الثلاثاء، 29 أكتوبر 2024

تحریک اہل حدیث کی تنزلی کے اسباب اور علاج

تحریک اہل حدیث کی تنزلی کے اسباب اور علاج


بقلم : د/ اجمل منظور المدنی 


یہ تحریک ایمان وعمل، منہج وعقیدہ اور فقہ وفتاوی نیز جدید پیش آنے والے سنگین مسائل ونوازل ہر ایک میں اصلاح کی تحریک ہے کہ جس کا آغاز صحابہ کے دور ہی سے ہوچکا تھا کہ جیسے جیسے لوگوں کے اندر ایمان وعمل، عقیدہ و منہج حتی کہ فقہ و فتاوی میں انحراف اور خامیاں پیدا ہوتی گئیں صحابہ تابعین اور تبع تابعین نے کھل کر ان پر نکیر کی اور لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی۔

اگر ایک طرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے خوارج کے انحراف پر نکیر کرکے لوگوں کی اصلاح کی تو دوسری طرف ابن عمر رضی اللہ عنہما نے منکرین تقدیر پر نکیر کر کے لوگوں کی اصلاح کی۔

دوسری صدی ہجری کے آغاز ہی میں جب کتاب و سنت کے نصوص سے لاپرواہی سامنے آئی اور لوگوں نے عقل و رائے کا استعمال کثرت سے کرنا شروع کیا تو اس وقت محدثین کرام کی جماعت نے آگے بڑھ کر اس پر نکیر کی اور نصوص کتاب وسنت اور آثار صحابہ کا کثرت سے استعمال کر کے کتاب اللہ، سنت رسول اور فہم صحابہ کی روشنی میں لوگوں کی اصلاح کی اور اسی وجہ سے اس تحریک سے جڑے لوگوں کو اصحاب الحدیث اور مخالفین کو اہل الرائے کہا گیا۔ 

تیسری صدی کے آغاز میں فلسفہ ومنطق اور علم الکلام وعقلیات کے عروج کے وقت جب عقل پرست جہمیہ اور معتزلہ کا عروج ہوا اور مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی تو امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے امت نے کھل کر لوگوں کی اصلاح کی خاطر اس پر نکیر کی اور فہم صحابہ کی روشنی میں کتاب وسنت کا درس دیا۔

چھٹی اور ساتویں صدی ہجری میں جب عقدی، فقہی اور ذہنی جمود کی وجہ سے تقلید و تصوف اور فلسفہ وعلم الکلام کا بھیانک سایہ مسلمانوں پر چھا گیا تو اس دبیز سائے کو ہٹانے کے لیے میدان اصلاح میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنا قدم جمایا اور ہر میدان میں اصلاح کی ایک تحریک پیدا کر دی اور اپنے پیچھے سچے اور مخلص شاگردوں کی ایک بڑی جماعت چھوڑ دی جو دنیا کے مختلف خطوں میں اس تحریک کو لے کر پھیل گئے۔

اور ماضی قریب میں جبکہ مسلمانوں کے سیاسی اور فکری زوال کی وجہ سے مغربی اقوام کا تسلط قائم ہوا اور مسلمان فکر و عقیدہ اور ایمان و عمل بلکہ ہر میدان میں کوتاہی کا شکار ہوئے تو دنیا کے مختلف خطوں میں اصلاحی تحریکیں پیدا ہوئیں جن میں اگر ایک طرف نجد وحجاز کے علاقے میں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے ہاتھوں اس تحریک کی تجدید ہوئی تو دوسری طرف مصر وسوڈان اور لیبیا وجزائر کے اندر ابن بادیس، محمد حامد الفقی اور عبد الرزاق عفیفی جیسے سلفی جیالوں کے ہاتھوں انصار السنہ المحمدیہ کے نام سے اس تحریک کی تجدید ہوئی۔

اور تیسری طرف بر صغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، نواب صدیق حسن خان بھوپالی جیسے غیور اہل حدیثوں کے ہاتھوں اس تحریک کی تجدید ہوئی جسے سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا داؤد راز دہلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی جیسے غیور اہل حدیثوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ 

اس کے بعد برصغیر کے اندر باقاعدہ اس تحریک کو ہر میدان میں متحرک کرنے کے لیے ایک جمیعت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذریعے یہ قافلہ آج تک رواں دواں ہے۔

یہ تحریک جس ایمان و عمل اور عقیدہ و منہج کی اصلاح کو لے کر اٹھی تھی آج بھی وہ اپنے اسی اصول پر قائم اور باقی ہے مگر آج جن اصلاحی کاموں اور وسیع تر وسائل اور طریقوں کی ضرورت ہے اور جس بڑے پیمانے پر کام کرنے کی حاجت ہے ان میں ہم پیچھے ہیں بلکہ تنزلی کا شکار ہیں، ذیل میں ہم اسی قسم تنزلی کے چند اہم اسباب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

1-جمود وتعطل:

زندہ اور باشعور سماج کے لوگ ہمیشہ علمی بحث و مباحثوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، علمی، ثقافتی اور سماجی حرکت نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے جمود کا شکار ہوکر زنگ آلود ہو جاتے ہیں، 

جمود زدہ زندگی اور ایسی زندگی جس میں کچھ کرنے کی، آگے بڑھنے کی چاہ نہ ہو اُسے مفلوج زندگی کہتے ہیں، ایسی زندگی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ چونکہ رواں دواں زندگی اور ایک کامیاب زندگی کے لئے رفتار ضروری ہے اس لیے تحریک اہل حدیث کے اندر رفتار اور تیزی لانے کیلئے ہمیں اس جمود وتعطل کو توڑنا ہوگا، اور سعی پیہم نیز جہد مسلسل کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ 


2- عملی کوتاہی

عملی کوتاہی اور غفلت قوم و ملت کی بربادی کا سبب ہے، آج یہ تحریک تقریبا ہر میدان میں عملی کوتاہی اور غفلت کا شکار ہے، نو نہالان امت کی تعلیم و تربیت کا میدان ہو یا دعوتی و تبلیغی پیمانے پر اصلاح عمل کا میدان ہو، سماجی و معاشرتی پیمانے پر نوجوانان ملت کے اندر اخلاقی برائیوں اور خامیوں کی اصلاح کا میدان ہو یا اہل حدیثوں کے درمیان باطل تحریکوں کے اثرات کی وجہ سے عقیدہ و منہج میں انحراف کا میدان ہو، یہ عملی کوتاہی جماعتی اور انفرادی ہر اعتبار سے ہر میدان میں پائی جاتی ہے۔

آج ضرورت ہے کہ ہم عملی کوتاہی اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر اس تحریک کو باطل تحریکوں پر غالب کریں، اور اس مژدہ نبوی کا مستحق ٹھہریں : 

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين) ترجمہ : اس علم کو ہر دور کے قابل اعتماد لوگ آگے لے کر جائینگے، یہ لوگ اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریفات سے، کذابوں کے جھوٹ اور جاہل لوگوں کی غلط تشریحات کو خارج کر دینگے- (صحیح- سنن الکبریٰ بیہقی (209/10)۔ 


3- تنظیم واجتماعیت کا فقدان:

جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے مختلف نت نئے وسائل کو استعمال کرنے میں گلوبلائزیشن کے اس دور میں آفاقی شعور کا میدان ہو یا تنظیمی پیمانے پر افراد جماعت کو جوڑنے اس تحریک کو وسیع کرنے اور احباب جماعت میں موجود علم و شعور کے مالک افراد کا بہتر استعمال کر کے اس تحریک کو غالب کرنے کا میدان ہو ہر جگہ ہمیں تنظیم وتنسیق کا فقدان نظر آتا ہے خواہ یہ جماعتی اعتبار سے ہو یا شخصی اعتبار سے۔ 


4- آپسی اختلاف وانتشار:

ایک طرف اگر فاسد مذاہب اور باطل تحریکوں کے گہرے اثرات کی وجہ سے یہ تحریک منہج و عقیدہ اور فقہ و عمل کے میدان میں انحراف کا شکار ہو کر آپسی اختلاف میں مبتلا ہے، تو دوسری طرف جماعتی اور تنظیمی اعتبار سے اتفاق و اتحاد کو لے کر بڑے پیمانے پر یہ تحریک اختلاف و انتشار کا شکار ہے۔ 

آج ضرورت ہے کہ اہل حدیث ہر دو پیمانے پر منظم طور پر کام کر کے اپنے اندر اصلاح پیدا کریں، نچلی سطح سے لے کر اوپر تک آج ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر باطل تحریکوں کا لقمہ تر بن جائیں۔ 


5- فکری انارکی:

 جماعتی پیمانے پر منظم طور سے کام نہ ہونے اور تحریکی وتنظیمی کوتاہی کا ہی نتیجہ ہے کہ جسکی وجہ سے ہماری جماعت کے اندر بڑے پیمانے پر فکری لٹریچر اور باطل افکار و نظریات کے حاملین کی کتابیں پھیلی ہوئی ہیں حتی کی مدارس و مساجد کے اندر بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے طلبہ اور دیگر نوجوان باطل تحریکوں کا شکار جلد ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف اخلاقی اور منہجی اعتبار سے ہمارے یہاں تربیتی اور ریفریشر پروگراموں کے نہ ہونے یا بڑے ہی محدود انداز میں ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف ہماری جماعت اخلاقی کوتاہیوں کا شکار ہے تو دوسری طرف لبرلزم اور فکری انارکی کی طرف مائل ہیں۔


6- احساس برتری:

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو لوگ اس پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اسے اپنی کاوشوں کا نیتجہ سمجھتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں کے زعم میں وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ دین اسلام ہمیں غرور و تکبر کے مقابلے میں عجز و انکسار اور احساس کمتری کے مقابلے میں عزت نفس کا تصور دیتا ہے۔ دین اسلام ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ 

یقینا اللہ تعالی نے اس جماعت کو توحید و سنت جیسی نعمت سے نوازا ہے، اس پر ہمیں کسی احساس برتری کی نہیں بلکہ حمد و شکر اور تواضع اختیار کرنے نیز اس کی طرف دوسروں کو بھی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔

احساس برتری دراصل احساس فخر کو جنم دیتی ہے، یہ بیماری معاشرے اور تنظیم وتحریک کے لئے ایک ناسور ہے کیونکہ یہ ایک بڑے فساد اور بگاڑ کا سبب ہے اور لوگوں کی دل آزاری کا ذریعہ بھی، ساتھ ہی اس احساس کی وجہ سے عمل واخلاق میں لاپرواہی عام ہے؛ لہذا جس قدر جلد ممکن ہو سکے اسکا تدارک بہت ضروری ہے۔ 


7- مستحکم دعوتی سسٹم کا فقدان:

جمعہ کے خطبات، نمازوں کے بعد دروس اور تربیتی اور دینی اجتماعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے لیکن ہمارے پاس کوئی مضبوط، ٹھوس اور مستحکم دعوتی سسٹم نہیں ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے ان خالص دعوتی نمایاں کارناموں کو ہائی لائٹ کر سکیں جنہیں دیکھ کر دوسرے لو گ بھی متاثر ہوں اور ہمارے قریب آسکیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے ان تمام مخلص کوششوں کو اپنے ہی اندر محدود رکھتے ہیں اور انہیں اگے بڑھانے کے لیے ہمارے پاس کوئی منظم سسٹم نہیں ہے لہذا یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنے ان کاموں کو ہائی لائٹ کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے جماعتی پیمانے پر مستحکم اور منظم دعوتی پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا۔ 


8- لائحہ عمل اور منصوبہ سازی:

اجتماعیت پسند ذہن بنانے اور ملکر کام کرنے کیلئے ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اسے مستحکم لائحہ عمل منصوبہ سازی اور پروگرامنگ کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے، کوئی بھی قوم جب بغیر منصوبہ سازی اور بغیر نصب العین اور ٹارگٹ کے کام کرتی ہے تو وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس لیے آج ہمیں شخصی، ادارہ جاتی اور جماعتی ہر پہلو سے منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تحریک اہل حدیث کو آگے بڑھانے میں یہ مہمیز کا کام کرے۔


9- دعوتی کاز پر ترکیز:

باطل تحریکوں کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ہماری جماعت کے بہت سارے لوگ رفاہی اور انسانی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اسی کو اصل دینی اور دعوتی کاز سمجھنے ہیں، یہ ہماری بہت بڑی بھول ہے، رفاہی اور انسانی کاموں کے لیے ہر جماعت اور ہر قوم وملت میں متمول اور مخیر لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر کام کر رہے ہیں، یہ کوئی دینی و دعوتی اعتبار سے امتیازی کام نہیں ہے، 

تحریک اہل حدیث کا اصل اور نمایاں کام توحید کی دعوت ہے، منہج و عقیدہ کی اصلاح ہے، شرک و بدعت اور تقلید و تصوف پر رد ہے نیز اخلاقی برائیوں پر نکیر ہے۔ 

اس کے ساتھ اگر استطاعت ہے تو رفاہی اور انسانی کام بھی کیا جائے اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتا ہے مگر دوسری تحریکات کی طرح دینی اور دعوتی پیمانے پر اسی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ لہذا آج ضرورت ہے کہ ہم دعوتی کاز کے نام پر اپنے اصل اور بنیادی امور پر ترکیز کریں۔ 


10- فقہ وفتاوی کا مرکزی اہتمام:

احکام شرعیہ کے استنباط کا اصل منبع کتاب اللہ، سنت رسول، آثار صحابہ اور قیاس و اجماع رہے ہیں، عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے۔ 

پیش آمدہ مسائل اور نوازل کو مذکورہ مصادر کی روشنی میں حل کیا جاتا تھا، اور آج بھی الحمدللہ اہل حدیثوں کے یہاں یہی سسٹم قائم ہے مگر اس کے لیے جس طرح منظم انداز میں جماعتی پیمانے پر فقہ و فتاوی کا اہتمام ہونا چاہیے اس طرح دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے، ہاں بعض اداروں اور شخصیتوں کی طرف سے انفرادی کام ضرور ہوا ہے جن کی ہمیں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے مگر منظم طور پر جماعتی پیمانے پر جس طرح یہ کام ہونا چاہیے وہ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری جماعت کے اندر بالخصوص نوجوانوں میں دینی مسائل کے اندر خاص طور سے پیش آمدہ سنگین مسائل اور نوازل میں حیران اور پریشان نظر آتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مسالک اور مذاہب کے فتاووں سے حتی کہ باطل تحریکوں کے جذباتی فتووں اور بیانات سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اپنی جماعت سے بدظن اور مایوس ہو جاتے ہیں۔


11- وفاق المدارس کا عدم وجود 

نصاب تعلیم:

ملک کے تمام مدارس دینیہ کے کاموں کو مربوط بنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا، اُن کے لیے یکساں نصاب تعلیم، امتحانات اور سند کا اجرا، مدارس کے درمیان باہمی ربط وتعاون، جدید عصری تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم کی ترویج واشاعت اور اساتذہ کیلئے تربیت کا انتظام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ 

یہ کام پڑوسی ملک میں منظم طور پر ہو رہا ہے اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہو رہا ہے خواہ بیرون ممالک یونیورسٹیوں میں الحاق کا معاملہ ہو یا اندرون ملک سرکاری سطح پر اور دیگر یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر آگے بڑھنے کا معاملہ ہو طلبہ کو اکثر پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے آج ہمیں ملکی سطح پر ایک تعلیمی وفاق کی ضرورت ہے۔ 


آخر میں عرض یہ ہے کہ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی تمام دینی دعوتی اور منہجی کاموں کو منظم کرکے انہیں مستحکم اور ٹھوس انداز میں جدید وسائل کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کریں، باطل تحریکوں اور لبرل تنظیموں کے پروپیگنڈوں میں آ کر ملکی اور عالمی سیاسی امور نیز انسانی خدمات کو ہی دعوت نہ سمجھ کر دین و دعوت کے جو اہم امور اور مسائل ہیں جیسے توحید و عقیدہ منہج و سنت اور ایمان و اخلاق کی ترویج نیز شرک و بدعت اور بد عقیدگی اور دیگر خرافات پر نکیر کرنا انہیں پر اپنی دعوت کو مرکوز رکھیں۔

ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت کے اعتبار سے جماعتی پیمانے پر وفاق المدارس یا اور کسی بھی دوسرے جامع نام سے اہل حدیث کے تمام مکاتب اور مدارس کو منظم کیا جائے تاکہ ہماری جماعت میں منظم طور پر ایک تعلیمی سسٹم سامنے آئے اور اسے ملکی اور عالمی پیمانے پر ایک نمایاں حیثیت سے ہم پیش کر سکیں۔ 

اسی طرح سب سے زیادہ ہمیں جماعتی پہلو سے متحد اور منظم ہونے کی ضرورت ہے اوپری سطح سے لے کر صوبائی ضلعی اور علاقائی سطح تک سسٹمیٹک اعتبار سے منصوبہ بندی کے ساتھ اور ایک منظم لائحہ عمل کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ تحریک اسلام کے حقیقی چہرے کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے برپا کی گئی ہے اور یہ تحریک ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی یہ عام تحریکوں کی طرح نہیں ہے کہ جیسے ہی ان کی دعوت ختم ہوتی ہے ان کے افراد تنزلی کا شکار ہوتے ہیں وہ تحریک ختم ہو جاتی ہے اور اس دعوت کے ساتھ وہ تحریک مٹ جاتی ہے ایسا بالکل نہیں ہے یہ اسلام کے حقیقی چہرے کو پیش کرنے والی تحریک ہے یہ صحابہ کی تحریک ہے سلف صالحین کی تحریک ہے جنہوں نے اسلام کے چشمہ صافی کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کتاب و سنت پر اٹے گرد و غبار کو ہٹا کر اسے خالص شکل میں لوگوں کے سامنے اجاگر کیا ہے اور یہ قیامت تک تحریک باقی رہے گی کسی مخالفت کرنے والے کی مخالفت تکلیف دینے والے کی تکلیف رسوا کرنے والے کی رسوائی اسے ختم نہیں کر سکے گی نہ اسے روک سکے گی حدیث نبوی بالکل واضح ہے:

عن عُمَيْرَ بْنَ هَانِئٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ ".

عمیر بن ہانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے دین کو تھامے رکھے گا، جو ان کو بے یارومددگار چھوڑے گا، یا ان کی مخالفت کرے گا، وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا، حتیٰ کہ اللہ کا حکم آن پہنچے گا اور وہ لوگوں پر غالب ہی ہوں گے۔“ (صحیح مسلم :1037)۔ 


اس لئے ایک بار پھر کہوں گا کہ تحریک اہلحدیث کوئی نئی یا کوئی عام تحریک نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہی تحریک ہے جو عہد نبوی اور عہد صحابہ سے چلی آرہی ہے۔ جس کا شعار کتاب اللہ اور سنت رسول ہے۔ 

اسلام کی ابتدائی تاریخ اور مرور زمانہ کے ساتھ پیدا ہونے والے مکاتب فکر کے افکار ونظریات کا تحقیقی جائزہ لینے پر یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ تحریک اہل حدیث ہی اسلام کا حقیقی پاسباں ہے جسکا کوئی حقیقت پسند اور غیرجانب دار شخص انکار نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ جیسی علمی اور تحقیقی شخصیت نے اپنی دوربینی اور دور اندیشی سے اسی حقیقت کو واشگاف انداز میں کہا تھا کہ:‘‘اہل حدیث کو فرقوں میں وہی حیثیت حاصل ہے جو اسلام کو ملتوں میں’’ (رد المنطق)-

آج ہمیں اسی حقیقت کو کتاب وسنت، آثار سلف اور تاریخی شواہد کی روشنی میں واضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حق کے متلاشی کیلئے بھانت بھانت کے فرقوں میں حق کو پہچاننا آسان ہوجائے اور امت اسلام کی صحیح رہنمائی ہوسکے۔

 وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

الاثنين، 28 أكتوبر 2024

علماء کا شخصی ارتقاء ضرورت وافادیت

 علماء کا شخصی ارتقاء، ضرورت وافادیت

د/ اجمل منظور المدنی 

وکیل جامعۃ التوحید بھیونڈی ممبئی 


الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الصادق الامین، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، وبعد! 


1-علماء اور انکا مقام:

سوال یہ ہے کہ حقیقی علماء کون ہیں؟

- حقیقی معنوں میں علماء وہ ہیں کتاب وسنت کا جنہیں زیادہ علم ہو؛ کیونکہ دین قال اللہ اور قال الرسول یعنی کتاب وسنت کا نام ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :(إنِّي قد تَرَكْتُ فيكُمْ شَيْئَيْنِ لن تَضِلُّوا بَعْدَهُما: كتابَ اللهِ وسُنَّتي، ولن يَتَفَرَّقا حتّى يَرِدا عَلَيَّ الحَوْضَ) ترجمہ : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں انہیں اگر مضبوطی سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ہے یہ دونوں کبھی الگ نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ میرے پاس ہاؤس پر ا کر مجھ سے ملیں گی۔ (المستدرك على الصحيحين:٣٢٣)

- حقیقی علماء وہ ہیں جو منہج سلف کا پیکر ہوں۔ اہل بدعت اور منحرف علماء نہیں جو دین اسلام  اور مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔

- اسی طرح حقیقی علماء وہ ہیں جو تقوی شعار اور خشیت الہی سے معمور ہوں؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ) ترجمہ : اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ (فاطر :28)۔ 

- اسی طرح حقیقی علماء وہ ہیں جنہیں فقہ الواقع اور مدعو کی زمینی حقائق کا ادراک ہو؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ) ترجمہ : اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے حکم دینے والوں کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ہیں۔ (النساء :83)۔ 


عند اللہ علماء کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟

امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ علماء کرام نے انجام دیا ہے او رہر دور میں  اللہ تعالی نے ایسے  علماء پیدافرمائے ہیں جنہوں نے  امت کو خطرات سےنکالا ہے اوراس کی  ڈوبتی  ہوئی  کشتی  کو پار لگانے کی کوشش کی ہے ۔ اسلامی تاریخ ایسے افراد سے روشن ہے  جنہوں نے  حالات کو سمجھا  اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے  لیے  اور ان کو صحیح رخ  پر لانے  کے لیے  ہر طرح کی قربانیاں دیں  جو اسلامی تاریخ کا  ایک سنہرا باب ہے۔ 

اللہ تعالی نے علماء کے مقام کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ) ترجمہ : اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔ (المجادلہ:11)۔ اسی طرح مزید ارشاد فرمایا :(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ) ترجمہ : کہہ دیں کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (الزمر:9)۔ 

اسی طرح علم اور علماء کے مقام کو واضح کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ) ترجمہ : جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم : 2699)۔ 


2- شخصی ارتقاء :

*انسانی شخصیت:

انسانی شخصیت(Personality) کا ایک جسمانی روپ ہوتا ہے جو اس کے ظاہری جسم، اعضاو جوارح اور اس کے جسمانی خدوخال کی شکل میں سامنے ہوتا ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا روپ کرداری ہوتا ہے جواسی انسان کے برتاو، رویوں اور اخلاق وکردار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ شخصیت کاپہلاروپ وقتی اور عارضی ہوتا ہے مثلا کوئی انسان جسمانی طور پر بہت خوب صورت اور جاذب نظر ہو تو وقتی طورپر لوگوں کی توجہ حاصل کرسکتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ روپ زوال پذیر ہوناشروع ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا کرداری روپ اگر اعلی اخلاقی اقدار اور اچھے کردار پر مشتمل ہوتو اس کاحسن اور اس کے اثرات طویل المدت ہوتےہیں۔

جب ہم پوری شخصیت کی تعمیر کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر انسانی شخصیت کے یہ دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ ظاہر میں نظرآنے والے جسمانی روپ کی تہذیب بھی ضروری ہے مثال کے طور پر صفائی ستھرائی، ہاں یہ صفائی ستھرائی چہرے اور بدن کا ہو یا ڈریس کا ہو لباس شرعی ہو، چہرے پر مسکراہٹ اور گفتگو شیریں ہو۔ 

اور ساتھ ہی اس جسمانی روپ میں نکھار ،خوب صورتی ،اعلی خصوصیات اور دوام پیدا کرنے والا کرداری روپ کی اصلاح بھی ناگزیر ہے تاکہ بلند اخلاق پیش کرکے اپنے مدعو پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ 

چنانچہ جہاں ایک طرف اللہ تعالی نے انسان کے جسمانی روپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:(وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ) ترجمہ : اور تمھاری صورت بنائی تو تمھاری صورتیں اچھی بنائیں اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، یہ ہے اللہ تمھارا رب، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (غافر:64)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ) ترجمہ : پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کر دیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو بنانے والوں میں سب سے اچھا ہے۔ (المؤمنون:14)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ[7] فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ) ترجمہ : وہ اللہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر درست بنایا، پھر درمیانہ قد و قامت بخشا، خوش شکل اور خوبصورت بنایا. (الانفطار :18)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ) ترجمہ : یقینا ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں پیدا کیا ہے۔ (التين:4)۔ 

تو دوسری طرف انسان کے کرداری روپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : (لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ) ترجمہ : اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔ (الحج:37)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ) ترجمہ : اور تم نیکی میں سے جو بھی کرو گے اللہ اسے جان لے گا اور زاد راہ لے لو کہ بے شک زاد راہ کی سب سے بہتر خوبی(سوال سے) بچنا ہے اور مجھ سے ڈرو اے عقلوں والو!

(البقرة:197)۔ 


- محلوقات باری میں انسان کا مقام:

انسان کی دوسری مخلوقات پر برتری کی وجہ: 

اللہ تعالی نے انسان کو کائنات کی دیگر مخلوقات پر فوقیت عطا فرمائی ہے چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا: (وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا) ترجمہ : اور بلاشبہ یقینا ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی اس میں سے بہت سوں پر انھیں فضیلت دی، بڑی فضیلت دینا۔ [الإسراء : 70]۔ 

دیگر مخلوقات پر یہ فضلیت انسان کو علم، عقل وشعور،غوروفکرکی صلاحیت اور اخلاق وکردار کی وجہ سے عطاہوئی ہے کیونکہ یہ چیزیں انسان ہی کی امتیازی خصوصیات ہیں۔چنانچہ انسان اپنی ان صلاحیتوں کی بناپر دنیا کی ہرمخلوق کو کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے چاہے وہ مخلوق انسان سے جسمانی طورپر زیادہ طاقت ور ہی کیوں نہ ہو ۔

 

- شخصی فضیلت کا معیار :

انسانوں میں فضیلت کا معیار:

افراد انسانی کے درمیان باہمی فضلیت کی اگر بات کی جائے تو اللہ کے ہاں سب سے زیادہ فضلیت والا انسان وہ ہےسب سے زیادہ متقی اور اعلی کردار والا ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انسا ن کو اپنی پوری شخصیت کی تعمیر پر کام کرنا پڑتا ہے یعنی ظاہری جسم ، لباس وپوشاک کی تہذیب ودرستگی کے علاوہ تہذیب نفس اور بلندکرداری پربھی باقاعدہ کام کرنا پڑے گا۔

اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : (إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ) ترجمہ : یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ تقوی والا ہے، یقینا اللہ تعالی ہر چیز جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ (الحجرات:13)، 

اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ، وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ، وَأَعْمَالِكُمْ) ترجمہ : یقینا اللہ تعالی نہ تو تمہاری شکلوں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہارے مال و دولت کو بلکہ وہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔  اسی طرح ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور اسی طرح نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ ہی کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت ہے سوائے تقوی کے۔ 


- شخصی ارتقاء کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں :

شخصی ارتقاء اور تعمیر شخصیت کی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں درپیش ہوں گی جن میں تین رکاوٹیں بہت اہم ہیں:

الف: نفس امارہ: 

یہ انسان کا داخلی دشمن ہے جو ہما وقت ہے اسے برائیوں کی طرف مائل کرتا ہے اور شہوات و شبہات میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے ارشاد باری تعالی ہے: (وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ) ترجمہ : اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (يوسف:53)۔ 

مزید ارشاد فرمایا :(وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا[7] فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا[8] قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا[9] وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا)ترجمہ : اور نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے ٹھیک بنایا! [7] پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری ( کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔ [8] یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے اسے پاک کرلیا۔ [9] اور یقینا وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دبا دیا۔ (الشمس:10)۔ 

معلوم ہوا کہ داخلی محاذ کو محفوظ رکھنے کے لئے نفس امارہ پر قابو پانا ضروری ہے۔ 

ب- خارجی ماحول: 

اس خارجی دشمن میں سب سے خطرناک کردار بری صحبت کا ہوتا ہے، اس سے بچنے کیلئے اچھے ماحول میں رہنے اور اچھی صحبت اختیار کرنے کی ضرورت ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :(مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ، وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً) ترجمہ : نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔ (صحیح بخاری :5534)۔ 

اسی طرح ایک دوسری روایت میں آیا ہے :(لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ) ترجمہ : ساتھ ہی نہ بناؤ مگر مومن کو اور تمہارا کھانا نہ کوئی کھائے مگر متقی اور پرہیزگار۔ 

اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث کے اندر فرمایا:(الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ)ترجمہ : ادمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے جب کوئی کسی سے دوستی کرے تو اس کے بارے میں اچھی طرح معلومات حاصل کر لے۔  

ج- شیطان:

یہ خارجی اور داخلی دونوں پیمانے پر انسان کا کھلا دشمن ہے انسانوں کی رگوں میں یہ رچتا بستا ہے دلوں پر ڈیرہ جما کر بیٹھ جاتا ہے انسان کو ہمہ وقت وسوسہ دلاتا ہے، انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، قرآن کریم کے اندر اللہ تعالی نے جا بجا شیطان لعین سے آگاہ رہنے اور اس سے بچنے کی تنبیہ کی ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدیث پاک کے اندر شیطان لعین سے پناہ مانگی ہے اور امت کو اس سے، اس کی چالوں اور اس کے خبیث عزائم سے آگاہ کیا ہے، اس تعلق سے سب سے اہم حدیث سنن ابن ماجہ کے اندر موجود ہے، عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور دو لکیریں اس کے دائیں جانب اور دو بائیں جانب کھینچیں، پھر اپنا ہاتھ بیچ والی لکیر پر رکھا اور فرمایا: ”یہ اللہ کا راستہ ہے“، پھر اس آیت کی تلاوت کی: (وأن هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله) ”یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے“ (سورۃ الانعام: ۱۵۳)۔ 


3- شخصی ارتقاء کی ضرورت :

یہ معلوم رہے کہ انسان کی تعمیر شخصیت اور اسکے ارتقاء میں کئی عناصر حصہ لیتے ہیں۔ جن میں ماں باپ کی نشوونما اور تعلیم و تربیت، گھراور خاندان کا ماحول، مسجد، معاشرہ ، مکتب ومدرسہ، اسکول وکالج اور یونیورسٹی ، اساتذہ ، یہ سب مل کر انسان کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:( مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ) ترجمہ : ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے؟ (صحیح بخاری :1358)۔ 

اگر خوش قسمتی سے ان عناصر نے تعمیر شخصیت میں مثبت کردار ادا کیا ہو تو بچے کی شخصیت مثبت بنیادوں تعمیر ہوجاتی ہے لیکن بدقسمتی سے اگر ان عناصر نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا یا غلط کردار کا باعث بنے ، تو تعمیر شخصیت غلط بنیادوں پرہوجاتی ہے۔

- صبر وتحمل: 

شخصی ارتقا اور شخصیت سازی میں صبر و تحمل بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے؛ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے اندر 13/ سال رہ کر صحابہ کرام کو صبر و تحمل کا درس دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تکلیفیں برداشت کیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی تکلیفیں برداشت کرنے اور انہیں جھیلنے کی تلقین کی، یہ کون نہیں جانتا کہ اہل طائف اور اہل مکہ کی طرف سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو کن کن تکلیفوں اور پریشانیوں کو جھیلنا پڑا ہے؟! اور یہ حقیقت ہے کہ بھٹی میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔ 

- عفو ودر گزر:

شخصیت سازی میں معافی اور عفو درگزر بھی بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے؛ کتاب و سنت کے اندر بارہا اس عظیم وصف کا ذکر آیا ہے اور مسلمانوں کو اس عظیم صفت سے متصف ہونے پر ابھارا گیا ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت مسلمہ کے لیے آئیڈیل اور رہنما ہیں، آپ کی زندگی ہم سب کے لیے اسوہ ہے، اس باب میں جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ آپ کی سیرت طیبہ عفو و درگزر سے عبارت ہے اس کے لیے صرف ثمامہ بن اثال کا واقعہ جنہیں مسجد نبوی کے اندر باندھ دیا گیا تھا اور اسی طرح اس دیہاتی کا واقعہ پیش کر دینا کافی ہے جس نے مسجد نبوی کے اندر پیشاب کر دیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے ساتھ جس حسن سلوک اور درگزر کا مظاہرہ فرمایا اور پھر اس کا جو نتیجہ سامنے آیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ شخصیت سازی میں اس صفت کا بڑا عظیم کردار ہے۔ 

انکے علاوہ بھی بہت سارے عوامل اور عناصر کی ضرورت ہے جنکی روشنی میں شخصیت کو سنوار کر اسے موثر بنایا جا سکتا ہے، جیسے کہ:

تنازعات کے حل کی صلاحیت۔ 

فیصلہ سازی کی قوت۔ سفارت کاری، ہرقسم کے لوگوں کو مینیج کرنے کا طریقہ، اسٹریٹجک سوچ۔ منصوبہ بندی اور ہدف تک پہونچنے کی چاہت۔

محنت کے جذبے سے سرشارہونا،لگن اور جستجو کی عادت کا ہونا۔ 

اخلاقیات کی مضبوطی۔

ایمان داری اور دیانت داری۔

خوش اخلاقی۔ سلیقہ مندی۔شعوری پختگی۔

دوسروں پر اعتبار کرنے کی ہمت۔ خود اعتمادی اور متنوع تخلیقی صلاحیتوں کا جامع۔ 

اشتراک عمل۔باہمی تعاون۔ باہمی اعتماد۔

لچک اور نرم رویے کا حامل۔ دوسرے کو غور سے سننے کی عادت ۔ مشاورت۔ باہمی احترام کو فروغ دینا۔ معلومات کا تبادلہ اورشیئرنگ۔  موٹیویشن وغیرہ۔

اسی طرح حصول علم کے دوران بھی ہمیں چند مہارتوں کی ضرورت ہے تاکہ ارتقائی عمل کے مراحل بآسانی طے ہو سکیں، جیسے کہ:

لیکچر توجہ سے سن کر نوٹس لینے کی مہارت۔ اپنے اسائمنٹس کو ذمہ داری سے پورا کرکے ٹیچر کو پیش کرنے کی صلاحیت۔

جوابدہی کا احساس۔

معلومات کا تجزیہ کرنا۔

گفتگو کرنے کی صلاحیت۔

اہم سوچ کوآگے بڑھانے کی صلاحیت۔ ٹیکنالوجی سے تعلیمی استفادہ کرنے کی صلاحیت ۔

ہدایات پر عمل کرنے کی صلاحیت۔اچھےتخیل کی صلاحیت۔

کاموں میں پہل کرنے کی صلاحیت ۔ 

اپنے تعلیمی امور کی تنظیم کی صلاحیت۔ وقت پر کام مکمل کرنے کی صلاحیت۔ تقریرو تحریر کو معیاری بنانے کی صلاحیت اور سب سے اہم ٹائم مینجمنٹ کی صلاحیت۔


4- شخصی ارتقاء کی افادیت :

دین اسلام کے اندر شخصیت سازی اور شخصی ارتقاء کے لیے ضروری ہے کہ اس کا فائدہ دین سیکھنے میں ظاہر ہو، اسی طرح دین پر عمل کرنے میں بھی ظاہر ہو اور ساتھ ہی اسے دوسروں تک پہنچانے اور تلقین کرنے میں بھی ظاہر ہو جیسا کہ سورہ العصر سے ظاہر ہوتا ہے:(وَالْعَصْرِ[1] إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ[2] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ) ترجمہ : زمانے کی قسم! [1] کہ بے شک ہر انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔ [2] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ [العصر: 3]۔ 

القاء اور دعوت پیش کرنے اور خطاب کرنے کے اسلوب اور طریقے ومنہج میں بھی اسکی افادیت ظاہر ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :(ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ) ترجمہ : اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔ (النحل:125)۔ 

اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو بھی نرمی کا حکم ہوا تھا۔ دونوں بھائیوں کو یہ کہہ کر فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا :(فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى) ترجمہ : اسے نرم بات کہنا تاکہ عبرت حاصل کرے اور ہوشیار ہو جائے۔ (طہ:44)۔

مدعو کو مخاطب ہونے اور اسے خطاب کرنے کا اسلوب بہت اہم ہوتا ہے؛ چنانچہ

اصل مقصد مخاطب اور سامعین کے دلوں تک پہونچ کر انکے قلوب واذہان پر قابض ہونا تاکہ وہ ہماری بات کو بغور سن کر اس کا قائل ہو جائے، اسکے لئے جہاں موضوع کو بہتر اسلوب میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آواز میں زیر وبم لانے کی ضرورت ہے وہیں پر تمام سامعین کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کیلئے سب کی طرف دیکھنے اور ہاتھوں سے مناسب اشارہ کرنے کی بھی ضرورت ہے، اسی طرح جہاں ایک طرف دلائل براہین کے ساتھ اصل ایشو پر فوکس کرنے کے ساتھ اپنی باتوں کو اختصار سے پیش کرنے کی ضرورت ہے وہیں پر تلفظ کی بہترین ادائیگی اور لف ونشر اور حشو زائد سے بچنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ سامعین کا ذہن موضوع ہی پر مرکوز رہے دوسری وادیوں میں منتشر نہ ہونے پائے۔ 

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دین کا سچا داعی بنائے اور دعوت دین کو بہتر اسلوب میں حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔

الأحد، 27 أكتوبر 2024

دعوت الی اللہ کی اہمیت اور اسکے بنیادی ارکان

 دعوت الی اللہ کی اہمیت 

اور اسکے بنیادی ارکان 


د/ اجمل منظور المدنی 

وکیل جامعۃ التوحید بھیونڈی ممبئی 


اللہ کی جانب لوگوں کو بلانا اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور افضل ترین اعمال میں سے ہے، یہ دعوت و تبلیغ اللہ اور اس کے دین برحق کی جانب ہو اسلامی تعلیمات کے منافی کسی مذہب کی طرف یا کسی دنیاوی غرض کے لئے یا کتاب وسنت کے طریقہ سے ہٹ کر کسی اور مقصد کی خاطر ہرگز نہ ہو، بلکہ دعوت و تبلیغ کا مقصد صرف یہ رہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کا دین بلند ہو، ایسی دعوت حق اور دعوت دین جو ایک عربی کو بھی پیش کی جائے گی اور عجمی کو بھی، قریب کو بھی اس کی طرف بلایا جائے گا اور بعید کو بھی، دوست کو بھی یہ دعوت دی جائے گی اور دشمن کو بھی۔

دعوت حق کا فریضہ کسی متعین جماعت یا کسی خاص نسل و طبقہ اور کسی مخصوص زمانہ کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ یہ وہ فریضہ ہے جو ہر دور میں اور امت محمدیہ کے ہر فرد پر حسب استطاعت عائد ہوتا ہے اور امت کا کوئی بھی فرد خواہ وہ عربی ہو یا عجمی، بادشاہ ہو یا فقیر، حکومت ہو یا قوم، جو بھی اس مقدس دعوت کو لے کر اٹھے گا اسے عزت و سر بلندی ملے گی اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوگی اللہ تعالی اسے اپنے حفظ وامان میں رکھے گا اور صالح مومن بندوں میں سے اس کے لئے اعوان و انصار اور محافظ و مددگار عطا کر دے گا جیسا کہ فرمایا: (وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ) (الحج:40)۔ ترجمہ: جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے، بیشک اللہ طاقت والا اور غالب ہے۔

دعوت الی اللہ کے کچھ ضروری ستون اور بنیادیں ہیں جن پر وہ قائم ہے، اگر ایک بھی بنیاد میں خلل پیدا ہو جائے تو پھر وہ دعوت نہ تو صحیح رہ سکتی اور نہ ہی مطلوبہ اہداف تک پہونچ سکتی ہے، اس کے لیے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لی جائیں اور کتنا ہی وقت کیوں نہ ضائع کر دیا جائے جیسا کہ آج ہم ان بہت ساری معاصر دعوتوں کا حال دیکھ رہے ہیں جو مذکورہ بنیادوں پر قائم نہیں ہیں۔ 

ذیل میں ہم کتاب و سنت کی روشنی میں چند ان بنیادوں کو ذکر کر رہے ہیں جن پر صحیح دعوت قائم ہے: 

1- جس چیز کی دعوت دے اس کا علم ہو، سو ایک جاہل اس بات کا اہل نہیں ہے کہ وہ دین کا داعی بنے؛ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاقُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي) ترجمہ : آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین وبصیرت اور اعتماد کے ساتھ۔ 

اور بصیرت ہی علم ہے، اور اس لئے کہ ایک دین کا داعی گمراہ علماء کا سامنا کرتا ہے ایسے گمراہ قسم کے لوگ جو شبہات پیدا کرتے ہیں اور باطل کا سہارا لے کر مجادلہ کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے حق کو نیچا کر دیں؛ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:(وجادلھم بالتی ھی احسن) ترجمہ: اور ان سے مجادلہ کرو ایسے طریقے سے جو زیادہ بہتر ہو۔ 

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا:(تم ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو کتاب والے ہیں)۔

چنانچہ جب ایک داعی ایسے علم سے مسلح نہیں ہوگا جس کے ذریعے وہ ہر شبہے کا سامنا کر سکے اور اپنے مد مقابل کو زیر کر سکے تو وہ پہلی ہی ملاقات میں شکست کھا جائے گا اور آغاز سفر ہی میں بیٹھ جائے گا۔ 

2- وہ جس کی دعوت دے اس پر خود عمل کرے تاکہ وہ ایک اچھا اسوہ اور آئیڈیل بن سکے، اس کے افعال واعمال اس کے اقوال کی تصدیق کریں، ایسا نہ ہو کہ اہل باطل اسی کے قول و کردار کو لے کر اس کے خلاف حجت بنائیں؛ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے نبی شعیب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا:(وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ) ترجمہ : اور میں نہیں چاہتا کہ تمھاری بجائے میں (خود) اس کا ارتکاب کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں، میں تو اصلاح کے سوا کچھ نہیں چاہتا، جتنی کرسکوں۔ (ھود:88)۔ 

اور اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[162] لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ) ترجمہ : آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے [162] اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں [الانعام :163]۔

مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ) ترجمہ : اور اس سے زیاده اچھی بات واﻻ کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں (فصلت:33)۔ 

3- داعی کے اندر اخلاص ہو اس طور پر کہ جس چیز کی دعوت دے رہا ہے اس کے اندر اللہ کی رضا جوئی مقصد ہو، اس کے ذریعے وہ ریا ونمود کی خواہش نہ رکھے اور نہ ہی بلند مقام اور سرداری چاہے اور نہ ہی کسی طرح سے کوئی دنیاوی حرص رکھے؛ کیونکہ اگر اس کی دعوت میں ان مقاصد میں سے کوئی ایک بھی شامل ہو گیا تو وہ دعوت اللہ کی خاطر نہیں ہوگی بلکہ وہ یا تو نفس کی خاطر ہوگی یا پھر اس مقصد کے لئے جسے وہ چاہ رہا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کے بارے میں خبر دیا ہے کہ وہ اپنی قوموں سے کہتے تھے:(لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا) ترجمہ : میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا۔ (الشوریٰ :23)۔ ایک دوسری جگہ فرمایا:(لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا) ترجمہ : میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا۔ (ھود:29)۔ 

4- اہمیت کے حساب سے اپنی دعوت کا آغاز کرے یعنی اپنی دعوت کا اغاز اس چیز سے کرے جو سب سے زیادہ اہم ہو اس طور پر کہ سب سے پہلے وہ اصلاح عقیدہ، اخلاص عبادت اور ترک شرک کی دعوت دے، پھر اس کے بعد نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے، واجبات کو بجا لانے اور محرمات سے اجتناب کرنے کی دعوت دے جیسا کہ تمام رسولوں کا طریقہ رہا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ) (النحل: 36)۔ 

ترجمہ : ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ 

مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ) (الانبیاء :25)۔ 

ترجمہ : اور جو پیغمبر ہم نےتم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو۔ 

اور انکے علاوہ بھی دیگر آیات ہیں۔ 

اور جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تھا تو آپ نے ان سے فرمایا تھا:(إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ) ترجمہ : تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس پہنچو گے، تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اس کا رسول ہوں، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات و دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اسے مان لیں تو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں ان پر زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہیں کے محتاجوں میں بانٹ دی جائیگی، اگر وہ اس کو مان لیں تو پھر ان کے عمدہ اور نفیس مال وصول کرنے سے بچے رہنا ۱؎ (بلکہ زکاۃ میں اوسط مال لینا)، اور مظلوم کی بد دعا سے بھی بچنا، اس لیے کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ (صحیح بخاری :1783)۔ 

سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دین کے میدان میں جو طریقہ اور منہج اپنایا ہے وہی سب سے بہتر اسوہ اور کامل منہج ہے اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 13/ سال تک مکہ کے اندر رہ کر توحید کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے اور انہیں شرک سے روکتے رہے پھر اس کے بعد انہیں آپ نے نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے، روزہ رکھنے اور حج کرنے کا حکم دیا اور اسی طرح دیگر محرمات سے بچنے کی تلقین فرمائی جیسے کہ سود، زنا، چوری اور ناحق کسی کو قتل کرنا وغیرہ۔ 

5- دعوت الی اللہ کے میدان میں جو مشقتیں اور پریشانیاں لاحق ہوں ان پر صبر کرنا؛ اس لئے کہ دعوت دین کے راستے میں پھول نہیں برسائے جائیں گے بلکہ یہ راستہ تکلیفوں اور خطرات سے گھرا ہوا ہے، سو اس میدان میں ہمارے لئے سب سے بہترین اسوہ اور نمونہ اللہ کے انبیاء اور رسل علیہم السلام ہیں؛ چنانچہ ان سب نے اپنی قوموں سے اس راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور انہوں نے ان کا مذاق اڑایا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:(وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ) (الانعام:10)۔ 

ترجمہ : اور واقعی آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزا کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آ گھیرا جس کا تمسخر اڑاتے تھے۔ 

مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے :(وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا) (الانعام :34)۔

ترجمہ : اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جا چکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی۔ 

اسی طرح کی تکلیفوں اور مشقتوں کا سامنا رسولوں کے پیروکاروں کو بھی کرنا پڑتا ہے اسی اعتبار سے جتنا وہ اللہ کی راہ میں دعوت دیتے ہیں اور اس کے دین کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اللہ کے رسولوں کی اقتداء کرتے ہوئے۔

6- ایک داعی پر واجب ہے کہ وہ حسن اخلاق کا پیکر ہو اور اپنی دعوت میں حکمت کا استعمال کرے؛ اس لئے کہ یہ اس کی دعوت کی مقبولیت کے لیے زیادہ موثر ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے دونوں نبی موسی اور ہارون علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ دونوں اپنے وقت کے سب سے بڑے کافر فرعون کے سامنے نرمی اور حکمت کو اپنائیں جس نے ربوبیت کا دعوی کیا تھا چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:(فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى(طه:44)۔ 

ترجمہ : اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے۔ 

اور اسی طرح اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کہا:(اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى[17] فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى[18] وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ فَتَخْشَى) [النازعات:19]۔

ترجمہ : تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے [17] اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے [18] اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راه دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے۔ 

اور اسی طرح اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا:(فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ) (آل عمران:159)۔

ترجمہ :اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں۔

مزید ارشاد باری تعالی ہے:(وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ) [القلم: 4]۔

ترجمہ : اور بیشک آپ بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہیں۔ 

مزید ایک جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:(ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ) (النحل:125)۔

ترجمہ : اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔

7- ایک داعی پر واجب ہے کہ وہ پر امید ہو کر دعوت کا کام کرے، اس بات سے بالکل نا امیدی نہ ہو کہ اس کی دعوت کا اثر نہیں ہو رہا اور اس کی قوم راہ راست پر نہیں آرہی ہے، اس بات سے بھی نا امید نہ ہو کہ اس کے پاس اللہ کی نصرت اور مدد نہیں آرہی ہے خواہ وقت کتنا ہی کیوں نہ طول پکڑ جائے؛ اللہ کے انبیاء اور رسل علیہم السلام اس میدان میں ہمارے لئے سب سے بہتر اسوہ اور آئیڈیل ہیں۔ 

یہ اللہ کے نبی نوح علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم کے اندر ساڑھے نو سو برس رہ کر مسلسل انہیں اللہ کی طرف بلاتے رہے۔ 

اور یہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جب آپ پر کفار مکہ کی طرف سے تکلیفیں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو اس وقت پہاڑوں کی فرشتے نے آپ کے پاس آکر یہ اجازت طلب کی کہ اگر آپ کا حکم ہو تو انہیں دونوں پہاڑیوں کے درمیان رکھ کر پیس دوں؟! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہرگز نہیں! میں انتظار کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی ان کے درمیان سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائےگی۔ 

سو معلوم ہونا چاہیئے کہ ایک داعی جب بھی یہ صفت کھو دے گا وہ میدان دعوت میں نہیں ٹھہر پائے گا بلکہ آغاز ہی میں بیٹھ جائے گا اور ناکام ثابت ہوگا۔

چنانچہ جو بھی دعوت مذکورہ بنیادوں پر قائم نہیں ہوگی اور وہ دعوت رسولوں کے منہج پر استوار نہیں ہوگی وہ دعوت یقینی طور پر ناکام ثابت ہوگی اور بالاخر مضمحل وپریشان ہوکر بے سود ہوگی؛ 

اس کی سب سے بہتر مثال آج کل کی وہ معاصر جماعتیں اور تنظیمیں ہیں جنہوں نے اپنے لئے کچھ ایسے الگ منہج اور طریقہ دعوت بنا رکھا ہے جو رسولوں کے منہج سے بالکل مختلف ہے بالخصوص عقیدے کے پہلو سے پورے طور پر غفلت برت رکھی ہے الا ما شاء اللہ، اور انہوں نے اصلاح کے چند جانبی پہلوؤں کو اختیار کر رکھا ہے۔ 

کچھ جماعتیں تو ایسی ہیں جو حکومت واقتدار اور سیاست میں اصلاح کی بات کرتی ہیں، لوگوں کے درمیان حدود کے قیام اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں، یہ بھی ایک اہم پہلو ہے مگر سب سے اہم نہیں ہے، آخر کیونکر ایک زانی اور چور پر حد نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے جبکہ شرک کرنے والوں کے خلاف اللہ کے فیصلے کے نفاذ کا مطالبہ نہ ہو؟! اسی طرح قبر پرستوں، بت پرستوں اور اللہ کے اسماء وصفات اور اسکے دین میں انحراف کرنے والوں کے خلاف اللہ کے فیصلے کے نفاذ کا مطالبہ نہ کرکے اونٹ بکری کے معاملے میں لڑنے لوگوں کے درمیان شرعی فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیوں کر سکتے ہیں؟! 

سوال یہ ہے کہ کن لوگوں کا جرم زیادہ سنگین ہے کیا ان لوگوں کا جو زنا اور چوری کرتے ہیں یا جو شرک اور الحاد کرتے ہیں؟! اخلاقی جرائم خود بندوں کے حق میں ظلم ہے جبکہ شرک اور اسماء وصفات کی نفی کرنا خالق باری تعالیٰ کے حق میں ظلم ہے، اور خالق کا حق مخلوق کے حق پر مقدم ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا : "توحید کی سلامتی کے ساتھ گناہوں کا ہونا بہتر ہے توحید کے بگاڑ سے" (الاستقامة : 1/ 466)۔ 

آپ کو تعجب ہوگا کہ اخوانیوں کے یہاں ایسے لوگ مل جائیں گے جنہوں نے ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں باقاعدہ مزاروں سے تبرک لینے اور نیکو کاروں سے وسیلہ پکڑنے کی تائید کرتے ہیں۔ 

سو یہ جماعت جس منہج پر کام کرتی ہے جو انبیائی منہج سے الگ ہے۔


نوٹ : تفصیل کیلئے دیکھیں شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللہ کی کتاب: "منھج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل"۔

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...