الجمعة، 22 مايو 2020

🌋خضر –عليہ السلام- كى موت اور نبوت كى حقيقت

🌋خضر –عليہ السلام- كى  موت اور نبوت كى حقيقت

🛑خضر –عليہ السلام- كے بارے ميں يہ خرافاتى صوفيانہ عقيده پايا جاتا ہے كہ وه ابهى زنده ہيں، بلكہ بہت بدعتى اوروحدت الوجودى صوفى تو اس بات كا بهى دعوى كرتے نظر آتے ہيں كہ انہوں نے ملاقات بهى كى ہے، جبكہ حقيقت يہ ہے كہ ان كى وفات ہوچكى ہے۔ اسى طرح  آپ كے تعلق سے يہ مسئلہ بهى مختلف فيہ رہا ہے كہ آپ نبى تهے يا صرف الله كے ايك نيك بندے ولى تهے ؟ اس ميں راجح بات يہى ہے كہ آپ ايك نبى تهے۔

🛑ان دونوں اہم مسئلوں كو درج ذيل دلائل اور شواہد كى روشنى ميں ثابت كيا گيا ہے ، تاكہ دونوں باتيں كتاب وسنت كى روشنى ميں واضح ہوجائيں، اور ہم خرافاتى ، بدعتى اور وحدت الوجودى صوفيانہ عقيدوں اور الم گلم باتوں سے محفوظ ره سكيں: 

◀️ارشاد بارى ہے: (وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ) [الأنبياء: ٣٤] 
ترجمہ: اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مر جائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ 
"بشر" نفى كےسياق ميں نكره آيا ہے جو عموم كافائده ديتاہے جس ميں تمام انسان شامل ہيں اور اس ميں خضر -﷤- بهى شامل ہوں گے۔ پھر اگر بالفرض آپ كو اس نفى سے مستثنى مان ليا جائے ، اور يہ كہا جائےكہ آپ زنده ہيں ، تو پهر آپ كو ضرور نبى كريم- صلى الله عليہ وسلم- سے آكر ملاقات كرنا تهى اور آپ پر ايمان لانا تها، كيونكہ آپ - صلى الله عليہ وسلم- كى بعثت كے بعد كوئى بهى يا تو آپ پر ايمان لاكر مومن ہوگا يا ايمان نہ لاكر كافر ہوگا۔ 

◀️حضرت عبداللہ بن عمر -رضی اللہ عنہما- سے روایت ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليہ وسلم- نے ایک رات ہميں  عشاء کی نماز پڑھائى اپنی آخر عمر میں۔ جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تم نے اپنی اس رات کو دیکھا اب سے سو برس کے آخر پر زمین والوں میں سے کوئی نہ رہے گا؟“۔

◀️ابن عمر-رضى الله عنہما- نے کہا:  لوگوں نے اس حدیث میں غلطی کی جو بیان کرتے ہیں سو برس کا بلکہ آپ - صلى الله عليہ وسلم- نے یہ فرمایا کہ ”آج جو لوگ موجود ہیں ان میں سے کوئی نہ رہے گا“۔ یعنی یہ قرن تمام ہو جائے گا۔
متفق عليہ: البخارى (116)، ومسلم (217-2537).

◀️حضرت جابر بن عبدالله- رضى الله عنہما- سےروايت ہے كہ ميں رسول الله- صلى الله عليہ وسلم- كو اپنى وفات سے ايك مہينہ پہلے يہ فرماتےہوئےسنا: ”تم مجھ سے قیامت کو پوچھتے ہو ؟ قیامت کا علم تو اللہ کو ہے اور میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ کوئی جان نہیں (یعنی آدمیوں میں سے) جس پر سو برس تمام ہوں (آج کی تاریخ سے اور وہ زندہ رہے) “۔
صحيح: مسلم (2538-218).

◀️حضرت ابو سعيد خدرى –رضى الله عنہ- سے روایت ہے کہ جب  نبى كريم- صلى الله عليہ وسلم- تبوک سے لوٹے تو  لوگوں نے آپ - صلى الله عليہ وسلم- سے پوچھا: قیامت کے متعلق۔ تو رسول الله - صلى الله عليہ وسلم- نے فرمایا: ”سو برس گزرنے پر اس وقت کا کوئی شخص زندہ نہ رہے گا“۔
صحيح: مسلم (2539-219).

🛑اور شيخ الاسلام ابن تيميہ –رحمہ الله- سے خضر -علیہ السلام- كى زندگى كے بارےميں پوچهاگيا تو كہا: اگر خضر –عليہ السلام- زنده ہوتے تو ان پر يہ واجب ہوتا كہ وه نبى كريم- صلى الله عليہ وسلم- كےپاس آكر آپ كےساتھ جہاد كرتے اور آپ سے تعليم حاصل كرتے، اور نبى كريم- صلى الله عليہ وسلم- نے بدر كےدن كہا تها: (الہى! اگر يہ جماعت ہلاك ہوگئى توزمين ميں تيرى عبادت كرنے والا كوئى نہيں رہےگا)۔ اوراس وقت صرف 313/ لوگ تهے ، جن كے نام ، ان كے باپ كےساتھ اور قبيلوں كےساتھ معروف تهے، لہذا اس وقت خضر –عليہ السلام- كہاں تهے؟ تفصيل ديكهيں: مجموع الفتاوى: 4/ 337

🛑حيات خضر –عليہ السلام- كے بارےميں بہت سى حديثيں وارد ہيں جنہيں ابن حجر نے خضر –عليہ السلام- كے اخبار كے سلسلے ميں اپنى ايك خاص كتاب(الزهر النضر فى حال الخضر) ميں ذكر كيا ہے اور ان سب كے ضعيف ہونے كو واضح كيا ہے، اسى طرح ان ميں سے بعض حديثوں كو امام ابن الجوزى نے بهى اپنى كتاب (الموضوعات: 1/308 – 322) ميں ذكر كيا ہے، اور ابن كثير نے (البدايہ والنہايہ : 2/ 180) ميں ، اور دوسرے مورخين نے بهى ان حديثوں كا ذكر كيا ہے، اور انہيں ضعيف قرار ديا ہے ، اور يہ كہ يہ سارى حديثيں نبى كريم- صلى الله عليہ وسلم- سے ثابت نہيں ہيں۔ 

🛑اور يہ كہ وه نبى تھے يا ولى تهے ، اس سلسلے ميں آيتوں كے سياق سے يہى پتہ چلتاہے كہ وه نبى تهے ، اس كے درج ذيل وجوہات ہيں: 
◀️ارشاد بارى ہے: (تو ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے ایک رحمت عطا کی اور اسے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا۔ [كہف: 65]۔  يہاں بنده سے مراد خضر –عليہ السلام- ہيں جنہيں الله تعالى نے اپنے پاس سے علم سكهلايا تها جيسا كہ آدم –عليہ السلام- كو سارے اسماء كو سكهلايا تها۔ 

◀️ارشاد بارى ہے: (موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں تیرے پیچھے چلوں؟ اس (شرط) پر کہ تجھے جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دے۔ [كہف:66] ان سے كہا: يعنى خضر –عليہ السلام- سے : (كياميں تمہارے پيچھے چلوں) اور ايك نبى دين كے معاملے ميں  غير نبى كےپيچھے نہيں چل سكتا۔ 

◀️خضر –عليہ السلام- نے بچے كو قتل كيا، اور ايسا قدم صرف الله كى طرف سے وحى كى صورت ہى ميں اٹهايا جاسكتا ہے جيسا كہ ابراہيم –عليہ السلام- خواب ديكھ كر اپنے بيٹے كو ذبح كرنے كيلئے آماده ہوئے تهے، اگر خضر –عليہ السلام- نبى نہ ہوتے تو مجرد اپنے من سے اس طرح كا قدم نہ اٹهاتے۔ 
پهر خضر –عليہ السلام- نے ان سارے كاموں كى تفسير موسى –عليہ السلام- سے بيان كى ، اور آپ سے اپنى حقيقت امر كو واضح كرتےہوئےيہ كہا:  (اور میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہیں کرسکے) [كہف: 82]، يعنى انہوں نے ان سارے كاموں كو اپنى طرف سے نہيں كيا تها ، بلكہ ان سب كو بحكم الہى اور وحى كى روشنى ميں كيا تها۔ 

◀️اسى لئے علامہ قرطبى نے كہا ہے: جمہور كےنزديك وه نبى ہيں، اور آيت اسى پر دلالت كرتى ہے، كيونكہ ايك نبى اپنے سے كم تر سے علم حاصل نہيں كرےگا، اور يہ كہ باطنى امور سے صرف انبياء  ہى كو مطلع كيا جاتاہے۔ 

🎴اور اس اہم فريضے كو ادا كركے خضر –عليہ السلام- كى وفات ہوگئى جيسے كہ ايك انسان كى وفات ہوتى ہے۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...