🌐 سلفیان ہند میں تحریکی گھس پیٹھ🌐
💥اسباب و عوامل💥
◀️دور حاضر میں سلفیت کو گھیرنے کی جس طرح کوشش ہو رہی ہے شاید کہ ماضی میں ایسا کبھی ہوا ہو۔ کیوں کہ اس وقت سب سے زیادہ خطرناک کھیل یہ کھیلا جا رہا ہے کہ انھیں اندر سے توڑا جائے۔ اور اسکے لئے سب سے زیادہ تحریکی سرگرم ہیں۔ اور انہوں نے بر صغیری سلفیوں کے عدم تنظیم سے فائدہ اٹھا کر ان کے اندر زبر دست گھس پیٹھ کی ہے۔ آج خود سلفیوں کے اندر ایک مضبوط ٹیم ایسی موجود ہے جو تحریکیت کے دفاع میں لگی ہوئی ہے۔ بلکہ تحریکیوں کی طرف سے ان سے زیادہ انکا دفاع کرنے والے آج کل سلفی برادران پائے جاتے ہیں۔ ہاں اگر ان میں کسی کی اپنی کوئی مصلحت نہیں تو سمجھ لیں وہ بھی تحریکیوں کی طرح مکمل تحریکی بن چکا ہے۔
👈آج وقت کی ضرورت ہے کہ اس تحریکی منظم سازش کو سمجھا جائے کہ آخر یہ شروع سے اب تک ہر جگہ سلفیوں کے اندر ہی سیندھ مارتے کیوں چلے آ رہے ہیں؟! رافضیت وخمینیت سے ہم آہنگ اپنے افکار ونظریات سے آخر یہ تحریکی اہل حدیث نوجوانوں کے اذہان وقلوب ہی کو کیوں مسموم کر رہے ہیں؟! آخر یہ تحریکی اہل حدیث مساجد پر قبضہ کر کے اہل حدیث عوام میں مودودی افکار ضالہ کو پھیلانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟!
◀️گزشتہ صدی کی 70 اور 80 ہی کی دہائی میں جناب حکیم اجمل خان صاحب نے ان اسباب و عوامل کو جاننے کیلئے بر صغیر ہند و پاک کا طول طویل سفر کیا اور "جماعت اسلامی کو پہچانیئے" نامی کتاب لکھ کر ان اسباب و عوامل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ مقدمے کے چند اہم صفحات کو لگا رہا ہوں جسے دیکھنے کے بعد موجودہ وقت میں کتاب کی اہمیت اور اس کی افادیت کا اندازہ ہو سکے گا۔ پوری کتاب اس لنک سے حاصل کر سکتے ہیں:
https://archive.org/details/JamtiIslami
👈حقیقت یہ ہے کہ دوسرے تقلیدی مسالک ومذاہب کی طرح سلفیت کو کسی تاویل بے جا اور تحریف و مغالطے کی ضرورت نہیں ہے۔ کتاب وسنت سے آہنگ صاف صاف عقدی وفکری مسائل کو منہج سلف کے فہم کے مطابق واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وقت گزرتے اس پر دھیان نہ دیا گیا تو غیر تو غیر خود اپنوں کے ہاتھوں ہی دفاعی پوزیشن میں ہمیشہ رہنا پڑے گا۔
=========================================
◀️ایک صاحب نے ہندو سنگھ اور اسلامی سنگھ کے افکار ونظریات اور انکے اہداف کے مابین موازنہ کیا ہے جو کہ بالکل درست ہے۔ صاحب تحریر نے اسلامی سنگھ سے مراد گرچہ کسی خاص تنظیم کو مراد نہیں لیا تھا لیکن تحریکیوں نے اسے اپنے اوپر فٹ کرکے صاحب تحریر کے پوسٹ پر خوب واویلا مچایا۔ اس پوسٹ پر مجھے بھی بعض احباب نے مینشن کیا لہذا میں نے بھی موازنے کو درست سمجھ کر کچھ باتیں رکھیں جو درج ذیل ہیں:
میری نظر میں موازنہ درست ہے۔ تحریکیوں کو اعتراض صرف تشدد کی راہ پر ہے۔
تو میرا سوال صرف اتنا ہے کہ مصر میں شاہ فاروق، جمال عبد الناصر، انور سادات اور حسنی مبارک کے خلاف کیا اخوانیوں نے خروج و بغاوت نہیں کیا تھا اور تشدد کی راہ نہیں اختیار کی تھی؟؟؟
جماعت اسلامی پاکستان اور خود بانی جماعت کی مکمل رغبت و رضا کے ساتھ کیا خمینی نے ایران میں بغیر تشدد کے انقلابی حکومت قائم کی تھی جس کے قیام کی تمنا پاکستان میں بھی مودودی صاحب کرتے کرتے اللہ کے پیارے ہوگئے؟؟؟
اور اسی وقت بلوچستان میں بھی آخر کس نے وہی خمینی انقلاب دہرانے کی کوشش کی تھی جسے فوج نے ناکام بنا دیا؟؟؟،
کیا ٹیونس کے اندر 2011 میں اخوانیوں نے ملی جلی سرکار بغیر فتنہ و فساد اور بغیر تشدد کے بنائی تھی؟؟؟ آج وہاں کی حکومت آخر بن علی کی حکومت کے مقابلے کتنی اچھی ہے؟ کونسا اقامت دین آگیا ہے وہاں؟ اس وقت جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ کہیں زیادہ بدتر ہے پہلے کے مقابلے۔
مصر میں مرسی حکومت بغیر تشدد کے قائم ہوئی تھی کیا؟؟؟
معمر قذافی کو کتے کی طرح کس نے مارا اور کس کے فتوے پر مارا؟ مانا وہ بہت برا تھا لیکن اس کے بعد انقلابی فسادیوں نے کون سی اسلامی حکومت قائم کردی؟؟؟؟
عرب فسادیہ جو خود ایک تاریخی تشدد کی علامت ہے آخر اسے بھڑکانے والے اور فتوی دے دے کر تیل ڈالنے والے اور انقلابیوں کیلئے دعا کرنے والے کون تھے وہ فسادیہ جس نے کئی مسلم ملکوں کو برباد کردیا اور کئی ایک مزید نشانے پر تھے جنہیں اللہ نے بچا لیا جس سے انقلابیوں کی آرزو اور خواہش ادھوری رہ گئی اور آج تک وہ اسی حسرت و افسوس میں جل بھن رہے ہیں۔
حقیقت میں تحریکیت اور تشدد لازم ملزوم ییں۔ اگر ایسا کہیں نہیں دکھ رہا ہے تو اسے مجبوری کہہ سکتے ہین۔
سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق جن کا دستور ہو وہ تشدد سے انکار کبھی نہیں کرسکتے۔
نیز آخری وضاحت یہ کہ انکے یہاں پہلے قیام حکومت ہے پھر اقامت دین۔ اور بقول مودودی اقامت دین کیلئے حکومت ضروری ہے۔ اور بقول سید قطب وہ چاہے جیسے قائم کرنا پڑے۔ حالانکہ یہ فکر یکسر انبیائی مشن کے متضاد ہے۔
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق