🌋اخوانی جماعت اور ملوکیت: ایک معمہ
🔮ملوکیت یا بادشاہت کا حکم اسلام میں کیا ہے، اس پر شروع سے کسی نے بحث نہیں کیا، کیونکہ خلافت ہو یا بادشاہت دونوں اگر قانون الہی کے مطابق ہیں تو صحیح ورنہ دونوں قابل مذمت۔۔ قرآن میں بارہا بادشاہت کی تعریف کی گئی ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں مختلف بادشاہوں کے پاس خطوط لکھے لیکن کسی سے بادشاہت چھوڑنے کی شرط نہیں لگائی بلکہ الٹا اسلام لانے کی صورت میں اسی حال پر باقی رہنے کی بات کی۔۔
🔮مزید نجاشی بادشاہ کے بارے میں فرمایا کہ حبشہ میں ایک انصاف پسند بادشاہ رہتا ہے وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اسی کے پاس چلے جاؤ۔۔
بادشاہت کو نعمت بتاتے ہوئے ارشاد ہوا: تؤتي الملک من تشاء وتنزع الملك ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء ۔۔
اسی طرح بنو اسرائیل پر احسان جتاتے ہوئے مدح کے پیرائے میں فرمایا : وآتیناھم ملکا عظیما
اس پر بہت پہلے ایک طویل مضمون لکھا تھا جسے اس پوسٹ پر دیکھ سکتے ہیں:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1859999387446673&id=100003098884948
🔮اخوانیوں اور تحریکیوں نے ملوکیت کی مذمت میں بحث اس وقت شروع کی جب عثمانی بادشاہت کا خاتمہ ہوا، اور انہوں نے عالم اسلام کی ابتر صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دین کے نام پر تنظیمیں بنائیں اور رافضی خمینی کے ذریعے بغاوت پر مبنی حکومت کو دار الاسلام قرار دیا اور پوری دنیا میں یہ باور کرایا کہ ایران ہی اس وقت دار الاسلام ہے باقی دار الکفر اور سارے حاکم ملوکیت کے پرستار طاغوت ہیں،،
🔮یہ ان کی طرف سے دوہرا معیار تھا کیونکہ سید مودودی نے سعودی ملوکیت کی کبھی برائی نہیں کی، وہاں برابر دورے کرتے رہے اور چندہ اٹھاتے رہے، بلکہ سعودی ملوکیت کی طرف سے فیصل ایوارڈ بھی لیا اور ساتھ میں دو لاکھ ریال بھی لائے،، جبکہ دوسری طرف خمینی بغاوت کو دار الاسلام قرار دینے کیلئے معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو کاٹ کھانے والی ظالم ملوکیت میں بدل دیا۔۔ اور ملوکیت کی مذمت میں پوری ایک کتاب تصنیف کردی جسے فورا رافضی ملک ایران نے داخل نصاب کرلیا۔۔
🔮یہی حال حسن بنا کا بھی تھا،، جماعت بناتے ہی ملوکیت کے دلدادہ تھے، یہ بھی سعودی شاہ عبد العزیز کے پاس دو زانو بیٹھ کر سلام کرتے تھے،،
اور اپنے ملک مصر میں شاہ فواد کے پیچھے پیچھے لگے رہتے تھے۔۔ بلکہ جب شاہ فواد کا انتقال ہوگیا تو اس پر اخوانیوں نے خوب مرثیہ لکھا،، اسے اسلام کا پاسدار اور دین کے جھنڈے کو بلند کرنے والا کہا جبکہ وہ انگریزوں کے اشارے پر چلتا تھا۔۔
اخوانیوں کے اس قدر تعریف، مدح سرائی اور مرثیہ سے متاثر ہوکر ولی عہد فاروق نے انہیں اپنے قریب کرلیا، ، پھر تو حسن بنا نے اس کی بھی خوب تعریف کی اور اسے مربی، استاذ، آئیڈیل اور پکا دیندار اسلامی اوامر کا نافذ کرنے والا قرار دیا جبکہ آج موجودہ مصری دستور جس کی اخوانی مخالفت کرتے ہیں وہ حسن بنا ہی کے دور ملوکیت کا بنا ہوا ہے جس کی حسن بنا تعریف کیا کرتے تھے۔۔
🔮1937 کے اندر حسن بنا نے اخوانی مجلے میں ملک فاروق کی تعریف میں لکھا: شاہ فاروق مصحف شریف کے حامی ہیں، 30/ کروڑ مسلمان پوری دنیا سے آپ پر فدا ہیں، اللہ تعالی آپ کو قرآن کی حفاظت کیلئے چن رکھا ہے، جلالة الملك آپ اللہ کی برکت سے آگے بڑھتے رہیں۔۔
🔮ملک فاروق کی تاج پوشی کے وقت اخوانیوں کی طرف سے مطالبہ ہوا کہ اسے ایک دینی پروگرام میں عمل میں لایا جائے اور تاج پوشی جامع ازہر کے شیخ کریں گے۔۔ لیکن وفد پارٹی کے نحاس پاشا نے اسکی مخالفت کی، پھر لوگ دو حصوں میں بٹ گئے، زیادہ تر لوگ نحاس پاشا کے ساتھ ہوگئے اور نعرہ لگایا: الشعب مع النحاس، یعنی مصری عوام نحاس کے ساتھ ہے۔ یہ دیکھ کر حسن بنا بھی اخوانیوں کو لیکر سڑک پر نکل گئے اور ملک فاروق کے حق میں نعرہ لگانے لگے : اللہ مع الملک، یعنی اللہ بادشاہ کے ساتھ ہے، پھر کیا تھا سارے اخوانی مظاہرین ملک فاروق کو امیر المومنین کہنے لگے۔
تفصیل دیکھیں اس کتاب میں: الاخوان المسلمون: قراءة في الملفات السرية
🔮یہ ہے اخوانیوں کا دوہرا معیار،، پھر جنرل نجیب نے ملک فاروق کا تختہ پلٹا تو اخوانی فوجی حکومت کے ساتھ ہوگئے،، حالانکہ اس وقت سارے اخوانی تحریکی فوجی حکومت کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں،، اور ملوکیت کے ساتھ اسے بھی برا سمجھتے ہیں۔
سید مودودی نے جنرل یحیی کے خلاف اس قدر پرچار کیا کہ ایک رافضی عورت فاطمہ جناح کو ملک کی سربراہی کیلئے راضی ہوگئے،، بلکہ اس کیلئے پرچار کرنے لگے۔۔ اور اسی کو ووٹ بھی دیا گرچہ عوام کی اکثریت نے اسے رد کردیا۔
🔮آج کے اخوانی اپنے مرشد کے منہج سے ہٹ کر اگر ایک طرف ملوکیت کو ناپسند کرتے ہیں تو دوسری طرف خود مملکت قطر اور مملکت کویت میں رہنا پسند کر رہے ہیں،، بلکہ انہوں نے اپنا سیاسی ہیڈکوارٹر مملکت برطانیہ میں بنا رکھا ہے، جبکہ دینی تنظیم ایک یورپی کافر ملک میں بنا رکھا ہے جسے قطر سے چلایا جا رہا ہے،،
🔮حقیقت یہ ہے کہ یہ مصلحت کے بندے ہیں،، انکے نزدیک دولت اور سیادت سب کچھ ہے،، یہ ہر اس حکومت کی برائی کریں گے جہاں انکی دال نہیں گلے گی، اور ہر وہ حکومت ان کی نظر میں خدا رسیدہ ہے جو انہیں اپنے پلکوں پر سجائے رہے۔۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق