الجمعة، 19 أكتوبر 2018

سعودی نظام حکومت: افواہوں اور حقائق کے بیچ میں💥

✍بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور 
دور حاضر میں پائے جانے والی کئی طرح کی طرزِ حکومت میں سے سعودی حکومت ایک نرالی اور ممتاز حکومت ہے۔ ایسی حکومت جہاں اسلامی شریعت کا بول بالا ہے۔ ایسی حکومت جہاں ہر شعبے میں اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ ایسی حکومت جہاں قصاص اورشرعی حدود نافذ ہوتے ہیں۔ ایسی حکومت جہاں امراء اور دیگر باشندوں کے ساتھ یکساں اور مساوی قانون لاگو ہوتے ہیں۔ 
میں یہ نہیں کہتا کہ سعودی حکومت دودھ کی دھلی ہے ، وہ بے عیب ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ سعودی حکومت معصوم ہے اس سے غلطیاں نہیں ہوسکتیں۔ سعودی حکومت نہ تو دور نبوی کا نمونہ ہے اور نہ ہی خلفاء راشدین کے دور کی خلافت ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ وقت میں پائی جانے والی 56/ اسلامی ممالک میں سے سعودی حکومت سب سے بہتر اور اسلامی قوانین اور شرعی حدود نافذ کرنے کے اعتبار سے سب سے ممتاز حکزمت ہے۔ 
اس وقت دنیا میں مختلف طرز کی حکومتیں پائی جاتی ہیں:کہیں جمہوری پارلیمانی حکومت ہے تو کہیں جمہوری صدارتی حکومت، کہیں جمہوری کمیونسٹ حکومت ہے تو کہیں مطلق العنان آمرانہ حکومت، کہیں مطلق العناق شاہی حکومت ہے تو کہیں شورائی شاہی حکومت۔ اور ہر ایک حکومت کے پاس دستوری نظام ہے جس کے تحت وہ اپنے اپنے ملک میں حکومت کرتے ہیں۔ 
موجودہ حکمراں شاہ سلمان بن عبد العزیز کے آنے کے بعد جون 2017ء میں محمد بن نایف بن عبد العزیز کی جگہ ان کے بیٹے محمد بن سلمان بن عبد العزیز کے ولی عہد بننے کی وجہ سے بہت سارے حاسدین اور معارضین نے سعودی حکومت اور اسکے نظام حکومت پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیا ہے ۔ اس پر الزامات اور تہمتوں کی بارش کردی ہے۔ سعودی حکومت کو دنیا کے سامنے اس طرز میں پیش کر رہے ہیں گویا وہ کوئی آمرانہ حکومت ہو اور وہاں کا حکمراں کوئی ڈکٹیٹر ہو کہ جو شرعی قوانین سے اوپر اٹھ کر اس کے من میں جو آئے وہ کر سکتا ہو۔ چنانچہ برصغیر کا ایک تحریکی کچھ اس طرح گل افشانی کرتا ہے: (چند ماہ قبل اچانک شاہی روایات کو توڑتے ہوئے جب محمد بن سلمان کو موجود ولی عہد بن نایف کی جگہ ولی عہد مقرر کیا گیا تھا ، اس وقت سے ہی یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ بن سلمان مملکت کی پالیسیوں کو تحلیل کر کے مملکت کی منفرد شناخت کو ختم کردیں گے)۔ 
واقعی اس تحریکی کی عبارت سوائے قیاس آرائیوں کے اور کچھ نہیں ہے جیسا کہ عبارت کے اندر خود اعتراف کر لیا ہے۔ اس عبارت سے پیدا ہونے والے بہت سارے سوالات میں سے صرف تین سوالات کا ذکر کر وں گا اور پھر سعودی نظام حکومت کی وضاحت کروں گا جس سے اس تحریکی کی دشمنی اور حسد واضح ہوجائیگی۔ 
پہلا سوال:ولی عہدی کیلئے سعودی نظام حکومت میں وہ شاہی روایات کیا ہیں جنہیں محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے میں توڑ ڈالا گیا؟ آخر اس تحریکی نے ان شاہی روایات کی طرف اشارہ کیوں نہیں کیا؟ 
دوسرا سوال: مملکت کی کیا پالیسیاں اور دستور ہیں جنہیں بن سلمان نے تحلیل کر کے رکھ دیا ہے؟ 
تیسرا سوال: مملکت سعودی عرب کی وہ منفرد شناخت کیا تھی جسے بن سلمان نے ختم کردیا اور جس شناخت کی طرف حضرت نے اشارہ تک نہیں کیا؟
سعودی حکومت ایک شورائی شاہی حکومت ہے جس کا نظام دستور 1992ء /1412ھ میں وضع کیا گیاہے۔ اس دستور کے اندر 9/ ابواب پر مشتمل کل 83/ بنود (آرٹیکل) ہیں۔ اس دستور کے اندر نظام حکومت کا طریقہ بتایا گیا ہے نیز سارے باشندوں کے حقوق اور واجبات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ دستور شاہ فہد بن عبد العزیز کے دور حکومت میں بنایا گیا ہے، اور شاہ فہد ہی کے دور سے نافذ العمل ہے۔ اس دستور ساز کمیٹی کے صدر نایف بن عبد العزیز آل سعود تھے۔ (سعودی نظام دستور کی پوری تفصیل النظام الاساسی للحکم فی السعودیہ کے عنوان سے ویکیپیڈیا میں موجود ہے)۔
اسی دستور کے دوسرے باب کے تحت پانچویں آرٹیکل میں ولی عہد بنانے اور بادشاہ متعین کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ چنانچہ اس آرٹیکل میں اے ، بی، سی، ڈی اور ای کے تحت یہ اساسی قانون لکھا ہوا ہے: 
الف:/ نظام الحکم فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ ملکي۔ (مملکت سعودی عرب کے اندر نظام حکومت شاہی ہوگا)۔
ب:/ یکون الحکم فی أبناء الملک عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل آل سعود، وأبناء الأبناء، ویبایع الأصلح منہم للحکم علی کتاب اللہ وسنۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (حکومت ملک عبد العزیز آل سعود کے بیٹوں اور پوتوں میں رہے گی۔ ان میں کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق حکومت کرنے کا جو زیادہ اہل اور لائق ہوگا اسی پربادشاہ کیلئے بیعت کی جائے گی)۔
ج:/یختار الملک ولی العہد، ویعفیہ بأمر ملکي۔ (بادشاہ ہی ولی عہد بنائے گا، اور شاہی فرمان ہی سے ولی عہد معزول ہوگا)۔
د: /یکون ولی العہد متفرغاً لولایۃ العہد وما یکلفہ بہ الملک من أعمال۔ (بادشاہ کی تمام دی ہوئی ذمے داریوں کو نبھانے کیلئے ولی عہد ہمیشہ فارغ رہے گا )۔
ہ:/یتولی ولی العہد سلطات الملک عند وفاتہ حتی تتم البیعۃ۔ (بادشاہ کی وفات کی صورت میں عبوری ذمیداری ولی عہد ہی نبھائے گا جب تک کہ بادشاہ کیلئے اس کی بیعت نہ ہوجائے )۔
نظام بیعت، حکومت کی منتقلی نیز بادشاہ اور ولی عہد متعین کرنے کے طریقے سے متعلق اس دستور کے اندر اکتوبر 2006ء میں شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز آل سعود کے دور حکومت میں کچھ تبدیلیاں لائی گئیں جس کیلئے شاہ عبد اللہ نے (ہیئۃ البیعۃ) نامی ایک کمیٹی کی تشکیل دی اور اسی کی ذمیداری میں دستور کے اندر ترمیم کے سارے امور انجام پائے۔ چنانچہ 20/ اکتوبر 2006ء کے دن جس ترمیم شدہ دستور کا اعلان کیا گیا اس کی کچھ ان خاص شکلوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جن کا تعلق بادشاہی اور ولی عہدی سے متعلق ہے:
1۔ آرٹیکل نمبر 5 (بی) کے تحت یہ کہا گیا ہے:(تتم البیعۃ لمبایعۃ الملک واختیار ولی العہد وفقاً لنظام ہیءۃ البیعۃ) یعنی بیعت کمیٹی کے نظام کے تحت بادشاہ اور ولی عہد کو متعین کیا جائے گا۔ (گویا اس ترمیم شدہ دستور سے واضح ہوگیا کہ اب ولی عہد کی نامزدگی اور معزولی شاہی فرمان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی ذمیداری بیعت کمیٹی پر ہوگی)۔
2۔ بیعت کمیٹی کے صدر اور جنرل سکریٹری کے سامنے تمام ذمیداران مملکت درج ذیل الفاظ میں حلف برداری کریں گے: 
(أقسم باللہ العظیم أن أکون مخلصاً لدینی ثم لملیکی وبلادی، وأن لا أبوح بسر من أسرار الدولۃ، وأن أحافظ علی مصالحہا وأنظمتہا، وأن أحرص علی وحدۃ الأسرۃ المالکۃ وتعاونہا وعلی الوحدۃ الوطنیۃ، وأن أودی أعمالی بالصدق والأمانۃ والإخلاص والعدل) ترجمہ: میں اللہ عزوجل کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے دین، بادشاہ اور ملک کیلئے مخلص رہوں گا، اور ملک کے کسی بھی راز کا افشا نہیں کروں گا۔ ملک کی تمام مصلحتوں اور اسکے قوانین کی حفاظت کروں گا۔ میں اس بات کی پوری کوشش کروں گا کہ اسرۂ مالکہ متحد اور آپس میں متعاون رہے نیز قومی وحدت باقی رہے۔ اور میں سچائی، امانت داری ، اخلاص اور عدل وانصاف کے ساتھ اپنی ذمیداری نبھاتا رہوں گا۔ 
3۔ (عند وفاۃ الملک تقوم الہیءۃ بالدعوۃ إلی مبایعۃ ولی العہد ملکاً علی البلاد وفقاً لہذا النظام والنظام الأساسی للحکم) یعنی بادشاہ کی وفات کے وقت بیعت کمیٹی ولی عہد سے بادشاہی کی بیعت لے گی اسی ترمیم شدہ نظام اور ما قبل دستور اساسی کی روشنی میں۔
4۔ (یختار الملک بعد مبایعتہ وبعد التشاور مع أعضاء الہیئۃ واحداً أو اثنین أو ثلاثۃ ممن یراہ لولایۃ العہد ویعرض ہذا الاختیار علی الہیئۃ وعلیہا بذل الجہد بالوصول إلی ترشیح واحد من ہؤلاء بالتوافق لتتم تسمیتہ ولیاً للعہد۔ وفی حالۃ عدم ترشیح الہیئۃ لأی من ہؤلاء فعلیہا ترشیح من تراہ ولیاً للعہد)۔ 
ترجمہ: بادشاہ کو یہ اختیار ہوگا کہ بیعت ہوجانے کے بعد بیعت کمیٹی کے تمام ارکان سے رائے مشورہ کرکے ولی عہد کیلئے ایک ، دو یا تین افراد کو نامزد کر دے ، پھر ان افراد کو بیعت کمیٹی پر پیش کرے ۔ اب بیعت کمیٹی پر واجب ہوگا کہ وہ ہر طرح کوشش کرکے ان افراد میں سے ایک کی نامزدگی پر متفق ہوجائے تاکہ اسے ولی عہد بنایا جائے ۔ اور اگر بادشاہ کے اختیار کردہ ان افراد پر بیعت کمیٹی نامزدگی کیلئے تیار نہ ہوسکے تو اس بیعت کمیٹی کو اختیار ہوگا کہ (دستوراساسی کے آرٹیکل 5 کے بی کے تحت) وہ جسے چاہے ولی عہد نامزد کردے۔ 
5۔ للملک فی أی وقت أن یطلب من الہیءۃ ترشیح من تراہ لولایۃ العہد۔ وفی حالۃ عدم موافقۃ الملک علی من رشحتہ الہیئۃ وفقاً لأی من الفقرتین (أ) و (ب) من ہذہ المادۃ فعلی الہیئۃ التصویت علی من رشحتہ، وواحد یختارہ الملک وتتم تسمیۃ الحاصل من بینہما علی أکثر الأصوات ولیاً للعہد۔ 
ترجمہ: بادشاہ کو اختیار ہوگا کہ وہ بیعت کمیٹی کو ولی عہدی کی نامزدگی کیلئے کسی بھی وقت طلب کرے۔ لیکن آرٹیکل 5 کے اے اور بی کے تحت اگر بادشاہ کسی وجہ سے بیعت کمیٹی کی نامزدگی سے متفق نہ ہو تو ایسی صورت میں بیعت کمیٹی پر یہ واجب ہوگا کہ اس نے جس فرد کو نامزد کیا ہے اس کے درمیان اور بادشاہ کے اختیار کردہ فرد کے درمیان ووٹنگ کرائے ، پھر ان دونوں میں سے جو سب سے زیادہ ووٹ پائے اسی کو ولی عہد نامزد کردیا جائے۔
6۔ فی حالۃ وفاۃ الملک وولی العہد فی وقت واحد تقوم الہیئۃ خلال مدۃ لا تتجاوز سبعۃ أیام لاختیار الأصلح للحکم من أبناء الملک المؤسس عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل آل سعود، وأبناء الأبناء، والدعوۃ إلی مبایعتہ ملکاً علی البلاد وفقاً لہذا النظام والنظام الأساسی للحکم۔
ترجمہ: اگر کبھی بادشاہ اور ولی عہد دونوں ایک ہی وقت میں فوت ہوجائیں تو بیعت کمیٹی پر واجب ہوگا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر بانئ مملکہ ملک عبد العزیز کے بیٹوں اور پوتوں میں سے حکومت کرنے کے اعتبار سے سب سے زیادہ لائق وفائق فرد کو نامزد کردے، پھر اس ترمیم شدہ دستور اور ملک کے دستور اساسی کے مطابق اسی سے بیعت لیکر ملک کا بادشاہ بنا دے۔ 
7۔یرأس الہیئۃ أکبر الأعضاء سنا من أبناء الملک المؤسس عبد العزیز بن عبد الرحمن الفصیل آل سعود، وینوب عنہ الذی یلیہ فی السن من إخوتہ وفی حالۃ عدم وجود أی منہم یرأس الاجتماع أکبر الأعضاء سنا من أبناء الأبناء فی الہیئۃ۔
ترجمہ: بیعت کمیٹی کا صدر اعلی آل سعود میں سے وہ شخص ہوگا جو بانئ مملکہ کے بیٹوں میں عمر کے اعتبار سے سب سے بڑا ہو، اور اس کا نائب وہ شخص ہوگا جو عمر میں اسی کے بھائیوں میں سے اس کے بعد چھوٹا ہو۔ ان بھائیوں کی عدم موجودگی میں بیعت کمیٹی کے اجلاس کی سربراہی ارکان کمیٹی میں سے وہ شخص کرے گا جو بانئ مملکہ کے پوتوں میں عمر کے اعتبار سے سب سے بڑا ہو۔ 
8۔ یتم التصویت علی قرارات ہیءۃ البیعۃ عن طریق الاقتراع السری وفق نموذج یعد لہذا الغرض۔
ترجمہ: بیعت کمیٹی کی طرف سے قرار پاس ہونے کے بعد ہی ووٹنگ کا عمل شروع ہوگا ، اور یہ ووٹنگ کا عمل اس راز دارانہ طریقے (Secret Ballot)سے ہوگا جسے خاص اسی مقصد کیلئے تیار کیا گیا ہے۔
سعودی عرب کے اس نظام دستور سے ہر قاری کو یہ اندازہ ہوگیا ہو گا کہ شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے بعد سعودی عرب میں بادشاہ بننے یا ولی عہد کی نامزدگی میں آخری فیصلہ صرف اور صرف اس بیعت کمیٹی کے پاس ہے جس میں تقریباً آل سعود کے تمام افراد شامل ہیں۔ اور انہیں کے کامل اتفاق سے آل سعود میں سے کوئی بھی وہاں کا بادشاہ اور ولی عہد بن سکتا ہے۔ بادشاہ اور ولی عہد بننے کے بعد ہی ان دونوں کے پاس سارے اختیارات منتقل ہوتے ہیں جس طرح کہ دیگر تمام ملک میں صدر ملک اور وزیر اعظم کو منتخب ہوجانے کے بعد ملک کے سارے اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں۔ 
چنانچہ اسی دستور کے مطابق بادشاہ کو جو اختیارات حاصل تھے ان کو استعمال کرتے ہوئے شاہ سلمان بن عبد العزیز نے21/جون 2017ء کے دن نئے ولی عہد مقرر کرنے کیلئے بیعت کمیٹی کو حکم دیا ۔ چنانچہ بیعت کمیٹی کے ذریعہ ولی عہد محمد بن نایف اور نائب ولی عہد محمدبن سلمان کے درمیان ووٹنگ کی گئی جس میں محمد بن سلمان کو 34/ارکان میں 31/ ارکان نے ووٹ دئیے ۔ اس طرح محمد بن سلمان اکثر ووٹ حاصل کرکے بالاتفاق مملکت سعودی عرب کے ولی عہد بن گئے۔ 
اور اسی تاریخ میں شاہ سلمان کے حکم سے سعودی دستور اساسی میں پانچویں آرٹیکل کے (بی) کے اندر ترمیم کرکے کچھ اضافہ کیا گیا جو ا سطرح ہے: (ولا یکون من بعد أبناء الملک المؤسس ملکاً وولیاً للعہد من فرع واحد من ذریۃ الملک المؤسس)۔ ترجمہ: مملکت کے بانی ملک عبد العزیز کے بیٹوں کے بعد آپ کی ایک ہی اولاد کی شاخ میں سے بیک وقت بادشاہ اور ولی عہد دونوں نہیں ہوسکتے۔ 
اس ترمیمی اضافے کا واحد مقصد یہ ہے کہ موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان کے بادشاہ بننے کی صورت میں ان کیلئے یہ بالکل ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اپنے والد کی شاخ میں سے اپنے سگے بھائیوں ، بھتیجوں یا بیٹوں میں سے کسی کو ولی عہد بنا سکیں۔ گویا یہ اضافہ شاہ سلمان کے بے انتہا مخلصانہ اور مدبرانہ حکمت علمی پر دلالت کرتا ہے ۔ جہاں ایک طرف اس ترمیمی اضافے سے اسرۂ مالکہ آل سعود کے تمام افراد خوش اور مطمئن ہیں ، وہیں دوسری طرف یہ اضافہ مملکت کے حاسدین اور معارضین کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ بھی ہے کہ جو آل سعود کے درمیان خانہ جنگی اور آپسی پھوٹ وفساد کے متمنی تھے یہ دیکھ کر خاموش ہوگئے بلکہ شاہ سلمان کے اس اضافی ترمیم شدہ شق کو میڈیا میں بیان ہی نہیں کرتے۔ بلکہ روافض کی غلامی کرتے ہوئے صرف ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ شاہ سلمان نے سابقہ تمام روایات کو توڑ کر اور اپنے آمرانہ اختیار کو استعمال کرکے موجودہ ولی عہد کو ہٹادیا اور ان کی جگہ اپنے پیارے بیٹے محمد کو ولی عہد نامزد کرکے اپنی اولاد میں بادشاہت کو منحصر کردیا۔جس سے شاہی گھرانے میں اختلاف اور فساد کا ہونا طے تھا اس لئے راتوں رات انٹی کرپشن کمیٹی بناکر سارے باغی شہزادوں کو قید کردیا۔ اس طرح سعودی ایک متوقع بغادت سے ایک بار پھر بچ گیا۔ 
واقعی یہ کسی ناول نگار کا گپ یا کسی گوبلز کی بکواس تو ہوسکتا ہے البتہ سعودی حکومت کے تعلق سے صحیح تجزیہ بالکل نہیں ہوسکتا ۔ ایسے ہی ایک تحریکی نے اپنی حسد وجلن کی آگ بجھاتے ہوئے تبصرہ کیا کہ: (سعودی عرب میں وہی کھیل شروع ہوگیا ہے جو آج سے 300 سال پہلے ہندوستان کے مغل بادشاہ کھیل چکے ہیں۔ پہلے اقتدار کیلئے محمد بن نایف جیسے تجربہ کار کو ہٹاکر اپنے ناتجربہ کار ضدی بیٹے کو ولی عہد بنایا۔ محمد بن نایف کو نظر بند کیا۔ قطر کی ناکہ بندی جیسا قدم اٹھایا جس نے پوری دنیا میں سعودی عرب کو ایک ضدی ناعاقبت اندیش مملکت کی پہچان دلائی۔ اب آج سعودی عرب کے شاہی خاندان کے بعض افراد اور وزراء کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری۔ یہ ساری چیزیں یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ محمد بن سلمان نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ اگر انہوں نے قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ پڑھی ہوتی تو شاید ان کا رویہ دوسرا ہوتا)۔ 
گویا اس تحریکی نے ایک ساتھ اپنا سارا درد بیان کردیا۔ گرفتاری کامسئلہ ہو یا قطر پابندی کا انہیں دوسری جگہ دیکھا جائے گا، ابھی تو سر دست صرف اسی بات کی وضاحت مطلوب ہے کہ محمد بن سلمان کی ولی عہدی کس صورت میں عمل میں آئی نیز کیا یہ ولی عہدی شاہ سلمان کے آمرانہ اختیار کے نتیجے میں ہوئی یا سابق شاہ عبد اللہ کی بنائی ہوئی شاہی بیعت کمیٹی کے ذریعہ ووٹنگ کراکے ہوئی۔ قارئین کو اچھی طرح معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ ولی عہدی صرف اورصرف بیعت کمیٹی کے ذریعہ ووٹنگ کراکے عمل میں آئی ہے۔ اور ساتھ ہی شاہ سلمان کے مدبرانہ سوچ ، حکمت عملی، دور اندیشی، اخلاص ، عدم حرص نیز شرعی پابندی کا اندازہ بھی ہوا ہوگا۔ شاہ سلمان چاہتے تو بادشاہ بننے اور ولی عہد منتخب کرنے میں پانچویں آرٹیکل کے اندر ترمیمی اضافہ نہ کرتے اور اس طرح ولی عہد محمد بن سلمان۔ بادشاہ بننے کی صورت میں۔ چاہتے تو اپنے بیٹے یا سگے بھائی کو ولی عہد نامزد کر سکتے تھے، اور اس طرح بانئ مملکت کے ایک ہی شاخ میں حکومت منحصر ہوجاتی اور بقیہ شاخیں حکومت سے محروم ہوتیں۔ لیکن شاہ سلمان نے اپنے اس مدبرانہ اور مخلصانہ عمل کے ذریعے ان سارے خدشات کو ختم کردیا۔ 
سعودی نظام حکومت میں بادشاہ اور ولی عہد کے انتخاب کے تعلق سے فاضل دوست ڈاکٹر سعید احمد حیات المشرفی نے ایک تحریکی کے جواب میں کہا کہ : حقیقت یہ ہے کہ شاہ عبد اللہ رحمہ اللہ نے مملکت کے مستقبل کو سیاسی اتھل پتھل سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک تاریخی قدم اٹھایا اور شاہ عبد العزیز کے بیٹوں اور (بیٹے نہ ہونے کی صورت میں) ان کے سینئر پوتوں میں سے 24 /رکنی بورڈ آف بیعت (ہیءۃ البیعۃ) کی بنیاد ڈالی۔ جس کی سب سے بڑی ذمیداری بادشاہ اور ولی عہد کا انتخاب ہے۔ اس بورڈ کے ارکان کی اکثریت کی منظوری کے بغیر کوئی بادشاہ بن سکتا ہے اور نہ ولی عہد، او رنہ ہی نائب ولی عہد۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ عبد اللہ کا یہ ایک تاریخ ساز کارنامہ تھا۔ اسی بورڈ نے شاہ سلمان کو ولی عہد اور پھر بادشاہ بنایا، اور اسی نے امیر محمد بن نایف کو اپنے ولی عہد چچا امیر مقرن بن عبد العزیز کا نائب بناکر بڑی آسانی سے حکومت کو شاہ عبد العزیز کے بیٹوں کے بعد ان کے پوتوں میں منتقل کردیا۔ اور دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی اور سعودیہ کے حاسدین کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ کیونکہ سعودی عرب کے دشمن ایک طویل مدت سے اس تاریخی لمحے کا نہایت بے قراری اور بے صبری سے انتظار کر رہے تھے کہ سعودی عرب میں جب حکومت بھائیوں سے بھتیجوں میں منتقل ہوگی تو بہت زیادہ خون خرابہ ہوگا، اور پورا سعودی عرب خانہ جنگی میں مبتلا ہوجائیگا، اور اس طرح آل سعود ختم ہوجائیگے۔ اس موضوع پر شاہ فہد بن عبد العزیز رحمہ اللہ ہی کے زمانے سے پوری دنیا میں ہزاروں کتابیں سیاہ کی گئیں۔ ٹی وی چینلوں پر لاکھوں ڈیبیٹ ہوئیں اور سوشل میڈیا پر لاکھوں جھوٹی افواہیں اور خبریں نشر کی گئیں۔ لیکن پھر بھی! اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! دشمن اپنا منہ بسور اور دل مسوس کر رہ گئے۔ اللہ کے فضل وکرم سے قافلہ سلامتی کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور کتے بھونکتے رہ گئے)۔
مذکورہ حقائق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اگر کوئی تحریکی یا تقلیدی سعودی نظام حکومت کے بارے میں پروپیگنڈہ کرے تو اس کی عقل پر یاتو ماتم کیا جائے گا یا پھر اسے روافض کی طرح مملکت کا جانی دشمن ہی تصور کیا جائے گا۔ اب میں ذیل میں اس بات کی وضاحت کروں گا جس پر تحریکی وتقلیدی ٹولہ اپنے اپنے خدشات کا اظہار اور ساتھ ہی اپنی اپنی قیاس آرائیوں، ظنون و اوہام اور فرضی تصورات کی روشنی میں الزامات اور تہمتوں کی بارش گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں ۔
وہ یہ ہے کہ کیا سعودی نظام حکومت آمرانہ حکومت ہے؟ کیاآل سعود شرعی اور اسلامی طریقے سے ہٹ کر حکومت کرتے ہیں؟ کیا سعودی نظام حکومت کا مقصد اور نصب العین صرف آل سعود کی حکومت کو ہر صورت میں باقی رکھنا ہے نہ کہ عوام کے حقوق وواجبات سے کچھ لینا دینا؟ چنانچہ یہ وہ الزامات واتہامات ہیں جنہیں روافض کے ساتھ ساتھ سارے تحریکی اور تقلیدی ٹولے بھی سعودی حکومت پر تھوپتے رہتے ہیں۔
چنانچہ یہ واضح ہونا چاہئیے کہ یہ سب مملکہ کے حاسدین اور معارضین کی طرف سے محض جھوٹے پروپیگنڈے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی نظام حکومت خالص شرعی بنیادوں پر یعنی اللہ کی کتاب قرآن پاک اور آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان حدیث پاک پر رکھا گیا اور شروع سے آج تک اللہ عز وجل کی مدد اور اسکے فضل وکرم سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ذیل میں سعودی دستور اساسی کی روشنی میں اسی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کروں گا:
1۔ سعودی دستور اساسی کے دوسرے باب کے تحت آرٹیکل نمبر 7 میں یہ وضاحت ہے: (یستمد الحکم فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ سلطتہ من کتاب اللہ تعالی وسنۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم، وہما الحاکمان علی ہذا النظام وجمیع أنظمۃ الدولۃ۔) ترجمہ: حکومت سعودی عرب کے اندر حکمرانی کا ماخذ ومرجع صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ہے، اورسعودی عرب کے نظام حکومت اور اس کے تمام شعبہ جات پر انہیں دونوں کو بالا دستی حاصل ہے۔
2۔ اسی باب کے تحت آرٹیکل نمبر۸ میں یہ وضاحت بھی ہے: (یقوم الحکم فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ علی أساس العدل والشوری والمساواۃ، وفق الشریعۃ الإسلامیۃ۔) ترجمہ: مملکت سعودی عرب کے اندر حکمرانی شریعت اسلامیہ کے مطابق عدل وانصاف، شورائیت اور مساوات پر قائم ہے۔
3۔ چوتھے باب کے تحت آرٹیکل نمبر21 میں زکاۃ کے نفاذ کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: (تُجبی الزکاۃ وتنفق فی مصارفہا الشرعیۃ۔) ترجمہ: حکومت کی جانب سے زکاۃ کی وصولی کی جائے گی اور پھر اسے شریعت کے بتائے ہوئے مصرف میں خرچ کیا جائے گا۔ (اسی دستور کے مطابق پورے سعودی میں جگہ جگہ سرکاری رفاہی ادارے قائم ہیں جہاں سے مستحقین زکاۃ رجوع کرکے اپنا حق حاصل کرتے رہتے ہیں)۔
4۔ پانچواں باب سارے باشندوں کے حقوق وواجبات کے لئے خاص ہے۔ اسی باب کے تحت آرٹیکل نمبر23 میں یہ وضاحت ہے: (تحمی الدولۃ عقیدۃ الإسلام وتطبق شریعتہ، وتأمر بالمعروف وتنہی عن المنکر، وتقوم بواجب الدعوۃ إلی اللہ۔)ترجمہ: حکومت اسلامی عقیدے کی حفاظت کرے گی، شریعت کو نافذ کرے گی، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے گی نیز دعوت الی اللہ کے واجبات کو پورا کرے گی۔ 
5۔ اسی باب کے تحت آرٹیکل نمبر 24 میں حرمین شریفین کے تعلق سے حکومت کی ذمیداری کو ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے: (تقوم الدولۃ بإعمار الحرمین الشریفین وخدمتہما، وتوفر الأمن والرعایۃ لقاصدیہما بما یمکن من أداء الحج والعمرۃ والزیارۃ بیسر وطمانینۃ)۔ ترجمہ: حرمین شریفین کو جن خدمات کی ضرورت ہوگی انہیں حکومت ہر طرح سے پورا کرے گی، اور حج، عمرہ اور زیارت کسی بھی مقصد سے آنے والے تمام لوگوں کے امن وسلامتی کی خاطر حکومت حرمین پر پوری توجہ دے گی تاکہ لوگوں کیلئے ہر طرح کی سہولت اور اطمینان میسر ہوسکے۔ 
6۔ اسی باب کے تحت حقوق انسانی کی وضاحت آرٹیکل نمبر 26 میں اس طرح کیا گیا ہے: (تحمی الدولۃ حقوق الإنسان وفق الشریعۃ الإسلامیۃ۔)ترجمہ: اسلامی شریعت کے مطابق حکومت سعودی عرب حقوق انسانی کی ہر طرح حفاظت کرے گی۔ 
7۔ اسلامی دفاع کے بارے میں اسی باب کے تحت آرٹیکل نمبر 33 میں اس طرح وضاحت ہے: (تنشئ الدولۃ القوات المسلحۃ وتجہزہا من أجل الدفاع عن العقیدۃ والحرمین الشریفین والمجتمع والوطن۔) ترجمہ: اسلامی عقیدہ، حرمین شریفین، سماج اور وطن کی حفاظت اور ان کی دفاع کی خاطر حکومت مسلح افواج بناکے تیار رکھے گی۔ 
8۔ سعودی دستور اساسی کے چھٹے باب کو حکومت کے انتظامی ، قانونی اور تنفیذی ڈھانچے کیلئے خاص کیا گیا ہے۔ باشندوں کی خوشحالی اور امن وسلامتی کی خاطر دوسرے ممالک کی طرح سعودی نظام حکومت کو بھی انتظامیہ ، عدلیہ اور مقننہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں ۔ کوئی کسی میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ ہر تینوں جگہ شرعی اصولوں اور اسلامی قوانین کی پابندی ضروری ہے ۔ چنانچہ اسی باب کے تحت آرٹیکل نمبر 45 میں شرعی اصولوں کی پابندی کی وضاحت ان الفاظ میں آئی ہے: (مصدر الإفتاء فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ کتاب اللہ وسنۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ویبین النظام ترتیب ہیئۃ کبار العلماء وإدارۃ البحوث العلمیۃ والإفتاء واختصاصاتہا۔) ترجمہ: مملکت سعودی عرب کے اندر فتوی دینے کا مرجع ومصدر صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ہوگا۔ اس مقصد کیلئے کبار علماء کی کمیٹی، علمی بحوث، افتاء اور ان کے اختصاص کے ادارے کی ترتیب وتنظیم کی وضاحت حکومت کی طرف سے ہوگی۔ 
9۔ اسی باب کے آرٹیکل نمبر46 میں عدلیہ کی بالا دستی کی ان الفاظ میں وضاحت آئی ہے: (القضاء سلطۃ مستقلۃ، ولا سلطان علی القضاء فی قضاۂم لغیر سلطان الشریعۃ الإسلامیۃ۔)ترجمہ: عدلیہ ایک مستقل اتھارٹی ہے، بلا شرعی اتھارٹی کے اسکے فیصلوں پر کسی کو اختیار نہیں ہوگا۔ 
10۔ نیز اسی باب کے آرٹیکل نمبر 48 میں عدلیہ پر کتاب وسنت کی بالا دستی کو بھی ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے: (تطبق المحاکم علی القضایا المعروضۃ أمامہا أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ وفقاً لما دل علیہ الکتاب والسنۃ، وما یصدرہ ولی الأمر من أنظمۃ لا تتعارض مع الکتاب والسنۃ۔) ترجمہ: عدالتوں کے اندر پیش کئے گئے تمام قضیے (Cases) میں کتاب وسنت کی روشنی میں احکام شریعت کو نافذ کیا جائے گا ۔ اور اسی طرح حاکم وقت کی طرف سے جو نظام پیش کئے جائیں گے انہیں بھی کتاب وسنت سے متعارض نہ ہونے کی صورت میں عدالتیں نافذ کریں گی۔ 
مذکورہ بیانات سے واضح ہوا کہ مملکت سعودی عرب کے اندر اسلامی شریعت کے مطابق جو دستور نافذ ہے وہ دنیا کے موجود تمام 56/ مسلم ممالک میں کہیں نہیں پایاجاتا ہے۔ ان حقائق کو چھپا کر اگر سعودی نظام کو رافضی ، تحریکی اور تقلیدی افواہوں اور پروپیگنڈوں میں گم کر دیا جائے تو یقیناً سعودی نظام دیگر تمام شاہی حکومتوں کی طرح شمار ہوگا ، اور یہی مملکہ کے تمام حاسدین اور معارضین کا نصب العین بھی ہی ہے۔ لیکن پروپیگنڈوں سے حقائق نہیں چھپتے ، وہ معروف محاورہ (وبضدہا تتبین الأشیاء) کے تحت کبھی نہ کبھی روز روشن کی طرح واضح ہو ہی جاتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت مملکہ اور اسکے حکمراں کو کتاب وسنت اور منہج سلف پر قائم ودائم رکھے، انہیں تمام حاسدین اور معارضین کے شر سے محفوظ رکھے ، وہاں کتاب وسنت کی بالادستی قائم رہے ، حرمین شریفین کو موجودہ دور کے ابرہوں کی نظر بد سے بچائے، نیز وہاں ہر طرح کی خوشحالی اور امن وسلامتی باقی رہے۔ آمین
http://www.siyasitaqdeer.com/newspaper-view.php?newsid=10816&date=2017-11-19

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1477137992399483&id=100003098884948

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...