الخميس، 18 أكتوبر 2018

دیوالی اور آج کا سیکولر مسلمان!

! ديوالى اور آج كا سيكولر مسلمان
د. اجمل  منظور 
اسلام ضرور ایک عالمگیر، روادار، کشادہ دل اور انسانیت کے نام بڑا ہمدرد مذہب ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے اندر دین کے نام پر کوئی سمجھوتہ بھی نہیں ہے۔ اس وقت جو كچھ روادارى كے نام پر كيا جارہا ہے  وہ سب سمجھوتے کی مثالیں ہیں۔ کفار کے بیچ میں رہ کر مجبوری میں(اھون البلیتین) کے تحت بہت کچھ برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بھی كچھ خاص  استثنائى احکام ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خوش دلی سے رواداری کے نام پر دین سے سمجھوتہ کر لیا جائے۔ 
يقيناً  ہندوستان كے اندر موجوده صورتِ حال كو مسلمانوں كى مكى زندگى سے مثال دے سكتے ہيں. ليكن كيا اُس وقت مسلمانوں نے روادارى اور سد بهاؤنا كے نام پر اپنے دين سے كسى صورت ميں بهى كچھ تنازل اختيار كيا ؟ كيا انہوں نے كسى طور پر اس طرح كى وسعت قلبى كا مظاہره كيا جس سے اسلام پر كچھ بهى دهبہ يا آنچ آسكے؟ ايك ساتھ ره كر ہم آہنگى كے ساتھ زندگى گزارنے كا مطلب كيا انہوں نے كبهى يہ سمجها كہ اس وقت كے مشركين كے ساتھ ان كے ميلے ٹهيلوں ميں ، ان كے تيوہاروں ميں، ان كے دينى رسم و رواج  يا كسى بهى طرح كى دينى خوشيوں ميں  كسى طرح كى بهى شركت كى جائے؟
مشركين وكافرين كے بيچ ميں ره كر مجبورى ميں انہوں نے ہر طرح كى تكليفيں جهيليں ، تمام قسم كى مصيبتوں كا سامنا  كر ليا ليكن دين كے نام پر ذره بر ابر بهى تنازل اختيار نہيں كيا۔ پتهر كهاتے رہے اور احد احد كہتے رہے۔ تير كهاتے رہے اور فزت ورب الكعبہ كا ورد كر تے رہے۔ جب بهى كبهى آپ نے كافروں اور مشركوں كے تئيں نرم رويہ اختيار كيا فوراً الہى تنبيہ آگئى: ايك پكے سچے مومن سے رخ پهير كر مشركين مكہ سے محو گفتگو ہوئے ہى تهے كہ رب ذو الجلال كى طرف سے جبريل عليہ السلام يہ آيت ليكر پہونچ گئے: عبس وتولى أن جاءه الأعمى..... أما من استغنى فأنت لہ تصدى۔ تاكہ آپ كے دل ميں  مشركين كيلئے نرمى كا  كوئى بهى گوشہ  باقى نہ رہے الله تعالى نے آپ كى بڑى سخت تنبيہ فرمائى اور اسكے لئے  يہ آيت كريمہ نازل فرمائى: (وَلَوْلا أَنْ ثَبَّتْناكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلاً * إِذاً لَأَذَقْناكَ ضِعْفَ الْحَياةِ وَضِعْفَ الْمَماتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنا نَصِيراً)۔ اور يہ كہہ كر : (فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ * وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ) مشركوں سے  دين كے نام پركسى بهى قسم كى روادارى ركهنے سے منع فرماديا۔ اسى لئے  جب مشركين مكہ نے دين كے نام پر آپ كو سمجهوتے كيلئے كہا ، قبل اس كے كہ آپ كا ميلان ادهر جاتا فوراً يہ آيت كريمہ نازل ہوئى: لكم دينكم ولي دين۔  
ليكن آج كا سيكولر مسلمان يعنى اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے وہ لوگ جو دوسرے باطل دھرموں کی طرف کچھ زیادہ ہی  لچکپن اور نرم رویہ رکھتے ہیں جس كى بنياد پر انکے دھارمک رسم ورواج اور عبادات تک میں کسی طور بھی شرکت کرنے كو وسعت قلبى كا نام ديتے ہيں اور اس سے ذرا بهى پس وپيش كرنے والوں كو تنگ نظر ، كٹر پنتھ، انتہا پسند، كنزر ويٹيو ، بنياد پرست اور نہ جانے كن كن القاب سے نوازتے ہيں۔ يقيناً ايسے لوگ دو حال سے خالی نہیں ہیں:
اول: وہ صرف نام کے مسلمان ہیں اور کام تکثیریت کے نام پر اکثریت کو خوش کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو پکا سیکولر ثابت کرنے کیلئے کبھی اسلام کے بعض احکام، شعائر اور مظاھر کا مذاق بھی اڑاتے رہتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض تو کبھی انٹر ریلیجن کے نام پر کافرہ عورت کو اس کے اپنے فل شرائط کے ساتھ اپنا رفیقۂ حیات بھی بنا لیتے ہیں۔ اور کچھ تو اس کافرہ کو خوش کرنے کیلئے گھر میں اس کی پسند کا مندر بھی بنا دیتے ہیں۔ اور یہ لوگ "اکبر" کو اپنا "امام اعظم" تصور کرتے ہیں۔ اور کچھ تو "انٹر فیتھ" اور "کو ایگزیسٹینس" کے نام پر بچوں کا نام غیر اسلامی رکھ کر نان مسلموں سے خوب واہ واہی بٹورتے ہیں۔ انہیں اس کا شعور بھی نہیں رہتا کہ وہ قوم رسول ہاشمی کی ترکیب کا ستییا ناس کر کے تابط شرا، شاب قرناھا اور جد ثدیاھا جیسی جاھلی ترکیب رکیک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ 
ان میں اکثر آپ ان  "سیلیبریٹیز " کا نام پائیں گے جو کھیل، فلم اور سیاست کی دنیا سے جڑے ہیں۔ 
دوم: یہ وہ سیکولر مسلمان ہیں جو احساس کمتری کا شکار ہیں۔ غیروں کا رعب اور کمزور ایمانی کا سایہ کبھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کبھی کبھی تو ایمان کا آخری درجہ بھی ان سے پناہ مانگنے لگتا ہے۔ کیوں کہ جب کبھی انہیں اپنی ایمانی قوت کے مظاہرے کا وقت پڑتا ے تو وہ آخری سیڑھی پر بھی اپنی بقا کو سیکولر ازم کے خلاف سمجھنے لگتے ہیں۔ اور (Intolerance عدم برداشت) کا خوف دلا کر (existenceCo  Peaceful- شانتى پورن سد بهاؤ)  کے نام پر صریح کفریہ وشرکیہ اعمال کو بھی ایک معمولی مری ہوئی مکھی کا چڑھاوا سمجھ کر اسے "تھس اپ کولڈ ڈرنک" کی طرح اپنے اسلام کا ہاضمہ تصور کرتے ہیں۔ سيموئيل ہنٹنگٹن كى طرح (cultural clash تہذيبوں كے تصادم)  اور (Discrimination بهيد بهاؤ اور امتيازى سلوك)  کا ہوا کھڑا کر کے اپنے ہم مذہبوں کو بھی دینی وسعت قلبی کی دعوت دینا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانكہ وه (Mutual Respect باہمى احترام)،  (Mutual Understanding باہمى افہام وتفہيم)، اور (Religious society- Multi كثير مذہبى سماج) کے نام پر اپنا سب کچھ لٹا چکے ہوتے ہیں پھر بھی انہیں سکینڈ بلکہ تھرڈ کلاس جیسے بدل سوء کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا۔ کیوں کہ  ہندوستان ميں صرف اسلامی نام ہی ( پچھڑا ہوا  او. بی. سی.)  بنا دئیے جانے کیلئے کافی ہے۔ 
میں نہیں سمجھتا کہ مغل سلاطین سے بھی زیادہ کوئی ہندوستان میں سیکولر رہا ہوگا۔ لیکن آج بھارت کے حکمرانِ وقت انہیں(Invader حملہ آور)، (Looter ڈاكو) اور (Traitorغدار) کے علاوہ کیا کیا نہيں كہہ رہے ہیں اور ان سے جڑی ملکی وتہذیبی وراثت کے ساتھ کیا کیا سلوک کر رہے ہیں یہ سب ہم سے زیادہ وسیع القلب سیکولر حضرات جانتے ہوں گے۔ نیز انہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ محض انسانی ہمدردی کے نام پر کسی اسلامی قضیے کی تائید کر دینے سے ایسے ہی وسیع القلب سیکولر لوگوں کو اکثر غدار وطن اور جلا وطن ہونے کا پروانہ دیا جاتا ہے۔ پھر بھی مساکین وقت اور اسلامی نما سیکولر ہوش کے ناخن نہیں لیتے۔  
ان میں اکثر آپ کو رافضی، تحریکی اور ان کے اذیال واذناب مل جائیں گے جو کبھی برادران وطن کے نام پر مندر صاف کرتے دکھائی دیں گے تو کچھ مندر کے نام پر تحفے تحائف دیتے نظر آئیں گے۔ تو انہیں میں سے کچھ اذناب گنگا جمنی تہذیب کے نام پر کبھی دیوالی کی مٹھائی کھاتے اور کبھی کافروں کے مذہبی رسومات میں شریک ہوتے نظر آئیں گے۔  یہ سیکولر حضرات اپنی وسیع سوچ وفکر کے اعتبار سے رواداری کے مختلف تجربات بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ نہیں جانتے کہ ایک پکا مومن بھی تکثیریت کے بیچ رہ کر پورے وقار، بھائی چارے اور تمام انسانی ہمدردیوں کے ساتھ اپنی مکمل اسلامی شناخت کو بچا کر جیتا ہے اور جیتا رہے گا۔ اس كے بہت سارے تجربات پيش كئے جاسكتے ہيں۔ 
سوال يہ ہے كہ صرف دیوالی کی مٹھائی کھانا اور اس  "شُبھ  اَوسر "  پر مبارک بادی دینا  ہی جائز کیوں؟ 
ساتھ ہی ہندو بھائی کا دل رکھنے کیلئے اگر اس کے ساتھ مندر جا کر تھوڑا  ہاتھ جوڑ کر مورتی کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔  یا " انٹر ریلیجن" کے نام پر کافرہ عورت سے شادى كركےاس کا دل رکھنے کیلئے اسی کے مذہب کے مطابق ذرا  سا   "سات پھیرا "لے لیا جائے۔ اور اسکی اور اسكےرشتے داروں کی خواہش پوری کرتے ہوئے اس کے لئے ذرا ایک چھوٹی سی مندر بنا دی جائے۔ یا سد بھاؤنا اور بھائی چارے کو قائم کرنے کیلئے  "مورتی وِسرجن " اور " گن پتی"  جیسے پروگراموں میں شرکت کر لیا جائے۔ تھوڑا شیعوں کے ماتم میں شرکت کر کے تبرا کر لیا جائے۔ مزاروں پہ جا کے ایک آدھ چادر کچھ عمدہ اورخوبصورت پھول چڑھا دیا جائے تو اس بے چارے مسلمان کا کیا بگڑ جائے گا؟  جبكہ حاليہ واقعات سے يہ معلوم ہے كہ بات ديوالى كى مٹهائى كهانے تك محدود نہيں ره گئى ہے، بلكہ اس دينى تيوہار ميں مسلمانوں كا شركت كرنا، مسلم عورتوں كا لچهمى ديوى كى آرتى اتارنا، يہاں تك كہ كلمہ گو مسلمانوں كا اپنے يہاں خوداس تيوہار كا منانا زور شور سے چل رہا ہے۔ چنانچہ دہلى كے اندر نظام الدين اولياء كے مزار پر بڑے ہى دهوم سے اسے سجاكر ہولى منائى گئى اور اسے ميڈيا ميں شان سے دكهايا بهى گيا، چنانچہ بى بى سى اردو نے  20/ اكتوبر 2017ء كى تاريخ ميں كئى تصويروں كے ساتھ اس شہ سرخى كے ساتھ پورى خبر نشر بهى كى:( نظام الدين اولياء كى درگاه پر ديوالى)۔ ايسے پس منظر ميں يہ سوال بے معنى ہے كہ ديوالى كى مٹھائى كهانا كيسا ہے؟ سوال يہ ہے كہ كيا رواداری کے نام پر یہ تمام چيزيں کرنا جائز ہے؟  
جب ايك ہندو مسلمانوں كے دينى مناسبتوں اور تيوہاروں ميں شركت نہيں كرتے ہيں؛ کیوں کہ وہ احساس کمتری اور سیکولرِ زائد کا شکار نہیں ہیں۔ نیز انہیں یہ احساس بھی ہو چلا ہے کہ مذہب پر سختی سے عمل پیرا ہونے ہی سے سماج کے اندر اپنی شناخت اور دھاک کو باقی رکھ سکتے ہیں۔ پهر آخر آج كا مسلمان  دوستى اور روادارى كے نام پر اتنا پريشان نظر كيوں آتا ہے ؟  حقيقت يہ ہے كہ يہ لوگ انحلال وانفتاح اور مذہبی کشادگی كا شكار ہيں،   اور ايسے لوگ دوسروں کے رحم وکرم کے سہارے ہمیشہ خوف ویاس کی حالت میں اپنی زندگی کے بے سود وزیاں لمحات کو گنا کرتے ہیں۔
بھارت کے اندر آزادی کے بعد خصوصا آج کے ماحول میں مسلمان کتنا بھی جھک جائیں ان کے ساتھ ثانوی درجے کا سلوک کرنے کیلئے صرف ان کا نام ہی کافی ہے۔  لہذا ایسی صورت میں کیا بہتر ہے: آیا دینی کشادگی کے چکر میں اپنے دین دنیا دونوں کو گنوا دیں یا دینی حمیت کے ساتھ رہ کر کم از کم اپنے ایمان و توحید کی حفاظت کر لیں۔ ساتھ ہی مکھی چڑھانے والا معمولی واقعہ بالکل نظر سے اوجھل نہ ہو جو صحیح حدیثوں میں مذکور ہے۔ 
سوشل ميڈيا پر ايك شخص نے اپنے تجربات كى روشنى ميں ايك سوال كركے  سارے سيكولر مسلمانوں كو سوچنے پر مجبور كرديا ہے ، چنانچہ وه لكهتا ہے:  (ميں نے ہندوؤں کے ساتھ کام کیا ہے اور عیسائیوں کے ساتھ بھی۔ جس قدر شدت کے ساتھ اپنی مذہبی اقدار کو فالو کرتے ہوئے وہ اپنے رہن سہن اور ماکولات و مشروبات اور بھگتی اور عبادات کرتے ہیں ان کے ساتھ اختلاط کے بعد ہی سمجھ آیا کہ اگر باطل پر ہوکر وہ ہمارے ساتھ نیوٹرل یا کنڈیشنل نہیں ہوتے اور ہم ان سب طرز تعامل کا یہ سوچ کر برا نہیں مانتے کہ ممکن ہے کہ یہ ان کی مذہبی گائیڈینس ہو اور ہمارے تعلقات جوں کہ توں استوار رہتے ہیں تو ہمیں فرنٹ فُٹ پر آکر کھیلنے کی بجائے ڈیفینسیو گیم کھیلنے پر کس نے مجبور کردیا ہے؟؟؟)
ميرا ماننا ہے كہ اسلام کا دفاع کرنے کیلئے الله تعالی ہمیشہ ایک جماعت  كو حق پر باقی رکھے گا جو بلا خوف وملامت منتحلین ومنحرفین اور ضالین ومضلین کے سامنے سینہ سپر رہیں گے۔  اور اسلام کی ایک ایک جوڑ کو کبھی بھی  كسى بهى صورت ميں مضمحل نہیں ہونے دیں گے۔ 
الله ہمیں پکا وسچا با عمل مسلمان بنائے۔ تواصی بالحق کی توفیق بخشے نیز اسلام کی سچی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ہمت عطا کرے۔ آمین

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

عوام وخواص میں تحریکی جراثیم

  عوام وخواص میں تحریکی جراثیم د/ اجمل منظور المدنی وکیل جامعہ التوحید ،بھیونڈی ممبئی اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جسے دیکر اللہ رب العالمی...