الاثنين، 28 أكتوبر 2024

علماء کا شخصی ارتقاء ضرورت وافادیت

 علماء کا شخصی ارتقاء، ضرورت وافادیت

د/ اجمل منظور المدنی 

وکیل جامعۃ التوحید بھیونڈی ممبئی 


الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الصادق الامین، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، وبعد! 


1-علماء اور انکا مقام:

سوال یہ ہے کہ حقیقی علماء کون ہیں؟

- حقیقی معنوں میں علماء وہ ہیں کتاب وسنت کا جنہیں زیادہ علم ہو؛ کیونکہ دین قال اللہ اور قال الرسول یعنی کتاب وسنت کا نام ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :(إنِّي قد تَرَكْتُ فيكُمْ شَيْئَيْنِ لن تَضِلُّوا بَعْدَهُما: كتابَ اللهِ وسُنَّتي، ولن يَتَفَرَّقا حتّى يَرِدا عَلَيَّ الحَوْضَ) ترجمہ : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں انہیں اگر مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ہے یہ دونوں کبھی الگ نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ میرے پاس ہاؤس پر ا کر مجھ سے ملیں گی۔ (المستدرك على الصحيحين:٣٢٣)

- حقیقی علماء وہ ہیں جو منہج سلف کا پیکر ہوں۔ اہل بدعت اور منحرف علماء نہیں جو دین اسلام  اور مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔

- اسی طرح حقیقی علماء وہ ہیں جو تقوی شعار اور خشیت الہی سے معمور ہوں؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ) ترجمہ : اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ (فاطر :28)۔ 

- اسی طرح حقیقی علماء وہ ہیں جنہیں فقہ الواقع اور مدعو کی زمینی حقائق کا ادراک ہو؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ) ترجمہ : اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں۔ (النساء :83)۔ 


عند اللہ علماء کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟

امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ علماء کرام نے انجام دیا ہے او رہر دور میں  اللہ تعالی نے ایسے  علماء پیدافرمائے ہیں جنہوں نے  امت کو خطرات سےنکالا ہے اوراس کی  ڈوبتی  ہوئی  کشتی  کو پار لگانے کی کوشش کی ہے ۔ اسلامی تاریخ ایسے افراد سے روشن ہے  جنہوں نے  حالات کو سمجھا  اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے  لیے  اور ان کو صحیح رخ  پر لانے  کے لیے  ہر طرح کی قربانیاں دیں  جو اسلامی تاریخ کا  ایک سنہرا باب ہے۔ 

اللہ تعالی نے علماء کے مقام کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ) ترجمہ : اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔ (المجادلہ:11)۔ اسی طرح مزید ارشاد فرمایا :(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ) ترجمہ : کہہ دیں کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (الزمر:9)۔ 

اسی طرح علم اور علماء کے مقام کو واضح کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ) ترجمہ : جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم : 2699)۔ 


2- شخصی ارتقاء :

*انسانی شخصیت:

انسانی شخصیت(Personality) کا ایک جسمانی روپ ہوتا ہے جو اس کے ظاہری جسم، اعضاو جوارح اور اس کے جسمانی خدوخال کی شکل میں سامنے ہوتا ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا روپ کرداری ہوتا ہے جواسی انسان کے برتاو، رویوں اور اخلاق وکردار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ شخصیت کاپہلاروپ وقتی اور عارضی ہوتا ہے مثلا کوئی انسان جسمانی طور پر بہت خوب صورت اور جاذب نظر ہو تو وقتی طورپر لوگوں کی توجہ حاصل کرسکتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ روپ زوال پذیر ہوناشروع ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا کرداری روپ اگر اعلی اخلاقی اقدار اور اچھے کردار پر مشتمل ہوتو اس کاحسن اور اس کے اثرات طویل المدت ہوتےہیں۔

جب ہم پوری شخصیت کی تعمیر کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر انسانی شخصیت کے یہ دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ ظاہر میں نظرآنے والے جسمانی روپ کی تہذیب بھی ضروری ہے مثال کے طور پر صفائی ستھرائی، ہاں یہ صفائی ستھرائی چہرے اور بدن کا ہو یا ڈریس کا ہو لباس شرعی ہو، چہرے پر مسکراہٹ اور گفتگو شیریں ہو۔ 

اور ساتھ ہی اس جسمانی روپ میں نکھار ،خوب صورتی ،اعلی خصوصیات اور دوام پیدا کرنے والا کرداری روپ کی اصلاح بھی ناگزیر ہے تاکہ بلند اخلاق پیش کرکے اپنے مدعو پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ 

چنانچہ جہاں ایک طرف اللہ تعالی نے انسان کے جسمانی روپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:(وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ) ترجمہ : اور تمھاری صورت بنائی تو تمھاری صورتیں اچھی بنائیں اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، یہ ہے اللہ تمھارا رب، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (غافر:64)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ) ترجمہ : پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کر دیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو بنانے والوں میں سب سے اچھا ہے۔ (المؤمنون:14)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ[7] فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ) ترجمہ : وہ اللہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر درست بنایا، پھر درمیانہ قد و قامت بخشا، خوش شکل اور خوبصورت بنایا. (الانفطار :18)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ) ترجمہ : یقینا ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں پیدا کیا ہے۔ (التين:4)۔ 

تو دوسری طرف انسان کے کرداری روپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : (لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ) ترجمہ : اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔ (الحج:37)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ) ترجمہ : اور تم نیکی میں سے جو بھی کرو گے اللہ اسے جان لے گا اور زاد راہ لے لو کہ بے شک زاد راہ کی سب سے بہتر خوبی(سوال سے) بچنا ہے اور مجھ سے ڈرو اے عقلوں والو!

(البقرة:197)۔ 


- محلوقات باری میں انسان کا مقام:

انسان کی دوسری مخلوقات پر برتری کی وجہ: 

اللہ تعالی نے انسان کو کائنات کی دیگر مخلوقات پر فوقیت عطا فرمائی ہے چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا: (وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا) ترجمہ : اور بلاشبہ یقینا ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی اس میں سے بہت سوں پر انھیں فضیلت دی، بڑی فضیلت دینا۔ [الإسراء : 70]۔ 

دیگر مخلوقات پر یہ فضلیت انسان کو علم، عقل وشعور،غوروفکرکی صلاحیت اور اخلاق وکردار کی وجہ سے عطاہوئی ہے کیونکہ یہ چیزیں انسان ہی کی امتیازی خصوصیات ہیں۔چنانچہ انسان اپنی ان صلاحیتوں کی بناپر دنیا کی ہرمخلوق کو کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے چاہے وہ مخلوق انسان سے جسمانی طورپر زیادہ طاقت ور ہی کیوں نہ ہو ۔

 

- شخصی فضیلت کا معیار :

انسانوں میں فضیلت کا معیار:

افراد انسانی کے درمیان باہمی فضلیت کی اگر بات کی جائے تو اللہ کے ہاں سب سے زیادہ فضلیت والا انسان وہ ہےسب سے زیادہ متقی اور اعلی کردار والا ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انسا ن کو اپنی پوری شخصیت کی تعمیر پر کام کرنا پڑتا ہے یعنی ظاہری جسم ، لباس وپوشاک کی تہذیب ودرستگی کے علاوہ تہذیب نفس اور بلندکرداری پربھی باقاعدہ کام کرنا پڑے گا۔

اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : (إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ) ترجمہ : یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ تقوی والا ہے، یقینا اللہ تعالی ہر چیز جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ (الحجرات:13)، 

اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ، وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ، وَأَعْمَالِكُمْ) ترجمہ : یقینا اللہ تعالی نہ تو تمہاری شکلوں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہارے مال و دولت کو بلکہ وہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔  اسی طرح ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور اسی طرح نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ ہی کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت ہے سوائے تقوی کے۔ 


- شخصی ارتقاء کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں :

شخصی ارتقاء اور تعمیر شخصیت کی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں درپیش ہوں گی جن میں تین رکاوٹیں بہت اہم ہیں:

الف: نفس امارہ: 

یہ انسان کا داخلی دشمن ہے جو ہما وقت ہے اسے برائیوں کی طرف مائل کرتا ہے اور شہوات و شبہات میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ) ترجمہ : اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (يوسف:53)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا[7] فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا[8] قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا[9] وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا)ترجمہ : اور نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے ٹھیک بنایا! [7] پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری ( کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔ [8] یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے اسے پاک کرلیا۔ [9] اور یقینا وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دبا دیا۔ (الشمس:10)۔ 

معلوم ہوا کہ داخلی محاذ کو محفوظ رکھنے کے لئے نفس امارہ پر قابو پانا ضروری ہے۔ 

ب- خارجی ماحول: 

اس خارجی دشمن میں سب سے خطرناک کردار بری صحبت کا ہوتا ہے، اس سے بچنے کیلئے اچھے ماحول میں رہنے اور اچھی صحبت اختیار کرنے کی ضرورت ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :(مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ، وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً) ترجمہ : نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔ (صحیح بخاری :5534)۔ 

اسی طرح ایک دوسری روایت میں آیا ہے :(لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ) ترجمہ : ساتھ ہی نہ بناؤ مگر مومن کو اور تمہارا کھانا نہ کوئی کھائے مگر متقی اور پرہیزگار۔ 

اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث کے اندر فرمایا:(الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ)ترجمہ : ادمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے جب کوئی کسی سے دوستی کرے تو اس کے بارے میں اچھی طرح معلومات حاصل کر لے۔  

ج- شیطان:

یہ خارجی اور داخلی دونوں پیمانے پر انسان کا کھلا دشمن ہے انسانوں کی رگوں میں یہ رچتا بستا ہے دلوں پر ڈیرہ جما کر بیٹھ جاتا ہے انسان کو ہمہ وقت وسوسہ دلاتا ہے، انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، قرآن کریم کے اندر اللہ تعالی نے جا بجا شیطان لعین سے آگاہ رہنے اور اس سے بچنے کی تنبیہ کی ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیث پاک کے اندر شیطان لعین سے پناہ مانگی ہے اور امت کو اس سے، اس کی چالوں اور اس کے خبیث عزائم سے آگاہ کیا ہے، اس تعلق سے سب سے اہم حدیث سنن ابن ماجہ کے اندر موجود ہے، عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور دو لکیریں اس کے دائیں جانب اور دو بائیں جانب کھینچیں، پھر اپنا ہاتھ بیچ والی لکیر پر رکھا اور فرمایا: ”یہ اللہ کا راستہ ہے“، پھر اس آیت کی تلاوت کی: (وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله) ”یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے“ (سورۃ الانعام: ۱۵۳)۔ 


3- شخصی ارتقاء کی ضرورت :

یہ معلوم رہے کہ انسان کی تعمیر شخصیت اور اسکے ارتقاء میں کئی عناصر حصہ لیتے ہیں۔ جن میں ماں باپ کی نشوونما اور تعلیم و تربیت، گھراور خاندان کا ماحول، مسجد، معاشرہ ، مکتب ومدرسہ، اسکول وکالج اور یونیورسٹی ، اساتذہ ، یہ سب مل کر انسان کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:( مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ) ترجمہ : ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے؟ (صحیح بخاری :1358)۔ 

اگر خوش قسمتی سے ان عناصر نے تعمیر شخصیت میں مثبت کردار ادا کیا ہو تو بچے کی شخصیت مثبت بنیادوں تعمیر ہوجاتی ہے لیکن بدقسمتی سے اگر ان عناصر نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا یا غلط کردار کا باعث بنے ، تو تعمیر شخصیت غلط بنیادوں پرہوجاتی ہے۔

- صبر وتحمل: 

شخصی ارتقا اور شخصیت سازی میں صبر و تحمل بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے؛ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے اندر 13/ سال رہ کر صحابہ کرام کو صبر و تحمل کا درس دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تکلیفیں برداشت کیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی تکلیفیں برداشت کرنے اور انہیں جھیلنے کی تلقین کی، یہ کون نہیں جانتا کہ اہل طائف اور اہل مکہ کی طرف سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو کن کن تکلیفوں اور پریشانیوں کو جھیلنا پڑا ہے؟! اور یہ حقیقت ہے کہ بھٹی میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔ 

- عفو ودر گزر:

شخصیت سازی میں معافی اور عفو درگزر بھی بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے؛ کتاب و سنت کے اندر بارہا اس عظیم وصف کا ذکر آیا ہے اور مسلمانوں کو اس عظیم صفت سے متصف ہونے پر ابھارا گیا ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت مسلمہ کے لیے آئیڈیل اور رہنما ہیں، آپ کی زندگی ہم سب کے لیے اسوہ ہے، اس باب میں جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ آپ کی سیرت طیبہ عفو و درگزر سے عبارت ہے اس کے لیے صرف ثمامہ بن اثال کا واقعہ جنہیں مسجد نبوی کے اندر باندھ دیا گیا تھا اور اسی طرح اس دیہاتی کا واقعہ پیش کر دینا کافی ہے جس نے مسجد نبوی کے اندر پیشاب کر دیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے ساتھ جس حسن سلوک اور درگزر کا مظاہرہ فرمایا اور پھر اس کا جو نتیجہ سامنے آیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ شخصیت سازی میں اس صفت کا بڑا عظیم کردار ہے۔ 

انکے علاوہ بھی بہت سارے عوامل اور عناصر کی ضرورت ہے جنکی روشنی میں شخصیت کو سنوار کر اسے موثر بنایا جا سکتا ہے، جیسے کہ:

تنازعات کے حل کی صلاحیت۔ 

فیصلہ سازی کی قوت۔ سفارت کاری، ہرقسم کے لوگوں کو مینیج کرنے کا طریقہ، اسٹریٹجک سوچ۔ منصوبہ بندی اور ہدف تک پہونچنے کی چاہت۔

محنت کے جذبے سے سرشارہونا،لگن اور جستجو کی عادت کا ہونا۔ 

اخلاقیات کی مضبوطی۔

ایمان داری اور دیانت داری۔

خوش اخلاقی۔ سلیقہ مندی۔شعوری پختگی۔

دوسروں پر اعتبار کرنے کی ہمت۔ خود اعتمادی اور متنوع تخلیقی صلاحیتوں کا جامع۔ 

اشتراک عمل۔باہمی تعاون۔ باہمی اعتماد۔

لچک اور نرم رویے کا حامل۔ دوسرے کو غور سے سننے کی عادت ۔ مشاورت۔ باہمی احترام کو فروغ دینا۔ معلومات کا تبادلہ اورشیئرنگ۔  موٹیویشن وغیرہ۔

اسی طرح حصول علم کے دوران بھی ہمیں چند مہارتوں کی ضرورت ہے تاکہ ارتقائی عمل کے مراحل بآسانی طے ہو سکیں، جیسے کہ:

لیکچر توجہ سے سن کر نوٹس لینے کی مہارت۔ اپنے اسائمنٹس کو ذمہ داری سے پورا کرکے ٹیچر کو پیش کرنے کی صلاحیت۔

جوابدہی کا احساس۔

معلومات کا تجزیہ کرنا۔

گفتگو کرنے کی صلاحیت۔

اہم سوچ کوآگے بڑھانے کی صلاحیت۔ ٹیکنالوجی سے تعلیمی استفادہ کرنے کی صلاحیت ۔

ہدایات پر عمل کرنے کی صلاحیت۔اچھےتخیل کی صلاحیت۔

کاموں میں پہل کرنے کی صلاحیت ۔ 

اپنے تعلیمی امور کی تنظیم کی صلاحیت۔ وقت پر کام مکمل کرنے کی صلاحیت۔ تقریرو تحریر کو معیاری بنانے کی صلاحیت اور سب سے اہم ٹائم مینجمنٹ کی صلاحیت۔


4- شخصی ارتقاء کی افادیت :

دین اسلام کے اندر شخصیت سازی اور شخصی ارتقاء کے لیے ضروری ہے کہ اس کا فائدہ دین سیکھنے میں ظاہر ہو، اسی طرح دین پر عمل کرنے میں بھی ظاہر ہو اور ساتھ ہی اسے دوسروں تک پہنچانے اور تلقین کرنے میں بھی ظاہر ہو جیسا کہ سورہ العصر سے ظاہر ہوتا ہے:(وَالْعَصْرِ[1] إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ[2] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) ترجمہ : زمانے کی قسم! [1] کہ بے شک ہر انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔ [2] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ [العصر: 3]۔ 

القاء اور دعوت پیش کرنے اور خطاب کرنے کے اسلوب اور طریقے ومنہج میں بھی اسکی افادیت ظاہر ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :(ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ) ترجمہ : اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔ (النحل:125)۔ 

اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو بھی نرمی کا حکم ہوا تھا۔ دونوں بھائیوں کو یہ کہہ کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا :(فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى) ترجمہ : اسے نرم بات کہنا تاکہ عبرت حاصل کرے اور ہوشیار ہو جائے۔ (طہ:44)۔

مدعو کو مخاطب ہونے اور اسے خطاب کرنے کا اسلوب بہت اہم ہوتا ہے؛ چنانچہ

اصل مقصد مخاطب اور سامعین کے دلوں تک پہونچ کر انکے قلوب واذہان پر قابض ہونا تاکہ وہ ہماری بات کو بغور سن کر اس کا قائل ہو جائے، اسکے لئے جہاں موضوع کو بہتر اسلوب میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آواز میں زیر وبم لانے کی ضرورت ہے وہیں پر تمام سامعین کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کیلئے سب کی طرف دیکھنے اور ہاتھوں سے مناسب اشارہ کرنے کی بھی ضرورت ہے، اسی طرح جہاں ایک طرف دلائل براہین کے ساتھ اصل ایشو پر فوکس کرنے کے ساتھ اپنی باتوں کو اختصار سے پیش کرنے کی ضرورت ہے وہیں پر تلفظ کی بہترین ادائیگی اور لف ونشر اور حشو زائد سے بچنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ سامعین کا ذہن موضوع ہی پر مرکوز رہے دوسری وادیوں میں منتشر نہ ہونے پائے۔ 

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دین کا سچا داعی بنائے اور دعوت دین کو بہتر اسلوب میں حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...