تحریک اہل حدیث کی تنزلی کے اسباب اور علاج
بقلم : د/ اجمل منظور المدنی
یہ تحریک ایمان وعمل، منہج وعقیدہ اور فقہ وفتاوی نیز جدید پیش آنے والے سنگین مسائل ونوازل ہر ایک میں اصلاح کی تحریک ہے کہ جس کا آغاز صحابہ کے دور ہی سے ہوچکا تھا کہ جیسے جیسے لوگوں کے اندر ایمان وعمل، عقیدہ و منہج حتی کہ فقہ و فتاوی میں انحراف اور خامیاں پیدا ہوتی گئیں صحابہ تابعین اور تبع تابعین نے کھل کر ان پر نکیر کی اور لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی۔
اگر ایک طرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے خوارج کے انحراف پر نکیر کرکے لوگوں کی اصلاح کی تو دوسری طرف ابن عمر رضی اللہ عنہما نے منکرین تقدیر پر نکیر کر کے لوگوں کی اصلاح کی۔
دوسری صدی ہجری کے آغاز ہی میں جب کتاب و سنت کے نصوص سے لاپرواہی سامنے آئی اور لوگوں نے عقل و رائے کا استعمال کثرت سے کرنا شروع کیا تو اس وقت محدثین کرام کی جماعت نے آگے بڑھ کر اس پر نکیر کی اور نصوص کتاب وسنت اور آثار صحابہ کا کثرت سے استعمال کر کے کتاب اللہ، سنت رسول اور فہم صحابہ کی روشنی میں لوگوں کی اصلاح کی اور اسی وجہ سے اس تحریک سے جڑے لوگوں کو اصحاب الحدیث اور مخالفین کو اہل الرائے کہا گیا۔
تیسری صدی کے آغاز میں فلسفہ ومنطق اور علم الکلام وعقلیات کے عروج کے وقت جب عقل پرست جہمیہ اور معتزلہ کا عروج ہوا اور مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی تو امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے امت نے کھل کر لوگوں کی اصلاح کی خاطر اس پر نکیر کی اور فہم صحابہ کی روشنی میں کتاب وسنت کا درس دیا۔
چھٹی اور ساتویں صدی ہجری میں جب عقدی، فقہی اور ذہنی جمود کی وجہ سے تقلید و تصوف اور فلسفہ وعلم الکلام کا بھیانک سایہ مسلمانوں پر چھا گیا تو اس دبیز سائے کو ہٹانے کے لیے میدان اصلاح میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنا قدم جمایا اور ہر میدان میں اصلاح کی ایک تحریک پیدا کر دی اور اپنے پیچھے سچے اور مخلص شاگردوں کی ایک بڑی جماعت چھوڑ دی جو دنیا کے مختلف خطوں میں اس تحریک کو لے کر پھیل گئے۔
اور ماضی قریب میں جبکہ مسلمانوں کے سیاسی اور فکری زوال کی وجہ سے مغربی اقوام کا تسلط قائم ہوا اور مسلمان فکر و عقیدہ اور ایمان و عمل بلکہ ہر میدان میں کوتاہی کا شکار ہوئے تو دنیا کے مختلف خطوں میں اصلاحی تحریکیں پیدا ہوئیں جن میں اگر ایک طرف نجد وحجاز کے علاقے میں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے ہاتھوں اس تحریک کی تجدید ہوئی تو دوسری طرف مصر وسوڈان اور لیبیا وجزائر کے اندر ابن بادیس، محمد حامد الفقی اور عبد الرزاق عفیفی جیسے سلفی جیالوں کے ہاتھوں انصار السنہ المحمدیہ کے نام سے اس تحریک کی تجدید ہوئی۔
اور تیسری طرف بر صغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، نواب صدیق حسن خان بھوپالی جیسے غیور اہل حدیثوں کے ہاتھوں اس تحریک کی تجدید ہوئی جسے سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا داؤد راز دہلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی جیسے غیور اہل حدیثوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔
اس کے بعد برصغیر کے اندر باقاعدہ اس تحریک کو ہر میدان میں متحرک کرنے کے لیے ایک جمیعت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذریعے یہ قافلہ آج تک رواں دواں ہے۔
یہ تحریک جس ایمان و عمل اور عقیدہ و منہج کی اصلاح کو لے کر اٹھی تھی آج بھی وہ اپنے اسی اصول پر قائم اور باقی ہے مگر آج جن اصلاحی کاموں اور وسیع تر وسائل اور طریقوں کی ضرورت ہے اور جس بڑے پیمانے پر کام کرنے کی حاجت ہے ان میں ہم پیچھے ہیں بلکہ تنزلی کا شکار ہیں، ذیل میں ہم اسی قسم تنزلی کے چند اہم اسباب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
1-جمود وتعطل:
زندہ اور باشعور سماج کے لوگ ہمیشہ علمی بحث و مباحثوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، علمی، ثقافتی اور سماجی حرکت نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے جمود کا شکار ہوکر زنگ آلود ہو جاتے ہیں،
جمود زدہ زندگی اور ایسی زندگی جس میں کچھ کرنے کی، آگے بڑھنے کی چاہ نہ ہو اُسے مفلوج زندگی کہتے ہیں، ایسی زندگی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ چونکہ رواں دواں زندگی اور ایک کامیاب زندگی کے لئے رفتار ضروری ہے اس لیے تحریک اہل حدیث کے اندر رفتار اور تیزی لانے کیلئے ہمیں اس جمود وتعطل کو توڑنا ہوگا، اور سعی پیہم نیز جہد مسلسل کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
2- عملی کوتاہی
عملی کوتاہی اور غفلت قوم و ملت کی بربادی کا سبب ہے، آج یہ تحریک تقریبا ہر میدان میں عملی کوتاہی اور غفلت کا شکار ہے، نو نہالان امت کی تعلیم و تربیت کا میدان ہو یا دعوتی و تبلیغی پیمانے پر اصلاح عمل کا میدان ہو، سماجی و معاشرتی پیمانے پر نوجوانان ملت کے اندر اخلاقی برائیوں اور خامیوں کی اصلاح کا میدان ہو یا اہل حدیثوں کے درمیان باطل تحریکوں کے اثرات کی وجہ سے عقیدہ و منہج میں انحراف کا میدان ہو، یہ عملی کوتاہی جماعتی اور انفرادی ہر اعتبار سے ہر میدان میں پائی جاتی ہے۔
آج ضرورت ہے کہ ہم عملی کوتاہی اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر اس تحریک کو باطل تحریکوں پر غالب کریں، اور اس مژدہ نبوی کا مستحق ٹھہریں :
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين) ترجمہ : اس علم کو ہر دور کے قابل اعتماد لوگ آگے لے کر جائینگے، یہ لوگ اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریفات سے، کذابوں کے جھوٹ اور جاہل لوگوں کی غلط تشریحات کو خارج کر دینگے- (صحیح- سنن الکبریٰ بیہقی (209/10)۔
3- تنظیم واجتماعیت کا فقدان:
جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے مختلف نت نئے وسائل کو استعمال کرنے میں گلوبلائزیشن کے اس دور میں آفاقی شعور کا میدان ہو یا تنظیمی پیمانے پر افراد جماعت کو جوڑنے اس تحریک کو وسیع کرنے اور احباب جماعت میں موجود علم و شعور کے مالک افراد کا بہتر استعمال کر کے اس تحریک کو غالب کرنے کا میدان ہو ہر جگہ ہمیں تنظیم وتنسیق کا فقدان نظر آتا ہے خواہ یہ جماعتی اعتبار سے ہو یا شخصی اعتبار سے۔
4- آپسی اختلاف وانتشار:
ایک طرف اگر فاسد مذاہب اور باطل تحریکوں کے گہرے اثرات کی وجہ سے یہ تحریک منہج و عقیدہ اور فقہ و عمل کے میدان میں انحراف کا شکار ہو کر آپسی اختلاف میں مبتلا ہے، تو دوسری طرف جماعتی اور تنظیمی اعتبار سے اتفاق و اتحاد کو لے کر بڑے پیمانے پر یہ تحریک اختلاف و انتشار کا شکار ہے۔
آج ضرورت ہے کہ اہل حدیث ہر دو پیمانے پر منظم طور پر کام کر کے اپنے اندر اصلاح پیدا کریں، نچلی سطح سے لے کر اوپر تک آج ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر باطل تحریکوں کا لقمہ تر بن جائیں۔
5- فکری انارکی:
جماعتی پیمانے پر منظم طور سے کام نہ ہونے اور تحریکی وتنظیمی کوتاہی کا ہی نتیجہ ہے کہ جسکی وجہ سے ہماری جماعت کے اندر بڑے پیمانے پر فکری لٹریچر اور باطل افکار و نظریات کے حاملین کی کتابیں پھیلی ہوئی ہیں حتی کی مدارس و مساجد کے اندر بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے طلبہ اور دیگر نوجوان باطل تحریکوں کا شکار جلد ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف اخلاقی اور منہجی اعتبار سے ہمارے یہاں تربیتی اور ریفریشر پروگراموں کے نہ ہونے یا بڑے ہی محدود انداز میں ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف ہماری جماعت اخلاقی کوتاہیوں کا شکار ہے تو دوسری طرف لبرلزم اور فکری انارکی کی طرف مائل ہیں۔
6- احساس برتری:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو لوگ اس پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اسے اپنی کاوشوں کا نیتجہ سمجھتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں کے زعم میں وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ دین اسلام ہمیں غرور و تکبر کے مقابلے میں عجز و انکسار اور احساس کمتری کے مقابلے میں عزت نفس کا تصور دیتا ہے۔ دین اسلام ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
یقینا اللہ تعالی نے اس جماعت کو توحید و سنت جیسی نعمت سے نوازا ہے، اس پر ہمیں کسی احساس برتری کی نہیں بلکہ حمد و شکر اور تواضع اختیار کرنے نیز اس کی طرف دوسروں کو بھی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔
احساس برتری دراصل احساس فخر کو جنم دیتی ہے، یہ بیماری معاشرے اور تنظیم وتحریک کے لئے ایک ناسور ہے کیونکہ یہ ایک بڑے فساد اور بگاڑ کا سبب ہے اور لوگوں کی دل آزاری کا ذریعہ بھی، ساتھ ہی اس احساس کی وجہ سے عمل واخلاق میں لاپرواہی عام ہے؛ لہذا جس قدر جلد ممکن ہو سکے اسکا تدارک بہت ضروری ہے۔
7- مستحکم دعوتی سسٹم کا فقدان:
جمعہ کے خطبات، نمازوں کے بعد دروس اور تربیتی اور دینی اجتماعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے لیکن ہمارے پاس کوئی مضبوط، ٹھوس اور مستحکم دعوتی سسٹم نہیں ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے ان خالص دعوتی نمایاں کارناموں کو ہائی لائٹ کر سکیں جنہیں دیکھ کر دوسرے لو گ بھی متاثر ہوں اور ہمارے قریب آسکیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے ان تمام مخلص کوششوں کو اپنے ہی اندر محدود رکھتے ہیں اور انہیں اگے بڑھانے کے لیے ہمارے پاس کوئی منظم سسٹم نہیں ہے لہذا یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنے ان کاموں کو ہائی لائٹ کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے جماعتی پیمانے پر مستحکم اور منظم دعوتی پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا۔
8- لائحہ عمل اور منصوبہ سازی:
اجتماعیت پسند ذہن بنانے اور ملکر کام کرنے کیلئے ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اسے مستحکم لائحہ عمل منصوبہ سازی اور پروگرامنگ کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے، کوئی بھی قوم جب بغیر منصوبہ سازی اور بغیر نصب العین اور ٹارگٹ کے کام کرتی ہے تو وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس لیے آج ہمیں شخصی، ادارہ جاتی اور جماعتی ہر پہلو سے منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تحریک اہل حدیث کو آگے بڑھانے میں یہ مہمیز کا کام کرے۔
9- دعوتی کاز پر ترکیز:
باطل تحریکوں کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ہماری جماعت کے بہت سارے لوگ رفاہی اور انسانی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اسی کو اصل دینی اور دعوتی کاز سمجھنے ہیں، یہ ہماری بہت بڑی بھول ہے، رفاہی اور انسانی کاموں کے لیے ہر جماعت اور ہر قوم وملت میں متمول اور مخیر لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر کام کر رہے ہیں، یہ کوئی دینی و دعوتی اعتبار سے امتیازی کام نہیں ہے،
تحریک اہل حدیث کا اصل اور نمایاں کام توحید کی دعوت ہے، منہج و عقیدہ کی اصلاح ہے، شرک و بدعت اور تقلید و تصوف پر رد ہے نیز اخلاقی برائیوں پر نکیر ہے۔
اس کے ساتھ اگر استطاعت ہے تو رفاہی اور انسانی کام بھی کیا جائے اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتا ہے مگر دوسری تحریکات کی طرح دینی اور دعوتی پیمانے پر اسی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ لہذا آج ضرورت ہے کہ ہم دعوتی کاز کے نام پر اپنے اصل اور بنیادی امور پر ترکیز کریں۔
10- فقہ وفتاوی کا مرکزی اہتمام:
احکام شرعیہ کے استنباط کا اصل منبع کتاب اللہ، سنت رسول، آثار صحابہ اور قیاس و اجماع رہے ہیں، عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے۔
پیش آمدہ مسائل اور نوازل کو مذکورہ مصادر کی روشنی میں حل کیا جاتا تھا، اور آج بھی الحمدللہ اہل حدیثوں کے یہاں یہی سسٹم قائم ہے مگر اس کے لیے جس طرح منظم انداز میں جماعتی پیمانے پر فقہ و فتاوی کا اہتمام ہونا چاہیے اس طرح دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے، ہاں بعض اداروں اور شخصیتوں کی طرف سے انفرادی کام ضرور ہوا ہے جن کی ہمیں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے مگر منظم طور پر جماعتی پیمانے پر جس طرح یہ کام ہونا چاہیے وہ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری جماعت کے اندر بالخصوص نوجوانوں میں دینی مسائل کے اندر خاص طور سے پیش آمدہ سنگین مسائل اور نوازل میں حیران اور پریشان نظر آتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مسالک اور مذاہب کے فتاووں سے حتی کہ باطل تحریکوں کے جذباتی فتووں اور بیانات سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اپنی جماعت سے بدظن اور مایوس ہو جاتے ہیں۔
11- وفاق المدارس کا عدم وجود
نصاب تعلیم:
ملک کے تمام مدارس دینیہ کے کاموں کو مربوط بنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا، اُن کے لیے یکساں نصاب تعلیم، امتحانات اور سند کا اجرا، مدارس کے درمیان باہمی ربط وتعاون، جدید عصری تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم کی ترویج واشاعت اور اساتذہ کیلئے تربیت کا انتظام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
یہ کام پڑوسی ملک میں منظم طور پر ہو رہا ہے اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہو رہا ہے خواہ بیرون ممالک یونیورسٹیوں میں الحاق کا معاملہ ہو یا اندرون ملک سرکاری سطح پر اور دیگر یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر آگے بڑھنے کا معاملہ ہو طلبہ کو اکثر پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے آج ہمیں ملکی سطح پر ایک تعلیمی وفاق کی ضرورت ہے۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی تمام دینی دعوتی اور منہجی کاموں کو منظم کرکے انہیں مستحکم اور ٹھوس انداز میں جدید وسائل کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کریں، باطل تحریکوں اور لبرل تنظیموں کے پروپیگنڈوں میں آ کر ملکی اور عالمی سیاسی امور نیز انسانی خدمات کو ہی دعوت نہ سمجھ کر دین و دعوت کے جو اہم امور اور مسائل ہیں جیسے توحید و عقیدہ منہج و سنت اور ایمان و اخلاق کی ترویج نیز شرک و بدعت اور بد عقیدگی اور دیگر خرافات پر نکیر کرنا انہیں پر اپنی دعوت کو مرکوز رکھیں۔
ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت کے اعتبار سے جماعتی پیمانے پر وفاق المدارس یا اور کسی بھی دوسرے جامع نام سے اہل حدیث کے تمام مکاتب اور مدارس کو منظم کیا جائے تاکہ ہماری جماعت میں منظم طور پر ایک تعلیمی سسٹم سامنے آئے اور اسے ملکی اور عالمی پیمانے پر ایک نمایاں حیثیت سے ہم پیش کر سکیں۔
اسی طرح سب سے زیادہ ہمیں جماعتی پہلو سے متحد اور منظم ہونے کی ضرورت ہے اوپری سطح سے لے کر صوبائی ضلعی اور علاقائی سطح تک سسٹمیٹک اعتبار سے منصوبہ بندی کے ساتھ اور ایک منظم لائحہ عمل کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ تحریک اسلام کے حقیقی چہرے کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے برپا کی گئی ہے اور یہ تحریک ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی یہ عام تحریکوں کی طرح نہیں ہے کہ جیسے ہی ان کی دعوت ختم ہوتی ہے ان کے افراد تنزلی کا شکار ہوتے ہیں وہ تحریک ختم ہو جاتی ہے اور اس دعوت کے ساتھ وہ تحریک مٹ جاتی ہے ایسا بالکل نہیں ہے یہ اسلام کے حقیقی چہرے کو پیش کرنے والی تحریک ہے یہ صحابہ کی تحریک ہے سلف صالحین کی تحریک ہے جنہوں نے اسلام کے چشمہ صافی کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کتاب و سنت پر اٹے گرد و غبار کو ہٹا کر اسے خالص شکل میں لوگوں کے سامنے اجاگر کیا ہے اور یہ قیامت تک تحریک باقی رہے گی کسی مخالفت کرنے والے کی مخالفت تکلیف دینے والے کی تکلیف رسوا کرنے والے کی رسوائی اسے ختم نہیں کر سکے گی نہ اسے روک سکے گی حدیث نبوی بالکل واضح ہے:
عن عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ ".
عمیر بن ہانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے دین کو تھامے رکھے گا، جو ان کو بے یارومددگار چھوڑے گا، یا ان کی مخالفت کرے گا، وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا، حتیٰ کہ اللہ کا حکم آن پہنچے گا اور وہ لوگوں پر غالب ہی ہوں گے۔“ (صحیح مسلم :1037)۔
اس لئے ایک بار پھر کہوں گا کہ تحریک اہلحدیث کوئی نئی یا کوئی عام تحریک نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہی تحریک ہے جو عہد نبوی اور عہد صحابہ سے چلی آرہی ہے۔ جس کا شعار کتاب اللہ اور سنت رسول ہے۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ اور مرور زمانہ کے ساتھ پیدا ہونے والے مکاتب فکر کے افکار ونظریات کا تحقیقی جائزہ لینے پر یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ تحریک اہل حدیث ہی اسلام کا حقیقی پاسباں ہے جسکا کوئی حقیقت پسند اور غیرجانب دار شخص انکار نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ جیسی علمی اور تحقیقی شخصیت نے اپنی دوربینی اور دور اندیشی سے اسی حقیقت کو واشگاف انداز میں کہا تھا کہ:‘‘اہل حدیث کو فرقوں میں وہی حیثیت حاصل ہے جو اسلام کو ملتوں میں’’ (رد المنطق)-
آج ہمیں اسی حقیقت کو کتاب وسنت، آثار سلف اور تاریخی شواہد کی روشنی میں واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حق کے متلاشی کیلئے بھانت بھانت کے فرقوں میں حق کو پہچاننا آسان ہوجائے اور امت اسلام کی صحیح رہنمائی ہوسکے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین