الجمعة، 19 أكتوبر 2018

مالدیپ کا حالیہ بحران : ہندوستان کے لئے اہم کیوں؟!

💥مالدیپ کا حالیہ بحران
💥ہندوستان کے لئے اہم کیوں ؟
✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
-رواں مہینے فروری کے پہلے ہفتے کی ابتدا ہی سے مالدیپ کے بارے میں خبریں مسلسل آرہی ہیں ۔ ججوں کی گرفتاریاں، احتجاجات ، سابق جلا وطن صدر محمد نشید کی بیان بازیاں، متوقع بغاوت اور دوسرے ملکوں کی مداخلت کا مطالبہ اور حالیہ صدر کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی کا نافذ کرنا اور پھر عالمی پیمانے پر اس کی مذمت کرنا ۔ یہ اور اس طرح کی بہت ساری خبریں مالدیپ کے بارے میں روزآنہ آتی رہتی ہیں۔ لیکن اس ملک کی کیا حقیقت ہے ؟ دوسرے تمام ملکوں نیز پڑوسی ممالک کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت ہے ؟ خاص کر ہندوستان کیلئے یہ ملک کتنا زیادہ اہمیت کے حامل ہے؟ مالدیپ میں آزادی سے لیکر یعنی تقریبا پچاس سالوں کے اندر کئی مرتبہ بغاوت ہوچکی ہے لیکن قطر کے برخلاف یہاں تمام بغاوتیں ناکام رہی ہیں۔ ان بغاوتوں کی کیا حقیقت ہے؟ بہت سارے ممالک اس چھوٹے دیش کے اندر اتنی زیادہ دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟ یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جنہیں آئندہ سطور میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے: 
💥-مالدیپ ہندوستان سے سیدھے جنوب مغرب میں تقریبا آٹھ سو کلو میٹر دور بحر عرب میں واقع ایک مسلم ملک ہے۔ تقریبا بارہ سو چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ ان میں تقریبا دوسو جزیرے آباد ہیں۔ باقی جزیرے سیاحتی، اقتصادی اور دیگر دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ پورا رقبہ نوے ہزار کلو میٹر ہے البتہ آباد جزیروں کا رقبہ صرف دوسو آٹھانوے (298)مربع کلو میٹر ہے۔ سب سے بڑا جزیرہ راجدھانی مالے کا رقبہ صرف ساڑھے پانچ مربع کلو میٹرہے اورتقریبا ساڑھے تین لاکھ آبادی والے ملک میں اس کی ایک تہائی آبادی اسی جزیرے میں رہتی ہے۔ مالے اپنی خوبصورتی، رنگ برنگے محلوں اور کثرت مساجد کی وجہ سے مسلم دیشوں میں ایک بہت ہی مشہور مسلم آبادی والا شہر ہے۔ 
💥- یہ ملک آبادی میں قطر کے مقابلے تقریبا چھ گنا چھوٹا ہے اور رقبے میں تقریبا چار گنا چھوٹا ہے۔ بحر عرب میں واقع ہونے ، پوری آبادی کا سنی مسلمان ہونے نیز وہاں کی اکثریت کا عربی زبان سے وابستہ ہونے ہی کی وجہ سے حال میں اس ملک کو جامعة الدول العربیة میں شامل ہونے اور اس اتحاد سے ایران کو نکالنے کا مطالبہ بڑھ رہا ہے۔ 
-مالدیپ زمانے سے برطانیہ کا ایک نوآبادیاتی صوبہ رہا ہے ۔ 1965 میں آزادی حاصل کی ہے۔ تب سے وہاں صدارتی نظام لاگو ہے ۔ 2008 میں ملک کے اندر نیا دستور مرتب کیا گیا ہے ۔ دستور کے مطابق ہراصلی باشندے کا سنی مسلمان ہونا ضروری ہے۔ شیعہ روافض کے لئے اس دیش میں کوئی جگہ نہیں ہے۔تحریکی بھی دور بیٹھے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ماضی قریب میں ایران سے گرچہ سفارتی تعلقات کسی حد تک استوار تھے لیکن 2016 میں سعودی کے ساتھ مالدیپ نے وہ سفارتی تعلقات بھی ختم کر لئے۔ 
💥-2016 ہی میں قطر کی شرارت کی وجہ سے اس سے بھی مالدیپ کے تعلقات کافی بگڑ گئے تھے ۔چنانچہ گزشتہ سال سعودی اتحادیوں کے ساتھ مالدیپ نے بھی قطر سے مکمل طور پر تمام تعلقات ختم کر لئے ہیں ۔ اس چھوٹے سے دیش کے قطر سے تعلقات ختم کرنے پر اس کا بہت مذاق اڑایا گیا ۔ خصوصا الجزیرہ ٹی وی چینل نے اور دیگر سوشل میڈیا میں بھی بڑے ہی بھونڈے انداز میں اسے ہدف طعن وتشنیع بنایا گیا ۔ آخر قطر سے اس چھوٹے دیش نے اپنے تعلقات کیوں توڑے ؟ کیا اس میں سعودی عرب کا ہاتھ تھا یا اسکے پیچھے کچھ اور اسباب وعوامل تھے یہ ایک الگ خاصا دلچسپ موضوع ہے جسے الگ سے کبھی لکھا جائے گا ۔ ان شاءاللہ
💥- موجود ہ وقت میں مالدیپ کے اندر صوفی لبرل علمانی اسلام اور سلفی سنی خالص اسلام کی ایک طرح سے جنگ برپا ہے ۔ پہلے کا چہرہ سابق جلا وطن صدر محمد نشید ہیں اور دوسرے کا چہرہ حالیہ صدر عبد اللہ یمین ہیں۔ پہلے کے طرفدار سیاسی پیمانے پر اس وقت اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور امریکہ سے لیکر ایران ، قطر، ترکی ، ہندوستان ، سری لنکا اور تمام مغرب اور مغرب پرست ممالک ہیں۔ جبکہ دوسرے کے طرفدار سعودی اتحاد کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک پاکستان اور چین بھی ہیں۔ 
💥- سعودی عرب کا مالدیپ میں کس نوعیت کا اثر ہے؟ وہ اس دیش میں کس حد تک دخیل ہے؟ اقتصادی پیمانے سے لیکر دینی ناحیے تک سعودی عرب کا اس دیش میں کتنا رول رہا ہے؟ رفض وتشیع ، تصوف وشرک کے خاتمے سے لیکر اس دیش میں اہل سنت کے منہج اور سلفی فکر کو رواج دینے میں نیز دعوت الی اللہ کے میدان میں اور مساجد ومدارس کی تعمیر اور تعلیم وتربیت کے میدان میں اسکے کتنے مساعی جمیلہ اور نمایاں جہود رہے ہیں؟ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں مالدیپ کے اندر سعودی عرب اور سلفیت کو وہابیت کے نام پر کس قدر بدنام کیا جارہا ہے؟ جمہوریت اور سیکولر ازم کے نام پر وہاں کے منضبط اور اسلام پر مبنی دستور کو ختم کرنے کیلئے سلفی دشمن ممالک لبرل مغرب پرست سابق صدر محمد نشید کو استعمال کرکے کس قدر گھناونے کھیل کھیل رہے ہیں ؟ بلکہ وہاں کے سپریم کورٹ کے ججوں تک کو استعمال کرکے ملک میں حالیہ حکومت کا تختہ پلٹنے کا پلان بھی کیا جاچکا تھاتاکہ کسی بھی طرح سلفیت کا بیڑہ غرق کرکے وہاں بھی کسی طرح جمہوریت اور سیکولرازم کے نام پر صوفی لبرل علمانی اسلام کا ورزن پھیلا دیا جائے۔ لیکن حالیہ صدر عبد اللہ یمین کی دانشمندی اور سیاسی ودینی سوجھ بوجھ اور اعلی سطح کی حکمت عملی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ملک میں ایمر جنسی نافذکردی اورگہرائی سے صورت حال کا جائزہ لینے کے بعدسعودی عرب، پاکستان اور چین کی طرف اپنے تین محمد نامی سفیروں کو بھیج کر سیاسی اور عسکری مدد مانگ کر ان تمام دشمنان سلفیت کے پلان کو خاک میں ملا دیا (یہ تینوں کابینہ وزراء ہیں جنہیں  7/فروری کو بھیجا گیا تھا۔ وزیر تجارت محمد سعید کو چین، وزیر خارجہ محمد عاصم کو پاکستان اور وزیر زراعت محمد شائنی کو سعودی عرب۔)۔ یہ پوائنٹ بھی ایک اہم اور دل چسپ موضوع ہے جس پر کسی وقت تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔ 
💥- ابھی سر دست صرف اس اہم نقطے پر دھیان دینا ہے کہ وطن عزیز ہندوستان کیلئے مالدیپ کس قدر اہمیت رکھتا ہے؟ سیاسی ، اقتصادی اور عسکری پیمانے پر یہ ملک بڑے ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ساتھ امریکہ ، برطانیہ ، سعودی عرب اور چین سب مذکورہ تینوں سطحوں پر اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کیلئے مالدیپ کو اپنا ہر تعاون پیش کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ خاص طور سے اقتصادی اور عسکری پیمانے پر چین اور ہندوستان ایک طرح سے دوڑ اور مسابقے کی پوزیشن میں ہیں ۔ 
- ماضی میں گرچہ کئی بغاوتوں میں ہندوستان نے اہم رول ادا کیا ہے خصوصا 1988 کی بغاوت میں اس وقت کے صدر مامون عبد القیوم کی دعوت پر راجیو گاندھی نے کیکٹس آپریشن (Operation Cactus)کے نام سے عسکری مداخلت کرکے بڑی پزیرائی حاصل کی تھی۔ لیکن حالیہ متوقع بغاوت میں صورت حال یکسر مختلف تھی ۔ ایک جلا وطن سابق صدر کی مانگ پر کئی ایک ملک خیر خواہ بننے کی کوشش میں تھے جو کسی طور پر جائز نہیں تھا۔ بی بی سی اردو اور ہندی کی خبریں ہوں یا وطن عزیز کے مشہور اخبارات ہوں خصوصا سب سے زیادہ سرکولیشن والا اخبار ٹائمز آف انڈیا کے حالیہ شمارے ہوں ۔ جاری فروری کے مہینے میں روزآنہ مالدیپ کے بارے میں کئی کئی خبریں شائع ہورہی ہیں جنہیں مسائل کو بھڑکانے اور افواہ سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ 
- محمد نشید کے مطالبے کو پورا کرنے کیلئے سوشل میڈیا اور اخبارات میں مودی سرکار کو لاکھ ابھارا گیا اور راجیو گاندھی کا حوالہ دیکر بہت عار دلایا گیا لیکن حالیہ سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ نشید کے مطالبے میں کوئی دم نہیں ہے اور نہ ہی اسے کوئی قانونی جواز حاصل ہے اور ساتھ ہی بحر عرب میں چین کی بالادستی بھی اس کے لئے بہت بڑی رکاوٹ تھی جو بعد میں اس وقت بالکل واضح ہوگئی جب چین نے یہ اعلان کردیا کہ مالدیپ میں کسی بھی ملک کی طرف سے مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ 
💥- بحر عرب میں پچھلے کچھ سالوں سے چین کی بالادستی کچھ زیادہ ہی مضبوط ہوتی جارہی ہے خصوصا اس وقت جب عرب اور افریقہ کے کچھ دیشوں نے چین کو بحری قزاقوں سے لڑنے اور انہیں ختم کرنے کیلئے دعوت دیا ، خلیجی ممالک خصوصا سعودی عرب میں اقتصادی اور عسکری سیکٹرز میں چین کا اثر ورسوخ بڑھنے لگا، سی پیک (China–Pakistan Economic Corridor) معاہدے کے ذریعے پاکستان کے گوادر بندرگاہ سے لیکر اپنے شہر کاشغر تک چین نے بہت بڑی راہداری بنانے پر عمل کرنا شروع کیااور مالدیپ کے اندر کئی خالی جزیروں کو خرید کر انہیں عسکری مقاصد کیلئے استعمال کرناشروع کیا ہے۔ اور خاص طور سے گزشتہ سال چین نے مالدیپ کوبھی اپنے بہت ہی اہم عالمی پروجیکٹ بحری سلک راہداری (the Maritme Silk Road) میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اور اسی بنیاد پر چین نے مالدیپ کا کافی تعاون کیا ہے اور ساتھ ہی آزاد تجارتی معاہدہ (Free Trade Agreement)پر اگریمنٹ بھی کیا ہے۔ 
(www.thediplomat.com/2018/01/the-china-maldives-connection/)
- ہندوستان کو اس وقت اور ایک بہت بڑا جھٹکا لگا جب مالدیپ نے گزشتہ سال ایک اہم جزیرے پر انٹر نیشنل ایئر پورٹ بنانے کے پروجیکٹ پر کام کرنے والی ہندوستانی کمپنی کا ٹھیکہ رد کرکے سعودی کمپنی بن لادن گروپ کے حوالے کردیا۔ 
- ان سب کے باوجود ہندوستان کی پہلی کوشش یہی رہے گی کہ وہ مالدیپ میں محمد نشید جیسے لبرل رہنماؤں کی سربراہی میں چین اور سعودی مخالف حکومت بحال کروائے بصورت دیگر ہر ممکن کوشش یہی رہے گی کہ ہندوستان اپنی طرف سے مالدیپ کے تئیں ہمیشہ نرم پہلو اپنائے اور اسکی ہر طرح سے مدد کیلئے تیار رہے اور کسی صورت میں بھی اس سے کسی پیمانے پر دشمنی مول نہ لے کیونکہ یہ قیمتی مونگوں والے جزیروں (Coral Islands)پر مشتمل ملک ہندوستان کیلئے عالمی سیاست اور عسکری میدان میں بڑی اہمیت کے حامل ہے ۔ 
💥- ٹائمز آف انڈیا نے 7/ فروری کے اپنے شمارے میں یہ ہیڈنگ (10 reasons why Maldives is important for India) قائم کرکے دس ایسے وجوہات گنائے ہیں جن کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر حال میں مالدیپ ہندوستان کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ہمیشہ اہم رہے گا۔ ذیل میں اسکا خلاصہ پیش خدمت ہے: 
1- بحر اعظم ہند میں واقع ہونے کی وجہ سے مالدیپ توانائی کے میدان میں ایک بہت ہی محفوظ ملک ہے۔ جنوب ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کیلئے ایک اہم بحری راستے (Key Shipping Lanes) کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
2- تقریبا دس سال پہلے جب سے بحری قزاقی کے خلاف کارروائی (Antipiracy Operations) کے نام پر چین اپنے بحری جہازوں (Naval Ships)کے ساتھ خلیج عدن اور بحر عرب میں  آیا ہے اس وقت سے عالمی جغرافیائی سیاست (International Geopolitics) کے اعتبار سے مالدیپ نے ایک بہت ہی اہم تزویری مقام (strategic point) حاصل کر لیا ہے۔
3- جنوبی ایشیا میں ہندوستان کو ایک نمایاں اور ممتاز پاور فل(Pre-eminent South Asian Power) ملک بننے اور بحر اعظم ہند میں امن وسلامتی کا ضامن (Net Security Provider)ہونے کیلئے دفاعی میدان(Defence Sectors) میں مالدیپ کی شدید ضرورت ہے۔
 ویسے اس وقت عالمی پیمانے پر یا علاقائی پیمانے پر امن وسلامتی کا ضامن ملک بننا ہر ایک کیلئے آسان کام نہیں ہے۔ اسکے لئے کچھ معیار اور اہداف ہیں جنہیں بغیر پورا کئے اس بات کا دعوی کرنا فضول ہے۔ اس کی تفصیل (academy.gktoday.in) کے ویب سائٹ پر اس عنوان (Net Security Provider: Concept, India's Potential in Indian Ocean Region)سے موجود ہے جسے نیٹ پر جاکر دیکھا جاسکتا ہے۔ 
4- مالدیپ میں چین کی بڑے پیمانے پر اقتصادی موجودگی (massive economic presence) بھارت کیلئے بڑی تشویش کی بات ہے۔ بیرونی امداد (external aid) کا ستر فیصد صرف چین سہارا دے رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے آپ کو اب تک پیچھے ہٹا کر رکھا تھا لیکن حالیہ سیاسی بحران (current political crisis) نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ بھارت بھی خطے میں اپنا قائدانہ رول ادا کرے۔ 
5- مالدیپ کے اندر اپوزیشن پارٹیوں نے خصوصا محمد نشید کی (مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی) ایم ڈی پی نے حالیہ صدر عبد اللہ یمین کی سرکار کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چنانچہ یہ بھارت کیلئے مالدیپ میں مداخلت کرنے اور ایک بار پھر وہاں کے سیاسی بحران کو ختم کرنے میں قائدانہ رول ادا کرنے کاایک بہترین اور سنہری موقع ہے۔ (لیکن چین کی حالیہ دھمکی کے بعد بھارت خاموش ہوگیا ہے) 
6-مالدیپ بھی سارک تنظیم (South Asian Association for Regional Cooperation) کا ایک ممبرہے۔ اڑی حملے کے بعد گزشتہ سال پاکستان میں منعقد ہونے والے سارک اجلاس(Saarc Summit) کا بھارت نے جس طرح بائیکاٹ کیا اور خطے کے دوسرے ممالک نے بھی بھارت کا ساتھ دیا وہیں دوسری طرف مالدیپ نے بھارت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا گرچہ بعد میں تنہا ہوجانے کی وجہ سے بھارت کا ساتھ دیا۔ لہذا ہر صورت میں خطے کے اندر اپنی قیادت کو باقی رکھنے کیلئے مالدیپ کو اپنے ساتھ رکھنا بہت ضروری ہے۔
7- حالیہ صدر عبد اللہ یمین کے دور حکومت میں مالدیپ کے اندر بنیاد پرستی(Radicalisation) حد سے زیادہ بڑھی ہے۔ چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ملک شام کے اندر مالدیپی جنگوؤوں کی تعداد حالیہ برسوں کے اندر پہلے کے مقابلے کافی بڑھ چکی ہے جس پر حکومت نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ کیا بھارت ایک ایسے پڑوسی ملک کو برداشت کرسکتا ہے جو اسلامی بنیاد پرستی سے نپٹنے میں ناکام ہو رہا ہو۔ (سلفی منہج پر مبنی اسلام کے چہرے کو بدنام کرنے کیلئے مغرب پرست میڈیا کا یہ بہت مشہور ہتھیار ہے کہ کبھی بنیاد پرست یا ریڈیکل، کبھی تشدد پسند ، کبھی قدامت پسنداور وہابی ازم وغیرہ ناموں کا استعمال کرکے اسے بدنام کرتا ہے لیکن اللہ تعالی کی مہربانی کے بعد سعودی عرب کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مالدیپ کے اندر سلفی دشمنوں کے تمام پروپیگنڈے اور ہتھکنڈے فیل ہورہے ہیں)۔
8-بھارت اور مالدیپ دونوں ایک دوسرے کیلئے نسلی، لسانی، ثقافتی، مذہبی اور تجارتی روابط کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ1965 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت نے سب سے پہلے اسے ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا اور 1972 میں وہاں کی راجدھانی مالے میں اپنے مشن کو قائم کرلیا۔ 
9۔ پچیس ہزار(25000) ہندوستانی باشندے مالدیپ میں رہتے ہیں جو کہ خارجی باشندوں کے اندر اپنے آپ میں ایک بہت بڑی تعداد ہے۔بیرونی ممالک سے آنے والے سیاحوں میں ہر سال ہندوستانی سیاح ملک کا چھ فیصد (%6) حصہ بنتے ہیں جوکہ کسی بھی اجنبی ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
10- مالدیپ کیلئے دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان بھی تعلیم، طبی علاج ومعالجہ ، سیرو تفریح اور تجارتی کاروبار کے میدان میں ایک پسندیدہ ملک ہمیشہ سے رہا ہے۔(MEA) ذرائع کے مطابق مالدیپی باشندے ہندوستان میں اعلی تعلیم اور بہتر علاج ومعالجے کیلئے طویل مدتی ویزے(long term visa) کی تلاش میں ہمیشہ رہتے ہیں۔ 
💥- یہ وہ دس عوامل واسباب ہیں جن کی بنیاد پر ہندوستان کیلئے مالدیپ کی بڑی اہمیت ہے۔ چنانچہ انہیں وجوہات کی بنیاد پر ہندوستان کسی طور پر چین سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ اسی لئے ٹائمز آف انڈیا ہی نے اپنے 12/ فروری کے شمارے میں ذکر کیا ہے کہ چین اور ہندوستان میں سے ہر ایک خطے میں اسٹراٹیجک تسلط کو منوانے کی خاطر مالدیپ کے اندر اپنے اثر ورسوخ کو بڑھانے کیلئے کوشش میں لگا ہے۔ 
-اخبار آگے ہندوستان کی ناکامی کو چھپانے کی خاطر مالدیپ سرکار پر الزام لگاتے ہوئے لکھتا ہے کہ عبد اللہ یمین ملک پر اپنی پکڑ کو مضبوط بنانے کی خاطر اپوزیشن لیڈروں کو جیل بھیج کر یا جلاوطن کرکے سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب کردینا چاہتے ہیں۔ اس حکومت میں آزادی اظہار کی رائے پر بالکل پابندی ہے۔ سوشل میڈیا اور صحافت پر کڑی نگرانی ہے۔ کسی بھی تبصرے یا تنقید پر حکومت کسی کو نہیں بخشتی ہے۔ (یہ سب فقط الزام ہے کیونکہ صحیح معنوں میں ایک مسلم دیش جمہوریت کے نام پر اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑانے اور آزادی کے نام پر الحاد پھیلانے کو برداشت نہیں کرے گا) ۔ 
-اخبار نقد کرتے ہوئے لکھا ہے (جبکہ وہ اپنے آپ میں قانونی اعتبار سے باکل صحیح ہے)، عبارت کچھ یوں ہے: 
''We note that China has said that Maldives Government has the ability to protect the security of Chinese personnel and institutions in Maldives. We hope that all countries can play a constructive role in Maldives, instead of doing the opposite''.
ترجمہ: ہمیں یہ خیال رہے کہ چین نے یہ بات کہہ دی ہے کہ مالدیپ سرکار کے پاس یہ صلاحیت اور قدرت ہے کہ مالدیپ کے اندر چینی اہل کاروں اور اداروں کی حفاظت خود کرسکے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ تمام ممالک مالدیپ کے خلاف کچھ بھی نہ سوچ کر اس کے حق میں تعمیری کردار ادا کریں گے۔
-اخبارنے مزید آگے چل کربحر اعظم ہند کے اسٹراٹیجک معاملات(Indian Ocean Strategic Affairs) کے آسٹریلوی ماہر اور نیشنل سیکوریٹی کالج کے پروفیسر ڈیوڈ بری وسٹر(David Brewster) کا قول نقل کیا ہے جنہوں نے شاید حالیہ صورت حال کا بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے ۔میں اس مضمون کو اسی تجزیے پر ختم کروں گا۔ ان کی عبارت کچھ اسطرح ہے: 
India is in a very difficult position, It would like to see Yameen replaced, but it is not sure how to do that. India's primary concern is not to restore democracy, but rather to reduce China's influence in the country.
ترجمہ:اس وقت بھارت ایک بہت ہی مشکل پوزیشن میں ہے، یہ حالیہ صدر عبد اللہ یمین کو ہٹانا چاہتا ہے لیکن اسے اس بات کا یقین نہیں کہ اسے کیسے کریں۔ بھارت کی اہم چنتا اور بنیادی مقصد جمہوریت کی بحالی نہیں بلکہ وہاں سے چین کے اثرورسوخ کو کم کرنا ہے۔ وأنی لہ ذلک۔ 
http://aakashtimes.com/2018/02/15/مالدیپ-کا-حالیہ-بحران-ہندوستان-کے-لئے-ا/

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1564627286983886&id=100003098884948

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...