دعوت الی اللہ کی اہمیت
اور اسکے بنیادی ارکان
د/ اجمل منظور المدنی
وکیل جامعۃ التوحید بھیونڈی ممبئی
اللہ کی جانب لوگوں کو بلانا اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور افضل ترین اعمال میں سے ہے، یہ دعوت و تبلیغ اللہ اور اس کے دین برحق کی جانب ہو اسلامی تعلیمات کے منافی کسی مذہب کی طرف یا کسی دنیاوی غرض کے لئے یا کتاب وسنت کے طریقہ سے ہٹ کر کسی اور مقصد کی خاطر ہرگز نہ ہو، بلکہ دعوت و تبلیغ کا مقصد صرف یہ رہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کا دین بلند ہو، ایسی دعوت حق اور دعوت دین جو ایک عربی کو بھی پیش کی جائے گی اور عجمی کو بھی، قریب کو بھی اس کی طرف بلایا جائے گا اور بعید کو بھی، دوست کو بھی یہ دعوت دی جائے گی اور دشمن کو بھی۔
دعوت حق کا فریضہ کسی متعین جماعت یا کسی خاص نسل و طبقہ اور کسی مخصوص زمانہ کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ یہ وہ فریضہ ہے جو ہر دور میں اور امت محمدیہ کے ہر فرد پر حسب استطاعت عائد ہوتا ہے اور امت کا کوئی بھی فرد خواہ وہ عربی ہو یا عجمی، بادشاہ ہو یا فقیر، حکومت ہو یا قوم، جو بھی اس مقدس دعوت کو لے کر اٹھے گا اسے عزت و سر بلندی ملے گی اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوگی اللہ تعالی اسے اپنے حفظ وامان میں رکھے گا اور صالح مومن بندوں میں سے اس کے لئے اعوان و انصار اور محافظ و مددگار عطا کر دے گا جیسا کہ فرمایا: (وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ) (الحج:40)۔ ترجمہ: جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے، بیشک اللہ طاقت والا اور غالب ہے۔
دعوت الی اللہ کے کچھ ضروری ستون اور بنیادیں ہیں جن پر وہ قائم ہے، اگر ایک بھی بنیاد میں خلل پیدا ہو جائے تو پھر وہ دعوت نہ تو صحیح رہ سکتی اور نہ ہی مطلوبہ اہداف تک پہونچ سکتی ہے، اس کے لیے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لی جائیں اور کتنا ہی وقت کیوں نہ ضائع کر دیا جائے جیسا کہ آج ہم ان بہت ساری معاصر دعوتوں کا حال دیکھ رہے ہیں جو مذکورہ بنیادوں پر قائم نہیں ہیں۔
ذیل میں ہم کتاب و سنت کی روشنی میں چند ان بنیادوں کو ذکر کر رہے ہیں جن پر صحیح دعوت قائم ہے:
1- جس چیز کی دعوت دے اس کا علم ہو، سو ایک جاہل اس بات کا اہل نہیں ہے کہ وہ دین کا داعی بنے؛ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاقُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي) ترجمہ : آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین وبصیرت اور اعتماد کے ساتھ۔
اور بصیرت ہی علم ہے، اور اس لئے کہ ایک دین کا داعی گمراہ علماء کا سامنا کرتا ہے ایسے گمراہ قسم کے لوگ جو شبہات پیدا کرتے ہیں اور باطل کا سہارا لے کر مجادلہ کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے حق کو نیچا کر دیں؛ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:(وجادلھم بالتی ھی احسن) ترجمہ: اور ان سے مجادلہ کرو ایسے طریقے سے جو زیادہ بہتر ہو۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا:(تم ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو کتاب والے ہیں)۔
چنانچہ جب ایک داعی ایسے علم سے مسلح نہیں ہوگا جس کے ذریعے وہ ہر شبہے کا سامنا کر سکے اور اپنے مد مقابل کو زیر کر سکے تو وہ پہلی ہی ملاقات میں شکست کھا جائے گا اور آغاز سفر ہی میں بیٹھ جائے گا۔
2- وہ جس کی دعوت دے اس پر خود عمل کرے تاکہ وہ ایک اچھا اسوہ اور آئیڈیل بن سکے، اس کے افعال واعمال اس کے اقوال کی تصدیق کریں، ایسا نہ ہو کہ اہل باطل اسی کے قول و کردار کو لے کر اس کے خلاف حجت بنائیں؛ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے نبی شعیب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا:(وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ) ترجمہ : اور میں نہیں چاہتا کہ تمھاری بجائے میں (خود) اس کا ارتکاب کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں، میں تو اصلاح کے سوا کچھ نہیں چاہتا، جتنی کرسکوں۔ (ھود:88)۔
اور اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[162] لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ) ترجمہ : آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے [162] اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں [الانعام :163]۔
مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ) ترجمہ : اور اس سے زیاده اچھی بات واﻻ کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں (فصلت:33)۔
3- داعی کے اندر اخلاص ہو اس طور پر کہ جس چیز کی دعوت دے رہا ہے اس کے اندر اللہ کی رضا جوئی مقصد ہو، اس کے ذریعے وہ ریا ونمود کی خواہش نہ رکھے اور نہ ہی بلند مقام اور سرداری چاہے اور نہ ہی کسی طرح سے کوئی دنیاوی حرص رکھے؛ کیونکہ اگر اس کی دعوت میں ان مقاصد میں سے کوئی ایک بھی شامل ہو گیا تو وہ دعوت اللہ کی خاطر نہیں ہوگی بلکہ وہ یا تو نفس کی خاطر ہوگی یا پھر اس مقصد کے لئے جسے وہ چاہ رہا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کے بارے میں خبر دیا ہے کہ وہ اپنی قوموں سے کہتے تھے:(لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا) ترجمہ : میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا۔ (الشوریٰ :23)۔ ایک دوسری جگہ فرمایا:(لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا) ترجمہ : میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا۔ (ھود:29)۔
4- اہمیت کے حساب سے اپنی دعوت کا آغاز کرے یعنی اپنی دعوت کا اغاز اس چیز سے کرے جو سب سے زیادہ اہم ہو اس طور پر کہ سب سے پہلے وہ اصلاح عقیدہ، اخلاص عبادت اور ترک شرک کی دعوت دے، پھر اس کے بعد نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے، واجبات کو بجا لانے اور محرمات سے اجتناب کرنے کی دعوت دے جیسا کہ تمام رسولوں کا طریقہ رہا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ) (النحل: 36)۔
ترجمہ : ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔
مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ) (الانبیاء :25)۔
ترجمہ : اور جو پیغمبر ہم نےتم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو۔
اور انکے علاوہ بھی دیگر آیات ہیں۔
اور جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تھا تو آپ نے ان سے فرمایا تھا:(إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ) ترجمہ : تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس پہنچو گے، تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اس کا رسول ہوں، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات و دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اسے مان لیں تو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہیں کے محتاجوں میں بانٹ دی جائیگی، اگر وہ اس کو مان لیں تو پھر ان کے عمدہ اور نفیس مال وصول کرنے سے بچے رہنا ۱؎ (بلکہ زکاۃ میں اوسط مال لینا)، اور مظلوم کی بد دعا سے بھی بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ (صحیح بخاری :1783)۔
سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دین کے میدان میں جو طریقہ اور منہج اپنایا ہے وہی سب سے بہتر اسوہ اور کامل منہج ہے اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 13/ سال تک مکہ کے اندر رہ کر توحید کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے اور انہیں شرک سے روکتے رہے پھر اس کے بعد انہیں آپ نے نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے، روزہ رکھنے اور حج کرنے کا حکم دیا اور اسی طرح دیگر محرمات سے بچنے کی تلقین فرمائی جیسے کہ سود، زنا، چوری اور ناحق کسی کو قتل کرنا وغیرہ۔
5- دعوت الی اللہ کے میدان میں جو مشقتیں اور پریشانیاں لاحق ہوں ان پر صبر کرنا؛ اس لئے کہ دعوت دین کے راستے میں پھول نہیں برسائے جائیں گے بلکہ یہ راستہ تکلیفوں اور خطرات سے گھرا ہوا ہے، سو اس میدان میں ہمارے لئے سب سے بہترین اسوہ اور نمونہ اللہ کے انبیاء اور رسل علیہم السلام ہیں؛ چنانچہ ان سب نے اپنی قوموں سے اس راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور انہوں نے ان کا مذاق اڑایا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:(وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ) (الانعام:10)۔
ترجمہ : اور واقعی آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزا کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آ گھیرا جس کا تمسخر اڑاتے تھے۔
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے :(وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا) (الانعام :34)۔
ترجمہ : اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جا چکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی۔
اسی طرح کی تکلیفوں اور مشقتوں کا سامنا رسولوں کے پیروکاروں کو بھی کرنا پڑتا ہے اسی اعتبار سے جتنا وہ اللہ کی راہ میں دعوت دیتے ہیں اور اس کے دین کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اللہ کے رسولوں کی اقتداء کرتے ہوئے۔
6- ایک داعی پر واجب ہے کہ وہ حسن اخلاق کا پیکر ہو اور اپنی دعوت میں حکمت کا استعمال کرے؛ اس لئے کہ یہ اس کی دعوت کی مقبولیت کے لیے زیادہ موثر ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے دونوں نبی موسی اور ہارون علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ دونوں اپنے وقت کے سب سے بڑے کافر فرعون کے سامنے نرمی اور حکمت کو اپنائیں جس نے ربوبیت کا دعوی کیا تھا چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:(فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى(طه:44)۔
ترجمہ : اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے۔
اور اسی طرح اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کہا:(اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى[17] فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى[18] وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ فَتَخْشَى) [النازعات:19]۔
ترجمہ : تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے [17] اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے [18] اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راه دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے۔
اور اسی طرح اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا:(فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ) (آل عمران:159)۔
ترجمہ :اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں۔
مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ) [القلم: 4]۔
ترجمہ : اور بیشک آپ بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہیں۔
مزید ایک جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:(ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ) (النحل:125)۔
ترجمہ : اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔
7- ایک داعی پر واجب ہے کہ وہ پر امید ہو کر دعوت کا کام کرے، اس بات سے بالکل نا امیدی نہ ہو کہ اس کی دعوت کا اثر نہیں ہو رہا اور اس کی قوم راہ راست پر نہیں آرہی ہے، اس بات سے بھی نا امید نہ ہو کہ اس کے پاس اللہ کی نصرت اور مدد نہیں آرہی ہے خواہ وقت کتنا ہی کیوں نہ طول پکڑ جائے؛ اللہ کے انبیاء اور رسل علیہم السلام اس میدان میں ہمارے لئے سب سے بہتر اسوہ اور آئیڈیل ہیں۔
یہ اللہ کے نبی نوح علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم کے اندر ساڑھے نو سو برس رہ کر مسلسل انہیں اللہ کی طرف بلاتے رہے۔
اور یہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جب آپ پر کفار مکہ کی طرف سے تکلیفیں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو اس وقت پہاڑوں کی فرشتے نے آپ کے پاس آکر یہ اجازت طلب کی کہ اگر آپ کا حکم ہو تو انہیں دونوں پہاڑیوں کے درمیان رکھ کر پیس دوں؟! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہرگز نہیں! میں انتظار کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی ان کے درمیان سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائےگی۔
سو معلوم ہونا چاہیئے کہ ایک داعی جب بھی یہ صفت کھو دے گا وہ میدان دعوت میں نہیں ٹھہر پائے گا بلکہ آغاز ہی میں بیٹھ جائے گا اور ناکام ثابت ہوگا۔
چنانچہ جو بھی دعوت مذکورہ بنیادوں پر قائم نہیں ہوگی اور وہ دعوت رسولوں کے منہج پر استوار نہیں ہوگی وہ دعوت یقینی طور پر ناکام ثابت ہوگی اور بالاخر مضمحل وپریشان ہوکر بے سود ہوگی؛
اس کی سب سے بہتر مثال آج کل کی وہ معاصر جماعتیں اور تنظیمیں ہیں جنہوں نے اپنے لئے کچھ ایسے الگ منہج اور طریقہ دعوت بنا رکھا ہے جو رسولوں کے منہج سے بالکل مختلف ہے بالخصوص عقیدے کے پہلو سے پورے طور پر غفلت برت رکھی ہے الا ما شاء اللہ، اور انہوں نے اصلاح کے چند جانبی پہلوؤں کو اختیار کر رکھا ہے۔
کچھ جماعتیں تو ایسی ہیں جو حکومت واقتدار اور سیاست میں اصلاح کی بات کرتی ہیں، لوگوں کے درمیان حدود کے قیام اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں، یہ بھی ایک اہم پہلو ہے مگر سب سے اہم نہیں ہے، آخر کیونکر ایک زانی اور چور پر حد نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے جبکہ شرک کرنے والوں کے خلاف اللہ کے فیصلے کے نفاذ کا مطالبہ نہ ہو؟! اسی طرح قبر پرستوں، بت پرستوں اور اللہ کے اسماء وصفات اور اسکے دین میں انحراف کرنے والوں کے خلاف اللہ کے فیصلے کے نفاذ کا مطالبہ نہ کرکے اونٹ بکری کے معاملے میں لڑنے لوگوں کے درمیان شرعی فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیوں کر سکتے ہیں؟!
سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کا جرم زیادہ سنگین ہے کیا ان لوگوں کا جو زنا اور چوری کرتے ہیں یا جو شرک اور الحاد کرتے ہیں؟! اخلاقی جرائم خود بندوں کے حق میں ظلم ہے جبکہ شرک اور اسماء وصفات کی نفی کرنا خالق باری تعالیٰ کے حق میں ظلم ہے، اور خالق کا حق مخلوق کے حق پر مقدم ہوگا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا : "توحید کی سلامتی کے ساتھ گناہوں کا ہونا بہتر ہے توحید کے بگاڑ سے" (الاستقامة : 1/ 466)۔
آپ کو تعجب ہوگا کہ اخوانیوں کے یہاں ایسے لوگ مل جائیں گے جنہوں نے ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں باقاعدہ مزاروں سے تبرک لینے اور نیکو کاروں سے وسیلہ پکڑنے کی تائید کرتے ہیں۔
سو یہ جماعت جس منہج پر کام کرتی ہے جو انبیائی منہج سے الگ ہے۔
نوٹ : تفصیل کیلئے دیکھیں شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ کی کتاب: "منھج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل"۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق