قیام مدینہ منورہ میں عمل میں لایا جائے گاجس میں احادیث نبوی پر جامع انداز میں کام کیا جائے گا۔ یہ چیدہ چیدہ علماء حدیث پر مشتمل ہوگا۔ ادارے کو چلانے کیلئے علماء کونسل قائم کی جائے گی اور ممتاز شیوخ الحدیث اس کے رکن ہوں گے۔ اس کے چیئر مین اور ارکان کا تقرر براہ راست مملکت کے فرمانروا کی طرف سے کیا جائے گا جبکہ ابتدائی طور پر سعودی علماء کونسل کے رکن شیخ محمد بن حسن آل الشیخ کو علمی کونسل کا چیئر مین مقرر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں شاہ سلمان کی جانب سے جاری کردہ شاہی فرمان میں کہاگیا ہے کہ احادیث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل اسلام کے نزدیک غیر معمولی مقام ومرتبہ ہے۔ قرآن کریم کے بعد احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کا دوسرا ماخذ ہے۔ سعودی عرب ملک میں اسلامی شرعی اصولوں پر علم در آمد کیلئے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف، تحقیق اور ان کے مطالعے کا ایک جامع پروگرام شروع کر رہی ہے تاکہ عوام الناس اور علمی حلقوں کو احادیث اور فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مستفید ہونے کا نیا موقع فراہم کیا جاسکے)۔ 
واضح رہے کہ مدینہ منورہ میں آج سے تقریباً ۳۵ سال قبل شاہ فہد بن عبد العزیز نے قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس کی بنیاد رکھی تھی۔ اس ادارے نے قرآن مجید کے تعلق سے عظیم خدمات انجام دیں اور اب بھی مسلسل مصروف عمل ہے۔ قرآن کریم کے لاکھوں معری اور مترجم نسخے اس ادارہ سے شائع ہوکر پوری دنیا میں پہونچ رہے ہیں اور لوگوں کی ہدایت کاسبب بن رہے ہیں۔ اب موجودہ حکمراں شاہ سلمان بن عبد العزیز کی جانب سے اسی نوعیت کے حدیثی ادارہ کے قیام کا یہ فیصلہ مملکت سعودی عرب کے عظیم الشان اور قابل فخر کارناموں کی ایک سنہری کڑی ثابت ہوگا۔ اس حدیثی کمپلیکس کا قیام اسی سال ۱۷/اکتوبر کو عمل میں آیا ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کتنا ہی اچھا کام کرے رافضی، تحریکی اور تقلیدی اسے غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح چور ہمیشہ ڈر اور خوف میں مبتلا رہتا ہے ایسے ہی یہ حضرات سلفیوں سے ہمیشہ گھبرائے رہتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید اور اس کے ترجمے وتفاسیر کو مختلف زبانوں میں مجمع فہد (King Fahad Complex) کے تحت چھاپ کر دنیا کے کونے کونے میں مفت تقسیم (Free Distribution) کیا جاتاہے اسی طرح احادیث پر بھی کام شروع ہونے جارہا ہے جسکا اعلان شاہ سلمان نے کردیا ہے۔ حدیث کى کتابیں، ان کے ترجمے، انکا حکم کہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف جب دنیا کے کونے کونے میں پہونچیں گے ایسی صورت میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سب سامنے آجائے گا ۔ اسی لئے اہل بدعت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ، لہذا انہوں نے اس کار خیر کے خلاف لوگوں کو بدظن کرنے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈا اور الزام تراشی شروع کردی ہے۔ 
سب سے پہلے عبد الواحد انصاری کی تحریر کا خلاصہ پیش کروں گا جسے انہوں نے احمد ریسونی کے جواب میں لکھا ہے جس کا عنوان بڑا دلچسپ ہے: (بین الریسوني وحلاّق باماکو) ۔ آگے لکھتے ہیں کہ ریسونی نے سعودی  عرب کیلئے ایک الگ سے اسلام کا تعارف دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، ایک ایسا اسلام جو کٹرپنٹھ (Relentlessness) ہو، سنگ دلی (Inhumanity) اور تکفیریت کا مرقع ہو، بڑے بڑے علماء کو گمراہ کرتا ہو، تشدد اور تلوار پر جس کا بھروسہ ہو، مسلمانوں کے مابین نت نئے فتنے کھڑا کرتا ہو اور تمام اسلامی انقلابات(Revolutions) اور تحریکوں (Movements) سے لڑتا ہو۔ لیکن اب سعودی عرب ان تمام نظریات وافکار سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے چنانچہ اب اس نے اپنے تمام سفارت خانوں اور سرکاری دفاتر میں یہ احکام جاری کردئیے ہیں کہ ابن تیمیہ کی کتابوں کو جلا دیا جائے کیونکہ اس متشدد سعودی اسلام نے مملکت کو اس قدر دنیا کے سامنے معیوب بنا کر پیش کیا ہے کہ اتنا ابوحیان توحیدی  كى کتاب (مثالب الوزیرین) نے بھی نہیں کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔
آگے جواب میں لکھتے ہیں کہ یہ اچانک شیخ ریسونی کو کیا ہوگیا کہ جو سعودی عرب میں رہ کر سلفی طالب علموں کو اپنی کتابوں اور بحوث کو پڑھنے کی نصیحت کرتے تھے اور خود سلفی کتابوں کی تعریف کرتے تھے ، اور جہاں انہوں نے سالوں سال رہ کر وہاں کی نعمتوں میں پلے اور آج انہیں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں؟!!! مجھے لگتا ہے یہ منافقت (Hypocrisy) ہے کہ جس سعودیہ نے انہیں اپنا نمک روٹی کھلایا اور انکا ہر طرح کا اکرام کیا لیکن اچانک انہوں نے اپنے تکفیری چہرے کو ظاہر کردیا معمولی کسی اختلاف پر۔ یہ سب سراسر جھوٹ ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں کے جلانے کا حکم صادر ہوا ہے۔ مجھے بڑا افسوس ہے ایسے فقیہ عالم پر جو دنیا کے عوض اپنے دین واخلاق کو بیچ ڈالے۔ ٹھیک ہے کسی وجہ سے دنیوی نفع وقتی طورسے رک گیا تھا لیکن اس کی وجہ سے اپنے دین واخلاق کو برباد کرلینا کیا معنی رکھتا ہے؟!! اس سے تو بالکل آپ ان لوگوں کی صفوں میں پہونچ گئے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: (فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ)() ترجمہ: اگر ان منافقوں کو کچھ دے دیا جاتا ہے تو خوش رہتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو فوراً ناراض ہوجاتے ہیں۔ 
یہ تو رہا فقیہ مراکش احمد ریسونی کا قصہ اور ایک دوسرے افریقی ملک (مالی) کی راجدھانی  (باماکو ) کے نائی کا کیا قصہ ہے جس کا ریسونی صاحب سے گہرا تعلق ہے؟ در اصل وہ قصہ یہ ہے کہ میں اپنے بھانجے عبد اللہ بن عبد الرحمن انصاری کے ساتھ باماکو میں تھا۔ وہاں کے افریقی صحراؤں میں گھومنے کے بعد مجھے حرارت کا شدید احساس ہوا۔ چنانچہ میں نے شہر میں آکر سب سے پہلے نائی کی دکان تلاش کی۔ بروقت مجھے ہوٹل کے قریب ہی میں ایک جزائری نائی (Algerian Barber) کی دکان کا پتہ چلا۔ اس کی دکان پر گئے اور میں جیسے ہی کرسی پر بیٹھا وہ نائی لگا سعودی عرب کی برائی کرنے، قتل وغارت گری اور نہ جانے کن کن الزامات کی بارش کرنے لگا۔ جب مجھ سے مانوس ہوکر گھل مل گیا تو تھوڑی ہی دیر میں اس نے یہ اعتراف کیا کہ اس دکان (Saloon) کے اندر کئی سالوں سے کام کرتا ہوں لیکن اس بیچ کسی نے مجھے کوئی بخشش نہیں دی سوائے ایک سعودی کے کہ جس نے ایک مرتبہ سر منڈانے کے بعد پانچ سو ڈالر بطور ہدیہ پیش کیا تھا جو کہ بڑا بھلا مانس انسان تھا۔ 
ایک دوسرے سعودی عالم شیخ سلیمان ضحیان نے جواب میں کہا کہ ریسونی کا یہ مضمون بالکل ہجومی (Aggressive) ہے ۔ اس کا مقصد شہرت طلبی اور میڈیا میں نام پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ دین اسلام کو سعودی کی طرف منسوب کرنا کسی عالم دین کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ کیا کسی فکر، شخصیت یا علاقے کی طرف اسلام کو منسوب کرسکتے ہیں؟ کیا قطری اسلام ، ایرانی اسلام، مصری اسلام اور مراکشی اسلام وغیرہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا صوفی اسلام، قبوری اسلام، رافضی اسلام، تحریکی اسلام ، اخوانی اسلام یا قادیانی اسلام کہہ سکتے ہیں؟ کیا حنفی اسلام ، حنبلی اسلام، شافعی اسلام ، مالکی اسلام یا سلفی اسلام کہہ سکتے ہیں؟
مجھے لگتا ہے یہ جناب تحریکیوں کے صف میں بہت پہلے سے تھے لیکن سعودی عرب میں رہنے کی وجہ سے اپنی زبان پر تالا لگائے ہوئے تھے لیکن جیسے ہی اس سے ساری امیدیں منقطع ہوگئیں اس کے خلاف تحریکیوں کی گود میں جاکر سعودی عرب کے خلاف بولنا شروع کردئیے۔ قطر محاصرے (Qatar Blockade) پر اگر انہیں اتنا تکلیف ہے تو پھر عراقی کردستان کے محاصرے پر تکلیف کیوں نہیں ہے؟ وہ بھی تو سنی مسلمان ہیں جن کے خلاف ترکی اور ایران نے مل کر سیاسی فیصلہ لیا ہے۔ آخر ایران کے اندر احوازی اور بلوچی سنی مسلمانوں کی حالت کس محاصرے سے کم ہے ؟ ایرانی رافضی حکومت کس قدر ان پر ظلم روا رکھتی ہے کیا حضرت اس سے ناواقف ہیں؟ اس نا گفتہ بہ حالت کو دنیا کے سامنے کیوں نہیں لاتے کہ جہاں معمولی کسی شبہے اور شک کی بنا پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جسکی نہ کوئی شنوائی ہوتی اور نہ کوئی مقدمہ چلتا ؟ جہاں جھوٹے معاملوں (Fake Cases) میں پھنسا کر سنی مسلمانوں کو پھانسی تک دے دی جاتی ہے۔
سعودی میں چند متشدد تحریکی قسم کے علماء کی گرفتاری کے خلاف مذمتی قرار داد پاس کرتے ہیں لیکن ترکی کے اندر جب انقلابیوں سے پاک کرنے کے نام پر ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس پر حضرت خاموش کیوں رہتے ہیں؟ اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلق رکھنے کی بارہا مذمت کرتے ہیں اور جو نہ بھی رکھے اس پر جھوٹا الزام بھی لگاتے رہتے ہیں لیکن قطر کے خلاف اپنی زبان کو سی لیتے ہیں جس نے اسرائیل سے گہرا تعلق بنا رکھا ہے اور اپنے یہاں جس نے اسرائیلی تجارتی آفس (Chamber of Commerce) بھی کھول رکھا ہے بلکہ اسرائیلی سابق صدر شمعون پیریز نے قطر کا دورہ بھی کیا ہے۔ واقعی مصلحت اور دنیا طلبی کیا کیا نہیں کراتی ہے۔ 
سب سے زیادہ تفصیلی جواب دکتور محمد بن ابراہیم سعیدی نے لکھا جس کا عنوان ہے: (الصبر الجمیل علی عثرة الشیخ الجلیل- رد علی أغالیط الشریف الریسونی بحق السلفية) ، جس کی ترجمانی کچھ حذف واضافے کے ساتھ پیش خدمت ہے:
احمد ریسونی جیسے جلیل القدر ذی علم کا اہل باطل کی صفوں میں جا پڑنا بڑے افسوس کی بات ہے۔ تکلیف اور بڑھ جاتی ہے جب اس طرح کا عالم دین اقلیت میں جینے والے ان سلفیوں کے خلاف ہوجائے جن کا کتاب وسنت پر عمل پیرا ہونااس پر آشوب اور پرفتن دور میں انگاروں پہ چلنے جیسا ہو، اور جن کے خلاف پوری دنیا سمٹ کر ایک ہوچکی ہو۔ ان سلفیوں سے میری مراد مملکہ میں رہنے والے وہ تمام لوگ ہیں جوکتاب وسنت پر منہج سلف کی روشنی میں چلتے ہیں چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا عوام سے، علماء سے ہو یا طالبانِ علوم نبوت سے۔ ریسونی صاحب نے سلفیوں کے خلاف اپنا ظالم مضمون اسی محرم الحرام کے مہینے میں چھپوایا جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے (فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ)()  کا حکم دیکر سارے مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے سختی کے ساتھ منع کردیا ہے۔ اب آگے ریسونی صاحب کے تمام الزامات اور تہمتوں کا ایک ایک کرکے جواب دیا جارہا ہے:
(۱)۔ : عنوان میں جس طرح اسلام کو سعودی کی طرف منسوب کیا گیا ہے یہ اپنے آپ میں انوکھا، نرالابلکہ عجوبۂ روزگار (Wonder) ہے۔ کیونکہ اس طرح کی اسلام کی تقسیم نہ تو ہمیں کتاب وسنت میں ملتی ہے نہ ہی سلف صالحین کے یہاں اور نہ ہی متاخرین خلف کے یہاں۔ (إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ)() کہہ کر اللہ تعالی نے تو دینِ اسلام کو صرف اپنے ہی لئے پسند کیا ہے۔
اس طرح کسی علاقے اور کسی فکر کی طرف اسلام کی نسبت کرنے کی روش صرف اور صرف موجودہ دور میں مستشرقین اور دشمنانِ اسلام ہی کی رہی ہے چنانچہ وہی لوگ ریڈیکل اسلام، معتدل اسلام، روایتی اسلام، ماڈرن اسلام اور متشدد اسلام وغیرہ کہہ کر مسلمانوں کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ایک ایک کو مارنے کی سازش رچتے رہے ہیں۔ اور بالکل اسی حرکت شنیعہ (hievous behaviorsMisc) کا ارتکاب رافضی شیعہ بھی کرتے ہیں جب اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو سنی اسلام کے ماننے والا کہہ کر پکارتے ہیں۔ جناب احمد ریسونی نے جس طرح گہرائی کے ساتھ مقاصدِ شریعت کو حاصل کیا ہے اگر وہ بھی انہیں ایسا کہنے سے نہ روک سکا تو اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے انہیں ضرور ایسا کہنے سے رکنا چاہئیے تھا: (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ)()۔ترجمہ: اے مومنو! ايسى باتيں كيوں كہتے ہو جس پر خود عمل نہيں كرتے؟ 
(۲)۔ : یہ مضمون علمی ، دعوتی اور ناصحانہ اسلوب (Moralistic Style)سے بالکل عاری صرف سیاسی اور شخصیتی مصلحتوں (Personal Rapprochements) پر مبنی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر علمی جان بالکل نہیں ہے، دلیل ووضاحت سے بالکل خالی صرف ہجومی اور نفسیاتی ہیجانی کیفیت سے پُر ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت نے جس طرح سلفی منہج اور سعودی علماء پر حملہ کیا ہے اس سے لگتا ہے موصوف کے نزدیک یہ اسلوب وفکر کوئی نیا نہیں ہے۔ تو پھر آپ نے اپنی اس نادر اور اسلام متعارض فکر کو پہلے کیوں نہیں ظاہر کیا؟ سعودیہ کے قطر اور اخوانیوں سے اختلاف کے بعد ہی کیوں ظاہر کیا؟ آخر اس سے کس طرح کے علم ودین کی خدمت مقصود ہے؟ 
تیسرے یہ کہ آپ کافی مدت تک سعودی میں گزار چکے تھے، وہ بھی هيئة کبار علماء کے ساتھ بلکہ رابطہ عالم اسلامی (Muslim World League) کے رئیس ڈاکٹر عبد اللہ ترکی کے ساتھ۔ کیا ان سعودی کبار علماء کو اس طرح کی نصیحت نہیں کر سکتے تھے؟ آخر کون سی چیز اس سے مانع اور حائل تھی؟ کیا سعودیہ سے نکلنا اور امارات (U.A.E.) کا قبول نہ کرنا حضرت کے دل میں اتنا گہرا اثر ڈال دیا کہ جس سے فکر ومنہج میں اچانک اس قدر تبدیلی آگئی جس کا تصور ایک صالح مسلمان سے ممکن نہیں ہے چہ جائیکہ ایک منجھے ہوئے عالمِ دین (Expert Scholar) سے۔ 
(۳)۔ :ریسونی کا یہ گمان کہ سلفی منہج بنام سعودی اسلام مملکہ کے سیاسی ومالی اثر ورسوخ (Political & Financial Approach) کی وجہ سے پوری دنیا میں پھیلا ہے بالکل غلط ہے بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی بھیانک علمی خیانت ہے۔ کیونکہ یہ سلفی منہج مملکہ کے پہلے دور حکومت ہی میں عالم اسلامی میں پھیل چکا تھا ۔ دوسرے ملکوں کو چھوڑئیے خود ریسونی کے ملک مراکش میں علامہ ، امام ، سلطان المغرب مولی محمد ثالث بن عبد اللہ متوفی ۱۲۰۴ھ سلفی دعوت سے متاثر تھے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے مولی سلیمان کے پاس امام سعود رحمہ اللہ نے سلفی دعوت کی تشریح (Explanation Book of Salafi Dawah) بھیجی تھی جس سے متاثر ہوکر ملک سلیمان نے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی سلفی دعوت کی حقیقتِ حال جاننے کیلئے ایک وفد بھیجا جو اس نتیجے پر پہونچا کہ یہی سلفی دعوت ہی اصل صحیح اسلام ہے۔ پھر ملک سلیمان نے اپنے پورے مملکت میں ایک عام پیغام بھجوایا جو بعینہ شیخ محمد بن عبد الوہاب اور عہد اول کے علماء سعودیہ کے منہج پر مشتمل تھا۔ ان دونوں کے علاوہ مراکش کے دوسرے سلاطین بھی اس سلفی منہج سے متاثر ہوئے۔
سلاطین کے علاوہ مراکش کے بہت سارے علماء اور رہنما بھی اس منہج سے متاثر ہوئے جن میں علامہ عبد الرحمن نُتَیفی، آپ کے بیٹے حسن بن عبد الرحمن نتیفی، علامہ بو شعیب دوکالی اور علامہ علال فاسی جیسے مراکش کے علمی میدان میں چار چاند مانے جاتے ہیں جنہوں نے دیگر مغاربہ (Moroccans) کے ساتھ وہاں کے دینی وعلمی ماحول میں خاصا اثر ڈالا ہے۔ لہذا کسی ملک کے سیاستدانوں کے ساتھ کسی نوعیت کی خصومت کی بنیاد پر ایک فقیہِ دین وملت کو یہ زیب بالکل نہیں دیتا کہ وہ پوری قوم کے منہج سے دشمنی مول لے۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت اور اسلامی دنیا پر آپ کے سلفی منہج کے اثرات (Effects) کے تعلق سے بہت ساری کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان میں سے ان پانچ کا مطالعہ خاصا فائدہ مند ہوگا: 
۱۔ حقیقة دعوة الشیخ محمد بن عبد الوهاب وأثرها فی العالم الإسلامی، تالیف: محمد بن عبد اللہ بن سلیمان السلمان۔
۲۔ عقیدة الشیخ محمد بن عبد الوهاب السلفية وأثرها فی العالم الإسلامی، تالیف: الدکتور صالح بن عبد اللہ بن عبد الرحمن العبود۔ 
۳۔ المجددون فی الإسلام من القرن الأول إلی القرن الرابع عشر الهجری، تالیف: عبد المتعال الصعیدی۔
۴۔ صیانة الإنسان عن وسوسة الشیخ دحلان، تالیف: محمد بشیر سہسوانی۔ یہ کتاب درا صل احمد زینی دحلان کی کتاب : (الدرر السنية فی الرد علی الوهابية) کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ 
۵۔ أثر الدعوة الوهابية فی الإصلاح الدینی والعمراني فی جزیرة العرب وغیرها، تالیف: الشیخ محمد حامد الفقی الازہری۔ 
اردو زبان میں بھی آپ کے منہج اور اسکے اثرات پر کافی لکھا گیا ہے البتہ ان درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کافی سود مند ہوگا:
۱۔ محمد بن عبد الوہاب : ایک مظلوم اور بدنام مصلح، تالیف: مسعود عالم ندوی۔
۲۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی سیرت، دعوت اور اثرات، تالیف: جمال الدین زرابوزو ۔ ترجمہ: اسد اللہ مدنی ۔ مراجعہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی۔
۳۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں دو متضاد نظرئیے،تالیف: شیخ محفوظ الرحمن فیضی۔
۴۔ امام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت اور علماء اہل حدیث کی مساعی، تالیف: ابو المکرم عبد الجلیل۔
۵۔ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت اہل انصاف کی نظر میں، تالیف: مولانا عبد الوہاب حجازی ، استاذ جامعہ سلفیہ بنارس۔ یہ در اصل ایک مقالہ ہے جو سہ ماہی مجلہ ترجمان السنہ /اپریل ۲۰۱۱ء میں شیخ رضاء اللہ عبد الکریم مدنی نے شائع کیا تھا۔ 
۶۔ الصواعق الإلہیۃ لطرد الشیاطین اللہابیۃ، تالیف: شیخ بشیر الدین قنوجی۔ اس کتاب کو آپ نے ایک قبور ی عالم فضل رسول بدایونی کی کتاب (البوارق المحمدیۃ) کے رد میں فارسی زبان میں لکھی تھی جسے ۱۲۹۰ھ میں شائع کیا تھا۔ اس کتاب کے اندر شیخ محمد بن عبد الوہاب ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورعلامہ محمد اسماعیل دہلوی پر اہل تقلید کے اعتراضات کا رد ہے۔ 
۷۔ سلفیت پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس مبارکپوری کی موقر کتاب: (سلفیت کا تعارف اور اسکے متعلق بعض شبہات کا ازالہ) سود مندی سے خالی نہیں ہوگا۔ 
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وللکلام بقیہ
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1470512106395405&id=100003098884948

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...