💥کیا شیخ محمد بن عبد الوہاب نے ترکوں کے خلاف خروج کیا تھا؟💥
چوں کہ یہ تحریکی خروج کے قائل ہیں۔ چنانچہ جب ان پر نکیر کی جاتی ہے تو یہ شیخ کا حوالہ دیتے ہیں۔ اور اس موضوع پر غلط سلط خامہ فرسائی بھی کر کے سلفیوں کے بیچ بد گمانیاں پھیلاتے ہیں۔
ابھی اسی موضوع پر ایک صاحب نے لکھا ہے جس جواب ضروری تھا۔ اس کا مضمون یہ ہے:
(آپ کے اس مضمون پہ میں ڈسکشن آگے بڑھاتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ بغاوت بھلے ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، پر مسلم تاریخ تقریبا بغاوتوں سے بھری ہوئی ہے، اگر بنو عباسیہ بنو امیہ سے بغاوت نہ کرتے تو اتنی شاندار *عباسیہ خلافت* وجود میں نہ آتی، اور اگر عباسیہ خلافت سے امراء و سلاطین بغاوت نہ کرتے تو *بنو بویہ، سلاجقہ، مغلیہ* و دیگر حکومتیں و سلطنتیں عروج میں نہ آتیں، پھر اگر موجودہ دور میں عثمانیہ سلطنت سے بغاوت نہ ہوتی تو دنیا کے نقشے پہ ستاون اسلامی ممالک وجود میں نہ آتے.
کسی اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنا کب جائز ہوتا ہے..؟؟
محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے امیر درعیہ کے ساتھ مل کے جو عثمانیہ سلطنت سے بغاوت کی تھی کیا وہ صحیح تھی..؟؟
موجودہ حالات میں سلفی علماء اطاعت امیر و اولی الامر کی اتنی جو باتیں کرتے ہیں کیا یہی علماء اگر اس دور میں ہوتے تو محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا ساتھ دیتے یا یہ کہہ کے خاموش رہ جاتے کہ *امیر کی اطاعت سے روگردانی جائز نہیں*، اور ساتھ دینے سے انکار دیتے.
موجودہ دور کی جو عرب حکومتیں ہیں ان کے خلاف بغاوت کب کیا جا سکتا ہے، کیا وہ اور ان کی فیملی کے لوگ حکومت کرنے کا پروانہ جنت سے لیکے آئے ہیں یا قرون وسطی کی طرح کوئی بھی ان سے طاقتور جماعت/قبیلہ/یا قوم ان سے چھین سکتا ہے..؟؟؟)
___________________________________________
تحریکیوں کے اس شبہے کا تسلی بخش جواب علامہ ربیع ہادی مدخلی وغیرہ نے دی ھے جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے:
1- تیسری صدی ہجری کے بعد نجد کے علاقے پر کسی باہری حکومت کا قبضہ نہیں ہوا۔ وہاں کئی امارتیں قائم تھیں انہیں میں سے ایک امارت درعیہ بھی تھی جس کے امیر محمد بن سعود کے ساتھ مل کر آپ نے 1157 ھجری میں مشہور معاہدہ کیا تھا۔ ایسی صورت میں خروج اور بغاوت کی کوئی صورت ہی نہیں ہے۔
2- آپ کی کتابوں میں خروج وبغاوت کی بحثیں بھری پڑی ہیں جن سے خروج علی الائمہ کے تعلق سے آپ کے عقیدے کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اور ان کا خلاصہ یہی ہے کہ آپ اس کے بالکل قائل نہیں تھے بلکہ اسے حرام سمجھتے تھے جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔ اور آپ کے فتاوے بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں۔
3- ویسے بھی آپ کی دعوت اصلاحی تھی جسے امیر درعیہ نے ساتھ دیکر طاقت بخشی۔ آپ نے کسی خلافت، حکومت یا امارت کے خلاف کبھی محاذ آرائی نہیں کی۔ ہاں شرک وبدعت کے مٹانے میں جو روڑا بنتے تھے ان سے لڑائی کرنے میں امیر درعیہ کا ساتھ دیتے تھے کیونکہ آپ نے اس کا وعدہ کیا تھا۔
اسے تفصیل کے ساتھ درج ذیل ویب سائٹ پر ضرور پڑھیں:
(شبهة يرددها الحركيون وهي: أنهم يقولون أن الإمام المجدد محمد بن عبد الوهاب-رحمه الله-، قام بالخروج على الدولة العثمانية؟.)
الجواب: هذا لا يعرف التاريخ ولا يعرف الشرع. انظر هذا الموقع للتفصيل:
https://www.albaidha.net/vb/منتديات-البيضاء-العلمية/الـمـــنابـــر-الـعـلـمـيـــة/مـنـبـر-الـمـرأة-الـمسلـمـة/45092-الشيخ-المجدد-محمد-بن-عبد-الوهاب-رحمه-الله-و-الدولة-العثمانية
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1589869474459667&id=100003098884948
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق