🎪معالم فی الطریق/ جادہ ومنزل🎪
😈تخریبی جماعتوں کا مرجع ومصدر😈
📖قسط چہارم
✏بقلم ڈاکٹر اجمل منظور
[[سید قطب کی تخریبی کتاب معالم فی الطریق اور انکے افکار ضالہ پر بطور تبصرہ کے ایک عرصہ ہوا لکھنا شروع کیا تھا خاص طور سے اس کتاب پر تین قسطیں لکھ چکا ہوں۔ لیکن بیچ میں کچھ وقفہ زیادہ ہو گیا جس کیلئے معذرت خواں ہوں۔ اسی کتاب پر تبصرے کی یہ چوتھی کڑی ہے جس میں کتاب کے موضوعات اور اسکے محتوی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کتاب سے عالم اسلامی پر جو گہرے تخریبی اثرات مرتب ہوئے ہیں اسے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور عوام کو اس سے آگاہ ہونے اور اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔]]
👈تیسری قسط کو اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1737882396325040&id=100003098884948
☀️تحریکی مشہور کر رکھے ہیں کہ اس کتاب پر کسی نے مواخذہ نہیں کیا ہے بلكہ سيد قطب كى تمام تحريريں اور كتابيں مسلمانوں ميں مقبول عام ہيں ۔ہاں شيخ ربيع مدخلى نے سيد قطب پر نقد كيا ہے جو كہ ان كے مسلكى تعصب اور ہٹ دھرمى پر منحصر ہے ۔ يہى وجہ ہے كہ يہ تحريكى ہر اس شخص كو مدخلى كا مقلد كہہ ديتے ہيں جو سيد قطب كے افكار ونظريات پر نقد كرتا ہے۔ يہ محض تحريكيوں كا پروپيگنڈه ہے۔ سيد قطب پر نقد كرنے والے بہت سارے عالم گزرے ہيں بلكہ خود قطبى اور اخوانى فكر كے حاملين نے سيد قطب كے افكار پر نقد وجرح كيا ہے اور انہیں رد كر ديا ہے۔ بلكہ بعض نے تو ان متشدد قطبى افكار كو موجوده دور كے متشدد گروہوں جيسے جماعة التكفير والهجرة كى پيداوار كا سبب مانا ہے۔
خود سید قطب کے استاذ محمود عباس العقاد۔ معاصر محنک عاکم محمود محمد شاکر۔ محمد عبد اللطیف سبکی اور خود اس وقت کے پیر مغاں قرضاوی نے بھی نقد کیا ہے۔۔۔
☀️چنانچہ جامع ازہر کے لجنة الفتوى کے رئیس اور اس وقت کے المجلس الأعلى للشئون الإسلامية کے ذمیدار شیخ محمد عبد الطیف سبکی (ت 1969) اس کتاب پر نقد کرتے ہوئے پہلے یہ عنوان لکھتے ہیں:
"عن كتاب معالم في الطريق وهو دستور الإخوان المفسدين" یعنی معالم فی الطریق کتاب فساددی اخوانیوں کا دستور ہے۔۔
پھر لکھتے ہیں:
پہلی نظر میں قاری کو لگے گا کہ یہ تو اسلام کی طرف بلا رہا ہے لیکن اسے یہ احساس نہیں رہتا کہ یہ استحصالی اسلوب ہے کاتب دراصل قاری کے دینی جذبات کو بھڑکانا چاہتا ہے۔۔ اور یہ اس وقت بہت آسان ہے جب قاری نوجوان ہو یا ان بھولے دیندار طبقہ میں سے ہو جو دین کے نام پر ہر داعی کی طرف لپک پڑتے ہیں، اور جو بھی ان کے دماغ میں انڈیل دیا جائے اسے بغیر سوچے قبول کر لیتے ہیں نیز سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہی حق ہے اور اسی میں نجات ہے۔
☀️سید قطب اسی کتاب کے ص 6 پر لکھتے ہیں: "ووجود الأمة المسلمة يعتبر قد انقطع من قرون كثيرة، ولابد من إعادة وجود هذه الأمة لكي يؤدي الإسلام دوره المرتقب في قيادة البشرية مرة أخرى .. لابد من بعث لتك الأمة التي واراها ركام الأجيال وركام التصورات، وركام الأوضاع، وركام الأنظمة التي لا صلة لها بالإسلام… إلخ .".
امت اسلامیہ کا وجود صدیوں پہلے ختم ہو چکا آج اس کے احیاء کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کی سربراہی کیلیے اسلام دوبارہ اپنے منتظر رول کو ادا کرے۔۔۔ آج اس امت کی احیاء ضروری ہے جسے نسل در نسل بھلا دیا گیا، جسے تصورات کے ملبے تلے دبا دیا گیا، حوادث زمانہ کی آندھیوں نے جسے گم کردیا اور جسے معاشرے سے ان (باطل) نظاموں نے مٹا دیا جن نظاموں کا اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔۔۔
👈دیکھیں سید قطب نے صدیوں سے امت اسلامیہ کے وجود کا کردیا! کیا ان گزری ہوئی سنہری صدیوں میں ائمہ کرام، محدثین عظام، مفسرین قرآن اور فقہائے اسلام نہ تھے؟!
کیا یہ لوگ بقول سید قطب جاہلیت کی زندگی گزار رہے تھے؟ اسلام نام کی کوئی چیز کیا انکے یہاں نہیں تھی؟ یہاں تک کہ سید قطب نے آکر اسلام کیلئے احیاء کا کام شروع کیا۔۔۔۔!
☀️ـ صفحہ 9 پر لکھتے ہیں:
" إن العالم يعيش اليوم كله في جاهلية .. هذه الجاهلية تقوم على أساس الاعتداء على سلطان الله في الأرض، وعلى أخص خصائص الألوهية وهي الحاكمية ، إنها تسند الحاكمية إلى البشر ".
دنیا آج جاہلیت میں جی رہی ہے ایسی جاہلیت جو زمین کے اندر اللہ کی بادشاہت کے خلاف ظلم پر قائم ہے۔ بلکہ الوہیت کے خلاف جس کا سب سے خاص پہلو حاکمیت ہے وہ حاکمیت جس سے ساری انسانیت وابستہ ہے۔
👈یہ ہے سید قطب کا نظریہ جس کے مطابق سارا عالم اسلامی اس وقت کفر میں ڈوبا ہے۔۔۔
☀️- ص 10 پر لکھتے ہیں:
" وفي المنهج الإسلامي وحده يتحرر الناس جميعا من عبادة بعضهم بعضا، وهذا هو المقصود الجديد الذي نملك إعطاءه للبشرية .. ولكن هذا الجديد لابد أن يتمثل في واقع عملي، لابد أن تعيش به أمة، وهذا يقتضي بعث في الرقعة الإسلامية، فكيف تبدأ عملية البعث؟! .. إنه لابد من طليعة تعزم هذه العزلة وتمشي في الطريق".
صرف اسلامی منہج ہی میں لوگ ایک دوسرے کی عبادت سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ اور نوع انسان کو دینے کیلئے ہمارے پاس یہی نظام ہے۔۔ پھر ضروری ہوگا کہ امت اسی منہج پر چلے اور اسی کا احیاء کرے۔۔۔ اور اسکے لئے ایک ہراول دستے کی ضرورت ہے جو اس راستے پر لوگوں کو لائے گا۔۔۔۔
☀️ص 11 پر لکھتے ہیں:
"ولابد لهذه الطليعة التي تعزم هذه العزمة من " معالم في الطريق"، ولهذه الطليعة المرجوة المرتقبة كتبت " معالم في الطريق " .وذلك كلامه .
یعنی یہی ہراول دستہ امت کیلئے سنگ میل ہوگا۔۔۔
👈چنانچہ یہ ہے سید قطب کا شرپسندی والا منہج جو ایک تخریب پسند ہراول دستے کو تیار کر کے نوجوانوں کو اپنے بتائے ہوئے منہج پر لگائیں گے۔۔۔ اور جس کیلئے اس کتاب کو بطور دستور کے مرتب کیا ہے۔۔۔
☀️آگے دیکھتے ہیں اس ہراول دستے کے کیا نظریات ہوں گے موجود معاشرے کے تعلق سے:
چنانچہ ص 11 پر لکھتے ہیں:
" ونحن اليوم في جاهلية كالجاهلية التي عاصرها الإسلام ، أو أظلم ، كل ما حولنا جاهلية ".
آج ہم پوری طرح سے جاہلیت میں ہیں، بالکل وہی جاہلیت جس سے سامنا ابتداء میں اسلام کو تھا بلکہ اس وقت اس سے بھی بڑی ظالم جاہلیت سے سامنا ہے، چنانچہ ہمارے آس پاس ہر طرف جاہلیت ہی جاہلیت ہے۔۔۔
☀️ص 23 پر لکھتے ہیں:
" إن مهمتنا الأولى هي تغيير واقع هذا المجتمع .. مهمتنا هي تغيير هذا الوضع الجاهلي من أساسه ".
ہمارا پہلا ٹارگٹ اس سماج کے ڈھانچے کو بدل کے رکھ دینا ہے۔۔ اس جاہلی حالت کی سرے سے بنیاد ہی ختم کر دینا ہے۔
👈گویا اس سے سید قطب کا سماج کے خلاف بغاوت کا اعلان ہے۔۔
☀️ص 31 پر لکھتے ہیں:
" وليس الطريق أن نخلص الأرض من يد طاغوت روماني أو طاغوت فارسي إلى يد طاغوت عربي، فالطاغوت كله طاغوت، إن الأرض لله .. وليس الطريق أن يتحرر الناس في هذه الأرض من طاغوت إلى طاغوت! .. إن الناس عبيد الله وحده .. لا حاكمية إلا لله، لا شريعة إلا من الله .. ولا سلطان لأحد على أحد .. وهذا هو الطريق ".
ہمارا کام یہ نہیں ہے ایک رومی یا فارسی طاغوت سے زمین چھین کر ایک عربی طاغوت کے حوالے کر دیں۔ سارے طاغوت ایک جیسے ہیں، زمین اللہ کی ہے، لہذا یہ مقصد بالکل نہیں ہے کہ لوگ ایک طاغوت سے آزاد ہوکر دوسرے طاغوت کے رحم وکرم پر جئیں۔۔۔
سارے لوگ صرف اللہ کے بندے ہیں، لہذا حکومت، شریعت اور بادشاہت صرف اسی کی چلے گی، کسی کی بادشاہت ہم قبول نہیں کر سکتے۔۔۔ اور یہی ہمارا راستہ ہے۔۔۔
👈دین کے ساتھ دھوکہ کرنے والوں کا ہمیشہ سے یہی منہج رہا ہے ۔ خوارج نے پہلے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہ بات کہہ دی ہے کہ حکومت صرف اللہ کی چلے گی۔۔۔
اور اس سے ان کا مقصد صرف امت کو توڑنا تھا، مسلمانوں کی صفوں کو پارہ پارہ کر کے کمزور کرنا تھا۔ اور خوارج کے اسی خبیث نظرئیے کے بارے میں حضرت علی نے کہا تھا: إنها كلمة حق أريد بها باطل ".
👈موصوف کبھی ایک خاص خطے میں احیاء دین کی بات کرتے ہیں پھر کبھی پوری دنیا میں اسے پھیلانے کی بات کرنے لگتے ہیں۔۔۔ اور وہ بھی اس ہراول دستے کے ہاتھ پر جس کا اس وقت وجود بھی نہیں تھا۔۔ شاید اسی ہراول دستے کو پیدا کرنے کیلئے موصوف نے یہ کتاب تحریر کی تھی۔۔۔
👈اس منہج پر کسی ہراول دستے کو پیدا کرنے کا خیال تخریبی اور تدمیری کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔ اور اسی تخریبی دعوت کو موصوف اسلام کا راستہ بتا رہے ہیں جس کا کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔
👈اسلام تو ہر چھوٹے بڑے فتنے سے لوگوں کو دور رکھتا ہے جبکہ موصوف اسی فتنے کی طرف بلا رہے ہیں۔۔ اور وہ بھی ایک بھیانک فتنے کی صورت میں۔۔۔
☀️﴿حاکمیت صرف اللہ کیلئے ہے۔۔۔﴾
سید قطب کے اس خارجی فکر کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ کیا یہ قرآن وسنت کے بالکل صریح مخالف نظریہ نہیں ہے جو کہ حاکم وقت کی تابعداری کا پابند بناتے ہیں؟! کیا یہ نظریہ لوگوں کو ملکی بغاوت پر نہیں ابھارتا ہے؟
یقینا یہ فتنہ وفساد کا نظریہ ہے۔ ایک طرف قرآن وسنت میں انسانوں کے حاکم ہونے کو تسلیم کیا گیا ہے اور انکے حقوق کی وضاحت بھی کی گئی ہے اور رعایا کو ان کے ساتھ حسن تعاون اور نصح وخیر خواہی کی تلقین کی گئی ہے۔۔ اور ساتھ ہی اسلام ان حکام کو معصوم بھی نہیں کہتا بلکہ یہ رہنمائی کرتا ہے کہ اگر ان سے خطا سرزد ہو تو احسن طریقے سے انکی رہنمائی کی جائے انہیں نصیحت کی جائے۔ ان کے خلاف خروج نہ کیا جائے اور نہ ہی کوئی ایسا فسادی انقلاب برپا کیا جائے جو اس سے بھی زیادہ تباہی وبربادی کا سبب ہو۔۔۔
☀️کس قدر حماقت اور عیاری کی بات ہے کہ ایک طرف اسلام کے نام پر ہراول دستے کے ذریعے فتنہ وفساد برپا کر کے نظام حکومت پر قبضہ کیا جائے پھر دنیاوی دستور کو نافذ کیا جائے۔۔۔ یعنی حکومت ملنے کے بعد حاکمیت الہی کا نعرہ بھلا دیا جائے۔
🔥اور کیا چند سرپھرے (قطبی ہراول دستے) جو دینی تعلیمات سے بے بہرہ ہوں وہ حکومت کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں؟ اور وہ بھی اسلامی شریعت کی روشنی میں؟ یقینا یہ دین سے دور کفار کے آلہ کار ہیں جن کا مقصد اسلامی دنیا میں صرف فساد پھیلانا ہے اور دشمنوں کے مقاصد کو پورا کرنا ہے۔۔۔
☀️ص 43 پر لکھتے ہیں:
" فلا بد - أولا – أن يقوم المجتمع المسلم الذي يقر عقيدة لا إله إلا الله، وأن الحاكمية ليست إلا لله .. وحين يقوم هذا المجتمع فعلا تكون له حياة واقعية، وعندئذ فقط يبدأ هذا الدين في تقرير النظر والشرائع ".
حاکمیت الہی کو ماننے والے سماج پر واجب ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں۔۔۔ اور جب لوگ کھڑے ہو جائیں گے اس وقت حقیقی زندگی ہو گی۔۔۔ اور شریعت کی نظر میں اسی وقت اس دین کا آغاز ہوگا۔۔۔
👈یہ سید قطب کی طرف سے اسلامی سماج پر ایک خارجی حملہ ہے گویا موصوف کی نطر میں بر وقت کہیں اسلامی سماج پایا ہی نہیں جاتا۔۔۔ یہ تو اسلامی سماج اور اسلامی نظام کا منکر ہے۔ اور ایک ایسے خارجی نظام کی طرف دعوت دے رہا ہے جو صرف فتنہ وفساد کا باعث ہو۔۔۔
اس کا خیال ہے کہ پہلے اس جاہلی سماج اور اس طاغوتی نظام کو بیخ وبن سے ختم کر دیا جائے پھر اپنے منہج پر حکومت قائم کیا جائے۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ یہ تو بالکل دشمنان اسلام صہیونیوں کی سوچ ہے۔۔۔۔ آخر کہاں کہاں انہوں نے شریعت کو نافذ کیا سوائے فتنہ وتباہی کے۔۔۔۔
☀️ص 46 پر لکھتے ہیں:
"يصرح به مرة ثالثة أو رابعة فيقول : أن دعاة الإسلام حين يدعون الناس لإنشاء هذا الدين! لذا يجب أولاً أن يدعوهم إلى اعتناق العقيدة حتى لو كانوا يدعون أنفسهم مسلمين، وتشهد لهم شهادات الميلاد بأنهم مسلمون ويعلمهم أن كلمة لا إله إلا الله، مدلولها الحقيقي هو رد الحاكمية لله ، وطرد المعتدين على سلطان الله" .
اسلامی داعیوں پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو سب سے پہلے عقیدے کی طرف بلائیں گرچہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں اور انکے تاریخ میلاد سے واضح بھی ہو کہ وہ مسلمان ہیں۔۔۔ انہیں اس عقیدہ لا الہ الا اللہ کا مطلب بتایا جائے کہ اس کا حقیقی معنی یہ ہے کہ زمین پر اللہ حاکمیت قائم کی جائے اور اللہ کی بادشاہت پر قبضہ کرنے والے ظالموں کو مار کے بھگایا جائے۔۔۔
👈یہ سید قطب کا اصلی خارجی چہرہ ہے جو اسلام کے اصولوں سے یکسر متضاد ہے۔۔۔ یہ فتنہ وفساد والا چہرہ ہے جو صرف اللہ کی زمین میں خونریزی چاہتا ہے۔۔۔ ورنہ لا الہ الا اللہ کا یہ مفہوم بالکل نہیں ہے جسے موصوف نے پیش کرنے کوشش کی ہے۔
اسلام پہلے عقیدہ توحید کی بات کرتا ہے پھر فرائض اسلام کی بات کرتا ہے ۔۔۔۔
لیکن یہ اخوانی پہلے حکومت کی بات کرتے ہیں اور اس کے لئے کلمہ توحید کے معنی میں بھی تحریف کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔۔۔
☀️ص 81 پر لکھتے ہیں :
" أن إعلان ربوبية الله وحده للعالمين : معناها الثورة الشاملة على حاكمية البشر في كل صورها وأشكالها، وأنظمتها وأوضاعها، والتمرد الكامل على كل وضع في أرجاء الأرض، الحكم فيها للبشر في صورة من الصور ..إلخ".
اللہ کی ربوبیت کے اعلان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب برپا کرکے انسانوں کی حاکمیت کو جڑ سے ختم کردیا جائے اور دنیا کے تمام گوشوں میں مکمل بغاوت کا اعلان کیا جائے۔ وہ حاکمیت خواہ کسی بھی شکل میں ہو۔۔۔
👈یہ جنونی سید قطب کے دل کی بھڑکتی ہوئی بھڑاس اور حقد ہے جو اس نے انڈیل دی ہے۔۔۔
☀️ص 83 پر لکھتے ہیں:
" أن هذا الإعلان العام لتحرير الإنسان في الأرض لم يكن إعلاناً نظرياً فلسفياً، إنما كان إعلاناً حركياً، واقعياً إيجابياً .. ثم لم يكن بد من أن يتخذ شكل الحركة إلى جانب شكل البيان.. إلخ".
اللہ کی سرزمین میں انسانوں کیلئے آزادی کا یہ اعلان کوئی نظریاتی اور فلسفیانہ اعلان نہیں ہے۔ بلکہ ایک تحریکی، ایجابی اور واقعی اعلان ہے۔۔ پھر ضروری ہے کہ یہ تحریکی شکل اپنا ایک وضاحتی شکل بنا لے۔۔۔
👈سید قطب نے بھولے عوام اور جذباتی نوجوانوں کو جہاد کے نام پر اسی طرح کے فسادی منہج کا استعمال کر کے بھٹکانا چاہا ہے۔۔۔۔۔ آگے اپنے اسی اخوانی سوچ کو جہاد کے رنگ میں پیش کیا ہے۔
☀️چنانچہ ص 90 پر لکھتے ہیں:
" أن الجهاد ضرورة للدعوة إذا كانت أهدافها هي إعلان تحرير الإنسان ، إعلاناً جاداً ، يواجه الواقع الفعلي.. سواء كان الوطن الإسلامي آمناً أم مهدداً من جيرانه ، فالإسلام حين يسعى إلى السلم لا يقصد تلك السلم الرخيصة وهي مجرد أن يؤمن الرقعة الخاصة التي يعتنق أهلها العقيدة الإسلامية ".
جہاد ضروری ہے اس دعوت کیلئے جس کا مقصد انسانوں کو حقیقی معنوں میں آزاد کرنا ہو۔ سنجیدگی سے اس کا اعلان کرتے ہوئے جو زمانے سے ٹکرائے۔۔۔ اسلامی ملک خواہ پرامن ہوں یا پڑوس ممالک کی طرف سے خطرے کی حالت میں ہوں۔۔۔۔ اسلام ایسی سستی امن وسلامتی کو نہیں چاہتا جو عقیدے کے بچاؤ کی گارنٹی پر کسی خاص ٹکڑے پر راضی ہوجائے۔
👈یہ سید قطب کا باغیانہ تیور ہے جو پرامن ملکوں میں فتنہ وفساد برپا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں حالانکہ یہ کتاب وسنت کے نصوص اور اسلامی توجیہات کے بالکل متضاد ہیں جو اس طرح کے جنونی افعال اور باغیانہ اعمال سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام جنگ کو صرف استقرار حیات کا علاج سمجھتا ہے۔ فتنوں کو قلع قمع کرنے اور دعوت دین کیلئے راستہ بنانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اور ساتھ ہی اسلام ہر اس شخص کے ساتھ مسالمت کا حامی ہے جو مسالمت پسند ہیں ۔۔۔۔۔
لیکن معالم فی الطریق کا مصنف اس سے بالکل راضی نہیں ہے۔۔ بلکہ الٹا الگ اسے ایک باغی گروہ کو جنم دینے کا قائل ہے۔۔۔
☀️ص 105 پر لکھتے ہیں:
" وكما أسلفنا فإن الانطلاق بالمذهب الإلهي .." يريد مذهبه في الثورة والفتنة والتدمير ، تقوم في وجهه عقبات مادية عن سلطة الدولة ، ونظام المجتمع ، وأوضاع البيئة ، وهذه كلها هي التي ينطلق الإسلام ليحطمها بالقوة .. ".
اس الہی راستے پر چلنے میں حکومت، سماجی نظام اور ماحولیاتی حالات کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا ہوگا جنہیں اسلامی قوت سے توڑ دینا ہوگا۔۔۔
👈یہاں سید قطب کا مریض عقل اس احتمال کو پیش کر کے اپنے ہراول دستے کو تمام تخریبی ذرائع کا استعمال کرنے کا طریقہ سکھا رہا ہے اور اسے اسلام کی قوت کا نام دے رہا ہے۔۔۔۔
حکومت اور سماج سے جس ٹکراؤ اور جس تخریب کاری کی دعوت سید قطب نے دی ہے اس فتنے کا سر اتنا بڑا اور خطرناک ہے جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔۔۔۔
☀️آپ 110 سے لیکر 156 تک مطالعہ کریں دیکھیں گے کہ کس طرح سید قطب کے دل میں چھپی ہوئی بغاوت جوش مار رہی ہے جو ہر خالی الذہن قاری کے جذبات کو بغیر بھڑکائے نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ اور کاتب ایسی میٹھی اور دلکش زبان سے قاری کو اپنی طرف مائل کرتا ہے کہ اپنے خیالی فتنے کی طرف ایک نہ ایک دن ضرور لے آئے گا۔۔۔
ص 206 پر لکھتے ہیں:
"سنكون صرحاء معهم غاية الصراحة : هذه الجاهلية التي أنتم فيها نجس والله يريد أن يطهركم ، هذه الأوضاع التي أنتم فيها خبث، الله يريد أن يطيبكم، هذه الحياة التي تحيونها دون والله يريد أن يرفعكم ، هذا الذي أنتم فيه شقوة وبؤس ونكد والله يريد أن يخفف عنكم ويرحمكم ويسعدكم، الإسلام سيغير تصوراتكم وأوضاعكم وقيمكم ، وسيرفعكم إلى حياة أخرى تنكرون معها هذه الحياة التي تعيشونها ... إلخ".
ہم پوری صراحت سے یہ کہہ دینا چاہتے ہیں کہ تم جس جاہلیت میں جی رہے ہو یہ مکمل نجس اور پلید ہے اللہ اسے پاک کرنا چاہتا ہے۔ اور جن حالات میں تم جی رہے ہو یہ پورے کا پورا گندہ اور خبیث ہے اللہ اسے صاف وپاک بنانا چاہتا ہے۔ یہ زندگی جو تم گزار رہے ہو پوری کی پوری گھٹیا ہے اللہ اسے اوپر اٹھانا چاہتا ہے۔ یہ پورا ماحول جسے تم برداشت کر رہے ہو پورا کا پورا بد بخت، منحوس اور تنگ ہے اللہ اسے ہلکا کر کے اور تم پر رحم کر کے تمہیں نیک بخت اور خوشحال بنانا چاہتا ہے۔۔ اسلام تمہارے تصورات تمہارے حالات اور تمہاری قدروں کو بدل دے گا اور ایسی زندگی عطا کرے گا جسے پاکر تم اس گندی زندگی کو بھول جاؤ گے۔۔۔
👈سید قطب نے بار بار ایسے ہی دھوکے اور فریب سے بھرے جملوں کا استعمال کیا ہے تاکہ بھولے عوام اور جذباتی نوجوان اس کے جال میں پھنس جائیں۔۔۔ اور نتیجتا خود اپنی اور دوسروں کی زندگی تباہ کرنے کا باعث بنیں۔۔۔
☀️ہمیشہ سے سماج میں ایسے جذباتی افراد رہے ہیں جو اس طرح کی شیطانی باتوں میں پھستے رہے ہیں۔ اور یہ سید قطب کا بعینہ وہی ابلیسی حیلہ ہے جو اس نے آدم اور حوا علیھما السلام کو دیا تھا کہ میری باتوں پر عمل کرو گے تو ہمیشہ کیلئے جنت میں رہو گے۔۔ لیکن عمل کرنے پر ان کا کیا انجام ہوا اس سے ہر کوئی واقف ہے۔۔ پوری تفصیل سورہ اعراف آیات 20- 22 میں دیکھ سکتے ہیں:
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ۔ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ۔
☀️اسی طرح ابلیس نے قریش والوں کو مدد کا دھوکہ دیکر بدر کے میدان میں لایا تھا اور میدان میں پہونچا کر بھاگ لیا۔ پورا واقعہ سورہ انفال آیت نمبر 48 میں دیکھ سکتے ہیں:
((وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ))
بالکل اسی ابلیسی منہج کو اختیار کر کے سید قطب نے بھولی عوام اور جذباتی نوجوانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔
☀️اس ابلیسی منہج کو ترتیب دیتے وقت لگتا ہے موصوف اسلامی سماج کے تئیں حد درجہ بد شگونی، نحوست، مایوسی، تنگ نظری، انقباض اور تاریک قلبی کا شکار تھے۔۔۔ اسی لئے قاری کے سامنے ایک تاریک اور جاہلی معاشرے کا نقشہ کھینچا ہے اور پھر اس تاریک معاشرے سے ایک باغی گروہ نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے عقل کے گھوڑے دوڑائے ہیں۔
☀️سید قطب نے دین کے نام پر بغاوت خروج فساد، معصوموں کا ناحق خون بہانے سماج کو دہشت میں مبتلا کرنے امن وامان کو غارت کرنے جیسے بہت سارے غیر انسانی غیر اخلاقی اور غیر دینی حرکات شنیعہ کے ارتکاب کو جائز ٹھہرا دیا ہے جس سے عالم اسلامی میں ایسے فتنوں کے ابھرنے کا خطرہ ہے جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکے گا۔۔۔
☀️اور حقیقت میں بروقت اسی کتاب کا اثر ہے جو کچھ عالم اسلامی کے اندر ہو رہا ہے۔۔۔ اسی کتاب کی چنگاری ہے جسے لیکر خوارج زمانہ عالم اسلامی میں پھیلا رہے ہیں۔۔ اور وہ بھی دین شریعت اور اصلاح کے نام پر۔۔۔
🕵️♀️اس بات کی تصدیق خوارج زمانہ کا بروقت امام ایمن الظواہری نے کر دی ہے۔ اس نے صاف صاف کہا ہے: " إن سيد قطب هو الذي وضع دستور "الجهاديين " في كتابه الديناميت : ( معالم في الطريق ) ، وأن سيداً هو مصدر الإحياء الأصولي!!، وأن كتابه " العدالة الاجتماعية في الإسلام "، يُعد أهم إنتاج عقلي وفكري للتيارات الأصولية !، وإن فكره كان شرارة البدء في إشعال الثورة الإسلامية ضد أعداء الإسلام في الداخل والخارج، والتي ما زالت فصولها الدامية تتجدد يوماً بعد يوم (3)".
(3): جريدة " الشرق الأوسط " عدد 8407 ــــــ في عام 19 / 9 / 1422
اس ویب سائٹ پر تفصل دیکھ سکتے ہیں:
http://archive.aawsat.com/details.asp?section=20&article=801682&issueno=13194#.W8NQnnPhV-E
👈آج علماء کرام پر واجب ہے کہ ان قطبی تخریبی اہداف سے عوام کو آگاہ کریں اور امت مسلمہ کو فتنہ وفساد کی آگ میں مزید جھلسنے سے بچائیں۔
اللہ ہم سب کو دین کے احکام پر عمل کرنے اور باطل وفاسد افکار و نظریات سے بچنے اور دوسروں کو ان سے آگاہ کرنے کی توفیق بخشے۔۔۔
✔اس کتاب کے تخریبی پہلوؤں سے مزید آگاہی کیلئے درج ذیل مراجع کا مطالعہ کر سکتے ہیں:
1- مجلة "الثقافة الإسلامية" العدد الثامن لسنة 23 في شعبان سنة 1385 هـ – 24 نوفمبر سنة 1965م، 2- کتاب تنبيه الغافلين بحقيقة الإخوان المسلمين لمحمود لطفي عامر ـ هداه الله ـ
👈نوٹ: یہ مضمون در اصل کچھ معمولی تصرف کے ساتھ اس مضمون کا ترجمہ ہے:
http://elmanhag.blogspot.com/2013/11/blog-post_15.html?m=1
فیس بک پر بھی دیکھیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق